مفتی محمود کانفرنس پشاور: سربراہ پی ڈی ایم قائدِ جمعیۃ حضرت مولانا فضل الرحمان صاحب کا مکمل خطاب 14 اکتوبر 2021 بروز جمعرات


 مفتی محمود کانفرنس پشاور: سربراہ پی ڈی ایم قائدِ جمعیۃ حضرت مولانا فضل الرحمان صاحب کا مکمل خطاب

14 اکتوبر 2021 بروز جمعرات

خطبہ مسنونہ کے بعد!

جناب صدر محترم! سٹیج پر موجود زعماء قوم، اکابر علماءکرام، بزرگان ملت، میرے دوستو اور بھائیوں اہل پشاور کو اور خیبر پختونخواہ کے مجاہدوں کو اس کامیاب کانفرنس کے انعقاد پر سلام پیش کرتا ہوں. 

حضرت مفتی صاحبؒ کی عنوان سے یہ عظیم الشان کانفرنس در حقیقت اپنے اکابر اور اسلاف اور ان کی تاریخ کو زندہ جاوید رکھنے کا انداز ہے. اور ہمارے اکابر اور اسلاف نے راہِ حق میں جو قربانیاں دی ہے. وہ تاریخ کے آوراق پرثبت ہوچکی ہے.

اور ان شاء اللہ رہتی دنیا تک تاریخ ہمارے اکابر کو نہیں بھلا سکے گی. تاریخ حضرت مفتی صاحب اور اس خطے میں اُن کے کردار کو نہیں بھلا سکے گی.

اور ان شاء اللہ آج جو اُن کے پیروکاران یہاں اس پشاور میں جمع ہیں. ان شاء اللہ یہی پیروکار یہی سرفروش اِس وطن عزیز میں اسلام کا عظیم الشان انقلاب برپا کریں گے.

میرے محترم دوستو! علم و عرفان کی دنیا میں حضرت مفتی صاحبؒ نے اپنا ایک مقام پیدا کیا. اہل علم اور اہل عرفان اُن کے مقام و منزلت کو سمجھتے ہیں. اُنہوں نے دارالافتاء میں بیٹھ کر پوری علمی قوت کے ساتھ جسطرح اُمت کی رہنماٸی کی، جب تک وہ حیات رہے مفتی اعظم پاکستان اُنہی کا ٹاٸٹل رہا تھا. اور پچیس ہزار فتاویٰ اُن کی دستخطوں اور 5نظروں سے گزرے. ایک فتویٰ بھی ایسا نہیں جس پر مفتی صاحب نے کبھی رجوع کیا ہو یا اُس کی ضرورت پیش آئی ہو.

میرے محترم دوستو! آج اگر پاکستان دنیا میں اسلامی جمہوریہ کے طور پر متعارف ہے. اور آج اگر ہم پاکستان کے آئین کو اسلامی آئین کہتے ہیں. یہ حضرت مفتی صاحبؒ کے علمی مقام اور اُن کی تدبر اور حکمت کی مرہون منت ہے. 

اور آج دنیا کوشش کررہی ہے کہ آئین سے اسلامی دفعات نکال دئے جاٸے. پاکستان کے آئین کی اسلامی حیثیت کی بجائےاسے ایک سیکولر آئین بنایا جاۓ. لیکن میں اُن تمام قوتوں کو کہنا چاہتا ہوں کہ آپ کا یہ خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے گا. اور پاکستان ایک اسلامی وطن کی حیثیت میں زندہ اور تابندہ رہے گا. آپ کا یہ عزم مظبوط ہے یا نہیں؟ 

(نعرہ تکبیر. لبیک لبیک)

میرے محترم دوستو! آج قرارداد مقاصد پاکستان کے آئین کا حصہ ہے. اور جس میں اللّٰہ رب العالمین کی حاکمیت کو تسلیم کیا گیا ہے. ہمارے آئین میں یہ بات طے کی گئی ہے کہ اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہوگا. ہمارے آئین میں یہ بات طے کرلی گئی ہے کہ تمام قوانین قرآن و سنت کے مطابق بنے گی. ہمارے آئین میں یہ بات طے ہوچکی ہے کہ قرآن و سنت کے منافی کوٸی قانون نہیں بنے گا.

ہمارے آئین نے عقیدہ ختم نبوت کو اور ناموس رسالت کو تحفظ بخشا ہے. 

اور آج پوری دنیا اور عالمی قوتیں ایک ہی ایجنڈہ رکھتی ہے. اور اُن کا پاکستان کے اوپر مسلسل یہ دباو ہے کہ یہاں آئین میں پاکستان کے اسلامی حیثیت کو ختم کیا جاٸے. توہین رسالت کے انسداد کا قانون ختم کیا جاٸے. ق ا د ی ا ن ی وں کو مسلمان قرار دیا جاۓ. لیکن میں امریکہ سے لیکر یورپی یونین اور پورے عالمی کفر کو بتانا چاہتا ہوں، کہ جب تک پاکستان کے سرزمین پر اسلام کے یہ سرفروش موجود ہیں. تم کچھ بھی کرلو تمہارا انجام بھی وہی ہوگا جو تمہارا انجام ا ف غ ن ستان میں ہوا ہے.

یہاں ایک قوم بس رہی ہے. یہاں بائیس کروڑ مسلمان رہ رہے ہیں. اور ہم نے ڈیڑھ سو سال فرنگی کے خلاف ازادی کی جنگ لڑ کر اپنے قربانیوں کے نتیجے میں آزادی حاصل کی ہے. اور ہم اس آزادی کی حفاظت کریں گے. ہم نہ اسٹیبلشمنٹ کو یہ اجازت دے سکتے ہیں کہ وہ پاکستان کے بائیس کروڑ عوام کے عقیدے اور ایمان کے ساتھ مذاق کرے. نہ ہی موجودہ حکمرانوں کی طرح یہود کے ایجنٹ کو اس بات کی اجازت دے سکتے ہیں، کہ تم پاکستان کے اندر بیرونی ایجنڈے کے تحت اس کی اسلامی شناخت کو ختم کرو.

تم کس نظریے سے آئے تھے. تم کس ایجنڈے سے ائے تھے. اسے سب سے پہلے ہم نے طشت ازبام کیا تھا. تم کبھی ریاست مدینہ کا نام لیکر اپنے اوپر پردہ ڈالتے ہو. آج کل رحمةللعالمین کے نام پر اپنے اوپر پردے ڈال رہے ہیں. تم اتنے ننگے ہوچکے ہو کہ اب تمہیں یہ پردے کوٸی کام نہیں دیں گے.

*"بہر رنگ کے خواہی جامہ بے پوش*

*من انداز قدت را مے شنا سم "*

جیسے بھی لباس پہنوگے، 

اور آج تو عجیب تماشہ لگ گیا ہے. اللّٰہ نے روۓ زمین پر انسان کو خلیفہ بنایا. اور حضرت انسان کو ایک نظام عطا کیا. اور روۓ زمین پر وہ اللّٰہ کا خلیفہ بنا، تاکہ خدا کے نظام کو روۓ زمین پر چلائے. 

ہمارے حکمران بظاہر تو انسان لگ رہے ہیں لیکن خدا کا خلیفہ کا کردار ادا کرنے کی بجائے واپس جنات کی طرف چلے گئے ہیں. پاکستان کو جنات کی رہنماٸی میں چلارہے ہیں. جادو ٹونے کی بنیاد پر ملک کو چلا رہے ہیں. یہ ملک جنات کے لیے نہیں بنا تھا. یہ ملک جنات سے رہنماٸی حاصل کرنے کے لیے نہیں بنا تھا. جنات نے بھی ہم ہی سے رہنماٸی لینی ہے. 

کہاں پہنچ گٸے یہ لوگ، پورے ملک کا نظام تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے. 

اج پاکستان میں پہلی بار اسلام کے خلاف اور قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی ہورہی ہے. گھریلو تشدد کے نام پر جو قانون سازی کی گٸی ہے. آج میں آپ کی موجودگی اور آپ کی تاٸید کے ساتھ بڑے واضح الفاظ میں کہنا چاہتا ہوں کہ اس قسم کا قانون قرآن و سنت کا انکار ہے. اور قرآن و سنت کا انکار تمہیں کیا بناتا ہے تم خود ذرا اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھو. 

خوبصورت عنوانات کے ساتھ خواتین کے حقوق کے نام پر، بچوں کے حقوق کے نام پر، تم ہم سے ذیادہ بچوں کے حقوق جانتے ہو. یہ تو ہم پڑھایا کرتے ہیں. 

کہ جب تک بچہ نابالغ ہے وہ خدا کے کسی بھی حکم کا مکلف نہیں ہے. جو نابالغ بچہ اللّٰہ کے حکم کا پابند نہیں ہے وہ کسی دوسرے انسان کے حکم کا بھی پابند نہیں ہوسکتا.

بچوں کے حقوق تو ہم آپ کو پڑھاتے ہیں. آج تم علمبردار بن گٸے ہو. 

آج قانون سازی ہورہی ہے کہ اٹھارہ سال سے پہلے کوئی شخص ایمان نہیں لاسکے گا. تو میں نے کہا یہ قانون سازی سندھ میں ہوئی ہے. جہاں اصف علی رہتا ہے. جہاں اس کا والد حاکم علی رہتا تھا. جہاں امداد علی رہتا ہے. جہاں قاٸم علی رہتا ہے. یہ سارے علی علی علی جمع ہوکر میں ان کو بتانا چاہتا ہوں کہ حضرت علی کا نام لینے والوں وہ تو خود دس سال کی عمر میں ایمان لاٸے تھے. 

یعنی اس کا معنی یہ ہے کہ تمہاری نظر میں رسو اللہﷺ کی دعوت پر حضرت علی کا دس سال کی عمر میں ایمان لانا جرم تھا. تمہیں کوٸی احساس نہیں ہے. 

جس کے نام پر تم لقمے کمارہے ہو لیکن قانون سازی میں آپ نے ان کی کوئی رہنماٸی نہیں لینی. قانون سازی میں اُن کی رہنماٸی لینا آپ کے لیے جرم بن گیا ہے.

تو میرے محترم دوستو! آج ہم جس میدان میں ہیں یاد رکھے کسی بھی ریاست کے لیے اور کسی بھی ریاست کے بقا کے لیے دو چیزیں ناگزیر ہوتی ہیں. ایک اُس کی دفاعی قوت اور ایک اُس کی اقتصادی قوت. ایک زمانہ تھا جب دارومدار دفاعی قوت پر ہوا کرتا تھا. لیکن آج کل زمانوں کی تبدیلی کے ساتھ ریاستوں کی بقا کا دارومدار اب معاشی قوت پر ہوگیا ہے. 

روس بہت بڑی طاقت تھی لیکن ا ف غ ا ن ستان میں جنگ لڑتے ہوٸے وہ معاشی انحطاط کا شکار ہوا اور شکست تسلیم کرکے چلاگیا. آج مغرب کی سرمایہ داریت کے مقابلے میں چین نے ایک نٸی جنگ شروع کی ہے اور وہ اقتصادی حکمت عملی کے حوالے سے ہے.

دنیا جانتی ہے کہ جب تک ہم اقتصادی لحاظ سے طاقتور نہیں ہوں گے ہم خارجہ پالیسی بھی نہیں بناسکتے. اور میں آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں، ایک مثال سے سمجھانا چاہتا ہوں. ہندوستان میں یہی بے جے پی کی حکومت تھی اور اس بے جے پی کا وزیراعظم واجپائی تھا. وہ بس میں پاکستان آیا. لاہور کے مینار پاکستان پر کھڑا ہوا اور کہا میں پاکستان کو دل سے تسلیم کرتا ہوں. کیوں کہا، کہ اس وقت پاکستان اقتصادی لحاظ سے طاقتور تھا.

اور ہندوستان پاکستان کے ساتھ تجارت کرنا چاہتا تھا. وہ آپ کے پاس جھک کے آئے. 

آج بھی وہاں بے جے پی کی حکومت ہے لیکن مودی سرکار جو اُس بے جے پی حکومت کی قیادت کررہا ہے. اُس کا رویہ پاکستان کے ساتھ کیا ہے. 

وہ کہاں کھڑے ہیں ہم کہاں کھڑے ہیں۔

 آج اُس نے کشمیر ہم سے چھین لیا ہے، اور اُس وقت میں نے پارلیمنٹ میں کہا تھا، اپنے ہی اتحادی سے اختلاف کرتے ہوٸے کہ جس انداز کے ساتھ آپ قباٸلی ایجنسیوں کا اور فاٹا کا پاکستان کے آئین کے ارٹیکل کے تحت خصوصی حیثیت حاصل تھی. ہم نے اس دفعہ کو ختم کردیا. 

ہندوستان میں ہندوستان کے آئین کے ارٹیکل 370 کے تحت کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل تھی. انہوں نے 370 کو ختم کردیا. اب آپ بتائیے کہ آپ اپنے انضمام کولےکر کہاں کھڑے ہیں اور وہ آپ سے اُسی بنیاد پر اُسی اصول کے تحت کشمیر لے چکے ہیں. اور ہم کہتے ہیں جی ہم کشمیر کی جنگ لڑیں گے. آپ نے تو کشمیر کو بیچا ہے،آپ نے تو کشمیر ان کے حوالے کیا ہے. 

اور جب کشمیر کے الیکشن ہورہے تھے تو کہنے لگے یہ جو ہمارے ساتھ بچا کچا کشمیر ہے ہم اِن کو آزادی دیں گے. وہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا نہیں رہنا چاہتے. اِس کو یہ بھی پتہ نہیں کہ اقوام متحدہ کی قراردادیں کیا کہتی ہیں. ستر سال سے پاکستان کا موقف کیا چلا ارہا ہے. پاکستان کا ریاستی موقف کیا ہے. اور میں کیا جگ مارہا ہوں.

لیکن جو ہونا ہے ہم بھی آنے والے مستقبل کو دیکھ رہے ہیں. آپ نے ملکی معیشیت تباہ کیا. جو ہمارے ملک کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے. آج پاکستان کی معیشیت زمین بوس ہوچکی ہے. ہمارے سالانہ ترقی کا تخمینہ زیرو سے بھی نیچے چلاگیا ہے. ابھی کرونا کا فاٸدہ اٹھاکر کچھ باہر سے جو امداد وغیرہ آئے. اس کی بنیاد پر کہہ رہے ہیں ہمارا سالانہ تخمینہ بڑھ گیا ہے.

آج تمہارے زرمبادلہ کے ذخائر سو فیصد قرضوں کے پیسوں پر کھڑے ہیں. سو فیصد قرضے کے اوپر، ہم لوگ کہاں کھڑے ہیں. آپ بتائیے پشاور والوں!اس صوبے کے اضلاع سے آئے ہوئے میرے جوانوں!

 آپ بتائیے. کیا آج غریب آدمی بازار سے بچوں کے لیے راشن لینے کے قابل رہا ہے؟ 

مہنگاٸی کہاں پہنچ گٸی ہے. ڈالر 172 روپے، ہم لوگ کہاں پہنچ گٸے. اور پیسے کی قدر مسلسل کم ہوتی جارہی ہے. 

مہنگاٸی بیروزگاری۔۔۔۔

کہہ رہا تھا میں نے نوجوانوں کو ایک کروڑ نوکریاں دینی ہے. ابھی دو تین سالوں میں تیس لاکھ لوگوں کو نوکریوں سے نکالا ہے. نوکری دینا کیا ہے اس نے، تیس لاکھ لوگوں کو بیروزگار کردیا۔

اور میں پوچھتا ہوں اِن عقل والوں سے، کم بختو! کچھ تو سوچو. 74 سالوں میں پاکستان کے کل ملازمین، بڑے عہدے ہو یا چھوٹے، کل ملازمین کی تعداد ابھی تک ایک کروڑ تک نہیں پہنچی. اور تم نے نوجوانوں کو ایک سال کے اندر ایک کروڑ نوکریاں دینی تھی. ہم نے اس کے اوپر کیوں اعتبار کیا۔

میرے نوجوانوں کی بیروزگاری اور کسمپرسی کا غلط فاٸدہ اٹھاتے ہوئے تم نے ان کو دھوکے دیے. نٸی نسل کو دھوکہ دیا. تم نے اخلاقی طور پر ان کو دیوالیہ کیا. تم نے ان کو سبز باغ دکھائے اور ویرانے میں جاکے چھوڑ دیا.

تم نے لوگوں کو کہا یہ لو مدینہ کی ٹکٹ، اور جب وہ جہاز میں سوار ہوئے تو وہ جہاز کوفہ جارہا تھا. تم نے اپنی منزل مدینے کی بجائے کوفے کو رکھا ہے. قوم کے ساتھ اتنا بڑا بلنڈر تاریخ میں نہیں ہوسکتا۔

آج چین آپ سے ناراض ہے. ستر ارب ڈالر کی سرمایہ کاری وہ پاکستان میں کررہا تھا. اور پاکستان کی دوستی پر اعتماد کیا کہ پوری دنیا کے ساتھ تجارت کا آغاز اس نے پاکستان میں سی پیک کا آغاز کیا. اور عمران حکومت نے آکر چائینہ حکومت کو دھوکہ دیا ہے. اور پاکستان سے اس کا اعتماد اٹھ چکا ہے.

باہر کے لیے جوابدہ پاکستان ہوتا ہے. ہم نے پاکستان کی ساکھ بین الاقوامی دنیا میں اور اپنے دوستو کے سامنے بحال کرنی ہے. یہ اس ملک اور اس قوم کے اوپر کھڑا امتحان ہے. 

اس اعتبار سے ہم نے سوچنا ہوگا کہ پاکستان کی معیشت کو تباہ کیا گیا. جو بجلی پیدا کی گٸی وہ ابھی تک عوام کو نہیں پہنچ رہی ہے. تمام منصوبے رک گٸے ہیں. سی پیک کے نام سے جو موٹرویز بن رہی ہے اس کا معیار کمزور ہوگیا ہے.

ا ف غ ا ن ستان کی یہ صورتحال ہے. میں حیران اس بات پر ہوں کہ خود امریکہ نے امارت اسلامیہ کے ساتھ ایک سال یا دو سال کے طویل مذاکرات کے نتیجے میں باقاعدہ معاہدہ کیا ہے. دونوں کے درمیان دستخط ہوئے ہیں. اور امریکہ نے اس معاہدے کے تحت امارت اسلامیہ کا لفظ قبول کیا ہے. آج جب ا ف غ ا ن س تان میں امارت اسلامیہ کی حکومت قاٸم ہوٸی. تو امریکہ شرط پیش کرتا ہے کہ پہلے انسانی حقوق کا تحفظ کرو. پھر خواتين کی تعلیم کی بات کرتا ہے. ذرا ط ا ل ب ا ن کو مستحکم ہونے تو دو۔۔۔ سب سے پہلے ا ف غ ا ن ستان میں استقلال کی ضرورت ہے، امن کے استحکام کی ضرورت ہے، پھر سیاسی استحکام کی ضرورت ہے۔

ان کو کٸی مراحل سے گزرنا ہوگا، ابھی وہ ابتدائی مراحل میں ہے. اور آپ شراٸط پیش کررہے ہیں. یہ دنیا کی معاہدات میں کسی ملک کے اخلاقی لحاظ سے اس کا کوئی جواز نہیں بن سکتا.

آپ مشورہ تو دے سکتے ہیں لیکن شرط دینا اس کا کوئی جواز نہیں. قطر کی حکومت کی نگرانی اور موجودگی میں وہ معاہدہ ہوا. بجائے اس کے، کہ امریکہ سب سے پہلے اس کو تسلیم کرے. دنیا سے کہہ رہا ہے نہیں ابھی ہمیں ذرا دیکھنا ہے وہاں انسانی حقوق محفوظ ہے کہ نہیں. 

سوال یہ ہے کہ آپ نے بیس سال ا ف غ ا ن س تان پر بمباری کی. ایٹم بم سے نیچے جو سخت ترین بم موجود تھے آپ نے وہ استعمال کٸے. آپ نے لاکھوں ا ف غ ا ن یو ں کا خون کیا ہے کیا تم انسانی حقوق کے مجرم نہیں ہو؟ کیا تم انسانيت کے سامنے اور انسانی معاشرے کے سامنے ا ف غ ا ن س ت ا ن کے اندر انسانی قتل کے مجرم بن کر جوابدہ نہیں ہو؟

دنیا کے اندر کیا ظلم ہے؟

 اور پاکستان بیٹھا ہوا ہے انتظار کررہا ہے. آقا کا حکم آئے گا آقا کی اجازت ملے گی، تو تب یہ تسلیم کریں گے. سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی ایسے بے تکے فلسفے آج تک میں نے کسی سے نہیں سنے. جس طرح آج کل کے حکمران فلسفے سنا رہے ہیں.

ایران آپ کا پڑوسی، لیکن ہندوستان کی ترازو میں بیٹھا ہوا ہے. پاکستان کے خلاف امریکہ آج انڈیا کو طاقتور بنارہا ہے. وہ چاٸینہ کو کمزور کرنا چاہتا ہے تاکہ معاشی جنگ میں معاشی پلڑا ایشیا کا بھاری نہ ہوسکے.

خارجہ پالیسی کا یہ عالم ہے۔۔۔ کہتا ہے کہ امریکہ کا صدر مجھے ٹیلی فون نہیں کرتا اور ہندوستان کا وزیراعظم میرا فون نہیں اٹھاتا۔

 تو یہ صورتحال کہ ایک ملک میرا فون نہیں اٹھارہا دوسرا ملک مجھے فون نہیں کررہا، یہ آپ کی خارجہ پالیسی ہے.

ملکوں میں کوٸی پوچھنے والا نہیں کیوں کہ تم ناجاٸز حکومت ہو. کیوں دنیا میں تمہاری قدورقیمت نہیں. اقوام متحدہ کا اجلاس ہورہا ہے اور یہ پاکستان سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کررہا ہے. کیوں، وہ جاٸے گا تو وہاں اس کو کوئی ملے گا نہیں، کوئی ملاقات نہیں کرے گا.

یہ تیری حیثیت ہے اور پھر ہم پر مسلط ہو، قوم پر مسلط ہو، دھاندلی کے ذریعے مسلط ہو. اور طرفہ تماشہ تو یہ ہے کہ جو لوگ ان کو لائے ہیں. اقتدار میں جو ان کے محسن ہیں. اب ان کو لڑ گیا ہے. 

اور ڈی جی آٸی ایس آئی کا معاملہ اس نے مس ہینڈل کردیا ہے. کیا چیز ہے یہ، کیا تحفہ یہ ہمیں انہوں نے دیا ہے. میں اسٹیبلشمنٹ سے بھی کہنا چاہتا ہوں کہ پتہ نہیں کس امید سے تم اس کو لائے تھے. تم نے کس امید پر اس کے لیے دھاندلیاں کی.

اگر مجھے فوج کا ادارہ عزیز نہیں ہوتا. اگر یہ میرے ملک کی دفاعی لائن نہ ہوتی. اسکی میرے نظر میں اہمیت نہ ہوتی تو میں یہ ضرور کہتا کہ شکر ہے کہ بالآخر تمہیں لڑگیا ہے. 

لیکن ہم افراد سے گلہ کرسکتے ہیں. لیکن دفاعی ادارہ پاکستان کا ادارہ ہے. ادارے کا ہم ضرور چاہیں گے کہ طاقتور رہے اور پاکستان کی دفاعی صلاحیت بھی محفوظ رہے.

تو میرے محترم دوستو! آج وہ مدارس کا بھی خاتمہ کرنا چاہتے ہیں. ایک تو فاٹا کو برباد کردیا. اب سمجھ نہیں ارہی کہ فاٹا ہے کیا؟نہ پرانا فاٹا رہا نہ موجودہ سیٹل رہا کچھ نہیں رہا،بیچ والا کوٸی تماشہ ہےنہ ان کو سمجھ آرہی ہے نہ فاٹا کہ لوگوں کو سمجھ آرہی ہے. 

مدارس کے خلاف، مدارس کے نظام کو کنٹرول کرنا چاہتے ہیں. بھٸی! دینی مدرسہ اپنے خودمختاری کے بنیاد پر قاٸم ہوا تھا. اس نے فرنگی کا کنٹرول قبول نہیں کیا. آپ کا نظام تعلیم بھی وہی ہے. ہم آج کے سرکاری نظام تعلیم کو بھی انگریز کے نظام تعلیم کا تسلسل سمجھتے ہیں اور دینی مدرسے کو ان کو کنٹرول میں دینے کے لیے تیار نہیں ہوں گے. 

تم نے اپنے بورڈ بناٸے، مدارس کو تقسیم کرنے کی کوشش کی. اس کا ایک ڈاٸریکٹریٹ بھی بنایا. لیکن بناؤنا! نہمدرسہ تمہیں نہیں ملے گا. کوٸی استاد تمہیں وہاں نہیں ملے گا. وہاں پر کوئی طالب علم نہیں ملے گا. وفاق المدارس متحد ہے ہم میں سے کوٸی آدمی تمہیں نہیں ملے گا. اور اگر کوٸی چلاگیا یہاں سے، تو پھر اس کی مرضی مولوی صاحبان اس کا کیا نام رکھتے ہیں. یہ پھر آپ کا اختیار ہے.

ہمیں کوٸی سرکاری بورڈ مدارس کا قبول نہیں ہے. اس حوالے سے جو اقدامات ہورہے ہیں، ہم ملک میں پرامن رہنا چاہتے ہیں. لیکن پرامن رہنے کا یہ مطلب نہیں کہ ہم کسی کا غلام بن کر رہنا چاہتے ہیں. ہم غلام نہیں رہیں گے. 

ہم نے غلامی کے خلاف جنگ لڑی ہے. آج جس کے نام سے ہم نے اس جلسے کو منعقد کیا ہے ہم عہد کرتے ہیں کہ ہم نے کسی کی غلامی قبول نہیں کرنی. اور عزم کرلو، تجدید عہد کرلو،کہ ہم غلامی قبول نہیں کریں گے۔ ہمارے اکابر نے جس آزادی کے لیے قربانیاں دی تھی، اس قربانی کا لاج رکھیں گے. کوئی غلامی ہم قبول نہیں کرسکتے۔

ہم معاملات کو سلیقے سے طے کرنا چاہتے ہیں، ہم رجسٹریشن کرانا چاہتے ہیں لیکن رجسٹریشن کا معنی یہ نہیں کہ ہم اس میں مدارس کی آزادی اور خودمختاری کو بیچینگے، ایسا نہیں ہوگا. وفاق المدارس میں مفتی محمودؒ کی کاوشیں اور ان کا خون پسینہ شامل ہے. یہ ان کی امانت ہے.

تو ان شاء اللہ العزیز ہم نے ہی اس ملک کو ان شاء اللہ ان شاء اللہ، اللہ کے فضل و کرم سے ٹھیک کرنا ہے. وقت آرہا ہے آپ نے گذشتہ تین سالوں میں جس زندگی کا ثبوت دیا ہے، جس جوانمردی کا ثبوت دیا ہے. جس بہادری کا ثبوت دیا ہے. 

میرے ساتھیو میں اللہ کو گواہ بناکر پیش کرتا ہوں کہ میں اپ کی جرات اور بہادری پر فخر کرتا ہوں (قاٸد تیری جرات کو سلام کے نعرے)

ہم اپنے صفوں میں وحدت پیدا کریں گے. اگر انہوں نے جمعیتہ کو توڑنے کی کوشش کی تو ان شاء اللہ مایوسی ہوگی. اگر انہوں نے وفاق کو توڑنے کی کوشش کی، تو ان کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑے گا. ہم ایک صف ہے، اگر دوسرا ادارہ چاہتا ہے کہ میں متحد رہو رو ہم بھی چاہتے ہیں کہ ہم متحد رہے.

اگر ہم آپ کے صفوں میں دراڑ پیدا کرنے کے لیے کوٸی کردار ادا نہیں کرنا چاہتے. تو آپ بھی ہمارے صفوں میں دراڑ پیدا کرنے کی کوشش مت کیجیے.

جمعیتہ ایک ہے اور اس کے علاوہ کوٸی جمعیتہ نہیں. ٹھیک ہے یا نہیں؟ کوٸی جمعیتہ نہیں ہے. وفاق ایک ہے اور اس کے خلاف کوٸی وفاق نہیں ہے. اور ان شاء اللہ العزیز ہم اپنے عقاٸد کے لیے، اپنے نظریات کے لیے جان کی قربانی دینے تک کو تیار ہے. ہم نے ہمیشہ سیاسی اور جمہوری، آئینی اور قانونی جدوجہد پر یقین رکھا ہے. اور اس حوالے سے ہمارا سفر آگے بڑھ رہا ہے۔

ہم نے یہ برداشت کیا کہ ہم اشتعال میں نہیں آئے. ہم نے تحمل اور برداشت کے ساتھ حالات کا مقابلہ کیا. آج اگر پاکستان میں امن ہے تو ان نوجوانوں کی مرہون منت ہے. مفتی محمود کے پیروکاروں کی مرہون منت ہے. اگر یہ جنگ چھیڑنا چاہتے تو ا ف غ ا ن س ت ا ن بن سکتا تھا. لیکن ہم نے پاکستان کو پرامن رکھا ہے. مدارس نے پرامن رکھا ہے. مدارس کے نوجوانوں نے پرامن رکھا ہے. جمعیتہ کے کارکنوں نے پرامن رکھا ہے. اور جمعیتہ ایک پاکستان کی بات کرتی ہے. جمعیتہ متحدہ پاکستان کی بات کرتا ہے. جمعیتہ علما اسلام آئین پاکستان کی بات کرتا ہے. لیکن اپنے نظریات پر کوئی سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں۔

تو ہمارا یہ پیغام بڑا واضح ہے اور اس پورے اہم اور مظبوط پیغام کے ساتھ ہم نے آگے بڑھنا ہے. ایسے حکمرانوں کا تختہ الٹنا ہمارا حق بنتا ہے جس طرح کے حکمران آج کل ہم پر مسلط ہیں. ہم ایسے حکومت کو تسلیم نہیں کرتے. ہم نے ایسے حکمرانوں کے ہاتھوں پر بیعت نہیں کی. ہم نے اس کو جاٸز حکومت بھی نہیں مانا. اور ناجاٸز تو ہم نے کہا ہے کہ یہ ناجائز حکومت ہے. نااہل تو یہ خود ثابت ہوا ہے. اور کل تک بونگیاں مار رہا ہے.

تو ایسی صورتحال میں ان شاء اللہ ہم پورا ملک ایک صف ہے. اور ایک صف ہوکر ہم نے آگے بڑھنا ہے. تمام سیاسی قوتوں کو ساتھ لیکر چلنا ہے. اور ان شاء اللہ ان آمرانہ شکل، آمریت بصورت جمہوریت یہ ہمیں قبول نہیں ہے. ہمیں آئین کے مطابق جائز حکومت قبول ہے اور اس کے علاوہ ہمیں کوئی حکومت قبول نہیں ہے، اپنے جدوجہد کو آگے بڑھائیں گے اور پورے عزم کے ساتھ آگے بڑھیں گے. اور ان شاء اللہ العزیز ہم ایک متحدہ صف ہوکر آگے بڑھیں گے. الیکشن بھی آۓ گا تو ان شاء اللہ آپ اس کے کامیاب نتاٸج دینگے

  ان شاء اللہ آپ کی یہ محنتیں اور آپ کی یہ جدوجہد یہ رائیگا نہیں جاٸے گی. 

اللہ تعالی ہمارا حامی و ناصر ہو. اور اسی کے ہاتھوں میں خیر ہے. ہم نے اس سے کامیابی اور خیر طلب کرنا ہے. اور ان شاء اللہ وہ دعا قبول کرنے والا ہے.


ضبط تحریر: #سہیل_سہراب

ٹیم جے یو آئی سوات

#TeamJuiSwat

0/Post a Comment/Comments