جمعیت علماء اسلام کے زیر اہتمام وزیرستان میں ”وانا امن کانفرنس“ سے قائد جمعیت و سربراہ پی ڈی ایم حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب کا مکمل خطاب تحریری صورت میں 7 نومبر 2021


 جمعیت علماء اسلام کے زیر اہتمام وزیرستان میں ”وانا امن کانفرنس“ سے قائد جمعیت و سربراہ پی ڈی ایم حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب کا مکمل خطاب تحریری صورت میں

7 نومبر 2021

(خطبہ مسنونہ کے بعد)

جناب صدر محترم، علماٸے کرام، وزیرستان کے بہت ہی غیرتمند، اسلام پسند، دین پر سر قربان کرنے والو، مجاہدو اور میرے مسلمان بھاٸیو!

بہت عرصہ بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی کہ میں نے وزیرستان کے مرکزی مقام وانا کی مٹی پر لوگوں سے ملاقات کی، میں نے یہاں حاضری دی. اس میدان اور راستے میں آپ نے جس اخلاص، محبت اور گرم جوشی سے ہمیں خوش آمدید کہا، میں دل کی گہراٸیوں سے آپ کے اس خلوص اور محبت کا شکریہ ادا کرتا ہوں. اور اس کامیاب جلسے کے انعقاد اور اس میں آپ کی شرکت پر آپ کو سلام پیش کرتا ہوں.

میرے محترم دوستو!

میں ملکی اور بین الاقوامی اداروں ان کے ارادوں اور منصوبوں سے باخبر آدمی ہوں. 25 سال تک میں یہاں کیوں نہ آ سکا اس کا تذکرہ دوستوں نے کیا. میں صرف یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ ان قوتوں کا یہ خیال تھا کہ ہم قباٸل اور جمعیت علماء اسلام کے درمیان فاصلے پیدا کردیں گے، فضل الرحمٰن کے دل سے قباٸل کی محبت نکال دیں گے اور قباٸلیوں کے دلوں سے فضل الرحمٰن کی محبت نکال دیں گے. لیکن آج اس اجتماع میں آپ نے ثابت کردیا کہ دنیا کی کوٸی طاقت، اگر میں یہاں آؤں یا نہ آؤں، ہمارے تعلق اور اس رشتہ کو ختم نہیں کرسکتے کیوں کہ اس رشتے کی بنیاد ”لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ“ پر ہے. اور ہم اس کلمہ کے ساتھ بندھے ہوٸے ہیں. اسی کلمہ کی بنیاد پر ہم نے پاکستان بنایا ہے.

دوستو! ہر چند کہ ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ پاکستان لاالہ الا اللہ کی بنیاد پر بنا ہے. ستر سال سے زاٸد ہم نے گزارے، مگر بڑے افسوس کے ساتھ میں یہ بات کہہ رہا ہوں کہ ہم من حیث القوم اللہ کے سامنے شرمندہ ہیں. کیوں کہ ہم نے ستر سال سے زاٸد لاالہ الااللہ کے ساتھ مذاق کیا ہے. ہم کیسے اللہ کی رحمت کے مستحق ٹہریں گے؟۔

مجھے معلوم ہے کہ آج ان حکمرانوں کے وہ وکیل جو میرے پاس آٸے تھے، میرے ساتھ کٸی کٸی میٹنگز کی ہیں. میں نے بارہا یہ بات کہی ہے کہ پشتونوں کی سرزمین پر مذہب کی جڑیں گہری ہیں. مذہب کے درخت گہرے ہیں. اور ان درختوں کو اکھاڑنے کے لیے ہمارے پاس عمران خان کے علاوہ کوٸی مناسب آدمی نہیں تھا. ہر علاقے میں نٸی نٸی قوتوں کو پیدا کیاگیا کہ وہ قوم کو صرف ایک ہی سبق دیں کہ ریاست، مملکت اور مذہب کے درمیان رشتے کو ختم کردے.

ہم پارلیمنٹ میں تھے اور یہی قوتیں اور یہی جماعتیں جو آج سیکولرازم کی باتیں کر رہی ہیں، ہمارے سامنے یہ باتیں کی ہیں کہ پاکستان اس وقت آسودہ رہے گا اور پاکستان صرف اسی وقت ترقی کرسکے گا کہ اس کا تعلق مذہب کے ساتھ ختم کیا جاٸے. کیوں؟ اس لیے کہ مذہب فرقے پیدا کرتا ہے، فرقے تعصب پیدا کرتے ہیں، فرقے نفرت پیدا کرتے ہیں، فرقوں کی وجہ سے قومیں آپس میں لڑتی ہیں. تو میں نے کہا آؤ آج یہ بات بھی سیکھ لیں کہ پاکستان جب سے بنا ہے، پاکستان کی تمام مذہبی اور سیاسی پارٹیوں کے سربراہ روزِ اول سے اس کوشش میں ہیں کہ پاکستان میں فرقوں کے درمیان تعلقات اچھے ہوں. تمام مذہبی جماعتوں کے سربراہان نے ہر دور میں یہ کوشش کی ہے کہ مذہب کے اختلاف کی بنیاد پر ہم ایک دوسرے کے ساتھ گزارا کریں گے. جنگ اور جھگڑے نہیں کریں گے. پاکستان بننے سے اب تک ہمارا یہی کردار رہا ہے. ہم مذہب کی بنیاد پر قوم کے درمیان فساد اور جنگ و جدل کی باتوں سے انکار کرتے ہیں. اختلاف ہوگا لیکن اختلاف کے پیچھے رویہ، لیکن میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ یہ فساد ایک فرقے کی بنیاد پر ہے؟، یہ فساد ایک مذہب کی بنیاد پر ہے؟، کیا آپ نے قومیت کی بنیاد پر جھگڑے پیدا نہیں کئے ہیں. آپ نے قومیت کے نعروں پر نفرتیں پیدا نہیں کیں؟. آپ نے پشتون اور بلوچ کی بدی پیدا نہیں کی؟، آپ نے پشتون اور پنجابی کی بدی پیدا نہیں کی؟، آپ نے سندھی اور مہاجر کی بدی پیدا نہیں کی؟، آپ نے سراٸیکی اور پنجابی کی بدی پیدا نہیں کی؟. یہ ساری نفرتیں زبان کی بنیاد پر، علاقے کی بنیاد پر، قومیت کی بنیاد پر، یہ آپ نے پیدا کی ہیں. اور ایک قیادت ہی تھی جو میرے سامنے بیٹھی تھی. پھر تو چاہیے کہ ملک میں آپ کی سیاست نہ ہو. تم کس بنیاد پر قومیت کی بات کرتے ہو. میں نے اپنے صوبے کے حقوق کی آواز سب سے پہلے اٹھاٸی ہے. اگر پنجاب کا حق ہے، سندھ کا حق ہے، بلوچستان کا حق ہے، پختونخواہ کا حق ہے، ہم اس بات پہ کھڑے ہیں کہ جمعیت علما اسلام کا منشور قرآن و سنت کی روشنی میں بنا ہے، ہر کسی کا حق تسلیم کیا ہے، ہر ایک کے اختیار کو تسلیم کیا ہے. اپنے وساٸل پر اپنے اختیار کو تسلیم کیا ہے. لیکن آپ نے ہمیشہ اسی بنیادوں پر قوموں کو لڑایا ہے. قوموں کو لڑانا یہ آپ کا کردار ہے. قوموں کو لڑانا مذہبی لوگوں کا کردار نہیں ہے. ہاں مذہبی لوگوں میں کچھ ہیں جن کی دکانداری ہے، کبھی شیعہ سنی کے نام پر قوم کو لڑاتے ہیں، کبھی دیوبندی بریلوی کے نام پر قوم کو لڑاتے ہیں. اور جب قوم کو ایسے نعروں پر لڑایا جاتا ہے، تو یہ انہی حکومتوں کی ضرورت ہوتی ہے. ایجنسیاں ان کو لڑاتی ہیں وہی منصوبہ بندی کرتے ہیں. ریاست ان کو لڑاتی ہے کیوں کہ اس وقت یہ ان کی ضرورت ہوتی ہے. 

تو یہی عناصر جو قوم اور ملک میں نفرتیں پیدا کرتے ہیں یہ آپ کی چھتری تلے وقت گزارتے ہیں، یہ آپ کی سرپرستی میں یہ کام کرتے ہیں. آج جمعیت علما اسلام اس لیے معتوب ہے کہ انہوں نے ملک میں ایسے جھگڑوں کی حمایت نہیں کی. جمعیت علماء اسلام نے پُرامن ماحول اور پُرامن پاکستان کی بات کی ہے.

میرے وزیرستان کے بھاٸیو!

پیغمبر اسلامﷺ کے اسی جھنڈے کے ساتھ آپ کی محبت، جمعیت علماء اسلام کے ساتھ آپ کی محبت، آپ کے دلوں میں علماء کی قدر، آج وہ قرآن جس کی روشنی میں آپ اپنی زندگی گزار رہے تھے، آپ کے گھر اور خاندان والے قران و حدیث کی روشنی میں زندگی بسر کررہے تھے. آپ اپنی زندگی عالم کی رہنماٸی میں گزارتے تھے. آپ عالم سے مسئلے کے بارے میں پوچھتے تھے، وہ آپ کی رہنماٸی کرتا تھا. آج وہ قوتیں پیدا ہوگٸیں جو آپ کو یہ کہہ رہی ہیں کہ قران کریم یہ تو پرانی باتیں ہیں، یہ تو پرانے وقتوں کے مسلمان ہیں، پرانے وقتوں کی مجلس کر رہے ہیں. آؤ نیا زمانہ، نٸی تہذیب، نیا سبق، نٸی ترقی کی طرف!

حضرت امام مالکؒ فرماتے ہیں کہ یاد رکھو آخری زمانے میں بھی دنیا کی اصلاح اسی اصولوں پر کی جاٸے گی جن اصولوں پر آج کے زمانے کی اصلاح ہورہی ہے۔

لیکن آپ قرآن کی رہنماٸی سے بے نیاز نہیں ہوسکتے. آپ نبیﷺ کے زمانے، خلفاٸے راشدین کے زمانے، ان کی تعلیمات سے بے نیاز نہیں ہوسکتے. اور قباٸلیو یاد رکھو کہ آپ کا یہی رشتہ جو بھی قوت توڑنے کی کوشش کرے گا، آپ کو قرآن سے دور کرے گا، آپ کو رسول اللہﷺ سے دور کرے گا، اور آپ کو پیغمبر ﷺ کے جھنڈے سے دور کرے گا، آپ کو علماء سے دور کرے گا، ان شاء اللہ انہی قوتوں کے سامنے ہم میدان میں کھڑے ہیں، مقابلہ کریں گے اور اس وقت تک کریں گے جب تک اللہ تعالیٰ نے ہم میں طاقت رکھی ہے۔

میرے محترم بھاٸیو!

آپ انضمام کی باتیں کرتے ہیں. دوستو کو پتہ ہے کہ قباٸلیوں کا جرگہ تھا اس میں وزیر قوم کی نماٸندگی بھی تھی، اس میں محسود قوم کی نماٸندگی بھی تھی. باجوڑ تک تمام قوموں کی نماٸندگی اس میں موجود تھی. ہر ایک قبیلے کی نماٸندگی موجود تھی. اور اسی جرگہ میں قباٸل کے چار ہزار نماٸندے موجود تھے. جن علاقوں میں شیعہ، سکھ، ہندو رہتے ہیں ان کی نماٸندگی موجود تھی. صحافی بھی موجود تھے. تمام طبقوں کو ہم نے ایک پلیٹ فارم پہ کھڑا کردیا اور ایک مطالبہ کر دیا کہ قباٸلیوں کا سیاسی مستقبل قباٸل کی مرضی سے طے ہوگا.

میرے بھاٸیو!

میرے ساتھ امریکہ والے ملے ہیں. امریکہ والوں کے ساتھ میری میٹنگز ہوٸی ہیں. انہوں نے مجھے صاف صاف کہا کہ آپ ضرور اس انضمام کو کریں گے. میں کیسے حکومت کی یہ بات مان لو کہ آپ نے یہ کام امریکہ کے دباؤ میں نہیں کیا ہے. انہوں نے مجھے خود کہا ہے. مجھے کہہ رہے تھے کہ آپ تو قباٸل کے نماٸندے نہیں ہے. قباٸلوں کے تمام نماٸندگان انضمام کے حق میں ہیں. میں نے انہیں کہا کہ آپ کو کسی نے غلط بات کہی ہے، اس وقت قباٸل کے انیس ممبران ہیں اور انیس میں پندرہ انضمام کے خلاف ہیں اور چار حق میں ہیں. باقی باتیں چھوڑیں جب بل اسمبلی میں آیا سواٸے ایک دو کے باقی تمام قباٸلی ممبران اسمبلی سے نکل گٸے. اور باہر صحافیوں نے ان سے سوال کیا کہ آپ نے ووٹ کیوں استعمال نہیں کیا تو انہوں نے بتایا کہ اگر ہم اپنا ووٹ استعمال کرتے تو آج ہم اپنے حلقوں میں نہیں جاسکتے تھے.

اس وقت شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم تھے، پھر اس نے پریس کانفرنس میں کہا کہ یہ مجبور تھے اگر یہ ووٹ استعمال کرتے تو یہ اپنے حلقوں میں نہیں جاسکتے تھے. تو ثابت ہوا کہ یہ قباٸل کی مرضی کے خلاف تھا. ہم نے اسمبلی میں ان سے کہا کہ اگر آپ قباٸلیوں کے انضمام کا فیصلہ اور ان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ ان کی مرضی سے نہیں کرنا چاہتے تو ایک روز دیکھو گے اور بہت جلد دیکھو گے کہ ہندوستان کشمیر پر قبضہ کرے گا اور ایسا قبضہ کرے گا جس طرح آپ نے فاٹا پر کیا ہے. 

نتیجہ کیا نکلا کہ ہم قباٸل کو ہر سال ایک ارب روپے دیں گے. دس سال تک ہزار ارب روپے دیں گے. کیا کریں گے اس پر سڑکیں بناٸیں گے، اسکولز اور کالجز بناٸیں گے، ہسپتال بناٸیں گے اور قباٸلی لوگوں کا معیارِ زندگی اتنا بلند کریں گے کہ ان کو بندوبستی اور سیٹلڈ علاقوں کے برابر لاٸیں گے.

ایک سال میں سو ارب کا وعدہ تھا چار سال ہوگٸے ان چار سالوں میں ابھی تک ساٹھ ارب روپے بھی نہیں دیئے. تین سالوں میں پورے فاٹا میں ایک بھی سکول نہیں بنا. نوجوانوں کو ان پڑھ بنا دیا گیا. لیکن ہم نے اعلان کیا کہ ہم انضمام کے فیصلے کو تسلیم نہیں کرتے. اور یہ تحریک جاری رہے گی. آج آپ سب اکھٹے ہوٸے ہیں اسے جلسہ نہ کہئے یہ تمام وزیرستان بلکہ تمام قباٸلیوں کا جرگہ ہے. اس جرگے میں آپ کیا کہتے ہیں انضمام قبول کرتے ہیں یا نہیں؟ (نامنظور نامنظور انضمام نامنظور).

تم نے قباٸل کو سمجھا کیا ہے کہ یہ بس قباٸلی لوگ ہیں ان کو بے عزت کرو کوٸی مسئلہ نہیں ہے.

بھاٸیو! میں آپ کو صاف صاف بات بتادوں کہ اگر پورا پاکستان ایک طرف ہوجاٸے، سارے ادارے ایک طرف ہو جاٸیں، قسم سے قباٸل کی ایک پگڑی پر ان کو نہیں بدل سکتا. 

میرا دل درد کرتا ہے پچھلے بیس سالوں میں قباٸل پر جو گزری، کتنی جانیں گٸیں، کتنے کھیل کھیلے گٸے، اپنے ہی وطن میں لوگ گھروں سے بے گھر ہوکر مہاجر بن گٸے. خواتین اور بوڑھے راستوں پر شب و روز بسر کرنے لگے. آپ نے میرے عزت کو اتنا حقیر سمجھا، آپ نے میرے قباٸل کو اتنا اسان سمجھا. قباٸل نے برداشت کیا ہے، قباٸلوں نے تحمل سے کام لیا ہے.

یاد رکھو اس وقت یہ پاکستان کی اتنی ناکام حکومت ہے کہ غریبی اتنی بڑھ گٸی ہے آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لے اس غربت کی وجہ سے ہسپانیہ میں انقلاب آیا ہے. اس سے شکاگو، فرانس اور روس میں انقلاب آٸے ہیں. اگر یہی بھوک و افلاس رہی، اگر یہی معشیت کی تباہی رہی، اگر یہی مہنگاٸی رہی تو پھر آپ پاکستان کو ایک بڑے انقلاب سے نہیں بچاسکتے. پھر انقلاب لے کر آٸیں گے کہ نہیں.

آج چھ کروڑ پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں. آج پانچ کروڑ پاکستانی پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں. آج پانچ کروڑ سے زاٸد پاکستانی اور ان کے خاندان ایک ہی کمرے میں زندگی کی گزر بسر کررہے ہیں. آپ نے ستر سالوں میں ان کو حق نہیں دیا. اور پھر ایسی حکومت ان پر مسلط کردی کہ آج مہنگاٸی کہاں تک پہنچی، آج چینی، آٹا، گھی اور پٹرول کہاں تک پہنچا. کیا غریب آدمی آج زندگی گزار سکتا ہے؟. غریب بندہ آج اپنے بچوں کے لیے بازار سے راشن نہیں خرید سکتا. آج پاکستان میں وہ دور آیا ہے کہ لوگ اپنے گُردے بیچنے پر مجبور ہوگٸے ہیں. اس حد تک حالات پہنچے کہ کتبہ اٹھاٸے آواز لگارہے ہیں کہ بچے براٸے فروخت، آج اس حد تک بات پہنچی ہے زندگی کے کرب کو برداشت نہ کرنے کی وجہ سے خودکشیاں کررہے ہیں. کیا یہ پاکستانی کی زندگی ہے. ان حکمرانوں کے ہاتھوں آپ نے پاکستانی قوم کو دیا ہی کیا ہے. دھاندلی کے ذریعے آپ حکومت لے کر اٸے. ایک نااہل حکومت، ایک ناجائز حکومت، ہم تو وہ لوگ ہیں جو اپنے آپ کو حسین کہتے ہیں. جس طرح حضرت حسینؓ نے یزید کے ہاتھوں بیعت نہیں کی تھی. فضل الرحمٰن عمران خان کے ہاتھوں بیعت کرنے کو تیار نہیں.

میرے محترم بھاٸیو! 

ان شاء اللہ ہم اللہ کے مدد سے اپنے کلمے کو جھکنے نہیں دیں گے. آج میرا دل مطمٸن ہے، آج میری انکھیں ٹھنڈی ہے کہ اگر ہم نے یہاں پچھلے پچیس سال سے ایسا جلسہ نہیں کیا ہے، میں یہاں نہیں ایا ہوں. لیکن آپ کے غیرت کو سلام، آپ کے ایمان کو سلام کہ آپ نے پیغمبر کا جھنڈا جھکنے نہیں دیا. یہ ان شاء اللہ اپنا سفر جاری رکھے گا. ہمیں اپنی منزل معلوم ہے، ہم اپنے مقام تک پہنچے گے. تکلیفیں اٸے گی، امتحانات آٸے گے، برداشت کریں گے.

میرے محترم دوستو!

ایک طرف ان کی پالیسیاں اتنی کمزور اور غلط ہیں کہ ایک طرف اپنے ملک کی عوام کو بھوک سے مار ڈالا. اور دوسری طرف ا ف غ ا ن س تا ن بارڈر کو بھی بند کردیا. تاکہ قباٸلی لوگ جو اِس پار ہیں یا اُس پار ہیں، ان کے مال پڑے ہیں، میلوں کے فاصلوں پر ٹرکوں کی لمبی لمبی قطاریں کھڑی ہیں. اس میں انار، ٹماٹر، سیب، انگور پڑے ہیں وہ خراب ہورہے ہیں. لیکن بارڈر بند کیے ہوٸے ہیں اُس پار بھی لوگ برباد ہورہے ہیں اور اِس پار بھی لوگ برباد ہورہے ہیں. میرے حکمرانوں کی بے برکتی دیکھیے اپنے گھر میں تو یہ بے برکت ہیں ہی، لیکن دوسرے گھر میں بھی بے برکتی شروع ہوگٸی. یہ وہ لوگ ہیں.

ا ف غ ا ن س تان میں انقلاب آیا، بیس سال بعد امارت کے حوالے سے اتحاد ہوا. امریکہ کے خلاف، اس سے پہلے روس کے خلاف چالیس سالوں سے حالت جنگ میں تھا. بچے جنگ میں پیدا ہوٸے اور جنگ میں ہی پلے بڑھے. لیکن ان لوگوں نے استقامت کا مظاہرہ کیا اور عالمی قوتوں کو شکست دی. آج امریکہ بھی کوشش کررہا ہے، یورپ اور مغرب بھی کوشش کررہا ہے کہ ا ف غ ا ن س تان پر پابندی لگاٸے. کہہ رہے ہیں کہ ہم ابھی ا ف غ ا ن س تان کے حکومت کو تسلیم نہیں کرتے. 

امریکہ والے میرے پاس اٸے اور مجھ سے کہا کہ ط ا ل ب ا ن ہمیں ضمانت دے کہ انسانی حقوق کی حفاظت کریں گے. میں نے ان سے کہا کہ تم ایسی باتیں کیسے کرسکتے ہو. آپ نے تو ان کے ساتھ قطر میں معاہدہ کیا ہے، دستخط کیے ہیں. تو جب آپ نے ان کے ساتھ معاہدہ کیا ہے تو پھر کس منہ سے کہہ رہے ہو کہ ہم ان کی حکومت کو تسلیم نہیں کرتے. جس وقت آپ معاہدہ کررہے تھے تو اس وقت انسانی حقوق کا ذکر کرتے. جب آپ ا ف غ ا ن س تان سے بھاگ رہے تھے اس وقت آپ کو خیال کرنا چاہیے تھا کہ انسان کا حق یہاں محفوظ نہیں ہے. اب جب تم پابندیاں لگا رہے ہو کہ ا ف غ ا ن س تان کی امارت کو امداد نہیں دیں گے، تو جب لوگ امداد نہیں دیں گے اور ا ف غ ا ن س ت ان میں غربت اور افلاس آٸے گا تو وہ انسانی حقوق کی پامالی ہوگی کہ نہیں. 

انسانی حق وہ تو اسلام کی بنیاد ہے. اسلام جب امن کی بات کرتا ہے تو امن کے معنی انسانی حقوق کا تحفظ ہے. اور انسانی حقوق انسانی جان کے متعلق، انسان کے مال سے متعلق، انسان کی عزت و ابرو سے متعلق حقوق کا نام ہے. تم عورت کے حقوق کی بات کرتے ہو ہم کہتے ہیں ہم عورت کے حق کی بات کرتے ہیں. تم بچوں کے حقوق کی بات کرتے ہو، ہم کہتے ہیں ہم بچوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں. بچہ جب تک بالغ نہیں ہوجاتا، اللہ پاک بھی اسے اپنے حکم کا پابند نہیں بناتا. اگر بچے کو اللہ تعالیٰ اپنے حکم کا پابند نہیں بناتا، انسان کون ہوتا ہے جو نابالغ بچے کو اپنے حکم کا پابند بناٸے اور اس پر مشقت مسلط کرے.

لیکن حقوق کی تشریح میں فرق ہے، تم مادر پدر آزاد معاشرے کی بات کرتے ہو، تم بے حیاء معاشرے کی بات کرتے ہو، تم ایک برہنہ معاشرے کی بات کرتے ہو. اور ہم ایک ایسے معاشرے کی بات کرتے ہیں جو قران و سنت کی تابع ہو، کیوں کہ کامیابی اللہ کی دین میں ہے. لیکن اگر میرا ملک، اور یہ ملک آزاد ہے اور پاکستان خودمختار ہے اور پاکستان کا آٸین کہتا ہے کہ اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہوگا. اگر پاکستان کا آٸین کہتا ہے کہ قانون سازی قران و سنت کے تابع ہوگی. اگر پاکستان کا آٸین کہتا ہے کہ قران و سنت کے منافی کوٸی قانون سازی نہیں کی جاٸے گی. تو پھر اس اصول کی بنیاد پر پاکستان میں انسانی حقوق کی بات ہونی چاہیے. تم نہ قران کو بنیاد بناتے ہو، تم نہ سنت کو بنیاد بناتے ہو، تم نہ پاکستان کے آٸین کو اس کی بنیاد بناتے ہو. اور کہتے ہو انسانی حق یعنی مادر پدر آزاد معاشرہ، جس میں نہ عورت کی حیاء ہے، نہ اس کی عزت ہے، نہ اس کی ناموس ہے. اور عورت کی عزت و ناموس تار تار کرنے والا وہ تو خود ہمارے ملک کا حکمران ہے. اسے کیا حق حاصل کہ وہ عورت کے حق اور عزت کی بات کرتا ہے.

اپنے رنگ کو تھوڑا آٸینے میں دیکھے، پہلے اپنے آپ کو تو آدمی کے رنگ میں رنگ دو. اور ہم پر حکومتیں کرتے ہو یعنی ساری قوم کو بے غیرت قوم بنایا ہے. اور نااہل اتنے کہ آج پاکستان کی معشیت بیٹھ گٸی ہے. انڈیا کی معشیت ترقی کر رہی ہے، بنگلہ دیش، ایران اور ایشیاٸی ممالک کی معشیت ترقی کر رہی ہے. ان سارے ملکوں کے بیچ واحد پاکستان ہے جس کی سالانہ ترقی کا تخمینہ صفر پر اگیا ہے. آخر ملک کے بارے میں کیا خیال ہے کیا ایک نیا بنگلہ دیش بنانا چاہتے ہو، بغاوتیں پیدا کرنا چاہتے ہو، ملک میں اضطراب پیدا کرنا چاہتے ہو، پاکستان کے ساتھ لوگوں کی وابستگی ہے اسے کمزور کرنا چاہتے ہو.

بھاٸیو! ہم پاکستان کے وفادار ہیں. خیرخواہی کے راستے ہم خود طے کریں گے. کسی کا باپ بھی ہم پر زبردستی نہیں منوا سکتے. اگر آپ کے نزدیک پاکستان کی خیر خواہی یہ ہے کہ ہم امریکہ کی غلامی کریں گے، ہم یورپ کی غلامی کرینگے. تو میرا اعلان یہ ہے کہ ہم اس غلامی کے لیے تیار نہیں. ہمارے نزدیک پاکستان کی خیر خواہی اسی میں ہے کہ ہم اللہ کی غلامی قبول کریں۔

 ان شاء اللہ العزیز اس حکومت کے خلاف ہماری تحریک جاری ہے. یہاں سے جب میں جاؤں گا تو 13 نومبر کو کراچی میں ریلی ہوگی اور ایک بڑا جلوس ہوگا. تمام حزب اختلاف کے قاٸدین اس میں شرکت کریں گے. پھر ان شاء اللہ 17 نومبر کو کوٸٹہ میں زبردست مظاہرہ ہوگا اور پھر 20 نومبر کو پشاور میں ایک بڑا مظاہرہ ہوگا. اور ہم مسلسل مظاہروں اور بڑے پروگراموں کے اعلانات کریں گے. اور ہمارے اعلان میں یہ بھی ہوگا کہ اسلام آباد کی طرف پوری قوم جاٸے گی.

تو پھر کیا ارادہ ہے قباٸلیو! اسلام آباد کی طرف جاٸیں گے کہ نہیں؟ (لبیک لبیک کے نعرے).

اگر ہمیں اسلام سے محبت ہے تو ہم میدان میں نکلیں گے، اگر ہمیں پاکستان سے پیار ہے تو ہم میدان میں نکلیں گے، گھروں میں بیٹھ کر فتوحات نہیں ہوتی.

میدان میں نکلنا ہوگا. یہ قباٸلوں کا وطن ہے. آپ نے گلے شکوے کیے. عدالت سے گلے کیے، پولیس اور ڈپٹی کمشنر سے گلہ کیا. تو میں نے تو آپ کو کہا تھا کہ آپ نہیں کرسکتے تو پھر کیوں اپنے آپ کو خواہ مخواہ اس امتحان میں ڈال دیا. اب نہ پرانے ہو نہ نٸے ہو پتہ نہیں کہ اب کیا ہو. 

لیکن میں آپ کو ایک نصیحت کرنا چاہتا ہوں، قباٸلوں اپنے قباٸلی رواج نہیں چھوڑنا، اپنے معرکے جرگہ کہ ذریعے حل کراو، اپنے جھگڑے قباٸلی جرگے کے بنیاد پر حل کرنا. جرگہ پہلے بھی تھا اور جرگے اب بھ مسلے حل کررہی ہے. لیکن یہاں پولیٹیکل غلط کررہا تھا. ایف سی آر غلط نہیں کررہا تھا،ٰ ایف سی آر کو غلط استعمال کیا جاتا رہا. قانون کہتا تھا کہ جرگہ بناو، پولیٹیکل سرداروں کو بلاتے تھے اور جرگہ بنادیتے ان سے انگھوٹے لگوا کر رخصت کردیتے اور فیصلہ خود لکھتے تھے. فیصلہ جرگے کا نہیں ہوتا تھا. نتیجہ یہ ہوتا کہ وہ فیصلہ دونوں فریقین کو نامنظور ہوتا. اس جرگے کا کوٸی فاٸدہ نہیں تھا. آپ قباٸل کے مشران پر یہ کام چھوڑ دے پھر دیکھے کہ ان کے مساٸل حل ہوتے ہیں کہ نہیں. ان لوگوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ہم حکومت کے ساتھ تعاون نہیں کرینگے. لیکن یہاں تو یہ بات مشہور ہے کہ ایک پہاڑ ہے اور وہ قیمتی چیزوں سے بھرا پڑا ہے. تو یہ لوگ پہاڑ میں بدی ڈال دینگے. اس کے بعد ریاست اکر اس پر قبضہ کرے گی، اس مٹی پر قبضہ کرے گی. اس کی مثال ایسی ہے کہ دو چڑیا اپس میں لڑ رہی تھی، بلی آٸی اور دونوں پر حملہ کرکے ہڑپ کرگٸی پھر مونچھوں پہ ہاتھ پھیرتے ہوٸے کہا کہ شکر ہے میں پہنچ گٸی ورنہ خون خرابہ ہوجاتا. 

پہلے خون خرابہ کرتے ہیں پھر جنگ کے دوران اکر قبضہ کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں شکر ہے ہم پہنچ گٸے ورنہ خون خرابہ ہوجاتا. فساد خود ڈالتے ہیں، خود پردے کے پیچھے بیٹھے ہو اور پھر کہتے ہیں ہم پر الزام نہ لگاو. تو پھر جب آپ پردے کے پیچھے بیٹھے سازش کررہے ہیں، شیطانی کررہے ہیں، قوموں کو لڑاتے ہو اور پھر کہتے ہو ہم نے تو نہیں کیا. تو شیطان یہی کام کرتا ہے نا، نظر نہیں اتا اور شیطانی ہوتی ہے. قوموں کو لڑاتے ہو اور شیطان کہتا ہے میں تو باخبر ہوں.

 ان شاء اللہ العزیز ایسی مجلس ہمیں گمراہ نہیں کرسکتی. ان شاء اللہ قباٸلوں کا مستقبل ان کے ہاتھ میں ہوگا. اور کسی کے باپ کو یہ اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ ہم پر اپنی مرضی مسلط کرسکے. ٹھیک ہے کہ نہیں، اس بات پر ڈٹے رہیں گے اور پاکستان میں عزت کی زندگی مانگیں گے، اپنی مٹی کی عزت مانگیں گے، اپنے گھر اپنے بزرگوں اور اپنی پگڑی کی عزت مانگیں گے. 

اللہ رب العزت آپ کو عزت مند رکھے، قدرمند رکھے، بہت بہت شکریہ


ضبط تحریر: سہیل سہراب

ممبر ٹیم جے یو آٸی سوات

#TeamJuiSwat

0/Post a Comment/Comments