05 دسمبر 2021
خطبہ مسنونہ کے بعد
صدر وفاق حضرت الشیخ مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ، حضرت الاستاد مولانا امداد اللّٰہ صاحب دامت برکاتہم العالیہ، سٹیج پر موجود میرے تمام اکابر، علمائے کرام، معزیزین علاقہ اور طلباء عزیز جہاں میں اِس مبارک اور روحانی اجتماع میں اپنے شرکت کو سعادت سمجھتا ہوں اور اِس کے لیے خصوصی طور پر حضرت مولانا امداد اللّٰہ صاحب کا اور جامعۃ الاسلامیہ بابوزئی کے تمام اساتذہ کرام کا شکر گزار ہوں وہاں جن طلباء نے قرآن کریم حفظ کیا ہے میں اِس عظیم الشان سعادت پر اُنہیں دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
میرے محترم دوستو! وقت کی تنگی کے پیش نظر تفصیلی گفتگو تو نہیں ہوسکتی اور حضرت مولانا محمد تقی عثمانی صاحب نے جس طریقے سے اپنے بیان میں ہمیں قرآن کریم کے رُموز سے آشنا کیا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ وہ ہم سب کے لیے ایک کافی و شافی بیان ہے اور اللّٰہ تعالی ہمیں اسے سمجھنے اور اِس پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ اِس طرح کے اجتماعات جس میں علماء کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہوتی ہے اور علماء کے علاوہ بھی ایک دین دار طبقہ، دین سے محبت کرنے والا طبقہ اس میں موجود ہوتا ہے تو جی ضرور چاہتا ہے کہ اِس اجتماع سے کچھ تفصیلی گفتگو کی جاسکے۔ لیکن چونکہ آپ میں سے بیشتر لوگوں نے عصر کی نماز بھی نہیں پڑی اور مغرب بھی قریب آنے والی ہے، اِس لیے نماز بہت اہم ہے، اور ہماری تقریر اور اُس کو طول دینا نماز کے مقابلے میں اِس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ہمارے اور آپ کے ذمے اللّٰہ رب العزت نے جو ذمہ داری اور مسؤلیت ہمیں دی گئی ہے اُس کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم اُن حالات میں اپنے اُن ذمہ داریوں کو سمجھے۔ قرآن کی تعلیمات، جناب رسول اللّٰہﷺ کے تعلیمات، جن کے یہ مدارس تحفظ نے کی اور اُن کی خدمت کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں دنیا کے لیے آج یہ قابل قبول نہیں ہے۔ مغربی دنیا ہمارے علوم کا بھی خاتمہ کرنا چاہتی ہے، ہمارے تہذیب اور تمدن کا بھی خاتمہ کرنا چاہتی ہے۔ دین انسان کے اندر کی غذا ہے، انسان کے اندر کی قوت ہے اور تہذیب انسان کے ظاہر کا لباس ہے، اُس کے عادات و اطوار ہیں اور اُس کے اقدار ہیں، ہمیں وہ اندر سے بھی کھوکھلا کردینا چاہتے ہیں اور ظاہری طور پر بھی ہمیں بے لباس کرنا چاہتے ہیں۔ اِس جیسی اِس ذمہ داری کی، اُن خدمات کی پشت پر ہمارے اکابر نے مدرسے کو کھڑا کردیا ہے۔ اگر وہ ہماری تہذیب کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں تو بھی اُن کا مقصد یہ کہ مدرسہ ختم کیا جائے، مدرسہ کو کمزور کیا جائے، لیکن یاد رکھے یہ جو پاکستان کے حکمران ہے یہ تو نقلی فرنگی ہے ہم نے تو اصل فرنگی کے ساتھ جنگ لڑی ہے، اُس کے مقابلے کئے ہیں، جام شہادت نوش کئے ہیں، قربانیاں دی ہے تو یہ ہمارے والے یہ کس باغ کے گاجر مولی ہے کہ وہ ہمارے دین کو ختم کرسکیں گے، ہمارے مدارس کو ختم کرسکیں گے، قرآن و حدیث کے اِس سلسلے کو ختم کرسکیں گے۔ ان شاء اللّٰہ اِس محاذ پر ان کا مقابلہ کیا جائے گا۔ اور اللّٰہ رب العزت نے جناب رسول اللّٰہﷺ کی جو ذمہ داری آپ کے حوالے کی ”یا ایھا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک“ اے پیغمبر جو تجھ پر تیرے رب کی طرف سے نازل ہوئی اسے لوگوں تک پہنچاؤ، اللّٰہ کی وحی کو، اللّٰہ کی تعلیمات کو، اللّٰہ کی ہدایات کو انسانیت تک اُسی طرح پہنچانا جس طرح کہ اللّٰہ نے نازل کیا ہے، مانا کہ یہ ایک بہت بڑی امانت ہے جس میں ہمیں زبر زیر کی بھی تبدیلی کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ اُس کے معانی، اُس کے تشریحات جو رسول اللّٰہﷺ نے کردیے وہ کافی ہے۔ جہاں کہی پر اجتہاد کی گنجائش ہے، عقل کی گنجائش ہے اُس پر ہمارے پورے سلف صالحین اور آئمہ مجتہدین نے مکمل طور پر دین کو ہمارے سامنے رکھا ہے ”یآ ایھا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک“ تو یہ تو ایک ذمہ داری ہوئی کہ ہم نے دین کو انسانیت تک پہنچانا ہے۔ لیکن اُس ذمہ داری کی اہمیت اللّٰہ نے جتلائی ”وان لم تفعل فما بلغت رسالت“ اور اگر آپ نے اُس ذمہ داری میں کوئی کوتاہی دکھائی تو پھر مقصد رسالت فوت ہوجائے گا اور اُس سے رسول اللّٰہﷺ کو اِس کی اہمیت کا اندازہ لگ گیا کہ یہ کوئی معمولی کام میرے حوالے نہیں کیا گیا، جتنا میرا مقصد عظیم ہے اتنی ہی اِس کی ذمہ داری عظیم ہے، منصب کے مطابق تقاضہ یہ ہے کہ میں اِس کا حق ادا کروں۔ لیکن اِس میں رکاوٹیں آتی ہے میں کوشش تو کرتا ہوں وقت کے بادشاہوں کا بھی مقابلہ کرلوں گا، آئمہ کفر کا بھی مقابلہ کرلونگا، لیکن وہ طاقتور ہے میری زندگی محفوظ نہیں ہے اور جب انسان کو اپنی جان کا خطرہ درپیش ہوجائے تو پھر وہ ذمہ داری نبھانے میں رکاوٹ بنتا ہے کہ میں محنت تو کرونگا لیکن میری زندگی محفوظ نہیں، تو اللّٰہ رب العزت نے اُس کی بھی ذمہ داری لے لی ”واللہ یعصمک من الناس“ اس کی فکر مت کرے حفاظت کرنے والا تیرا اللّٰہ ہے۔ اور ذمہ داری بھی آپ نے لی، محنت بھی میں کرتا ہوں لیکن اِس کے باوجود مجھے قبول نہیں کیا جارہا ہے، جب قبولیت نہیں ہوتی تو بھی انسان کے اندر ایک مایوسی آتی ہے اور یہ بھی اللّٰہ کی دین کو انسانیت تک پہنچانا اس میں رکاوٹ بن سکتا ہے تو اِس پر بھی اللّٰہ تعالی نے واضح طور پر فرما دیا ”ان اللہ لا یھدی القوم الکافرین“ کہ اللّٰہ کے ہاتھ میں نتیجہ ہے تو وہ اگر کسی کو ہدایت نہیں دینا چاہتا، تو آپ کیا کرسکتے ہیں۔ تو جدوجہد اور محنت ہمارے ذمے ہے اور وہ بھی ہمارے استطاعت کے دائرے کے اندر اندر کہ ”لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا“ تو اللّٰہ نے ذمہ داری بھی ہمیں دے دی اور وہ بھی استطاعت کے اندر اندر اور اُس کے لیے بھی فرمایا کہ نتائج آپ کے ہاتھ میں نہیں ہے، نتائج میرے ہاتھ میں ہے۔
ہمارے اکابر نے ہمارے مدارس، ہماری جمعیت، اُس نے اِنہی تعلیمات کے بنیاد پر اللّٰہ کے دین کی سربلندی، اعلائے کلمۃ اللہ، اِس کی تعلیم و ترویج اور اِس کی تنفیذ کے لیے جو جدوجہد شروع کی ہے ہم اس لیے مایوس نہیں ہونگے کہ ہمارا ایمان ہے کہ نتائج اللّٰہ کے ہاتھ میں ہے ہماری ذمہ جدوجہد اور محنت ہے۔ لہٰذا محنت اور جدوجہد کا یہ سلسلہ آپ کا اور ہمارا قائم و جاری رہے گا، نہ مدارس بند کیے جاسکتے ہیں، نہ جمعیت علماء ختم کی جاسکتی ہے۔ یہ دونوں ہمارے اکابر کی ایک مظبوط سلسلے ہیں اور ان شاء اللّٰہ یہ آج بھی قائم ہے اور قائم رہیں گے۔ اللّٰہ کی طرف ہماری نظر رہنی چاہیے اور اس عظیم الشان اجتماع پر میں آپ کو مبارکباد بھی پیش کرتا ہوں اور جامعہ کا شکر گزار بھی ہوں کہ ہم سب کو، آپ کو اور ہمیں یہ سعادت بخشی کہ اس مبارک علماء کی مجلس میں ہمیں شریک ہونے کی سعادت بخشی۔ اللّٰہ اِس اجتماع کو قبول فرماٸے
واخر دعوانا ان لحمد للہ رب العالمین
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#TeamJuiSwat ۔
ایک تبصرہ شائع کریں