جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی نیشنل پریس کلب میں صحافتی تنظیموں کے قائدین کے ہمراہ صحافیوں کے حقوق پر اہم پریس کانفرنس 3 ستمبر 2021


 جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی نیشنل پریس کلب میں صحافتی تنظیموں کے قائدین کے ہمراہ صحافیوں کے حقوق پر اہم پریس کانفرنس
3 ستمبر 2021

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم اما بعد 

نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں پہلے بھی حاضر ہوتا رہا آج ایک بار پھر آپ لوگوں نے مجھے عزت بخشی ہے، جناب افضل بٹ صاحب ان کی پوری ٹیم ان کی آرگنائزیشن کے معزز اراکین ان سب کا شکر گزار ہوں کہ ایک بار پھر آپ نے مجھے یہاں اپنی محفل میں شریک کیا اور مجھے کچھ کہنے کا موقع عنایت فرمایا۔ 

جناب ناصر زہری صاحب کا خصوصی طور پر شکر گزار ہوں کہ انہوں نے ملتان کے قدیم رشتو کا تذکرہ کیا۔ انہوں نے مفتی صاحب کی جدوجہد سے بھری زندگی کا تذکرہ کیا۔ اور ہمیں اپنی کارنام ماضی کی یاد دلائی۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ملکیں ایک نظام کے تحت چلتی ہیں، افراتفری سے ملک نہیں چلا کرتا اور طرز حکومت کیا ہونی چاہیے یہ اختیار تو اللہ نے بھی قوم کو عطا کیا ہے کہ آپ اپنے لیے ایک نظام حکومت کا تعین کرے۔ ہمارے پاس ہمارا آئین ہے جس سے ہم پوری قوم کے اندر ایک عمرانی معاہدے سے تعبیر کرتے ہیں جس سے ہم ایک میثاق ملی سے تعبیر کرتے ہیں اور اس میں ہر ادارے کے اختیارات کا ایک دائرہ متعین ہے، اگر ہم اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے اپنے فرائض سر انجام دے تو کوئی مشکل پیش نہیں آتی، فساد اس وقت سامنے آتا ہے جب ہم ایک دوسرے کے علاقے میں جا کر اس کے اختیار اور اس کے کردار کو قبضہ کرتے ہیں، فساد اس وقت آتا ہے جب ایک ادارہ اپنے آپ کو بالادست تصور کرے اور تمام اداروں کو اپنا ماتحت تصور کرے، انسان کی خواہشات کی کوئی حد نہیں ہے لیکن خواہشات کو ایک خاص دائرے میں محدود کرنے کے لیے نظم بنتا ہے، قانون بنتا ہے، آئین بنتا ہے۔ میں نے تو جب انہوں نے مجھے دعوت دیا اور گھر تشریف لائے، اس وقت بھی کہا کہ جہاں پر سیاست ہے اور جمہوری ماحول ہے وہاں پر صحافت ہے، جہاں پر ڈیکٹیٹرشپ ہے وہاں صحافت نہیں، جہاں بادشاہتیں ہیں وہاں صحافت نہیں ہوا کرتی۔ ڈیکٹیٹر اور بادشاہ کی مرضی سے اخبار چھپتے ہیں، ہمارے جیسے ملکوں کے اخبارات سے ہجم میں بڑے بڑے اخبارات چھپتے تھے، اعلیٰ کوالٹی کا کاغذ اس میں استعمال ہوتا تھا، ہماری کاغذ کی کوالٹی بھی انتہائی ناقص ہوتی ہے اور اس کا ہجم بھی کم ہوتا ہے لیکن پبلک اس کو پڑھتی ہے لوگوں کو خبر ملتی ہے۔ میں ملتان میں طالب العلم تھا اس زمانے سے دیکھتا ہوں کہ صحافت کی آزادی کے نام سے تحریکیں چلتی ہیں بڑے بڑے لوگ جیلوں میں جاتے ہیں، اور یہ بات میں صرف صحافت کے حوالے سے نہیں کہہ رہا، میں سیاست دانوں کے ماحول میں بھی یہ بات کرتا رہتا ہوں، یہ ایک سوال کا مجھے جواب چاہئیے ہم نے ہر دور میں ڈکٹیٹر کے خلاف تحریکیں چلائی، جمہوریت کو مظبوط اور مستحکم کرنے کے لیے ہم نے تحریکیں چلائی، لیکن مسلسل جمہوریت کمزور ہوتی جارہی ہے اور آمرانہ سوچ غالب ہوتی جارہی ہے اور اس کی گرفت مظبوط ہوتی جارہی ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ مجھے آپ معاف فرمائے میں ایک کارکن ہوں سیاسی کارکن ہوں، یہ توہم پسپائی کی طرف جاتے ہیں اور ہمارا سفر ہمیشہ پسپائی کی طرف جاتا ہے اس کی بنیادی علت یہ ہے کہ ہم اپنی آواز اور اپنے نعرے کے ساتھ کمٹیڈ نہیں ہے۔ ہم کمپرومائز کرجاتے ہیں اور ان قوتوں کو معلوم ہے کہ سیاست دان بھلا جلسے کرے، جلوس کرے، جیلوں میں جائے ہمارے ساتھ کمپرومائز کے لیے انہوں نے بیٹھنا ہے، بھیک ہم سے مانگنی ہےاقتدار کے لیے۔ اب اس سے ہم کیسے نکلیں گے؟ یہ ہے وہ سب سے اہم سوال جو پاکستان کے چوہتر سالہ تاریخ میں اس پر کوئی امادہ نہیں ہوا۔ لگتا ایسا کہ پاکستان بطور ریاست کے شاید ہم نے سمجھا ہی نہیں، جیسے ہم بہت بڑے خوش فہمی میں مبتلا ہے، کیا پھر ہم اپنی سوچ تبدیل کرلیں؟ تین باتیں کہی جاتی ہے کہ جس کی بنیاد پاکستان معرض وجود میں آیا اور پاکستان میں مختلف نظریات کے حامل لوگ، وہ اپنی اپنی ترجیحات کے بنیاد پر پاکستان کی قیام کی وجہ بیان کرتی ہے۔ مذہبی لوگ کہتے ہیں یہ اسلام کے لیے بنا، پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ۔ کوئی کہتا ہے جمہوریت کے لیے بنا تھا اور کوئی کہتا ہے کہ یہ خوشحال معیشت کے لئے بنا تھا۔

ہندوؤں سے آزادی حاصل کریں گے، انگریز سے آزادی حاصل کریں گے، ہمارا اپنا وطن ہوگا، ہماری اپنی معیشت ہوگی، اب یہ خوبصورت نام ہے۔ چوہتر سالوں میں نہ تو ہم نے اسلام کو دیکھا، چوہتر سالوں میں نہ ہم نے جمہوریت کو دیکھا اور چوہتر سالوں میں جب ہم اس ملک کی معیشت کو دیکھتے ہیں تو پھر یہی سوال پیدا ہوگا۔ آپ مجھے بتائے کہ اگر ان تین مقاصد میں سے ایک بھی مقصد ہم نہیں حاصل کرسکے اور ہم خطےکے اپنی ہم عمر ممالک یا ہم سے عمر میں کم ممالک ان کی معیشت آگے بڑھی ہے اور ہم پیچھے کی طرف جارہے ہیں۔ چین کہا پہنچ گیا ہے، ملائشیا کہا کھڑا ہے، انڈیا کہا کھڑا ہے، بنگلہ دیش کہا کھڑا ہے۔ اور ان معیشتوں کے اندر ہم کہاں کھڑے ہیں؟ یہ ساری چیزیں سوالیہ نشان ہے ہمارے لیے من حیث القوم، تو پھر سوچنا پڑتا ہے کہ یہ جو تین مقاصد ہم بیان کرتے ہیں کیا واقعی یہ اس مقصد کے لیے بنا تھا؟ اس ملک میں تو ہمیں مارشل لائے نظر آتی ہیں، اس ملک میں تو ہمیں فوج کی بالادستی نظر آتی ہیں، صحافت بھی ان کے ہاتھوں مقید، پارلیمنٹ بھی ان کے ہاتھوں مقید، سیول انتظامیہ کو تو وہ اپنا غلام سمجھتی ہے کوئی حیثیت ہی نہیں ان کی نظر میں، اور سیاستدانوں میں اگر حکومت کرنی ہے تو ان کے در پر حاضری دینی پڑتی ہے۔ انہی سے بھیک مانگتے ہیں اقتدار حاصل کرنے کے لیے، کہا ہے جمہوریت؟ سن 1973 میں پاکستان کا آئین بنا، سن 1973 ہی میں اسلامی نظریاتی کونسل بنا کہ وہ اسلامی قانون سازی کے لیے سفارشات مہیہ کریں گے، جس میں ہر مکتبہ فکر کے علمائے کرام بھی ہونگے، آئینی اور قانونی ماہرین بھی ہونگے۔ آج تک ایک قانون سازی نہیں ہوئی ایک قانون سازی بھی نہیں ہوئی، اب آپ بتائے جس طبقے نے یہ سمجھا تھا کہ یہ ملک اسلام کے لیے بنا ہے وہ کیا سوچھے گا اس کے بعد؟ اگر جمہوریت کے لیے ملک بنا ہے تو تاریخ پڑھ لیں، مارشل لاؤں کی عمر کتنی ہے اور پارلیمنٹوں کی عمر کتنی ہے اور پھر وہ پارلمینٹ، شاید ہماری نوجوان نسل کو ماضی، انہوں نے نہ دیکھی ہو لیکن حال میں تو ہم دیکھ رہے ہیں، تو میرے بھائیو! جو پارلیمنٹ اس وقت ہے اس کے قریب قریب پچھلے پارلمینٹ تھے اور اگر کسی نے کچھ تھوڑی سے خوداری دکھائی، کسی نے یہ جتلانے کی کوشش کی کہ چیف ایگزیکٹو میں ہوں، تو ان کا جو انجام کیے گئے ان کو آپ جانتے ہیں۔

اس دن مجھے بیان پڑھا عجیب لگا، اقوام متحدہ نے دیا تھا یا پتہ نہیں امریکہ نے دیا تھا کہ اگر طال با ن نے افغا ن ستان پر جبراً حکومت قائم کی تو ہم تسلیم نہیں کریں گے، آج آپ یہ بیان دے رہے ہیں ایوب خان کی مارشل لاء کو آپ نے سپورٹ کیا تھا کیا وہ جبر کی حکومت نہیں تھی؟ ضیاء الحق کی حکومت کو آپ نے سپورٹ کیا تھا کیا وہ جبر کی حکومت نہیں تھی؟ 9/11 کے بعد سے مشرف کی حکومت کو آپ نے سپورٹ کیا تھا کیا وہ جبر کی حکومت نہیں تھی؟ یہ جبر آپ کو افغا ن ستان میں آپ کو نظر آرہا ہے (ہنستے ہوئے)۔ تو دنیا میں بھی معیارات مختلف ہے، خارجہ پالیسی ہماری کدھر ہے؟ ہماری پڑوس میں اتنی بڑی تبدیلی آئی ہے، سلامتی کونسل میں اجلاس ہورہے ہیں پاکستان خطے کا ایک بنیادی سٹیک ہولڈر، اور آپ کے مندوب کو اس اجلاس میں شریک ہونے کی اجازت نہیں، اور مندوب تو دور کی بات ہے یہاں آپ اپنے ملک کے اندر دیکھے جتنے بھی باہر کے مہمان آرہے ہیں جیسے اوجا، انہی سے رہنمائی لے رہے ہیں، ان کو مشورہ وہ دے رہے ہیں، حکومت تو میں تو کوئی دس پندرہ سال سے کہہ رہا ہوں کہ ہماری پاکستانی سیاست کے غیر ضروری عنصر ہے، آج تو عملاً نظر آرہا ہے کہ غیر ضروری عنصر ہے۔ اسطرح کی ڈمی حکومت جب پاکستان میں ہونگی تو جمہوریت نہیں ہونگی، جمہوریت نہیں ہونگی تو صحافت نہیں ہونگی ہم ایک ہی کشتی کے سواد ہیں۔ تو اس لحاظ سے آج چائنہ کو کیوں شکایت ہے پاکستان سے؟ اس نے جو پاکستان میں سرمایہ کاری کی، اس حکومت نے پوری سرمایہ کاری پر پانی پھیر دیا، اور آج اس وقت پاکستان کے لیے، کسی اور جگہ کے لیے ہو یا نہ ہو پاکستان کے لیے امریکہ کی دوستی کا معیار سی پیک کو تباہ کرنا ہے پیچھے دکھیلنا ہے، ایک طرف ہم میگا پروجیکٹ کو پیچھے دکھیل رہے ہیں ایک طرف فلسفہ دے رہے کہ جیسے دنیا سب لوگ جاہل ہے کہ پاکستان میگا پروجیکٹس کا متحمل نہیں ہے۔ 

ہم نے مائیکرو لیول اور میڈیم لیول کی تجارت کرنی ہے او بابا میکرو لیول اور میڈیم لیول کے تجارت بیرونی دنیا سے ہوا کرتی ہے؟ اسے تو پبلکلی پبلک خود منیج کرتے ہیں اسے تو سٹیٹ کے پبلک آپس میں منیج کیا جاتا ہے اگر دنیا کے ساتھ ہم نے کاروبار کرنا ہے تو وہ تو امریکہ بھی باہر کے تعاؤن کے ساتھ کرتا ہے ملٹی نیشنل کمپنیاں ہوتی ہیں وہ جارہے ہوتے ہیں۔ ہم کہا کھڑے ہیں؟ کہاں لا کے کھڑا کردیا گیا ہے ہم کو؟ اور پھر ایک ایسی حکومت کو ہمیں کہا جائے کہ آپ مانے بھی مدت بھی پورے کرنے دیں۔ اب جہاں پر مدت پوری کرنا اور مدت بڑھانے کے مسائل آئینگے ملک کے اندر تو ملک کدھر چلے گا؟ ہم ملک کے وفادار ہیں لیکن اتنا تو بتا دیاجائے کہ وفاداری کا معیار کیا ہے؟ انگریز کا زمانہ تھا ہندوستان کے وفادار کو غدار کہا گیا اور وفادار صرف وہی تھا جو انگریز کا وفادار ہوا کرتا تھا۔ کیا آج بھی ہم وفادار کے لیے وہی معیار رکھتے ہیں؟ کہ ایک ادارے کے وفادار بن جاؤ بس تو ٹھیک ہے، پاکستان سے وفاداری کی کوئی قیمت نہیں، اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ اب صورتحال کیا کہا تک پہنچ گئی ہیں، آج ہی کی واقعہ کو دیکھ لیں جب سترہ ہزار ملازمین کو ایک جج کے عین رٹائرمنٹ سے چند گھنٹے پہلے بیک جنبشِ قلم نوکریوں سے نکالا گیا۔ آپ کے اسلام آباد کے سڑکوں پر اپنے بچوں کے سامنے انہوں نے اپنے آپ کو آگ لگانے کی کوشش نہیں کی؟ موت کو آپ زندگی پر ترجیح دے رہے ہیں اپنے بچوں کی بھوک برداشت نہیں ہورہی، دیکھی نہیں جارہی ان سے، تقریباً پچاس سے زیادہ ادارے ہیں اس ملک کے اندر کہ جہاں سے لوگ نکالے گئے ہیں اگر سترہ ہزار لوگ بے روزگار ہوجاتے ہیں ہر ایک کے پیچھے اگر پانچ یا چھے کا افراد کا گھرانہ ہو تو آپ اندازہ لگائے کہ کتنے لوگوں کو ہم نے بے روزگار کردیا۔ وہ خواب ہوگئے نا ایک کروڑ نوکریاں دینگے۔

ایک کروڑ نوکریاں! پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم نےیہ بات کہی کیوں؟ دوسری بات کہ ہم اس بات پر اعتبار کیوں کیا؟ سن 1947 سے لے کر آج چوہتر سال پورے ہوگئے میرے پاکستان کی کل ملازمتیں بڑی سے لے کر چھوٹی تک ایک کروڑ سے نیچے ہیں اوپر نہیں گئی، چوہتر سالوں کے، اور ہم ایک سال اور دو سالوں کے اندر ایک کروڑ نوکریاں دیں گے، اب آپ حساب لگائے نکالے کتنے گئے ہیں۔ کتنے گھر بنانے کی بات کی گئی لیکن کتنے گرائے گئے؟ لوگوں کو بے گھر کردیا گیا۔ کوئی خارجہ پالیسی نہیں، کوئی داخلہ پالیسی نہیں۔ ہم نے اگر اس ماحول سے نکلنا ہے گو پھر ایک کمٹمنٹ کے ساتھ نکلنا ہے۔ پاکستان کا عوام ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے کہ اس کے ووٹ سے حکومت بنی لیکن اس کا ووٹ تو چوری ہوگیا تھا، جس کی حکومت لانی ہوتی ہے وہ کیونکہ وہ کہتے ہے نا کہ ووٹ بکسے میں ڈالنے کا نام نہیں ووٹ بکسے سے نکال کر گننے کا نام ہے۔ تو اس لحاظ سے آپ نے آج جو اپنی حریت، اپنی آزادی کا علَم بلند کیا ہے، ان شاءاللہ ہم پوری دنیا میں محکوم قوموں کی آزادی کی تحریکوں کی حمایت کرتے ہیں تو کیا پاکستان میں پھر ہم اپنے بھائیوں کی آزادی کی تحریک کی حمایت نہیں کریں گے؟ ان شاءاللہ ہم آپ کے ساتھ ہیں، شانہ بشانہ ہیں۔ ہر چیز میں وقار ہونا چاہیے، میں تو صحافت کے بارے میں بھی کہتا ہوں کہ صحافت، یہ ایک امانت ہے اور امانت کے لیے دیانت شرط ہے، تو آپ حضرات سے بھی گزارش کرونگا کہ بلا تحقیق خبریں چلانا، پھر اس لیے کہ کہی دوسرا چینل نہ چلا دے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ کسی شخص کے جھوٹے ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ ہر سنی سنائی بات کو دوسروں کو پہنچائے۔ کردار کشی نہ کی جائے بلکہ اسلام کی تعلیم، گناہگار کی پردہ پوشی کی ہے پردہ دری کی نہیں، لیکن یہاں تو پردہ پوشی جو ہے اگر ہے تو صحافت ہی ختم ہوجاتی ہے۔ لیکن پھر بھی ہمیں اپنی شریعت کے اصولوں کو سامنے رکھ آگے بڑھنا چاہیے، بہت ہی اعلیٰ اخلاق کا دین ہے، ہم اسلام کی غلط تشریح کرتے ہیں، ہم جب اسلام کی برکات بتاتے ہیں جب اسلام آئے گا تو پھر قصاص لیا جائے گا، جب اسلام آئے تو چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا، جب اسلام آئے گا ظاہر ہے تو سنگسار کیا جائے گا۔ اس کو اسلامی نظام ہم کہتے ہیں! میں آپ سے پوچھتا ہوں آپ پڑھے لکھے ہیں، سکول کا مدرسے کا ایک نصاب تعلیم ہوتا ہے اس کو باقاعدہ آویزاں کیا جاتاہے پورے ملک کے ساتھ آپ اس نصاب کا تعارف کرتے ہیں بچے اس کے لیے آپ کے سکول میں آتے ہیں، اب اگر کوئی بچہ پڑھتا نہیں، سبق یاد نہیں کرتا، گھر کا کام کرکے نہیں آتا اور استاد اس کو سزا دیتا ہےکیا ہم نے کبھی اس سزا کو نصاب تعلیم کا حصہ کہا ہے؟ سزاؤں کو تو ہم نے سکولوں میں نصاب تعلیم کا حصہ کبھی نہیں کہا تو پھر اسلام میں اگر کچھ سزائے ہیں تو اس کو نظام اسلام کا حصہ قرار دینا، وہ تو نظام کی درستگی کے لیے ہے، اگر ضرورت پڑے۔ اور پھر اسلام کی دلچسپی سزا سے بچانے کی ہے سزا دینے کی نہیں ہوتی۔ تو ہمیں بھی اپنی صحافت کو ان خطوط پر استوار کرنا چاہیے کہ جس میں کسی کی کردار کشی نہ ہو، خبر ہو تو صحیح خبر ہو، ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی خواہش میں غلط خبر لگادینا، گھنٹے کے بعد اس پر معذرت کردینا کہ وہ تو غلط خبر تھی۔ تو تب جا کر ہم ایک باوقار قسم کی صحافت، اور سیاست کا بھی یہی حال احوال ہونا چاہیے، قوم کے سامنے سچی بات نہ کہو، ایسی بات کہو کہ آپ لوگوں کو امید دلا سکے اور اس امید پر حکومت قائم کرسکے چاہے آپ اس پوزیشن میں ہو یا نہ ہو۔ صرف حکومت چاہییے جھوٹ، سچ سب کچھ اس کے لیے جائز ہوجاتا ہے، تو پھر یہی ہوگا جو آج ہورہا ہے آپ کے سامنے۔ بڑی بڑی باتیں کئیں اور ہر بات کی نفی، صلاحیت اور استعداد ہی نہیں ہے حکومت کرنے کی اور ہمیں ایسی ہی حکمران چاہئیے جو ڈمی ہو، تاکہ پھر اصل میں ہماری چلے۔ تو اس لحاظ سے یقیناً ہمارے ملک میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ سیاست میں بھی، صحافت میں بھی، بیوروکریسی میں بھی، اسٹبلشمنٹ میں بھی اور جب ہم اپنے آئینی دائرہ کار میں رہتے ہوئے فرائض سر انجام دیں گے تو ملک پرسکون طور پر آگے بڑھے گا۔ ہمیں دوسروں سے سبق لینا چاہیے جس ملک میں ظلم ہوتے ہیں وہاں پر پھر کیا انجام قوموں کے ہوئے ہیں؟ کہاں پر پہنچی ہیں وہ قومیں؟ اللہ تعالیٰ پاکستان کو تابندہ رکھے، ترقی کی راہ پر اللہ پاکستان کو گامزن فرمائے اور ایک پرسکون نظام اللہ تعالیٰ پاکستان کے ہر شخص کو مہیہ فرمائے۔ میں آپ کا ایک بار پھر بہت زیادہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ وآخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین

ضبط تحریر: #محمدریاض 

#TeamJuiSwat


Important press conference on the rights of journalists with the leaders of journalistic organizations at the National Press Club of Maulana Fazlur Rehman Sahib, Head of Jamiat Ulema-e-Islam 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم اما بع

I have been attending National Press Club Islamabad before, and today you have honoured me once again. Mr. Afzal Butt, his entire team, esteemed members of his organization, thank you all for once again. Participated in his party here and gave me the opportunity to say something

I am especially grateful to Mr. Muhammad Zehri for mentioning the ancient patrol of Multan. He reached the life full of struggle of Mufti Sahib. Remind us of your sad past. There is no doubt that countries run under one system, the country does not run on chaos and what should be the style of government. This is the authority that Allah has given to the nation to determine a system of government for itself. We have our constitution which we interpret as a development agreement within the whole nation which we interpret as a charter and it defines the scope of powers of each institution, if we remain within our jurisdiction. There is no difficulty in performing one's duties. Violence comes to the fore when we go to each other's territory and seize its authority and its role. Violence comes when an institution finds itself. Let him suppose and consider all institutions as his subordinates. There is no limit to human desires, but in order to limit desires to a certain sphere, a law is made, a constitution is made.They invited me and came to my house, even then said that where there is politics and democratic environment there is journalism, where there is dictatorship there is no journalism, where there are kingdoms there is no journalism. Newspapers are printed at the behest of dictators and kings. Large newspapers were printed in large numbers from newspapers of countries like ours. High quality paper was used in it. The quality of our paper is also very poor and it is crowded. The public reads it, people get the news.

I have been a student in Multan since the time I see movements in the name of freedom of the press, big people go to jail, and I'm not just talking about journalism, I'm also in the environment of politicians. Talk to you soon on this regard and keep up the good content

We have made movements to strengthen and consolidate democracy, but democracy is constantly weakening and dictatorial thinking is gaining ground and its grip is getting stronger. What is the reason? Excuse me, I am a worker, I am a political activist, these superstitions go backwards and also our journey goes backwards. The main reason is that we are not committed to our voice and our slogan, we compromise and These forces know that politicians should hold rallies, processions, go to jails, they have to sit with us to compromise, they have begged us for power. How do we get out of this now? This is the most important question that has not been raised in the 74-year history of Pakistan. It seems that we as a state have not understood Pakistan at all, as we are suffering from great complacency, should we change our thinking?

Three things are said to be the basis on which Pakistan came into being and people with different ideologies in Pakistan, it explains the reason for the establishment of Pakistan based on their own priorities. Religious people say it was made for Islam, what does Pakistan means(لا الہ الااللہ) Some say it was made for democracy and some say it was made for a prosperous economy. We got freedom from Hindus, we  got freedom from British, we have our own homeland, we will have our own economy, now this is a beautiful name. In seventy-four years we have not seen Islam, in seventy-four years we have not seen democracy and in seventy-four years when we look at the economy of this country then the same question will arise. Please tell, whats the story of them big puppys .............. if we don't achieve any of these three goals then we can see that our economies have moved on and we are moving backwards. Where China has reached, where Malaysia stands, where India stands, where Bangladesh stands. And where do we stand in these economies? All of this is a question mark for us as a nation, so we have to wonder if the three goals we set out were really made for that purpose

 In this country we see martial law, in this country we see the supremacy of the army, journalism is also in their hands, parliament is also in their hands,It considers the civil (سول) administration as their slave,it has no status. In his view, and in politicians, if you want to govern, you have to be present at their door. We beg from them to get power, where is democracy?The Constitution of Pakistan was drafted in 1973, and the Islamic Ideological Council was formed in 1973 to make recommendations for Islamic legislation, which would include scholars from every school of thought, as well as constitutional and legal experts. To date, there has not been a single legislation, not even a single legislation. Now tell me, what will the class that thought that this country is made for Islam think after that? If the country is built for democracy, then read the history, how old are the martial law and how old are the parliaments and then that parliament, maybe our young generation in the past, they have not seen but now we are seeing, So my brothers! The previous parliament was almost the same as the previous one, and if someone showed a little bit of self-interest, someone tried to convince me that I was the chief executive, then you know what they did

I found it strange to read the statement that day, the United Nations had given or I do not know the United States had given that if the Taliban forcibly established a government in Afghanistan, we will not recognize, today you are giving this statement Ayub Khan Did you support martial law? Wasn't it a government of oppression? You supported Zia-ul-Haq's government. Wasn't it a government of oppression? You have supported Musharraf's government since 9/11. Wasn't it a government of oppression? You see this oppression in Afghanistan (laughs). So the standards are different in the world, where is our foreign policy? There has been such a big change in our neighborhood, the Security Council is meeting in Pakistan, a key stakeholder in the region, and your envoy is not allowed to attend, and the envoy is far from here. Look at all the foreign guests coming like Oja, they are taking guidance from them, they are giving them advice, the government, I have been saying for some ten to fifteen years that there is an unnecessary element of our Pakistani politics, today In practice, it seems to be an unnecessary factor. When there is such a dummy government in Pakistan, there will be no democracy, if there is no democracy, there will be no journalism. So why is China complaining about Pakistan today? What they invested in Pakistan, this government turned the tide on the whole investment.And today, for Pakistan, whether for another place or not, the standard of American friendship for Pakistan is C-Pac

We have to do micro level and medium level trade and Baba does macro level and medium level trade with the outside world? It is managed by the public itself. It is managed by the public of the state. If we have to do business with the world, then the United States also does it with the help of outside. The companies of the country are institutions. Where do we stand? Where have we been raised? And then we should be asked to allow such a government to fulfill its mandate. Now where will the problems of completing and extending the term come from? Where has the country gone inside the country? We are loyal to the country, but what is the standard of loyalty? In the time of the British, the loyalists of India were called traitors and the loyalists were only those who were loyal to the British. Do we still have the same criteria for loyalty to become loyal to an institution? That's all right, loyalty to Pakistan has no value, it has no status. What is the situation now, look at today's situation when 17,000 employees were fired a few hours before the exact retirement of a judge. Didn't they try to oil themselves in front of their children on the streets of Islamabad? You are prioritizing death over life. Your children's hunger is not being tolerated, they are not being seen. There are more than fifty institutions in this country where people have been evicted. If seventeen thousand people become unemployed, each If there is a family of five or six people behind, then you can estimate how many people we have made unemployed. They have become a dream and will give one crore jobs

One crore jobs! First of all, why did we say that? Secondly, why did we believe this

Seventy-four years have passed since 1947. The total number of jobs in Pakistan, from large to small, is below one crore. It has not gone up to seventy-four years. How many houses were built and how many were demolished? People were displaced. No foreign policy, no domestic policy. We have to get out of this environment, but then we have to get out with a commitment. The people of Pakistan are held responsible for forming the government by their vote but their vote has been stolen. Is the name of In this regard, you have raised the banner of your freedom, your freedom today. InshaAllah, we support the freedom movements of the subjugated nations all over the world. Will? God willing, we are with you, side by side. There should be dignity in everything. I also say about journalism that journalism is a trust and honesty is a condition for trust. Do not run the channel. The Prophet (peace and blessings of Allah be upon him) said that it is enough for a person to be a liar to convey what he hears to others. Don't be discouraged,Rather, the teaching of Islam is to cover the sinner, not to cover him, but here, When Islam comes, the thief's hand will be cut off. When Islam comes, obviously, he will be stoned. We call it the Islamic system! I ask you, you are educated, the school, it is regularly displayed all over the country you introduce this curriculum to children,come to your school for it, now if any of the child does not study, does not remember lessons, does not do  thrir homework and the teacher punishes him. Have we ever called this punishment part of the curriculum? We have never called punishments a part of the curriculum in schools, so if there are any punishments in Islam, then make it a part of the Islamic system, that is for the correctness of the system, if necessary. And then Islam's interest is to avoid punishment, not to punish. So we should also base our journalism on the lines in which no one's character is misrepresented, if there is such a news then try to share the correct news, in putting the wrong news in the desire to get ahead of each other, after hours,the you will  apologize for that was wrong news. So then we have a dignified type of journalism, and the same should be the case with politics, don't tell the truth in front of the nation, say something that you can give hope to the people and establish a government on that hope even if you are in this position. May or may not All the government needs is a lie, the truth, everything becomes legitimate for it, then this is what is happening in front of you today. Talk big and negate everything, there is no ability and capacity to govern and we need a ruler not that who is a dummy,that in fact we will go. So in that sense, of course, our country needs reform. In politics, in journalism, in the bureaucracy, in the establishment, and when we perform our duties within our constitutional ambit, the country will move forward peacefully. We must learn from others. In a country where there is oppression, what has happened to the nations? Where are those nations?

May Allah Almighty keep Pakistan radiant, may Allah guide Pakistan on the path of development and may Allah Almighty provide a peaceful system to every person of Pakistan

 Thank you very much again. Praise be to Allah, the Lord of the world

Recorded by: #MuhammadRia

Translated By Obaid khan

#TeamJuiSwat 


أمير جمعية علماء الإسلام مولانا فضل الرحمن يخاطب مؤتمرا صحفيا في نادي الصحافة الوطني بإسلام أباد بحضور رؤساء المنظمات الصحفية بخصوص حقوق الصحفيين

3 سبتمبر 2021 یوم الجمعة۔


 بسم الله الرحمن الرحيم

 نحمدہ ونصلي علي رسوله الكريم ۔

ولكن اما بعد!

 لقد كنت أحضر نادي الصحافة الوطني إسلام أباد من قبل واليوم قمتم بتكريمي مرة أخرى. السيد أفضل بات(بٹ) ، فريقه بالكامل ، اراکین منظمته المحترمون ، 

أشكركم جميعًا مرة أخرى. 

شاركتمونی في مجلسکم هنا ومنحني الفرصة أن اقول شیأً۔

 واشکر خاصة للسيد ناصر زهري على ذكر العلاقة القديمة لملتان. وذكر حياة المفتي صاحب مليئة بالنضال. ويذكرنا بماضينا. لا شك أن الدول تعمل في ظل نظام واحد ، فهي لا تدير الدول من بالانتشار؟

 وما يجب أن يكون أسلوب الحكم ، وقدأعطى الله هذه الإختیار للملة لتقرير نظام حكم لأنفسھم؟

 لدينا دستورنا الذي نفسره على أنه اتفاقية تنمية داخل الأمة بأسرها ، ونفسره كميثاق ويحدد نطاق صلاحيات كل مؤسسة ، إذا بقينا في نطاق اختصاصنا ، ولا توجد صعوبة في أداء واجبات المرء. يحدث الفساد عندما نذهب إلى علاقة بعضنا البعض ونستولي على سلطتها ودورها. يحدث الفساد عندما تجد المؤسسة نفسها.

 لنفترض أن المتعصبين وجميع المؤسسات هم تابعون له. لا يوجد حد للرغبات البشرية ، ولكن من أجل حصر الرغبات في مجال معين ، يتم سن القانون ، يتم وضع القانون ، يتم وضع الدستور. عندما دعاني إلى منزله ، قلت إنه حيث توجد سياسة وبيئة ديمقراطية ، توجد صحافة ، حيث توجد ديكتاتورية(ڈیکٹیٹرشپ) ، ولا توجد صحافة ، ولا توجد ممالك ، ولا توجد صحافة. الصحف تطبع بأمر من الديكتاتوريين والملوك ، وتم طباعة الصحف الكبيرة بأعداد كبيرة من صحف دول مثل بلدنا ، واستخدم فيها ورق عالي الجودة ، كما أن جودة صحفنا رديئة للغاية وحجمها منخفض.

 نعم ، لكن الجمهور يقرأها ، يحصل الناس على الأخبار. لقد كنت طالبًا في ملتان منذ أن رأيت حركات باسم حرية الصحافة ، يذهب الأشخاص الكبار إلى السجن ، ولا أتحدث فقط عن الصحافة ، بل أنا أيضًا في بيئة السياسيين. أرید جواب سؤال ،نحن نجتھد بخلاف الدیکتاتورین، وقبضته تزداد قوة. ماهو السبب؟ اعذروني انا عامل انا ناشط سياسي هذه الخرافات تعود الى الوراء ورحلتنا دائما الى الوراء والسبب الأصلی اننا لسنا ملتزمين بصوتنا وشعارنا. نحن نتنازل وتعلم هذه القوى أن على السياسيين عقد تجمعات ، ومسيرات ، والذهاب إلى السجون ، وعليهم الجلوس معنا لتقديم تنازلات ، وعلينا أن نتوسل للسلطة. كيف نخرج من هذا الآن؟ هذا هو السؤال الأهم الذي لم يُطرح في تاريخ باكستان الممتد 74 عامًا. يبدو أننا كدولة لم نفهم باكستان على الإطلاق ، فنحن نعاني من تهاون كبير ، فهل يجب أن نغير تفكيرنا مرة أخرى؟ يقال إن ثلاثة أشياء هي الأساس الذي قامت عليه باكستان إلى الوجود والأشخاص ذوي الأيديولوجيات(نظریات) المختلفة في باكستان ، تشرح سبب إنشاء باكستان على أساس أولوياتهم الخاصة. رجال الدين يقولون أنها صنعت للإسلام فماذا تعني باكستان بالله؟ يقول البعض إنها صُنعت من أجل الديمقراطية والبعض يقول إنها صنعت من أجل اقتصاد مزدهر.

 سوف نحصل على الحرية من الهندوس(ہندوستان) ، وسوف نحصل على الحرية من البريطانيين ، وسيكون لدينا وطننا الخاص ، وسيكون لدينا اقتصادنا الخاص ، والآن هذا اسم جميل.

  خلال أربعة وسبعين عامًا لم نشهد الإسلام ، ولم نشهد في أربعة وسبعين عامًا ديمقراطية ، وفي أربعة وسبعين عامًا عندما ننظر إلى اقتصاد هذا الدولة ، سيظهر نفس السؤال. من فضلك قل ، ما هي قصة الجراء الكبار ... المنطقة تتحرك للخلف. حيث وصلت الصين ، حيث تقف ماليزيا (ملائشیا)، حيث تقف الهند ، حيث تقف بنغلاديش.(بنگلہ دیش) وأين نقف في هذه الاقتصادات؟ كل هذا يمثل علامة استفهام بالنسبة لنا كأمة ، لذلك علينا أن نتساءل عما إذا كانت الأهداف الثلاثة التي حددناها قد صُنعت بالفعل لهذا الغرض. في هذا البلد نرى الأحكام العرفية ، في هذا البلد نرى تفوق الجيش ، والصحافة في أيديهم أيضًا ، والبرلمان(پارلیمنٹ) أيضًا في أيديهم ، وتعتبر إدارة سيول عبدًا لها ، وليس لها أي مكانة. في رأيه ، وفي السياسيين ، إذا كنت تريد أن تحكم ، فعليك أن تكون حاضرًا عند أبوابهم. نتوسل منهم للوصول إلى السلطة فأين الديمقراطية؟ تمت صياغة دستور باكستان في عام 1973 ، وتشكل المجلس الأيديولوجي الإسلامي(اسلامی نظریاتی کونسل) في عام 1973 لتقديم توصيات للتشريع الإسلامي ، والذي سيشمل علماء من كل مدرسة فكرية ، فضلاً عن خبراء دستوريين وقانونيين. حتى الآن لا يوجد تشريع واحد ولا حتى تشريع واحد .. الآن قل لي ماذا ستفكر الطبقة التي اعتقدت أن هذا البلد مصنوع للإسلام بعد ذلك؟ إذا تم بناء البلد من أجل الديمقراطية ، إذن اقرأ التاريخ ، كم عمر الأحكام العرفية (مارشل لاء)وكم عمر البرلمانات ثم ذلك البرلمان ، ربما جيلنا الشاب في الماضي ، لم يروا ولكننا الآن نشهد ، لذا الإخوة! كان البرلمان السابق هو نفسه البرلمان السابق تقريبًا ، وإذا أظهر شخص ما القليل من الاهتمام الذاتي ، حاول أحدهم إقناعي بأنني كنت الرئيس التنفيذي ، فأنتم تعلمون ما فعلوه.

 لقد وجدت أنه من الغريب قراءة البيان في ذلك اليوم ، الذي أعطته الأمم المتحدة أو لا أعرف أن الولايات المتحدة قد أعطت أنه إذا أقامت طالبان حكومة بالقوة في أفغانستان ، فلن نعترف ، اليوم أنت تقدم هذا البيان أيوب خان هل أيدت الأحكام العرفية ألم تكن حكومة ظلم؟ لقد دعمت حكومة ضياء الحق ألم تكن حكومة ظلم؟ لقد دعمتم حكومة مشرف منذ الحادي عشر من سبتمبر ، أليست حكومة قمع؟ ترى هذا الاضطهاد في أفغانستان (يضحك). إذن المعايير مختلفة في العالم ، أين سياستنا الخارجية؟ لقد حدث مثل هذا التغيير الكبير في منطقتنا ، مجلس الأمن يجتمع في باكستان ، صاحب مصلحة رئيسي في المنطقة ، ومندوبك غير مسموح له بالحضور ، والمندوب بعيد عن هنا في بلدك. انظر كم عدد الضيوف الأجانب يأتون مثل أوجا ، إنهم يأخذون التوجيه منهم ، ويقدمون لهم النصيحة ، والحكومة ، وأنا أقول منذ ما يقرب من عشرة إلى خمسة عشر عامًا أنه عنصر غير ضروري في سياستنا الباكستانية ، اليوم في الممارسة العملية ، على ما يبدو أن تكون عاملاً غير ضروري. عندما تكون هناك حكومة وهمية كهذه في باكستان ، لن تكون هناك ديمقراطية ، وإذا لم تكن هناك ديمقراطية ، فلن تكون هناك صحافة ، ونحن طعم نفس القارب. فلماذا تشكو الصين من باكستان اليوم؟ ما استثمره في باكستان ، قلبت هذه الحكومة التيار على كل الاستثمار ، واليوم ، بالنسبة لباكستان ، لمكان آخر أو لا ، لتدمير معيار الصداقة الأمريكية لباكستان ، C-Pack. نعم ، نحن نتراجع. من ناحية ، نحن نؤجل المشروع الضخم من ناحية أخرى ، ومن ناحية أخرى ، فإننا نعطي فلسفة مفادها أن كل شخص في العالم جاهل ، لا يمكن لباكستان تحمل تكاليف المشاريع الضخمة.

 يجب أن نتداول على المستوى الجزئي والمتوسط ​​، هل يتاجر بابا على المستوى الكلي والمستوى المتوسط ​​مع العالم الخارجي؟ إنه يدار من قبل الجمهور نفسه ، ويديره شعب الدولة. إذا كان علينا أن نتعامل مع العالم ، فإن الولايات المتحدة تفعل ذلك أيضًا بمساعدة من الخارج. هناك شركات متعددة الجنسيات وهم يغادرون. أين نقف؟

  أين نشأنا؟  

وبعد ذلك يجب أن يُطلب منا السماح لمثل هذه الحكومة بإكمال ولايتها.

  الآن ، عندما يتعلق الأمر بإكمال المدة وتمديدها ، أين ستذهب الدولة داخل البلد؟ نحن مخلصون للوطن ولكن ما هو معيار الولاء؟ في زمن البريطانيين ، كان الموالون للهند يُطلق عليهم الخونة وكان الموالون فقط أولئك الموالين للبريطانيين. هل لدينا نفس المعايير بالنسبة للمؤمنين اليوم؟ من الصواب أن تكون مخلصًا لمؤسسة ، والولاء لباكستان ليس له قيمة ، وليس له مكانة. ما هو الوضع الآن؟ انظر إلى حادثة اليوم عندما تم طرد 17000 موظف قبل ساعات قليلة من التقاعد الدقيق للقاضي. ألم يحاول إضرام النار في نفسه أمام أبنائه في شوارع إسلام آباد؟ أنت تعطي الأولوية للموت على الحياة. لا يتم التسامح مع جوع أطفالك ، ولا يتم رؤيتهم. هناك أكثر من خمسين مؤسسة في هذا البلد تم فيها طرد الأشخاص. إذا أصبح 17 ألف شخص عاطلين عن العمل ، فكل واحدة إذا كانت هناك أسرة مكونة من خمسة أو ستة أشخاص خلفنا ، ثم يمكنك تقدير عدد الأشخاص الذين جعلناهم عاطلين عن العمل. لقد أصبحوا حلما وسيعطون كرور وظيفة واحدة.

 وظيفة واحدة كرور! بادئ ذي بدء ، لماذا قلنا ذلك؟ ثانيًا ، لماذا صدقنا هذا؟ لقد مرت أربعة وسبعون عامًا منذ عام 1947. العدد الإجمالي للوظائف في باكستان ، من الأكبر إلى الأصغر ، أقل من كرور روبية واحد ، ولم يرتفع ، ما المبلغ الذي حسبته؟ كم عدد المنازل التي تم بناؤها وكم عدد المنازل التي تم هدمها؟ نزح الناس. لا سياسة خارجية ولا سياسة داخلية. علينا الخروج من هذه البيئة مع الالتزام. يتحمل الشعب الباكستاني مسؤولية تشكيل الحكومة بتصويتهم ولكن صوتهم سُرق ، ويجب إحضار الحكومة لأنهم يقولون إنه ليس اسمًا يتم وضعه في صندوق الاقتراع عن طريق إزالته من صندوق الاقتراع. هو اسم العد. لذا في هذا الصدد رفعت راية حريتك ، حريتك اليوم إن شاء الله ندعم حركات الحرية للدول المقهورة في جميع أنحاء العالم ، ثم في باكستان ، فلا نؤيد حركة الحرية لإخواننا. ويل؟ إن شاء الله معكم جنباً إلى جنب. يجب أن تكون هناك كرامة في كل شيء ، كما أقول عن الصحافة أن الصحافة أمانة والصدق شرط للثقة لا تدير القناة.

  قال النبي صلى الله عليه وسلم: کفی بالمرء کذبا أن یحدث بکل ماسمع

  لا تحط من الشخصية ، بل تعاليم الإسلام ، حجاب الخاطئ ليس الحجاب ، بل الحجاب الموجود هنا ، إن وجد ، فالصحافة قد انتهت. لكن لا يزال يتعين علينا المضي قدمًا مع مراعاة مبادئ شريعتنا ، فهو دين ذو أخلاق عالية جدًا ، ونحن نخطئ في تفسير الإسلام ، عندما نقول بركات الإسلام عندما يأتي الإسلام ، فسيتم اتخاذ القصاص ، إذا جاء الإسلام ، ستقطع يد السارق ، وعندما يأتي الإسلام من الواضح أنه سيرجم. نحن نسميها النظام الإسلامي! أسألك أنك متعلم ، المدرسة لديها منهج مدرسي يتم عرضه بانتظام في جميع أنحاء البلد الذي تقدم فيه هذا المنهج ، يأتي الأطفال إلى مدرستك من أجله ، الآن إن وجد الطفل لا يدرس ، لا يتذكر الدروس ، لا يأتي المنزل من العمل والمعلم يعاقبه هل سبق أن أطلقنا على هذا العقاب جزء من المنهج؟ لم نقم مطلقًا بتسمية العقوبات بأنها جزء من المناهج الدراسية في المدارس ، لذلك إذا كان هناك أي عقوبات في الإسلام ، فعندئذ لجعلها جزءًا من النظام الإسلامي ، وذلك من أجل صحة النظام ، إذا لزم الأمر. ومن ثم فإن مصلحة الإسلام هي تجنب العقاب وليس العقاب. لذلك يجب أن نبني صحافتنا أيضًا على تلك السطور التي لا يتم فيها تحريف شخصية أحد ، وإذا كان هناك أخبار ، فهناك أخبار صحيحة ، في وضع الأخبار الخاطئة في الرغبة في التقدم على بعضنا البعض ، والاعتذار بعد ساعات من ذلك. كانت أخبار سيئة. إذن ، يجب أن يكون لدينا نوع من الصحافة الكريمة ، ويجب أن يكون الأمر كذلك مع السياسة. لا تقل الحقيقة أمام الأمة ، قل شيئًا يمكنك أن تمنح الأمل للشعب وتشكل حكومة على هذا الأمل حتى لو كنت في هذا الوضع .. ربما أو لا كل ما تحتاجه الحكومة كذب ، الحقيقة ، كل شيء يصبح شرعياً لها ، فهذا ما يحدث أمامكم اليوم. تحدث بشكل كبير ونفي كل شيء ، لا توجد قدرة وقدرة على الحكم ونحتاج إلى حاكم هو دمية ، حتى نذهب في الواقع. وبهذا المعنى ، بالطبع ، يحتاج بلدنا إلى الإصلاح. في السياسة ، في الصحافة ، في البيروقراطية (بیوروکریسي)، في المؤسسة ، وعندما نؤدي واجباتنا ضمن نطاقنا الدستوري ، فإن البلاد ستمضي قدمًا بسلام. يجب أن نتعلم من الآخرين ، ما هو مصير الأمم في بلد يوجد فيه ظلم؟ أين تلك الدول؟

  الله سبحانه وتعالى يجعل باكستان متألقة ، وفق الله لباكستان على طريق التنمية ، ووفّر الله تعالى نظامًا سلميًا لكل فرد في باكستان. شكرا جزيلا مجددا.  

واٰخر دعوانا ان الحمد للہ رب العلمین۔

مترجم : مولانا یحییٰ احمد

 #TeamJuiSwat 

0/Post a Comment/Comments