لیاقت باغ راولپنڈی، قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا ختم نبوت کانفرنس سے خطاب 6 ستمبر 2021

لیاقت باغ راولپنڈی، قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا ختم نبوت کانفرنس سے خطاب 
6 ستمبر 2021
خطبہ مسنونہ کے بعد
گرامی قدر جناب حضرت ناصرد الدین خاکوانی صاحب امیر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے روح رواں جناب مولانا اللہ وسایا صاحب، حضرات علمائے کرام راولپنڈی کے تاجر تنظیموں کے قائدین جناب شرجیل میر صاحب، جناب شاہد غفور پراچہ صاحب، ملک ارشد اعوان صاحب، شمع رسالت کے پروانوں تاجدار ختم نبوت آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموس کے لیے قربانی دینے والوں کلمہ حق کی سربلندی کے لئے خون کا نذرانہ پیش کرنے والوں، میرے بزرگوں، میرے جوانوں، میرے دوستو اور بھائیو! میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں کہ آج انہوں نے اس مقدس عنوان پر جو عظیم الشان کانفرنس منعقد کی، مجھے بھی اس قابل سمجھا کہ میں ان کے اس اجتماع میں شریک ہوجاؤں اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا حقدرا بن جاؤں۔ 
میرے محترم دوستو! مجھے اعتراف ہے اس بات کا کہ عقیدہ ختم نبوت کے قلعے میں نقب لگانے والوں کو روکنے اور عقیدہ ختم نبوت کے سرحدات کی تحفظ کے لیے مجلس تحفظ ختم نبوت کے کارکن ہمیشہ ایک چوکیدار کا کردار ادا کرتے ہیں۔ امت غافل ہوجائے تب بھی یہ جاگتے رہتے ہیں۔ آج چھ ستمبر کے حوالے سے جب ہم سن 1965 کے ہندوستان کی جارحیت کے مقابلے میں افواج پاکستان کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جن کی قربانیوں نے، جن کے ضرب مومن نے ہندوستان کو دندان شکن جواب دیا تھا اور پاکستان کے جغرافیائی سرحدات کا تحفظ کیا تھا، آج اسی مناسبت سے میں ختم نبوت کے ان پروانوں کو خراج عقیدت پیش کرتاہوں جنہوں نے ہمیشہ پاکستان کے نظریاتی سرحدات کے لیے چوکیداری کا کردار ادا کیا ہے، سپاہی کا کردار ادا کیا ہے۔ 
میرے محترم دوستو! برصغیر کی تاریخ کا سب سے بڑا فتنہ جب قا د یان کی سرزمین سے اٹھا تو اس کے سرکوبی کے لیے پنجاب کے علماء میدان میں نکلے، اور اس طبقے کے سرخیل حضرت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ میدان میں آئے اور اس فتنے کو للکارا اور پوری قوم نے ان کی آواز پر لبیک کہا۔ پارلیمنٹ میں جب مسئلہ حل ہوا، قا د یا نی ہو یا لا ہوری، غیر مسلم قرار دیے گئے یقیناً ان تمام اکابرین کی روح کو تسکین ہوئی ہوگی جنہوں نے اس عقیدے کی تحفظ کے لیے بہت بڑی قربانیاں دی تھی اور آج کا اجتماع بھی ان کی پاک ارواح کی تسکین کا سبب بنے گا، اللہ تعالیٰ ایسا ہی فرمادیں۔ 
میرے محترم دوستو! مولانا اللہ وسایا صاحب نے پچھلے حکمرانوں کا تذکرہ کیا، مختلف ادوار کا تذکرہ کیا لیکن جس سنجیدگی کے ساتھ آج کے اس دور میں، موجودہ حکمرانوں کے دور میں ہم پر امتحان آیا، شاید اس بڑا امتحان اس سے پہلے نہیں آیا تھا، جس کے ایجنڈے پر یہ بات موجود ہو کہ ناموس رسالت کے قانون کو ختم کیا جائے، جن کے ایجنڈے پر یہ بات موجود ہو کہ قا د یا نیو ں کی غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی آئینی شق ختم کیا جائے یا انہیں غیر مؤثر بنایا جائے، ہم سیاسی کارکن ہیں اور ہم ان سیاسی غلام گردشوں میں ایک زمانے سے اوارہ گردی کرکے نظر آرہے ہیں، ہمیں پتہ ہوتا ہے کہ ان غلام گردشوں کے کس کوچے میں کون کیا کر رہا ہے، ان کے مقاصد کیا ہیں، ہم اللہ کے شکر گزار ہیں، اور میں علی الاعلان آپ کے سامنے اپنے رب العالمین کا شکر ادا کرتے ہوئے آپ کو اطمینان دلانا چاہتا ہوں کہ ہم نے ان کے ایجنڈے کو ناکام بنایا ہوا ہے۔ اب وہ بڑی معصومیت کے ساتھ اپنا چہرہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہمارا تو ایسا کوئی پروگرام نہیں تھا، تمہیں جتنا میں جانتا ہوں شاید کوئی نہیں جانتا، تمہاری اندر کی خباثتوں کو، اور تمہاری ذہنی غلاظتوں کو جتنا میں سمجھتا ہوں شاید کوئی دوسرا مولوی اتنا سمجھتا۔ مجھے یہ بھی پتہ ہے کہ عالمی سطح پر تمہارے پشت پر کون ہے، مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ کس لابی کی تم یہاں نمائیندگی کرکے آئے، کس عالمی قوت کی دباؤ پر تمہیں دھاندلی کرکے اقتدار حوالے کیا گیا، ہمیں یہ سب معلوم تھا لیکن عالمی قوتوں کے مقابلے میں ان فقیروں کی جماعت نے اپنے رب العالمین پر اعتماد کرکے عالمی آقاؤں کو بھی چیلنج کیا، اور تمہیں بھی چیلنج کیا اور تمہارے عالمی آقاؤں کے ایجنڈے کو بھی پاکستان میں کامیاب نہیں ہونے دیا۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ برطانوی پارلیمنٹ نے 42 ارکانِ پارلیمنٹ کے دستخطوں سے جو ایک زخین کتاب رپورٹ کی صورت میں شائع کی، سن 1954 سے یعنی سن 1953 کی تحریک کے بعد سے سالانہ رپورٹ آج تک تفصیل کے ساتھ شائع کی، اس روپورٹ میں یہ نہیں کہا کہ جمعیت علماء نے کیا کیا؟ اس رپورٹ میں یہ نہیں کہا گیا کہ احرار اسلام نے کیا کیا؟ اس رپورٹ میں یہ نہیں کہا کہ عالمی مجلس تحفظ نے کیا کیا؟ اس میں یہ نہیں کہا گیا کہ کونسی مذہبی جماعت نے کیا کیا؟ اس میں کہا گیا کہ پاکستان کے ریاست نے قا د یانیو ں کے ساتھ زیادتیاں کی ہیں اور جبر کیا ہے اور ظلم کیا ہے۔ پاکستان کو بحیثیت ریاست ذمہ دار قرار دینے کی رپورٹ آئی، ہم نے بار بار کہا کہ ریاست جواب دیں میری ریاست اور اس کی نمائندہ حکومت کیوں چپ ہے کیوں ان کی زبان کو گھن لگ گیا ہے؟ مسئلے کو زرا سمجھنے کی کوشش کریں ہم جلوسوں میں جواب دے رہے ہیں، جبکہ وہ ذمہ دار ریاست کو قرار دے رہے ہیں اور ریاست کیوں خاموش ہے؟ یہ خاموشی ایک مجرمانہ خاموشی ہے۔ 
میرے محترم دوستو! جب ہم ایسی باتیں کرتے ہیں تو ایک طبقہ پاکستان میں موجود ہے جو فوراً ہماری طرف مخاطب کرکے کہتے ہیں کہ یہ مذہبی کارڈ استعمال کرتے ہیں، مذہبی کارڈ کیا ہوتا ہے؟ مذہب ایک نصب العین ہے، دین اسلام ہمارے ایک نصب العین ہے، یہ کارڈ نہیں ہے، یہ نظریہ ہے، یہ عقیدہ ہے اور اس کے غلبے کی جنگ لڑتے رہیں گے، کسی کا باپ بھی ہمیں اس نظریے سے دستبردار نہیں کرسکتا۔
تو میرے محترم دوستو! ہم تو پاکستان میں ہمیشہ میدان عمل میں رہے ہیں، کبھی پیچھے نہیں ہٹے، لیکن عالمی قوتوں نے اف غا نستا ن پر یلغار کیا، وہاں کی حکومت اور اما رت اسلا میہ کا خاتمہ کیا، بیس سال جنگ لڑی گئی، اور بیس سال کے بعد اب عالمی قوتیں شکست کھا کر چلی گئی، کچھ ہمیں سیاسی نتائج اخذ کرنے ہونگے، برطانیہ نے اف غا نست ان پر قبضہ کیا، وہاں شکست کھائی، شکست کھانے کے بعد وہ ہندوستان پر اپنے قبضے کو برقرار نہیں رکھ سکا۔ مسئلہ صرف اف غا نستا ن کا نہیں، جس طاقت کے غلبے کا غرور لے کر تم ایک کمزور قوم پر چھڑائی کرتے ہو، کمزور قوم صرف اپنی استقامت دکھاتی ہے، اور اپنے رب پر توکل کرتی ہیں۔ سویت یونین آیا، اس نے اف غا نستا ن پر قبضہ کیا لیکن شکست کھائی نتیجہ آپ نے دیکھا کہ سویت یونین اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکا۔ آج ہم یہی پیغام امریکہ کو بھیجنا چاہتے ہیں اور علی الاعلان کہتا ہوں کہ اف غا ن ستان میں امریکہ شکست کھاجانے کے بعد اور شکست کھا کر بھاگ جانے کے بعد اس کو اب حق حاصل نہیں کہ وہ خود کو دنیا کی سپر طاقت کہہ سکے، سپر طاقت کا تمغہ اس کے سینے سے اتر چکا ہے۔ پاکستانیوں ڈرتے کیوں ہو؟ جب ہم آپ کے سٹیج پہ آتے ہیں، تو تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ ختم نبوت ایک غیر سیاسی مسئلہ ہے خالصتاً عقیدے کا مسئلہ ہے اور پھر ساتھ ساتھ آپ کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں ہم نے قا دیا نیو ں کو غیر مسلم اقلیت قرار دلوایا، تو پھر سیاست سے جڑا ہوا مسئلہ ہے نا۔ اور میں تو صرف پاکستان کی پارلیمنٹ کا مثال نہیں دونگا، جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ختم نبوت کا تذکرہ سیاست کی ذیل میں کیا، فرمایا بنی اسرائیل کی سیاست انبیاء کرتے تھے، سیاست کا معنیٰ ملک کی ملی اور اجتماعی امور کا انتظام اور انصرام، یہ انبیاء کے ہاتھ میں ہوتا تھا، ایک پیغمبر جاتے تھے دوسرا ان کی جگہ لیتا تھا، اور اب میں آخری پیغمبر ہوں یعنی اب دنیا کے انتظام و انصرام اور ان کا سیاسی نظام اب میرے ہاتھ میں ہے، میرے بعد نبی نہیں آئے گا البتہ میرے نائب آئیں گے، خلیفہ آئیں گے اور بڑی تعداد میں آئیں گے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنی ختم نبوت کا ذکر سیاست کی ذیل میں فرمائے، ہم بھی پاکستان میں اپنی فتح کے جھنڈے اٹھاتے ہیں، پارلیمنٹ کے حوالے سے اٹھاتے ہیں، اور پھر جب الیکشن ہوتا ہے تو راولپنڈی والے ایک بھی مولوی کو ووٹ دینے کو تیار نہیں! تو پھر ہمارا حق بنتا ہے آپ کے اوپر یا نہیں؟ میں آپ سے کہنا چاہتا ہوں، تمام تاجروں سے کہنا چاہتا ہوں، سیاسی قوت بناؤ، سیاسی قوت نہیں ہوگی تو ساری زندگی غلام ابن غلام ابن غلام بن کر رہو گے۔ آزادی و حریت یہ میری تاریخ ہے، آزادی و حریت کے لیے قربانیاں یہ میرے اکابرین سے ملی ہیں اگر میں اپنی آزادی اور حریت پر کمپرومائز کرتا ہوں تو مجھے اپنے اکابر کا نام لینے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ ایک کمٹمنٹ ہونی چاہیے، کوئی ہمیں شکست نہیں دے سکتا، جدوجہد ہماری ذمے ہے نتیجہ اللہ کے ہاتھ میں ہے، لیکن استقامت ہے نتیجے میں اللہ کامیابی ضرور عطاء کرتا ہے۔ 
میرے محترم دوستو! اور آج تو پاکستان میں پارلیمنٹ بھی ایسی پارلیمنٹ ہے کہ کسی سنجیدہ مجلس میں اس کا تذکرہ کرنے پر ہنسی آتی ہے، ڈمی قسم کا پارلیمنٹ اور ڈمی قسم کی حکومت اور قوم کے لیے ایک شرمندگی، اب خود کہتا ہے کہ امریکہ کا صدر مجھے فون نہیں کرتا، اور پھر خود کہتا ہے کہ مودی میرا فون نہیں اٹھاتا۔ یہ ہے خارجہ پالیسی؟ یہ ہے دنیا کی نظروں میں پاکستان کی اہمیت؟ اور آج جب اف غا نستا ن کی صورتحال بدلی، تو ظاہر ہے کہ پاکستان اس خطے کا اہم ترین سٹیک ہولڈر ہے لیکن سلامتی کونسل کا فوری اجلاس جو اف غا نستا ن کے حوالے سے بلایا گیا، پاکستان کے مندوب کو اس میں بیٹھنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ یہ ہماری خارجہ پالیسی ہے؟ ہم نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیشن میں ایک قرارداد پیش کی اور قوم کو کیا کہا؟ قوم سے کہا گیا ہمارے پاس 57ممالک کا ووٹ ہیں، 57 ممبر ہمارے ساتھ ہیں۔ بعد میں پتہ چلا کہ اس فورم کے انسانی حقوق کمیشن کے کل اراکین ہی 47 ہے 57 ہے ہی نہیں۔ یہ ان کی صلاحیتیں ہیں اور ان صلاحیتوں کی بنیاد پر وہ قوم کو آگاہ کرتے رہتے ہیں۔  اور پھر پتہ چلا کہ 47 ممالک میں اور اس فورم پر صرف 16 ممبران کے دستخط چاہئیے تب جا کر قرارداد پیش کی جاسکتی ہیں، ہمیں قرارداد پیش کرنے کے لیے 16 اراکین بھی نہ ملے۔ کہاں کھڑے ہیں ہم لوگ؟ ہم نے اپنے گرد و پیش کو ناراض کیا ہے، ہمیں ایک مستحکم نظام چاہیے جو آپ کے عقیدے کابھی تحفظ کرے اور پاکستان کی مفادات کا بھی تحفظ کرے۔ صرف نعروں سے کام نہیں چلتا، زبانی گفتگو کسی کام کی نہیں ہوتی جب تک کہ اس زبانی گفتگو کے پیچھے آپ کا عقیدہ نہ ہو اور آپ کا عہد و پیمان نہ ہو۔ ہم ملک کو کمزور رہے ہیں، پاکستان کی معیشت جو پچھلی حکومت نے سالانہ ترقی کا تخمینہ ساڑھے پانچ فی صد اور اگلے سال کے لیے ساڑھے چھ فی صد رکھا گیا تھا، حکومت تبدیل ہوئی اور ہمارا سالانہ ترقی کا تخمینہ زیرو سے نیچے آگیا۔ یہ دن بھی ہم نے دیکھے ہیں، معیشت کمزور اور آپ دنیا میں تعلقات قائم بناسکیں گے؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا، غلام بن کر رہو گے۔ تو اس اعتبار سے ہمیں ہمہ جہت دیکھنا ہوگا، ہمیں ملک کی ترقی کا سوچنا ہوگا، ہم پوری ملک میں آئین کی بالادستی چاہتے ہیں، آئین کے اسلامی دفعات کا تحفظ یہ ان شاءاللہ ہماری ذمہ داری ہوگی اللہ کے فضل و کرم سے یہ جنگ لڑتے رہیں گے۔ ہر ملک اور ہر قوم کی ایک شناخت ہوتی ہے، ہمارے پاکستان کی شناخت دین اسلام ہے، مذہبی کارڈ کا کیا معنیٰ؟ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں قرارداد مقاصد پاس ہوتی ہے جس کا مسودہ علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں اور وہ قرارداد نواب زادہ لیاقت علی خان پیش کرتے ہیں وزیر اعظم پاکستان، جس میں اللہ کی حاکمیت کا عہد و پیمان کیا جاتا ہے، اسلامی تعلیمات کے مطابق انفرادی اور اجتماعی زندگی کی بات ہوتی ہے، قوم کے نمائندے اللہ کی نیابت کا مقام اس میں دیا گیا ہے، لیکن مستقل آئین ہمیں ملا سن 1973 میں، سن 1973 میں اسلامی نظریاتی کونسل بنی اور اس لیے بنی تاکہ ان کی سفارشات پر قانون سازی کی جائے جہاں قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون ہے اس کو تبدیل کیا جائے، سن 1973 سے لے کر آج تک، آج تک وہاں پر کوئی  دوسری قانون سازی نہیں ہوئی اسلامی نظریاتی کونسل کے سفارشات کے مطابق۔ اسمبلی ان لوگوں سے بھر دی جاتی ہے کہ جن کو قرآن و سنت میں دلچسپی ہی نہیں ہوتی، تو کیسا آئے گا نظام؟ کیسے آئیگی تبدیلی؟ اور پھر آپ ملک کو مظبوط بنائیں گے، اقتصادی طور پر مظبوط ہونگے تو ساری دنیا آئی گی دوستی کرنے کے لیے ساری دنیا اپ سے دوستی کرنے کو آئیگی، اور آپ قلاش ہونگے تو ساری دنیا تمہیں فتح کرنے کے لیے آئیگی، یہ فرق ہے۔ ہندوستان میں یہی بی جے پی کی حکومت تھی، آپ کی معیشت مظبوط تھی تو واجپائی ان کا وزیر اعظم بس میں سفر کرکے آپ کے لاہور آئے اور آپ سے کہا تھا کہ ہم تجارت کرنا چاہتے ہیں، آلو کا، ٹماٹر کا، پیاز کا تجارت کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن آج وہی بی جے پی ہے اور اس کا وزیر اعظم مودی ہے آپ بتائے کہ پاکستان کے ساتھ اس کا کیا رویہ ہے؟ کشمیر کا کیا حشر نشر ہم نے کیا؟ آج میں آپ کے ا س اجتماع کی وساطت سے مجا ہد ین کشمیر، حریت کانفرنس کے قائدین اور بالخصوص جناب سید علی گیلانی کی وفات پر ان کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ ان کو جوار رحمت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ 
میرے محترم دوستو! ان شاءاللہ اسی عہد کے ساتھ ہم نے آگے بڑھنا ہے اور حوصلہ نہیں ہارنا، ہمت نہیں ہارنا اور انقلاب کے لیے تیار رہو، آگے بڑھنا ہے اور ان شاءاللہ اس پاکستان پر اسلام کا عَلم لہرانا ہے، یہ آپ کی اور ہمارا عہد ہونا چاہیے ان شاءاللہ آگے بڑھیں گے، اللہ اس کانفرنس کو قبول فرمائے، اس میں ہماری شرکت کو قبول فرمائے اور خاکوانی صاحب آپ کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
ضبط تحریر: #محمدریاض 
#TeamJuiSwat

0/Post a Comment/Comments