قائد جمعیت و سربراہ پی ڈی ایم حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا اسلام آباد میں اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو تحریری شکل میں 23 نومبر 2021


 قائد جمعیت و سربراہ پی ڈی ایم حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا اسلام آباد میں اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو تحریری شکل میں

 23 نومبر 2021

خطبہ مسنونہ کے بعد

چند گھنٹوں میں تینتیس قوانین پاس کرنا یہ پارلیمانی پریکٹس کے ساتھ ایک بڑا مذاق تھا، سب سے بڑا مذاق کہ شاید اِس کی مثال پارلیمان کی تاریخ میں نہیں ملتی، دو ایوانی مقننہ میں ہمیشہ ایک قانون کسی ایک ایوان میں پیش کیا جاتا ہے وہاں سے وہ یا قبول ہوتا ہے یا مسترد، پھر وہ دوسرے ایوان میں جاتا ہے اور دوسرے ایوان میں بھی وہ مسترد ہو جائے تب جاکر ایک مشترکہ اجلاس بلایا جاتا ہے۔ یہاں مشترکہ اجلاس کے اندر ایسے قوانین پاس کیے گئے جو اس سے پہلے کسی ایک ایوان میں پیش نہیں کیے گئے تھے۔ یہ آئین کے آرٹیکل 70 کی خلاف ورزی ہے اور یہ ایک جعلی قسم کی قانون سازی ہے اور شاید پارلیمان کی تاریخ میں اس طرح قانون سازی کے ساتھ مذاق پہلے کبھی نظر نہیں آیا تھا۔ موجودہ قانون سازی کے ذریعے سے الیکشن کمیشن کے اختیارات پر وار کیا گیا ہے۔ قوم کا مطالبہ ایک آزاد اور خودمختار الیکشن کمیشن کا ہے، لیکن جس طریقے سے قانون سازی کی گئی ہے اس کی اختیارات پر قدغن لگانا، آئین کے مطابق اس کے دیے ہوئے اختیارات کو سمیٹنا کسی بھی صورت قابل قبول نہیں، اور یہ آٸین سے متصادم قانون سازی ہے، کیوں کہ آٸین الیکشن کمیشن کے خودمختاری اور اس کے آزادی کی جو حدود متعین کرتا ہے اِس قانون سازی کا اُس سے تصادم ہے اور اِس قانون سازی کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اور اس پر آئینی اور قانونی ماہرین بھی متفق ہیں اور اس پر الیکشن کمیشن اپنا ردعمل بھی دے چکا ہے۔

اجلاس میں ایک اہم مسلے کی طرف توجہ مبذول کرائی گئی ہے اِس جعلی حکومت نے جس طرح نوجوانوں سے ایک کروڑ نوکریوں کی وعدے کرکے تاریخ کا سب سے بڑا فراڈ کیا۔ ایک کروڑ نوکریاں کیا دینگے کہ پچاس لوگوں کو بیروزگار کردیا، پچاس لاکھ گھروں کے نعرے کے ساتھ قوم کو دھوکہ دیا گیا، پچاس لاکھ گھر کیا دینگے تجاوزات کے نام پر تقریباً پچاس لاکھ گرا دیے گئے۔ اسی طریقے سے اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کے حق کی بات جس بھونڈے انداز کے ساتھ انہوں نے کی ہے، ہم اپنے اوورسیز پاکستانی بھائیوں کو پیغام دینا چاہتے ہیں انتہاٸی خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ کہ اس جعلی حکومت اور دھاندلی کی پیداوار حکومت کے اس دھوکے میں مت آئے۔ ہم اوورسیز پاکستانیوں کو پاکستان کا آثاثہ سمجھتے ہیں اور اس حوالے سے پی ڈی ایم نے فیصلہ کیا ہے کہ ان کو پارلیمنٹ میں نمائندگی دینے کے لٸے ہم خود اس کے اوپر آئین اور قانون کی روشنی میں کام کرینگے اور اس کا کوئی طریقہ کار ہم متعین کرینگے۔ حکومت کا متعین کردہ طریقہ کار دھاندلی کی ایک نئی راہ ہموار کرنی ہے۔ اِس قانون کو جو پاس کیا گیا خدا جانے دنیا اِس کو مسترد کررہی ہے اور ہم اس کے ذریعے ووٹ کی بات کررہے ہیں ہم اس فری پول دھاندلی کو مسترد کرتے ہیں۔ سیاسی زعما، پارٹی لیڈرز بالخصوص میاں نواز شریف صاحب اور ان کے جماعت کے اہم شخصیات، اُن کے خلاف ماضی میں جو عدالتی فیصلے آئے ہیں اور جن کے ذریعے اُن کو نااہل قرار دیا گیا، خود عدالتی عالیہ ہو یا عدالتی عظمی ہو اُن کے محترم جج صاحبان کے ماضی کہ وہ بیانات اور حال ہی میں گلگت بلتستان سے رانا شمیم صاحب کا بیان اور اب جو کل پرسوں ثاقب نثار صاحب کا آڈیو آچکا ہے، آپ بتائے ہم عدالت کا احترام بھی کرے، ہم جج صاحبان کو اپنے انکھوں پر بھی بٹھائے، لیکن اپنے گھر کی گواہیاں اِس حوالے سے جو عدالت پر سوالات اُٹھے ہیں، اُن کی آزادی اور خودمختاری پر جو سوالات اُٹھے ہیں ہم بڑے دُکھی دل کے ساتھ یہ سمجھتے ہیں کہ اپنے اس مقام کو دوبارہ اپنے کردار سے حاصل کرنا ہوگا۔ یہ اعتماد انہوں نے اپنی کردار کے بنیاد پر بحال کرنا ہوگا۔ اب بہت مشکل ہوگیا ہے کہ جو سازشیں ماضی میں ایک منتخب وزیراعظم کے خلاف آشکارہ ہوئی ہے چاہے اُس کا تعلق میاں نواز شریف صاحب کے ساتھ ہو یا اُن کے پارٹی کے دوسرے لوگ یا دوسری جماعتوں کے دوسرے رہنماوں کے حوالے سے ہو، یہ اصل میں ملک کے خلاف سازش ہے کسی فرد کے خلاف نہیں، اُس کے جمہوری نظام کے خلاف سازش ہوئی ہے جس کا خمیازہ آج پاکستان کی عوام بیروزگاری، مہنگائی اور معاشی تباہی کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ ملکی معشیت کو کہاں پہنچادیا گیا ہے کہ آج سٹیٹ بنک آف پاکستان کو آئی ایم ایف سے وابستہ کیا جارہا ہے جیسے اُس کو آئی ایم ایف کا ایک برانچ بنایا جارہا ہے۔ اور سٹیٹ بنک کے کسی فیصلے کو پاکستان کا کوئی شہری اُس کو چیلنج نہیں کرسکے گا، اُس کو تبدیل نہیں کرسکے گا، اُس کے اختیارات ضبط کردیے جائینگے اور سٹیٹ بنک کے اختیارات بھی ایک عالمی ادارے کے حوالے کردیے جائینگے۔ اس طرح پاکستان کے معشیت کو گروی رکھا جارہا ہے۔ ہم اِن حالات کو بڑی سنجیدگی سے دیکھ رہے ہیں اور آج بڑی تفصیلی طور پر اس ساری صورتحال پر ڈیبیٹ ہوئی ہے۔ لہذا اب پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس 06 دسمبر کو دوبارہ ہوگا، ان شاء اللہ العزیز اسلام آباد میں ہوگا۔ اِس سے قبل پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتیں وہ اپنی اپنی پارٹی کے بااختیار مجالس سے مشاورت کے بعد کچھ تجاویز مرتب کرے گی۔ وہ تجاویز چھ دسمبر کے اجلاس میں پارٹی سربراہان کے سامنے پیش کردی جائے گی اور پھر ان شاء اللہ حتمی پالیسی اور انتہائی اہم اعلانات کئے جائینگے، یہ ذیادہ دور کی بات نہیں ہے اور ان شاء اللہ العزیز بڑے اہمیت کے ساتھ ہم آگے بڑھینگے اور پاکستان کے عوام کو اس جبر سے نجات دلانے کے لیے حتمی اور آخری فیصلے کی طرف بڑھینگے۔

 صحافی کے سوال پر جواب

میرے خیال میں عوام کی مہنگائی کی صورتحال جب تک یہ حکومت ہے کنٹرول نہیں ہوگی۔ اس حکومت کا خاتمہ کرنا ہوگا اور اُس کے لیے ہم ایک بہت خوبصورت تدبیر اور حکمت عملی کی طرف آگے بڑھ رہے ہیں۔

 صحافی کے سوال پر جواب

میں نے آپ کے ساتھ عدالت کے بارے میں اپنی رائے ظاہر کردی ہے میرے خیال میں اس اعتماد کے بعد ہم ضرور جائینگے کیوں نہیں جائینگے لیکن کیا ایسے حالات میں جب اِس قسم کے شواہد وہ جو قران کریم ایک لفظ استعمال کرتا ہے ”وَ شَہِدَ شَاہِدٌ مِّنۡ اَہۡلِہَا“ کہ اس کے اپنے گھر سے اِس پر گواہی کی گئی ہے تو اپنے خاندان اور گھر سے جو شہادتیں ہیں وہ ذرا ان کی پوزیشن کو ڈیمیج کررہی ہے اور ہم اُس کو بھی دیکھ رہے ہیں۔ ہم ملک کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں، اُن کی اداروں کی اصلاح اور تقویت کی باتیں کررہے ہیں اور اُس طرح ہم اپنا رائے دینا چاہتے ہیں۔

 صحافی کے سوال پر جواب

اِس پہ ذرا تھوڑا سا اپ کو چھ دسمبر تک سوالات و جوابات کا انتظار کرنا پڑے گا۔

 صحافی کے سوال پر جواب

اگر میں ان جزیات کو آپ کے سامنے پیش کرتا تو کیا میں آج پیش نہیں کرسکتا تھا، تو اس لیے میں یہی عرض کررہا ہوں کہ اب حتمی فیصلوں کی طرف جانے کے لیے پارٹیوں کے اپنے مجالس کے اندر حتمی تجاویز کے تحت ہم کچھ حتمی پالیسی کا فیصلہ کرینگے اور ان شاء اللہ اہم اعلانات کے طرف جائینگے۔

 صحافی کے سوال پر جواب

نہیں ہم ایک مٶثر قسم کے اقدامات کے طرف جائینگے صرف آپ کے سامنے جوابات دینے کے حد تک نہیں بلکہ کیا اُس کے عملی آثار ہوسکتے ہیں، اُس کے ملک پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، ہمارے صفوں میں اُس کے لٸے کیا نظم ہوسکتا ہے۔ ان ساری چیزوں کے بعد اگر ہم سوچ سمجھ کر فیصلے کرینگے تو ان شاء اللہ وہ زیادہ مٶثر ہونگے۔

 صحافی کے سوال پر جواب

آپ کے اسی سوال کا جواب ان شاء اللہ ہم چھ دسمبر کو دینگے۔

 صحافی کے سوال پر جواب

دیکھیے عدالت کے فیصلے عدالت نے کرنے ہے، انہوں نے خود اس کا جائزہ لینا ہے کہ وہ ثاقب نثار صاحب کی طرف سے اوپر سے پریشر کی طرح فیصلے کررہے ہیں یا آٸین و قانون کے تحت انصاف کے فیصلے کرنے ہے۔

 صحافی کے سوال پر جواب

اُس میں ابھی کورٹ میں کیس چل رہا ہے اُس کا انتظار کرتے ہیں۔ شکریہ 

ضبط تحریر: #سہیل_سہراب

ممبر ٹیم جے یو آئی سوات

#TeamJuiSwat .

0/Post a Comment/Comments