قائد جمعیت و سربراہ پی ڈی ایم حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا کویٹہ میں احتجاجی مظاہرے سے خطاب تحریری شکل میں 17 نومبر 2021


 قائد جمعیت و سربراہ پی ڈی ایم حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا کویٹہ میں احتجاجی مظاہرے سے خطاب تحریری شکل میں 

17 نومبر 2021

خطبہ مسنونہ کے بعد

سٹیج پر موجود تمام قومی زعما، عمائدین قوم، علمائے کرام، معزیزین، میرے بزرگوں، دوستو اور بھائیو! سر زمین بلوچستان نے آپنے تاریخ کو آج ایک بار پھر زندہ کیا ہے اور ناجائز حکمرانوں کے خلاف آج کا یہ بے مثال مظاہرہ، میں اہل بلوچستان کو سلام پیش کرتا ہوں۔ یہاں سٹیج سے ایک قرارداد پیش کی گئی اور آپ نے اسے منظور کیا، مجھے قرارداد سے کوئی اختلاف نہیں، لیکن تائید کے ساتھ اُس پر اتنا تبصرہ ضرور کرنا چاہونگا کہ "میر کیا سعد ہے بیمار ہوا جس کے سبب                       اُسی افتار کے لونڈے سے دوا لیتا ہے"

میرے محترم دوستو! ہم نے تو پہلے دن سے کہا تھا اور بار بار میں کہہ چکا ہوں، کوئی دس سال سے یہ باتیں کہہ رہا ہوں کہ عمران خان پاکستانی سیاست کا ایک غیر ضروری عنصر ہے، اور پھر ہم نے کہا کہ یہ ناجائز حکمران ہے۔ آج اُن کی تین سالہ کارکردگی نے ہمارے اِس دعوے پر مہر تصدیق ثبت کردی کہ وہ نالائق بھی نکلا، وہ نااہل بھی ثابت ہوا۔ میں ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ ریاستوں کی بقا کے لیے دو بنیادی عناصر ہوا کرتے ہیں ایک دفاعی قوت اور ایک معاشی قوت۔ دفاع ایک ادارہ ہے، دفاعی قوت ہماری فوج ہے، افواج پاکستان اِسی قوم سے بنتی ہے۔ لیکن ماضی میں اُن کے کچھ غلط فیصلوں نے خود ہمارے دفاعی قوت کے بارے میں سوالات پیدا کرلیے ہیں، ہمیں دکھ ہے اِس بات پر کہ ہماری دفاعی قوت پر کیوں سوالات اُٹھائے جارہے ہیں، کیوں بھرے جلسوں میں اسے زیر بحث لایا جارہا ہے، معلوم ہوتا ہے کہی سے کوئی کمزوری ہے۔ کسی غلطی کے نتیجے میں آج اُن کو بھی اِس مشکل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ہماری یہ تحریک اپنا واضح موقف رکھتی ہے، کہ ہمارے اِن اداروں کو اپنے آئینی دائرے میں واپس جانا چاہیے تاکہ وہ غیر متنازعہ رہے اور اِس ملک کی بقا کا سبب بن سکے۔

میرے محترم دوستو! اگر ملک کی معشیت تباہ ہوجاتی ہے، ہر طرف غربت اور بیروزگاری کی ہوائیں چلنے لگتی ہیں اور غربت کے ہاتھوں ایک پولیس مین سڑک پہ آکر اپنے بچے کو گود میں لے کر چیخ رہا ہے کوئی ہے جو مجھ سے بچہ خرید سکے۔ اگر اسلام آباد کے پارلیمنٹ لاجز کے سامنے کوئی خود سوزی کررہا ہے، کوٸی اپنے بچوں کو وہاں لاکر برائے فروخت کا بورڈ لگا رہے ہیں، اِس ملک میں ہم نے یہ دن بھی دیکھنے تھے۔ اور یاد رکھو جب غربت اور بیروزگاری کا عفریت اِس طرح بپھر جاٸے تو پھر ہسپانیہ کی تاریخ سے لے کر سویت یونین کے خاتمے تک آپ اِس بات کو سن لے کہ پھر ریاستیں اپنا وجود ختم کر بیٹھتی ہے۔ ہم پاکستان کی بقا اور تحفظ کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ بندوق اُٹھانا کوٸی مسلہ نہیں ہے لیکن بندوق اُٹھانے سے خاندان اُجڑتے ہیں، شہر اُجڑتے ہیں۔ اور پشتونوں بلوچوں سے ذیادہ کون جانتا ہے کہ بندوق کا نتیجہ کیا ہوتا ہے۔ ہم نے بڑے سوچ سمجھ کر اِن حالات میں جب پاکستان کے نوجوان کو اشتعال دلایا گیا، جب عالمی استعمار کی پالیسیوں نے مذہبی دنیا میں اشتعال پیدا کیا، لوگ بندوق کی طرف جانے لگے، لیکن ہم نے فیصلہ کیا کہ نہیں ہم پاکستان کو ایک پرامن، آٸینی، جمہوری اور ایک اسلامی مملکت چاہتے ہیں، ایک خوشحال پاکستان، اور ہم نے آٸین کا راستہ لیا۔ ہم بھی اسلحے کی طرف جاسکتے تھے لیکن ہم جذبات کو نہیں دیکھ رہے تھے، ہم ملک کو دیکھ رہے تھے کہ ملک کی بہتری کس میں ہے۔ لیکن عمران خان جیسے عناصر کو پاکستان پر مسلط کرکے تم نے ہماری خیرخواہی کے جذبات کا مذاق اُڑایا ہے، ہمیں اِس پر احتجاج کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔ اور میں واضح کہہ دینا چاہتا ہوں، میں کسی دوسرے کی بات نہیں کررہا، اپنی بات کرنا چاہتا ہوں کہ میرے آکابر و اسلاف کی تین سو سالہ تاریخ آزادی کے لیے  قربانیوں سے بھری ہوئی ہے، ہم نے کل بھی غلامی قبول نہیں کی تھی ہم آج بھی غلامی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے (نعرہ تکبیر اللّٰہ اکبر)۔

میرے محترم دوستو! ہماری سیاست تو مجروح ہوئی، ایک گزارش کرنا چاہتا ہوں جوانوں سے، میں آپ سے ایک گزارش کرنا چاہتا ہوں ایک تو خاموش رہے تھوڑا برداشت کرے اور یہ جو جھنڈوں کا بھرمار ہے ماشاءاللہ ہر پارٹی نے آپنی موجودگی کا پورا پورا اظہار کرلیا ہے یقین جانے مجھے پبلک نظر نہیں آرہی، میں جن سے مخاطب ہوں وہ مجھے نظر نہیں آرہے، اور پیچھے لوگوں کو ہم نظر نہیں آرہے تو اگر یہ درخواست قبول کی جائے کہ کچھ وقت کے لیے ذرا احترام کے ساتھ اِن پرچموں کو لپیٹ لیا جائے، تو ہم ذرا آپ کو دیکھ سکیں گے آپ ہمیں دیکھ سکیں گے۔

میرے محترم دوستو! ہماری جمہوریت، اُس کا وقار، اُس کی عزت، اُس کی اتھارٹی، اُس کو تو تباہ کردیا گیا۔ ہماری دفاع پر سوالیہ نشان اٹھاٸے گئے، لیکن ہماری عدلیہ کے کردار پر بھی سوالات اٹھائے جارہے ہیں اور تین ججوں نے اپنے بیانات سے، عام آدمی کے ذہن میں عدلیہ کے کردار کے بارے میں سوالات پیدا کردیے۔ ہم نے اِس ملک کو چلانا ہے، ہم نے اِس ملک کو اٹھانا ہے، ہم نے اِس ملک کے اداروں کو وہ مقام دینا ہے جو اُن کا ہونا چاہیے۔ اگر ہمارے اِن مقدس اداروں کے اندر کالی بھیڑیاں آتی ہیں تو ہمیں اِن صفوں سے اُن کالی بھیڑیوں کو نکالنا ہوگا۔ میں پاکستانی ہوں آپ سب پاکستانی ہیں، یہ تمام قائدین پاکستانی ہیں۔ جو پاکستان کے وسائل ہیں وہی ہمارے وسائل ہیں۔ اُس سے ذیادہ ہم نہیں ہے۔ لہذا ہم اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں کہ پبلک کی موجودگی میں اِس ساری صورتحال کو زیر بحث لائے۔ میرے محترم دوستو! جہاں مہنگائی بھی ہو، بھوک بھی ہو، افلاس بھی ہو، غربت بھی ہو اور اُس ماحول میں نوجوانوں کو کہا جاٸے کہ پاکستان میں جب ہماری حکومت آئے گی، تو لوگ نوکریوں سے پاکستان میں آئینگے، ہمارے ہاں باہر سے لوگ نوکریوں کے لیے آئینگے۔ آج باہر سے ہمارے پاس ایک ہی ملازم آیا ہے اور وہ ہے سٹیٹ بنک کا گورنر، ایک سٹیٹ بنک کا گورنر تنہا نوکر ہے۔ اور آج اسمبلی کے اندر یہ بل بھی لایا جارہا ہے کہ سٹیٹ بنک کی قانون میں ترمیم کی جائے اور پاکستان کے سٹیٹ بنک کو براہ راست آئی ایم ایف سے وابستہ کیا جاٸے۔ آپ بتائے کہ پھر یہ آپ کا بنک نہیں ہوگا وہ آئی ایم ایف کا ایک برانچ ہوگا جو پاکستان میں ہوگا۔ ہماری ملک کی معشیت کا سب سے بڑا دفتر، ہماری ملک کی معشیت کا سب سے بڑا منتظم وہ قوم کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ آپ کون ہوتے ہیں کہ آپ پارلیمنٹ میں اس قسم کے قوانین لاتے ہیں۔ ابھی مجھے حیرت ہے اس بات پر کہ جو حکومت خود دھاندلی کے نتیجے میں آئی وہ اب ہمیں انتخابی اصلاحات دے رہی ہے، انتخابی اصلاحات کے لیے وہ قانون سازی کررہے ہیں۔ میں آج اپنے تمام ساتھیوں کی موجودگی میں علی الاعلان یہ بات کرتا ہوں کہ اگر انتخابی اصلاحات کے حوالے سے یا کسی مشین کے حوالے سے کوٸی بھی قانون سازی کی گئی تو ہم اسے صرف مسترد نہیں کرینگے اسے جوتے کی نوک پر رکھ دینگے (نعرہ تکبیر اللّٰہ اکبر اور گو نیازی گو کے نعرے)۔

ہم ایسی قانون سازی کی اجازت کسی طرح بھی نہیں دے سکتے۔ ایک دفعہ دھاندلی کرلی اس کا مزہ آیا، اب اگلے الیکشن کے لیے پھر دھاندلی کا پروگرام بنا رہے ہیں۔ اگر اللّٰہ نے چاہا تو پھر اس کا مزہ نہیں چکھو گے۔ ٹھیک ہے  کہ نہیں، اور پولنگ سٹیشن پر جو کوئی ایسی حرکت کرے اُن کے ہاتھ پاوں باندھو۔ اور جہاں ووٹوں کی گنتی ہوتی ہو اور کوئی آپ کے راٸے کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتا ہو وہی پر اُس کے ہاتھ پاؤں باندھو، یہ ووٹ آپ کا ہے اس کے باپ کا نہیں کہ یہ میرے ووٹ کا مالک بنے گا۔ ذاتی رائے، حضرت مفتی صاحب فرمایا کرتے تھے یہ بیعت ہے، بالواسطہ بیعت ہے۔ ایک چیز بیعت ہو میں کسی ایک کے ہاتھ بیعت کرنا چاہتا ہوں اور جب نتیجہ نکلے تو کہتے ہیں کہ انہوں نے تو فلاں کے ہاتھ بیعت کی ہے۔ بیعت جھوٹا ہوتا، ووٹ جھوٹا ہوتا، جمہوریت جھوٹا ہوتا، ریاست مدینہ جھوٹا ہوتا، ہر چیز جھوٹی ہوتی میں کن کن چیز کا رونا روتا۔ یہ جھوٹ قبول نہیں ہوسکتا، ہم بڑی مظبوطی کے ساتھ میدان میں نکلے ہیں اور  ان شاء اللہ العزیز اس کا نتیجہ قوم کے سامنے آئے گا۔ ہم اب بھی کہتے ہیں کہ تمہاری خیر اسی میں ہے کہ اقتدار چھوڑ کر نکل جاؤ، کب تک ہم لاشیں اٹھاتے رہیں گے، کب تک ہم لاپتہ لوگوں کے لیے روتے رہیں گے۔ کب تک ہم بیروزگاری، کہتا تھا ایک کروڑ نوکریاں دونگا، ایک کروڑ نوکریاں کوئی عقل کی بات ہے۔ اور آپ حضرات کو بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کو بنے ہوئے چوہتر سال ہوگئے بڑے سے لے کر چھوٹی نوکریوں تک، ان کی کل تعداد ایک کروڑ تک نہیں پہنچی۔ کیسے اعتبار کیا آپ نے کہ یہ آٸے گا اور ایک سال میں ایک کروڑ نوکریاں دے گا۔ نوکری کا بھی کوٸی طریقہ سلیقہ ہوتا ہے۔ پچاس لاکھ گھر دونگا، پچاس لاکھ تو تم نے لوگوں کے گرا دیے۔ تم نے لوگوں کیا دیا ہے۔ لہٰذا ہمارا قطعی فیصلہ ہے کہ ہم مہنگائی، بیروزگاری، غربت، افلاس اور بدامنی کے اس ماحول میں عوام کے شانہ بشانہ ہیں۔ ہم قوم کو مایوس نہیں ہونے دینگے۔ حوصلے سے رہے ہم نے آگے بڑھنا ہے اور ان ناجائز حکمرانوں کو ایوان اقتدار سے پار کرنا ہے۔ اس ملک میں آئین کی حکمرانی ہونی چاہیے، جمہوری کی حکمرانی ہونی چاہیے، جس پر قوم کو اعتماد ہو، قوم کو اعتماد نہ ہو اور حکومت ہو، یہ تو آپ علمائے کرام اپنے کتابوں میں لوگوں کو مسلہ بتاتے ہیں کہ جس امام کو محلے کے لوگ پسند نہ کرے وہ امامت نہیں کرسکتا۔ تو پھر ملک پر ہم ایسے حکمران کیسے تسلیم کرلے۔ تو  ان شاء اللہ العزیز یہ جنگ جاری رہے گی، یہ جدوجہد جاری رہے گی اور یہ نظریہ زندہ رہے گا۔ اس آئین کا، اس جمہوریت کا اور اس ملک کے آئین کے روح کا پروگرام ہم اسی طرح آگے لے کر جائینگے۔ آئین کہتا ہے تو ہم سمجھتے ہیں یہ ہمارا آپس میں میثاق ہے، ہم اس میثاق کی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہتے ہیں، ہم اس کی خلاف ورزی نہیں کرنا چاہتے۔  ان شاء اللہ العزیز اسی پر آج آپ کا اور ہمارا تجدید عہد ہے۔ 

اہل بلوچستان سے کہنا چاہتا ہوں ہاتھ کھڑے کرکے تجدید عہد کرلے کہ ہم نے ان حکمرانوں کے خلاف، اور اس ظالمانہ اور جابرانہ نظام کے خلاف ج ہ ا د کو جاری رکھنا ہے اور اس کو نتیجہ خیز بنانا ہے۔

اللّٰہ تعالی آپ کی قربانیوں کو قبول فرمائے اور آپ کو ایک مستحکم پاکستان اس کے نتیجے میں عطا فرمائے۔ اللّٰہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔

واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

ضبط تحریر: #سہیل_سہراب

ممبر ٹیم جے یو آئی سوات

#TeamJuiSwat

0/Post a Comment/Comments