16 نومبر 2021
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم اما بعد
کویٹہ کے میڈیا کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے آج پی ڈی ایم کے اس پریس کانفرنس کو کوریج دینے کے لیے اپنی بھر پور دلچسپی کا مظاہرہ کیا ہے۔ پی ڈی ایم اس وقت پاکستان میں عام آدمی کی آواز ہے، جس طرح غربت اور مہنگائی کی چَکی میں پوری قوم پِس رہی ہے اور جس طرح آئے روز اُن پر مہنگائی اور ٹیکسز کے پہاڑ گرائے جارہے ہیں، یہاں تک کہ پارلیمنٹ ہاوس اور اُس کے لاجز کے سامنے ماں باپ اپنے بچوں کو فروخت کرنے کے لیے لائے ہیں، سندھ میں ایک پولیس سپاہی وہ کھلے سڑک پر اپنے بچوں کو بیچنے کے لیے چیخ رہا ہے، لوگ خودکشیاں کررہے ہیں اپنے بچوں کی بھوک اُن سے دیکھی نہیں جارہی اور نااہل حکمران اقتدار کو طول دینے کے لیے ہر ناجائز حربے کو استعمال کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں، جعلی اکثریت کی بنیاد پر حکومت کرنا یہ بائیس کروڑ عوام کو اپنا غلام سمجھنا ہے اور ہم آج جو جدوجہد کررہے ہیں وہ اِس قسم کی حکمرانی سے آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں، یہ بہت بڑا جہاد ہے جو اِس وقت پاکستان میں اِن عناصر کے خلاف لڑا جارہا ہے۔ اِس حوالے سے کل یہاں کویٹہ میں مہنگائی کے خلاف پی ڈی ایم کی قیادت میں ایک بڑا عوامی مظاہرہ ہوگا، ایک بڑی ریلی نکالی جائے گی اور اپنے اِس موقف کو اجاگر کیا جائے گا کہ اِس وقت پوری قوم کو ایک ناجائز اور چوری کردہ ووٹ کی بنیاد پر حکمرانوں کے ساتھ مقابلہ ہے اور پی ڈی ایم اِس حوالے سے وہ سیاسی قیادت ہے جو اِس انتہائی نازک ماحول میں عوام کے شانہ بشانہ کھڑی ہے، ہم نے قوم کو تنہائی کا احساس نہیں دلانا، ہم نے اِن کو یہ احساس دلانا ہے کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں، آپ کے شانہ بشانہ ہیں، ہم آپ کی اواز ہے اور قوم کے لٸے اور ملک کی آزادی کے لٸے جنگ لڑنا یہ اپنا فریضہ بھی سمجھتے ہیں اور اسے اپنے لٸے سعادت بھی سمجھتے ہیں۔ 20 نومبر کو پشاور میں اِسی طرح کا ایک بڑا عوامی مظاہرہ ہوگا، اور وہاں پر بھی خیبر پختونخواہ کے عوام اُس میں شریک ہوں گے، پشاور کے عوام اُس میں شریک ہوں گے، اور ان شاء اللہ وہ بہت ہی کامیاب مظاہرہ قرار دیا جائے گا۔ ہم آج قوم کو یہ بھی بتلادینا چاہتے ہیں کہ ناجائز حکمران اور دھاندلی کی پیداوار حکومت آئندہ الیکشن کے لیے ابھی سے اپنے جعلی پارلیمنٹ کو ایسی قانون سازی کے لیے تیار کررہی ہے کہ آئندہ بھی الیکشن میں وہ بڑی آسانی کے ساتھ دھاندلی کرسکے لیکن حزب اختلاف سینہ سپر ہوکر اُس کا مقابلہ کررہی ہے، اسمبلی کے اندر حزب اختلاف اُن کو شکست بھی دے چکی ہے اور مشترکہ اجلاس میں انہیں اکثریت حاصل کرنے کی جب اُمید نہ رہی تو عین وقت پر اُس کو ملتوی بھی کردیا گیا، آج جب دوبارہ اجلاس بلایا گیا ہے تو افواہیں گشت کررہی ہے اور یہ صرف افواہیں ہی نہیں بلکہ حقیقت کے قریب تر باتیں ہیں، کہ چھوٹی جماعتیں جو اُن کی اتحادی ہے اُن کو ریاستی ادارے دباو میں لاکر اُن کی گردن مروڑ کر اور اُن کے گردنوں پر بوٹ رکھ کر اُن کو مجبور کر رہے ہیں کہ آپ نے اجلاس میں جانا ہے، ہمارے پاس یہ رپورٹیں آرہی ہے، ہم اداروں کا احترام کرتے ہیں اور جب ادارے ہمیں کہتی ہیں کہ ہم نیوٹرل ہیں ہم غیر جانبدار ہیں اور پھر بہت بڑی لیول پہ ہم سے یہ بات کی جاتی ہے۔ اداروں کو خود سوچنا چاہیے کہ ہمیں غیر متنازعہ رہنا ہے، ہمیں غیر جانبدار رہنا ہے، اور ہم بھی اُن کو غیر متنازعہ دیکھنا چاہتے ہیں، ہم بھی اُن کو غیر جانبدار دیکھنا چاہتے ہیں، یہی ہماری خواہش ہے کہ پاکستان کی سیاست سے یہ داغ ختم ہو جائے۔ لیکن ہمارا ملک ہے اگر سیاست میں مداخلت ہوتی ہے اور وہ بھی ناجائز مداخلت تو پھر شکایت کرنا تو ہمارا حق ہے، گلہ کرنا ہمارا حق ہے، ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم پھر بھی آئینی اور قانونی راستہ اختیار کریں گے۔ پی ڈی ایم نے پی ڈی ایم کے سیکرٹری جنرل جناب شاہد خاقان عباسی صاحب کو یہ ذمہ داری سونپی ہے اور فوری طور پر جناب کامران مرتضیٰ اور عطا تارڈ صاحب کو رابطے میں لے اور پورا ایک سپریم کورٹ لیول کا قانونی پینل بناٸے اور اُن قوانین کا جائزہ لے تاکہ ہم عدالت سے رجوع کرسکے، ہم قانون اور آئین کا راستہ لینا چاہتے ہیں، ہم اگر عوامی مظاہرے کررہے ہیں ایک جمہوری ماحول میں عوام کو تسلی دینے یہ ناگزیر امر ہے اور اِس طرف ہم بڑھ رہے ہیں۔ تو اِس حوالے سے یہ جو نئی صورتحال ہے اِس پر ہم ہر وقت قوم کو اعتماد میں لینا چاہتے ہیں، پی ڈی ایم اِس بات پر یقین رکھتی ہے کہ ملک میں امن و امان ہونی چاہیے، امن و امان اُسی صورت میں ممکن ہوتا ہے جب شہریوں کے انسانی حقوق کا تحفظ ہو، صوبوں کے حقوق کا تحفظ ہو اُن کے شہریوں کے حقوق کا تحفظ ہو، اِس وقت جو نوجوانوں کو گھروں سے اٹھایا جاتا ہے اُس کو پھر لاپتہ کردیا جاتا ہے اور سالہا سال سے لاپتہ لوگوں کے لٸے اُن کے پیارے در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں، اُن کے بوڑھے ماں باپ اُن کے انسووں بھی اب خشک ہوگٸے ہیں، اُن کے دلوں کے زخم کے لیے مرہم بھی ختم ہوگیا ہے، لیکن شقی القلب قوتیں وہ اِس انسانی حق سے، وہ سمجھتے ہیں کہ ہم ریاست کی خدمت کررہے ہیں، اگر کوئی ایسی بات ہے عدالتیں موجود ہیں، آئین موجود ہے، قانون موجود ہے، اِن راستوں سے ہم کسی مجرم کو کیفر کردار تک پہنچا سکتے ہیں، اگر انصاف کا تقاضہ یہی ہے، تو پھر ایک جمہوری ماحول میں ایک جمہوری ملک میں ایسے واقعات، کہ جس طرح ایک ڈکٹیٹر کے ملک میں ہوتے ہیں ایک آمرانہ ممالک میں، بادشاہتوں میں اِس طرح کے واقعات ہوتے ہیں، ہمارے جیسے جمہوری ملک میں بھی وہی واقعات ہورہے ہیں، پھر ہمارے ملک میں اور دوسروں میں کیا فرق ہے، کون حاکم ہے یہاں کا، نادیدہ قوتیں ملک کے حاکم ہے یا آئین اور قانون کی روشنی میں کام کرنے والے قوتیں وہ ملک کے مالک ہے۔ تو یہ ساری وہ چیزیں ہیں کہ جس کے لیے پورے ملک کہ طول و عرض میں اِضطراب پایا جارہا ہے، تشویش پاٸی جارہی ہے، اور ہم ایک مطمئن اِضطراب سے پاک ایک سوسائٹی چاہتے ہیں، ایک معاشرہ چاہتے ہیں جہاں ہر انسان اپنے حقوق کے حوالے سے مطمئن ہو اور اِس پر ہم ان شاء اللہ آگے بڑھنا چاہتے ہیں تاکہ اپنے نئے مستقبل کو ہم تراش سکے۔
صحافی کے سوال پر جواب
دیکھے یہ چیزیں عدالت کے اوپر ایسے داغ ڈال رہے ہیں کہ جس سے ماضی کی تمام فیصلے مشکوک ہوجاتے ہیں لیکن تاہم ہم پھر بھی اُصول کا راستہ نہیں چھوڑتے، ہم اب بھی سمجھتے ہیں کہ اِس کی عدالتی تحقیقات ہونی چاہیے، آزاد اور خودمختار ایسے ادارے بننے چاہیے جو اِس قسم کی بیانات کا تجزیہ کرسکے، اِس کے عوامل کو سمجھ سکے، ایسی باتیں کیوں آرہی ہیں یہ تیسرا چوتھا جج ہے جو اِس قسم کی گفتگو کررہا ہے، آن دی ریکارڈ کررہا ہے، حلفیہ طور پر کررہا ہے تو ظاہر ہے ایسی چیزوں کو جانچنا چاہیے، جس نے یہ بات کی ہے وہ زندہ ہے اِس سے پہلے بھی جو ججوں نے باتیں کی ہے وہ زندہ ہے، تو پھر اِس طریقے سے ہر چیز پر مٹی پاو مٹی پاو ایسے تو کام نہیں چلے گا۔
صحافی کے سوال پر جواب
اگر واقعی کوئی نوجوان اِس قسم کے کسی عمل میں ملوث ہے کہ جو ریاست کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے ہمارے نظر میں وہ جرم ہے لیکن اِس جرم سے نمٹنے کے لٸے آٸین اور قانون کا راستہ اختیار کرنا چاہیے، جبری طور پر یہ کیا معلوم کہ آپ نے کس کو سزا دی اور کیسے سزا دی، ایک خفیہ ادارہ اور اُس کے چند افراد وہی سمجھے کہ ہم مطمٸن ہے ہم نے جو کچھ کیا ہے یہ کافی نہیں، قوم مطمئن ہونی چاہیے۔
صحافی کے سوال پر جواب
دیکھیے میں آپ کے سوال کو سمجھ رہا ہوں اور آپ بھی شاید یہی چاہتے ہیں کہ میں وہ بات کروں، حکومت چل نہیں رہی حکومت چلائی جارہی ہے، ہم چلانے والوں کو بھی جانتے ہیں اور چلنے والوں کو بھی جانتے ہیں، اپاہج حکومت اور سہارے سے چلنے والی حکومت، یہ حکومت نہیں کہلاتی، حکومتیں چلنی چاہیے عوام کے سہارے سے، مجھے بڑا افسوس ہوتا ہے، دکھ ہوتا ہے جب ہمارے اداروں کے ذمہ داران اور سربراہان اِس پرائم منسٹر کو منتخب وزیراعظم کے نام سے پکارتے ہیں، جب وہ اُن کو اپنے باس کے نام سے پکارتے ہیں، ہمیں دکھ ہوتا ہے، ہمیں افسوس ہوتا ہے، ہمارے پاس بہت کچھ ہے کہنے کو، لیکن ہم بہت ذیادہ اجتناب کررہے ہیں کہ کہی ملک میں حالات خراب نہ ہو، ہم صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے دن رات سوچتے ہیں اور صورتحال کو بگاڑتے بچانے کے لیے سوچتے رہتے ہیں، میرے خیال میں ہمارے اِن جذبات کا احترام کیا جاٸے۔
صحافی کے سوال پر جواب
یہ تو حالات کو دیکھا جاٸے گا ابھی فی الحال اِن کو کوئی اکثریت حاصل نہیں ہے، اِن کے اتحادی کل تک اِن کو ووٹ دینے کے لٸے تیار نہیں تھے، اور کل ہی شام کو جب اجلاس بلایا گیا تو اُس میں ایک میسج دیا، لیکن ہمارے پاس باقاعدہ رپورٹیں آئی ہیں کہ کن کن لوگوں کو سیف ہاوسز میں لے جایا گیا، کن کن لوگوں کو ٹیلی فونیں کی گئی ہیں اور پھر اپوزیشن کے ممبران کو جو ٹیلی فونیں کی گئی ہیں کہ آپ نے نہیں آنا، وہ بھی ہمارے رپورٹ میں ہیں، تو اِس کا معنی یہ ہے کہ یہ ایک جبری اکثریت ہے، یہ زبردستی والی اکثریت ہے اور وہ بھی چار پانچ ووٹوں والی اکثریت، تو اس طریقے سے کھینچ تھان کر، گردن مروڑ کر، ہاتھ مروڑ کر ووٹ حاصل کرنا، اِس سے اگر کوئی قانون بنتا ہے وہ کوئی قانون کی حیثیت نہیں رکھے گا، اِس کا کوئی احترام نہیں ہوگا، اس کا معنی یہ ہے کہ ملک جبر کے تحت چل رہا ہے۔
صحافی کے سوال پر جواب
حضرت اِن کے ہوتے ہوئے نہ آپ کسی بجلی کی توقع رکھے نہ گیس کی توقع رکھے، نہ پٹرول کی توقع رکھے، نہ گھی کی توقع رکھے، یہاں تو ہر روز آپ سوچتے رہیں گے کہ کل کتنی کمی آئے گی، کل نرخ کتنے بڑھیں گے، کل روپے کی قیمت کیا ہوگی ڈالر کے مقابلے میں، اب تقریباً میں تو سمجھتا ہوں 175 سے اوپر چلاگیا ہے معاملہ اور 180 کے قریب جارہا ہے، بازار میں آپ کے پیسے کی قیمت ہی نہیں رہی
صحافی کے سوال پر جواب
دیکھئے اس کو ابھی تک ہم کوئی سنجیدہ عمل نہیں سمجھ رہے ہیں اگر بلاول صاحب میرے پاس آئے ہیں تو ہم نے تو کسی کو اپنے گھر میں آنے سے نہیں روکا ہے، آئے ہیں ادھا گھنٹہ گزار کے گئے ہیں اگر انہوں نے خیر سگالی کا مظاہرہ کیا ہے، لیکن پی ڈی ایم کے ساتھ اُن کا مستقبل کیا ہے کیا نہیں ہے اِس پر تو بات ہی نہیں ہوئی۔
صحافی کے سوال پر جواب
ہمارے علم میں ایسی کوئی بات نہیں
صحافی کے سوال پر جواب
ہمارے رابطوں کا معنی یہ ہوا کہ میاں صاحب آرہے ہیں، اِس کے لٸے ملک کے اندر کوئی ایشو نہیں، بس اُن کے آنے کا ایشو ہے، وہ فیصلہ اُنہوں نے خود کرنا ہے جب تشریف لائے، لیکن آج کل دنیا جو ہے وہ وابستہ ہے ہم نے کل بھی زوم پر میٹنگز کی ہے، ہم سب آپس میں ایسے بیٹھے تھے جیسے یہ سب ایک دوسرے کے آمنے سامنے سے ہورہا ہے۔
صحافی کے سوال پر جواب
بڑھکیں نہ مارا کرے ہمیں معلوم ہے کہ یہ کن کن بڑھکوں کے لوگ ہیں، اگر اپوزیشن نے فیصلہ کردیا کہ تمہیں اُٹھاکر باہر پھینک دے تو پھر کیا کرو گے، تمہاری حیثیت کیا ہے۔
صحافی کے سوال پر جواب
بلوچستان کے مخصوص صورتحال کی پیش نظر، ظاہر ہے جی میں اپوزیشن میں بیٹھا ہوں تو زرداری صاحب کی حکومت میں ہم اپوزیشن میں بیٹھے تھے، اگر حکومت ساری اپوزیشن میں بیٹھ جائے تو پھر اُس وقت میں نے کیا کرنا ہے مجھے بتاؤ پھر، جب ساری حکومت اپوزیشن میں آجائے اور میں پہلے سے اپوزیشن میں ہوں اور میں اُس وقت بھی اپوزیشن لیڈر تھا اور میں آج بھی اپوزیشن لیڈر ہوں اور میرے دامن میں اکر سارے گر جائے، تو پھر ہم نے اُسی کے مطابق فیصلے کرنے ہوتے ہے، وہ نہ آتے تو ہم نے اُن سے درخواست تو نہیں کی تھی۔
صحافی کے سوال پر جواب
دیکھئے ہم نے چونکہ حکومت میں نہ آنے کافیصلہ کیا تھا، ہم نے اپوزیشن میں برقرار رہنے کا فیصلہ کیا تھا، ہم نے باوجود صورتحال کی تبدیلی کے اُن کے حکومت میں شامل نہ ہونے کا فیصلہ کیا تھا، اُسی پر ہم قائم رہے ہیں اپنے اُصول سے نہیں ہٹتے۔
صحافی کے سوال پر جواب
پنجاب حکومت گرانے سے پہلے یہ سوچے کہ متبادل کیا ہے اگر متبادل اِس سے بھی ذیادہ خراب ہو تو پھر کیا کریں گے، تو اِس لیے یہ ساری چیزیں ذرا سیاستدانوں پہ چھوڑ دے ہم بڑے ٹھیک ٹھاک فیصلے کرتے ہیں، ہم لوگ حساب کتاب ٹھیک رکھتے ہیں۔
بہت بہت شکریہ
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#TeamJuiSwat
ایک تبصرہ شائع کریں