25 نومبر 2021
خطبہ مسنونہ کے بعد
جناب صدر محترم، خانوادہ حضرت حافظ الحدیث و القران، اکابر علمائے کرام، بزرگان ملت، میرے دوستو اور بھائیو! ایک طویل عرصے کے بعد یہاں خانپور میں اِس عظیم الشان کانفرنس سے خطاب کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ آپ حضرات کے ساتھ ملاقات کی سعادت حاصل ہورہی ہے۔ اور یہ اجتماع اِس اعتبار سے مبارک اجتماع ہے کہ ایک تو حضرت الشیخ حضرت درخواستی رحمہ اللہ کی یاد میں منعقد کیا جارہا ہے اور پھر جناب رسول اللہ ﷺ کی ختم نبوت کے عنوان سے اس کا انعقاد ہورہا ہے۔ اس عظیم الشان اور قابل قدر نسبت سے مجھے امید ہے کہ اللہ تعالی کے نزدیک آپ کا اس اجتماع میں شامل ہونا اللہ کے ہاں قبول ہوگا۔
میرے محترم دوستو! کیا وجہ ہے کہ وہ پاکستان جو دنیا کہ نقشے پر ایک اسلامی ریاست کی صورت میں وجود میں آیا لیکن آج بھی عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لٸے علمائے کرام کو، مذہبی طبقے کو عقیدہ ختم نبوت کے قلعے کی چوکیداری کرنی پڑ رہی ہے اور اس کے تحفظ کے لیے ہمہ وقت انہیں چاق و چوبند رہنا پڑتا ہے۔ جس پاکستان میں عقیدہ ختم نبوت محفوظ نہیں اور ہر چند کے آئین پاکستان میں ق ا د یا ن ی و ں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا ہے، انہیں دیگر اقلیتوں کی فہرست میں شمار کرتا ہے، پھر وہ کون لوگ ہے جو اس طبقے کو پشت پناہی مہیا کررہے ہیں، انہیں تحفظ فراہم کررہے ہیں۔ میں ذیادہ نہیں کہنا چاہتا لیکن میں اِن قوتوں کو اس اجتماع سے پیغام دینا چاہتا ہوں گہ ہماری زندگی میں ان شاء اللہ العزیز تم ان غیر مسلموں کو اس اقلیت کو، ق ا د ی ا ن ی اقلیت کو دوبارہ مسلمانوں کے صف میں شامل نہیں کرسکو گے۔ میں سمجھتا ہوں، اور سنجیدگی سے اس بات کو لینا چاہیے کہ اگر ہماری اسٹبلشمنٹ میں ہماری بیوروکریسی میں ہماری سیاسی جماعتوں کے اندر اس قسم کی کالی بھیڑے موجود ہیں تو انہیں نکال باہر کیا جائے تاکہ ہمارے ادارے اس غلاظت سے پاک ہوجائے۔
میرے محترم دوستو! کیا یہ ہمارے لیے تشویش کا باعث نہیں؟ کیا یہ عام مسلمان کے لٸے اضطراب کا باعث نہیں کہ وہ پاکستان جسے چوہتر سال پہلے لاالہ الاللہ کے نعرے کے ساتھ حاصل کیا گیا تھا ہم نے چوہتر سال لاالہ الاللہ کے مقدس کلمے کے ساتھ مذاق کیا ہے اور پھر بھی سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں یہ پاکستانی کوئی خیر کا دن دیکھ سکیں گے۔ ہمیں چوہتر سال کے گناہوں پر اللہ سے معافی مانگنی ہوگی، ہم نے مسلمانوں کے قربانیوں سے غداری کی ہے، ہم نے اپنے بہنوں اور بیٹیوں، جنہوں نے اپنے عزتیں لٹاٸی اور آج بھی ہزاورں کی تعداد میں ہندوستان کے سکھوں اور ہندووں کے گھروں میں وہ سکھ اور ہندو جنم دے رہی ہیں، ان کی قربانیوں کا کیا بنے گا، ہم ان کے سامنے قیامت کے روز کیا منہ دکھائینگے۔ آپ بتائے کہ جس ملک کو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا سب سے زیادہ ظلم اس اللہ کے دین کے ساتھ ہورہا ہے۔ کیا ہمارا سوال نہیں بنتا کہ 1973 میں پاکستان کا آئین بنا اور اسلام کو پاکستان کا مملکت مذہب قرار دیا گیا۔ اس آئین میں قرار دیا گیا کہ قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا۔ اس آئین میں قرار دیا گیا کہ ہر قانون قرآن و سنت کے تابع ہوگا، لیکن کوئی بتاسکتا ہے کہ سن 1973 سے لے کر آج تک ہماری پارلیمنٹ کے کسی ایوان میں کوئی ایک بھی اسلامی قانون پاس ہوا ہو، اور جب 2003 اور 04 میں صوبہ خیبر پختونخواہ کے صوبائی اسمبلی میں ایم ایم اے کی حکومت میں ایک شرعی قانون پاس کیا گیا، تو پھر جج اور جرنل دونوں متحد ہوگئے اور دونوں نے مل کر اس قانون کو آئین سے متصادم قرار دیا۔ کیا ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، کیا یہ کسی کو جوابدہ نہیں ہے، کیا یہ اللہ کو بھی جوابدہ نہیں۔ کبھی اس گریبان میں جھانک کر دیکھا ہے کہ کیا انہوں نے اللہ کے قانون پر اپنی رائے کو ترجیح نہیں دی ہے۔ لیکن کیا کیا جائے جرنل صاحب تھا، کیا کیا جائے جج صاحب ہے۔ سپریم کورٹ کا جج ہے لہٰذا اس کے احترام میں فرق آئے گا اگر ہم ان کے اس قسم کے غلط فیصلوں کے اوپر تبصرے کریں گے۔ لیکن میں بتانا چاہتا ہوں کہ فیصلے تم کرو یہ تمہارا اختیار ہے، فیصلے تم کرو یہ تمہارا اختیار، لیکن اس کو صحیح کہنا یا غلط کہنا یہ ہمارا اختیار ہے، اور آپ ہمیں اس حق سے محروم نہیں کرسکتے۔
میرے محترم دوستو! جس ملک میں تہذیب بک رہی ہو اور ہم آٸے روز یہ سوچ رہے ہو کہ مغرب کو کیسے خوش کرنا ہے، ہم نے ق ا د ی ا ن ی فرقے کو اس لٸے مغربی دنیا میں پذیراٸی دی ہے کہ وہ اسلام کی تعبیر انگریز اور مغرب کے مفادات کی بنیاد پر کرتا ہے۔ جب ختم نبوت کا انکار آجاٸے اور پھر اس نئے فلسفے کے اندر جہاد کا انکار آجائے، ان دو چیزوں کا انکار دین کا انکار ہے پھر دین کا مطلب ختم ہو جاتا ہے۔ آج ہماری مغربی دنیا ایسے دانشوروں کی تشریحات اور تعبیرات کو قبول کرتی ہے جو ان کی تہذیب کو بالادستی دے ان کے نظام کو بالادستی دے۔ ہمارے ہاں بھی تو ایسے لوگ رہتے ہیں بظاہر بڑے دانشور کتاب کی عبارت غلط پڑھتے ہیں۔ عربی عبارت نہ پڑھ سکنے والے چوں کہ ٹیلی ویژن پر زیادہ آتے ہیں پھر وہ سکالر بن جاتے ہیں اور ایسی تعبیرات کرتے ہیں کہ جو مغرب کے لٸے قابل قبول ہوجائے۔ لیکن اللہ رب العزت نے آپ کو اور ہمیں بتادیا ہے کہ ”اگر تم ان لوگوں کے خواہشات کے پیچھے جاوگے، ان کی ترجیحات کو قبول کروگے، ان کی تہذیب کے پیچھے جاوگے وہ تمہیں پسپائی کی طرف دھکیل دینگے اور پھر تمہارا انجام سوائے خسارے کے اور کچھ نہیں ہوگا۔ ہم آج اس دور میں زندگی گزار رہے ہیں اور جس کا مظہر اس زمانے میں ہمارے حکمران اور طاقتور طبقہ ہے جو نظام پر مسلط ہے بظاہر وہ ہمارے حاکم لیکن وہ دنیا کے غلام ہے ۔ یہ وہی لوگ ہے جن کے بارے میں جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” ایک زمانہ آئے گا جب تم قدم قدم بالشت بالشت پچھلی امتوں کے پیروی کرتے نظر اوگے یہاں تک کے اگر وہ گوہ کے غار میں گھسنے لگے تو تم بھی وہاں بھی اس کے پیچھے گھسنے لگو گے، گوہ ایک چھوٹا سا جانور ہے بڑے جانور کو تو ہم دآبہ کہتے ہیں۔ چھوٹا سا غار، تنگ غار میں بھی اگر یہود و نصار گھسنے لگ جائے تو تم وہاں بھی چاہوگے کہ میں ان کے پیچھے جاو شاید وہاں کوئی نعمتیں ہو۔
میرے محترم دوستو! جب اس قسم کے لوگ ہم پر مسلط ہونگے تو پھر ان کے تسلط کو ختم کرنا قوم کا فریضہ بن جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں ایک نظام موجود ہے ہم اس طے شدہ نظام کے تحت وہ قوت پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ میں ایک دفعہ پنجاب کے ایک شہر میں صحافیوں سے بات کررہا تھا تو ایک صحافی مجھ سے پوچھتا ہے کہ مولانا صاحب آپ نے اسمبلیوں میں اسلام کے لٸے کیا کیا ہے تو میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے ہمیں کتنا ووٹ دیا ہے اسمبلیوں کے لٸے، ہم تو پارلیمانی سیاست کرتے ہیں، پارلیمانی قوت سے بات کرتے ہیں۔ اگر آپ نے پارلیمنٹ میں ہمیں ایک سیٹ نہیں دینی، آپ نے وہاں جاگیرداروں کو لے جانا ہے، سرمایہ داروں کو لے جانا ہے، رحیم یار خان کے پختونوں کو اپ نے پارلیمنٹ بھیجنا ہے، کسی عالم دین کے صندوقچی میں ایک ووٹ بھی آپ نے نہیں ڈالنا، اور پھر ہمارا گریبان پکڑتے ہو کہ تو نے اسلام کے لیے کیا کیا۔ وہ تو ہم آپ سے پوچھیں گے، ہم آپ سے پوچھیں گے رحیم یار خان کے مسلمانوں، ہم آپ سے پوچھیں گے خانپور کے مسلمانوں کہ اس محاذ پر آپ نے اپنا فرض ادا کرنا ہے یا نہیں، علماء کا گریبان تب پکڑو اگر علماء کو آپ نے اقتدار کی قوت دی ہے، لیکن اس شعور کو بیدار کرنا ہے، اس احساس کو ہم نے بیدار کرنا ہے اس طرح آرام سے کام نہیں چلے گا۔
جمعیت علمائے اسلام نے، آپ صوبہ خیبر پختونخواہ میں جائے وہاں پر خان اور نواب کے رعب اور دبدبے کو علمائے کرام نے خاک میں ملا دیا ہے۔ آج خان اور نواب ہمارے پاس اتا ہے کہ مجھے جمعیت کا ایک ٹکٹ چاہیے۔ بلوچستان کا سردار اور وہاں کا نواب وہ بڑا جابر ہے، جمعیت علماء کو دعا دو کہ اس نے بلوچستان کے ان وقت کے خداوں کو زمین بوس کردیا ہے۔ اور ہمارا یہ سفر چل رہا ہے ان شاء اللہ اب یہ سفر سندھ میں داخل ہوچکا ہے۔ اور سندھ آنے والے مستقبل میں جمعیت علماء کا منتظر ہے، لیکن مجھے امید یہ ہے کہ اگر پنجاب میں یہ نظریہ داخل ہوگا تو جنوبی پنجاب سے ہی داخل ہوگا ان شاء اللہ۔
ہمت کرے ذرا، جس طرح کے حکمران آج آپ پر مسلط ہیں ان کا ایجنڈہ یہی ہے کہ ناموس رسالت کا قانون ختم کرے، ان کا ایجنڈہ یہی ہے کہ ختم نبوت کے شق کو آئین سے نکالے۔ لیکن اس اجتماع کی وساطت سے میں قوم کو مبارکباد دینا چاہتا ہوں کہ ایسے حکمرانوں کے ان ناپاک عزائم کو ہم نے ناکام بنادیا ہے اور ان شاء اللہ اب ان کی اتنی قوت نہیں ہے کہ ایسی جرات کرسکے (نعرہ تکبیر)۔
ان کے ایجنڈے بڑے خطرناک تھے لیکن الحَمْدُ ِلله ہم نے ناکام بنایا۔ بھئی کوئی ایجنٹ بھیجو ذرا جو عقل والا تو ہو، امریکہ، فرانس، برطانیہ، یورپ اپنا ایجنٹ بھیجو کوٸی عقل والا تو بھیجو، نااہل اور نالائق لوگ ہمارے ملک کے حکمران بن چکے ہیں اور جتنا نالائق ہوگا ہماری اسٹبلشمنٹ کہے گی بس یہی کم ہے۔ اس قسم کی مخلوق ان کو چاہیے۔ آج ملک کا بیڑہ غرق کردیا۔ آپ جائے انڈیا میں، آپ جائے بنگلہ دیش میں، آپ جائے انڈونیشیا اور ملائشیا میں، آپ جاٸے چاٸنہ میں، آپ جاٸے ایران میں، خلیجی ممالک میں، ان کی سالانہ ترقی کا شرح نمو کیا ہے، کتنے فیصد ترقی کرتے ہیں، کوئی چھ فیصد، کوٸی سات فیصد، کوٸی آٹھ فیصد، اور جب سے یہ آیا ہے پاکستان کی معشیت کا سالانہ ترقی کا تخمینہ زیرو سے بھی نیچے چلا گیا ہے۔ ملک کی معشیت جمود کا شکار ہے۔ اور آج پاکستان کی جعلی کابینہ نے اس بات کی منظوری بھی دے دی ہے کہ پاکستان کے سٹیٹ بنک کو آئی ایم ایف کے ساتھ براہ راست وابستہ کردیا جائے تاکہ پاکستان کا یہ قومی مالیاتی ادارہ اس کا اپنا اختیار ختم ہوجائے اور کوئی پاکستانی اس کے کردار پر تنقید نہیں کرسکے گا، ہمیں بیرونی مالیاتی اداروں کا غلام بنا دیا گیا ہے۔ ہماری معشیت کہاں چلی گئی اور مہنگاٸی نے کیا حشر کردیا، عام آدمی کو بے بس کرکے رکھ دیا، آج لوگ خودکشیاں کررہے ہیں۔ اپنے بچوں کو گھر میں ذبح کرکے ماں باپ خودکشی کرلیتے ہیں کہ اپنی اولاد کی بھوک ان سے دیکھی نہیں جاتی۔ پڑوسیوں سے بھیک مانگنے پر لوگ مجبور ہیں۔ پارلیمنٹ کے سامنے ماں باپ اپنے بچوں کو لاکر برائے فروخت وہاں بٹھا دیا ہے، بچوں کو بیچنے کے لیے لوگ تیار ہوگئے ہیں۔ یہ اسلامی ریاست ہے؟ اسلامی ریاست کا تصور یہ ہے؟ ہم جو افریقہ کو طعنے دیا کرتے تھے اور جب افریقہ کا تصور آتا تھا تو فقیر فقراء، غریب غرباء کا تصور آتا تھا، آج ہم ان ممالک سے بھی نیچے چلے گٸے ہیں۔ ایسے حکمرانوں کے مقابلے میں اگر ہم نے بے حسی کا مظاہرہ کیا تو پھر پاکستان کے بقا کا سوال پیدا ہوجاٸے گا۔ ہم اگر آج جنگ لڑ رہے ہیں تو اس وطن عزیز کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ یہ حکمران ملک کے لیے رسک بن چکے ہیں۔ اور میں تو جب یہ حکومت میں نہیں آیا تھا، نیا نیا سیاست میں آیا تھا تو میں نے اس وقت کہہ دیا تھا کہ عمران خان پاکستان کی سیاست کا غیر ضروری عنصر ہے۔ لیکن آپ لوگ بھی تو غریب مولوی کی اذان پر کلمہ نہیں پڑھتے (قائد تیری بصیرت کو سلام ہے)۔ میں نے اسی وقت کہا تھا یہ یہودی ایجنٹ ہے، اب ہر ایک کہتا ہے کہ یہودی ایجنٹ ہے۔ میں نے اس وقت کہا تھا کہ یہ مغربی تہذیب کا نمائندہ ہے آج ہر ایک سمجھ گیا ہے کہ یہ مغربی تہذیب کا نمائندہ ہے۔ مجھے یاد ہے جب 2013 میں صوبہ خیبر پختونخواہ میں اِن کی صوبائی حکومت بنی تھی تو انہی کے لوگ میرے پاس آئے تھے اور کہا جی آپ ان کے ساتھ جنگ لڑنے کی بجاٸے مفاہمت کا راستہ اختیار کرے۔ اور پھر میری تصدیق کی انہوں نے، کہ آپ جو ان کو یہودی ایجنٹ کہتے ہے آپ اس کو مغربی تہذیب کا نمائندہ کہتے ہے، ہم دو تین سالوں سے تمہاری تقریریں نوٹ کررہے ہیں آپ بلکل صحیح کہہ رہے ہیں۔ لیکن اگر دنیا میں معشیت ہے تو دنیا کی معشیت یہودیوں کے ہاتھوں میں ہے، اگر پاکستان کو معاشی ترقی کرنی ہے تو پھر یہودیوں کی مدد کی ہمیں ضرورت ہوگی، اور وہ اسلامی تہذیب کو مدد نہیں دے گا اس لٸے ہم نے ان کو سب سے پہلے پاکستان کے اس علاقے پر حکومت دی ہے جہاں پشتون بیلٹ ہے اور پشتون بیلٹ میں مذہب کی جڑیں گہری ہوتی ہے اور مذہب کی ان گہری جڑوں کو اکھاڑنے کے لٸے عمران خان سے ذیادہ مناسب آدمی ہمارے پاس اور نہیں تھا۔ یہ سب چیزیں میرے سامنے گزری ہے۔ میں آپ کو آنکھوں دیکھا حال سناتا ہوں، غائبانہ کوئی چیز نہیں ہے لیکن پھر اس کو مرکز میں دھاندلی کے ذریعے لایا گیا۔ بین الاقوامی منصوبہ بندی اور بین الاقوامی منصوبہ بندی کی یہاں پر عمل درامد ہمارے اسٹبلشمنٹ نے کی، اور میں بہ تکرار یہ بات کہہ رہا ہوں اور آج بھی کہتا ہوں اور آئندہ بھی کہتا ہوں کہ ہماری اسٹبلشمنٹ نے عام انتخابات میں دھاندلی کرکے اس کو اقتدار کی کرسی پر بٹھایا ہے۔ یہ حرکتیں بند کردی جاٸے، آپ بڑے لوگ ہوں گے، طاقتور کرسیوں پر آپ بیٹھے ہوں گے لیکن یہ طاقتور کرسی میں نے تمہیں دی ہے اگر تم وہی طاقتور کرسی ہمارے خلاف استعمال کروگے تو پھر سن لو کہ ہم آپ کے غلام نہیں ہے (نعرہ تکبیر)۔
میرے محترم دوستو! ناجائز حکمرانی، دھاندلی کی بنیاد پر حکمرانی، میں آپ کو بتادو کچھ پارٹیاں ہیں جو بعد میں ان کی حکومت میں شامل ہوئی لیکن الیکشن کے بعد ہمارے پہلے اجلاس میں ہمارے ساتھ وہ بھی بیٹھی تھی اور ان کا بھی اس پہ اتفاق تھا کہ یہ دھاندلی سے آیا ہے، اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے، ہم ناجائز حکمرانی کی تسلیم نہیں کرتے۔ تم لاکھ کہو کہ یہ ہمارا حکمران ہے میں نہیں مانتا کہ یہ ہمارا حکمران ہے۔ وہ لاکھ دفعہ کہے کہ میں یذید ہوں میں لاکھ دفعہ کہونگا کہ میں حسین ہوں اور تمہارے ہاتھ پر بیعت نہیں کروں گا (نعرہ تکبیر)۔
میرے محترم دوستو! ملک کی معشیت ڈوب گٸی ہے، عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوگٸی ہے۔ اساتذہ رو رہے ہیں، کسان رو رہا ہے، مزدور رو رہا ہے، ڈاکٹرز رو رہے ہیں، وکیل احتجاج پر ہے، دکاندار احتجاج پر ہے۔ ہر شعبہ زندگی آج اضطراب کے دور سے گزر رہا ہے، پریشانی کی دور سے گزر رہا ہے لیکن کہتے ہیں نہیں آئی ایم ایف نے کہتا قیمت بڑھاو تو ہمیں قیمت بڑھانی پڑتی ہے۔ تو پھر ہم آزاد ملک تو نہ ہوئے۔ ہم نے اپنی آزادی کی طرف آگے بڑھنا ہے۔ نہ مذہبی حوالے سے یہ پاکستان کے نمائندے ہیں نہ معاشی حوالے سے یہ پاکستان کے نماٸندے ہیں۔ یہاں تک مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ملک میں عدل و انصاف کے حوالے سے عدالتوں کا کردار دنیا کے ایک سو تیس ممالک میں سے ایک سو چھبیس ویں نمبر پر ہے۔ جہاں بلکل ہی عدل و انصاف نہیں ہے وہ ایک سو تیس نمبر پر ہے اور پاکستان ایک سو چھبیس ویں نمبر پر ہے۔ کہاں پہ ہمارے ملک کو کھڑا کردیا آپ نے، سب کو کہتا ہے چور چور، تم چور وہ چور، پیسہ باہر بھیج دیا۔ لیکن مجھے بتاؤ ذرا کہ تمہاری بہن کے پاس، جو کہتی ہے میں سلائی مشین چلاکر روزی کماتی ہوں، اس کے پاس اربوں کا بنک بیلنس کہاں سے آگیا۔ اور دنیا کہتی ہے بین الاقوامی رپورٹ کہتی ہے کہ پچھلے حکومتوں نے اگر کرپشن کی تھی اس حکومت نے اقتدار حاصل کیا کرپشن کو ختم کرنے کے نام پر، لیکن اس حکومت میں کرپشن تین سے چار فیصد اور بڑھ گئی ہے۔ چوری کا گڑھ بھی تم، کرپشن کا گڑھ بھی تم، معشیت کی ہلاکت بھی تمہاری وجہ سے، عدالتیں بھی آپ کے حکومت سے متاثر، وجہ کیا ہے؟ میں عدالتوں کے خلاف نہیں ہوں۔ میں تمام جج صاحبان کا احترام کرتا ہوں لیکن اگر گزشتہ ایک دو سالوں سے اب تک اور آج تک تمہارے اپنی عدالت عالیہ اور عدالت عظمی کے انتہائی قابل احترام ججز اپنے الفاظ میں اپنے عدلیہ کے کردار پر شک کرتے ہیں، اور اس حوالے سے عدم اعتماد کی بات کرتے ہیں اور شکایتیں کرتے ہیں، تو پھر مجھ سے کیا گلہ، تمہارے اپنے گھر سے تم پر گواہی آگئی ہے، اپنے گھر کی گواہیاں، اپنے کردار سے اپنے آپ کو محترم بنانا ہوگا، ہم کو تو احترام لازمی ہے۔ لیکن یہ سارا آوے کا آوا بگڑ چکا ہے، اب میرے نزدیک یہ مسلہ نہیں ہے یہ ناکام ہوچکا ہے، ملک کو تباہ کرچکا ہے، بیڑہ غرق کردیا ہے۔ میرے نزدیک مسلہ یہ ہے کہ اگلی حکومت اس حال میں ملک کو اٹھائے گی کیسے؟ چیلنج یہ ہے، اس حوالے سے قوم نے کردار ادا کرنا ہے، عوام نے کردار ادا کرنا ہے۔ ہماری سیاسی قوت عوام ہیں، ہماری سیاسی قوت اسلحہ نہیں ہے، خونریزی نہیں ہے، آئین کی خلاف ورزی نہیں ہے، آئین کے دائرے میں ہم قوم میں شعور بیدار کرنا چاہتے ہیں، کوئی خفا ہوتا ہو تو لاکھ دفعہ خفا ہو یہ ہمارا حق ہے کہ ہم ان کو تباہی سے بچائے۔ اس ملک کو ہلاکت سے بچائے، اس ملک کی بقا اور استحکام کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے میدان میں اتر آئے ہیں۔
تو ان شاء اللہ العزیز آنے والے وقت میں اقدامات ہوں گے اور مجھے امید ہے کہ قوم اس میں ہمارے ساتھ شانہ بشانہ شریک ہوں گی۔ اپنے اندر ذرا بیداری پیدا کرو، آپ جاگ جائے دنیا کی کوئی طاقت آپ کو نقصان نہیں پہنچاسکتی۔ اللہ تعالی دین اسلام کی حفاظت فرماٸے، عقیدہ ختم نبوت کی اور ناموس رسالت کی حفاظت فرمائے، اور اس ملک کو امن کا گہوارہ بنائے، اور اس کانفرنس کو اللہ رب العزت قبول فرمائے، اپنے آکابرین کو اللہ اس کا ثواب پہنچائے، اور اپ کی اور ہماری شمولیت کو اللہ تعالی مجھے بھی اجر ثواب پہنچائے۔ واخر دعوانا ان لحمد للہ رب العالمین
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#TeamJuiSwat .
ایک تبصرہ شائع کریں