الحمد للہ، الحمد للہ وکفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفی
لاسیما علی سید الرسل و خاتم الانبیاء وعلی آلہ وصحبہ ومن بھدیھم اھتداہ اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَاللّٰهِ بِأَفْوَاھِھِمْ۔
وَاللّٰهُ مُتِمُّ نُوْرِهٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْن۔
صدق اللہ العظیم
جناب صدر محترم! حضرات علمائے کرام، مختلف سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کے عمائدین، بزرگان ملت، میرے دوستوں اور بھائیو! سب سے پہلے میں جمعیت علماء اسلام ضلع ایبٹ آباد کا تہہ دل سے ممنون ہوں کہ انہوں نے ناموس رسالت کے مقدس عنوان سے اس عظیم کانفرنس کے انعقاد کا اہتمام کیا اور میں دل کی گہرائیوں سے انہیں اس کامیاب کانفرنس کے انعقاد پر مبارکباد پیش کرتا ہوں اور آپ تمام حضرات کا شکرگزار ہوں کہ آپ نے اس اجتماع میں جو عظیم شرکت کی ہے اللہ رب العزت آپ کی اس یہاں شرکت کو قبول فرمائے اور اس سے ہم سب کی نجات کا سبب اور ذریعہ بنائے۔
میرے محترم دوستو! قیام پاکستان کے پون صدی گزر چکی ہے ہم نے اس وطن عزیز کے چوہتر سال مکمل کئیے ہیں اس کے باوجود جس مقصد کے لیے یہ ملک حاصل کیا گیا تھا، جن امیدوں اور آرزوؤں کے ساتھ اس وطن عزیز کے لیے قربانیاں دی گئیں تھیں اور ہمارے بزرگوں نے ایک کامیاب اور مطمئن زندگی کے خواب دیکھے تھے، آج پون صدی گزرنے کے بعد بھی وہ خواب تشنئہ تعبیر ہے اور قوم مضطرب ہے، جہاں قومیں ترقی کرتی ہیں، جہاں قومیں آگے بڑھتی ہے وہاں ہم پسپائی اختیار کررہے ہیں، جسے ترقی معکوس کہتے ہیں، اوپر کی طرف جانے کی بجائے ہم نیچے کی طرف لڑک رہے ہیں، ہمارے اکابرین نے پارلیمانی سیاست کے ذریعے سے آئین کو تشکیل دینے میں جو کامیابیاں حاصل کی تھی آج ان کامیابیوں کو ناکامیوں میں تبدیل کرنے کی منصوبہ بندی ہورہی ہے۔ ہم نے یہ ملک اگر بنایا تھا تو تین قسم کے تصورات موجود تھیں۔ لاالہ الااللہ کا نعرہ لگا کر ہم نے اپنے قوم کو یہ نظریہ دیا کہ یہ ملک اسلام کے لیے بنے گا اور یہاں اسلام کی حاکمیت ہوگی۔ انگریز سے آزادی حاصل کرنے کا مقصد یہی تھا کہ اب ہم غلام نہیں رہیں گے اور یہاں پر جمہوریت ہوگی اور جمہوری آزادی کے ماحول میں اپنے فیصلے خود کریں گے۔ ہندؤں سے الگ ہونے کا فلسفہ یہ بتایا گیا کہ ہماری معیشت آزاد ہوگی اور ہم اپنے ملک کے وسائل کے خود مالک ہونگے، لیکن جن کی امیدیں اسلام سے وابستہ تھی ان کی امیدیں بھی مایوسی میں تبدیل ہوئی، جنہوں نے اس وطن عزیز کی آزادی کے لیے قربانیاں دی اور ان میں ایک جمہوری نظام برپا کرنے کی آرزو رکھی، اس ملک پر زیادہ تر حکومت ڈکٹیٹروں نے کی ہے اور جمہوریت آج بھی یرغمال ہے۔
اگر کسی نے یہ امید وابستہ کی کہ یہاں ایک بہتر معیشت ہوگی تو آج کی نسل جو زندہ ہے پاکستان میں وہ ملک کی معیشت کا انجام بھی دیکھ رہے ہیں، بھوک اور پیاس کے علاوہ آج عام آدمی کچھ نہیں دیکھ رہا۔ ملک کی پیدوار میں کمی آئی، پچھلے حکومت کے آخری سال میں سالانہ ترقی، پیدوار کی، اس کا تخمینہ ساڑھے پانچ فی صد لگایا گیا تھا اور اگلے سال کے لیے ساڑھے چھے فی صد لگایا گیا تھا۔ لیکن اس تبدیلی سرکار نے ایسی تبدیلی برپا کی کہ پانچ اور چھے فی صد کی ترقی تو خواب بن گئی ہم اپنی سالانہ معیشت کا تخمینہ زیرو سے بھی نیچے لے گئے۔
پھر کہتے ہیں ہماری حکومت میں زر مبادلہ کے ذخائر بڑھ گئے ہیں، ہمارا کمال ہے، لیکن قوم کو یہ کیوں نہیں بتاتے کہ تمہارے زرمبادلہ کے ذخائر میں جو پیسہ پڑا ہوا ہے وہ سو فی صد قرضوں کا ہے۔ ایک فی صد بھی تمہاری اپنی معیشت کی پیداوار کا نتیجہ نہیں ہے۔ کیا تم دھوکہ دینا چاہتے ہو!
تو میرے محترم دوستو! آج ہم اس ملک میں ایک اضطراب اور تشویش محسوس کررہے ہیں کہ آئین کے اسلامی دفعات جو ہمارے اکابر علماء کے کاوشوں سے آئین کا حصہ بنا ہے، قرارداد مقاصد کے ذریعے حاکمیتِ اعلیٰ اور حاکمیتِ مطلقہ اللہ رب العالمین کی ہوگی، اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہوگا، تمام قوانین قرآن و سنت کے مطابق بنیں گے، اور کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنے گا، اسلامی نظریاتی کونسل بنائی گئی، سن 1973 میں جب اس سال آئین بنا، تمام مکاتب فکر کے علماء تھے اس میں، ملک کے آئینی اور قانونی ماہرین اور اس کے اراکین، سن 73 سے لے کر آج کےدن تک، اس نظریاتی کونسل کے سفارشات پر ایک بھی قانون سازی نہیں ہوئی۔ ناموس رسالت کے توہین کے مرتکب لوگوں کو باعزت بری کیا گیا، جن عدالتوں نے سال ہا سال اس کی تحقیق میں لگائے، اس کی سماعت میں لگائے اور ایک نتیجے پر پہنچ کر انہوں نے فیصلہ دیا، ہمارے سپریم کورٹ نے ان تمام فیصلوں کو ایک گھنٹے کی سماعت کے اندر ختم کردیا، ہم اس کا کیا معنی لے آخر؟
اور پھر توہین رسالت کے مرتکب خاتون کو ہمارے ملک کا جعلی وزیراعظم کہتاہے خود کہتا ہے کہ ہم نے بڑی عزت و اکرام کے ساتھ ملک سے باہر بھیج دیا۔ جناب والا اگر وہ مجرم نہیں، اگر وہ بری ہوگئی ہے، اس کو تحفظ دینا ریاست پاکستان کی ذمہ داری ہے، پھر تم اس کو تحفظ کیوں نہیں دے سکتے؟
تم ان کو بیرونی ملک بھیج کر، پروٹوکول کس بنیاد پر دے رہے ہو؟
اور جو بھی اسلام دشمن پاکستان میں اٹھتا ہے، چاہے ختم نبوت کا دشمن ہو، چاہے ناموس رسالت کا دشمن ہو، آج یورپ میں اس کو پروٹوکول ملتا ہے، اس کو عزت ملتی ہے، اس لیے ہم یورپ سے کہنا چاہتے ہیں کہ آپ کا جو موقف ہے کہ ہم تو صرف دہشتگردی کے مخالف ہیں، تمہارا عمل بتا رہا ہے کہ تمہاری دشمنی وہ دہشتگردوں سے نہیں اسلام اور مسلمانوں سے ہے۔
تم نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاکے بنائے، توہین آمیز خاکے بنائے، تم نے امت مسلمہ کے جذبات کو مجروح کیا، باوجود اس کے کہ یورپی یونین کے عدالت نے کہا کہ توہین رسالت ،یہ آزادی رائے کی زمرے میں نہیں آتا، ایک خاتون کو اس بات پر سزا بھی وہاں دی گئی، لیکن جن عناصر کو وہاں کے حکمرانوں کی اور وہاں کی اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی حاصل ہوئی، تو انہوں نے نہ عدالتوں کی پرواہ کی اور نہ وہاں کہ قوانین کی پرواہ کی۔ اور ہمارے ملک کی ڈیوٹی کیاہے؟
ہمارے ملک کے حکمرانوں کی ڈیوٹی یہ ہے کہ تین چیزوں کو خراب کرے، اسلام کو خراب کرے، لیکن راستہ کونسا ہے؟ مغربی تہذیب کو پاکستان میں لانے کا، بے حیایی اور فحاشی کو پاکستان میں لانے کا، گندگی اور غلاظت کو پاکستان میں لانے کا اور یہاں پر اسٹبلشمنٹ کی سطح پر، اور سیاسی جماعتوں کے سطح پر ان این جی اوز کی پشت پناہی اور سرپرستی کی گئی، جنہوں نے بیس بیس سال اس ملک کے نوجوان، نوجوان نسل کو گمراہ کرنے کے لیے تمام وسائل استعمال کئیں۔ اور یہ میرے سامنے کے اعترافات ہیں، جو انہوں نے میرے سامنے کیں ہیں۔ میں الزام نہیں لگا رہا ان پر، میں آپ کو وہ بات بتا رہا ہوں کہ جس کا ان لوگوں نے میرے سامنے اعترافات کئیں ہیں۔
مجھے ایک ذمہ دار وفد نے اعتراف کرتے ہوئے بتایا کہ آپ کہتے ہیں، کہ عمران خان یہودی ایجنٹ یے، اور آپ کہتے ہیں کہ جنگ تہذیبوں کی ہے اور یہ مغربی تہذیبوں کا نمائندہ ہے، اور ہم نے ان دو تین سالوں سے آپ کی تقریروں کو نوٹ کیا ہے، آپ نے دونوں باتیں صحیح کئیں ہیں۔ یہ وہ وفد تھا جو ان لوگوں سے دوستی کے لیے مجھے آمادہ کررہا تھا، اور جب میں آمادہ نہ ہوا تو پھر اس حقیقت کا اعتراف کیا۔ اورپھر کہا، کیونکہ پشتون بیلٹ میں مذہب کی جڑیں گہری ہیں، اور مذہب کی ان گہری جڑوں کو اکھاڑنے کے لیے ہمارے پاس اس سے زیادہ موزوں آدمی اور کوئی نہ تھا۔ یہ ساری چیزیں ہمارے سامنے گزرے ہیں۔ بیرونی قوتوں کا دباؤ، یہاں پاکستان کے اندر ان کی لابیوں کی سرگرمیاں، قا دیا نیو ں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی ترمیم کا خاتمہ ان کا ایجنڈا تھا۔ اور میری بات کا اعتبار کرو، کیونکہ میں ان غلام گردشوں میں ذرا اوارہ گردی کرتا رہتا ہوں، تو یہ چالیس سال میرے ہوگئے ہیں، میں ان کو جانتا ہوں، میں ان کی اندر کی خباثت کو جانتا ہوں، ان کی کھوپڑی میں بھری ہوئی گندگی کو میں جانتا ہوں، ان کے عزائم کیا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ باربار وہ لوگوں کو اطمینان دلاتے ہیں، اس کے باوجود ہم میدان میں رہتے ہیں، اور ہمارے اس میدان میں کھڑے ہونے کے نتیجے میں ہم نے ان کے ایجنڈے کو ناکام بنایا دیاہے۔
)تکبیر اور ختم نبوت زندہ آباد کی فلک شگاف نعرے)
میرے محترم دوستو! آپکو یاد ہوگا بلکل نوجوانوں کو تو نہیں لیکن کچھ بزرگ ہیں میرے ہم عمر انکو معلوم ہوگا کہ جب سویت یونین ٹوٹ چکا نائن الیون کا واقعہ ہوا تو میں نے اس وقت بھی عرض کیا تھا پوری قوم کے سامنے عرض کیا تھا کہ اب پوری دنیا عالمی تغیرات اور تبدیلیوں کی لپیٹ میں ہے۔ اب نئے نئے انقلابات رونما ہونگے اور پھر اسکی پاداش میں جو سب سے پہلے قدم انہوں نے اٹھایا وہ افغا ن ستان پر حملے کا تھا، اور اعلان کیا کہ ہم تین مہینے کے اندر اندر ان دہشتگردوں کا صفایا کردیں گے اور افغا ن ستان کو ازاد کرادیں گے۔ تین مہینے کے اندر اندر، جس طرح ہمارا خان کہتا ہے کہ میں تین مہینے کے اندر اندر کرپشن ختم کردونگا۔ ان تین مہینے کے اندر اندر، ضیاء الحق نے بھی کہا تھا کہ تین مہینے کے اندر اندرسب ختم کردوں گا، آج کہا گٸے تمہارے تین مہینے۔ آج امریکہ بھی یورپ اور نیٹو سب شکست کھا چکے ہیں۔ اس وقت یہ قومیں دنیا میں شکست خودرہ قومیں کہلارہی ہے۔ آپکے علم میں ہونی چاہیے یہ بات کہ نیٹو 1949 میں بنی تھی اور ہدف کیا تھا ؟کہ سویت یونین کی توسیع پسندی کو روکنا ہے۔ اور اس کے لیےایک مشترکہ دفاعی قوت بنانی ہے لیکن جب سویت یونین ٹوٹ گیا اور اس کے بعد فراگ میں نیٹو کا اجلاس ہوا ایجنڈہ یہ تھا کہ اب اسکو تحلیل کردیا جائے کیونکہ مقصد حاصل ہوا لیکن تحلیل نہیں کیا گیا یہ بات کہہ کر کہ نہیں ابھی اسلام موجود ہے ابھی مسلمان موجود ہے۔
اور پھر امریکہ اور پوارنیٹو بیک وقت افغا ن ستان پر یلغار کرگیا اور ہمارا مشرف سجدہ ریز ہوگیا ان کے سامنے، صرف مشرف نہیں تقریباً ساری دنیا کہ حکمران اس دباؤ کے سامنے جھک گٸے، بیس سال جنگ لڑی گٸی۔
اس دوران عراق کو کھنڈرات بنایا گیا، اس دوران لیبیا کو کھنڈرات بنایا گیا، اس دوران شام میں جنگ چھیڑی گئی، اس دوران سعوری عرب اور یمن کی جنگ چھیڑی گئی اور یمن کی پشت پناہی کی جارہی ہے۔ سعودی عرب کو اپنے دباو میں رکھنے کے لیے، لیکن افغا ن ستان میں شکست کے بعد کم از کم ایک بات آج آپ اور ہم اس اجتماع میں اتفاق رائے سے کہ دے کہ آج کے بعد امریکہ کا سپر طاقت کا ٹائٹل ختم ہوچکا ہے۔ اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق اور اپنے مفادات کے تابع دنیا میں جغرافیائی تبدیلیاں لانے کے منصوبے سے دستبردار ہو جائے اب اسکو مزید دنیا پر حکومت کرنے کا حق حاصل نہیں۔ اور صرف یہی نہیں جو لوگ انسانی حقوق کے نام پر انسانی حقوق کا قتل کرتے رہے ہیں، جو لوگ امن کے نام پر خون بہاتے رہے ہیں، قوموں کی قومیں اور ان کی نسلوں کو نیست و نابود کرتے رہے آج انکو اعتراف کرنا چاہیے کہ وہ جنگی جرائم کے مرتکب تھے، انکو اعتراف کرلینا چاہیے۔
کہاں ہے عالمی عدالتِ انصاف؟ جو کسی طاقتور سے یہ پوچھ سکے کہ آپ نے انسانیت کا قتل کیوں کیا؟
حادثے ہوجاتے ہیں دنیا میں لیکن حادثے کے نتیجے میں اس قسم کے اقدامات اسکی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔
آج کہتے ہیں طال ب ان مذاکرات کریں،آج کہتے ہیں وسیع البنیاد حکومت بنائے، آج کہتے ہیں سب کو شریک کریں حکومت میں، یہ تو آپ نہ کہے یہ تو وہ خود کہہ رہے ہیں۔ ہم تو یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ نائن الیون کے بعد جب خود طا ل بان اپ سے کہہ رہے تھے کہ آؤ بات کرے اگر آپ کا ہم پر الزام ہے ذرا گفتگو کرلے آپس میں، اس وقت تو آپ نے کہا کہ آپ سے گفتگو نہیں کی جاسکتی تم اس قابل نہیں ہو کہ تم سے کوئی بات کرے، کل آپ کا وہ غرور، اور ابھی دو سال سے اپ انہی طا ل با ن سے دوحہ میں مذاکرات کرتے کرتے ان سے اپنی زندگیوں کی بھیک مانگ رہے ہو۔ افغا ن ستان سے باعزت نکلنے کی آپ ان بھیک مانگ رہے ہیںان سے، ظلم کا انجام یہی ہوا کرتا ہے۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ پاکستان میں بھی ہم نے احتیاط کرنا ہے ہم بھی احتیاط کرے، یہاں بھی نوجوان رہتا ہے، یہاں بھی اسلام پر غیرت کرنے والا جوان رہتا ہے، یہاں بھی اسلام اور ناموس رسالت پر سر کٹوانے والے رہتے ہیں، خون کا نذرانہ پیش کرنے والے رہتے ہیں، لیکن پاکستان کے علماء نے انکو اعتدال میں رکھا ہے، لہٰذا اگر یہی حکمران رہے اور یہی سلسلہ رہا اسلام کے ساتھ، آئین کے اسلامی دفعات کے ساتھ، گھریلو تشدد کے نام پر قرآن و سنت کی منافی قانون سازی کے کارنامے ہوتے رہے، بچوں کے حقوق کے تحفظ کے نام پر تم نے بچے کو باپ بنادیا اور باپ کو اس کا بچہ بنادیا۔ وہ باپ جو گھر کا سربراہ ہوتا ہے جو اپنی اولاد کا سربراہ ہوتا ہے جو اپنی بیوی بچیوں کا سربراہ ہوتا ہے، تمہارے اس قانون سے وہ مرد جس کو قرآن نے توَّان کہا ہے، نگران کہا ہے تم نے اسکو اپنے خاندان میں سب سے کمزور اور خاندان کا غلام بنادیا۔ شرم نہیں آتی تم لوگوں کو!تمہیں جس ماں باپ نے جنا ہے، اسکا خون تم سے یہی تقاضا کرتا ہے کہ تم پاکستان میں کررہے ہو۔ انگریز نے بھی 1860 میں جب ہندستان پر انکا قبضہ تھا، لیکن ہندوستان میں انہوں نے قانون دیا کہ مسلمان اپنی شخصی زندگی میں اپنے مذہب کے مطابق عمل کرسکتے ہیں، نماز ہے، روزہ ہے ،زکواة ہے، نکاح ہے، طلاق ہے ،میراث ہے یہ ساری چیزیں مسلمان اپنے مذہب کے مطابق کرسکتے ہیں۔ لیکن پاکستان بننے کے بعد یہاں کی اسٹبلشمنٹ نے ،یہاں کے آمروں نے ایوب خان کے زمانے سے لے کر اب تک ایسی قانون سازیاں کی ہیں کہ اب وہ کہتے ہیں کہ تم اپنی شخصی زندگی میں بھی قرآن و سنت کے تابع نہیں ہو ہم جو قانون پاس کرینگے چاہے وہ قران و سنت کے خلاف ہو تم نے اس کے تابع رہنا ہے اور اسکی پیروی کرنی ہے اور اس پر عمل درآمد کرنا ہے۔
اسلیے پاکستان بنا تھا؟ آج ہمیں انگریز طعنےدے گا کہ ہم نے جو حق دیا تھا اسلام کے نام پر بنے ہوئے پاکستان میں، پاکستان کے حکمرانوں نے تم سے وہ حق چھین لیا ہے۔ اور سب حقوق کے نام پر یہاں پر انسان کا خون بہا امن کے نام پر، یہاں پر حقوق کا قتل کرو حقوق کے تحفظ کے نام پر،
*سب سے بڑا رہنما قران و سنت ہے صرف امت مسلمہ کا نہیں تمام انسانیت کا*۔
اگر غیر مسلم نے بھی قرآن وسنت سے رہنمائی حاصل کرکے نظام بنائے ہے یا رویہ اپنائے ہیں، تو وہ کافر قوتیں بھی کامیاب ہوئی ہے ۔
اور مسلمان ہوتے ہوئے جس نے جس نے قران و سنت سے روگردانی کی ہے وہ ناکامی کی طرف گٸے ہیں وہ غلامی کی طرف گٸے ہیں،
تو اپنی لی گٸی آزادی اسے دوبارہ غلامی میں تبدیل کررہے ہیں۔
میرے محترم دوستو! ہم جب بات کرتے ہیں ناموس رسالت کی، اور ہم جب بات کرتے ہیں ختم نبوت کی، تو ایک تاثر عام کرلیتے ہیں، کہ یہ غیر سیاسی مسئلہ ہے یہ امت کا متفقہ مسئلہ ہے۔
تو کوئی شک نہیں کہ یہ متفقہ مسئلہ ہے لیکن یہ کہنا کہ اسکا سیاست سے کوئی تعلق نہیں، جنابِ رسول اللہ ﷺ نے ختم نبوت کو سیاست کی ذیل میں بیان فرمایا ہے
کانت بنوا اسرائیل تسوسھم الأنبیاء،کلما ھلک نبی خلفه اٰخر ولانبی بعدی وسیکون خلفاء فیکثرون۔
*رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بنی اسرائیل کی سیاست انبیاءکیاکرتے تھے یعنی بنی اسرائیل کی ملی قومی اور اجتماعی امور کا انتظام اور انصرام انبیاءکیاکرتے تھے اور ایک پیغمبر جاتا تھا دوسرا پیغمبر ان کی جگہ لیتا تھا اور اب میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اب آخری نظام میرے ہاتھ میں ہے، میرے نمائندے آئیں گے میرے خلفاء آئیں گے بڑی تعداد میں آئیں گے لیکن اب نبی نہیں آئے گا۔
جب ہم ختم نبوت کا ذکر کرتے ہیں اور پاکستان میں ختم نبوت کے حوالے سے اپنی کامیابی کا تذکرہ کرتے ہیں تو ساتھ میں کہتے ہیں کہ ہمارے پارلیمنٹ میں، پارلیمنٹ میں غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا۔ پارلیمنٹ میں اس کا ذکر کرتے ہو کہ نہیں اپنے اکابر کو اسکا کریڈٹ دیتے ہو کہ نہیں. اور میں ایک بات بتادو ایک غلطی کا ازالہ کرتا ہوں ۔*ختم نبوت کے حوالے سے جو بھی کردار ادا کیا گیا وہ مشترکہ حکمت عملی سے کیا گیا جو مذہبی جماعتیں اور انکو ہم مذہبی نہیں کہے مسلمان تو ہوتے ہیں اور اپوزیشن میں تھے سب نے ملکریکسوئی اور یکجہتی کا مظاہرہ کیا اور ڈیوٹیاں تقسیم کی*. علامہ شاہ احمد نورانی کو قرارداد پیش کرنے کا کام حوالہ کیا گیا ،حضرت مفتیؒ صاحب نے علمی مباحثے کا کام اپنے سر لیا اور چت کردیا ان لوگوں کو علمی مباحثے میں. مولانا غلام غوث ہزاوری ؒ یا مولانا عبدالحکیم ہزاروی رح اگرچہ اس وقت وہ جمعیت سے وابستہ نہیں رہے تھے لیکن انہوں نے اپنے طور پر اپنا محضر نامہ پیش کیا یہ نہیں کہ وہ اس تحریک کا حصہ نہیں تھے۔ پارلیمنٹ میں وہ بھی اس تحریک کا حصہ رہے ہے جس نظم کا مظاہرہ کیاگیا جس باہمی یکجہتی کا مظاہرہ کیا گیا اگر باہر تحریک کی قیادت مولانا یوسف بنوریؒ کررہے تھے تو اندر حضرت مفتیؒ اور یہ لوگ اس کا کیس اور مقدمہ لڑرہے تھے۔یہ امت مسلمہ نے لڑی ہے یہ جنگ انکے علماء نے مل کر لڑی ہے یہ جنگ۔ اس میں مت پڑیے۔
اگرحضرت سید عطاءاللہ شاہ بخاریؒ ایک مدعی ختم نبوت کے خلاف میدانِ کارزار میں اترتے ہیں اور سن 53 میں تحریک چلتی ہے اور اس تحریک کی قیادت وہ حضرت ابوالحسنات صاحب کو دیتے ہیں تو اسکا معنی یہ ہے کہ امت مسلمہ کی یکجہتی کا مظاہرہ ہے، انکو تقسیم کرنا اور صرف یہ کہنا کہ صرف میں نے کیا میرے اکابر نے کیا ہے، یہ شاید آنے والے نسلوں کو صحیح درس نہ دے۔ اور میں کچھ دیکھ رہا ہوں بہت سے اکابر کو میڈیا پر اس مخمصے میں کہیں مبتلا ہوگٸے ہیں، اس مخمصے میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان سب نے کردار ادا کیا ہے پروفیسر غفور احمد نے کردار ادا کیا ہے ایک پیج پر تھے، سارے کام کی تقسیم تھی، یہی ہوتا ہے تنظیم میں۔ تو اس اعتبار سے یہ چیزیں سیاست سے لاتعلق کردنا، تو اس کا معنی ہے کہ ہمیں سیاست کا معنی ہی نہیں آتا۔ ہمارا احساس کہاں مر چکا ہے؟ کہ جس آئین کے لیے ہم نے کہا تھا، کہ آئین اسلام ہی مملکت مذہب قرار دیتا ہے، اور قانون سازی کونسل کی سفارشات پر ہوگی، آج تک پارلیمنٹ ہم ان لوگوں سے بھر دیتے ہیں جن کو قرآن و سنت سے کوئی دلچسپی ہی نہیں ہوتی۔
میں پنجاب میں ایک جگہ پریس کانفرنس سے خطاب کررہا تھا ایک صحافی نے مجھے کہا اپ نے اسلام کے لیے کیا کیا ہے ؟ میں نے کہا میرے اسلام کی بات بعد میں پوچھیں گے پہلے یہ بتائے آپ نے مجھے ووٹ کتنا دیا ہے ؟
جب جمہوریت کی بات ہوتی ہے، پارلیمنٹ کی بات کرتے ہیں کہ وہی ہماری طاقت ہے وہ طاقت اپ نے ہمیں کب دی ہے؟ اور ایبٹ آباد والوں! تم بھی اس معاملے میں باقی ہزارے والوں سے پیچھے ہو ،ہمت کرو جو جلسے ہم کرتے ہیں اور جس یکجہتی کا ہم اظہار کرتے ہیں اگر اس کا میدان ہمارے نظر میں پہاڑ نہیں اور اسکا ذریعہ اور وسیلہ بندوق نہیں اور اسکا میدان پارلیمنٹ ہے تو پھر پارلیمنٹ میں اپ نے اس جماعت اوراس نظریے کو لے جانا ہوگا جو آپ کے اس کاز اور عقیدے کی نماٸندگی کرسکتے ہے ،جو قران و سنت کی روشنی میں انسانی حقوق کا تحفظ کرسکتا ہے؟ قیام امن کے لیے اقدامات کرسکتاہے جو ملک کی معیشیت کو مظبوط کرسکتاہو۔
آپ نے تو… معاف فرمائے … بیل سے یہ توقع کی ہے کہ وہ دودھ دے۔
ایک آدمی بیل کو دہلاتا ہو ارے اتنا کوئی بے وقوف ہو کہ کوئی نہ کوئی داغ تو نکل آئے گا
ہم وہ قوم بن چکے ہیں اور ہمیں دنیا کا میڈیا ایسا گمراہ کردیتا ہے کہ وہ بالکل جنت سامنے لے آتا ہے کہ یہ آئے گا تو سیدھا جنت آپ کے پاس۔ اب آپ کو یاد ہوگا آپ گواہی دینگے اس بات کی کہ میں 1912 سے قوم کو اگاہ کررہا ہوں کہ تم جس رخ جس سمت پہ جارہے ہو یہ رخ غلط رخ ہے یہ مغربی تہذیب کا رخ ہے یہ یہودیوں کی معاشی پالیسی کا رخ ہے جس میں ہم جکڑے جاٸیں گے۔ میں آج بھی کہتا ہوں کہ افغا ن ستان میں جو تبدیلی آئی ہے یہ صرف افغا ن ستان کی تبدیلی نہیں ،یہ خطے میں تبدیلی کا سبب بنے گا۔ اور میں بے باکی کے ساتھ بے باکی کے ساتھ اللہ کی قوت پر بھروسہ رکھتے ہوئے یہ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ اگر آئندہ بھی اسطرح کی حکومتیں ہم پر مسلط کی گٸی تو پھر ہم اپنے آنے والے نسل اور نوجوانوں کی کوٸ ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔
(نعرہ تکبیر اللہ اکبر)
وس پہ ګو ګزارہ نہ کيږي بیا دِ ھم نہ پریدم بیا بہ ھم نہ رازی او کہ دغہ خلقو راوستی بیا زما دا ګوتہ ھم یادہ لرہ، بیا بہ دا نہ وایۍ چی اشارہ کوہ، بیائی تماشہ کوہ، بیا بہ برید بہ وي او تماشہ بہ وي (پشتو)
(اب خالی Go سے گزارا نہیں ہوگا پھر بھی آپ کو نہیں چھوڑونگا پھر بھی نہیں آؤگے اور اگر وہ لوگ پھر تمہیں لے آئے پھر میری انگلی کو بھی یاد رکھنا پھر یہ نہیں کہنا کہ اشارہ کر اور تماشہ دیکھ پھر حملہ ہوگا اور تماشہ ہوگا۔ )
جمعیت علماء اسلام کا اس ملک پر احسان ہے، اس قوم پر احسان ہے، اس نے ملک کے آٸین کو تحفظ دیا، اس ملک کے امن کو تحفظ دیا، اس ملک کے نوجوان کو سنبھالا، اور اس ملک کو کسی انتہا پسندی کے طرف نہیں جانے دیا لیکن اپ وہی کچھ کرتے رہیں گے اور ہم سے توقع رکھتے ہیں کہ بس ہم صرف نوجوانوں کی باگی کو پکڑ رکھیں گے ۔
تو تم سیدھے ہوجاؤ!
ہم سیدھے ہیں ہم تو پہلے سے سیدھے ہیں۔
تہ د سړي زوی شہ مونږ مخکښی نہ سړي یو(پشتو)
( آپ مرد کے بچے بن جاو ہم پہلے سے مرد ہیں۔)
میں تو دنیا سے بھی کہنا چاہتا ہوں، کہ اگر طا لب ا ن نے فراخدلی کا مظاہرہ کیا بیس سال جنگ لڑنے کے باوجود افغا ن ستا ن میں انہوں نے عام معافی کا اعلان کیا باوجود اسکے انہوں نے ایک وسیع البنیاد حکومت بنانے کی نظریہ پیش کیا ،ایک گنجاٸش پیش کی ہے، جس کا خیر مقدم ہونا چاہیے۔
افغا ن ستا ن ایشیا کا دروازہ ہے، (شعر) یہ دروازہ ہے پورے ایشیا کا، اور ایشیا کے جسم میں افغان ایک دل کی حیثیت رکھتا ہے اگر یہ دل پرامن ہے تو پورے ایشیا میں امن ہے، اگر یہ جنگ پہ اتر اتا ہے تو پورے ایشیا میں بدلی اتی ہے۔
اس لحاظ سے میں چاٸنہ کو بھی کہنا چاہتا ہوں میں روس کو بھی کہنا چاہتا ہوں میں پڑوسی ممالک کو بھی کہنا چاہتا ہوں کہ وہ مثبت رویہ اختیار کرے پتہ نہیں کس کی تابعداری میں پاکستان نے کہہ دیا ایف ٹی کہ پتہ نہیں کیا لفظ ہے یہ ہے وہ پھس سوساٸٹی میں انکا موقف۔ آپ اپنی مجلسوں میں اس کے لیے شاٸد کوئی اور لفظ استعمال کرے. ہمیں اس طرح کا موقف نہیں چاہئے، یہ کمزور موقف ہے افغا ن ستا ن کا استحکام یہ پاکستان کے استحکام میں ہے۔ اسکا امن ہماری ضرورت ہے پاکستان کو پہل کرنی چاہئے۔ سب سے پہلے پاکستان افغا ن ستا ن کی خود مختاری کو تسلیم کرے پھر ہم دوسروں کو کہنے کے مستحق ہونگے. لیکن پھر بھی عالمی قوتوں کا مثبت اشارہ، روس کی بھی اشارات مثبت ہے چین کی بھی اشارات مثبت ہے اور ان شاء اللہ اس روش پہ دنیا چلے گی تو افغا ن ستا ن طاقتور بھی ہوگا، مستحکم بھی ہوگا اسکی معیشیت بھی بہتر ہوگی اور اس سے پوری دنیا کے معیشیت کے راستے بھی کھلیں گے۔
اس اعتبار سے میں آپ کے اس اجتماع کا شکر گزار ہوں کچھ ضروری باتیں میں نے آپ سے عرض کردی ہے، جلسے آگے بھی ہونگے پی ڈی ایم کے بھی ہونگے اور ملک میں جو تحریک چل رہی ہے یہ تحریک رواں دواں ہونگی تاکہ قوم کو اس کے ووٹ کا حق واپس دلایا جاسکے ۔
ان شاء اللہ العزیز ہم اس ملک کو سلامت دیکھنا چاہتے ہیں رو بہ ترقی دیکھنا چاہتے ہیں، خوشحال دیکھنا چاہتے ہی،ں معاشی ترقی دیکھنا چاہتے ہیں، انسانی حقوق اور امن کا ماحول دیکھنا چاہتے ہیں،
اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب ، #محمدریاض خانجی
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#TeamJuiSwat
ایک تبصرہ شائع کریں