ملتان: قائدِ جمعیۃ حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا تحفظِ ختمِ نبوّت کانفرنس سے خطاب 7 اكتوبر 2021


ملتان: قائدِ جمعیۃ حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا تحفظِ ختمِ نبوّت کانفرنس سے خطاب

7 اكتوبر 2021

خطبہ مسنونہ کے بعد

جنابِ صدر محترم! اکابر علمائے کرام، بزرگان ملت، میرے دوستو اور بھائیو! عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت پر آج کے اس فقیدالمثال، عظیم الشان کانفرنس کے انعقاد پر میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، ان کے قائدین اور تمام کارکنوں کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

میرے محترم دوستو! اس اجتماع میں آپ کی عظیم الشان شرکت یہ پیغام ہے ق ا د ی ا ن کو، یہ پیغام ہے تل ابیب کو بھی، یہ پیغام ہے ق ا د ی ا ن ی ت کی دنیا میں تمام پناگاہوں کو، کہ صرف پاکستان نہیں دنیا بھر کے مسلمان جاگ رہے ہیں۔ ختم نبوت کے عقیدے پر پہرہ دینے والے مسلمانوں کی کوئی کمی نہیں۔ اور تم قا د ی ا ن ی و ں کو اپنے کسی پناہ گاہ میں بھی پناہ دینے کے قابل نہیں رہوگے۔

ایک فتنہ ہے اور ہمارے اکابر اور اسلاف نے اس فتنے کی سرکوبی کا آغاز کیا، اور بالاخر پاکستان کے سرزمین پر پاکستان کے پارليمنٹ میں ان کو ڈھیر کردیا۔

 ان شاء اللہ ہم زندہ ہیں، اور اللہ کے فضل و کرم سے اس عقیدے کی تحفظ کے لیے دنیا یہ مت سوچے کہ پاکستان میں ہم زندہ رہیں گے اور ق ا د ی ا ن ی و ں کو کوئی مسلمان کہہ سکے گا، یہ فیصلے ہم کئی بار جیت چکے ہیں۔

پاکستان بننے سے پہلے بہاولپور کی ریاست میں ایک خاتون کی دعویداری پر طویل مقدمہ لڑا گیا اور دلائل کے ساتھ انہیں غیر مسلم قرار دے دیا گیا۔

جنوبی افریقہ کی عدالت میں مقدمہ لڑا گیا، اور وہاں پر وہ مقدمہ دلائل کی بنیاد پر ہار گٸے۔ وہ اپنے آپ کو مسلمان ثابت نہ کرسکے حالانکہ وہ عدالت کوئی مسلمانوں کی نہیں تھی۔

پاکستان کی پارلیمنٹ میں، پوری کی پوری اسمبلی اسے کمیٹی بنایا گیا۔ تمام ممبران نے ان کو سنا، تیرا دن ان پر جرح ہوئی، اور وہ مسلمانوں کے اعتراضات کا جواب نہیں دے سکے۔ اور ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے پاکستان کے پارليمنٹ نے اسے غیر مسلم اقلیت قرار دیا۔

میں حیران اس بات پر ہوں کہ آئینی طور پر وہ غیر مسلم ہو، یا کسی ملک میں اس مسلئے کو پارلیمان یا آئین اور قانون کے حوالے سے کسی نے نہ چھیڑا ہو، تب بھی امت مسلمہ کے اندر یہ مسئلہ غیر متنازعہ ہے کہ ختم نبوت کا منکر غلام احمد ق ا د ی ا ن ی یہ داٸرہ اسلام سے خارج ہے، اور اس کے پیروکار دائرہ اسلام سے خارج ہے۔

پھر کیوں پاکستان پر دباو ڈالا جارہا ہے؟ کیوں آئے روز کبھی یورپی پارلیمنٹ، کبھی برطانیہ کی پارلیمنٹ، کبھی مغربی دنیا کی کوئی تنظیم، آئے روز ہمارے اوپر دباؤ ڈالتی ہے کہ ق ا د ی ا ن ی و ں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے والی اس شق کو آئین سے نکال دو۔ کس بنیاد پر اگر ہم ایک خودمختار ملک ہے۔

اگر ہم ایک ریاست ہیں، ہمارے ریاستی آزادی کا تقاضہ یہ ہے کہ دنیا کا کوئی ملک ہم پر قانون سازی کے لیے دباؤ نہیں ڈال سکتی۔

یہ کیا جمہوریت ہے؟ اگر مغرب کے عقائد کو ہم اپنائے، اگر ہم مغرب کی تہذیب کو اپنائے، اگر ہم فحاشی و عریانی کو پھیلائے، اگر ہم اپنی تہذیب کو چھوڑے، تب تو پھر ہم اس کے دوست بھی ہیں ان کے وفادار بھی ہیں۔

لیکن اگر ہم اسلام کی بات کرتے ہیں، مسلمان کی بات کرتے ہیں، اسلام کی تہذیب کی بات کرتے ہیں، اسلام کی حیا کی بات کرتے ہیں، اسلام کی تعلیم کی بات کرتے ہیں تو انہیں بڑی تکلیف ہوتی ہے۔

کیا مسلمانوں کو حق حاصل نہیں کہ وہ قرآن و سنت کی تعلیم حاصل کرے۔ پھر کیوں مدارس پر دباؤ ہے؟ کیوں مدارس کو کنٹرول کرنے کی باتیں ہورہی ہیں؟ کیا ہماری پارلیمنٹ، پارلیمنٹ نہیں ہے؟ کہ آئے روز کوئی نہ کوئی ایک رپورٹ آجاتی ہے اور کمیٹیوں میں زیر بحث ہوجاتی ہے کہ جی باہر سے یہ حکم آیا ہے، وہ ہم سے اس طرح کی قانون سازی چاہتے ہیں۔

ابھی حال ہی میں ایف اے ٹی ایف کے تحت باقاعدہ قانون سازی ہوئی ہے۔ عالمی ادارہ ہے اس نے پاکستان کو شرائط بھیجے، اور جب قانون سازی کے لیے بل اسمبلی میں آیا تو اس پہ باقاعدہ لکھا ہوا تھا کہ یہ ایف اے ٹی ایف کی خواہش پر قانون سازی ہورہی ہے۔

میں حیران اس بات پہ ہوں کہ اب تقریباً پون صدی مکمل ہونے کو ہے، اور ہم نے جس مقصد کے لیے وطن عزیز کو حاصل کیا تھا، اور اس وطن عزیز میں ہم نے اپنے لیے جس منزل کا تعین کیا تھا۔ 74 سال گزرنے کے باوجود بھی ہم اس منزل کی تلاش میں ہے، ہمیں اپنی منزل نہیں مل رہی۔

یہ تو آپ کی حب الوطنی ہے کہ مذہبی ذہن کے لوگ، دین دار لوگ، دینی مدارس سے وابستہ لوگ، دینی جماعتوں سے وابستہ لوگ، آپ کے مذہبی ووٹر وہ پاکستان کے ریاست کے ساتھ چپکا ہوا ہے۔

وہ ریاست کا وفادار ہے۔ لیکن ریاستی ادارے آپ کو ریاست سے پیچھے دھکیلنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان کی ہر لمحہ یہ کوشش ہے کہ آپ کو غدار ڈکلیر کیا جاٸے۔ آپ کو ملک کے لیے خطرناک قرار دیا جائے۔ دنیا کے سامنے مذہب اور مذہب سے وابستہ لوگوں کو بطور مجرم پیش کیا جائے، خطرناک پیش کیا جائے۔ لیکن آپ ہیں کہ ریاست کے ساتھ چپکے ہوئے ہیں۔

آج آپ کے اس جلسے کی وساطت سے پورے اعتماد کے ساتھ یہ دعوی کرسکتا ہوں کہ اگر آج پاکستان باقی ہے، آج پاکستان کے چار صوبے ایک ہیں تو دینی قوتوں کی وجہ سے ایک ہیں سیکولر قوتوں کی وجہ سے نہیں۔

اور ان کے حقائق بھی میں جانتا ہوں۔ میں قوم پرستوں کو بھی جانتا ہوں کہ ان کی کیا سوچ ہے۔

میں سیکولر دنیا کی پاکستان سے وابستگی، اُس سوچ کو بھی جانتا ہوں۔ زندگی ان کے ساتھ گزر گئی اٹھتے بیٹھتے گز گئی۔ ہم جانتے ہیں اِن کی سوچ کو، آخر ہماری وفاداری کا امتحان بار بار کیوں لیا جارہا ہے۔

جب ا ف غ ا نستان پر حملہ ہوا، تو امریکہ سے لیکر پوری مغربی دنیا اور پاکستان اور دنیا بھر میں سیکولر لابی نے ایک ہوکر ہمارے ملک کے نوجوان کو اشتعال دلایا، تاکہ مذہب اور ریاست آپس میں ٹکرائے، اور ریاستی قوت کے ذریعے سے مذہب اور مذہبی اداروں اور مذہبی لوگوں کا خاتمہ کیا جائے، ان کو تہس نہس کردیا جائے۔ لیکن یہ لوگ اشتعال میں نہیں آئے، انہوں نے ملک کا خیر سوچا، انہوں نے اس وطن عزیز کا خیر سوچا۔

مجھے معلوم ہے جنرل مشرف نے کس طرح اشتعال دلایا، کس طرح یہاں پر ایک سوچ کو آگے بڑھایا۔ لیکن الحمد للہ پاکستان کے تمام مکاتب فکر، تمام مکاتب فکر سے وابستہ دینی مدارس کی تنظیمیں سب اس بات پر متفق ہوئی کہ ہم پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں، ہم پاکستان کے آئین کے ساتھ کھڑے ہیں، ہم پاکستان کے قانون کے ساتھ کھڑے ہیں، اور جب ہم اسمبلی میں کہتے تھے کہ ہم پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں، آئین کے ساتھ کھڑے ہیں، تو ان کے چہرے یوں ڈھیلے پڑ جاتے تھے، کہ ہم تو تمہیں اشتعال دلارہے ہیں تم اس قسم کی باتیں کرتے ہو۔

ہم نے ان کی سازشوں کو ناکام بنایا ہے، ان کے عزائم کو ناکام بنایا ہے، اور وہی جنرل مشرف ابھی زندہ ہے اور وہ اپنی آنکھوں سے ا ف غ ا نستان میں امریکہ کے انجام کو دیکھ رہا ہے۔ اللہ نے اس کو اس لیے شاید موت نہیں دی تاکہ وہ اپنے آقا کہ انجام کو ا ف غ ا نستان میں اپنی آنکھوں سےدیکھ سکے۔ (قائد تیرے بصیرت کو سلام ہے سلام ہے کہ نعرے)

تو میرے محترم دوستو! یہ ملک ہمارا ہے ہم اس کو ق ا د ی ا ن ی و ں کے سپرد نہیں کرسکتے۔ چپکے چپکے لوگ ہیں بظاہر بہت کلمے پڑھتے ہیں، بظاہر کہتے ہیں ہم تو بڑے مسلمان ہیں، لیکن ہمارے اسٹبلشمنٹ کے اندر، ہمارے بیوروکریسی کے اندر، مختلف اداروں کے اندر وہ کام کررہے ہیں۔ ایسا نہیں کہ وہ کام نہیں کررہے ہیں، لیکن میں ان کو کہنا چاہتا ہوں، جہاں ہو وہی رک جاو، ورنہ بے نقاب ہوجاؤگے۔ تمہارا انجام بھی پھر آنے والی نسلیں یاد کرے گی۔ (نعرہ تکبیر)

میرے محترم دوستو! ان ناپاک عزائم کے لیے، ناپاک عزائم کے لیے اپنی مرضی کے حکمران بھی پاکستان میں لائے گئے۔ ان ناپاک مقاصد کی تکمیل کے لیے ملک میں دھاندلیوں کے ذریعے ناجائز حکومتیں قاٸم کی۔ لیکن الحمد اللہ ہم نے ان کے ناپاک عزائم کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔

ناموس رسالت کے تحفظ کا قانون اس کو ختم کرنے کے لیے باہر سے ایجنڈہ آیا، ق ا د ی ا ن ی و ں کو غیر مسلم قرار دینے والے آرٹیکل کو آئین سے نکالنے کا ایجنڈہ آیا، ہماری تہذیب کو دفن کرنے کا ایجنڈہ باہر سے آیا، اور اس کے لیے پیسے بھی آئے لیکن آپ زندہ ہیں سب کچھ ناکام ہوگیا۔

(آیت کریمہ) یہ تو دنیا کی سزا ہے نہ، (آیت کریمہ) وہ آخرت کی سزا ہے۔ پیسے لگاتے رہے کتنا پیسہ ا ف غ ا ن ستان میں لگایا، کتنا پیسہ تم نے پی ٹی آٸی کو حکومت دینے کے لیے لگایا، ہمیں معلوم ہے۔ کتنے ڈالر باہر سے آئے، برطانوی پونڈز باہر سے ائے، وہ کہاں گئے؟ لیکن ایسا ہوتا رہے گا یہ مقابلے چلتے رہیں گے۔

(آیت کریمہ) یہ مقابلے ہوتے رہیں گے۔ پیسوں سے نہیں ڈرنا۔ اقتدار کے رعب اور دبدبے سے نہیں ڈرنا۔ یہ حکمران ہیں بخدا یہ حکمران تو مجھے مچھر کے برابر بھی نظر نہیں آتے (نعرہ تکبیر)۔

کس حیثیت کے لوگ ہیں۔ لیکن  ان شاء اللہ آپ حوصلے سے رہے۔ احساس کمتری کا شکار نہ ہو۔ پوری دنیا کا ا ف غ ا ن ستان میں شکست، مذہبی دنیا کے مورال کو اونچا کرتا ہے، اور سیکولر دنیا کے مورال کو زمین بوس کردیتا ہے۔

آج میں بھی کہتا ہوں اور دنیا کے بڑی حکومتوں کے سربراہان بھی کہتے ہیں کہ امریکہ سپر طاقت نہیں رہا اور کہتے ہیں کہ ہم بھی اس شکست کے بعد سپر طاقت نہیں رہے۔ دنیا کا اعتراف ہے۔ اور پھر جب یہ لوگ ناکام ہوجاتے ہیں پھر آپ کی ہمدردی میں دو جملے کہہ دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی تو ان کے ہمدرد پھرتے رہتے ہیں نا، تو ان کو بھی مجلس میں بیٹھ کر ان کی وکالت کے لیے ایک دو جملے چاہیے ہوتی ہے۔ 

ایک زمانہ تھا جنیوا انسانی حقوق کمیشن میں پاکستان نے ایک قرارداد پیش کی تھی، تو پوری دنیا میں ہمیں ایک ووٹ بھی نہیں مل سکا، ایک ووٹ بھی، اور وہ کشمیر کے حوالے سے انسانی حقوق کی قرارداد تھی۔ ابھی اس حکومت نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن میں ایک قرارداد پیش کی اور کیا کہا ہمارے پاس اس وقت 57 ملکوں کی حمایت حاصل ہے۔ میں خود بڑا حیران ہوا کہ یہ تو بہت بڑی کامیابی ہے، کہ کسی زمانے میں ہمیں ایک ووٹ نہیں ملا اور آج 57 ممالک کی ہمیں حمایت حاصل ہے۔ ظاہر ہے خوشی تو ہوتی ہے کہ کچھ تو ہوا۔

اگلے دن میں نے پتہ کیا کہ واقعی ہمیں 57 ممالک کی تائید حاصل ہے؟ تو پتہ چلا کہ اس کمیشن کے کل اراکین کی تعداد ہی 47 ہے، 57 کی حمایت کہاں سے آگئی! اور پھر ان 47 ممبران کے فورم پر آپ قرارداد پیش کرتے ہیں تو قرارداد پیش کرنے کے لیے 16 ممالک کی آپ کو تائید کی ضرورت ہے۔ ہمیں وہ 16 بھی نہیں ملے۔ اور جب کچھ بھی نہیں ملا تو یہ قرارداد ہی پیش نہیں کرسکے۔ تو ہمارے پیر صاحب نے کہا کہ ہم نے کب کہا تھا کہ قرارداد پیش کریں گے سرے سے منکر ہی ہوگئے۔

آپ خود اندازہ لگائے کہ وہ پبلک کو کس طرح گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور پھر آپ آج دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان کا عوام اس حالت میں بھی، کہ جب غریب آدمی اپنی غربت اور بھوک کی وجہ سے خودکشی کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ آج ملک کا ہر طبقہ اپنی معاشی و اقتصادی پریشانیوں کی وجہ سے دربدر ہے۔ جیسے ہمارے اکابرین میں سے ایک بزرگ نے فرمایا کہ اگر کوئی انسان معاشی فکر سے آزاد نہ ہو، وہ انسان تو کیا ایک چیونٹی کی بھی خدمت نہیں کرسکتا۔ 

قیمتیں کہاں پہنچ گئی، عام استعمال کی چیزیں، خورد و نوش کی چیزیں، دوائیاں عام آدمی کی قوت خرید سے باہر جاچکی ہے۔ آج غریب آدمی بازار جاکر سودا سلف نہیں کرسکتا۔

ڈاکٹرز رو رہے ہیں، اساتذہ رو رہے ہیں، وکلا پِٹ رہے ہیں۔ مزدور، کسان، اساتذہ ہر طبقہ زندگی آج پریشانی کی حالت میں ہے، مضطرب ہے، ایسے کیوں کیا جارہا ہے تاکہ یہ لوگ صبح و شام پیٹ کی فکر میں لگ جائے اور یہ اسلام کو بھول جائے۔ وہ دین کو بھول جائے، وہ ختم نبوت کو بھول جائے، عقیدے کو بھول جائے، اور پھر اپنی ذات کی فکر ان کو لاحق ہوجائے اور اس قابل ہی نہ رہے کہ وہ کسی عقیدے اور نظریے کی تحفظ کے لیے کردار ادا کرسکے۔ سب کچھ اس لیے کیا جارہا ہے پھر بھی آپ کی ہمت ہے کہ اس تمام تر مشکلات کے باوجود آپ اپنے دین، اپنی ایمان، اپنے عقیدے، اپنے ختم نبوت، اپنی تہذیب و تمدن کی حفاظت کے لیے جاگ رہے ہیں۔ یہ آپ کی ہمت ہے ورنہ ان حالات میں تو یہی کہہ سکوں گا کہ اپنی ہمت ہے کہ پھر بھی جیے جاتے ہیں۔ 

تو یہ وہ ساری چیزیں ہیں کہ جن حالات سے پاکستان گزر رہا ہے، اور پاکستان میں ایک ہی چیز نشانے پر ہے وہ ہے آپ کا دین، اس لیے ملک کو حاصل کیا گیا تھا کہ پھر یہی قوم اپنے دین کی حفاظت کے لیے میدان میں ہوگی۔

پاکستان بنانے کے لیے تین وجوہ بیان کیے جاتے ہیں، مذہبی لوگ کہتے ہیں کہ یہ ملک اسلام کے لیے حاصل کیا گیا تھا، جمہوریت پسند لوگ کہتے ہیں کہ یہ جمہوریت کے لیے حاصل کیا گیا تھا، تاکہ ہندوں اکثریت ہم پر حکومت نہ کرے۔ اور ایک طبقہ ہے جو کہتا ہے کہ یہ ملک معاشی آزادی کے لیے حاصل کیا گیا تھا۔

اب اس ملک کے قیام کا مطلب اسلام ہو، جمہوریت ہو یا معیشیت ہو۔ تینوں حوالے سے آپ اپنے اس وطن عزیز کے گزشتہ 74 سال کا مطالعہ کرے کہ ان تینوں میں آپ کو کیا ملا ہے۔

آپ کے پارلیمنٹ نے طے کیا کہ قانون سازی قرآن وسنت کے تابع ہوگی اور قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہوگی۔ اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہوگا اور حاکمیت اعلیٰ رب العالمین کی ہوگی۔ آئین میں یہ سب کچھ طے ہونے کے باوجود ہماری اسٹبلشمنٹ اور بیورو کریسی ایسی ماحول بناتی ہے میڈیا کے ذریعے بھی اور دوسرے وجوہ کی بنیاد پر، کہ پارلیمنٹ میں اکثریت ان لوگوں کی آئے کہ جن کو اسلام اور دین سے کوئی دلچسپی ہی نہیں ہو۔ چناں چہ آپ کے ایوان ان لوگوں سے بھر دیے جاتے ہیں کہ جن کو کم از کم اسلام سے دلچسپی نہیں ہوتی۔

اسلام کا مخالف ہونا ضروری نہیں ہے، مسلمان بھی ہوگا، نماز بھی پڑھے گا، جمعہ بھی پڑے گا، روزہ بھی رکھے گا۔ لیکن ایک مملکتی نظام کے طور پر ملک کے قانون کے حوالے سے اس کی دلچسپی نہیں ہوگی۔ چناں چہ یہی ہورہا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل 1973 میں بنی جس نےقانون سازی کے لیے سفارشات پیش کرنی تھی، سفارشات مکمل ہے۔  لیکن ایک قانون سازی بطور مثال کی آج تک نہیں ہوسکی۔ ایک قانون سازی نہیں ہوسکی۔ 

اب اس حوالے سے تو قوم نے بھی سوچنا ہے، عوام نے بھی سوچنا ہے کہ اگر ہم انہی لوگوں سے ایوانوں کو بھرتے رہے گے تو پھر قیامت تک پاکستان میں خوشحالی نہیں اسکے گی۔ اس کے لیے انقلابی ذہن چاہیے۔ اس کے لیے بحثیت پاکستانی کے ایک قوم پرستانہ ذہنیت چاہیے۔ ہم تمام پاکستانی ایک قوم ہیں۔ ہم اس ملک کا سودا نہیں ہونے دیں گے ان شاء اللہ۔

اس بنیاد پر کچھ ذمہ داریاں آپ کی بھی ہے، کانفرنس ختم نبوت کے عنوان سے ہے، اس سٹیج پر ہر سیاسی جماعت اور ہر مکتبہ فکر کے لوگ آتے ہیں، میں خوش آمدید کہتا ہوں لیکن اس نظریے کے تحت آتے ہیں کہ ختم نبوت سیاسی موضوع نہیں ہے، ختم نبوت خالصتاً ایک مذہبی موضوع ہے، اور سیاست سے بالاتر، لیکن اس سوچ سے میرا اتفاق نہیں ہے۔

جناب رسول اللہﷺ نے اپنی ختم نبوت کا تذکرہ سیاست کی ذیل میں کیا، اور فرمایا بنی اسرائیل کی سیاست انبیاء کیا کرتے تھے، اور سیاست ریاست کے تدبیر و انتظام کا نام ہے، ایک پیغمبر جاتا تھا دوسرا یہ ذمہ داری سنبھالتا تھا، اور اب میں آخری پیغمبر ہوں یعنی سیاسی نظام میرے ہاتھ میں ہے۔

رسول اللہﷺ صرف پیغمبر نہیں تھے، حاکم تھے ریاست کے سربراہ تھے۔ ہم خلافت راشدہ کی بات کرتے ہیں۔ خلافت راشدہ کی بات ضرور کرے لیکن یہ ہوا میں کوئی چیز نہیں ہے کہ ہم ہوا میں اس کے مناظر کو دیکھتے رہے، یہ زمین پر قائم ایک نظام کا نام ہے۔ بس ایک نعرہ ہے ایک لفظ ہے ہمارے زبان پہ چڑھا ہوا ہے خلافت راشدہ، خلافت راشدہ، خلافت راشدہ۔ لیکن پاکستان میں خلافت راشدہ تو نہیں ہوسکتا لیکن اس کے طرز پر اس کے مماثل اس کی پیروی میں ایک نظام آپ لاسکتے ہیں۔ اس کی پیروی میں لاسکتے ہیں۔

اب آپ کہتے ہیں، علماء کرام ہمارے خاص طور پر بڑے دعویدار ہیں (العلماء ورثة الانبیا)، کہ علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ حدیث ہے، موجود ہے اور بلکل صحیح ہے۔ لیکن میں یہ سوچتا ہوں کہ جب عالم دین انبیاء کا وارث ہے تو پاکستان کا کوئی عالم دین انبیاء کے مصلے پر کسی اور کو کھڑا ہونے کی اجازت دیتا ہے؟ وہاں تو امامت آپ کا حق ہے کیوں کہ آپ وارث ہیں۔ ممبر رسول پر خطبہ دینے کے لیے کیا آپ غیر عالم دین کو خطبہ کرنے کی اجازت دیتے ہیں؟ کیوں؟ کیوں کہ آپ دعویدار ہیں کہ ہم وارث الانبیاء ہیں۔ تو پھر سیاست کے اس مسند پر آپ نے اس دنیا کو کیوں قبول کیا ہوا ہے؟ یہ بھی تو انبیاء کی وراثت ہے۔ یہاں تو جو شخص خالصتاً دنیادار ہو اور دین قطعاً اس کا مقصد نہ ہو آپ اسی کو ووٹ دیتے ہیں۔ مولوی بے چارہ اگر ووٹ مانگنے لگ جائے اجنبی اجنبی سا لگے گا۔ اور پھر ہمارے ہاں جو عام طور پر الیکشن لڑتے ہیں، اگر مولوی صاحب الیکشن لڑے گا، تو اسے کہے گا مولوی صاحب آپ تو شریف آدمی ہے آپ کا الیکشن سے کیا تعلق ہے؟ یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ شریفوں والا کام ہی نہیں ہے۔ جو انبیاء کا وظیفہ ہے آج اس پر ان لوگوں نے قبضہ کرلیا ہے کہ جن لوگوں کو سرے سے قرآن و سنت کے حوالے سے نظام حکومت کا اب جد تک معلوم نہیں، ان لوگوں کو کچھ بھی نہیں آتا۔ اور آپ کسی سیاست دان سے بات کرے کہتے ہیں جی میں بھی پانچ وقت نماز پڑھتا ہوں، ہمارا نماز سے کوئی جھگڑا نہیں جی، لیکن نظام مملکت نظام نہیں۔ مملکتی نظام یہ کہ کیا تم اپنے ملک میں انسانی حقوق کا تحفظ کرسکتے ہو یا نہیں۔ تم انسانی مال اس کی جان، عزت و آبرو کی حفاظت کرسکتے ہو یا نہیں، اور یہ کہ کیا تم قوم کو ایک خوشحال معیشیت دے سکتے ہو یا نہیں۔

ہم جیسے طالب علموں کا دعوی یہ ہے کہ یہ کام جو اصل میں خلافت اسلامیہ اور شرعیہ کی ذمہ دای ہے یہ بھی وہی کرسکتا ہے کہ جو پانچ وقت کا نماز پڑھتا ہو، رمضان کا روزہ رکھتا ہو، زکواة دیتا ہو، ورنہ پھر آپ میں اس کی اہلیت نہیں ہے۔

تو اس بنیاد پر اس کانفرنس کی وساطت سے آپ کی توجہ اس جانب بھی مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ آپ کو اپنی سوچ تبدیل کرنی ہوگی، ساری سیاسی جماعتیں میدان میں ہے لیکن جمعیت علماء اسلام کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ آج تک اس کے موقف میں رتی بھر تبدیلی نہیں آئی، اس استقامت کے ساتھ ایسے حکمرانوں کا مقابلہ کرنا ہر کسی کا کام نہیں۔ تو ایسے ناجاٸز، نااہل اور نالائق حکمرانوں سے جو آپ کو نجات دلانا چاہتے ہیں، تو نجات حاصل کرنے کے بعد آپ پھر انہی لوگوں کو ووٹ دیں گے؟ ( ان شاء اللہ کی آواز پر قائد کا قہقہہ)۔ 

تو اس بات پر بھی آپ کو غور کرنا ہوگا۔ اگر ایسے ہی سارے لوگ پارلیمان میں جاتے رہے تو آپ عقیدہ ختم نبوت کی تحفظ بھی نہیں کرسکیں گے۔ باہر کے ایجنڈے ختم نہیں ہوتے، بس موخر ہوتے ہیں۔ یہ سمجھ لیا کرو کہ بین الاقوامی ایجنڈے ختم نہیں ہوا کرتے وہ موخر ہوتے رہتے ہیں۔ آج وہ اپنا ایجنڈہ مکمل نہ کراسکے لیکن راستہ پارلیمنٹ اور حکومت ہوتی ہے۔ اگر یہی لوگ پارلیمنٹ میں آتے رہے جو ہمیں کہتے ہیں کہ ہم تو آپ کے ساتھ اس لیے تحریک میں شامل نہیں ہوتے کہ آپ مذہبی کارڈ استعمال کرتے ہیں۔ اب بابا مذہبی کارڈ تو بھٹو صاحب نے استعمال کیا تھا، مذہبی کارڈ تو قائداعظم محمد علی جناح نے استعمال کیا تھا، تو اس کا معنی یہ ہے کہ ہم صحیح سمت پہ جارہے ہیں۔ بات آئین کی ہے اگر معیشیت کی بات آئین کرتا ہے، اور میں اس لیے کہتا ہوں کہ میرے آئین کا تقاضہ یہ ہے اگر جمہوریت کی بات آئین کرتا ہے، اور میں اس لیے جمہوریت کی بات کرتا ہوں کہ آئین کا تقاضہ ہے، تو پھر اسلام کی بات آئین کرتا ہے۔ 

محرومیوں کی بات کرتے ہو ہم محروم لوگوں کے ساتھ ہیں۔ لیکن اس مذہبی طبقے سے زیادہ محروم اور کون ہوگا، کہ جو 74 سال ہوگئے اور آج تک وہ پاکستان میں دین اسلام کے حوالے سے تشنگی محسوس کررہے ہیں، اس کی پیاس نہیں بجھائی جارہی۔ یہ بھی تو ایک مقصد رکھتا ہے۔ اس کے اندر بھی تو کوئی چیز، ایک حرارت ہے۔ اس کا کسی کو احساس نہیں اور جب ایک دن لاوا پھٹے گا، پھر کہیں گے مولوی بڑا دہشت گرد ہے۔ تو پھر دہشت گرد تو تم ا ف غ ا ن ستان کے ط ا ل ب ا ن کو بھی کہتے رہے اب کہو نا، اب ذرا کہو نا! 

عجیب بات یہ ہے کہ اف غ ا ن حکومت تسلیم کرنے میں جھجک محسوس کررہی ہے۔ میں نے کہا ان لوگوں سے، کہ امریکہ آج دو باتیں کرتا ہے، کہ وہ انسانی حقوق کی تحفظ کی ضمانت دے اور وہ خواتین کی تعلیم اور ان کی ملازمتوں کی ضمانت دے۔ تو میں نے ان سے کہا کہ امریکہ ان کے ساتھ معاہدہ کرچکا ہے، معاہدے کے نکات معلوم ہے اس پر دونوں فریقوں کے دستخط ہیں۔ ابھی معاہدے پر عمل درآمد باقی ہے، اور اس دوران میں نٸے شرائط پیش کرنا، یک طرفہ طور پر یہ معاہدے پر ایک اضافہ ہے، جس کا ایک فریق کو تنہا حق نہیں پہنچتا۔ ایک فریق کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ ابھی تک معاہدے پر عمل درآمد مکمل نہیں، اور وہ اس مراحل میں ابھی موجود ہے، اور آپ اسے کہے کہ جی اب آپ یہ بھی کرے یہ بھی کرے، یہ آپ کو حق نہیں پہنچتا۔ 

تو اس اعتبار سے، پھر کہتے ہیں ا ف غ ا ن ستان میں پیسہ نہیں ہے۔ دو تین مہینے کے بعد تنخواہیں دینے کا پیسہ نہیں ہوگا۔ تو میں نے کہا صاحب آپ انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں، آپ کہتے ہیں کہ ط ا ل ب ا ن انسانی حقوق کا تحفظ کرے، لیکن جب دنیا کی عدم تعاون اور ان کی مالیاتی مدد کا ہاتھ روک دینے کی وجہ سے وہاں پر پیسے کی کمی آئے گی، وہاں پر بھوک آئے گی، مہنگائی آئے گی۔ کیا یہ انسانی حقوق کے زمرے میں آئے گا یا نہیں آئے گا؟

اور انسانی حق اگر ا ف غ ا ن ستان میں بھوک اور افلاس کے حوالے سے پیدا ہوتا ہے یہ مسلہ، تو اس کا ذمہ دار ط ا ل ب ہوگا یا امریکہ اور بین الاقوامی برادری ہوگی (امریکہ امریکہ کے نعرے).

سیدھی بات ہے تو دنیا اس وقت یکطرفہ طور پر یہ ساری باتیں اس لیے کی جاتی ہے کہ پھررہے ہیں، ہم شرائط لگا رہے ہیں، ہم دنیا کو روک رہے ہیں۔ یہ اپنے شکست کو چھپانے کے لیے کوشش کی جارہی ہے کہ اس کی تلافی ہوسکے۔ 

لیکن میں پھر یہاں سے عالمی برادری سے کہوں گا کیوں کہ ا ف غ ا ن ستان وہ سرزمین ہے جہاں نہ برطانیہ اپنے قدم ٹکا سکا، جہاں نہ روس اپنے قدم ٹکا سکا اور جہاں نہ امریکہ اور نیٹو کو ٹکنے کا موقع دیا گیا، اور اس پر ایک اضافہ کروں کہ *کچھ لوگ ق ا د یا ن ی بن کر بھی ا ف غ ا ن ستان گٸے۔ پھر ان کا جو انجام ہوا آج تک ق ا د ی ا ن ی اس طرف رخ کرنے کو بھی تیار نہیں۔*

تو اس حوالے سے ہم ایک پرامن معاشرہ چاہتے ہیں۔ لیکن آئیں مل کر یہ معاشرہ بنائے، یک طرفہ طور پر ایک لابی اپنے افکار ہم پر مسلط کرے اور پارلیمنٹ کو اس مقصد کے لیے استعمال کرے، ہماری اسٹبلشمنٹ کو اس مقصد کے لیے استعمال کرے۔ عوام نہ پھر پارلیمنٹ پر اعتماد کرے گی نہ اپنے اداروں پر اعتماد کرے گی۔ اگر پارلیمنٹ پر اعتماد چاہتے ہو تو پھر ہمارے راستے مت روکو۔ پھر  ملکی نظام میں ہم ایک برابر ہے۔ ملکی وسائل استعمال کرکے اگر تم مذہب اور مذہبی طبقے کا راستہ روکو گے، تو پھر پارلیمنٹ پر بھی اعتماد ختم ہوجائے گا، پھر ریاستی اداروں پر بھی اعتماد ختم ہوجائے گا۔

ہم چاہتے ہیں کہ ریاست رہے، پارلیمنٹ رہے، اس کا وہ مقام رہے، اس کی حاکمیت کا مقام محفوظ رہے، جو آئین نے اس کو دیا ہے۔ ادارے رہے اور آئینی دائرہ کار کے اندر اپنے فرائض سرانجام دے، ایک دوسرے کے علاقوں میں نہ جایا کرے۔ 

اس نظریے کے ساتھ آج ہم میدان میں ہے۔ یہ ملک نہ انگریزوں کے ایجنٹوں کے لیے بنا تھا، یہ ملک نہ امریکیوں کے ایجنٹوں کے لیے بنا تھا اور نہ یہودیوں کے ایجنٹوں کے لیے بنا تھا۔ بہت کچھ ہم جانتے ہیں، اور  ان شاء اللہ العزیز اس میدان میں کھڑے ہیں اور اپنا فرض ادا کرتے رہیں گے، اپنا فرض ادا کریں گے۔

یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ کرپٹ لوگ، اب کرپٹ لوگ جو ہے انہی کو تو حکومت ملتی ہے، جو صاف لباس کے لوگ ہیں انہیں تو آپ آگے آنے نہیں دیتے، اور مفت میں ان کے دامن پر چھینٹے مارتے ہو پھر شرمندہ بھی نہیں ہوتے کہ ہم نے کیا جک ماری، تو یہ سیاست نہیں ہونی چاہیے، نظریات کی سیاست ہو آئے میدان میں، کرپشن اور کرپشن اور احتساب احتساب وہ بھی ہم نے دیکھ لیا۔ 

وہ بھی ہم نے دیکھ لیا کبھی پانامہ آجاتا ہے، کبھی پینڈورا آجاتا ہے، تو کبھی کیا آجاتا ہے کبھی کیا آجاتا ہے۔ اس سے ہمارے مولوی بے چارے کا کیا تعلق؟ جو کچھ بھی ہو تم ہی ہو۔ اگر اس بنیاد پر کسی کو حق اقتدار حاصل نہیں تو پھر جو تم حکمران ہو تمہیں اقتدار کا حق حاصل نہیں۔ اگر پاکدامنی کی بنیاد پر کسی کو اقتدار کا حق حاصل ہے تو پھر صرف ہمیں حاصل ہے تمہیں حاصل نہیں ہے۔

تو میرے دوستو! اس حوالے سے ہم نے جاگتے رہنا ہے۔ میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کا شکر گزار ہوں کہ ختم نبوت کے قلعے پر وہ پہرہ دے رہے ہیں۔ تاکہ کوئی اس میں نقب نہ لگا سکے۔ ہم تو کبھی غافل رہتے ہیں لیکن اس تنظیم کو اللہ اس طرح محفوظ رکھے۔ ان شاءاللہ ہمیں ہر وقت آپ اپنا سپاہی پائیں گے، اور اس ملک کو ہم اس منزل کی طرف لے جانا چاہتے ہیں جس منزل کے لیے یہ بنا تھا۔ لیکن چونکہ سیاسی میدان میں ہمارا نظام انتخابی ہے۔ اس انتخاب میں ووٹ کا بڑا کردار ہے۔ آپ کو بھی ذرا اپنے ارادے تبدیل کرنے ہوں گے۔ جب آپ کے اندر تبدیلی آئے گی تو پھر وہ انقلاب کا آغاز ہوگا، ورنہ پھر معاملات جوں کہ توں چلتے رہیں گے۔

اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین 


ضبط تحریر: #سہیل_سہراب

ٹیم جے یو آئی سوات

#TeamJuiSwat

0/Post a Comment/Comments