قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا کویٹہ میں علماء کنونشن سے خطاب
18 نومبر 2021
خطبہ مسنونہ کے بعد
اسلامی ریاست کے رومی ریاست کے ساتھ اور رومی ایمپائر کے ساتھ تعلقات بہتر تھے۔ انہی بہتر تعلقات کا نتیجہ تھا کہ جب ایک وقت میں روم شکست کھا گیا اور وہ فتح ہوگیا تو مسلمانوں میں تشویش پڑگئی، جناب رسول اللہﷺ اور آپ کے صحابہ کرامؓ اور آپ کا نظام تشویش میں مبتلا ہوگیا۔ تو عالمی تعلقات میں کوئی سپر طاقت اس کے ساتھ خارجہ تعلقات اور بہتر تعلقات، یہاں تک کہ جب اسلامی دنیا مظطرب ہوتی ہے تو اللّٰہ رب العزت تسلی دینے کے لیے پوری سورت اتار دیتے ہیں۔
تسلی دیتے ہیں اللّٰہ رب العزت، اور پھر دوبارہ روم غلبہ حاصل کرتا ہے۔
آج بھی تقریباً دنیا کی سیاست میں یہی بات چلتی رہتی ہے۔ دو مد مقابل عالمی معیشتیں آج بھی ایک دوسرے سے متصادم ہیں، لیکن اِس ماحول میں ہم نے دیکھنا یہ ہے کہ ہمارا اجتماعی اور قومی مفاد کس میں ہے، ہم نے دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کا مفاد کس میں ہے۔ ہمارے آنے والوں نسلوں کی ہم پر قرض ہے، ہم نے ستر سال امریکہ کی غلامی میں گزارے ہیں، یورپ کی معیشیت ہم پر قابض رہی ہے، اور ہم اِس کی دست نگر رہے، ہم نے ایک نئے مستقبل کا سفر کرنا ہے، اور اِس میں ہمیں اپنے مسقبل کو دیکھنا ہے، ہم نے اِس کو سوچنا ہے۔ ہم کہتے ہیں چین پاکستان کا دوست ہے، چین پاکستان کی دوستی ہمالیہ سے بلند ہے، چین پاکستان کی دوستی بحرالکاہل سے گہری ہے، چین پاکستان کی دوستی شہد سے میٹھی ہے، چین پاکستان کی دوستی لوہے سے مظبوط ہے، ستر سال ہم اپنے قوم کو یہ کہتے رہے اور کہتے رہے، یہاں تک کہ چین نے اپنے ایک نئے اقتصادی وژن کے ساتھ اپنے نٸے مستقبل کا آغاز کیا، تو اس نے اُس کا آغاز پاکستان کے سرزمین سے کیا اور جمعیت علماء اسلام کا اِس میں کردار ہے۔ جب میں خارجہ امور کمیٹی کا چیرمین تھا اور میری کمیٹی کو انہوں نے دعوت دی، ایک ہفتہ ان کے ساتھ ہمارے مذاکرات چل رہے تھے اور انہوں نے ملک کے اندر کچھ علاقوں کو فری اکانومی زون قرار دیا تھا تو ہم نے اُن پر اصرار کیا تھا کہ آپ سنکیانگ کے اونچی کو بھی فری اکانومی زون قرار دے تاکہ پاکستان کے راستے اپ کے تجارت کے راستے کھل سکے۔ انہوں نے ہماری اس تجویز کو قبول کیا، اسی پہ کام ہوا، اُسی بنیاد پر انہوں نے پاکستان پر اعتماد کیا کہ یہاں شاید ہمیں کوئی بلیک میل نہیں کرے گا، اور وہ جو ستر سالہ ہماری دوستی تھی وہ ایک اقتصادی دوستی میں تبدیل ہوگئی۔ اور ابتدائی طور پر اس نے پاکستان میں سرمایہ کاری کی۔ سی پیک بنایا، چاٸنہ پاکستان اکنامک کوریڈور، اس نے یہاں پر بجلی پیدا کی۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ اگر ہم تجارتی شاہراہ بناٸینگے تو پھر اس کے لیے تجارت کے اسباب بھی پیدا کرینگے نا، تو خنجراب اور گلگت سے لے کر گوادر تک ہم نے صنعتی علاقے بھی بنانے ہیں، بڑی بڑی صنعتیں قاٸم کرینگے تو ہمیں بجلی کی ضرورت بھی ہوگی اور ہمیں گیس کی ضرورت بھی ہوگی کارخانوں کو چلانے کے لٸے، ہمارے پاس بجلی کی کمی ہے پورے ہمارے خیبر پختونخواہ میں کُل سترہ سو میگاواٹ بجلی ہے اور اگر ہمیں صنعتی علاقے بنانے ہیں اور اب ہمیں اس کے لٸے سترہ ہزار میگاواٹ بجلی کی ضرورت ہے، کہاں سے آئے گی۔ پورے بلوچستان میں آپ کے پاس صرف پانچ سو میگاواٹ بجلی ہے اور اگر آپ نے سی پیک کے کناروں پر صنعتی علاقے بنانے ہیں تو آپ کو کتنی بجلی بنانی ہے سو بجلی بنانے کے لٸے بھی انہوں نے آپ کو پیسہ دیا۔ لیکن بجلی ٹرانسمیشن لاٸن سے گزرتی ہے ہمارے پاس پرانے قسم کے ٹرانسمیشن لائن ہے، اگر ہمارے پاس پانچ سو میگا واٹ بجلی اٹھانے کی تار موجود ہے اور آپ کو پانچ ہزار میگا واٹ بجلی چاہیے، تو آپ کو نئے ٹرانسمیشن لائن بچھانے ہونگے تاکہ اس بوجھ کو اٹھا سکے۔ اب آپ مجھے بتائے کہ سارا منصوبہ خاک میں ملا دیا ہے۔ جب ابھی نواز شریف کی حکومت تھی تو عمران خان کو استعمال کیا گیا، ایک سو چھبیس دن کا اس نے اسلام آباد میں دھرنا دیا اور چین کے صدر کے پاکستانی دورے کو ملتوی کرنا پڑا۔ اور امریکہ اور یورپ کی نظر میں یہ اس کی بڑی کامیابی تھی، یہ وہ چیزیں ہیں جو قوم کے سامنے بیان نہیں کی جاتی۔ اور پھر جب ان کی حکومت آئی تو سارا منصوبہ ہی خاک میں ملادیا۔ اب جس طرح کے ٹینڈر ہوچکے تھے شاید وہی بن رہا ہے۔ ایک سڑک جو ژوب سے کوٸٹہ تک بن رہی تھی اور جس کا افتتاح میاں نواز شریف نے کیا تھا، ہم سب ساتھ تھے۔ اب عمران خان نے اسی سڑک کی افتتاح کوٸٹہ کی طرف سے کردی ہے، یہ ہے تبدیلی کہ اسی سڑک کی افتتاح ژوب کے بجائے کوٸٹہ سے کردو یہ تبدیلی ہے۔ تو تبدیلی کا مفہوم آپ خوب سمجھتے ہیں۔ اور کہتا ہے پاکستان میگا پروجیکٹس کا متحمل نہیں ہے ہمیں تو مائیکرو لیول اور میڈیم لیول کے اکانومی چاہیے، پراڈکٹ چاہیے۔ بابا سنو ذرا
ماٸیکرو لیول کا کاروبار یہ ریاست کی کنٹرول میں نہیں ہوتا یہ پبلک ٹو پبلک ہوتا ہے، کسی نے انڈہ بیچنا ہے تو پڑوسی کے ہاتھوں بیچ دیتا ہے کسی کو پتہ بھی نہیں، کسی نے مرغی بیچنی ہے تو اپنے محلے میں کسی کے ہاتھ بیچ دیتے ہیں بات ختم، یہ ہے مائیکرو لیول کے کاروبار، کسی نے چھوٹا سا پلاٹ بیچنا ہے گھر بیچنا ہے پبلک ٹو پبلک سودا ہوجاتا ہے اور بات ختم، ذیادہ سے ذیادہ اک چھوٹا سا سٹامپ پیپر لکھ دیتے ہیں۔
اگر میڈیم لیول کا کاروبار کرنا ہے تو پھر وہ ریاست اور پبلک کے بیچ میں ہوتا ہے۔ آپ نے کوٸی چھوٹا سا یونٹ لگانا ہے آٹے کا، چینی کا، اسٹیٹ آپ کو قرضہ دیتی ہے آپ کام کرتے ہیں۔ ہاں میگا پراجیکٹ میں آپ کو باہر کے کمپنیوں سے مدد لینی پڑتی ہے، اُن کے انویسٹمنٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو یہ بھی پتا نہیں ہے کہ میگا پراجیکٹس میں ہمیں باہر کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ اور یہ یہاں پر آگئے اور ہمیں کہتے ہیں کہ ہم پاکستان کی معشیت کو بہتر کرسکیں گے اگر ہم انڈے بیچنے کا کاروبار کرینگے، مرغی بیچنے کا کاروبار کرینگے، کٹے بیچنے کا کاروبار کرینگے۔ اور اب تو انہوں نے اوکاڑہ کے پاس ایک بہت بڑی زمین خریدی ہے جہاں پر نٸی نسل کے گدھے پیدا کیے جاٸینگے تاکہ گدھوں کا کاروبار کیا جاسکے۔ ہمارے آنے والے مستقبل کے لٸے یہ ان کا وژن ہے اور ہماری معشیت بیٹھ کر رہ گٸی ہے۔ چین کو بھی ہم نے ناراض کردیا اور مغرب بھی ہمیں پیسے دینے کے لٸے تیار نہیں۔ اور میں آپ کو بتادینا چاہتا ہوں کہ جب ہمارے خیبر پختونخواہ میں 2013 میں الیکشن ہوٸے اور پی ٹی آئی کے وہاں حکومت بنی تو ان کو خطرہ تھا کہ جمعیت کی طرف سے مزاحمت نہ آجائے، تو پھر ایک بڑا ہائی رینک لیول وفد میرے پاس بھیجا اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ جی آپ تھوڑا عمران خان کے ساتھ گزارا کرلے اور بہت پیسہ آئے گا باہر سے، ہم چاہتے ہیں کہ وہ پیسہ آپ کی مرضی سے تقسیم ہو، انہوں نے مجھے بڑی لالچ دی۔ میرے ساتھ تین میٹنگز ہوٸی اور میں نے ان سے کہا میری یہ جنگ نہیں ہے جو آپ سمجھ رہے ہیں اور میں آئندہ آپ کے ساتھ اس موضوع پر بات نہیں کرونگا، کھل کر میں نے کہہ دیا، تو مجلس میں ایک دم کچھ لمحوں کے لٸے سکوت طاری ہوا، اور پھر مجھے کہتے ہیں کہ آپ نے تو بات ہی روک دی، پھر کہتے ہیں اگر آپ کی اجازت ہو تو ہم ایک اخری بات کہہ دے تو میں نے کہا جی فرمائے، انہوں نے کہا دو تین سالوں سے آپ کی تقریریں نوٹ کررہے ہیں اور ان تقریروں میں دو باتیں کہتے ہو، ایک یہ کہ عمران خان یہودی ایجنٹ ہے اور دوسرا یہ کہ دنیا میں تہذیبوں کی جنگ ہے اور یہ مغربی تہذیب کا نمائندہ ہے اس لیے ہم اس کے ساتھ جنگ لڑ رہے ہیں۔ تو مجھے پوچھتے ہیں ہم نے صحیح نوٹ کیا ہے، تو میں نے کہا جی آپ نے بلکل صحیح نوٹ کیا ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ ہم کہنا چاہتے ہیں کہ آپ نے دونوں باتیں ٹھیک کہی ہے لیکن اس کے بعد ان دو باتوں کے لیے جواز بتانا چاہتے تھے کہ ایسا ہماری ضرورت ہے۔ دنیا کے معشیت یہودیوں کے ہاتھ میں ہے اور جب یہودی دنیا آپ کو معاشی طور پر مدد دینا چاہے گی، تو پھر اس کو گراؤنڈ پر دو کام کرنے ہونگے، ایک کہ آپ کی زمین پر بھی ایک کاروباری طبقہ ہو جب کاروباری طبقہ زمین پر ہوتا ہے اور اوپر سے پیسے کی بارش ہوتی ہے تو اس پیسے کو جذب کرنے کے لٸے بھی یہاں ایک طبقہ ہونا چاہیے۔ یہ ان کا فلسفہ تھا مجھے ابھی تک یہ باتیں سمجھ نہیں آرہی لیکن یہ ان کی باتیں کہہ رہا ہوں۔ اور دوسرا یہ کہ اس نے ہمیں پیسے دینے ہیں تو پھر وہ اسلامی ماحول کو اور اسلامی معاشرے کو نہیں دینگے۔ تو اب جو ہم نے اپ کے صوبے میں ان کی حکومت بنائی ہے، اس لٸے بنائی ہے کہ پشتون بیلٹ میں مذہب کی جڑیں گہری ہے اور ان گہری جڑوں کو اکھیڑنے کے لیے ہمارے پاس عمران خان سے زیادہ مناسب بندہ نہیں تھا، یہ ان کی نمائندوں کی باتیں کررہا ہوں۔ لیکن اب پیسہ آئے گا اور بہت بڑا پیسہ آئے گا، ہمارے گلی گلی اور کوچے کوچے تک جاٸے گا اور آپ کے مسجد تک جاٸے گا مسجد کے مولوی تک جائے گا اور مجھے کہتے ہیں کہ مولانا صاحب جب پیسہ مولوی تک پہنچے گا تو آپ تنہا رہ جاٸینگے کوئی مولوی آپ کے ساتھ نہیں ہوگا۔ میں حیران ہوا کہ یہ کیا ایجنڈہ ہے، تو میں نے کہا ان شاء اللہ میں یہ چیلنج قبول کرنے کو تیار ہوں (نعرہ تکبیر اللّٰہُ اکبر)۔
پھر اس کے بعد پیسہ آیا، پتہ نہیں کہا گیا، اربوں ڈالروں میں آیا، یورپ کا پیسہ آیا کدھر گیا، آج پیسہ ہمیں مل نہیں رہا ہے، ڈالر کو اوپر پہنچایا جارہا ہے پاکستانی روپیہ نیچے جارہا ہے، اور یہ حالت صرف پاکستان کی ہے، یہ حالت انڈیا کی نہیں ہے، یہ حالت چین کی نہیں ہے، یہ حالت بنگہ دیش کی نہیں ہے، یہ حالت انڈونیشیا کی نہیں ہے، یہ حالت ملائشیا کی نہیں ہے، یہ حالت ایران کی نہیں ہے۔ اس وقت تو افغانستان کے پیسے بھی ہم سے اوپر ہیں، صرف اس ماحول میں ہم کیوں گررہے ہیں، کہ ہمارے سالانہ ترقی کا تخمینہ جب ہم حکومت چھوڑ کر گیے تھے تو سالانہ تخمینہ ساڑھے پانچ فیصد اور اگلے سال کے لیے ہدف ساڑھے چھ فیصد، اور جب ان کی حکومت آئی تو ہمارے سالانہ تخمینہ زیرو سے بھی نیچے چلاگیا۔ تو پیسہ کدھر گیا، اب پیسہ کیوں نہیں آرہا۔ لیکن میں فخر کرتا ہوں علمائے کرام پر، جو غریب بھی ہیں، بھوکے بھی ہیں، چوبیس گھنٹے مسجد میں پانچ وقت کی نماز پڑھاتے ہیں، قران پڑھاتے ہیں، چھ چھ ہزار سات ہزار کی تنخواہیں اس کی ہے۔ ان کو ماہانہ دس ہزار اعزازیہ دینے کا فیصلہ ہوا، یقین جانیے پورے صوبے کے علما کرام نے چھوٹا ہو یا بڑا ہو، دیہات میں ہو، شہر میں ہو، بیٹھ کر اجتماعی طور پر اس کو مسترد کردیا کہ ہم نے نہیں لینگے (نعرہ تکبیر اللہ اکبر)۔
میرے محترم دوستو! الیکشن آتے ہیں ہماری ملک کی نظام، ہماری بیوروکریسی، ہماری اسٹبلشمنٹ الیکشن کے نتائج کو اپنے کنٹرول میں رکھتی ہے، اس لیے تاکہ مغربی دنیا کو بتایا جاسکے کہ مذہبی لوگوں سے مت گبھراو ، ان کی فکر مت کرو ان کے پاس بس ذیادہ سے ذیادہ بارہ چودہ سیٹیں ہوتی ہیں، پاکستان کے عوام میں ان کو کوئی مقبولیت حاصل نہیں اور اس غرض کے ساتھ پھر وہ دھاندلی کراتے ہیں۔ تو اس دفعہ ہم نے اس کا نوٹس لیا، پتہ تو ہمیں ہمیشہ ہوتا تھا لیکن اس بار ہم نے نوٹس لیا۔ ایسا نوٹس لیا کہ جمعیت علماء اسلام نے پورے ملک میں چودہ ملین مارچ کئے اور آخر میں آزادی مارچ کیا اور پبلک کی جو لاکھوں کے تعداد میں اس میں شرکت کی، اس نے دنیا کو پیغام دیا کہ اسٹبلشمنٹ دھاندلی کرکے تمہیں غلط رپورٹ دیتی ہے، جمعیت علماء کی اصل قوت یہ ہے۔
میرے محترم دوستو! آج میں آپ کے سامنے عرض کرنا چاہتا ہوں اور دکھی دل کے ساتھ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ پچیس جولائی 2018 پاکستان کا تاریک دن تھا، یوم سیاہ تھا، جب ملک کے عام انتخابات میں دھاندلی کی گٸی اور یا گزشتہ کل 17 نومبر کو پاکستان کی تاریخ کا یوم سیاہ تھا جب ہمارے پارلیمنٹ اور مجلس شوریٰ کے اندر اکیاون قوانین ایک گھنٹے کے اندر اندر پاس کئے گئے اور ہنگامہ آرائی کے ساتھ پاس کٸے گٸے، بے شرمی کے ساتھ پاس کٸے گٸے۔ لیکن میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں دوستوں کے اجازت کے بغیر کہنا چاہتا ہوں کہ اس وقت اس کردار کے پیچھے جو مجرم کھڑا تھا آج بھی اس کردار کے پیچھے وہی مجرم کھڑا ہے (نعرہ تکبیر اور قائدہ اشارہ کوا، قائد تیرا ایک اشارہ، لبیک لبیک کے نعرے)۔
میرے محترم دوستو! ان حالات سے ہم گزر رہے ہیں ہم ضیاالحق کے زمانے سے جمہوری بالادستی کے تحریکیں چلا رہے ہیں، آج بھی ہم جمہوریت کی بالادستی کی تحریک چلارہے ہیں، لیکن نتیجہ کیوں ہمیں نہیں مل رہا، کہ اس کے باوجود ہمارے اوپر غیر جمہوری قوتوں کی گرفت مظبوط ہوتی چلی جاتی ہے۔ تو پھر ایک دن تو ہمیں سوچنا ہوگا کہ خرابی کی اصل جڑ کیا ہے اور پھر بڑی بہادری کے ساتھ بے نیاز ہوکر کہ یہ اقتدار اگر ان کے ہاتھ میں ہے اور ہمارا اقتدار ان کے رحم و کرم پر ہے، تو فیصلہ کرنا ہوگا کہ اب ہمیں ان کے ہاتھوں سے اب اقتدار نہیں چاہیے، ہم اب پہلے اپنے ملک کی آزادی کے لٸے لڑیں گے جب آزاد ہوجاٸے گا جمہوریت مکمل ہو جائے گی، اس کے بعد پھر ہمیں اقتدار ملتا ہے تو پھر وہ کم از کم اقتدار ہوگی۔ آئین کی دھجیاں بکھیر دی گئی، یہ ملک کے ساتھ مذاق ہوتا ہے، یہ آٸین کے ساتھ مذاق ہوتا ہے، یہ جمہوریت کے ساتھ مذاق ہوتا ہے، یہ پارلیمنٹ کے ساتھ مذاق کیا جاتا ہے۔ اور تم نے آسان سمجھ لیا ہے کہ ہم جو چاہے کرسکیں گے۔ ان شاء اللہ اگر آپ کے سامنے ساری اپوزیشن بھی لیٹ جائے گی، جمعیت علماء سینہ سپر ہوکر اس بدعنوانی کا مقابلہ کرتی رہے گی (سربکف سربلند دیوبند دیوبند)۔
نظام میں اس طرح کی جبر اور زبردستی کو ہم تسلیم نہیں کرسکتے، ملک میں کمزوریاں ہوتی ہے کوئی اقتدار کا بھوکا ہوتا ہے، کوئی لالچ کا بھوکا ہوتا ہے بہت تھوڑی سی قیمت پر راضی ہو جاتا ہے۔ لیکن میرے علمائے کرام، میرے بھائیو، میرے سر کے دستار میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں ذرا اپنی تاریخ کی طرف اپنے نظریں لوٹاو، تین سو سال سے میرے اکابرین اس آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے، اس کے لٸے قربانیاں دے رہے تھے، کیا ہم نے اپنے اکابرین کی قربانیوں کی لاج رکھنی ہے یا نہیں رکھنی۔ ہمیں حضرت شیخ الہند نے جو منہج بتایا، جو راستہ بتایا، جو رویہ بتایا اسی کو لے کر ان شاء اللہ ہم نے آگے بڑھنا ہے۔ مذید اب غلامی کی زندگی برداشت نہیں ہوسکتی، بڑے مصلحتوں سے کام لٸے۔ لہٰذا ہمیں ایک دن تو آخری جنگ لڑنی ہی ہے چاہے ہم اس میں جیت جائے، چاہے ہم اس میں ہارتے ہیں، لیکن اللّٰہ کے ہاں ہم نے سرخرو ہونا ہے۔ تو اس حوالے سے ہمارے ملک کا نظام چل رہا ہے ایک جعلی اسمبلی، جعلی اکثریت اس نے ہمیں انتخابی اصلاحات دینے ہیں۔ جس جنرل کے ذریعے سے کل اسمبلی میں ترامیم ہوئی ہیں، میں یہاں کویٹہ کی سرزمین پر کل بھی کہا تھا اور آج بھی اپنے علماٸے کرام کی موجودگی میں ایک بار پھر کہتا ہوں کہ ہم ان ترامیم کو صرف یہ نہیں کہ مسترد کرتے ہیں بلکہ ان ترامیم کو اپنے جوتے کی نوک پہ رکھتے ہیں(نعرہ تکبیر اور جعلی وزیراعظم کے نعرے)۔
اب ان کو شرم بھی نہیں آتی نہ، آپ ان کو یہودی کہے ان کو پرواہ بھی نہیں، بتنے گندے کردار کے باوجود تن کر کہتے ہیں ریاست مدینہ، شکل دیکھو اور ریاست مدینہ دیکھو۔ آپ لوگوں کے منہ پر ریاست مدینہ کا لفظ آنا یہی ریاست مدینہ کی توہین کے لٸے کافی ہے۔ بدبختوں کہی کے تم جیسے گندے اور غلیظ لوگ اس قوم پر مسلط ہیں۔ تم جیسے گندے کردار کے لوگ اس قوم پر مسلط ہیں، کب تک اس قوم کو بیغیرت قوم سمجھتے رہوگے، کب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ لہٰذا ہم نے آگے بڑھنا ہے، ہم اس وقت پی ڈی ایم کا حصہ ہے ہم نے ان کے سامنے بھی اپنا موقف رکھنا ہے، ہم نے اپنے جماعت کے اجلاس بھی بلانے ہیں، اور ساری نئی صورتحال پر ازسر نو سوچنا ہے، کہ ہم کہاں کھڑے ہیں، ہمارا مستقبل کیا ہے، ہم نے کس جہد پہ سفر کرنا ہے اور کس انداز کے ساتھ کرنا ہے۔ یہ ملک ہمارا ہے کسی کا جاگیر نہیں ہے اور یہ ملک ان شاء اللہ ہمارے مرضی کے مطابق چلے گا، ہمارے آئین کے تحت طے کیے طریقے کے مطابق چلے گا۔ آئین کچھ کہتا ہے اور ہوتا کچھ ہے اب ان شاء اللہ یہ مذید نہیں چلے گا۔ اللہ ہمارے حالات کی بہتری کے لیے رحم و کرم فرمائے، باران رحمت کے لٸے بھی دعا کرے اللہ تعالیٰ بقدر حاجت باران رحمت نصیب فرمائے۔ اللہ پاک پاکستان کو اور بلوچستان کو بالخصوص امن کا گہوارہ بنائے۔ اور پاکستان میں رب العزت قران و سنت کی روشنی میں انسانی حقوق کے تحفظ کا نظام ہمیں مہیا فرمائے۔
واخر دعوانا ان لحمد للہ رب العالمین
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#TeamJuiSwat
ایک تبصرہ شائع کریں