قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا جامعہ فاروقیہ شجاع آباد میں علمی، روحانی، تربیتی اور تاریخی خطاب تحریری صورت میں
09 اپریل 2016
خطبہ مسنونہ کے بعد
برادر مکرم حضرت خواجہ خلیل احمد صاحب دامت برکاتہم، محترم جناب سید کفیل شاہ بخاری صاحب، ہمارے لیے نہایت قابل احترام حضرت مولانا زبیر احمد صدیقی صاحب اور جامع مسجد کولون ہانگ کانگ میں میرے میزبان مولانا ارشد صدیقی صاحب، سٹیج پر موجود تمام اکابر علمائے کرام، میرے بزرگوں، میرے دوستوں اور بھائیو، اساتذہ کرام، طلبا عزیز!
میں اپنے لیے نہایت اعزاز اور باعث سعادت سمجھتا ہوں کہ ایک طویل عرصے کے بعد شجاع آباد میں جامع فاروقیہ کے اس عظیم اجتماع میں آپ کے ساتھ شریک ہورہا ہوں۔
مادی دنیا، مادی جسم ایک دوسرے سے علیحدہ ہوسکتے ہیں لیکن روحانی دنیا تقسیم کبھی قبول نہیں کرتی، اس اعتبار سے ہم ہمیشہ ایک جسم ہیں، ایک جسم رہے ہیں اور ان شاء اللہ ایک جسم رہیں گے۔ یہ ایمان والوں کی علامت جناب رسول اللہﷺ نے یہی ارشاد فرمائی مَثَلُ المُؤْمِنِينَ في تَوَادِّهِمْ وتَرَاحُمِهِمْ وتَعَاطُفِهِمْ، مَثَلُ الجَسَدِ إذا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى له سَائِرُ الجَسَدِ بالسَّهَرِ والحُمَّى ( الحدیث )۔ ایمان والوں کی مثال ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنے، ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی اور ایک دوسرے کے لیے مہربان ہونے میں ایسی ہے جیسے ایک جسم اگر اس کی آنکھ میں تکلیف ہے تو پورا جسم بے قرار، اس کے سر میں درد ہے تو پورا جسم بے قرار، جسم کے کسی حصے میں درد مچل رہا ہو ممکن نہیں ہے کہ پوری رات آپ کا جسم آرام کرسکے اور اس کو بخار نہ لگ جائے۔ امت کے اندر یہ تعلق، امت کا یہ وحدت اور امت کا اس طریقے سے ایک جسم ہونا ظاہر ہے کہ ہمارے لیے، آپ کے لیے اور پوری امت مسلمہ کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ اگر فلسطین کے مسلمان پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں اور ہمیں اس کا احساس نہیں، اگر کشمیر کا مسلمان مظلوم ہے اور دنیائے عرب اور افریقہ کا مسلمان اس سے واقف نہیں، اگر چیچنیا کے مسلمان پر ظلم ہے اور ہمیں اس کا احساس نہیں، تو ہمیں اپنے دلوں کے اندر ایمان کے اس تعلق کو ٹٹولنا ہوگا۔ کہاں گیا وہ رشتہ، کہاں گیا وہ تعلق، جو رسول اللہﷺ نے اس امت کو عطا کیا اور آج ہم نے اس کو نظرانداز کردیا۔ ہم بکھر گئے ہیں، ہمارا شیرازہ بکھرا ہوا ہے۔
میرے محترم دوستو! جب ہم اس طرح کے سٹیج سجاتے ہیں، مدارس کے جلسے کرتے ہیں تو ہم اپنے اکابر کا نام لیتے ہیں، اکابر کا نام اس لیے بھی لیتے ہیں کہ ہم اگر اپنے اکابر کی نسبت کا ذکر نہ کرے تو شاید ہمیں سننے کے لیے بھی کوئی تیار نہ ہو۔ ہمارے اکابر و اسلاف ہمارے لیے سلسة الذہب ہے۔ جو رونق آج لگی ہوئی ہے یہ ہمارے اکابر و اسلاف کی مرہون منت ہیں۔ لیکن ہم ان کے نام سے اجتماع تو کرلیتے ہیں لیکن میں چوں کہ اسی حلقے کا ایک فرد ہوں، میں اسی مدرسے سے پڑھا ہوں۔ یہی مدرسہ میرا مادر علمی ہے، اسی استاد سے پڑھا ہوں، یہی کتاب پڑھا ہوں جو آپ پڑھتے ہیں اور ہم سب پڑھتے ہیں۔ اس لیے ضروری سمجھتا ہوں کہ میں اس حوالے سے آپ حضرات کی خدمت میں عرض کروں کہ برصغیر کے ہمارے علمائے کرام، ہمارے اسلاف درحقیقت اسلام کی نشاط الثانیہ کا عنوان تھے۔ انہوں نے اپنی ذات کو نہیں دیکھا، اپنی دنیوی عیاشی کو نہیں دیکھا، دنیوی آسودگی کا لحاظ نہیں کیا، بلکہ اپنے مقصد حیات کو دیکھا، مقصد زندگی کو دیکھا اور یقیناً اجتماعی جدوجہد میں اور اجتماعی جدوجہد کے راستے میں ہمیشہ دو طرح کے لوگ ملتے ہیں، ایک وہ لوگ ہیں کہ جن کے سامنے مقصد زندگی مال و دولت ہوا کرتا ہے اور جس کے سامنے مقصد زندگی اقتدار ہوا کرتا ہے۔ جہاں مقصد زندگی مفادات ہو، اس مفاداتی طبقے کے بارے میں جناب رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے تعِس عبدُ الدينارِ ، تعِس عبدُ الدرهمِ ، تعس عبدُ الخميصةِ ، تعس عبدُ الخميلةِ ، تعِس وانتكَس وإذا شيكَ فلا انتقشَ (الحدیث ) جو عہدے اور دولت کے پجاری ہوتے ہیں وہ ہلاک ہوگئے اور یہ کون لوگ ہے کہ اگر ان کو مفاد دیا جائے تو راضی رہتے ہیں مفاد نہ دیا جائے تو چھوڑ جاتے ہیں، ناراض ہوجاتے ہیں یہ اس زمانے کے منافقین ہوتے تھے اور آج کے دور میں منافقین کی علامتیں ہمارے اندر آگئی ہے، ان کے خصلت ہمارے اندر آگئی ہے۔ آج ہم سب مسلمان ہیں لیکن مشرکین کی عادتیں ہمارے اندر آگئی ہے۔ آج ہم سب مسلمان ہیں لیکن یہود و نصاری کی خصلتیں ہمارے اندر آگئی ہیں، ایک یہ پہلو بھی ہے جو ہماری اجتماعی جدوجہد کو بری طرح متاثر کررہا ہے۔ اور دوسرے وہ ہیں کہ جن کی اپنی ذات پر نظر نہیں ہے جو نامعلوم سپاہی ہے، جس کو نام و نمود کی بھی ضرورت نہیں ہے، خالصتاً مقصد کے جذبے سے سرشار، فرمایا طوبى لعبد أخذ بعنان فرسه في سبيل الله ، أشعث رأسه ، مغبرة قدماه . إن كان في الحراسة كان في الحراسة . وإن كان في الساقة كان في الساقة إن استأذن لم يُؤْذَنْ له، وإن شَفَعَ لم يُشَفَّعْ ( الحدیث )۔ پراگندہ سر ہے، پاؤں گرد سے اٹے ہوئے ہیں لیکن گھوڑے کے باگ ہاتھ میں لیے ہوئے میدان میں اترنے کے لیے تیار کھڑا ہے۔ جماعتی زندگی میں اس کی حیثیت یہ ہے کہ اگر وہ چھٹی مانگے تو چھٹی نہ ملے کسی کی سفارش کرے تو سفارش مقبول نہ ہو۔ ڈیوٹی دی جائے پہرہ کرنے کی تو پہرہ دیتا ہے، لشکر کے پیچھے پیچھے آئے سامان کو سنبھالے تو وہ ڈیوٹی دیتا ہے۔ کہاں گئی وہ تعلیمات آج ہمارے معاشرے میں ہم میں نہیں پائی جارہی، ہم نے اپنے آپ کو جھنجوڑنا ہے۔ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ہمارے اکابر نے ہمیں کیا سبق دیا۔ اولین چیز برصغیر کی آزادی، انسانیت کی آزادی اور جیسا کہ حضرت عمر بن خطابؓ نے اپنے گورنر کو جھنجوڑ کر کہا متى استعبدتم الناس وقد ولدتهم أمهاتهم أحرارا۔ تم نے لوگوں کو اپنا غلام کب سمجھا ہے جب کہ ان کے ماؤں نے تو ان کو آزاد جنا ہے۔ آزادی انسان کا پیدائشی حق ہے اور اس پیدائشی حق کے لیے ہمارے اکابر نے شریعت کو پہچانا ہے، شریعت کے تقاضے کو پہچانا ہے۔ آج ہم نے شریعت کو محض عبادات کا نام دے دیا ہے لیکن عبادات سے آگے قرآن کریم کی تعلیمات پر ہمیں نظر کرنی چاہیے۔ اللہ تعالی نے اس شریعت اسلامیہ کو ایک جگہ پر گھاٹی سے بھی تو تعبیر کیا ہے کہ تم گھاٹی میں اتر رہے ہو، تو گھاٹی سے کیوں تعبیر کیا۔ فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ ( القرآن ) تم گھاٹی میں اتر رہے ہو کیوں کہ گھاٹی ایک دشوار گزرگاہ کا نام ہوا کرتا ہے جہاں مخالف سمت کی ناموافق ہوائیں آتی ہے، جہاں جھاڑیاں ہوتی ہے کانٹے ہوتے ہیں، پتھریلی زمین آتی ہے اور آپ اس کو عبور کررہے ہوتے ہیں۔ اب اس عقبۃ، اس گھاٹی اور اس راستے پے چلنے کا جو ابتدائی اور بنیادی تقاضا رب العزت نے فرمایا ”فک رقبہ“ کسی انسان کی گردن کو چھڑانا، سب سے پہلے انسان کی آزادی کی بات کی ہے۔ اولین پیغام قرآن کریم نے اس راہ شریعت کو اپنانے کے لیے یہی مقصد عطا کیا ہے کہ آپ نے انسان کی آزادی کی بات کرنی ہے۔ قرآن کے الفاظ کو اس کے معیار پر تولنا ہوگا۔ گھر کی باندھی کو اور گھر کے غلام کو آزاد کرنا اور نوکر کو کہ دینا کہ چلو آپ کی چھٹی ہے یہ قرآن کا معیار ہے یہ اس کا میزان ہے اس پر آپ قرآن کے الفاظ کو تول رہے ہیں۔ اور پھر خوشحال معشیت کی بات ہے گھر کے ایک غریب پڑوسی سے لے کر پورے غریب قوم کی معاشی خوشحالی أَوْ إِطْعَامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ ( القرآن ) بھوک کی حالت میں لوگوں کی معشیت کو بہتر بنانا، اور پھر پسماندہ طبقوں کی بات يَتِيمًا ذَا مَقْرَبَةٍ ۔ أَوْ مِسْكِينًا ذَا مَتْرَبَةٍ ( القرآن ) یتیم لوگ جو قرابت دار بھی ہو، مسکین غریب جو خاک آلود ہو خاک میں اَٹے ہوئے ہو، جن کے پاس گھر نہیں ہے جس کے پاس لباس نہیں ہے، ہم نے قرآن کریم کی یہ تعلیمات اس کا مالک کس کو بنادیا ہے؟ یہ پیغام ہم نے کس کو منسوب کردیا ہے؟ ہمارے اکابر نے تو ہمیں یہ پڑھایا تھا، ہمارے اکابر نے تو ہمیں یہ تعلیم دی ہے۔ انگریز کے خلاف جنگ لڑی ہے۔ حضرت مفتی صاحبؒ فرمایا کرتے تھے کہ دشمن غلبہ حاصل کرلے، آپ سے اقتدار چھین لے، آپ کے ملک پر قبضہ کرلے اس کو شکست نہیں کہا کرتے۔ شکست یہ ہے کہ آپ اپنے اصول اپنے عقیدہ اپنی نظریہ سے دستبردار ہوجائے (نعرہ تکبیر اللہ اکبر)۔
1857 کی مراحل سے گزرنے کے بعد جب کہ محاذ پر صرف تین شخصیتیں رہ گئی تھی، صرف تین شخصیتیں رہ گئی تھی، حجة الاسلام قاسم العلوم و الخیرات حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ، فقیہ الملت حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ اور مہاجر مکی حضرت امداداللہ صاحب یہ تین شخصیتیں رہ گئی تھی، لیکن ان کے فکر و نظر نے، ان کے اصول و نظریہ نے، اس کے عقیدے نے شکست تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا (نعرہ تکبیر اللہ اکبر)۔
تو میرے محترم دوستو! اس بات کو ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے، ٹھیک دس سال گیارہ سال بعد دیوبند کے ایک مسجد میں مدرسہ کھولتے ہیں۔ اس مدرسے کا پہلا طالب علم بھی محمود حسن، پہلا فاضل بھی محمود حسن اور پھر وہ اس وطن عزیز میں خلافت کی تحریک اٹھاتے ہیں، آزادی کی تحریگ کو جلا بخشتے ہیں، میدان میں اترتے ہیں، پورے برصغیر میں شاگردوں کا جال بچھا دیا اور جب 1916 میں آپ گرفتار ہوگئے، آپ کو مالٹا لے جایا گیا پھر 1919 میں آپ واپس آتے ہیں حضرت مفتی اعظم ہند مولانا کفایت اللہ صاحبؒ سیاسی فکر کے لوگ تھے پیچھے ایسے شاگرد چھوڑے کہ جن کی نظر ہندوستان کے مسقبل پے تھی۔ آپ کی تشریف اوری سے پہلے ہی جمعیت علماء کی تنظیم بناکر پیش کردی (نعرہ تکبیر) اور اب اگر دارالعلوم دیوبند کو دیکھے، اس کی بنیاد کو دیکھے تو اس کی بنیاد میں آپ کو ایک شخص ملتا ہے جس کا نام محمود حسن ہے۔ اور جمعیت علماء کی آپ بنیاد کو تلاش کرے، ان کی اساس کو تلاش کرے اب وہی محمود حسن حضرت شیخ الہندؒ کی صورت میں آپ کو اس کی بنیاد میں نظر آئینگے (نعرہ تکبیر اللہ اکبر)۔ آپ نعروں میں میری بات کو توڑے نہیں میں اب ذرا بات سمجھانا چاہتا ہوں اور دیوبندیوں کو سمجھانا چاہتا ہوں جنہوں نے گھر گھر دیوبندیت کی دکانیں کھول رکھی ہے۔ ان لوگوں کو سمجھانا چاہتا ہوں کہ میرے اکابر نے دیوبند میں مدرسہ ہمارے لیے دکانیں کھولنے کے لیے نہیں بنایا تھا، ہمارے مذہبی کاروبار کے لیے نہیں بنایا تھا۔ ان کا ایک عالمگیر، آفاقی اور جہانگیر پروگرام تھا اس کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ادارہ قائم کیا۔ اب مجھے بتاؤ اگر شیخ الہند ہمارا مقتدا ہے، اگر شیخ الہند اس مدرسہ کی اساس ہے، اگر شیخ الہند اس جمعیت کی اساس ہے آپ دیوبندیت کے دو عناصر کا انکار کیسے کرینگے، دیوبندیت دو عناصر پر مشتمل نام ہے مدرسہ اور جمعیت، اگر یہ دو عناصر ایک ہی وقت میں موجود نہیں ہے میں ان کو اپنے عقیدے کے مطابق دیوبندی نہیں سمجھتا۔ یہ تو انگریز کی سازش ہے کہ اس نے مجھے فرقہ بنادیا، مجھے دوسرے فرقوں کے مقابلے میں ڈال دیا۔ میرا پروپیگنڈہ غلط کیا، میں تو انسانیت کی آزادی کا جنگ لے کر آیا تھا، میں تو پورے برصغیر کی آزادی کا عنوان لے کر اٹھا تھا، میں نے تو ایک عالمگیر اور آفاقی نظام انسانیت کو دیا۔ آج ہمارے ماحول میں تعصب کی باتیں کی جائے، قوم کو تقسیم کرنے کی باتیں کی جائے اور راہ اعتدال سے ہٹ کر باتیں کی جائے یہ میرے اکابر و اسلاف کا نظریہ نہیں ہے۔
آج اس سٹیج پہ میں یہ باتیں کچھ مطلب کے لیے چھیڑ رہا ہوں، بلاوجہ نہیں چھیڑ رہا۔ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ جہاں دارالعلوم اپنی زندگی کے ڈیڑھ سو سال مکمل کرچکا ہے وہاں جمعیت علماء اپنی تاسیس کے سو سال مکمل کررہا ہے۔ سو سال اس نظریے کے برصغیر میں ہوگئے، عالمگیر نظریے کے، آفاقی نظریے کے، انسانیت کی آزادی، اس کی خوشحال معشیت، اس کے انسانی حقوق کے تحفظ، آج سو سال ہم پورے کررہے ہیں اور جمعیت علماء اگلے سال ان شاء اللہ 09 اپریل کو پشاور میں پوری دنیا سے جمعیت علماء کے تنظیموں کو بلائیں گے، جہاں جہاں پر اس فکر سے وابستہ لوگ موجود ہیں۔ اور اس آفاقی اور عظیم الشان عالمگیر نظریے کو اپنے آنے والے نسلوں کے حوالے کردیں گے
( ان شاء اللہ)
میرے محترم دوستو! ہمارے ابھی ایک بزرگ مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ آپ جب 1919 کی بات کرتے ہیں اور حضرت شیخ الہند کی بات کرتے ہیں تو وہ تو جمعیت علماء ہند تھی اور آپ تو جمعیت علماء اسلام میں ہے، اس سوال کو کیسے حل کریں گے؟ میں نے کہا یہ ہمارے چھوٹوں کی سوچ کا مظہر ہے ہم جتنا چھوٹے ہیں اتنا چھوٹا سوچتے ہیں۔ ایک ہی مدرسہ، ایک ہی استاد، ایک ہی عقیدے، ایک ہی فکر کے لوگ، سنہ 1945 میں اختلاف آگیا برصغیر منقسم ہونا چاہیے یا برصغیر متحد ہونا چاہیے؟ منقسم ہندوستان یا متحدہ ہندوستان؟ اس پہ اختلاف آگیا۔ ایک نکتے پہ اختلاف اور بالآخر پاکستان بن گیا۔ منقسم ہندوستان کا فکر کامیاب ہوگیا، ہندوستان منقسم ہوگیا۔ ان بڑوں کی سوچ کو دیکھے، ان کی عظمت کو دیکھے، ذرا اس سطح پہ جاکر سوچو کیا اس کے بعد ہندوستان میں جمعیت علماء اسلام کا وجود رہا؟ کیا اس کے بعد پاکستان میں جمعیت علماء ہند کا وجود رہا، تو جب اس وقت میرے اکابر نے مجھے بتا دیا کہ ایک نکتے پہ اختلاف تھا ختم ہوگئی بات، اب ہندوستان ہوگا تو وہاں جمعیت علماء ہند ہوگی اپنی ملک کی خدمت کرے اور یہاں پر جمعیت علماء اسلام ہوگی، ساری جمعیت علماء ہند جمعیت علماء اسلام میں شامل ہوگئی اور پاکستان کے خدمت کی عزم کی۔ تو تسلسل باقی تو برقرار رہا، یہ ہم چھوٹوں کی چیزیں ہوتی ہے جو چھوٹے چھوٹے معاملات پر سوچ کر ایک دوسرے کو تقسیم کردیتے ہیں۔ ہم نے کیوں اسے برقرار رکھا ہے تو مختلف مکاتب فکر کے اندر اختلاف کا قائل ہوں لیکن اختلاف کے پیچھے رویے تو ہمارے اختیار میں ہے، شاید اختلاف ختم کرنا ہمارے اختیار میں نہ ہو لیکن اختلاف کو نرم رکھنا تو ہمارے اختیار میں ہے۔ ہم اپنے غلط اجتہاد کی بنیاد پر رویوں میں اتنی سختی لے آتے ہیں کہ آپ کی جو معروف جدوجہد کے راستے ہوتے ہیں وہ تو متاثر ہو جاتے ہیں، معطل ہوجاتے ہیں لیکن آپ کے پلے تو کچھ نہیں پڑتا۔ سوائے جمعیت علماء کو کمزور کرنے کا اور کیا نتیجہ نکلتا ہے؟
الحَمْدُ ِلله آج جمعیت علماء پاکستان کی ایک بھرپور سیاسی قوت ہے۔ اور میں نے پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ میں تمام پارلیمنٹ کے اراکین سے کہنا چاہتا ہوں کہ کوئی ممبر پارلیمنٹ میری طرف انگلی سے اشارہ کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش نہ کرے کہ میں کسی مکتب فکر سے متعلق ہوں یا میں کسی ایک مکتب فکر کی نمائندگی کررہا ہوں، سن لو پوری پارلیمنٹ سن لے فضل الرحمٰن جب اس ایوان میں کھڑا ہوگا تو وہ اسلام کا نمائندہ ہوگا، امت اسلام کا نمائندہ ہوگا اور تمام مکاتب فکر کا نمائندہ ہوگا (نعرہ تکبیر اللہ اکبر)۔
آج امریکہ اور مغربی دنیا جس طرح آپ کو لے جارہی ہے، جس سمت میں آپ کو لے جارہی ہے، جس طرح امت مسلمہ کو لے کر جارہی ہے، شاید آپ سوچ بھی نہیں سکتے کہ وہ آپ کو کہاں لے جارہے ہیں۔ اور ہمارے داخلی اختلافات، داخلی بکھیڑوں کو جس طرح استعمال کرکے ہمیں آپس میں الجھا دیتے ہیں، اور ہم ایک دوسرے میں مصروف ہوکر ان کے لیے راستے چھوڑتے ہیں، اس کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے ان کا تعاؤن کررہے ہوتے ہیں، کبھی اس پر ہماری نظر ہے۔ ہم لوگ جذباتی ہوجاتے ہیں کس بات پر جذباتی ہورہے ہیں۔ اسلام اعتدال کا نام ہے۔ آج جس دور سے ہم گزر رہے ہیں یہ امت مسلمہ اور بالخصوص مذہبی دنیا کی ابتلا اور آزمائش کا دور ہے۔ سارے تانے بانے آپ کے لیے بُنے جارہے ہیں۔ آپ کو اس کا احساس ہی نہیں ہورہا ہے۔ ہمارے مدرسوں میں جب چار مولوی آپس میں بیٹھتے ہیں تو جمعیت کی غیبت کے علاوہ تو اور کوئی مشغلہ نہیں ہوتا، اور یہ ننگے تڑنگے جو ملک میں گھوم پھر رہے ہیں ان کی تعریفیں کرتے ہیں۔ کہاں کھڑے ہیں آپ، کچھ احساس کرے۔ کتنے بڑے چیلنجوں کا آپ کو سامنا ہے، کتنی بڑی نسبت ہے آپ کی، کتنی بڑی تاریخ ہے، کتنا بڑا تسلسل ہے۔ مولانا حافظ صاحب نے فرمایا صرف حدیث کی سند نہیں سیاست کی بھی سند ہوتی ہے۔
میرے محترم دوستو! اسلام ایک سیاسی نظام ہے۔ اب طے آپ نے کرنا ہے ذاتی زندگی میں، میں خاندانی زندگی میں، گھریلو زندگی میں اگر اپ نے اس حد تک محدود رہنا ہے تو پھر ظاہر ہے ترجیح اول عبادات ہیں، ترجیح اول آپ کا عقیدہ ہے، توحید ہے۔ لیکن اگر آپ نے اجتماعی زندگی کی طرف جانا ہے اور واقعی آپ سمجھتے ہیں کہ انسان کو اللہ نے مدد طبع پیدا کیا ہے، مل جل کر رہنے کی اللہ نے اس کو جبلت عطا کی ہے، آبادیوں میں رہتا ہے، شہروں میں رہتا ہے، محلوں میں رہتا ہے، اور اس حوالے سے بھی اس کا ایک نظام ہے۔ تو جس وقت آپ اجتماعی زندگی کی طرف آئیں گے تو پھر آپ کی ترجیح کیا ہے؟ پھر ترجیح یا امن ہے اور یا معشیت ہے۔
اب ہم لوگوں سٹیجوں پر تو کہتے ہیں کہ اسلامی حکومت لے کر آئینگے، خلافت راشدہ لائیں گے، ایوان صدر پر اسلام کا جھنڈا لہرائیں گے۔ اتنی بڑی طاقت بننا چاہتے ہیں! اور سٹیج پر دعویٰ کرکے دنیا کو فتح کرنا چاہتے ہیں۔ سٹیج پر کھڑے ہوکر دعوؤں سے دنیا فتح نہیں ہوگی، اس کے لیے طاقت بننا پڑے گا۔ اور آپ سے اسلام کیا تقاضا کرتا ہے اگر تمام انسانیت کا نظام ہے اور امر اجتماعی ہے اور نظامِ اجتماعی ہے، تو پھر اسلام کا تقاضا آپ سے اقتدار کا ہے۔ جناب رسول اللہﷺ نے فرمایا الاسلام والسلطان توأمان ( الحدیث ) اسلام اور اس کا اقتدار یہ جڑواں ہیں ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوسکتے ایک دوسرے سے، الاسلام اس والسلطان حارث ( الحدیث ) نظام زندگی کا اور نظام اجتماعی کا بنیاد اسلام ہے اور بادشاہت اس نظام کا تحفظ کرتی ہے، وما لا أس له يهدم وما لا حارث له ضائع ( الحدیث ) جس چیز کی بنیاد نہ ہو وہ عمارت گر جاتی ہے اور جس عمارت کی بنیاد بھلا مظبوط ہو لیکن اس کا نگران و نگہبان موجود نہیں ہے وہ ضائع ہوجاتا ہے، عمارت بے کار ہوجاتی ہے، گل سڑ جاتی ہے۔ اسلام کی اس تصور کو کون زندہ کرے گا؟ ہمارے حضرات نے تو مدرسہ بنایا، مدرسہ سے آگے بڑھے، آگے بڑھے اور جمعیت علماء بنئی، تحریک خلافت چلائی، پورے ہندوستان کے آزادی کی تحریکیں چلائی، بڑی جدوجہد پر محیط ان کی ایک تاریخ ہے۔ اور حضرت حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحبؒ وہ تو فرماتے ہیں کہ تین چیزیں ہیں اسلام کی موالید ہے موالید ثلاثہ شریعت، طریقت، سیاست، یہ تین چیزیں اکھٹی ہوں گی تو اسلام بنے گا۔ شریعت راستہ ہے، راستہ ہی نہیں ہوگا تو چلو گے کس طرف؟ طریقت راستے پر چلنے کے اصول سکھاتا ہے۔ راستہ ہو اور چلنے کا ڈھنگ نہ آئے تو سفر کیسے کروگے؟ اور سیاست جب راستے میں مشکلات آتی ہے تو مشکلات کو دور کرنے کا نام سیاست ہے۔ اب ظاہر ہے آپ ایک راستے پر جارہے ہیں اور مشکل مرحلہ آگیا، پتھریلی زمین آگئی، جھاڑیاں آگئی، تو پھر وہاں تو کچھ کلہاڑی، ڈنڈا، ہتھوڑا وغیرہ لینا پڑتا ہے، تو جب آپ استعمال کریں گے تو وہاں سے شور بھی آئے گا، اس لیے سیاست کے ماحول میں ذرا شور و غوغا ہوتا رہتا ہے۔ تو آپ راستے کے مشکلات دور کریں گے تو شور و غوغا تو ہوگا۔ اور فرمایا یہ تین چیزیں ہوں گی تو اعتدال ہوگا۔ اگر صرف شریعت ہے اور طریقت و سیاست معاون نہیں ہے تو پھر نفس شریعت سے وابستہ ہوجانے والا آدمی وہ تنگ نظر ہوا کرتا ہے۔ وہ پھر بند حجرے کا مُلا ہوتا ہے انتہائی تنگ نظر ہوتا ہے۔ دوسری بات ماننے کو تیار نہیں ہوتا۔ اور اگر صرف طریقت ہو شریعت اور سیاست معاون نہ ہو، تو پیر لوگ جو ہے نا مریدوں کو حجرے کی طرف کھینچتے ہیں۔ تو یہ جو بند کمروں کی طرف مریدوں کو کھینچنا اور بند کردینا یہ رہبانیت ہے اسلام کا مزاج نہیں ہے۔ اسلام کا مزاج گھر سے نکل کر محلے میں، محلے سے نکل کر شہر میں، شہر سے نکل کر صحراؤں میں، دریاوں میں، جنگلوں میں، پہاڑوں میں وہاں مثلت ہوجانا ہے۔ وَ لَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِیْۤ اٰدَمَ وَ حَمَلْنٰهُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ رَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَ فَضَّلْنٰهُمْ عَلٰى كَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا۠ ( القرآن ) یہ مزاج ہے اسلام کا، لہٰذا صرف طریقت اور پیری مریدی یہ آپ کو بند حجروں کی طرف کھینچتی ہے جو رہبانیت کی علامت ہے یہ اسلام کی مزاج سے مطابقت نہیں رکھتی۔ اور اگر سیاست محضہ ہو اور طریقت اور شریعت اس کے ہمراہ نہ ہو تو پھر تکبر اور نخوت پیدا کرتی ہے۔ مرے سیاستدانوں کو دیکھو سب متکبر ہوتے ہیں، مزاج میں تکبر آجاتا ہے ہم بڑے لوگ ہیں، تگڑے لوگ ہیں، یہ ہیں وہ ہیں، اقتدار والے ہیں۔
اس اصول کی بنیاد پر ہمیں اپنے اندر جامعیت پیدا کرنی ہے، اس پہ جوڑ پیدا کرنا ہے۔ سو مدرسہ ہو، جماعت ہو، خانقاہ ہو، ان میں یکجانیت ہوگی تو تحریک مکمل ہوگی۔
آج سارا حملہ آپ کے مدرسے پہ ہورہا ہے، کیوں کہ مدرسہ بنیاد و آثاث مہیا کرتا ہے۔ اس مدرسے کو بچانا ہے، اس علم کو بچانا ہے، اس اثاثے کو بچانا ہے۔ تمام عالمی سطح پر سازشیں اس مدرسہ کے خلاف ہورہی ہے۔ اس نے کیا جرم کیا ہے؟ اور میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ انسانیت کی بھلائی کے لیے وقت کے تقاضوں کے مطابق انسانی حقوق کے لیے جب مدرسہ بات کرے گا، جب مذہبی جماعت بات کرے گی تو اس کو دیوار سے لگایا جائے گا۔ اس کی آواز کو دبایا جائے گا۔ آل پارٹیز کانفرنس ہوتی ہے آو دہشت گردی کے خلاف اکھٹے ہوتے ہیں۔ ہم دھڑلے سے جاکر وہاں بیٹھ جاتے ہیں اور کہتے ہیں بسم اللہ دہشت گردی جرم ہے، ظلم ہے، ہمیں قابل قبول نہیں ہے۔ عفریت ہے اس کو ختم کرے ہم ایک پیج پر ہے۔ لیکن جب قانون بنایا جاتا ہے اور وہ اسمبلی میں لایا جاتا ہے تو پھر دہشت گردی وہ ہے کہ جو فرد یا گروہ ریاست کے خلاف اسلحہ اٹھائے اور مذہب اور فرقے کا نام لے یہ ڈم بیچ میں ڈال کر آپ مجھے بتائے کہ انہوں نے دہشت گردی کے لفظ کو متنازعہ بنایا یا نہیں بنایا؟ اب اگر مذہب اور فرقوں والے کہے کہ ہم ریاست کے خلاف اسلحہ اٹھانے کو جائز سمجھتے ہیں یا یہ ہم فرض سمجھتے ہیں، یا آو ملک کے اندر اسلحہ اُٹھائیں، تب تو آپ اس قسم کی باتیں کرے۔ لیکن جب تمام مدارس، تمام تنظیمات، تمام دینی جماعتیں بیک آواز آپ کے ساتھ دہشت گردی کے عنوان پر ایک ہے اس ایک پلیٹ فارم کو تقسیم کس نے کیا، تمہارے عمل نے کیا یا ہمارے عمل نے کیا۔
آج لفظ تشدد استعمال ہورہا ہے، گھریلو تشدد، پنجاب اسمبلی نے بھی ماشاءاللہ ایک قانون پاس کیا ہے حقوق نسوان، عورتوں کو بچانے والا، اب آپ مجھے بتائے پہلے تو مولوی بیچارہ بڑا بدنام تھا کہ یہ گھر میں بڑا نرم ہے۔ ہر ایک مولوی کی طرف انگلی کرکے کہتے کہ یہ گھر میں بڑا نرم ہے بیوی کے سامنے کچھ بولنے والا نہیں ہے۔ آج تم ہمیں کہتے ہو کہ ہم گھر میں تشدد کے قائل ہیں، تمہارے اوپر تف ہے۔ کسی زمانے میں تم نے نہیں مشہور کیا تھا کہ ”سو مولواڑے آدھی رن“ آج وہ سو مولواڑے آدھی رن اتنا خطرناک ہوگیا کہ ملک کو دہشت گردی کے بھینٹ چڑھا سکتا ہے اور دنیا کو الٹ پلٹ کرسکتا ہے،ہے جھوٹ بولتے ہو کم بختو، کل تک کچھ مولوی کے بارے میں کہتے رہے اور آج کیا کہہ رہے ہو۔ ایجنڈہ تبدیل ہوگیا پہلے مولویوں کو کمزور کرنا، معاشرے میں ان کی حیثیت کو ختم کرنا، اس کے وقار کو ختم کرنا، اس کی عزت و ناموس کو ختم کرنا، معاشرے میں اس کو کمی کے مقام پر لانے کے لیے تم نے وہ اصطلاحات استعمال کی، آج تم اس کو معاشرے میں مجرم کے محاذ پر لاکے کھڑا کررہے ہو، مجرم کے حیثیت میں آپ اس کو متعارف کرارہے ہیں۔ یہ ہیں تمہارے ایجنڈے جو تم مذہب اور مذہبی لوگوں کے بارے میں کرنا چاہتے ہو۔
اب تشدد کی کون حمایت کرسکتا ہے، تشدد تو مضموم چیز ہے ناپسندیدہ ہے، جرم ہے۔ اب میں قرآن کا طالب علم ہوں میں اگر مذہب کی بات کرتا ہوں تو قرآن کے حوالے سے کروں گا اور میرا قرآن کہتا ہے، وعاشروهن بالمعروف ( القرآن ) عورتوں کے ساتھ انتہائی شائستگی کے ساتھ رہن سہن اختیار کیا کرو۔ اب میرے قرآن کا روح خاندانی زندگی کے بارے میں کیا کہتا ہے۔ میرا قرآن تو خاندانی زندگی کے بارے میں یہ سبق دینا چاہتا ہے درس دینا چاہتا ہے، وَ مِنْ اٰیٰتِهٖۤ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْۤا اِلَیْهَا وَ جَعَلَ بَیْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّ رَحْمَةًؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ ( القرآن ) وہ تو میاں بیوی کے درمیان باہمی سکون و تسکین، آپس میں محبت و رحمت کی بات کرتا ہے۔ تو یہ آپ نے قرآن و دین کو کہاں پہ لاکے کھڑا کردیا۔ اگر گھریلوں ناچاقیاں پیدا ہوجاتی ہے تو شریعت پہلے مصالحت کا مرحلہ اپناتا ہے، فَٱبْعَثُواْ حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِۦ وَحَكَمًا مِّنْ أَهْلِهَآ إِن يُرِيدَآ إِصْلَٰحًا ( القرآن ) آپ کے قانون میں یہ مراحل ہے؟ آپ کے قانون میں یہ تاثر ہے؟ تم تو تشدد اور تادیب کے درمیان فرق ہی نہیں جانتے، اور فرق کیسے جانے؟ اپنے دماغ سے سوچیں گے تو پہچانے گے۔
جو قانون یہاں پاس ہورہے ہیں میں آپ حضرات کو بتانا چاہتا ہوں اہل پنجاب کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کے صوبے میں جو قانون آیا ہے یہ قانون 1998 میں ساؤتھ افریقہ کے اسمبلی نے پاس کیا، یہ قانون 2005 میں بھارتی پارلیمنٹ نے پاس کیا، یہ قانون 2012 میں پاکستان کے قومی اسمبلی میں آیا، جمعیت علماء سامنے کھڑی ہوگئی، لڑتی رہی، قانون پاس ہونے نہیں دیا۔ اور آج جب دیکھا کہ پنجاب اسمبلی واحد اسمبلی ہے جہاں علماء کا نام نہیں ہے اس وجہ سے جمعیت علماء کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھا کر یہاں سے وہی قانون پاس کرالیا۔ پوری دنیا میں گھوم رہا ہے ہر جگہ پاس ہورہا ہے۔
شجاع آباد والوں ویسے تو آجکل آپ میری تعریفیں کررہے ہیں کہ مولوی صاحب نے بڑا اچھا سٹینڈ لیا ہے لیکن یاد رکھو اسمبلیوں میں کبھی مولویوں کو نہ بھیج دینا، کبھی وہاں جمعیت علماء کو نمائندگی دے کر غلطی نہ کرنا، جمعیت علماء نہیں ہوگی تو پھر آپ کا یہی حشر ہوگا۔ ان چیزوں پہ آپ لوگ ذرا سوچے، کن نعروں کے پیچھے لگے ہوئے ہو۔ جن کے ڈانڈے کہاں سے ملے ہوئے ہیں ابھی جو یہ پانامہ لیکس آیا ہے پتہ نہیں پانامہ ہے یا پاجامہ لیک ہوگیا ہے۔ مجھ سے صحافی پوچھتے ہیں یار مجھے اس کا جواب نہیں آتا، میں غریب آدمی ہوں مجھے اپنے غربت میں رہنے دو۔ یہ دنیا بھر کے دولت مندوں کا اک ادارہ ہے۔ یہ وہ ادارہ ہے سنو یہ وہ ادارہ ہے جو آپ کے ملک میں معین قریشی کو بلاکر وزیراعظم بناتے ہیں اور وزیراعظم سے استعفیٰ دے کر واپس چلے جاتے ہیں کوئی اس کا بال بھی بھیگا نہیں کرسکتا اور آپ پر حکومت کرتا ہے۔
یہ وہ ادارہ ہے جو پاکستان کے اٹھارہ بیس کروڑ عوام کے اوپر شوکت عزیز کو بھیج کر پہلے اس کو وزیر خزانہ بناتے ہیں پھر اس کو وزیراعظم بناتے ہیں، وزیراعظم ہوکر اگلا ووٹ بھی استعمال نہیں کرتا اور واپس چلا جاتا ہے کوٸی اس کا بال بھی بھیگا کرکے دکھائے۔ ان عالمی اداروں نے ہمیں غلام بنا رکھا ہے۔
میرے محترم دوستو! میں ان لوگوں کی سیاست نہیں کرتا جن کے پاس نظریہ نہ ہو، جن کے پاس منشور نہیں، جس کے پاس پروگرام نہیں، جس کے پاس مستقبل کا کوئی ویژن نہیں، حادثات کو اپنے سیاسی عروج کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ بڑے یتیم لوگ ہیں، بڑے مسکین لوگ ہیں ان کے پلے کچھ ہے ہی نہیں، تو اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ کوئی حادثہ ہوجائے اور ہم اس کو اٹھا کے اپنے سیاسی قد کاٹھ بڑھانے کے لیے اور اپنے سیاسی عروج حاصل کرنے کے لیے اس کا استعمال کرے۔ اس کے علاوہ ان کے پاس کیا ہے۔ ان کا لب و لہجہ سیاسی نہیں ہے۔ ان کے پاس سیاسی لینگویج نہیں ہے۔ ان کے پاس پولیٹیکل ٹرمنالوجی نہیں ہے۔ لیکن جو لوگ آپ کو ایک نظریہ دیتے ہیں، جب دنیا کہتی ہے کہ قرآن نہیں تو آپ بھی کہتے ہیں قرآن نہیں، جب دنیا کہتی ہے کہ اسلام بس ایسی نمازوں کی چیز ہے اس کو چھوڑو تو آپ بھی کہتے ہیں جی ٹھیک ہے کیا حیثیت ہے۔ جاگیردار، سرمایہ دار، علاقے کا وڈیرہ جس نے آپ کی عزت نوچی ہوئی ہے، جس نے آپ کی عزتوں کے سروں سے جو ڈوپٹے نوچے ہوئے ہیں، وہ لوگ آپ کے لیڈر بنتے ہیں اور آپ کے اسمبلی میں آپ کی نمائندگی کرتے ہیں۔
ہم کہتے ہیں شراب پر پابندی لگاؤ، کہتے ہیں شراب پر تو پابندی ہے لیکن یہ ہم کہتے ہیں کہ غیر مسلموں کے لیے استثنیٰ ہونا چاہیے، وہ غیر مسلم عوام میں پھٹ پڑے ہیں کہ اب تم پاکستان کے لوگ ہمیں شرابی کہتے ہو، ہم شرابی نہیں ہے۔ اور تمہارے سارے بڑے لوگ حکمران، سیاستدان شراب پیتے ہیں، شراب کا کاروبار کرتے ہیں اور ہمارے نام پہ کرتے ہو۔ آپ خود اندازہ لگائے یہ قانون سازیاں ایک خاص کلاس کے مراعات کے لیے ہوتی ہے۔ بڑے لوگوں کی کلاس کے لیے مراعات مانگتے ہیں۔
اور میں بات اور بھی کہہ دینا چاہتا ہوں ہمارے ملک میں سیاست ہوتی ہے بڑی مروجہ قسم کی سیاست، اس کو ہم کہتے ہیں جمہوریت اور جمہوریت میں اپوزیشن اور جمہوریت میں حکومت اور یہ وہ، ایک بات ذہن میں رکھے ہماری سیاست کا مدار، وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ( القرآن ) پر ہے۔ ہم اپوزیشن میں ہوتے ہیں اگر حکومت کوئی ٹھیک کام کرتی ہے ہم دھڑلے سے کہتے ہیں آپ ٹھیک کام کررہے ہیں۔ اگر حکومت غلط کام کرتی ہے تو پھر ہم حجم کو دیکھتے ہیں چھوٹے حجم کی غلطی ہے تو اتنا ہتھیار اٹھا لیتے ہیں، بڑی حجم کی ہے تو پھر بڑے اقدام کے ساتھ اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ یہ نہیں کہ ادھر سے کوئی چیونٹی بھی نکلتی ہے تو ہم مقابلے میں ہاتھی کو لاکر کھڑا کر دیتے ہیں۔ حکومت میں ہوتے ہیں تو بھی ہماری ذمہ داری ہوتی ہے، ہماری کوئی شناخت ختم نہیں ہوگئی۔ ہم دو متعاحد قسم کے لوگ ہیں ہم نے ایک پارٹی سے معاہدہ کیا ہے اس کے اپنی نظریاتی شناخت ہے ہماری اپنی نظریاتی شناخت ہے۔ اگر میں اقتدار میں ہو اور غلط چیز آئے گی ہم اختلاف کریں گے۔ ہم پابند نہیں ہے کہ غلط چیزوں کی حمایت کرے۔ اور پھر جب ہم کہتے ہیں کہ آپ نے غلط کیوں کیا؟ تو پہلا مرحلہ ان کو سمجھانے کا ہوتا ہے، گھر میں بھی اختلاف آگئے تو پہلا مرحلہ، فعظوھن ( القرآن ) کا ہے، علیحدگی دوسرے مرحلے میں ہوتی ہے۔ تو قرآن نے جہاں جہاں اصول دیے ہیں اسی ترتیب سے ہمیں جانا چاہیے۔ ہم نے اس پہ احتجاج کیا تمام مذہبی جماعتوں کو بلایا، ان سے مشاورت کی، پھر لاہور میں آل پارٹیز کی، پھر لاہور میں کنونشن کیا۔ اور حکومت پنجاب نے تسلیم کرلیا کہ ہم اس رائے کو جو ہمارے قانون کے خلاف منظر عام پر آگئی ہے اب اس کو نظرانداز نہیں کرسکتے۔ چنانچہ ہم نے کہا ہم بات کرنا چاہتے ہیں، وزیراعلی صاحب نے ہم سب کو بلایا، ہماری ٹیم گئی ان کی بھی ٹیم آئی ہوئی تھی۔ بڑے ادب و احترام سے بات کرنے لگے کہ ہم سے کوئی غلطی ہوئی ہے، ہم ان کی اصلاح کے لیے تیار ہیں، آپ اس قانون کی نشاندہی کرلے کہاں غلطی ہوئی ہے، کہاں کوئی بات قرآن و سنت کے خلاف ہیں تاکہ ہم اس کو ٹھیک کرلے۔ میں نے کہا جناب بہت شکریہ بڑی مہربانی آپ نے بلایا ہے لیکن جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کہاں پر غلطی ہوئی تاکہ ہم اس کی نشاندہی کرلے، اول تا آخر آپ کا قانون غلط ہے اور ہم یکسر اس کو مسترد کررہے ہیں آگے آپ فرمائے (نعرہ تکبیر اللہ اکبر)، لہٰذا کسی ایک نکتے یا کسی ایک شق یا اس کے کسی ایک ارٹیکل پر بات نہیں ہوگی ہم سو فیصد اس کو مسترد کرچکے ہیں، سراسر قرآن و سنت کے خلاف ہیں۔ پھر بات چیت ہوئی ہم نے اپنا موقف واضح کیا، ہم نے ان کو جتلایا، کچھ علماء کرام بھی آئے ہوئے تھے بڑے انتہائی محترم علماء کرام تھے، میں ان کی دل سے قدر کرتا ہوں۔ تو میں نے کہا جناب آپ نے یہ علمائے کرام بلائے ہیں ماشاءاللہ بڑے معزز لوگ ہیں ہمارے دلوں میں وہ قابل احترام ہے، لیکن اس لیے بلایا ہے کہ آپ ہمیں یہ تاثر دے رہے ہیں کہ کچھ علماء میرے ساتھ ہیں کچھ علماء آپ کے ساتھ ہیں، میں نے کہا میں ایک ایک عالم دین سے الگ الگ پوچھتا ہوں فلاں حضرت فلاں حضرت فلاں حضرت بتاؤ تم ان وزیر اعلی کی حمایت کرسکتے ہو، بتاو اس موقف میں تم ہماری مخالفت کرسکتے ہو، مجال ہے کہ ان کے بلائے ہوئے علماء کرام یا ان کی حمایت کرسکتے یا ہماری مخالفت کرسکتے۔ اور پھر کہا جی پورے بل پہ بات کرینگے، پھر پورے بل پہ بات کرو تو ٹھیک ہے۔
یہ ہوتی ہے کہ آپ ملک میں دنگا فساد برپا نہیں کرنا چاہتے، جو خرابات آگئی ہے اس کو آپ ٹھیک کرنا چاہتے ہیں۔ اس میں آپ سنجیدہ ہیں۔ وفاق پہ صورتحال آئے گی اس پہ بات کریں گے لیکن جتنی ہمارے بساط کے مطابق ہو۔ میں پھر ایک بات آپ سے کہنا چاہتا ہوں آپ پنجاب والوں سے کہنا چاہتا ہوں، کل آپ مجھ سے پھر پوچھیں گے مولوی صاحب پھر آپ نے کیا کیا، تو میں پھر آپ سے کہونگا کہ آپ نے مجھے کتنا ووٹ دیا ہے، بتاؤ کتنا ووٹ آپ نے دیا ہے، کیا طاقت دی ہے میری طاقت اسلحہ نہیں ہے، میری طاقت ڈنڈا نہیں ہے، میری طاقت سیاسی قوت ہے، میری طاقت پارلیمانی قوت ہے، میری طاقت ووٹ کی قوت ہے۔ جب میں آپ کی سرزمین پر آپ کے عقیدے کی جنگ لڑوں گا تو پھر میرا آپ پر حق ہوگا کہ آپ وہاں پر میری طاقت کو بڑھائے، آپ اس کے اوپر کام کرے۔ آپ طاقت بھی نہیں دے رہے، آپ ووٹ بھی نہیں دے رہے، آپ مجھے اسمبلی میں نمائندگی بھی نہیں دے رہے اور پھر آپ مجھ سے توقع رکھتے ہیں کہ میں ملک میں انقلاب لاو بھئی اس طرح تو نہیں ہوگا۔ پھر تو تدریجی عمل ہے، وَ لْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ ( القرآن ) تمہارے اندر ایک جماعت ہونی چاہیے، شروع کہاں سے کرے، یَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَیْرِ ( القرآن )، شروع دعوت سے کرے، انتہا کیا ہو، یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِؕ ( القرآن )، امر بالمعروف و نہی عن المنکر بھی ہم نے اس کو ایک عاجزانہ گفتگو بنادیا ہے یااللہ مجھے حیرت ہوتی ہے آپ نے معروف کا لفظ استعمال کیا ہے، آپ نے منکر کا لفظ استعمال کیا ہے، آپ نے معروف کے لیے امر کا لفظ استعمال کیا ہے، آپ نے منکر کے لیے نہی کا لفظ استعمال کیا ہے، یہ امر اور نہی کے دو الفاظ اگر قرآن کے معیار پر اور اس میزان پر ہم پرکھے گے تو کیا اس کا معنی التجا کرنا ہوگا؟ درخواست کرنا ہوگا، وعظ و نصیحت کرنی ہوگی۔ پھر امر کا معنی امر ہے اور امر کے برابر کی آپ کے پاس طاقت بھی ہونی چاہیے ورنہ امر بالمعروف کی باتیں مت کیا کرو پھر بس صرف دعوت الخیر کی باتیں کرو بس صرف۔ پھر دعوت کی مرحلے میں ساری زندگی گزارو، آگے مت بڑھو کہ آپ امر بالمعروف کے بھی قابل ہوجائے اور نہی عن المنکر کے بھی قابل ہوجائے۔ وہ طاقت استعمال کرنی پڑے گی، اس طاقت میں آنا ہوگا۔ من راى منكم منكرا فليغيره بيده ( الحدیث ) تو یدہ کی طاقت تو ہو آپ کے اندر، فإن لم يستطع فبلسانه ( الحدیث ) یہ ہے دعوت کا مرحلہ، تو بنیاد آپ کی دعوت سے بنتی ہے۔ اور دعوت کے اصول شریعت اللہ نے آپ کو خود بتلائی ہے، و جادلهم بالتي هي احسن ( القرآن ) دانائی کے ساتھ لوگوں کو بلاؤ، حکمت عملی بناؤ، سٹریٹجی بناؤ۔ کس طرح آپ لوگوں کو اپنے پروگرام کے طرف متوجہ کرسکتے ہیں، اٹریکٹ کرسکتے ہیں۔ شائستہ انداز گفتگو ہو، دلیل کی بنیاد پر بات کرو، ڈنڈے اور بندوق کی بنیاد پر مسئلے حل نہیں کرسکتی، خون بہا سکتی ہے، جذبات کی تسکین کرسکتی ہے، مقاصد کو حاصل نہیں کرسکتی۔ اور پھر کسی بات پہ جھگڑا بھی آجاتا ہے، کسی کو آپ دعوت دے رہے ہیں، کسی کے ساتھ مذاکرہ کررہے ہیں، کسی کے ساتھ بات چیت کررہے ہیں تو جھگڑے بھی آجاتے ہیں تو وہاں بھی فرماتے ہیں ( و جادلهم بالتي هي احسن ) اخشن تو نہیں کہا احسن ہی فرمایا ہے۔ تو شائستہ انداز کے ساتھ مذاکرہ کرو اور معاملات کو طے کرو۔
تو اس اصول کی بنیاد پر اگر ہم شریعت کو سمجھ لے اور شریعت کا کام کرے اور بین الاقوامی دنیا کو ہم اس انداز سے جواب دے کہ پھر ہم اس کا مقابلہ کرسکے۔ ہم صحیح معنوں میں آج بھی آزاد نہیں ہے، ہماری سیاسی پالیسیاں، ہماری انسانی حقوق، اس حوالے سے ہماری قانون سازی آج بین الاقوامی اداروں میں ہوتی ہے۔ جنیوا انسانی حقوق کمیشن میں ہوتی ہے۔ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل میں ہوتی ہے۔ ہماری تمام معشیت اور ہمارا پیسہ، ملک کا میزانیہ وہ آئی ایم ایف طے کرتا ہے، آپ کا ورلڈ بنک طے کرتا ہے، آپ کا ایشین بنک طے کرتا ہے۔ آپ کا لندن اور فرانس گروپ آپ کو قرضے دے رہے ہوتے ہیں، وہ آپ کے نظام کو طے کرتے ہیں۔ اور ابھی تو آپ کی ذرا قلعی کھل بھی گئی کہ پانامہ سے جو صورتحال آئی ہے دنیا کی معشیت کن گروہوں کے ہاتھ میں ہے، کن کمپنیوں کے ہاتھ میں ہے۔ آپ کے لوگ کتنے ہیں اور باہر کے لوگ کتنے ہیں کہ جو اپنا مال وہاں پر سفید کرتے ہیں اور پوری دنیا کو وہ پھر تحفظ بھی فراہم کرتے ہیں۔
ہم لوگ کہاں کھڑے ہیں اس سے مسلہ حل نہیں ہوگا کہ آپ نے صرف شور و غوغا برپا کردیا، جلسے جلوس شروع کردیے کہ وزیراعظم یہ ہے وزیراعظم وہ ہے۔ اور کرلے اگر مجرم ہے تو مجرم کو سزا ملنی چاہیے۔ لیکن یہ معاملہ یہاں پر طے ہونے والا نہیں ہے۔ اور ممکن ہیں کہ جو لوگ شور مچارہے ہیں خود ان کو بھی وہی سے ان کو پانی مل رہا ہے۔ اس کا پانی بھی پانامہ سے آرہا ہو (قہقہہ)۔ یہ ساری باتیں قوم کو سوچنی ہوگی، ہمارے غریب انسانیت کو سوچنی ہوگی، ہمارے مظلوم اور ہمارے غلام انسانیت کو یہ ساری باتیں سوچنی پڑے گی۔
ہم اس محاذ پہ کام کررہے ہیں، لیکن جب طاقت حاصل کرنی ہوتی ہے تو یک لخت حاصل نہیں ہوتی، وَ اَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ ( القرآن ) دشمن کے مقابلے میں طاقت بناتے چلو بناتے چلو، تدریجی عمل ہے اس طاقت کو بناتے بناتے لمبا عرصہ گزر گیا۔ طاقت اس وقت نہیں بنتی جس وقت آپ صرف سٹیج پر دنیا کو فتح کررہے ہوتے ہیں۔ آپ کو پبلک میں اترنا ہوگا، آپ کو محلے میں جانا ہوگا، آپ کو غریب آدمی کے ساتھ اس کے چولہے پر بیٹھ کر بات کرنی ہوگی، آپ کو اس کے حجرے پنچائت میں بات کرنی ہوگی، آپ کو ان کو کنونس کرنا ہوگا۔ اگر علماء اور طلباء یہ ہمت کرلے اور اپنے دیہاتوں میں پھیل جائے اور اپنے مسجدوں میں لوگوں کو یہ پیغام دینا شروع کرے تکلیفیں آئیں گی، آپ کا جاگیردار بات نہیں کرنے دے گا، آپ کا وڈیرہ بات نہیں کرنے دے گا، آپ کا تھانیدار آپ کو بات نہیں کرنے دے گا، آپ کی انتظامیہ آپ کو بات نہیں کرنے دے گی۔ اور آج کے دور میں تو بڑی آسان بات ہے آپ نے تقریر کی ہے اور بڑی اشتعال انگیز کی ہے فلاں دفعہ کے تحت پکڑ لو اور کچھ نہیں فورتھ شیڈول میں ڈال دو۔ یہ حالت ہے جی، پھر ان ساری چیزوں کو عبور کرنا ہوگا، پھر تکلیفیں برداشت کرنی ہوگی، آگے نکلنا ہوگا اگر اسلام واقعی ہمارا مقصد ہے۔ اور اگر اسلام اتنا ہی مقصد ہے کہ خود کچھ نہیں کرنا گھر میں بیٹھے رہنا ہے اور تبصرہ جمعیت پر کرنا ہے کہ جمعیت والوں نے کیا کیا ہے، تم نے کیا کیا ہے، اپنا بھی تو احتساب کرو نا۔
یہ آپ کی جماعت ہے، قوم کی جماعت ہے۔ یہ صرف دیوبندی کی جماعت نہیں ہے۔ یہ حضرات دیوبند نے قوم اور امت اور ملت کے لیے بنائی ہے۔ امت کی یکجہتی کے پروگرام کے تصور سے اس پلیٹ فارم پر تمام انسانیت کو دعوت دو۔ آج کیا وجہ ہے کہ ہم صبح کبھی خیبر پختونخواہ میں حکومت کرتے ہیں اور کبھی حکومت سے محروم ہوتے ہیں تو دھاندلیوں کے ذریعے ہوتے ہیں ایسے نہیں ہوتے۔ وہاں آپ کی ایک حکمران جماعت ہے ان تبادل طاقت ہے، یا آپ کا وزیراعلی ہوتے ہیں لیڈر آف اپوزیشن آپ کا ہے اور بلدیات میں وہاں پر آپ نے ثابت کردیا کہ حکمران پارٹی کے بعد دوسری بڑی پارٹی جمعیت علماء اسلام ابھر کہ آئی ہے۔ بلوچستان میں چاہے الیکشن میں ہمارے ساتھ کیا حشر ہوا لیکن پھر بلدیات میں دوبارہ لوگوں سے رائے لی اور بلوچستان کی سب سے بڑی جماعت جمعیت علماء اسلام بن کر ابھری ہے۔
ہم سندھ اور پنجاب میں نہیں تھے یہ نہیں کہا میں نہیں ہے، نہیں تھے لیکن آج بلدیاتی الیکشن میں صوبہ سندھ میں ہم نے پانچ سو سے زیادہ اراکین منتخب کرکے دیے ہیں۔ اگر ان علاقوں میں جہاں خوانین، نواب، سردار سرکش قسم کے لوگ موجود ہیں اور ایک مولوی ان کو شکست دے سکتا ہے تو آپ کا یہ وڈیرہ، چوھدری تو اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے۔ تم ان سے مرغوب ہو؟ ان کے مقابلے میں یہ کچھ بھی نہیں ہے۔ ان کی دماغوں میں جو فرعونیت اور رعونت ہے یہاں ان کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے۔ لیکن اپنے اندر ہمت پیدا کرو، اسلام کو اس طرح پیش کرو، اگر آپ اسلام کے نماٸندے ہیں تو پھر اسلام کو اس طرح پیش کرو جس طرح اس کو پیش کرنے کا حق ہے۔اور اسی انداز سے ان شاء اللہ العزیز ان مدارس کو بھی تحفظ دینا ہوگا، اپنے نظریے کو اور عقیدے کو تحفظ دینا ہوگا، اس کے اصل حقیقت کو سمجھنا ہوگا، اس کی روح کو سمجھنا ہوگا، اپنی منزل کو سمجھنا ہوگا، اس کی طرف سفر جاری کرنا ہوگا۔ مشکل یہ ہوتی ہے کہ ہم اپنا ایک مصنوعی منزل خود طے کرتے ہیں، ایک تو وہ ہے جو اللہ کی طرف سے ہے کہ اسلام تمہاری منزل ہے، آزادی تمہاری منزل ہے، حقوق انسانی تمہاری منزل ہے۔ ایک وہ منزل ہے جو ہم خود طے کرتے ہیں اور وہ کیا ہے مجھے عہدہ مل جائے تو ٹھیک ورنہ یہی میری منزل ہے اس سے آگے میں آپ کے ساتھ نہیں جاسکتا۔ بلدیات میں کامیابی ہوگئی تو ٹھیک، نہیں ہوئی تو پھر آگے نہیں جانا، منزل ہم نے خود طے کیے ہیں۔ اسمبلی کا ممبر منتخب ہوگیا تو ٹھیک ورنہ اگلے یہ کہ سیاست ہی چھوڑ دو۔ گرنا پڑنا یہ چلتا رہتا ہے، جھپٹ کر پلٹنا پلٹ کر جھپٹنا یہ تو نظام میں ہوتا رہتا ہے۔ اس طریقے سے تو ہمیں چلنا پڑے گا۔
تو یہ چیزیں آپ کے مدنظر ہوگی کہ مقصد حیات کو سمجھ لے، ہاریں گے، گریں گے، کامیابی نہیں ملے گی لیکن میدان میں رہیں گے۔ سب سے پہلے تو آپ اپنا سٹریٹ پاور تو پیدا کرے، معاشرے میں طاقت پیدا کرو تب جاکے اسمبلی میں جاسکو گے۔ لیکن یہ ایک دن میں حاصل نہیں ہوگا ایک جدوجہد کے نتیجے میں ہوگا۔
تو یہ چند گزارشات آج اس مرحلے پہ مجھے موقع ملا ہے، کافی عرصہ بعد ملا ہے، آپ کی سماں خراشی میں نے کی ہے، کچھ گستاخانہ انداز بھی میں نے اختیار کیے اس کے لیے معذرت خواہ بھی ہوں۔ لیکن اپنا ماحول ہے اپنے لوگوں سے شکایت بھی ہوتی ہے گلہ بھی ہوتا ہے اور اپنے لوگوں کے ساتھ آدمی کھل کر بھی بات کرتا ہے۔
اللہ تعالی ہمارے مستقبل کو روشن فرمائے، اسلام کو ایک کامیاب اور فاتح مذہب کی صورت میں ہمیں دکھائے، امت مسلمہ کو عزت و عروج عطا فرمائے۔
واخر دعوان ان الحمد للہ رب العالمین
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
تصحیح: #محمدریاض
ممبرز ٹیم جے یو آئی سوات
#TeamJuiSwat .
ایک تبصرہ شائع کریں