فیصل آباد: سربراہ پی ڈی ایم قائدِ جمعیۃ حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا خطاب
16 اكتوبر 2021
خطبہ مسنونہ کے بعد!
سٹیج پر موجود زعماٸے قوم، بزرگان ملت، میرے دوستو اور بھاٸیو، فیصل آباد کے غیور مسلمانوں آپ خوش قسمت ہیں کہ پی ڈی ایم کے زیر اہتمام یہ عظیم الشان اجتماع ایسے مہینے میں منعقد ہورہا ہے. جو جناب رسول اللہﷺ کے میلاد کا مہینہ ہے. اور جس کی نسبت سے پورا کرہ ارض، فضاٸیں اور افلاک روشن ہوٸے. ان شاء اللہ اج انہی کے نام سے اور انہی کی نسبت سے اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں گے. اور پاکستان کو اسلام اور انصاف کا گہوارہ بناٸیں گے.
میرے محترم دوستو! میرے بھاٸیو جو حکمران سمجھتے ہیں کہ ہم اپنے مخالفین کا احتساب کررہے ہیں. میں ان کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کے احتساب کا ڈرامہ ختم ہوچکا ہے. اور اب پی ڈی ایم نے تمہارا احتساب شروع کرنا ہے. اور تمہیں کیفر کردار تک پہنچانا ہے.
میرے محترم دوستو! اگر سیاستدانوں کو سزا ملتی ہے تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ ہم نے ڈکٹیٹروں کو اور ڈکٹیٹروں کے کٹھ پتلیوں کو چیلنج کیا ہے. اور ہم میدان عمل میں ان کا مقابلہ کررہے ہیں. لیکن غریب عوام جن کے ووٹ کا نام لے کر تم اقتدار کی کرسی پر بیٹھے ہو. ان عوام کا کیا گناہ ہے کہ آج تم نے قوم پر مہنگاٸی کے پہاڑ توڑ کر رکھ دیے ہیں. ایک عذاب کی صورت میں آج تم قوم پر مسلط ہو. روز بروز قیمتیں بڑھ رہی ہیں. اور میرے رفقاہ نے تفصیل کے ساتھ اس کا ذکر کیا ہے. میں اس پر کیا بات کروں. آپ مجھ سے ذیادہ صورتحال سے آگاہ ہیں اور اس کے ساتھ آپ نبرد آزما بھی ہے.
میرے محترم دوستو! یاد رکھے ریاستوں کی بقا کا دارومدار دو قوتوں پہ ہوا کرتا ہے. ایک ریاست کی دفاعی قوت اور ایک معاشی قوت.
کسی زمانے میں دفاعی قوت دارومدار ہوا کرتا تھا. لیکن آج کے دور میں معیشیت دارومدار ہے. اگر معیشیت گر جاتی ہے تو پھر ریاست اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتی.
سویت یونین کی مثال ہمارے سامنے ہیں. کس طرح دنیا کی ایک بڑی طاقت کا نام و نشان مٹ گیا. جب بارہ سالہ ا ف غ ا ن ج ہ ا د نے اس کے اقتصاد کو زمین بوس کردیا.
میرے محترم دوستو! اج اپ دیکھ رہے ہیں کہ ایک بار پھر دنیا میں معیشیت کی جنگ شروع ہوچکی ہے. دو سو سال پہلے جب یورپ نے ایشیا کو غلام بنایا. ایشیا کی دولت لوٹ کر انہوں نے اقتصادی استحکام قاٸم کیا. اور امریکہ سمیت یورپی قوتوں نے اسلامی دنیا پر حکمرانی کی.
اج پھر کایا پلٹ رہا ہے، اقتصاد کا ترازو واپس ایشیا کی طرف آرہا ہے. چین دنیا کی ایک متبادل اقتصادی قوت بننے جارہا ہے. تو پاکستان پر دباو بڑھ گیا ہے. اور اج کا حکمران یہی ایجنڈہ لے کر آیا ہے کہ پاکستان، ایشیا اور چین کے اقتصادی قوت کو توڑ دے اور مغربی اقتصادی برتری کو برقرار رکھے.
اتنی بڑی سازش اتنا بڑا ایجنڈہ، یورپ کا پاکستان میں لانا، پاکستان میں اور خطے میں مسلط کرنا، عمران خان کو لانے کا، دھاندلیوں کے ذریعے لانے کا، یہی ان کا مقصد ہے.
لیکن تعجب اس بات پہ ہے کہ جو ادارے ریاست کی بقا کے ذمہ دار ہے. انہوں نے ان کے لیے دھاندلی کرکے اقتدار پاکستان کا عطا کیا اور یہ عذاب پاکستان پر مسلط کیا.
ہمیں گلہ ہے. ہمیں شکوہ ہے. ہم اداروں کے دشمن نہیں. ہم پاکستان کے اداروں کو طاقتور دیکھنا چاہتے ہیں. لیکن وہ بھی پاکستانی ہیں غلطیاں تو نہ کرے. ہمارے درمیان ایک معاہدہ ہے اور اس میثاق ملی کا نام سن 73 کا آٸین ہے. اگر وہ آٸین ہمارے بیچ میں ہے. اور اس آٸین نے ہر ادارے کا داٸرہ کار متعین کیا ہے. تو پھر ہر ایک کو اپنے داٸرہ کار میں رہتے ہوٸے ذمہ داری پوری کرنی ہوگی. دوسرے کے اداروں میں مداخلت ہمیشہ فساد برپا کرتا ہے.
میرے محترم دوستو! پارليمنٹ، پارليمنٹ ہے. پارليمنٹ عوام کی نماٸندہ ہے. اور پاکستان کی سب سے بااختیار ادارہ ہے. آج اس ادارے کو ربڑ سٹیمپ بنایا گیا. آج عوام کی قوت کو غلام بنایا جارہا ہے. ملک کی معیشیت کو تباہ کرکے عام ادمی جب صبح و شام اپنے روٹی کے لیے فکرمند ہوگا. جن سے اپنے بچوں کی بھوک دیکھی نہیں جاسکے گی. جس کی پاداشت میں لوگ خودکشیوں پر مجبور ہوجاٸیں گے. آپ بتاٸے کہ پھر وہاں عوام کی قوت کہاں رہ جاٸے گی.
اور آج جو جنگ ہم لڑ رہے ہیں. آج جو پی ڈی ایم کا پلیٹ فارم سیاسی جماعتوں نے بنایا ہے. یہ درحقیقت صرف اقتدار حاصل کرنے کے لیے نہیں بنایا، بلکہ اس ملک کی بقا کے لیے بنایا ہے. اور پاکستان کی بقا اسی میں ہے کہ اس جیسے نااہل، ناجائز اور نالاٸق حکمرانوں کو رخصت کرے اور ان سے اقتدار چھین لے.
میرے محترم دوستو! آج وہ دوست، چین جس کو ہم دوست سمجھتے تھے. ستر سال ہماری دوستی، جسے ہم کوہ ہمالیہ سے بلند ترین دوستی کہتے تھے. جس کو ہم بحرالکاہل سے زیادہ گہری دوستی سمجھتے تھے. جس کو ہم شہد سے زیادہ میٹھی دوستی سمجھتے تھے.اور جس نے سب سے پہلے پاکستان پر اعتماد کیا. اور سی پیک کی صورت میں ستر ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے لیے پاکستان کا انتخاب کیا. وہی دوست اس کے لیے استین کا سانپ بن گیا. ان کے قسمت پر کیا رویا جاٸے کہ چین کو بھی ناراض کردیا. اور امریکہ اور یورپ نے بھی کوٸی مدد نہیں کی. اور پاکستان قلاش ہوگیا.
اج ا ف غ ا ن س ت ا ن وہ پاکستان کی مدد نہیں کرسکتا. وہاں حالات وہاں کی صورتحال کے مطابق ابھی جنگ سے نکلی ہی نہیں ہے. ایران اس وقت انڈیا کے ترازو میں بیٹھا ہوا ہے. اور ہندوستان پوری جارحيت کے ساتھ آپ کے وجود پر حملے کررہا ہے. اس نے کشمیر تم سے چھین لیا ہے. تم نے کشمیر ان کے ہاتھوں بیچ دیا ہے. تم کشمیر فروش ہو. تم نے کشمیری قوم سے غداری کی ہے. تم اپنی قوم سے غداری کررہے ہو. کس بنیاد پر تمہیں پاکستان کے عوام کا نماٸندہ کہا جاٸے (للکار ہے للکار ہے شیر کی للکار ہے).
تم کب تک اس بات پر سیاست کرتے رہوگے کہ فلاں چور ہے اور فلاں چور ہے. اور ہر ایک کو چور چور کہہ کر یہی تمہاری سیاست کی بنیاد ہے. تیرا کوٸی مثبت پروگرام نہیں. ایک منفی نعرے کی بنیاد پر تم سیاست کررہے ہو. ہر آدمی کو چور کہتے ہو.
تم نے مولانا فضل الرحمٰن پر بھی الزام لگاٸے. تمہیں جواب ملا اور تمہیں اندازہ لگ گیا، کہ تم نے کس کو چیلنج کیا ہے. ان شاء اللہ تمہاری ٹیڑھیمنہ کے لیے میرا ایک ہی مکا کافی ہے. اسے سیدھا کردیں گے (نعرہ تکبیر. للکار للکار کے نعرے).
تم نے تمام سیاستدانوں کو چور کہا. تم نے منہ کی کھاٸی. باقیوں کو چور مت کہو. اپنے دامن اور گریبان پر نظر ڈالو. تم نے تو تحفے کی گھڑیاں بھی بیچ دی ہیں. ایسا لالچی میں نے کہی نہیں دیکھا. ایسا بے وقوف اور احمق میں نے کبھی نہیں دیکھا. کہ عالمی سطح پر کسی نے گھڑی، قیمتی گھڑی تحفے میں دی اور کسی نے کہا یہ اتنی کروڑ کی ہے. تو آئے دُبٸی میں ذرا ایک کروڑ کے منافع سے بیچ دے. ان لوگوں کو شرم نہیں اتی. ایسے لوگوں کو آپ اپنا نماٸندہ کہہ سکتے ہیں؟ یہ تو قوم کے چہرے پر بدنما داغ ہے. ہمیں یہ داغ دھونے ہیں. اور ہم نے پاکستان کے عزت اور وقار کو دوبارہ بحال کرنا ہے.
تو میرے محترم دوستو! ان شاء اللہ اب یہ تحریک اگے بڑھے گی اور اگر آپ مجھے سپورٹ کریں گے. تو ان شاء اللہ میں پی ڈی ایم کی جماعتوں سے ضرور کہوں گا کہ اب صرف جلسوں پر اکتفا نہیں ہے. اب ہمیں مسلسل سڑکوں پر آنا چاہیے. اگر آج ہم قوم کا سہارا نہ بنے. آج قوم مایوس ہوگٸی. تو پھر پاکستان کا آنے والا مستقبل خون خرابے کے علاوہ کچھ نہیں ہے (قاٸد تیرے حکم پر جان بھی قربان)
قوم میدان میں آئے، قوم سڑکوں پہ آئے. ان شاء اللہ ہم انہیں تنہا نہیں چھوڑیں گے. ہم میدان میں ان کے ساتھ ہیں. ہم صحراوں میں ان کے ساتھ ہیں. ہم جنگلوں میں ان کے ساتھ ہیں. ہم پہاڑوں میں ان کے ساتھ ہیں. ہم پنجاب میں ان کے ساتھ ہیں. ہم سندھ میں ان کے ساتھ ہیں. ہم بلوچستان میں ان کے ساتھ ہیں. ہم خیبر پختونخواہ میں ان کے ساتھ ہیں. ہم گلگت بلتستان میں ان کے ساتھ ہیں. اور ان شاء اللہ ہم کشمیر میں ان کے ساتھ کھڑے رہیں گے.
میرے محترم دوستو! جب تک ہم تھے کشمیر کا سودا نہیں ہوسکا تھا. جونہی ہم نے حکومت چھوڑی انہوں نے کشمیر کا سودا کرلیا.
آج جن امیدوں کے ساتھ فاٹا کے عوام کو صوبے کے ساتھ ضم کیا گیا تھا. ان کے ارزوں اور امیدوں پر پانی پھیر چکا ہے. اور آج وہ اپنے بدحالی کے نتیجے میں دوبارہ مطالبہ کررہے ہیں کہ ہمارے انضمام کو ختم کیا جاٸے. اور فاٹا کے سابقہ پوزیشن کو بحال کیا جاٸے.
کیا وجہ ہوگٸی؟ کیوں یہاں تک ہم پہنچے؟ تو اس حوالے سے ملک کا ہر باشندہ اپ دیکھ رہے ہیں. ایک کروڑ نوکریوں کی بات کی تھی. اور ایک کروڑ نوکریوں کی بات کرنا حماقت سے خالی نہیں ہے. نوجوانوں اپ بات سنے، سن 1947 سے لے کر اب تک پون صدی گزر چکی، 74 سال ہم نے پورے کٸے. آج تک پاکستان کی کل ملازمتوں کی تعداد ایک کروڑ تک نہیں پہنچی. جہاں 74 سالوں میں پورے ملک کی بڑی سے چھوٹی نوکریوں تک، ان کی تعداد ایک کروڑ تک نہیں پہنچی. اس نے کیسے قوم کو اور نوجوانوں کو بے وقوف بنایا، کہ میں تمہیں ایک سال میں ایک کروڑ نوکریاں دے دوں گا. اور ایک کروڑ نوکریاں کیا دیں گے انہوں نے اب تک تیس لاکھ باروزگار ملازمین کو فارغ کیا ہے.
ابھی حال ہی میں ایک دن میں ایک جج فارغ ہورہا تھا. ایک جج ریٹائرڈ ہورہا تھا. ریٹائرمنٹ سے پہلے اس نے جو اخری فیصلہ دیا ہے وہ فیصلہ سولہ ہزار ملازمین کی برطرفی کا ہے. پاکستان کے تیس لاکھ ملازمین کا اس طرح معاشی قتل، تاریخ نے ایسا منظر کبھی نہیں دیکھا.
قرضوں کا اتنا بڑا بوجھ، جو پورے پاکستان کی تاریخ میں سارے قرضے ایک طرف اور تین سال کے قرضے اس سے اوپر ہوگٸے. اس حوالے سے اب ہم نے خود اپنے ملک کے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے. عوام نے منظم ہوکر میدان میں نکلنا ہے. اور ان شاء اللہ پی ڈی ایم ان کی قیادت کرتے ہوٸے آگے بڑھے گی. اور ان شاء اللہ ان حکمرانوں کا خاتمہ کرکے دم لے گی. اور ایک روشن پاکستان، ایک خوشحال پاکستان اور ایک مستحکم پاکستان کی بنیاد ڈالے گی.
میں خود بھی پریشان ہوں کہ اس نے ملک کو جہاں بٹھادیا ہے یہاں سے دوبارہ اٹھانا کتنا مشکل کام ہوگا. بہرحال کسی نے تو یہ چیلنج قبول کرنا ہے. اور اس میدان میں انہوں نے اگے بڑھ کر ذمہ داریاں لینی ہے. ان شاء اللہ آپ مطمٸن رہے. پنجاب کے لوگ اٹھے. پنجاب کے لوگ یہ ہمارا بڑا صوبہ ہے. یہ ہمارا، سب کا بڑا بھاٸی ہے. بڑا بھاٸی آگے اٹھے گا تو تمام ملک کے اندر حوصلہ بڑھے گا. اور ان شاء اللہ اس ملک میں انقلاب برپا ہوگا.
آپ انقلاب کا نعرہ لگاٸے. آپ انقلاب کا نعرہ لگاٸے (انقلاب انقلاب. قاٸد جمعیتہ قدم بڑھاؤ کے نعرے)
اپ نے اج کامیاب اجتماع کیا. میں اپ کو اس پر مبارکباد پیش کرتا ہوں. اور ان شاء اللہ یہ سفر جاری رہے گا. 31 اکتوبر کو ان شاء اللہ ڈیرہ غازی خان میں پی ڈی ایم کا قافلہ پہنچے گا. اور اس وقت تک ان شاء اللہ ہم نہایت مظبوط، موثر اور مستحکم حکمت عملی بھی وضع کرسکیں گے.
آپ کی دعاٸیں چاہیے. آپ کی تاٸید اور حمایت چاہیے. اللہ کی حمایت اور تائید کے ساتھ ان شاء اللہ ہم منزل کو پائیں گے.
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ٹیم جے یو آئی سوات
#TeamJuiSwat
ایک تبصرہ شائع کریں