جامعہ اشرفیہ لاہور وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے مجلس عمومی سے قاٸد ملت اسلامیہ حضرت مولانا فضل الرحمن کا خطاب
19 ستمبر 2021
خطبہ مسنونہ کے بعد
محترم زعماٸے امت میرے نہایت قابل قدر بزرگوں اور دوستوں اج کا یہ اجلاس اس ضرورت کے تحت بلایا گیا ہے کہ پچھلے اجلاس میں ہم سب نے بالاتفاق حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر صاحبؒ کو وفاق المدارس العربیہ پاکستان کا صدر چنا تھا لیکن حیاة و موت اللہ کے ہاتھ میں ہے چند ہی دنوں بعد وہ ہمیں داغ مفارقت دے گٸے جبکہ تمام تر تنظیمی امور، مالیاتی امور جو وفاق پر موقوف ہوتی ہے وہ اس کے جانے کے بعد اس طرح موقوف رہ گٸی اور پھر اج اپ کو تکلیف دینی پڑی. میں نے جب راولپنڈی اسلام اباد میں بھی اپ کے حاضری کا منظر دیکھا تھا اور اج بھی دیکھ رہا ہوں بلکل تسلی ہوتی ہے خوشی و راحت ہوتی ہے جب میں وفاق المدارس میں اپکی دلچسپی کو دیکھتا ہوں. یہ بہت بڑی مبارک احساس ہے کہ ہم مدارس کے معاملے میں یکسووں ہے. ہم مدارس کے بارے میں فکرمند اور حساس ہے اور مدارس کی حمایت میں تمام نظریات، اعتقادات، تحریکات، تہذیب و تمدن ایمان ایک ایمان. ایک زمانہ انگریز کا تھا جب مدرسے اور مدرسے میں پڑھنے والے اور پڑھانے والے کے بارے میں یہ تاثر دیا گیا کہ مدرسہ میں جانے کے بعد مجھے معاشرے کا حصہ نہیں مانا مدرسہ میں جانے والوں کو اسکو معاشرے میں ایک کمی کی حیثیت دی گٸی اسکی تحقیر کی گٸی تحقیر کی اتنی کہاوتیں گڑی گٸی اسکی نسبت مولوی کی طرف کی گٸی. لیکن ہم سلام پیش کرتے ہیں اپنے ان اکابر کو جنہوں نے صرف مدرسے کی بنیاد ہی نہیں رکھی بلکہ ان حالات کا مقابلہ کرتے ہوے استقامت کا مظاہرہ کیا وہ بھی ایک اسٹبلشمنٹ تھی مدارس کے خلاف تعصب پیدا کرنے میں بھی اس اسٹبلشمنٹ کا ایک کردار تھا. اور اج بھی اپکی اسٹبلشمنٹ ایک نٸے روپ میں مدرسے اور مدرسے میں پڑھنے والے کے بارے میں ایک نیا تاثر پیدا کررہی ہے کہ مدرسہ، مولوی، داڑھی پگڑی یہ دہشت گردی کی علامت ہے. یہ مدرسہ والے بڑے خطرناک ہوتے ہے اب اس دور میں اپ کو خطرناک اور بدمعاش کے طور پر دنیا کو دکھایا جارہا ہے. سو اج اُس سے کہی ذیادہ استقامت کی ضرورت ہے. یہ چیزیں ہمیں متاثر کرتی ہے. ہماری دینی تعلیم ہو ہمارا دینی ماحول ہو ہمارا دینی تمدن ہو ہمارا دین اور اسلامی تہذیب ہو مدرسہ اسکی پشت ایمان ہے. مغربی تہذیب ہماری سوساٸٹی کو اور ہمارے معاشرے کو اپنی طرح کرنا چاہتی ہے کہ ہم بھی ان کی طرح اللہ کی ذات سے بے نیاز ہوجاٸے اب ہے تو اللہ کی ذات بے نیاز. لیکن انکی کوشش ہے کہ ہم انسان اللہ سے بے نیاز ہوجاٸے خدا کے مقابلے میں ہمیں لارہے ہیں. جس معاشرے کی تشکیل اور جس معاشرے کی تربیت انبیاکرام نے کی ہے جناب رسول اللہ ﷺ نے کی ہے اسکا اتباع ہم ترک کردے وہ صرف یہ چاہتے ہیں. بس اللہ کو مانو بس پیغمبر کو مانو یہ انکی پیروی کرنے کا کیا مطلب. ہم تو ازاد ہے انسان ازاد ہے پھر وہ کسی کے پیغامات کیوں، اس قسم کے مصنوعی تصورات و نظریات عاٸد کرکے وہ ہمارے معاشرے کو غلام بنانا چاہتے ہیں. ایک صاحب نے پوچھا کہ تم مولوی صاحبان اپنے مدرسوں درسگاہوں اور مسجدوں میں صبح سے لیکر شام تک ایک ہی بات کرتے ہو کہ اللہ کی عبادت کرو اللہ کی بندگی کرو لیکن جب اپ روڈوں پر اتے ہیں تو ازادی کے نعرے لگاتے ہیں یہ اپ کی تعلیمات کے خلاف نہیں ہے کہ کمروں میں بند بندگی کی بات کرتے ہو اور روڈوں پر ازادی کی بات کرتے ہو یہ کیا نظریہ تمہارے لوگوں کا. میں نے کہا کہ جب ہم کمروں میں حجروں میں مسجدوں میں اللہ کی بندگی کی بات کرتے ہیں دراصل یہی ازادی کا حکم ہے اور میں نے کہا کہ اگر اسکو سمجھنا ہے تو خاندانی زندگی میں اتے ہے ہمارا ایک ہی باپ ہوتا ہے جسطرح دنیوی زندگی میں ہمارا باپ ایک ہے اس طرح خالق کاٸنات ایک ہے. اب اس بات پر جب یہ بیٹے اپنے باپ کے فرمانبردار ہوتے ہیں اسکا ادب و احترام کرتے ہیں انکے احکامات اور ہدایات پر عمل کرکے زندگی گزارتے ہیں یا ایک بیٹا اپنے باپ کی کھیتی میں محنت کرتا ہے اسکی زمین میں کام کرتا ہے یا وہ اپنے باپ کے دکان پر بیٹھتا ہے یا وہ اپنے باپ کے دفتر میں بیٹھتا ہے ہمارے اس سوساٸٹی میں اس بیٹے کو باپ کا مزدور نہیں کہا جاتا باپ کا ملازم نہیں کہا جاتا وہ ایک خودمختار بیٹا ہوتا ہے جو اپنے باپ کی جاٸیداد پر بیٹھا ہے اور معاشرے میں ایک فرد کا تصور پیش کرتا ہے. اب اگر اللہ کی مخلوق اللہ کی بیعیت کرتی نظر اٸے گی قومیں اللہ پاک کی احکامات کی پابند ہوتی نظر اٸے گی تو ان قوموں کو ازاد کہا جاٸے گا. جس طرح میرا بیٹا اپنے معاشی مجبوریوں کی وجہ سے کسی کے زمین پر کام کرتا ہے کسی کے دکان پر بیٹھتا ہے محنت کماٸی کرتا ہے اور اسکو سوساٸٹی مزدور، مزارع اور نوکر کہتا ہے اسی طرح جو قومیں اللہ کے احکامات کے بجاٸے کسی انسانی قوت کی اور ان کی احکامات کی پیروی کرتے نظر اٸیں گے وہ قوم غلام تصور کی جاتی ہے وہ ازاد قوم تصور نہیں کی جاسکتی ( نعرہ تکبیر اللہ اکبر). میں نے کہا میرے نزدیک ازادی کی تعریف یہ ہے کہ اگر ایک باپ کی اطاعت کرتے اولاد وہ معاشرے میں محترم نظر اتے ہیں وہ اپنی جاٸیداد کا مالک نظر اتے ہیں اسی طرح اللہ کی عبادت کرتی ہوٸی قومیں اور اسکی احکامات کی پیروی کرتے قومیں بھی محترم نظر اٸیں گی ازاد اور حریت کا علمبردار ہوگی. یہ ہے بنیادی چیزیں. عبادت نہ کرو اور اللہ کے خلافت کے لیے دعویدار نہ جاو پورے کاٸنات کا خالق اسکا باغی ہو اور روٸے زمین پر اس کے خلافت کے وارث بن جاٸے. (وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون) میں نے کسی انس و جن کو نہیں بھیجا لیکن اپنی عبادت کے لیے. اب یہاں مسلہ سب کا ہے انسان کو عبدیت خلقتاً عطا کی گٸی ہے اور یہ عبدیت تکفیری نہیں تعمیری ہے یہ جو اپ چاہے یہ کرے چاہے وہ کرے یہ خواہش کی بنیاد پر نہیں ہے یہ عبد و اختیار کی بنیاد پر ہے. تو زندگی کا بااختیار ضرور ہے جدھر جاٸے لیکن یہ کہ اپ خواہش کے تابع نہیں ہے. اپ نے اپنے اختیار کو اور محاسبے کو اختیار کرنا ہے. اس اعتبار سے اللہ رب العزت اور انبیاکرام کے تعلیمات یہ ہمارے اس مدارس کے اج کے اجلاس کا ایجنڈہ ہے. تقسیموں کا ٹکراو ہے اور جیسا کہ مولانا تقی عثمانی نے فرمایا کہ سارے کام جو ہم کرتے ہیں جو اب تک روایات یہ رہی ہے کہ نہ کبھی عہدے کی خواہش کی ہے اور نہ عہدے کا انتقال ہوا ہے. تو نظامی طور پر ایک بڑی صحت مند ان کی روایات رہی ہے گو کہ فلاں کا حق ہے ایسا تو نہیں کہ اختلاف کا حق نہیں لیکن اپنے اختلاف کو چھوڑ دینا وحدت الاتفاق کا مظہر اس کا اجر بھی اللہ دے گا. اپ لوگ خبریں سنتے ہیں اور خبریں سن کر تبصرہ بھی کرتے ہیں تو مجھ پر تو گزری ہے عملاً گزری ہے مسلہ صرف قوموں کا نہیں یہ بحثیں چلتی رہتی ہے وفاق کا صدر کس کو ہونا چاہیے کس کو نہیں. لیکن مجھے اطلاع ملی اسلیے کہ میرے جماعت کے ذمہ داران کو بلاکر کہا گیا اور انکو وفاق المدارس کے خطرناک مستقبل سے اگاہ کیا گیا عزاٸم سے اگاہ کیا گیا جونہی مجھے پتہ چلا کہ ان قوتوں کے عزاٸم کیا ہے تو فوراً یہاں پہ ایا کوٸی عہدہ مجھے نہیں چاہیے تو ہم اس خواہش کو اس لیے قربان کریں کہ اس وقت کی اسٹبلشمنٹ کو ہمارے وفاقوں کے ساتھ چلنے کا موقع ملے. اور یہ جو نٸے بورڈ بناٸے گیے ان سے اپ لوگ انکے عزاٸم کا اندازہ لگا سکتے ہیں اور یہ جو پچھلے اجلاس سے لیکر اب تک جون، جولاٸ اور اگست تین مہینے کے اندر اندر سرکار نے اسٹبلشمنٹ کے بناٸے گٸے بورڈ اور ان کے ذمہ داران جن کی لباس بھی ہماری طرح جنکے چوغے بھی ہماری طرح اور کندھے پر چادر بھی ہماری طرح وہ اتنے متحرک ہوے اتنے متحرک ہوے کہ ان کو خیال یہ تھا کہ وفاق المدارس کے اندر اس تاثر کا ہم فاٸدہ اٹھاٸے اور مدارس کو حرص و لالچ دیکر اپنے بورڈ میں شریک کریں گے لیکن میں اپ حضرات کے استقامت کو سلام پیش کرتا ہوں کہ کوٸی مدرسہ اس سازش میں نہیں ایا.
جب اسمبلیوں نے اعلان کیا کہ مساجد کہ اٸمہ کو اعزازیہ دینگے اب یہ اعزازیہ کونسے حضرات کو دینا ہے. میرا مولوی اتنا غریب ہے کہ کس حالت میں مسجد کی امامت کرتا ہے یا اذان دیتا ہے یا مسجد کا خادم بنتا ہے اور اس تکلیف کے ساتھ اپنا پیٹ پالتا ہے. ان دو تین سالوں میں جمعیتہ علما۶ اسلام نے بڑے بڑے لانگ مارچ کیے ملین مارچ کیے میں جانتا ہوں کہ ہمارے کارکن اپنے محلے میں ایک ایک جلسے میں جانے کے لیے کتنے قرضے لیے اور قرضوں کے اندر دب گیا لیکن اج بھی انکار کیا اس اعزازیے سے. پھر کس طرح ایسے لوگوں کی قدر نہیں ہوگی ابھی یہ اقتدار تو چاہتے ہیں اس کردار نے اگر اقتدار میں نہیں انا اور اللہ نے اقتدار نہیں دیا لیکن ان شاء اللہ یہ کردار اپ کے نظریات، اپ کے اعتقادات، اپکی تعلیم اور اپکی مدارس کا تحفظ ان شاء اللہ ضرور کرے گا. اپ کی نیت اپ کی نیتوں پر مبنی اعمال اعمال صالحہ اس کو اللہ ضاٸع نہیں کرے گا. میں حالات کی نزاکت کو سمجھتا ہوں کہ ابھی ہم ان حالات سے نہیں گزرے کہ مدارس اپنے اجلاسوں میں انتخابات کراٸے کہ مقابلہ ہوگا ایک امیدوار پانچ سات دس پچاس سو ووٹ لے لے اب نکیر بیچ میں اجاٸے گی اور پھر انکو وفاق سے نکالنا یہ اسان کام نہیں ہوگا ہم نے ان قوتوں کے لیے مشکل پیدا کرنی ہے اب یہ سیسہ پلاٸ دیوار ہے کہ کوٸی نیزہ اس میں نہیں اترے اگر اترے تو ٹوٹ جاٸے. اگر ایسی کچی دیواریں ہو جس میں چھید ہو تو اس کے اندر اپ نیزہ اتارسکتے ہیں. لہذا اج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے صفوں کو مظبوط بناٸے کوٸی بہانہ ان قوتوں کو نہیں دینا اب جن قوتوں کو ہم نے بہانہ نہیں دینا پھر اسی بہانے واسطے قربانی دینی ہوگی قربانی دینگے لیکن اس وفاق اور اس صف کے لیے اپنے خواہش اپنے سب کچھ کی قربانی دینگے. اور دوسری بات بھی عرض کردوں حضرات اکابر جاچکے ہیں اللہ انکے قبروں کو اسودہ بناٸے ہم انکو واپس بھی نہیں لاسکتے اب یہ جو بزرگ کچھ بچے کچھے ہیں اب ان پر گزارہ کرے ان پر گزارہ کرے. پہلے ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اپنے ان اکابر کو عزت دے احترام دے اور نام دے. اللہ تعالیٰ حضرت مولانا تقی عثمانی صاحب کی زندگی میں کروڑوں برکتیں عطا فرماٸے انکی زندگی ہمارے لیے ایک نعمت ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں اس وقت اگر میری نظر میں وفاق المدارس کی صدارت کے لیے کسی کو موزوں سمجھتے ہیں وہ مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ ہے. اللہ تعالیٰ اپ تمام حضرات کو اجر عظیم عطا فرماٸے اور اس فیصلے کو اللہ تعالیٰ قبولیت عطا فرماٸے اور مولانا تقی عثمانی صاحب کو اپ تمام حضرات کے توقعات پر پورا اتارے آمین
ضبط تحریر: سہیل سہراب
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
TeamJuiSwat
ایک تبصرہ شائع کریں