3 اكتوبر 2021
خطبہ مسنونہ کے بعد
میرے لیے سعادت کی بات ہے کہ خیبر پختونخوا کی جمعیۃ کی مجلس عمومی کے اجلاس میں شریک ہورہا ہوں. اللہ تعالی ہم سب کی اس مجلس میں شرکت کو قبول فرماٸے. اپ حضرات کا گھروں سے یہاں تک کا سفر اور پھر اپ کے مالی اخراجات، یہی اپ سے اللہ کو مطلوب ہیں.
ایمان والوں کے پاس دو ہی چیزیں ہوتی ہیں، ایک اس کی جان ایک اس کا مال. اللہ رب العزت فرماتے ہیں، یہ دونوں چیزیں میں نے ایمان والوں سے خریدلی ہے. اور پھر ان دونوں چیزوں کی جو میں نے قیمت ادا کی ہے، وہ قیمت جنت ہے.
اب جنت اخرت میں ایک مومن کی اتنی عظیم الشان کامیابی ہے، اتنی عظیم الشان متاع ہے، کہ اس کا شاٸد ہم تصور بھی نہ کرسکے.
اپ اللہ تعالی کی مغفرت اور اس کی جنت کی طرف ایک دوسرے سے اگے نکلنے کی کوشش کرو.
ایسی جنت کہ جس کی صرف چوڑاٸی اسمانوں اور زمینوں کے برابر ہے. اب ظاہر ہے کہ ایک تو اللہ کو نہ ہماری عبادت کی ضرورت ہے نہ ہمارے جان کی ضرورت ہے، نہ ہمارے مال کی ضرورت ہے.
وہ بے نیاز ہے. لیکن دنیوی زندگی میں اعمال صالحہ کو اکھٹے کرنا، اعمال صالحہ کو ذخیرہ کرنا، یہ مقصود ہے.
اس کے طرف متوجہ کرنا منظور ہے. اور ہمارے اکابر فرماتے ہیں کہ دنیا میں اعمال صالحہ یہ درحقیقت ایک علامت ہے، کہ اللہ کی رحمت تمہارے طرف متوجہ ہے.
چنانچہ جب ہم عبادت کرتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں، زکواة دیتے ہیں، حج پہ جاتے ہیں، تہجد پڑھتے ہیں، یہ اللہ کی طرف سے ایک توفیق ہے جو مل جاتی ہے. اور رب العزت اس کو ہمارے نیکیوں کے خزانے میں جمع کرتے رہتے ہیں. اور اس طرح ہم اس کی رحمت کے نیچے اجاتے ہیں، ان کی رحمت ہمارے طرف متوجہ ہوجاتی ہے.
جو ادمی گناہ اور معصیت کرتا ہے، نہ اپنی جان اللہ کے دین کی طرف صرف کرتا ہے، نہ مال اللہ کی دین کے لیے صرف کرتا ہے، خرافات میں صرف کرلیتا ہے، عیاشیوں میں صرف کرلیتا ہے.
تو یہ علامت ہے اس بات کی، کہ اللہ کا عذاب ان لوگوں کی طرف متوجہ ہے. کیونکہ اللہ بااختیار ہے. لیکن مومن کے لیے بھی گناہ میں اک ایسا پہلو ہے، کہ اگر مسلمان اپنے گناہوں پہ شرمندہ ہوجاٸے، اور اللہ کے سامنے شرمندہ ہوکر گڑگڑاٸے اور اس کے انکھوں میں انسو اجاٸے کہ یااللہ مجھ سے تیری بندگی کا حق ادا نہیں ہوا، مجھ سے بندگی میں کوتاہی ہوگٸی ہے، تو یہ بھی پھر ایک مومن کی علامت ہے.
کیوں کہ انسان سے خطاٸیں ہوتی ہیں. لیکن خطا کا احساس ہونا چاہیے. جسکو اللہ تعالی خطا کا احساس دلا دیتا ہے، اس پر ندامت عطا کردیتا ہے. پھر وہ تنہاٸی میں اللہ کے سامنے روتا ہے، یہ بھی بندگی کی علامت ہے.
اللہ رب العزت نے ہمیں ایسی جماعت عطا کی ہے، کہ جماعتی زندگی میں بھی، جناب رسول اللہﷺ نے ان دو ادمیوں کی طرف اشارہ کیا ہے، اور اس کا تعارف کرایا ہے. ایک یہ کہ وہ مفادات کا خواہش مند ہے، دنیوی ملتا ہے تو اپ کے ساتھ ہے، دنیوی مفاد نہیں ملتا تو اپ کے ساتھ نہیں ہے.
غلط راستے پر چلنے والے لوگ یا مشرک تھے , یہود تھے یا عیساٸی یا منافقین. چار بڑے گروہ، اب اگر کوٸی شخص کلمہ گو بھی ہے تب کلمہ گو ہونے کے باوجود ان چاروں کی غلط عادتیں اس میں اسکتی ہیں. چنانچہ یہ منافقین کی علامت تھی، کہ وہ اپنے مفاد کو سامنے رکھتے تھے. اگر مال غنیمت میں کوٸی حصہ نہیں ملا، تو پھر شاکی ہوجاتے تھے.
جناب رسول اللہﷺ نے اس کی نشاندہی اس طرح فرماٸی ہے، روپے پیسے کا بندہ ہلاک ہوگیا، لباس کا بندہ ہلاک ہوگیا، جس کی نظر صرف اپنے ذات پر ہوتی ہے اپنے جان پر ہوتی ہے. اور یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ان کو کچھ دیا جائے تو راضی ہوتے ہیں، کچھ نہ دیا جاٸے تو ناراض ہوتے ہیں. یہ بندہ ہلاک ہوگیا.
یہ منہ کے بل گرگیا، اس کے پاوں میں ایسا کانٹا چبھا جو کبھی نہ نکلے.
اور پھر ایک دوسرے شخص کا تذکرہ کیا ہے، جس کی نظر اپنی ذات پر نہیں ہے، مقصد پر نظر ہے. دنیا میں مبارکباد دیتا ہے خوشخبری ہے، اس بندے کے لیے جو گھوڑے کے باگ تھامے میدان میں اترنے کے لیے تیار ہے. اور گمنام سپاہی ہے نام والا بھی نہیں ہے. پراگندہ سر ہے اس کے پاوں گرد سے اٹے ہوٸے ہیں. گھوڑے کی باگ پکڑے اترنے کے لیے تیار ہے.
اور گمنام ایسا کہ جو ڈیوٹی اس کو دی جاٸے. اسے کہا جاٸے تو نے پہرہ دینا ہے تو پھر وہ پہرہ دیتا ہے.
اسے کہا جاٸے کہ تو لشکر کے پیچھے پیچھے او اگر کوٸی بندہ رہ جاٸے، کوٸی سامان کسی کا رہ جاٸے اسکو سنبھالتے ہوٸے آو تو پھر وہ ڈیوٹی دیتا ہے.
حیثیت اس کی یہ ہوتی ہے کہ اگر وہ چھٹی لیتا ہے تو اس بیچارے کو چھٹی نہیں ملتی، اگر وہ کسی کی سفارش کرتا ہے تو اس بیچارے کی سفارش بھی نہیں سنی جاتی. تو ایسے لوگوں کو رسول اللہﷺ نے اس کو دنیا میں خوشخبری دے دی ہے کہ اپ کی اخرت ٹھیک ہے اپ کامیاب ہیں.
اب ظاہر کہ اصل چیز تو اللہ کے سامنے اپنی خدمات پیش کرنی ہیں. اسکی رضا کے سامنے جھکنا ہے.
عطا۶الرحمن کہہ رہا تھا کہ سارے سٹیج پہ نہ چڑھا کرو. تو وہ ایک شاعر کہتا ہے کہ قل ھواللہ کا تو درجہ بہت بلند ہے اگر وہ تبت یدا کے نیچے لکھا ہوا ہے تو اس کے عظمت میں کیا فرق اتا ہے. اس کے درجے کہ جو مقام ہے وہ تو اس سے کم نہیں ہوتا.
تو اس لحاظ سے اج کل چونکہ ہماری تربیت گاہیں اس طرح نہیں ہیں کہ ہم اس کا انعقاد کرسکے اور کارکن کو جماعت کا مفاد سمجھاٸے، جماعت کا مقام سمجھاٸے، جماعت کا لزوم سمجھاٸے.
بنیادی چیز یہ ہے کہ جماعت کی حقانیت اور جماعت کی بطلان کا دارومدار یہ اس کے عقیدے اس کے منشور اور اس کے پروگرام کے اوپر ہوتا ہے.
ایک ہے کسی مخصوص مقصد کے لیے، یا مخصوص وقت کے لیے ایک تنظیم بنادی. دکانداروں کی تنظیم بن گٸی، تاجر کی تنظیم بن گٸی، ہسپتال میں کام کرنے والے ملازمين کی تنظيم بن گٸی، سکولوں میں کام کرنے والے ملازمین کی تنظيم بن گٸی. وہ ایک خاص داٸرے میں ایک خاص مقصد کے لیے اور ایک محدود مقصد کے لیے ہوتا ہے.
لیکن ایک سیاسی جماعت جو ایک جامع پروگرام رکھتی ہے، اس کا ایک جامع نظریہ ہوتا ہے.
ایسا نظریہ اگر وہ حکمران بن جاٸے تو اس منشور کی رہنماٸی میں وہ ملک کو چلاتا ہے. چنانچہ جمعیۃ علماء اسلام کے اکابر نے جماعتی فلسفے کے حوالے سے عجیب رہنماٸی کی ہے. کہ اگر جماعت عقیدے اور فلسفے کے لحاظ سے حق ہے، تو پھر اس میں شامل ہونا واجب ہے. اور اگر ایک جماعت اپنے پروگرام اور نظریے کے حوالے سے باطل ہے، تو اس جماعت سے لاتعلق ہونا واجب ہے.
ہم نے جماعت کو اس انداز میں پیش نہیں کیا ہے.
علیکم بالجماعۃ
اب ظاہر ہے اس سے ہر جماعت تو مراد نہیں تھی، مسلمانوں کی جماعت مراد تھی. اس سے وابستہ ہوجاو، حکم دے دیا ہے. اب یہ ہوسکتا ہے کہ ایک جماعت نظریاتی جماعت ہو، اور حق نظریے کی حامل جماعت ہو. لیکن اجتہادی طور پر کبھی کبھی کسی مسلے میں وہ غلط فیصلہ بھی کرسکتی ہے. ہے تو ہم سب انسان غلطی تو کرسکتے ہیں، انفرادی طور بھی کرسکتے ہے اور اجتماعی طور پر بھی کرسکتے ہیں. لیکن ایک جزوی قسم کا غلط فیصلہ، وقتی طور پر ایک مسلے پر غلط فیصلہ یہ جماعت سے لاتعلقی کا جواز نہیں بن سکتا. اور باطل جماعت ہو اس سے لاتعلق ہونا واجب ہے. لیکن وقتی طور پر کسی ایک ادھ مسلے پر وہ صحیح فیصلہ بھی دے سکتا ہے.
ایک نیا ایشو پیدا ہوا، ایک جماعت ہے اس کا نظریہ اسلامی نہیں ہے. لیکن اس مسلے میں وہ صحیح راٸے دے سکتا ہے. تو کسی بھی جزوی مسلے یا وقتی مسلے پر باطل جماعت کا صحیح فیصلہ بھی اس جماعت سے وابستگی کا جواز نہیں بناسکتا.
اور اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک گھنا درخت ہے، سرسبز و شاداب، سایہ دار اور اس کی ایک شاخ خشک ہوجاتی ہے، تو ایک چھوٹی سی شاخ اس درخت کی خشک ہوجاٸے. اپ اس کے سایے میں بیٹھنے سے بےنیاز نہیں ہوسکتے. اپ کو وہاں جانا پڑے گا.
چھوٹی چھوٹی شاخ اگر خشک بھی ہوجاٸیں تو کیا فرق پڑتا ہے، اتنا بڑا درخت ہے اور گھنا درخت ہے اور بڑا گھنا سایہ ہے اس کا، تو ایک شاخ سے اپ بےنیاز نہیں ہوسکتے. لیکن ایک درخت جو خشک ہوچکا ہے اس کے پتے گرچکے ہیں، ایک شاخ اس کے پتے تھوڑے سرسبز ہیں. لیکن وہ اپ کو پھر بھی اس کی اجازت نہیں دے گا کہ تم اس کے نیچے بیٹھ کر سایہ لے سکو. یہی جماعتوں کی صورتحال ہوتی ہے.
تو اللہ تعالی نے ہمیں ایک ایسی جماعت عطا کی ہے، کہ جس جماعت کا ایک پس منظر ہے. اس کی ایک تاریخ ہے اور جن اکابر نے اس جماعت کی بنیاد رکھی ہے ہمارا سو فیصد بلکہ اس سے بھی زیادہ ان پر اعتماد ہے کہ انہوں نے اس کی بنیاد اخلاص پر رکھی تھی.
(ایت کریمہ)
اس کا مصداق بنتے ہیں یہ لوگ، اب اتنے بڑے اعلی درجے کے اکابر سے ہماری نسبت اس سے بڑھ کر ہمارے لیے کیا چاہیے.
اگر شیخ الہند جیسی شخصيت سے ہماری نسبت ہوجاتی ہے، تو اس سے بڑھ کر ہمیں اور کیا چاہیے.
تو ہم نے ان نسبتوں کی حفاظت بھی کرنی ہے. تمام کمزوریوں کے باوجود نہ علم میں ہم وہ مقام لے سکتے ہیں نہ عمل میں، تقوی تو شاٸد ہو ہی نہیں.
یہ جو نسبت ہے اس کا بھی خیال رکھنا ہے. اللہ تعالی اس جماعت کی حفاظت فرماٸے.
یہ جماعت کسی سرکاری ایجنسی کی مرہون منت نہیں ہے. انہوں نے تو ہمیشہ ہمیں توڑنے کی کوشش کی ہے. ہمیں قوت اللہ عطا کرتا ہے. ہمیں وہ دن بھی یاد ہے جب جمعیۃ کمزور تھی. صرف چند علماء، مدارس کے اساتذہ و طلباء اس میں زیادہ تر کام کرتے تھے. لیکن اج جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کی ایک توانا اواز بن چکی ہے. اسے ایک سیاسی قوت کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے. جو ذہنیت ہمارے ملک کے اوپر مسلط رہتی ہے چاہے وہ اسٹبلشمنٹ کی ہو چاہے بیوروکریسی کی ہو. ہماری تعلیمی نظام جو وہاں موجود ہیں اس میں مذہبی لوگوں کی گنجاٸش نہیں ہے. اب بھی مذہبی لوگوں کے بارے میں یہ ذہنیت ہے کہ ان کا سیاست سے کیا تعلق ہے. الٹا اپ سے کہتے ہیں کہ اپ تو شریف ادمی ہے اپ کیوں سیاست کرتے ہیں. یعنی اس کا مطلب یہ کہ ہم بدمعاش لوگ ہیں, سیاست ہمیں کرنی ہے، شریف ادمی کیوں سیاست کرتا ہے.
لیکن چونکہ ہمیں امارت میں اپنے اکابر سے دو ہی چیزیں ملی ہیں،
ایک جماعت کا نظریہ
اور ایک اس نظریے کے لیے کام کرنے کا رویہ.
جب ہم ان اصولوں کی بنیاد پر کام کریں گے تو پھر اپ کی طاقت تک کوٸی نہیں پہنچ سکتا.
ہمارے ہی ماحول کے کچھ مذہبی لوگ, کوٸی فرقہ واریت کے طرف چلا جاتا ہے. ہمارے ہی شکل کے لوگ مذہبی ذہنیت رکھنے والے شدت اور انتہا پسندی کی طرف چلے جاتے ہیں. لیکن ہمیں اپنے اکابر نے اعتدال کا رویہ اپنانا اور ملک کے اندر جو ہمارا نظام ہے جو قانون ہے اس کے داٸرے میں رہتے ہوٸے محنت کرنا، اس سے باہر نکل کر ہمارے لیے ازماٸشیں بہت ذیادہ ہوسکتی ہیں .
تو ازماٸشوں کو لوگ خود دعوت نہیں دیا کرتے، آزماٸشوں سے لوگ پناہ مانگتے ہیں.
ہمارے ایک بزرگ تھے، فرماتے تھے کہ صبر کی دعا نہ کیا کرو کیونکہ صبر کے لیے ازماٸش لازم ہے. پھر ازماٸش اپ برداشت نہیں کرسکیں گے، پھر وہ امتحان کو دعوت دینے والی بات ہے.
تو اس اعتبار سے یہ بھی ایک صبر ہے کہ اپ ملک میں دین سے بغاوت دیکھ رہے ہیں، اللہ کی نافرمانی کو دیکھ رہے ہیں. باقاعدہ تنظیمیں اور جماعتیں اس کے لیے کام کرتی ہیں. اور پھر ہمارے ملک کا جو نظام ہے وہ باقاعدہ ان کی حوصلہ افزاٸی کرتا ہے.
پھر اس کے نتیجے میں جس قسم کے لوگ ہم پر مسلط ہوجاتے ہیں، تو ایسے لوگوں کی حکمرانی برداشت کرنا یہ بھی تو صبر ہے.
اللہ تعالی فرماتے ہیں
وتواصو بالحق وتواصو بالصبر. اب اگر حق کا پرچار کرنا ہے تو حق کو ہم کیسے پہچانے، حق کسی چیز کے ہونے کا نام ہے (یو شے چی شتہ ٸیی نو ھغے تہ حق واٸی ) اور باطل مٹ جانے والے کا نام ہے. کسی شے کا نیست و نابود ہوجانا. تو باطل کو نیست و نابود کرنا ہے اور حق کو مستحکم کرنا ہے.
تو ظاہر ہے کہ پھر تو ازماٸشیں اٸیں گی، اور اس سے ذیادہ ازماٸشیں انبیاء کرام پہ اٸیں.
لیکن حق تو سمجھ میں اتی ہے یہ قران ہے یہ حدیث ہے، یہ اللہ کے احکامات پر چلنے کا راستہ ہے اور اسکو ہم حق کہتے ہیں.
باطل کو کیسے پہچانوگے. ہمارے گاوں میں اگر کوٸی چھوٹا موٹا ادمی کوٸی غلط بات کہہ دے، تو ہم اس کو ڈانٹتے بھی ہیں، اس کے خلاف بات بھی کرتے ہیں اور پھر دعوی کرتے ہیں کہ ہم باطل کا مقابلہ کررہے ہیں. وہ تو کمزور ہے بے چارہ، اسے تو تھپڑ بھی مارو تو شاٸد اپ کو جواب نہ دے سکے.
انکھوں سے دیکھ لیا کہاں ہے اس کی حقیقت، کیا ہے اس کی حقیقت. پچھلی حکومتیں جس قانون سازی کی جرات نہیں کرسکی، یہ حکومت کررہی ہے. دنیا کا ایجنڈہ ہے کہ پاکستان میں آٸین سے اسلامی دفعات نکال لیے جاٸے. پاکستان کے آٸین میں ق ا د ی ا نیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا ہے، تو کہتے ہے یہ واپس لو.
ہمارے آٸین میں اگر ناموس رسالت کو تحفظ حاصل ہے، تو کہتے ہے اس کو ختم کرو. توہین رسالت کے ارتکاب میں گرفتار لوگوں کو جیلوں سے رہا کرو اور یہ کررہے ہیں. کبھی عدالت کا سہارا لیتے ہیں کبھی کس چیز کا کبھی کس چیز کا سہارا لیتے ہیں.
تو ایسے لوگ جن کا ایجنڈہ یہی چیز ہے ان کا مقابلہ ہم نے کیا ہے. الحَمْدُ ِلله میں یہ دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ اللہ کی تاٸید سے یہ ایجنڈا تو ان کا ناکام ہوگیا کہ وہ کوٸی قانون تبدیل کرسکے.
اور وہ دنیا بھی سمجھ گٸی ہے کہ یہ لوگ اب مزید حکومت کے اہل نہیں ہیں یہ نااہل ہیں.
لیکن پھر بھی بہرحال مشکلات تو ہیں، ہماری اسٹبلشمنٹ مسلسل یہ تاثر دے دیتی ہے کہ یہ سیاسی مولوی ہے، تو سیاسی مولوی کا کیا مطلب؟ میرا پیغمبر بھی سیاسی پیغمبر تھا. اگر میرا نبی سیاسی پیغمبر تھا تو اگر علماء اس کے وارث ہیں تو وہ سیاست نہیں کریں گے؟
ہم جب ختم نبوت کے جلسے کرتے ہیں تو ہم بڑے دڑلے سے کہتے ہیں کہ یہ غیر سیاسی موزوں ہے اور یہ غیر متنازعہ ہے. یہ وہ موزوں ہے جس پر ساری امت متفق ہے. اسلام پر ساری امت متفق نہیں ہے؟
لیکن ایک تاثر دے دیتے ہیں کہ، حالانکہ میں نے تو یہ عرض بھی کیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے اپنی نبوت کا ذکر سیاست کے ذیل میں کیا ہے. بنی اسراٸیل کی سیاست انبیاء کرتے تھے، ایک جاتا تھا دوسرا اس کی جگہ لے لیتا تھا اور میرے بعد کوٸی نبی نہیں اٸے گا. تو بحثیت نبی کے جو سیاسی کام ہیں میرے بعد میرے خلفاء اٸیں گے. وہ یہ کام کرتے جاٸیں گے.
ایک تاثر یہ عام کرلیتے ہیں. تبلیغی جماعت چھ باتیں، اب ان چھ باتوں کو مکمل دین کہا جارہا ہے. حالانکہ یہ چھ باتیں ترغیب کے لیے ہیں. یہ چھ باتیں ادمی کی فکر اور خیال کو مذہب کی طرف کرادیتا ہے. مسجد میں نہیں اتا وہ مسجد کے لیے امادہ ہوجاتا ہے. وہ مسلمان نہیں ہورہا یہ باتیں سن کر اسلام کی طرف راغب ہوجاتا ہے.
اسلام کی طرف ترغیب کی ایک تحریک ہے. لیکن جس بیوروکریٹ کو دیکھو جو مذہبی ذہن رکھتا ہے، کوٸی نماز پڑھتا ہے تو ریٹاٸرمنٹ کے بعد تبلیغی جماعت میں جاتا ہے. کوٸی جرنیل ریٹاٸرڈ ہوجاتا ہے ، مذہبی ہو تو تبلیغی جماعت میں جاتا ہے.
تبلیغ والے یہی سمجھتے ہیں کہ دین والی جماعت یہی ہے. باقی ہم مدرسوں میں کام کررہے ہیں، حدیث پڑھا رہے ہیں، قران پڑھا رہے ہیں، فقہ پڑھا رہے ہیں، ان کے نزدیک کوٸی چیز نہیں. لہذا نہ مدرسہ قبول ہے نہ قران و حدیث کے علوم ان کو قبول ہے. اور وہ یہ کہہ نہیں سکتے درحقیقت وہ یہ کہہ نہیں سکتے، کہ ہمیں قران کی تعلیم نہیں چاہیے. وہ یہ کہہ نہیں سکتے کہ ہمیں حدیث کی تعلیم نہیں چاہیے.
تو پھر کہتے ہیں کہ ہم تو ان مدارس کے اندر پڑھانے والوں کو اس قابل بنانا چاہتے ہیں کہ ان کو نوکریاں مل سکے، ان کو روزگار مل سکے.
یہ جو لب و لہجہ ہے یہ گڑ کے اندر زہر چھپانے کی کوشش کررہے ہیں. اگر اپ مجھے کسی روزگار کا قابل بنانا چاہتے ہیں، تو میں نے تو نوکری کرنی ہے نا میں نو افسر بننا ہے، اپ مجھے بہت بڑا ادمی بنانا چاہتے ہیں، مجھے بڑا ڈاکٹر بنانا چاہتے ہیں، مجھے بڑا انجینیر بنانا چاہتے ہیں. تم میرے لیے یہ چند ورقے پڑھ لو کم از کم نمازی تو بن جاوگے. کم از کم اللہ کے سامنے سر جھکانے والے تو بن جاوگے.
تمھاری کھوپڑیاں میں جانتا ہوں کس قدر غرور سے بھری ہوٸی ہیں. اور تم جب اپس میں بیٹھتے ہو تو اس لب و لہجے سے بات کرتے ہو، جیسے خدا تم ہو.
اس مخلوق سے اپ کا سامنا ہے. لیکن بہرحال، قران کریم اللہ کی کتاب ہے، لیکن جہاں کتاب کا ذکر ہے اس کے ساتھ حکمت کا ذکر ہے. ویعلم الکتاب والحکمۃ، تو قانون ہے، نظام حیات ہے لیکن اس کے ساتھ حکمت کے ساتھ چلنا ہے، اس کو حکمت کے ساتھ اگے بڑھانا ہے. تدبیر اور تدبر کے ساتھ اگے بڑھانا، اور تدبیر اور تدبر دونوں الفاظ ان کا مادہ د، ب، ر ہے. یعنی انجام، معاملات کے انجام پر نظر رکھنا. چنانچہ رسول اللہﷺ فرماتے ہیں خذالامر بالتدبیر، کام کرو تو تدبیر کے ساتھ، اگر اپ تدبیر کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ اس کا انجام بھلا ہے، خیر ہے، کر گزرو. اور اگر اپ کو خوف ہے کہ اس سے نقصان ہوجاٸے گا، اس پر رک جاو، پھر اگے مت بڑھو.
تو حکمت، تدبیر، تدبر یہ انسان کا خاصہ ہے. کیونکہ عقل اللہ نے انسان کو دی ہوٸی ہے باقیوں کو نہیں دی ہے.
چونکہ معاملات اجتماعی ہیں تو اس کو اجتماعی انداز کے ساتھ جمعیۃ علماء اسلام نے سوچنا ہوتا ہے. اس کی تدبیر کرنی ہوتی ہے. لیکن یاد رکھیں اللہ کو اگر ہم نے راضی کرنا ہے اور اللہ کی مدد حاصل کرنی ہے. تو پھر پہلے اپس میں ایک دوسرے کے ساتھ اخلاص کرنا ہے. کسی مفاد سے بالاتر ہوکر ہم نے ایک دوسرے کو بھاٸی سمجھنا ہے. سب کو متحد رکھنا ہے. (ایت کریمہ) لیکن صفً پر اللہ تعالی نے اکتفا نہیں کیا ہے (کانہم بنیان مرصوص) سیسہ پلاٸی دیوار بن جاو. سیسہ پلاٸی ہوٸی دیوار کا معنی یہ ہے، کہ اگر اپ تیر پھینکے ان کی طرف، تو یہ ان کو پار نہیں کرسکے گا، اس میں شگاف نہیں ڈال سکے گا. گولی مارو تو واپس اجاٸے کچھ اثر نہ کرے. لیکن اگر تھوڑا سا بھی شگاف موجود ہو، تو اس سے تیر کا نکلنا، گولی کے نکلنے کا امکان ہوتا ہے.
نماز میں بھی یہی کہا کہ سیسہ پلاٸی دیوار کی طرح (ہاتھ کا اشارہ) یوں کھڑے ہوجاو.
تو اس لحاظ سے جماعتی صفوں کو متحد رکھنا، اپس میں تسامح اور درگزر سے کام لینا، حضرت مفتیؒ صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ابتداٸی چیز تو جماعت کے اندر تسامح ہے. انسان تو چھوٹی موٹی غلطی کرلیتا ہے ہم اس کے پیچھے پڑجاتے ہیں، کہ اس نے ایسا کیا ویسا کیا، شور مچاتے ہو کہ اس کو کٹہرے میں کھڑا کردیتے ہو. ہاں ایک حد ہوتی ہے اس کے بعد جماعت اس کا مواخذہ کرے تو ٹھیک ہے.
لیکن ہر بات کے پیچھے پڑنا اور اس ٹوہ میں لگنا کہ اس سے کوٸی غلطی تو نہیں ہوجاٸے گی، بلکہ یہ بھی کوشش کرتے ہیں کہ اس سے کوٸی غلطی کروادے تاکہ مجھے اس کے خلاف محاذ بنانے کا موقع مل جاٸے. تو جناب رسول اللہﷺ فرماتے ہیں کہ اپنے بھاٸی کے عیبوں کا پیچھا نہ کیا کرو. کسی کے پردہ پوشی کے پیچھے نہ پڑا کرو، اور اگر ایسا کروگے تو اللہ تمہارے پردوں کا پیچھا کرے گا اور تم گھر بیٹھے بیٹھے گھر کے اندر بیٹھے بیٹھے اللہ تمہیں رسوا کردے گا.
اب اج کل ہماری میڈیا کیا کام کرتی ہے، سواٸے پردہ دری کے اس کو کوٸی کام ہی نہیں ہے. میڈیا اور شریعت بلکل ایک دوسرے کے مقابلے میں ہے. اسلام کہتا ہے عیب چھپا، یہ کہتے ہیں یہی تو میری خبر ہے. میری تو خبر اس سے بنتی ہے. ایک دوسرے کے ساتھ بلکل تضاد ہے. تو اس لحاظ سے ہمیں اپنے اللہ کے دین کو پکڑے رکھنا ہے اور اس اصولوں پر ہم نے اگے چلنا ہے. کل ہم ساتھی اپس میں بیٹھے تھے گپ شپ چل رہی تھی، تو میں نے کہا اللہ رب العزت نے فرمایا ہے (ایت کریمہ) کہ ہم نے انسان کو نطفے سے بنایا اور پھر وہ کھلا جھگڑالو بن گیا. اب یہ جو کھلا جھگڑالو اللہ نے انسان کو کہا ہے یہ خلق کی بنیاد پر کہا ہے. انا خلقنا ھو تو جو چیز تخليق کے ساتھ بیان کی جاٸے گی، اس کا معنی یہ ہے کہ وہ انسان کے فطرت میں ہوگی بغیر جھگڑے کہ وہ گزارا نہیں کرسکتا. کوٸی لڑاٸی والا نہیں ہوگا تو باپ بیٹے سے اور بیٹا باپ سے لڑے گا.
لیکن اگر ہم مقاصد کے طرف اپنے اپ کو متوجہ رکھے، تو پھر اپس میں لڑاٸی کی کوٸی ضرورت نہیں پڑے گی. پھر ہم اس فریضے سے پیچھے آتے ہیں، ملک کے اندر ناجائز حکمران ہے، بے حیائی ہے، عریانی ہے فحاشی ہے. ملک آپ کا کدھر جا رہا ہے. اور اس فحاشی اور عریانی کے طوفان میں میں اگر ہم سب ایک ہو کے اس کے مقابلے میں نہیں آئیں گے تو یہ ہمیں کھا جائے گی. پھر یہ بے حیائی تو ہمارے گھروں کے اندر آجائے گی. پھر ہمارے اگلی نسلیں کیا کرے گی. تو یہ ساری چیزیں وہ ہیں جو ہمارے لیے بڑا امتحان ہے. اس میں زندگی کپانا، کام کرنا، اس میں پیسہ لگانا، جتنا بھی ہو، اللہ تعالی پیسوں کا محتاج تھوڑی ہے. وہ تو بہانہ چاہتا ہے تم کچھ تو کرو نا، چار پانچ کلومیٹر جو ہے ڈاٹسن میں جاؤ یہ تمہاری جان ہے، چار پانچ روپے کا کرایہ دو یہ تمہارا مال ہے. ورنہ ہم اللہ کا حق کیسے ادا کر سکتے ہیں اور اللہ ہمیں جنت دیتا ہے. اور ہم اپنے اعمال پر نظر دوڑائیے . آئے ! کہ ہمارے اعمال کیا ہیں، کہ ہم اس کے بدلے اللہ سے اتنی بڑی قیمت حاصل کر رہے ہیں. بس اتنا ہی مسئلہ ہے کہ جب ہم ایسا کریں گے تو اس کا معنی یہ ہوگا کہ اللہ کی رحمت ہمارے طرف متوجہ ہے اور پھر انشاءاللہ جنت ہماری جگہ ہوگی.
تو اس اعتبار سے اس وقت جو ملک میں قانون سازیاں ہورہی ہیں. گھریلو تشدد، اب گھریلو تشدد کون کرتا ہے. مشہور تو یہ ہے کہ مولوی صاحب بیوی سے ذیادہ ڈرتا ہے. مولوی صاحب باہر بڑا گرجدار قسم کی تقریر کرتا ہے، گھر میں اکر پتہ چلتا ہے کہ اس کی گرج کتنی ہے (قہقہہ کی اواز).
لیکن اس کے باوجود وہ سمجھتے ہیں کہ شاٸد ہم خواتین کے حقوق کے خلاف ہیں.
اس دن ہمارے پاس کچھ مہمان اٸے تھے، امریکن تھے. تو مجھے کہا کہ ا ف غ ا ن ستان میں ط ا ل ب ان کی حکومت تو اگٸی ہے. ہم چاہتے ہیں کہ وہ انسانی حقوق کا خیال رکھے، اور خواتین کے تعلیم اور ملازمتوں کا خیال رکھے. تو میں نے ان سے کہا دیکھو تم لوگوں نے ا ف غ ا نستان کے ط ا ل با ن کے ساتھ دوحہ میں ایک معاہدہ پر دستخط کٸے ہیں اور اسی معاہدے کے تحت تم نے 31 اگست کو اخری فوجی نکالا ہے. معاہدے کے تحت تم نکلے ہو.
اب معاہدے کے بعد سب سے پہلے ذمہ داری اپ پر اتی ہے، کہ اپ ان کی حکومت کو تسلیم کرے. کیونکہ اپ کے ساتھ معاہدے کے نتیجے میں وہ اٸے ہیں اور نظام سنبھالا ہے. اور اگر ابھی تک اس معاہدے پر عمل درامد کے کچھ مراحل باقی ہیں تو اپ کو چاہیے کہ معاہدے اور معاہدے کے عمل درامد پر فوکس کرے. اگر اپ اس سے پہلے شراٸط دیں گے تو معاہدے پر تجاوز ہیں. یہ اس معاہدے پر اضافہ ہے اور تم معاہدے پر اضافہ یکطرفہ کررہے ہو. تو اپ کے لیے دنیا کے قانون میں یہ جاٸز نہیں ہے. پھر دوسری بات یہ ہے کہ بیس سال، نہیں میں تو کہتا ہوں چالیس سال ا ف غ ا ن ستان جنگ کی حالت میں رہا ہے. اس جنگ کی حالت سے امن کی طرف لانا، تو پہلے تو امن کا استحکام ضروری ہے. امن جب مستحکم ہوجاٸے، پھر سیاسی نظام کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے. جب سیاسی لحاظ سے مستحکم ہوجاٸے تو پھر وہاں پر ملکی معیشیت اور اس حوالے سے اگے بڑھنے کی ضرورت ہے. تو جب ابھی تک وہ سنبھلے نہیں ہیں، حالت جنگ سے نہیں نکلے، ان کے نوجوان جو ہے وہ تازہ تازہ مورچوں سے نکلے ہیں. ابھی تک ان کو وہ لاشیں نہیں بھولیں وہ خون نہیں بھولا، ان کو وہ شہداء نہیں بھولے، تو اپ اس قسم کی باتیں کرتے ہیں. اس کا معنی یہ ہے کہ اپ ان کے لیے مشکلات کا کوٸی جواز تلاش کررہے ہیں. یہ اپ کے لیے جاٸز نہیں ہے.
پھر کہتے ہیں کہ ا ف غ ا ن س تان میں تو اتنا پیسہ بھی نہیں ہے کہ ایک مہینہ دو مہینہ بعد وہ لوگوں کی تنخواہیں دے سکے. تو میں نے کہا یہ میں نہیں کہہ رہا یہ اپ کہہ رہے ہیں اور اپ شاٸد صحیح کہہ رہے ہیں. اب اگر وہاں اقتصادی مشکل اتی ہے، پیسہ ختم ہوجاتا ہے، تنخواہیں نہیں دے سکتے، تو بھوک اور افلاس جب وہاں اٸے گا، یہ انسانی حق ہے یا نہیں؟ اور اگر وہاں پر اپ لوگ یا دنیا تعاون نہ کرے اور وہاں پر بھوک اجاٸے تو اس انسانی حق کہ اپ ذمہ دار ہیں. تو اپ ط ا ل ب ا ن سے انسانی حق کا مطالبہ کرتے ہیں، اور خود انسانی حق کے پامالی کا ذمہ دار بن رہے ہیں.
یہ چیزیں ذرا مدنظر ہونی چاہیں، بلاوجہ مشکلات پیدا کرنا یعنی کتنے سال وہ قطر میں رہے ابھی وہ بھی خاموش ہیں، پاکستان بھی خاموش ہے. اور ہمارے حکمرانوں کی حالت یہ ہے کہ امریکہ کا صدر اس کو فون نہیں کرتا اور ہندوستان کا وزیراعظم اس کا فون نہیں اٹھاتا(حال میں قہقہوں کی اوازیں).
اب کس طرح عالمی سطح پر ہمارے یہ حکمران قوم کی نماٸندگی کرسکیں گے. اقوام متحدہ سے خطاب کیا ویڈیو لنک کے ساتھ یہاں سے، کہ وہاں جاوں گا تو مجھے کوٸی ملے گا نہیں تو میری بے عزتی ہوگی.اس طرح پاکستان کے عزت وقار کو خاک میں ملا دیا.
اج کل لوگ دبٸی جارہے ہیں، جب میری حکومت اٸے گی تو لوگ پاکستان میں نوکریوں کے لیے اٸیں گے.
تو میرے خیال میں دو ادمی پاکستان اٸے ہیں، ایک ہمارے سٹیٹ بنک اف پاکستان کے گورنر اور دوسرا ایف بی ار کا چیرمین. باقی ان دو کے علاوہ کوٸی نہیں ایا. اب اس قسم کے لوگ حکمران ہے جس کو صرف ٹانگ پہ ٹانگ ڈالنے کا طریقہ اتا ہے. باقی اوپر کی منزل ان کی خالی ہوتی ہے.
یہ فتنے ہیں اور ان فتنوں کے مقابلے میں حضرت میں اپ کو عرض کروں، ان تین سالوں میں بلکہ اس سے بھی پہلے جمعیت کے علاوہ اور کوٸی دوسری قوت نہیں ہے کہ جو اس فتنے کے خلاف سرعام بات کرسکے.
میرے ساتھیوں اپ کو اپنی طاقت کا پتہ نہیں ہے. اس ملک میں فرقہ واریت کی جو لہر اٸی وہ ہمارے مدرسوں ہر گھر میں گھسنے لگی، کوٸی اس کے مقابلے میں کھڑا ہونے کو تیار نہیں تھا. صرف جمعیۃ علماء اسلام نے کہا یہ غلط ہے. ہمیں سیاسی نقصان بھی اٹھانے پڑگٸے. کیونکہ جذباتی نعرے ہوتے ہیں لوگ بات کو نہیں سمجھتے. لیکن اج الحَمْدُ ِلله پورے ملک کے مدارس میں وہ غیر موثر ہوگٸے الحَمْدُ ِلله. ایک وفاق المدارس میں وہ گھسے ہوٸے تھے اللہ نے وہاں بھی عمل تطہیر کردی.
یہ جو بندوق کا کلچر پاکستان میں ایا، علماء کرام نے بالاتفاق پاکستان میں بندوق کے ذریعے سے تبدیلی لانے کے عمل سے لاتعلقی اختیارکی. لیکن حضرت ان کے اس موقف کے خلاف کھڑا ہونا جمعیۃ کی بس کی بات تھی، باقی لوگ تو گھروں میں گھس گٸے تھے. نہیں یہاں نہیں ہونا چاہیے ایسا، ساری دنیا ایک جیسی نہیں ہے.
کسی نے کہا یہ جہاد کے منکر ہیں,کسی نے کچھ کہا, کسی نے کچھ کہا. جہاد جو ہے وہ تدبیر کا تقاضا کرتا ہے. وہ ارکان اسلام میں سے نہیں احکام اسلام میں سے ہے. اور حکم اسلام جو ہے وہ کچھ چیزوں میں تدبیر چاہتا ہے. رسول اللہﷺ کے زمانے میں کتنے غزوے ہوٸے، ہر ایک کی تدبیر مختلف تھی. اور رسول اللہﷺ حد درجہ کوشش کرتے تھے کہ ہم جنگ سے بچے. لیکن جب وہ نہیں چھوڑتے تھے تو پھر، اللہ سے عافیت مانگا کرو اور دشمن کا سامنا کرنے کی تمنا نہ کیا کرو. واذ لقیتم فاثبتوا اگر مقدر میں ہے اور امنا سامنا ہوگیا تو پھر بزدلی مت دکھاو ڈٹ جاو.
تو اس اعتبار سے ہم نے ایک موقف لیا اور اپنے مذہبی حلقے، مذہبی جوان کے فاٸدے میں لیا، ان کے ساتھ ہمدردی میں لیا. کہ تم ایک تحریک کا حصہ رہو.
مجھے یاد ہے کہ سن 1977 میں جب الیکشن میں دھاندلی ہوٸی اور پاکستان قومی اتحاد نے تحریک شروع کی. تو پورے ملک میں تحریک پھیل گٸی، شاٸد سفید ریشوں کو یاد ہوگا. تو قباٸلی علماء کا ایک وفد میرے پاس ایا. میں اکوڑہ خٹک میں پڑھتا تھا. میں اس وقت شاٸد اولی میں تھا. اور مجھ سے کہا کہ مفتی صاحب کو ہمارا اک پیغام پہنچادو کہ ہمارے قباٸلی علماء کے لیے کوٸی ہدایت نہیں اور ملک میں تحریک چل رہی ہے. تو میں گیا ملاقات ہوٸی، میں نے پیغام ان کو دیا. اور مفتی صاحب نے فرمایا کہ ہم تحریک چلا رہے ہیں یہ سیاسی تحریک ہے. اگر قباٸل سے ہم نے کہا کہ تم اس میں اتر او تو یہ بندوق اٹھاٸیں گے اور جب بندوق اٹھاٸیں گے، تو پھر تحریک سیاسی نہیں ہوتی. لہذا ان سے کہے کہ اپ اسی طرح بیٹھے رہے.
ہم نے یہ ساری چیزیں اپنی انکھوں سے دیکھی ہیں, اپنے اکابر کو اس طرح دیکھا ہے اس طرح سنا ہے. اور جمعیۃ علماء پاکستان ایک بہت بڑی قوت بن گٸی. اپ نے چودہ ملین مارچ کٸے ہیں. پھر ایک ازادی مارچ کیا. لاکھوں لوگ اور نظم و ضبط،
اپ نے نظریہ بھی پیش کیا، ڈٹ کر پیش کیا، بے خوف ہوکر پیش کیا. اور کوٸی نہیں کہہ سکتا کہ کراچی سے لیکر تربت، اور مکران سے لیکر یا چترال سے لیکر یا گلگت سے لیکر قافلے اٸے اور کہی ایک جگہ پر ایک گملہ بھی انہوں نے توڑا ہو.
تو جس نظم کا اپ نے مظاہرہ کیا، تو ان لوگوں نے تو مولویوں کو بڑا خطرناک کہا تھا. دنیا میں پرچار بھی کیا کہ مولوی بڑا خطرناک مولوی بڑا خطرناک، لیکن مولوی دس پندرہ لاکھ سے ذیادہ اکھٹے ہوٸے، اور مجھے ایک نوجوان نے بتایا کہ حضرت جب ہم ازادی مارچ میں پہنچے تو روڈ کے اندر جو درخت ہیں اس درخت کے نیچے ہم بیٹھ گٸے تو ہم نے اس درخت کی تصویر لے لی تو اب بارا یا تیرا دن کے بعد ہم اٹھے تو ہم نے پھر تصویر لے لی، ایک مالٹا بھی کم نہیں تھا. اسی طرح تھے (قہقہے کی اواز).
مالٹا تک کسی نے نہیں توڑا تھا. اس تصویر میں اور پہلے دن کے تصویر میں کوٸی فرق نہیں تھا.
ظاہر ہے ایسے لوگوں پر ہم فخر کرسکتے ہیں. ان کے بارے میں غلط تاثر دنیا کو دیا جارہا ہے. یہ مغرب کا تصور ہے کہ وہ مذہبی لوگوں کو، داڑھی پگڑی والوں کو، مدرسہ والوں کو دہشت گرد اور انتہا پسند کہتے ہیں. ہم ان کو دعوت دیتے ہیں کہ اگر تم اعتدال سیکھنا چاہتے ہو تو او ہم سے سیکھو. تم تو خود انتہا پسند ہو تم تو بس ان کو برداشت نہیں کرتے.
اپ کہتے ہیں کہ سیکولرازم کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص اپنے شخصی زندگی میں ازاد ہے. تو یورپ میں خواتين، مسلمان خواتين جب برقع پہنتی ہیں یا حجاب کرتی ہیں تم ان پر حملے کرتے ہو، ان کو گرفتار کرتے ہو، ان کو سزاٸیں دیتے ہو. تو اسلام کے خلاف تو اپ انتہا پسند ہے. ہم تو اعتدال کو کمال سمجھتے ہیں. اعتدال ہی کمال ہے. اگر اعتدال نہیں تو پھر یہ افراط ہے یا تفریط ہے اور وہ دونوں نقص ہے کمال نہیں ہے.
تو اس اعتبار سے اسلام ہی عدل و انصاف کا نظام ہے. اسلام ہی اعتدال کا درس دیتا ہے. اور اس مقصد کے لیے ہم جتنا اگے بڑھے ہیں، اپ نے یہاں پشاور میں کتنے ملین مارچ کیے اور دنیا نے اس میں شرکت کی.
پیپلز پارٹی کا یہ خیال تھا کہ ہم نہیں ہے تو کراچی میں جلسہ نہیں ہوسکے گا. تو کراچی میں ہم نے جلسہ کراکے دکھایا. اور کوٸی فرق نہیں تھا پچھلے جلسوں میں سے، لیکن اپ کو یہ بھی بتادوں کہ اس جلسے میں جس میں تمام جماعتوں کی شراکت ہوتی ہے. لوگوں کو لانا، جلسے کو کامیاب بنانا، لیکن میں نہیں کہتا اجلاس میں دوسرے جماعتوں کے رہنماوں نے کہا، کہ کراچی جلسے میں 95 فی صد شرکت جمعیۃ علماء اسلام کی تھی (سبحان الله، نعرہ تکبیر کی اوازیں). یہ ان کا اعتراف ہے. پھر چار جولاٸی کو یہاں سوات میں بھی جلسہ ہوا، وہ تو ساری اپ لوگوں کی محنت تھی اپ لوگوں کی شرکت تھی.
تو اس لحاظ سے الحَمْدُ ِلله یہ ساری جو ہماری حکمت عملی ہے. بعض باتیں اجاتی ہیں , جو ذرا ناگوار قسم کی ہوتی ہیں لیکن ہم پھر برداشت کرلیتے ہیں.
لیکن اس سے جماعت کو فاٸدہ مل رہا ہے. ہم اپنے جلسے بھی کرے. ختم نبوت کا جلسہ پچھلی دفعہ یہاں پر ہم نے جمعیۃ کی بنیاد پر کیا تھا. اور تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ تھا.
اب اپ چودہ اکتوبر کو حضرت مفتی محمودؒ کی یاد میں جلسہ کررہے ہیں. اپنے اکابرین کو اس طرح زندہ رکھا جاسکتا ہے. اس طرح تاریخ میں ان کو زندہ رکھا جاتا ہے. تو اپنے اکابر کو یاد رکھنا، تاکہ ان کی تعلیمات اپ کے مدنظر ہو، ان کا منہج اپ کے مدنظر ہو، ان کا رویہ اپ کے مدنظر ہو. اور ہم اٸندہ نسلوں کو بھی انہی اکابر کے راستوں پر چلانے کی کوشش کرے. تو ان شاء اللہ العزیز یہ معاملات ٹھیک ہونگے.
ابھی اپ کا ملک جو ہے مہنگاٸی کے لحاظ سے میرے خیال میں کوٸی ملک ہمارے مہنگاٸی کا مقابلہ نہیں کرسکتا. یہ کمال ہے اس کا کہ ہمارا ملک پہلے نمبر پر اگیا.
خارجہ پالیسی تو یہ ہے کہ یہ پچھلے سے پچھلے سال انہوں نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن میں کشمیر کے حوالے سے ایک قرارداد جمع کرواٸی تھی. یہاں والے میرے سامنے کہتے ہیں کہ ہم نے ایک قرارداد پیش کی تھی جنیوا انسانی حقوق کمیشن میں سن 1994، تو اس میں ہمیں کوٸی ووٹ نہیں ملا. تو اب ہمارے پاس 57 ووٹ ہیں 57 ووٹ یوں کرکے (ہاتھ کا اشارہ). میں ذرا بے خبر تھا 57 ملکوں کی حمایت، اور یہ بڑی بات ہے. اور جب میں نے پتہ کیا تو پتہ چلا کہ اس کمیشن کے کل اراکین 47 ہے تو 57 ووٹ کیسے. یہ ہے اپ کی خارجہ پالیسی (حال میں قہقہوں کی اوازیں).
اور ان 57 لوگوں کی فورم پر قرارداد پیش کرنا 16 ممبران کی دستخط ضروری ہے. وہاں اپ ایک قرارداد پیش کریں گے تو اپ کے پاس پہلے سے 16 ممبران کی حمایت حاصل ہو. تو حضرت ہمیں سولہ ممالک بھی نہیں ملے کہ ہم قرارداد پیش کرسکے، یہ ہے اپ کی خارجہ پالیسی.
تو کیا کہا جاسکتا ہے اپنے ہی ہاتھ کا کیا دھرا ہے.
ہم کہتے ہیں اسٹبلشمنٹ لاٸی ہے, اسٹبلشمنٹ کہتی ہے عوام لاٸی ہے. خدا کے لیے پاکستانی عوام پر یہ الزام مت لگاو، پاکستانی عوام بڑے سیدھے سادھے لوگ ہیں. لیکن اتنا بڑا بلنڈر نہیں کرسکتے. کہ وہ ایک نااہل کو پاکستان کا حکمران بنادے.
اور اج کل تو سوشل میڈیا ہے اپ لوگ مجھ سے بہتر جانتے ہیں، مجھے طریقے بھی نہیں اتے. جو بات وہ اج کہتا ہے، اس کے ساتھ پانچ چھ سال پہلے کی تصویر لگا دیتے ہیں. وہ دونوں خبریں متضاد ہوتی ہیں. تو پھر ایک بات تو ہو جو وہ کہہ چکا ہو اور پورا کرسکا ہو.
ناموس رسالت کا قانون الحَمْدُ ِلله یہ ختم کرنے میں ناکام ہوٸے. یہ نہیں کہ ان کا ایجنڈہ نہیں تھا. ق ا د ی ا ن ی و ں کو غیر مسلم اقلیت دینے کا کام اس کے ذمہ تھا. لیکن اپ کے رد عمل نے اس کو ایسا نہیں کرنے دیا.
مدارس کو توڑنے کے لیے انہوں نے نٸے نٸے بورڈ بناٸے. اب یہاں چونکہ ہر مکتبہ فکر کا پہلے سے اپنا ایک بورڈ ہوتا تھا، اپنا وفاق ہوتا تھا. تو پندرہ نٸے بورڈ بناٸے پندرہ نٸے بورڈ. اور پندرہ نٸے بورڈ میں صرف دیوبند مکتبہ فکر کے مدارس یعنی وفاق المدارس کے مقابلے میں پانچ بورڈ انہوں نے بنادٸے.
اور باقی تینوں مکاتب فکر کے مل کر پندرہ ہے. اور اکیلے ہمارے مقابلے میں پانچ ہے. ان کا خیال تھا کہ اس طرح ہم مدرسوں کو توڑ دیں گے. لیکن الحَمْدُ ِلله ہم نے ساری چیزیں چھوڑ دیں لیکن ہم نے کہا وفاق رہے گا اور متحد رہے گا ان شاء اللہ.
تو الاہم فلاہم کو سمجھنا چاہیے. کچھ حضرات تو سیاست کا ترجمہ ہی الاہم فلاہم سمجھنے کو کہتے ہیں. جو ادمی الاہم کو نہیں جانتا وہ سیاست نہیں جانتا (ہنسنے کی اواز).
تو الحَمْدُ ِلله اس حوالے سے بھی یہ مدرسوں کا خاتمہ چاہتے ہیں یہ بھی ناکام ہوگٸے. اور جو انہوں نے نٸے نٸے بورڈ بناٸے تھے وہ بھی دھرے کے دھرے رہ گٸے.
ایک شخص ہمارے مولوی صاحبان میں ہے. تو وہ ایک نٸے بورڈ کے سربراہ ہے یا ذمہ دار ہے. سربراہ ہے کیا ذمہ دار ہوگا. تو اس سے پوچھا گیا اپ کے بورڈ کا نام کیا ہے، تو اس کو اپنے بورڈ کا نام نہیں اتا تھا. انہوں نے یہ بورڈ بناکر دیے ہیں.
تو اب ظاہر کے تو وہ بھی مولوی ہے. لباس تو ان کا اور ہمارا ایک جیسا ہے. پگڑیاں بھی ہماری اور ان کی ایک جیسی ہیں. پگڑیوں پر جو چادر ڈالتے ہیں وہ بھی ہمارے سٹاٸل کا ڈال دیتے ہیں. لیکن جب ایک دفعہ ایک شخص عالم دین ہو اور وہ چپکے چپکے مدرسہ مدرسہ جاتا ہے، اور کہتا ہے کہ اپ وفاق چھوڑ دے تو اس کا معنی یہ ہے کہ اپنے صف کو توڑنے کی دعوت دیتا ہے نا، اپنے صف کو توڑنے کی دعوت دینے والا پھر یہ اس صف کا حصہ نہیں ہوسکتا.
جمعیۃ کو بھی توڑنے کی کوشش کی لیکن اتنا بھی ہمیں توڑ نہ سکے کہ ہم یوں دیکھ کے (انکھ کا اشارہ) متوجہ تو ہوجاٸے. یہ بھی نہ کرسکے. اس طرح ترچھی انکھ سے اس کی طرف دیکھنے کی ضرورت بھی نہیں پڑی. اور ان شاء اللہ ایسا ہی ہوگا.
میں نے دو تین سال پہلے ایک جلسے میں کہا تھا کہ اب میں تعبیر نہیں کرسکتا، کہ اس کو جماعت کی تقسیم سے تعبیر کروں یا جماعت کی عمل تطہیر سے تعبیر کروں.
دیکھیے ایک بات ذہن میں رکھے ہم کسی دوسری پارٹی کے اندر کے صورتحال کو جھانکتے بھی نہیں ہے. جس طرح ہم اپنے جماعت کے اندر، کوٸی ہمارے جماعت کے اندر جھانکے، ڈایریکٹ رابطے کرے، تو ہم جیسے اس کو برا مانتے ہیں تو باقی جماعتیں بھی اس طرح ہیں. لہذا اگر کسی نے براہ راست ہم سے رابطہ کیا ہے کہ ہم جمعیۃ میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو وہ سر انکھوں پر، دعوت بھی ہم دے سکتے ہیں، دعوت تو دنیا میں عام ہے. اب مصیبت یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر ایک خبر چل پڑتی ہے تو لوگوں کے اندر طلب پیدا ہوجاتی ہے، کہ یہ کیا مسلہ ہے ہمیں سمجھاو ہمیں سمجھاو. سوشل میڈیا کی ذیادہ باتیں جو ہے ان کو اپ اہمیت مت دیں. وہ اپنی ایک دنیا ہے. اور 95 فی صد خبریں جو ہیں وہ مذاق ہوتی ہیں، گپ شپ ہوتی ہیں.
لہذا اہمیت ان کو نہیں ملنی چاہیے اپنے کام سے کام رکھنا ہے اور فتنوں سے لڑنا ہے. فتنہ گر اگر حکمران ہے اس سے بھی لڑنا ہے. فتنہ گر اگر امریکہ ہے اس سے بھی لڑنا ہے. اور ہم نےکیا لڑنا ہے، اپنے اواز سے لڑتے ہیں اپنے گفتگو سے لڑتے ہیں. اور اس حوالے سے قوم کو اگاہ کرتے رہتے ہیں. اور اج تک الحَمْدُ ِلله حالات نے ہماری ایک بات بھی نہیں جھٹلاٸی. حالات نے ہر بات میں ہماری تاٸید کی ہے.
یہ بڑی اچھی بات ہوتی ہے کہ ایک وقت اٸے اور سب لوگ کہے کہ اپ ٹھیک کہہ رہے تھے، اپ کی بات صحیح تھی. اس وقت اپ کی بات ہمارے سمجھ میں نہیں اٸی.
اب ایک کروڑ نوکریاں دینا، سن 1947 سے لیکر اب تک پاکستان کو 74 سال ہوگٸے ہیں. ان 74 سالوں میں پاکستان کے کل ملازمین بڑے اور چھوٹے اس کی تعداد ایک کروڑ تک نہیں پہنچی. اور اس نے اکے ایک سال میں ایک کروڑ نوکریاں دینی کی بات کی.
اب ذرا ہم بھی سوچے نہ کہ یہ ہمیں کیا کہہ رہا ہے. ہمارے پاس بھی تو عقل ہونی چاہیے نہ، ہم بس انکھیں بند کرکے پیچھے پڑنا شروع کردیتے ہیں.
اس طرح کے حکمرانوں کو، جب ہم قوم کو اس کے پیچھے دوڑتا ہوا دیکھتے ہیں. تو پھر وہ دجال کے بارے میں جو روایات اتی ہیں اس پہ یقین ہوجاتا ہے. اس کے پیچھے بھی لوگ اس طرح جاٸیں گے. اگرچہ ماتھے پر کافر بھی لکھا ہوگا. لیکن مالی مفادات اس سے وابستہ ہوں گے. تو مالی مفادات کے لیے اس قسم کے کردار کو جمعیت علماء نے نہ قبول کیا ہے اور نہ قبول کریں گے ان شاء اللہ.
باقی معاملات الحَمْدُ ِلله ٹھیک جارہے ہیں. انضمام فاٹا والا جو ہم کہہ رہے تھے وہی ہوا. ہمارا تجزیہ صحیح ثابت ہوا. اب تو وہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ کیا کرے. نا اب وہ پرانے قباٸل رہے نہ نٸے رہے. بے چارے بیچوں بیچ میں ہوگٸے.
کوٸی پتہ نہیں وہاں پر اب، پہلے انہوں نے عدالتیں قاٸم کیں اور اب دوبارہ جرگے کی طرف چلے گٸے. پہلے انہوں نے پولیس قاٸم کی اب دوبارہ تحصیلدار کی طرف چلے گٸے، لیویز کی طرف چلے گٸے. تو ان سے نظام چل نہیں رہا. اور ان کو یہ نظام دوبارہ ٹھیک کرنا ہوگا.
اس طرح قباٸل کے ساتھ مذاق ہے، کہ انہوں نے کہا تھا کہ ہم ہر سال ایک سو ارب روپیہ ہر سال، اور یہ دس سال تک دیں گے یعنی ایک ہزار ارب. ابھی تین سال پورے ہورہے ہیں اٹھارہ میں یہ انضمام ہوا تھا. تین سال پورے ہوگٸے چوتھے میں داخل ہورہے ہیں. ابھی تک پچاس ارب روپے سے ذیادہ نہیں دیا. یہ پیسہ ہے جو ان کو دینا ہے.
قباٸل خود پریشان ہیں کہ ہمارے ساتھ کیا ہوا. ہمیں تو سبز باغ دکھاٸے گٸے اور پولیٹیکل ایجنٹ سے جان چھوٹ جاٸے گی، خاصہ دار سے جان چھوٹ جاٸے گی، تحصیلدار سے جان چھوٹ جاٸے گی. اب ان سے کٸی بڑی مصیبت میں ہے.
بارش سے ادمی بھاگ رہا تھا پرنالے کے نیچے کھڑا ہوگیا. تو انہوں نے قباٸل کو پرنالے کے نیچے کھڑا کردیا.
تو انضمام کے بارے میں بھی کل یہاں جرگہ ہوا تھا اور قباٸل کا بڑا جرگہ ہم نے بلایا تھا. اور بڑا کامیاب اجتماع تھا. مولانا مفتی عبدالشکور صاحب کو اللہ اجر دے، انہوں نے بڑی محنت کرکے ان کو اکھٹا کیا. اور سب نے بالاتفاق کہا کہ انضمام ناکام ہوچکا ہے
ہماری وہی پرانی سابقہ حیثیت کو بحال کیا جاٸے
تو باقی تو اس موضوع پہ میری تفصیلی گفتگو اس سے ہوگٸی تھی. لیکن نتاٸج جو ہیں وہ اپ کے خدمت میں، میں نے عرض کیے ہیں کہ جمعیۃ ان کے ساتھ ہوگی. قباٸیلوں کے ساتھ ہم ان کا مقدمہ بھی لڑیں گے اور ان کا ساتھ بھی دیں گے. اور ان کے مشکلات میں ہم ان کے ساتھ شانہ بشانہ ہوں گے ان شاء اللہ
اللہ تعالی ہمیں ہمت عطا فرماٸے. اللہ تعالی جمعیۃ علماء اسلام کو قبول فرماٸے اور مذید ترقیوں سے سرفراز فرماٸے
ضبط تحریر: سہیل سہراب
ٹیم جے یو آئی سوات
#TeamJuiSwat
TeamJuiSwat
ایک تبصرہ شائع کریں