قائد جمعیت و سربراہ پی ڈی ایم حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا لاڑكانہ میں شهيد اسلام کانفرنس سے خطاب تحریری شکل میں 27 نومبر 2021


 میرے محترم دوستو! اس وقت پاکستان کی معشیت کی کشتی ڈوب رہی ہے، غرقاب ہونے کے قریب ہے۔ اور یاد رکھو ویسے تو لوگ سمجھتے ہیں کہ ریاستوں کی بقا کا دارومدار دفاعی قوت پر ہے، لیکن میں ایک طالب علم کی حیثیت سے کہنا چاہتا ہوں کہ اس متمدن دور میں ریاستوں کی بقا کا دارومدار معاشی قوت پر ہے، دفاعی قوت کی حیثیت ثانوی ہے۔ ہمارے ملک کی معشیت کو کیا ہوگیا ہے، ہمارے پڑوس میں ہندوستان کی معشیت اوپر کو جارہی ہے، بنگلہ دیش کی معشیت اوپر کو جارہی ہے، انڈونیشیا ملائیشیا تک معشیت ترقی کررہے ہیں، چین کی معشیت اس وقت امریکہ کے مقابلے میں پرواز کررہی ہے اور اڑان بھر رہی ہے۔ ایران کی معشیت، اور اس کے اندر پاکستان واحد ملک ہے کہ جس کی سالانہ قومی پیداوار کا تخمینہ صفر سے بھی نیچے گرگیا ہے۔ یہ ہماری حالت ہے، ایسے لوگ جب ناجائز راستوں سے آتے نہیں لائے جاتے ہیں، تو پھر میں علی الاعلان تاریخ کے صفحات پر ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کہ وہ ادارے جو پاکستان کے محافظ بننے کے دعویدار ہیں اور جن کی ڈیوٹی، جنکا وظیفہ اور ذمہ داری وطن عزیز کی حفاظت ہے اگر ایسے حکمرانوں کو دھاندلیوں کے ذریعے ملک کے اقتدار پر بٹھایا جاتا ہے تو پاکستان کی تباہی کا ذمہ دار ایک عمران نہیں بلکہ اس عمران کو لانے والے اس کہیں بڑھ کر زیادہ ذمہ دار قرار دیے جاتے ہیں۔ ہمیں سب چیزوں کو ٹھیک کرنا ہے، تعجب کی بات ہے 2008 سے لے کر 2018 تک دس سالوں میں جتنے قرضے لیے گئے ہیں اس گزشتہ تین سالوں میں اس سے دگنے قرضے لے لیے گئے ہیں۔ یہ کس عقل کے لوگ ہیں۔ میرے دوستو اگر آپ کو میرے الفاظ یاد ہے میں نے بارہ تیرا سال پہلے یہ کہا تھا کہ عمران خان پاکستان کی سیاست کا غیر ضروری عنصر ہے اور ہم نے اس وقت بھی کہا تھا کہ یہ بین الاقوامی اقتصادی اداروں کا ایسا نمائندہ ہے جو پاکستان کو ان اداروں کے لیے گروی رکھے گا اور آج اس نے گروی رکھ دیا ہے۔ جس وقت میں آپ سے باتیں کررہا ہوں اس وقت ایک ڈالر کی مقابلے میں پاکستانی روپیہ کی قیمت ایک سو اُناسی روپیہ ہوگئی ہے۔ انہوں نے ہمیں کہاں پہنچادیا ہے۔ ہمارے اس خطے کے کسی بھی ملک کے سکے کی قیمت آپ معلوم کرے پاکستان سب سے زیادہ بری حالت میں ہے، ان لوگوں نے ہماری معشیت کو تباہ کردیا۔ آج مسلہ یہ نہیں کہ عمران خان نے ملکی معشیت کو تباہ و برباد کردیا، اس کا بٹہ بٹھادیا، چیلنج یہ ہے کہ اب کون آئے گا جو اس کو اٹھا سکے گا۔ مسلہ یہ ہے، چیلنج اب یہ ہے کہ کس طرح اس ملک کی معشیت کو دوبارہ اس مقام پر لے جایا جاسکے گا، جب آپ کی معشیت بہتر تھی ہندوستان آپ سے تجارت کرنا چاہتا تھا تو اس وقت بی جے پی کی حکومت تھی اور واجپائی ہندوستان کا وزیراعظم تھا، لیکن وہ بس پر پاکستان آیا تھا اور مینار پاکستان پر کھڑے ہوکر اس نے پاکستان کو ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کیا، ایک پڑوسی کی طور پر تسلیم کیا اس لیے کہ آپ کی معشیت مظبوط تھی وہ آپ سے کاروبار کرنا چاہتا تھا۔ آج بھی ہندوستان میں اسی بی جے پی کی حکومت ہے لیکن آج اس کا رویہ کیا ہے، ہمارے ساتھ مودی کا رویہ کیا ہے، کتنا جارحانہ ہے، اور پھر مودی کے مقابلے میں ہمارا رویہ کیا ہے۔ عمران خان حکومت میں نہیں آیا تھا اور بعد میں جب حکومت میں نہیں تھا تو اس نے کہا تھا کہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کے قراردادیں نہیں ہے۔ ہمیں کشمیر تین حصوں میں تقسیم کرنا چاہیے۔ اور جب اس کی حکومت آئی تو انڈیا میں الیکشن ہورہے تھے تو اس نے کہا مودی کامیاب ہوگا تو کشمیر کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ یہ جو مودی کو دعا دینے والا اور اس کی کامیابی کی امیدیں بھرنے والا، جب وہ کامیاب ہوگیا آج کشمیر کدھر ہے ذرا پتا تو کرو نا، اُس کشمیر کو اس آدمی نے انڈیا کے حوالے کردیا، کون اس کا ذمہ دار ہوگا ؟ ستر سال ہم نے کشمیریوں کی آزادی کے نام پر سیاست کی دنیا میں ہم نے ان کے خون کو بیچا، ہم نے ان کے قربانیوں کو بیچا، ہم نے ان کے ماوں اور بہنوں کے عزت اور ناموس کو بیچا اور آج اس کے باوجود ہم نے مفت میں ان کے حوالے کردیا۔ یہی کچھ کرنا تھا تو کشمیریوں کے ان آزماٸشوں سے کیوں گزارا۔ اتنی بڑی منافقت دنیا میں کوئی حکمران کسی قوم کے ساتھ نہیں کرسکتا جتنا کہ اس عمران خان کی حکومت میں ہم نے کشمیریوں کے ساتھ کیا ہے۔ صرف کشمیر کی بات نہیں ہم نے بھی کچھ کم نہیں کیا ہے ہم نے بھی فاٹا کا انضمام کرکے فاٹا کے عوام کے ساتھ وہی کچھ کیا ہے قانونی لحاظ سے بھی اور اخلاقی لحاظ سے بھی جو ہندوستان نے کشمیریوں کے ساتھ کیا ہے۔ اگر ہم اپنے کردار پر کچھ جائز سمجھتے ہیں اور اس کو ہم فاٹا کے عوام کے ساتھ ہمدردی سمجھتے ہیں تو پھر آپ کہہ سکتے ہیں کہ انڈیا کے ساتھ اور کشمیر کے ساتھ جو کچھ آپ نے کیا وہ بھی ٹھیک ہے۔ یہ کیا کردار ہیں جو سامنے آرہے ہیں کوئی دلائل ہونی چاہیے کوئی سمجھ بوجھ ہونی چاہیے۔ ہم نے ہر وقت دیانت کی بنیاد پر رائے دی ہے کسی نے قبول کیا ہے یا نہیں کیا وہ اپنا مسئلہ، لیکن ہم نے اس وقت بھی کہا تھا کہ جہاں کشمیر کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے وہاں فاٹا کے عوام کے ساتھ بھی زیادتی ہورہی ہے اور آج خدا جانے ان کو کس کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیا ہے۔ اس وقت فاٹا کے عوام کا کوئی ولی وارث نہیں ہے، اس وقت کشمیر کے عوام کا کوئی ولی وارث نہیں ہے، دونوں برابر کے مظلومیت کے دور سے گزر رہے ہیں۔

میرے محترم دوستو! ہم بڑی مظلوم قوم ہیں، ہمارا نوجوان بہت ہی مظلوم ہے، اس نوجوان کو دھوکہ دیا گیا۔ اسے کہا گیا تمہیں ایک کروڑ نوکریاں دونگا۔ ایک کروڑ نوکریاں کیا دے گا پچاس لاکھ تو ان سے نوکریاں چھین لی، بیروزگاری پھیلائے گا۔ پچاس لاکھ گھر دونگا پچاس لاکھ گھر گرا دیے۔ جب تمہیں حکومت کرنی نہیں آتی جھوٹے نعرے کیوں لگاتے ہو، نوجوان کو کیوں دھوکے دیتے ہو، بیروزگاروں کو کیوں دھوکے دے رہے ہو، غریب کو کیوں دھوکہ دے رہے ہو، لوگوں کے پاس گھر نہیں تم نے کیوں دھوکے دیے۔ ماضی میں بھی ہم نے یہ دھوکے قوم کو دیے۔ نعروں کی بنیاد پر کبھی نظام نہیں چلتا، ایک سنجیدہ منشور چاہیے۔ اور میں آج دعوے سے کہتا ہوں کہ اگر پاکستان میں کوئی سیاسی پارٹی اس کے پاس کوئی منشور ہے، تو وہ سب سے زیادہ کہی سنجیدہ اور بامعنی منشور جمعیت علماء اسلام کا ہے (نعرہ تکبیر)۔

میرے محترم دوستو! آپ کہاں رہ رہے ہیں آج اس وقت آپ کا پارلیمنٹ یرغمال ہے۔ اس پارلیمنٹ میں آج تک کوئی قانون سازی نہیں ہوسکی اگر ہوئی ہے تو صرف بین الاقوامی ادارے ایف اے ٹی ایف کی ہدایات کے مطابق قانون سازی ہوئی ہے۔ آج بھی اگر قانون سازی ہورہی ہے تو میرے دوستو جو حکومت پچھلے انتخابات میں دھاندلی کے ساتھ برسر اقتدار آئی تھی اب وہ دوبارہ آنے والے الیکشن میں دھاندلی کے لیے قانون سازی کررہی ہے۔ ایسی قانون سازی کے جس کے ذریعے ایک بار پھر وہ دھاندلی کرکے اقتدار تک پہنچ سکے، یہ ہے ان کی حقیقت، اب یہ کس کے کہنے پر کررہے ہیں، کون ہے پیچھے وہ قوت جو ان سے ایسے قانون سازی کرارہی ہے۔ کہتے ہیں ہم مشین کے ذریعے سے ووٹ ڈلوائینگے۔ بھئی اس مشین کو پورے یورپ نے مسترد کردیا ہے۔  اس مشین کو اس وقت انڈیا مسترد کررہا ہے، جس کو دنیا مسترد کرتی ہے کہ یہ منصفانہ اور شفاف انتخابات کا ذریعہ نہیں ہے آج ہم دھاندلی کے لیے اس کو اپنا رہے ہیں۔ اور میں پاکستان کے فوجی قوت کو بھی کہنا چاہتا ہوں کہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں ای وی ایم (EVM) یعنی الیکٹرانک ووٹ مشین، اب لوگ کہتے ہیں یہ الیکٹرانک ووٹ مشین نہیں ہے یہ الیکشن وایہ ملٹری ہے۔ میری فوج کو کتنا بدنام کردیا گیا، میری دفاعی قوت کو کیوں بدنام کیا گیا، کچھ اس میں اس کے جرنیلوں کا بھی کردار تھا، جنہوں نے اپنے کے گھمنڈ میں وہ وہ غلطیاں کی کے جس کی سزا آج میرے پاکستان کا ادارہ بھگت رہا ہے۔ کیوں آخر، کیوں یہ زیادتی ہمارے ساتھ کی گئی۔ یاد رکھو فوج کا ادارہ جرنیل کا ادارہ نہیں، فوج کا ادارہ قوم کا ادارہ ہے۔ ہم سمجھتے ہیں یہ جرنیلوں کا ادارہ ہے، جرنیل اس ادارے کا حصہ ہے، تنخواہ دار حصہ ہے، خزانے سے تنخواہ لیتا ہے اور وہ بھی قوم کی ملکیت ہے وہ بھی قوم کا ادارہ ہے۔ لہذا قومی ادارے میں کسی ایک فرد کو خیانت کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

میرے محترم دوستو! جیسے ہم نے وطن عزیز کی بات کی، ہم انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں آج امریکہ بھی انسانی حقوق کی بات کرتا ہے۔ ا ف غ ا ن س تا ن میں بیس سالہ جنگ کے شکست کے نتیجے میں آج وہ کہتا ہے کہ ہم ط ا ل ب ان حکومت کو، امارت اسلامیہ کو تسلیم کرینگے بشرطیکہ وہ ا ف غ ا ن س تا ن میں انسانی حقوق کو تحفظ دے، خواتین کی تعلیم کو تحفظ دے۔ میں ان سے پوچھتا ہوں کہ کونسے انسانی حقوق ؟ وہ انسانی حقوق جس کا مظاہرہ تم نے گوانتاموبے میں کیا تھا، انسانیت کو جس طرح تم نے ذلیل کیا یہاں تک کہ جنیوا کے قیدیوں کے حقوق کے زمرے میں آپ نے کہا یہ لوگ نہیں آتے۔ اور آپ نے ان پر مظالم کئے۔ آپ نے سمندر میں کھڑے اپنی بحری بیڑوں میں جو انسانی حقوق کا قتل کیا، آج وہ جیلیں جو بگرام میں تھی، وہ جیلیں جو شبرغان میں تھی، آج وہ امارتی اسلامیہ کے قبضے میں آئی ہے آج خالی ہوچکی ہے وہاں قیدی نہیں ہے، لیکن آج بھی اس خالی جیل کو دیکھتے ہوئے رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں کہ بیس سال ان عقوبت خانوں میں تم نے انسانیت کے ساتھ کیا کیا تھا۔ ایک بات میں بڑی کھل کر کہہ دینا چاہتا ہوں یورپ بھی سن لے اور امریکہ بھی سن لے اور امریکہ کے وفادار بھی سن لے کہ جس کے ہاتھوں سے انسانوں کا خون ٹپک رہا ہو انہیں نہ تو انسانی حقوق کے بات کرنے کا حق حاصل ہے اور نہ ہی عالمی برادری کی قیادت کا حق رکھتا ہے، امریکہ آج اس شکست کے بعد میری نظر میں دنیا کا سُپر طاقت نہیں رہا ہے (نعرہ تکبیر)

میرے محترم دوستو! آج جو ہمارے پارلیمنٹ میں قانون سازیاں ہورہی ہیں، جس طرح وقف املاک کے حوالے سے قانون سازی کی گئی، جس طرح گھریلو تشدد کے نام پر قانون سازی کی گئی یہ میرے نزدیک وہ عام الفاظ ہوتے ہیں قران و سنت سے متصادم، متصادم کی بات نہیں ہے میں شریعت اسلامیہ کا ایک طالب علم ہونے کے ناطے سے واضح طور پر کہتا ہوں کہ یہ قران و سنت کا انکار ہے۔ چھوٹے بچے کا اٹھارہ سال سے کم عمر کا اسلام قبول نہیں ہوگا، انہیں مسلمان نہیں کہا جائے گا۔ ایک زمانے میں اصف علی زرداری صاحب کے ساتھ یہاں میری بڑی اچھی گپ شپ ہوتی ہے تو میں نے ان سے کہا کہ آپ کے والد ہے حاکم علی، آپ ہے اصف علی، آپ کے وزیر اعلی ہے قائم علی، دوسرا وزیر اعلی ہے امداد علی، یہ سارے علی علی علی مل کر، ذرا سوچو تو سہی کہ حضرت علیؓ نے کس عمر میں ایمان لایا تھا۔ کم از کم اپنے نام کے جو تم نے حضرت علیؓ کا ایک حصہ رکھا ہوا ہے اس سے تو حیا کرلو۔ جنہوں نے دس سال کی عمر میں اسلام قبول کیا تھا تو کیا پہلی آپ کی نظر میں مجرم حضرت علیؓ تھا یا نعوذ باللہ نعوذ باللہ نعوذ باللہ رسول اللہﷺ پر الزام لائے کہ انہوں نے کیوں دس سال میں اس کا اسلام قبول کیا۔ یہ جہالت ہے جہالت، ان جاہلوں سے ہمیں واسطہ پڑ رہا ہے، کچھ تو عقل ہونی چاہیے۔ اور یہ معاملے ہماری قومی اسمبلی، جعلی اسمبلیوں تک چلے گئے۔ ابھی جعلی اداروں کے اندر قران کریم، مرد اور عورت اور انسانی معاشرے میں مرد اوذ عورت کی کردار کا جو تصور پیش کرتا ہے، یہ قانون بلکل اس کے برعکس ہے۔ قران مرد کے جس کردار کا تعین کرتا ہے، یہ قانون وہ کردار عورت کو دیتا ہے اور جو کردار عورت کا متعین کرتا ہے وہ اس قانون میں مرد کو مل رہا ہے۔ اس طرح کا تضاد سوائے اس کے ہم مغرب کی دباو میں اکر قانون سازی کررہے ہیں۔ ”یاایھا الذین امنو ان تطیعو الذین کفرو یردوکم علی اعقابکم فتنقلبو خسرین“ اگر تم ک ا ف ر و ں کی پیروی کروگے تو وہ پسپائی کی طرف تمہیں دھکیل دیں گے اور تمہارا انجام سوائے خسارے کے کچھ نہیں ہوگا۔

تو میرے محترم دوستو! اس پاکستان میں اگر ہمارا آئین کہتا ہے کہ قانون سازی قرآن و سنت کے تابع ہوگی اور قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون سازی نہیں ہوگی تو ہم بھی اعلان کرتے ہیں کہ ہم پارلیمنٹ کی اس قانون سازی کو مسترد کرتے ہیں (نعرہ تکبیر اور غیر اسلامی بل نامنظور کے نعرے)

میں تمام سیاسی جماعتوں کے اکابرین سے بھی انتہائی ادب سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے پوری قوم کے بیچ میں آئین ایک معاہدے کی حیثیت رکھتا ہے، ایک میثاق ملی کی حیثیت رکھتا ہے اور آپ کو اس میثاق ملی کا احترام کرنا ہوگا۔ صرف اقتدار اور صرف اقتدار اور جیسے کیسے اقتدار، اور پھر اقتدار میں آنے کے بعد اپنی مرضی کی حکمرانی، اپنی مرضی کی قانون سازی، اب  ان شاء اللہ اس کے بعد یہ نہیں چلے گا۔ یہ ملک تب رہ سکتا ہے جب ہم سب آٸین کے دائرے میں رہتے ہوئے زندگی گزارے۔ ہمارے حقوق کا فیصلہ آئین کی رو سے ہوگا۔ ہماری قانون سازی قرآن و سنت کے تابع ہوگی ورنہ پھر قانون سازی جہالت کے تابع ہوگی۔ تم ہزار دفعہ کہو کہ جدید دور ک تقاضے اور جدید دور کے تعلقات اور جدید دور کی ہماری مجبوریاں، لیکن یاد رکھو ہم بائیس کروڑ عوام کی اتنی بڑی آبادی کو کسی بین الاقوامی قوت کا غلام نہیں بننے دے گے۔ ہمارے مالیاتی ادارے آزاد ہونے چاہیے۔ ہمارے اندر خوداری ہونی چاہیے۔ ہم جس سمت میں جارہے ہیں ہم نے اس سمت کو تبدیل کرنا ہے۔ اور  ان شاء اللہ ہوگا آپ گواہ ہے سندھ کے لوگ، بیس تیس سال پہلے سندھ کے لوگوں میں یہ شعور نہیں تھا، آج جمعیت علماء کی مسلسل محنتوں نے اس قوم کو ایک نیا شعور دیا ہے۔ اور یہی صورتحال پورے ملک میں ہے۔  ان شاء اللہ اسی ہمت اور اسے عزم کے ساتھ آگے بڑھے گے تو پاکستان کی قومی شناخت کو پوری دنیا سے منوائے گے۔

میرے محترم دوستو! ہم اداروں کا بھی احترام رکھتے ہیں۔ ہم عدلیہ کو اپنے وطن کا ادارہ سمجھتے ہیں لیکن آج ہمارے عدلیہ کے فیصلوں کو عدل و انصاف کے معیار سے کیوں نہیں دیکھا جارہا، کیا وجہ ہوگئی ہے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے چار ججوں کے بیانات یہ خود اس عدلیہ کے کردار پر سوالیہ نشان ہے۔ ہم سے کیوں گلہ کرتے ہو ”وشھد شاھد من اھلھا“ ان کے اپنے گھر سے ان پر گواہیاں آگئی ہیں۔ یہ نیب یہ میرا احتساب کرے گا جس کے بارے میں واضح چیزیں آگئی ہیں کہ نیب کے ذریعے سزائے دینا بھی پاکستان کے سیاست کا حصہ تھا احتساب کا حصہ نہیں تھا۔ اسی لیے تو ہم نے کہا کہ ایک ہم ہے کہ  ان شاء اللہ نیب ہمیں نہیں چھیڑ سکتا ورنہ منہ کی کھانی پڑے گی (نعرہ تکبیر)۔

 ان شاء اللہ العزیز پورے وقار کے ساتھ، پوری عزت و احترام کے ساتھ لیکن پورے جوش اور جذبے اور عزم کے ساتھ ہم نے اس سفر کو آگے جاری رکھنا ہے یہ ڈاکٹر خالد کے خون کا ہمارے اوپر قرض ہے۔ اور  ان شاء اللہ میں دعا کرتا ہوں ان کے شہزادوں کو راشد اور ناصر کو اور ان کے پورے خاندان کو اللہ اپنے دین کے لیے قبول فرمائے اور ان کی قربانیوں کو جس طرح انہوں نے آج ایک قبولیت کا رنگ دیا ہے، خدا ان کی محنتوں کو قبول فرمائے۔ تو یہ عزم ہے کہ ہم اکھٹے چلے گے یا نہیں؟ اور آگے بڑھے گے یا نہیں؟ آج تو آپ ایک جلسے میں اکھٹے ہیں یہاں سے جائینگے آپ نے اپنے یونٹوں میں جانا ہے، اپنے دیہاتوں اور محلوں میں جانا ہے، اور جمعیت علماء کا پیغام اور اپنی قربانیوں کا پیغام آپ نے گھر گھر تک پہنچانا ہے۔ جس محنت سے آپ بڑھے گے  ان شاء اللہ یہ پاکستان میں انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔

واخر دعوانا ان لحمد للہ رب العالمین۔

ضبط تحریر: #سہیل_سہراب

ممبر ٹیم جے یو آئی سوات

#TeamJuiSwat ۔ 

0/Post a Comment/Comments