27 اكتوبر 2021
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
آج آپ کو اِس مقصد کے لیے زحمت دی گئی ہے کہ خیبر پختونخواہ میں بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے الیکشن کمیشن نے شیڈول جاری کردیا ہے، صوبہ پختونخواہ میں پی ڈی ایم سے وابستہ سیاسی جماعتوں سے بھی میری مشاورت ہوئی ہے اور ہم الیکشن کمیشن کے اِس اقدام پر اپنا رد عمل دینا چاہتے ہیں۔ ہمارا دوٹوک، واضح اور غیر مبہم موقف چلا آرہا ہے کہ ہم 2018 کے نتائج کو تسليم نہیں کرتے اور اِن نتائج کی بنیاد پر جو حکومتيں قائم کی گٸی ہیں وہ ناجائز اور جعلی ہیں۔ جو حکومت خود دھاندلی کی پیداوار ہو اُس کی نگرانی میں بلدیاتی الیکشن کیسے قبول کٸے جاسکتے ہیں۔ ہر چند کہ الیکشن کمیشن یہ کہے کہ ہماری نگرانی میں ہے لیکن ارباب اقتدار ہر صورت میں موثر ہوتے ہیں اور وہ اپنے زیر اثر انتظامیہ کو الیکشن میں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرسکتے ہیں اور سرکاری وساٸل کو استعمال کرسکتے ہیں، پھر الیکشن کمیشن نے خود یہ کہا ہے کہ ہم ووٹر ویریفیکیشن کا ایک سلسلہ شروع کررہے ہیں، اِس کا معنی یہ ہے کہ الیکشن کمیشن خود یہ اعتراف کررہا ہے کہ ووٹر لسٹ مشکوک ہے۔ اس لیے اسے ویریفیکیشن کی ضرورت پڑ رہی ہے تو اس طرح مشکوک انتخابی فہرستوں کی بنیاد پر الیکشن کرانے کا کیا معنی؟
ایسی صورتحال میں عجیب ملغوبہ یہ ہے کہ ویلج کونسل وہ غیر جماعتی ہونگے اور تحصیل الیکشن وہ جماعتی بنیاد پر ہونگے، ایک ہی بلدیاتی نظام ہے اس بلدیاتی نظام کے تحت ایک سطح وہ غیر جماعتی ہے اور دوسری سطح جو ہے وہ جماعتی بنیادوں پر ہے اور پھر یہ بھی کہ جو لوگ کامیاب ہوجاٸینگے. اُن کو اختیار ہوگا کہ وہ کسی بھی سیاسی پارٹی میں 24 گھنٹے اندر یا 48 گھنٹے کے اندر اندر شامل ہوسکتے ہیں.
آپ بتاٸے کہ جو بلدیاتی نظام جس کا کام صرف محلے کی خدمت ہے. اور اس محلے میں اس کو فنڈز کٸے. حکومت پی ٹی آٸی کی ہوگی تو اس کا معنی یہ ہے کہ تمام ممبران کو اس مجبوری کے تحت وہ پی ٹی آٸی میں شامل کرینگے. اور پھر کہینگے کہ ہم سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرے ہیں. تو اس لحاظ سے ہم اس بلدیاتی الیکشن کو تسلیم نہیں کرتے. اس سلسلے میں ہم اپنے ماہرین قانون سے بھی مشورہ کررہے ہیں. تاکہ الیکشن کمیشن کی طرف رجوع کیا جاسکے. اور براہ راست ان کے سامنے اپنے تحفظات پیش کیے جاسکے. تاکہ اس سے آگے پھر ہم مذید قانونی کارواٸی کرنے کے پوزیشن میں رہے.
تو اس لحاظ سے ہم اپنے آٸینی اور قانونی ماہرین سے بھی مشورہ کریں گے. ان کے مشورے سے پھر مزید آگے بڑھنا ہے.
فوری طور پر اس سے وابستہ ایک اہم مسلے پر بات کرنا بلکل ناگزیر ہے کہ تحریک لبیک ان کے کارکن اسلام آباد کی طرف آرہے ہیں. اس سے قطع نظر کہ ان کا مطالبہ صحیح ہے یا غلط. لیکن ان کا جو بھی مطالبہ ہو اس کے لیے احتجاج کرنا ان کا جمہوری حق ہے. ان کا قانونی حق ہے. پہلے بھی لاہور میں ان پر تشدد کیا گیا اور اس میں انسانی حقوق پامال ہوٸے ہیں. اور اب دوبارہ جب وہ اسلام آباد کی طرف مارچ کررہے ہیں. ابھی وہ راستے میں ہیں. انہوں نے دوبارہ اگلے مرحلے کا آغاز کیا ہے. تو انتہاٸی ظالمانہ انداز میں ان پر تشدد کیا گیا ہے. لاہور کے واقعے میں تو دس بارہ افراد شہید بھی ہوچکے ہیں. اور اب دوبارہ جو آج واقعہ ہوا ہے اس میں کافی لوگ زخمی ہیں. یہ کونسا اخلاقی رویہ ہے. کہ خود عمران خان اور پی ٹی آٸی 126 دن ڈی چوک پر دھرنا دیتے رہے. اب یہ لوگ آرہے ہیں تو ان پر تشدد کررہے ہیں. آخر کس بنیاد پر، اور قانون کی نظر میں اتنا بڑا فرق کیوں؟ اور پھر عجيب بات یہ ہے کہ جب نواز شریف کے خلاف ان کا مظاہرہ تھا تو وہ ٹھیک تھا. لیکن عمران خان کے خلاف اب مظاہرہ بالکل غلط ہے. اور وہ قانون ہاتھ میں لینے والی بات ہے.
تو اس لحاظ سے ہم حکومت کی اس ظالمانہ ہتھکنڈوں کی مذمت کرتے ہیں. اور مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کو اپنے احتجاج کا حق دیا جاٸے. اور معاملات کو قانون کے داٸرے میں شاٸستگی کے ساتھ حل کٸے جاٸے.
صرف یہ نہیں کہ چونکہ وہ مذہبی لوگ ہیں. تو مذہبی لوگوں کو آپ نشانہ بناٸے. اور دنیا کے سامنے دکھاٸے کہ یہ تو انتہا پسند ہیں. کوٸی انتہا پسند نہیں، ان کا ایک مطالبہ ہے اور اس کے حق میں وہ مظاہرہ کررہے ہیں. اور اس کا حق جمہوری ماحول میں ہر پارٹی کو ہوا کرتا ہے.
صحافی کے سوال پر جواب
باٸیکاٹ وہ ہمارے زیر غور ہے. ہم بالآخر باٸیکاٹ کریں گے. اگر کوٸی اور راستہ نہ ہوا تو. پہلے ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ انتخابات منسوخ کیے جاٸے. ہم قانونی راستے سے بھی ان کے سامنے اپنے تحفظات رکھنے کو تیار ہیں. لیکن بالفرض وہ ہم پر ایمپوز کرنا چاہتے ہیں اور ایک جعلی حکومت کے چھتری کے نیچے، تو پھر شاٸد یہ ہمارے لیے قابل قبول نہیں
صحافی کے سوال پر جواب
یہ باتیں جو ہے جس طرح میں اپنے فیصلے میں لکھ چکا ہوں. اور پھر جتنا آگے معاملات بڑھتے جاٸینگے آپ کو بتاتے جاٸینگے
صحافی کے سوال پر جواب
اگر وہ اتنا جاٸز ناجائز کو دیکھتے ہیں تو پھر خود اعتراف کرلے کہ میں خود ایک ناجائز حکمران ہوں اور مجھے راستے سے ہٹ جانا چاہیے. تو ہم تو اس کو ہٹانے کے لیے میدان عمل میں ہیں. اور جب ہمارا مطالبہ ہی ایک ہے کہ عام انتخابات کراٸے جاٸے. تو پھر عام انتخابات کے بعد ہم کوٸی بلدیاتی انتخابات قبول نہیں کرسکتے. اور یہ جعلی حکمران نہ ملک کو معشیت دے سکے. نہ عام آدمی کو روزگار مہیا کرسکے. اور پتہ نہیں پچاس لاکھ گھروں کا اس نے اعلان کیا تھا گھر کہاں ہیں؟ کوٸی ایک کروڑ نوکریوں کی بات کی تھی وہ کدھر ہے؟ وہ تین سو ڈیموں کی بات کی تھی وہ کدھر ہے؟
پورا ملک غرقاب ہوگیا ہے. اور ملکی معشیت زمین پر بیٹھ گٸی ہے. اور یہ لوگوں سے کہہ رہے ہیں کہ ان کو اسلام آباد کی طرف مت آنے دو. اسلام آباد تمہارے باپ کی جاگیر نہیں ہے. یہاں ناجائز طور پر تم حکمران بیٹھے رہوگے اور کوٸی پاکستانی شہری یہاں آکے احتجاج نہیں کرسکتا
صحافی کے سوال پر جواب
یہی طے ہوا ہے. جو بھی اگلا فیصلہ ہوگا. یہ فیصلہ تو طے ہے کہ ہم نے ان لوگوں کے ساتھ حکومت نہیں بنانی.
صحافی کے سوال پر جواب
ظاہر ہے مہنگائی تو آپ جانتے ہیں. اس وقت پی ڈی ایم جو ہے وہ پورے ملک میں عوام کی شراکت کے ساتھ سڑکوں پر ہے. مہنگائی کے خلاف احتجاج پورے ملک میں ہورہا ہے. اور روزمرہ کے حساب سے آپ دیکھ رہے ہیں کہ ملک کہ دور دراز علاقوں میں روزانہ کے حساب سے مظاہرے ہورہے ہیں. اور تسلسل کے ساتھ ہورہے ہیں. اور یہ عوام کا حق ہے. کیوں کہ ملک میں رہنا ہے تو دو چیزیں ان کو دینی ہوگی ایک امن ایک روزگار
جو حکومت امن بھی نہ دے سکے اور اس طرح لوگوں کو مارے جس طرح اس وقت مظاہرین کو مارا جارہا ہے اور معشیت بھی بلکل برباد کردے. پھر ایسے لوگوں کو حکومت کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں
تو اس اعتبار سے جن صحافيوں کو دھمکایا جارہا ہے. میرے خیال میں یہ سب لوگوں کو چور کہتے ہیں. اور خود اتنے گھٹیا چوری کرتے ہیں کہ جس کے بعد میرے خیال میں اگر ان میں حیا ہے تو پبلک میں آئے پھر وضاحت پیش کریں. یہ کیا مطلب کہ صحافيوں کے گھروں میں جائے کہ تم نے یہ بات کیوں لیک کی ہے. کیوں آپ نے اس کو پبلک کا ہے. اور پھر ان کو ڈرائے ان کو دھمکائے۔
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ٹیم جے یو آٸی سوات
#TeamJuiSwat
ایک تبصرہ شائع کریں