جمعیت علماء اسلام صوبہ خیبر پختونخوا و فاٹا کی مشترکہ مجلسِ عاملہ، شوریٰ ضلعی امراء و نظماء ارکان اسمبلی اور منتخب مئیرز و ناظمین کے اجلاس سے قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا خطاب تحریری صورت میں
یکم جنوری 2022
خطبہ مسنونہ کے بعد
حضرات علمائے کرام، عمائدین محترم، صوبہ خیبر پختونخواہ کے بلدیاتی الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے والے معزز ممبران، میرے بزرگوں، میرے بھائیوں اور دوستو! صوبہ خیبر پختونخواہ کی جمعیت علماء اسلام نے منتخب ممبران کے اعزاز میں اس تقریب کا اہتمام کیا ہے میں بھی تہہ دل سے کامیابی حاصل کرنے والے تمام وہ حضرات جنہوں نے تحصیل مئیر کی حیثیت سے کامیابی حاصل کی ہے یا کونسلر کی حیثیت سے کامیابی حاصل کی ہے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ انتخابات، انتخابی مہم، پولنگ کا دن، ووٹوں کی گنتی اور اس کے نتائج ایک مرحلہ ہوا کرتا ہے جس سے گزرنا پڑتا ہے۔ لیکن جب قوم نے آپ کے اوپر اعتماد کیا اور آپ پر وہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے تو اب قوم کو بھی آپ پر نظر ہوگی اور حکومت ملنے کے بعد جدوجہد کے نتیجے میں، عزت ملنے کے بعد، اختیار ملنے کے بعد اللہ بھی یہی فرماتا ہے کہ فینظر کیف تعملون، پھر اللہ بھی تمہیں دیکھے گا کہ تم کیا کرتے ہو۔ تو امتحان اب شروع ہوگا۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پی ڈی ایم کے اجلاس میں میری رائے یہی تھی کہ بلدیاتی الیکشن کی طرف جانے کی بجائے ہمیں تحریک کی طرف متوجہ رہنا چاہیے۔ تحریک کا اپنا میدان ہوتا ہے الیکشن کا اپنا میدان ہوتا ہے، دونوں کے اپنے تقاضے ہوتے ہے، تحریک الیکشن نہیں اور الیکشن تحریک نہیں۔ تحریک میں ناراضگی، جوش و ولولہ وہ محرک ہوتا ہے۔ الیکشن میں کامیابیاں حاصل کرنے کے بعد خوشیاں اور جشن ہوتے ہیں، خوشیوں اور جشن میں تحریک نہیں چلایا کرتے۔ لیکن جب تمام جماعت کی ایک رائے تھی اور دوسرے جماعتوں کی بھی یہی رائے تھی تو میں نے اپنی رائے ترک کردی۔ اور جو جماعت کی رائے بنی ہم نے اسی کا ساتھ دیا۔ ساتھیوں کو پتہ ہے کہ صوبہ خیبر پختونخواہ کی انتخابی کمپین میں میں خاموش رہا ہوں، لیکن عوام نے اشارہ دے دیا ہے کہ ان ناجائز اور نااہل حکمرانوں کے مقابلے میں ان کا متبادل آپ ہی ہے۔ اب جب لوگوں کی توقعات آپ سے وابستہ ہوگئی ہے صرف ایک تحصیل میں نہیں، صرف ایک یونین کونسل اور ویلج کونسل میں نہیں، صوبے کی سطح پر بھی اور آئندہ مستقبل میں ملکی سطح پر بھی، تو پھر ہمیں اپنی تمام تر توانائیاں قوم کی توقعات پر پورا اترنے کے لیے صَرف کرنی ہوگی۔
اللہ تعالیٰ کامیابی بھی دیتا ہے، دعائیں بھی قبول کرتا ہے لیکن ساتھ ساتھ امتحان بھی لیتا ہے۔ کچھ آزمائشیں بھی آتی ہیں اور ان آزمائشوں کو استقامت کے ساتھ عبور کیا جائے تو پھر اللہ کی نصرت بھی اترتی ہے۔ میں ایک بات، اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے آپ کے سامنے کہنا چاہتا ہوں اتنی لمبی اور طویل عرصے پر محیط تحریکوں میں نشیب و فراز آتے ہے، اتار چڑھاو آتا ہے، لہریں ڈوبتی بھی ہے لہریں ابھرتی بھی ہے، حالات ایک جیسے نہیں رہتے، اس میں آرا کے اندر بھی فرق آجاتے ہیں، فیصلے کرنے میں بھی تشدد، اضطراب آہی جاتا ہے۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ میدان میں لڑنے والے کے دل و دماغ میں یکسوئی برقرار نہیں رہتی۔ لیکن جمعیت علمائے اسلام کی یہ خصوصیت رہی ہے کہ ان تین ساڑھے تین سالوں میں ہم نے جس پالیسی کا آغاز پہلے دن سے کیا، کوئی وحی نہیں اترتی اجتہادی فیصلہ ہوتا ہے، اس میں صحیح کا بھی احتمال ہے اس میں خطا کا بھی احتمال ہے۔ اس سے اختلاف بھی کیا جاسکتا ہے لیکن ہمارے فیصلوں کے ہمارے پالیسیوں کے تسلسل نے ہمارے کارکنوں کے دل و دماغ میں اضطراب پیدا نہیں کیا ہے، کنفیوژن پیدا نہیں کی اور پوری یکسوئی کے ساتھ لڑا ہے اور اسی یکسوئی نے آج قوم کے دلوں میں آپ کے لیے جگہ پیدا کی ہے۔ یہ ایک سبق ہے اس میں ہمیں سوچنا چاہیے۔
ایک مرحلہ ہے جو گزرا ہے آپ کو کامیابی بھی ملی ہے آپ کو ناکامی بھی ملی ہے، جہاں کامیابی ملی ہے وہاں کامیابیوں کے اسباب بھی آپ کے سامنے ہیں۔ وہاں کامیابیوں کے لیے آپ کی بنائی گئی حکمت عملیوں کا، صحیح امیدوار چننے کا، صحیح انتخابی حکمت عملی بنانے کا بھی ایک دخل ہے۔ کیوں تدبیر ہماری ذمہ داری ہے تدبیر سے آگے پھر اللہ کا اختیار ہے۔ تدبیر کا معنی یہ ہے کہ یا اللہ ہم یہاں تک سمجھتے ہیں، ہمارے عقل نے یہاں تک کام کیا، آگے تو ہی بہتر جانتا ہے اب تو ہی ہماری رہنمائی فرما اور ہمیں کامیابی نصیب فرما، کبھی انسان اپنے رائے کو آخری اور حرفی نہ کہے۔ یہ دنیا میں جو ارتقا کا عمل چل رہا ہے ہزار سال پہلے کی سائنس اور آج کی سائنس، ہزار سال پہلے کی سیاست اور آج کی سیاست، اس ارتقائی عمل میں عقل ہی کا دخل ہے نا، تجربات سے سبق حاصل کرتے ہم آگے بڑھتے ہیں نئے نئے فیصلے کرتے ہیں، نئی نئی تدبیریں کرتے ہیں۔ تو آپ کو علم ہوگا کہ جہاں ہم جیتے ہیں وہاں ہماری کونسی کامیاب حکمت عملی تھی۔ لیکن جہاں آپ ہارے ہیں وہاں بھی آپ کو معلوم ہوگا کہ آپ کی کونسی غلط حکمت عملی نے آپ کو شکست سے دوچار کیا۔ ایک تیسری چیز بھی ہے میری باتوں سے مایوس نہ ہونا کہ چوں کہ فیصلہ عوام نے کرنا ہوتا ہے، عوام کی اپنی ترجیحات ہوتی ہے، آپ کی اچھی حکمت عملی کے باوجود ووٹ آپ کے حق میں نہیں پڑا تو یہ اس کی مرضی ہے۔ تو غلط حکمت عملی کی بھی وجوہات تلاش کرنی ہوگی۔ الیکشن آدمی لڑتا ہے تو صرف جیتنے کے لیے نہیں لڑتا اس میں ہارتا بھی ہے۔ لیکن یہ بھی اس کا ایک پہلو ہے کہ آپ نے اس میں جماعتی نظم کا کتنا خیال رکھا ہے۔ میں ساتھیوں کے ساتھ ہنستا ہوں نئے لوگ جماعت میں آتے ہیں۔ ہم بڑے شان و شوکت سے ان کو جماعت میں شامل کرتے ہیں۔ اس کے لیے آنکھیں بچھاتے ہیں، ان کے لیے بانہیں پھیلاتے ہیں، ان کے سروں پر جمعیت کی ٹوپیاں رکھتے ہیں، ان کے گلے میں ہم جمعیت کے مفلر ڈالتے ہیں، انہیں ہم ہار پہناتے ہیں، بہت زبردست آدمی ہے، اتنی بڑی طاقت ہے، علاقے میں اتنا بڑا اثر رسوخ ہے، یہ ہے اور وہ ہے۔ لیکن جب الیکشن آتا ہے نہیں جی یہ کل کا آیا ہوا ہے، میں بڑا پرانا اپ دادا کی وقت سے نظریاتی ہوں یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اس کو ٹکٹ ملے، اب پرسوں ترسوں تو اتنا بڑا اہم تھا ایک دم سے اس کی اہمیت کیسے ختم ہوگئی۔ آپ بھی جب جمعیت میں آئے تو اس کی بھی کوئی ابتدا ہوگی تو اس سے پہلے کیا تھا۔ ہم لوگ بھی اس جماعت کے اندر ہے تو ہماری بھی تو کہی سے ابتدا ہوئی ہوگی تو اس سے پہلے، تو یہ کوئی دلیل ہے کہ کل آئے ہو آپ کا کیا حق پہنچتا ہے۔ تو یہ بھی ایک بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ بعض لوگ جو جماعت میں شامل ہوتے ہیں، نئے نئے شامل ہوتے ہیں یقیناً ان کے ذہن میں ایک مفاد بھی ہوگا، یقیناً ان کی خواہش ہوگی کہ ہمیں سیٹ ملے گی، پھر اس کے بعد ہم جیتیں گے، پھر اس کے بعد ہم ممبر بنے گے، پھر وزیر بنے گے۔ لیکن اگر وہ جماعت میں آجائے، اپنی زندگی جماعت میں گزارے، ان کے گھروں میں نئی نسلیں پیدا ہوں گی، وہ اس گھر میں جمعیت کے جھنڈے دیکھ کر آنکھیں کھولتا ہے، جمعیت کے بینرز گھروں میں ادھر اُدھر دیواوں پہ لٹکے دیکھ کر وہ آنکھیں کھول رہا ہے، اس کو سمجھ آرہی ہے کہ میں جس گھر میں پیدا ہوا ہوں یہ پرچم نبوی کا گھر ہے، یہ جمعیت علما کا گھر ہے۔ پھر وہی نسل کہے گی کہ ہم تو نظریاتی پیداٸشی جمعیت کے ہے، تو اس کا انتظار نہیں کیا جاسکتا۔ ضرور آپ نے کسی کو پیچھے دھکیلنا ہے کہ تم تو لائے گئے ہو آپ کو کیا حق پہنچتا ہے۔ ہم تو آپس میں پھر بھی مسلمان بھائی ہے، دنیا میں دنیاداری چلتی رہتی ہے، کمزوریاں ہمارے اندر بے شمار ہوتی ہے۔ جس وقت آپ کسی کو مفاد پرست کہہ کر پیچھے دھکیلتے ہیں اور کہتے ہیں یہ میرا حق ہے کبھی سوچا ہے کہ اس کے اندر بھی ایک مفاد کی بو آتی ہے۔ اس رویے سے دوسرے کی اخلاص کی نفی کرتے ہوئے کہی اپنے اخلاص کی نفی تو نہیں کررہے۔
جناب رسول اللہﷺ کے ساتھ طاٸف کے لوگوں نے کیا کیا، اور اللہ کا فرشتہ آکر کہتا ہے کہ آپ چاہے تو یہ دونوں طرف کے پہاڑوں کو یکجا کرکے اس پوری آبادی کو مسل دو، آپ نے فرمایا نہیں مجھے ان کی اولادوں سے امید ہے، ان کی آنے والوں نسلوں سے مجھے امید ہے کہ وہ ایمان لائینگے۔ تو اس طریقے سے ایک سفر ہے اور پھر آپ نے تو جمعیت کا صد سالہ منایا ہوا ہے۔ اس سلسلے کے سو سال گزرے ہیں۔ اور اس سو سال سے پہلے کے سو سال برصغیر کی دو سو سالہ تاریخ یہ سارا کا سارا قربانیوں، جدوجہد سے بھری پڑی ہے۔ اور ہمیں آپنے آکابر نے دو چیزیں امانت کے طور پر دی ہے اسلام کا نظریہ اور عقیدہ اور ایک اس نظریے کے لیے کام کرنے کا رویہ، منہج، نظریے میں بھی وسعت ہے، رویوں میں بھی وسعت ہونی چاہیے۔ نظریہ بھی ہمارا آفاقی، عالمگیر اور ہمہ گیر ہے اور ہمارے رویے بھی اس کی ترجمان ہونی چاہیے۔ ایمان کی ظاہری علامت آپ کے اعمال ہوتے ہیں۔ ہر جگہ پہلے اللہ ایمان کا ذکر کرتا ہے پھر اعمال صالحہ کا ذکر کرتا ہے ان الذین امنو وعملو الصلحت، پہلے ایمان عقیدے کا ذکر پھر اعمال صالحہ کا ذکر، ہاں ایک جگہ پر عمل کا ذکر پہلے ہے اور عقیدے کا ذکر بعد میں ہے فلیعمل عملا صالحہ ولا یشرک بعبادة ربہ احد، یہاں پر عمل کا ذکر پہلے ہے اور عقیدے کا ذکر بعد میں ہے۔ عقیدہ کا ذکر بعد میں کہنے کا مطلب کیا ہے اس شرک سے مراد نمائش ہے کہ جو عمل کرو اللہ کے لیے کرو، جب آپ اپنے اس عمل کے لوگوں کے سامنے صرف نمائش کریں گے تو آپ نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرا دیا، تو اس شرک کی بھی اجازت نہیں ہے۔ ہم جو جماعتیں پڑھتے ہیں تو ہر ایک اپنے ساتھ اپنا حساب لگا لے کہ اس جماعت میں اس کے پاس کیا کیا خیالات آتے ہیں۔ وہ جو قرآن پڑھتا ہے تو اس کے دل میں کیا آتا ہے کہ میرا مقتدی سنے میری تعریف کرے۔ میرے پیچھے ایک قاری صاحب کھڑا ہے پتہ نہیں وہ میری ادائیگی کو کس طرح سمجھے گا۔ پھر وہ اللہ کو سناؤ یار، اس حد تک اللہ رب العزت عقیدے کی لحاظ سے بھی توحید اور اعمال کے لحاظ سے بھی توحید کی طرف متوجہ کرتا ہے۔
تو میرے محترم دوستو! اللہ کا دین بہت ہی جامع دین ہے اور اس پورے دین کی اساس عبادت و دیانت ہے۔ اور عبادت و دیانت کا تعلق دل کے ساتھ ہے وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون، وما امرو الا لیعبدو اللہ مخلصین لہ الدین حنفا، ویقیمون الصلواة ویوتون الزکواة وذلک دین القیمۃ، تو عبادت و دیانت یہ دین کی اساس ہے۔ لیکن عبادت و دیانت کے لیے خلوت چاہیے، پرسکون ماحول چاہیے، اطمینان کا ماحول چاہیے۔ تو اگر ہم صرف اپنے آپ کو عبادت تک محدود کرلے تو پھر تو ہمارا دین ایک حجرے اور محراب کے اندر بند ہوجاٸے گا۔ تو پھر اس کے لیے اللہ نے سیاسی میدان بنایا، جس میں فتنوں کے خلاف جنگ بھی ہے، کچھ ہنگامہ خیزی بھی ہے، میدان میں اتر کر کام کرنا ہے۔ تو وہ جو آپ کی بنیادی اساس اللہ کی بندگی اور دیانت اس کی جو تعلیم ہے سیاسی عمل کے ذریعے دنیا میں پھیل جاتی ہے تو دنیا پر اللہ کا ایک نظام آجاتا ہے۔
اور جب آپ دین کا اقتدار چاہتے ہیں تو پھر اس کی سرحدات کی حفاظت کے لیے دفاعی قوت بھی چاہیے۔ لہٰذا عبادت و دیانت، سیاست اور عسکری قوت،دفاعی قوت، یہ تینوں اگرچہ اس کے معیار دین ایک دوسرے سے مختلف ہے لیکن بوجوہ اختلاف مراکز کے اتمام دین سے اللہ کے طرف سے بھیجے گئے تعلیمات و احکامات ہے سو وہ مکمل ہوگٸے ہیں۔ اور اتمام نعمت کی صورت میں یہ تبھی ممکن ہے جب اس دین کا اقتدار بھی ہوگا، اقتدار دین یہ اتمام نعمت ہے۔ ہم اس سے کیوں توجہ ہٹا لیتے ہیں۔ تو دین کو کامل اور مکمل بناو۔ اس دین کی اقتدار کو برپا کرنے کے لیے سیاسی میدان اپنانا ہوگا، ریاست بنانی ہوتی ہے۔ ہم نے یہ ریاست اللہ کے دین کے نام پر بنائی ہے۔ کوئی شخص عبادات و دیانات کا انکار نہیں کرسکتا، کوئی شخص اخلاقیات کا انکار نہیں کرسکتا۔ لیکن اگر ہم اسی اقتدار میں لانے اور اس کے لیے میدان سیاست سجانے کی فکر نہیں کریں گے تو اس معنی یہ ہے کہ ہم دین کو مکمل تسلیم نہیں کررہے، اور دین کو مکمل سمجھتے ہیں لیکن اس کی نعمت کی اتمام کے قائل نہیں ہے، جب کہ اسلام اور دین کی اتمام کی معنی اس کا اقتدار سطوت و سلطنت ہے۔ اس پہلو پہ ہمیں سوچنا چاہیے والذین ان مکنا ھم فی الارض، اقامو الصلٰوۃ وأیتا الزکوۃ ، وامرو باالمعروف ونہی عن المنکر، قرآن کریم نے تو وعظ کا لفظ بھی استعمال کیا ہے، نصیحت کا لفظ بھی شریعت نے استعمال کیا ہے لما تعظو ھم، واعزوھن، قرآن نے استعمال کیے ہیں یا نہیں کی ہے۔ لیکن جب امت کی بات آتی ہے یعنی امر اجتماعی کی بات آتی ہے تو کنتم خیر امت اخرجت للناس تأمرون باالمعروف وتنھون عن المنکر، جب آپ کی اجتماعی قوت کا اللہ پاک ذکر کرتا ہے ولتکم منکم امت یدعون الی الخیر ویأمرون باالمعروف وینہون عن المنکر، دعوت کا ذکر بھی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ دعوت کا میدان الگ ہے اور امر باالمعروف ونہی عن المنکر کا میدان الگ ہے۔ پھر دعوت کے اپنے طریقے ہے ادعو الی سبیل ربک بالحکمہ ولموعظت الحسن وجادلھم بالتی ھی احسن، جب کہ سیاست یہ اجتماع ہے دو جذبات کا لطف کا اور اُنف کا، صرف لطف بدنظمی پیدا کرتا ہے اور صرف اُنف یہ صرف اسلام کی تشدد اور سختی کا چہرہ دکھاتا ہے اس کی مہربانی اور رحمت کا چہرہ ڈھانپ جاتا ہے۔ لہٰذا سیاست میں اعتدال آپ کے لطف اور انف دونوں کا اشتراک ہوگا موقع حکمت کے تحت کبھی لطف کی ضرورت ہوگی کبھی انف کی بھی ضرورت پڑے گی۔ تو ان چیزوں کو مدنظر رکھ کر جب آپ وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون کی تعلیم دیتے ہیں تو پھر آپ کو والذین ان مکنا ھم فی الارض کی تعلیم بھی دینی ہوگی۔ اور جب آپ والذین ان مکنا ھم فی الارض کی تعلیم دیتے ہیں تو پھر آپ کو واعدو لھم ماستطعتم من قوة ومن رباط الخیل ترھبون بہ عدو اللہ و عدوکم ، یہ تعلیم بھی دینی پڑے گی۔ یہ ساری چیزیں جگہ جگہ پر اللہ کی مختلف تعلیمات ان کو جب یکجا کریں گے تو اس سے دین بنتا ہے، دین کی تعبیر پھر یہ ہوگی۔ اس لحاظ سے ہمیں ان پہلووں پر بھی نظر رکھنی ہوگی، عبادت تنہا ہے تو وہ آپ کو رہبانیت کی طرف لے جاتا ہے اور اسلام رہبانیت کے خلاف ہے ولقد کرمنا بنی آدم وحملناھم فی البر و البحر ورقناھم من الطیبات، بروبحر پر انسان چھا جاتا ہے، یہ انسانیت کا مقام ہے۔ یہ انسانیت کا شرف و عظمت ہے۔ تو یہ ساری تعلیمات جس کی بنیادی پر آج ہماری ریاستیں چلتی ہے یہ اللہ رب العزت کی دی ہوئی وہ تعلیمات ہے جو جمعیت علماء اسلام سمجھتی ہے کہ ہم نے اسی کا عَلم بلند رکھنا ہے۔ اس نظریاتی اساس کو ہمارے کارکن نے دل و دماغ میں رکھنا ہوتا ہے۔ یہ سفر ہے جاری ہے اس میں الیکشن بھی اتا ہے، ہار بھی آتا ہے جیت بھی آتا ہے، اقتدار بھی آتا ہے تحریک بھی آتی ہے۔ لیکن جب آپ کے ہاتھ میں اختیار آجائے ظاہر کہ جب عبادت و دیانت نہیں ہوگی اور سیاست محض ہوگی تو انسان کے اندر جہاں تکبر پیدا کرتا ہے وہاں حرص اور لالچ بھی پیدا کرتا ہے۔ لہٰذا اساس وہ آپ کے اندر عبادت اور دیانت ہونی چاہیے تب سیاست کی جائے۔ سیاست محضہ خالی سیاست اس کے اندر حرص، اقتدار، لالچ، طاقت کا ارتکاز، مال و دولت کا کمانا، یہ ساری چیزیں آجاتی ہیں جو شاید شریعت اس کی اجازت نہیں دیتی۔
تو جب آپ حکومت میں آتے ہیں تو پاکستان کا نا یہاں تو ہمیں میڈیا چلاتا ہے۔ اس دن میں سن رہا تھا ایسی بے جا قسم کی باتیں، بس یہاں جمعیت علماء کچھ جزوی طور پر کامیاب ہوگئی ہے۔ تو ایک خاتون سوال کرتی ہے اب تو آپ صوبہ میں کامیاب ہوگئے اب تو وہاں مہنگائی کنٹرول کریں گے نا، کہی کی بات کہا، معاشی پالیسی ہمارے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ بلدیاتی کونسلر کے ہاتھ میں اقتصادی پالیسی ہوا کرتی ہے۔ کچھ تو ذمہ داریوں اور فرائض کے درمیان، اختیارات کے درمیان امتیاز اس کی تعلیم ہونی چاہیے۔
اب اس اعتبار سے جب ہم دفاع کی بات کرتے ہیں تو دفاع کو ہم ریاست کی ضرورت سمجھتے ہیں۔ اگر میں ایک سیاسی کارکن ہوں اور میں نے اپنے آکابر سے کچھ سیاست کے ایک دو لفظ سیکھے ہیں اور جمعیت علماء کے پلیٹ فارم سے میں اس کا ایک کارکن ہوں یا طالب علم ہوں تو مجھے اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے۔ پاکستان ایک ریاست ہے اور اس ریاست کی ایک فوج بھی ہے، اس کی دفاعی قوت بھی ہے، تو پھر اس کی اپنی ذمہ داری بھی ہے اور اس لحاظ سے ہمیں پاکستان کے دفاعی قوت کی صلاحیت و استعداد پر اعتماد بھی ہے۔ خدانخواستہ ایسا نہیں ہے کہ ہمیں اپنے جوانوں کے دفاعی قوت و صلاحیت پر اعتماد نہیں ہے۔ بس اتنا ہے کہ اپنے کام سے کام رکھے، اتنی سی بات ہے۔ اتنی سی بات پہ ناراض نہیں ہونا چاہیے۔ میں اگر سیاست میں غلطی کروں تو کسی کو حق حاصل ہے کہ میری رہنمائی کرے کہ میں اپنے کام سے تجاوز کررہا ہوں۔ ہم جمعیت والے تو اتنا زیادہ احتیاط کرتے ہیں، اتنا زیادہ احتیاط کرتے ہیں کہ تبلیغی حضرات والوں کے کام میں مداخلت ہی نہیں کرتے۔ اور جب آپ ایک دوسرے کے ایریاز کو کراس کرینگے تو پھر تصادم بھی آتا ہے۔ تو تربیت یہ ہونی چاہیے کہ اپنے کام سے کام رکھا کرے۔ اور جس وقت انہوں نے الیکشن میں مداخلت کی اور دھاندلی کرکے اس ناجائز کو حکمران بنایا، تو پھر ہم نے کوئی لحاظ نہیں رکھا، ڈنکے کی چوٹ پہ کہا کہ اس کے مجرم آپ ہے۔ آج اس صوبے کی اس جزوی الیکشن میں جب وہ تھوڑا سا غیر جانبدار رہے تو ہم نے ان سے کہا کہ ہم آپ کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں اچھی بات ہے۔ کونسی ہماری آپ کے ساتھ ابدی دشمنی ہے۔ اور آپ مذید تھوڑا سا اور زیادہ اپنے آپ کو نیوٹرالائز کرے پھر دیکھے پاکستان کا نقشہ کیا بدلتا ہے۔ یہ حق عوام کا ہے یہاں تو مصیبت یہ ہے کہ لوگ کچھ گڈ مڈ، خلط ملط کرلیتے ہیں۔
آج کل ہماری ہی حلقوں میں اسلام یا جمہوریت، یا الہی العالمین یہ کوئی سوال ہے یعنی اگر ہم مسلمان ہے اور ہمارا دین اسلام ہے تو پھر جمہوریت کفر ہے۔ یہ سبق آپ کو کس نے دیا ہے، آپ مجھے بتائے علماء حضرات ہیں بہت سے مسجدوں کے آئمہ بھی ہیں، محلے کے عوام اور مقتدیوں کی اجازت کے بغیر کوئی زبردستی مصلے پہ قبضہ کرسکتا ہے، بس اتنا سا کام اللہ نے بھی لوگوں کے حوالے کیا ہے۔ یعنی تشکیل حکومت اور اس کا طریقہ کار پبلک کے ذمے ہیں، لیکن جب لوگ کسی کو امام بنادے تو نماز اللہ کے حکم کے مطابق پڑھانی ہوگی اپنے مرضی کے مطابق نہیں، یہ مطابقت ہے۔ اگر نظام حکومت کی تشکیل بلکل ایسی ہوتی جیسے نماز پڑھنا تو پھر حضرت ابوبکر صدیقؓ کا انتخاب ایک طریقے سے، حضرت عمر فاروقؓ کا انتخاب دوسرے طریقے سے، حضرت عثمانؓ کا انتخاب تیسرے طریقے سے اور حضرت علیؓ کا چوتھے طریقے سے، تو پھر اسطرح نہ ہوتا، تو جو نماز وہ ایک طرح پڑھتے تھے تو پھر یہاں ایک ہی طرح کا نظام ہونا چاہیے تھا۔ لیکن احکامات شریعیہ کے ساتھ، تنفیذ نظام کے ساتھ جو ان کی کمٹمنٹ تھی اس میں کوئی فرق نہیں تھا۔ تشکیل حکومت میں چوں کہ پبلک کی رائے چلتی تھی، پبلک اجتہاد کرتی تھی اس میں کبھی اختلاف بھی آجاتا تھا اور چوں کہ ہر صحابی مجتہد تھا تو وہاں پر اجتہاد پر عمل بھی کرتا تھا۔
تو اس لحاظ سے ان چیزوں میں تھوڑا سا امتیاز برتنے کے لیے لوگوں کو سمجھاو کہ مسلہ اس طرح نہیں ہے۔ ہمارے آکابر اندھے نہیں تھے، آج بھی جمعیت علماء اسلام کی پلیٹ فارم پر چار سے پانچ لاکھ تک فارغ التحصیل علما موجود ہیں، یہ آندھے ہیں۔ جمہوریت کفر ہے یہ سارے کفر کررہے ہیں۔ نعوذباللہ حضرت شیخ مدنیؒ کفر کررہے تھے، کیا چیز ہو تم لوگ، کیا باتیں کرتے ہو۔ تعجب ہوتا ہے یہ درس کون پڑھا رہا ہے، اور یہ کس درجے کے لوگ ہیں۔ حضرات آج کل مشکل یہ ہے کہ نکاح طلاق کا مسلہ ہو تو محلے کے امام اور مدرسہ کے استاد کو بتاکر پوچھیں گے، لیکن کفر اور شرک کا فتوی ہو تو اس کے لیے ہر آدمی مفتی بنا ہوا ہے۔ اور ابھی نماز میں غلطی ہوجائے تو مولوی صاحب مجھ سے غلطی ہوگئی کیا مسئلہ ہے، میں کیسے نماز ٹھیک کروں۔
یہ چیزیں بھی ذرا ہمیں مدنظر رکھنی چاہیے، سرحدات، سرحدات کا تعین، سرحدات کا تحفظ، یہ ریاست کی تعریف میں سے اس کی تعریف کا ایک حصہ ہے۔ اور ہمیں ایک مشکل درپیش ہے تقسیم کے وقت سے لے کر آج تک یہ عالمی اسٹبلشمنٹ بھی عجیب شے ہے ہندوستان سے گٸی تو کشمیر کا تنازعہ چھوڑ کے گئی، عرب دنیا سے گئی تو ا س ر ائیل کا فتنہ چھوڑ کے گئی، اور آج ا ف غ ا ن ستا ن سے جب نکلی تو ڈیورنڈ لائن کا فتنہ چھوڑ کے گئی۔ اور تین چار سال پہلے جب دوحہ کے دفتر کھل چکے تھے، مذاکرات کا آغاز ہوچکا تھا، مانا یہ کہ امریکہ نے انخلا کا فیصلہ تقریباً کرلیا تھا، لیکن اب کیسے کرے اس کا طریقہ کار وغیرہ وغیرہ، تو آپ نے اس وقت دیکھا کہ یہاں انضمام کا مسئلہ شروع ہوا فاٹا انضمام اور فاٹا انضمام، فاٹا کے لوگوں کی حقوق اور فاٹا کے لوگوں کی ترقی اور فلاں فلاں۔ کب تک ان کے ایجنڈوں کو یہاں ایمپلنٹ کیا جاتا رہے گا، کیا کھیل اس قوم اور امت مسلمہ کے ساتھ کھیلے جارہے ہیں، کیا ہم نے کبھی اس کے اوپر سوچا ہے، کیا ہم نے کبھی غور کیا کہ دنیا ہمیں کدھر سے کہاں لے جارہی ہے۔ اور یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بدو ہیں کچھ سمجھتے نہیں ہیں۔ تو میں انہیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ”بہر رنگے کہ خاہی جامہ مے پوش من انداز قدت رمے شناس“، قوم کے ساتھ ایسا نہ کرو، جانتے بوجتے ایسے اقدامات کررہے ہو کہ آنے والے وقتوں میں پھر کہیں گے کہ صاحب اب تو پاکستان کا سوال پیدا ہوگیا ہے، اب تو ہمیں اپنے سرزمین کی ایک ایک انچ کا مقابلہ کرنا ہے، پاکستان سے لڑنے والا ہمارا دشمن ہے، آو قوم نکلو ان کے خلاف، یہی سیاست آپ نے کرنی ہے۔ میں نے خود سوالات اٹھائے ہیں جب میرے سامنے ایک دفعہ کہا گیا کہ کشمیر کے محاذ پر بڑی ٹینشن ہے۔ تو میں نے کہا ہندوستان ایک یونین ہے یا دو یونین ہے، کہنے لگے ایک یونین ہے، تو میں نے کہا پھر اس کا کیا مطلب ہے کہ کشمیر پر ٹینشن ہے اور کرتار پوری پر دوستی ہے۔ ایک ملک کے ساتھ ہم ان تضادات کا مجموعہ ہے۔ ہم نے وہ وہ تضادات کیے ہیں کہ ایک دن ہم نے ہندوستان کے وزیراعظم کو واہگہ کے سرحد پر استقبال کیا، اس کو پاکستان لائے اور وہ مینار پاکستان کے سائے میں کھڑا ہوا اور پاکستان کو ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کردیا۔ جونہی وہ گیا دس دن کے بعد ہم نے کارگل میں جنگ شروع کی۔ اب بین الاقوامی برادری کے سامنے ریاست جوابدہ ہوتی ہے۔ ہم سے اگر کسی بین الاقوامی فورم پر سوال کیا جائے کہ وہ پاکستان جو ایک دن انڈیا کے وزیراعظم کا استقبال کرتا ہے اور دسویں دن وہ کارگل کے ساتھ جنگ چھیڑتا ہے یہ متضاد و متصادم پالیسی کیوں، وقتی طور پر تو آپ لوگوں کو جذباتی بنا کر فیصلے لے لیں گے، لیکن آنی والی نسلیں جب تاریخ حقائق لکھے گی وہ تو معاف نہیں کرے گی، حقائق تو کبھی نہیں چپھتے، تاریخ تو بڑی بے رحم چیز ہوا کرتی ہے۔ تو اس حوالے سے ہمیں ان چیزوں پر نظر رکھنی ہوگی اور میں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جو انضمام کے نتائج اب ہم دیکھے گے اور آنے والے حالات میں دیکھے گے اس کا بھی انتظار کیجیے۔ کمزور لوگوں کی تو آواز ہی ہوتی ہے، ہم ایک بات کہنا چاہتے ہیں خدا کرے کہ میری یہ بات غلط ہو لیکن جو میں کہہ رہا ہوں اسی طرح صورتحال کو دیکھ رہا ہوں۔
میرے محترم دوستو! اس ساری صورتحال میں ہمارے ملک کے اندر اگر کوئی چیز محفوظ نہیں ہے تو وہ شعائر اسلام محفوظ نہیں ہے، یہاں ناموس رسالت محفوظ نہیں ہے، یہاں ناموس صحابہ محفوظ نہیں ہے۔ اور ریاست ہے کہ خاموش تماشائی بیٹھ کر لڑائیاں دیکھنا چاہتا ہے۔ فرقوں کے درمیان تنازعات پیدا کرنا جب ریاست کا کام فرقوں کے درمیان تنازعات کو روکنا ہے، تو ذمہ داری کچھ اور، کارواٸی کچھ اور، ہاں روکنے کا کام ظاہری قوتوں کے ذمہ ہے اور فرقہ واریت کا آگ بڑکانا خفیہ قوتوں کی کارستانی ہوا کرتی ہے۔ تو دنگے ذرا الگ الگ ہوتے ہیں تو ایک کے کرنے والے آگ لگانے والے نظر نہیں آتے آگ بجھانے والے نظر آتے ہیں فرق صرف اتنا ہے۔ اب قران کا فیصلہ کیا ہے کلما اوقدو نار للحرب اتفعھا اللہ، دشمن تو جنگ کی آگ بڑکانا چاہتا ہے یہ دشمن کا منشا ہے، اللہ اس آگ کو بجھاتا ہے یہ اللہ کے دین کا اور اللہ کے منشا کا تقاضا ہے۔ ہم نے من حیث القوم اللہ کے منشا کی پیروی کرنی ہے۔ فرقہ واریت ہے، مختلف مسالک ہے، رسول اللہﷺ نے ایسے نہیں کہا کہ میرے امت میں ٧٣ فرقے بنے گے، لیکن دنیوی جھگڑوں کی بات تو آپ نے نہیں کی، آپ نے تو آخرت کا فیصلہ کیا کلھم فی النار الا واحد، اب ہمارے علمائے کرام الا واحدا کے رسول اللہﷺ نے فرمایا ما انا علیہ واصحاب، اب ما انا علیہ واصحاب میں ایک ما ہے اور ایک ہے انا علیہ واصحاب، تو ما سنت اور انا علیہ واصحاب جماعت، تو فرقہ ناجیہ کہتے ہیں اہل سنت والجماعت، یہ ما انا علیہ واصحاب کی تعبیر ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ تعبیر کی ضرورت بھی نہیں ہے۔
یہ آج کی اصطلاح نہیں ہے، یہ قرون اولیٰ کی اصطلاح نہیں ہے، یہ قرن اول اور صدر اول کی اصطلاح ہے جب حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے قران کریم کی اس آیت یوم تبیض وجوہ وتسود وجوہ اس کی تفسیر کی اور فرمایا یوم تبیض وجوہ اہل سنت و الجماعت وتسود وجوہ اہل بدعت والضلال، لیکن ہم نے آج اس کو دنیا کے فسادات کا ذریعہ بنادیا۔ یہاں آکر تو ظاہر ہے فساد سے بچنے کے لیے بھی حکمت عملی بنانی پڑتی ہے، فساد بنانے کے لیے بہت لوگ ہیں۔ مسلکی تعصبات مسلکی اختلاف کو ہم ختم نہیں کرسکتے، لیکن اختلاف میں تعصبات، نفرتیں، شدت اس کو تو کم کرسکتے ہیں یہ جمعیت علما کا انداز ہے۔
آپ کو اب پبلک میں جانا ہے، کل آپ نے حکومت کرنی ہے۔ بحیثیت حکمران کے جمعیت علماء کی کیا ذمہ داری ہوگی، اگر ہم نے اقتدار سے پہلے مسلکی جنگ چھیڑ دی تو پھر تو اقتدار میں آنے کے بعد مخالفین کو ذبح کرنا ہوگا، واجب القتل ہے، ک ا ف ر ہے۔ پھر اس ملک میں ہندوں رہتا ہے، سکھ رہتا ہے، عیسائی رہتا ہے جو پاکستان کا شہری ہے، (دماءھم کدماءنا، اموالھم کامولنا، واعراضھم کاعراضنا) تو حکومت کے بعد تو آپ کو اس کو تحفظ دینا ہوگا۔ اور جب اس پہلے آپ کچھ اور کرچکے ہوں گے پھر تو پبلک آپ سے پوچھے گی، کیا حق پہنچتا ہے کہ ان پر آپ حکومت کرے، کیا حق پہنچتا ہے کہ پاکستان کی بائیس کروڑ قوم کی انسانی حقوق کی ذمہ داری اپنے سر لے، اب تو اپ کو اسے تحفظ دینا پڑے گا۔
تو بنیادی چیز انسانی حقوق، اور انسانی حقوق ہوں گے تو دنیا میں امن آئے گا۔ اور عبادت و دیانت کے اندر امن و سکون محدود ہوتا ہے سیاست میں آپ نے اسی امن کو پھیلانا ہوتا ہے، دنیا میں جاؤ اور اسے پھیلاؤ۔
لیکن میرے محترم دوستو! یہ جو حکومت ہم پر مسلط کی گئی ہے، آپ سب جانتے ہیں کہ داخلہ پالیسیاں ہو یا خارجہ پالیسیاں ہو، ملک کے اندر قیام امن کا مسلہ ہو، یا پڑوسی ممالک اور دنیا کے ساتھ بہتر تعلقات کا مسئلہ ہو، اس کے لیے معاشی قوت ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہم نے تاریخ میں پہلی مرتبہ دیکھا کہ پاکستان کا سالانہ ترقیاتی بجٹ اور اس میں ہماری ترقی کا سالانہ تخمینہ وہ صفر سے نیچے چلا گیا، مہنگائی عروج پہ چلی گٸی اور جو مہنگائی کل پرسوں سے پہلے تک تھی جس نے غریب کی کمر توڑ دی تھی، ملک کا ہر آدمی کراہ رہا ہے۔ اور آپ نے کل اپنا تین سو ساٹھ ارب روپے کا ایک اور بجٹ پیش کیا، منی بجٹ جسے کہتے ہیں۔ اور یہ منی بجٹ میں بتادینا چاہتا ہوں کہ یہ آئی ایم ایف کے شرائط پر ہے۔ اور یہ 360 ارب کا منی بجٹ بغیر بحث کے آئی ایم ایف کے شرائط پر پاس کردیا ہے۔ اور اب آگے جاکر بارہ جنوری کو آئی ایم ایف کا اجلاس ہوگا جس میں پاکستان کو صرف ایک ارب ڈالر کی قسط دینے کا فیصلہ ہوگا۔ ہم نے اپنے ملک کا نقصان کتنا کیا اور عالمی ادارہ ہمیں کتنا ریلیف دے گا صرف ایک ارب پر غور کرے گا کہ وہ ہمیں دینا چاہتا ہے یا نہیں دینا چاہتا، اور پھر جو بھی بل آتا ہے تو اسمبلی کے رولز ہیں کہ پہلے سٹینڈنگ کمیٹی میں جاتا ہے، وہاں پر ممبران اس پر بحث کرتے ہیں، اس کو نکھار کے پھر اسمبلی کے اندر آتا ہے۔ یہ بل سٹینڈنگ کمیٹی کو بھی نہیں دیا گیا۔ دو سو پندرہ ارب روپے کا استثناعی ٹیکس یہ واپس لے لیا گیا ہے اور اس کے بعد اب ٹیکسز کا جو بوجھ ہے وہ پانچ سو پچھتر ارب روپے بڑھ گیا ہے۔ اس سے اندازہ لگائے کہ آپ آج کہاں پہنچ گئے ہیں۔ جی ایس ٹی سیل ٹیکس پانچ فیصد سے بڑھا کر سترہ فیصد کردیا ہے جس سے براہ راست ہمارا عام دکاندار متاثر ہوتا ہے۔ ظاہر ہے اس سے افراط زر بڑھے گا، مہنگائی یکدم سے پچیس فیصد بڑھے گی۔ چنانچہ آپ نے کل سے دیکھا ہوگا کہ اشیا کی قیمتیں کتنی بڑھا دی گئی ہے۔
میں آپ کو ایک عجیب بات بتادو کیسے کیسے چیزیں وہ چپھاٸے رکھتے ہیں، آپ نے فرمایا سٹیٹ بینک کی بات، سٹیٹ بینک کے لیے بل اسمبلی میں لانے کے لیے تیار ہے، کہ ہم سٹیٹ بینک کو براہ راست آئی ایم ایف سے وابستہ کریں گے۔ براہ راست وابستہ کرنے کے بعد آپ روپے کا قرض بھی مانگے گے تو وہ آئی ایم ایف سے پوچھ کر قرضہ دے گا، اور اس وقت بھی آئی ایم ایف کی جو دوسری نمبر پر بڑی افسر ہے وہ خاتون اس کا تعلق انڈیا کے ساتھ ہے۔ انڈیا اپنے تعلقات کی بنیاد پر جب ہمارے بینکوں کی نگرانی شروع کرے گا آپ کے پاکستان کا کیا حشر کردے گا، لیکن یہ تو ایک بل ہے جو آرہا ہے عملاً کیا ہورہا ہے عملاً جولائی ٢٠١٩ سے اب تک سٹیٹ بینک نے اب تک حکومت کو کوئی قرض نہیں دیا ہے، اس نے قرض پہلے سے روک دیے ہیں اور جتنے قرض ہم نے لیے ہیں وہ ہم نے کمرشل بینکوں سے لیے ہیں، اب کمرشل بینکوں کا آپ خود اندازہ لگاٸے کہ ان کے قیمتوں پر کیا اثرات پڑیں گے، معشیت پر کیا اثرات پڑیں گے، یہ فیصلہ کون کرے گا کہ کس کا کتنا فائدہ ہوا ہے اور کتنا نقصان ہوا ہے۔ جب باقاعدہ قانون پاس ہو جائے گا اس کے بعد سٹیٹ بینک آپ کو قرضہ دے گا پھر تو کہیں گے کہ ہم پہلے آئی ایم ایف سے پوچھیں گے۔ سو یہ آپ کے ملکی معشیت کا حال کردیا گیا ہے۔
اور میرے محترم دوستو! باتیں تلخ ہیں لیکن بہر حال کرنی پڑ رہی ہے کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان جب آئی ایم ایف کے کنٹرول میں چلا جائے گا تو پھر حکومت اور پارلیمنٹ کا اس پر کوئی کنٹرول نہیں رہے گا یہ ختم ہوجائے گا۔ سلطنت عثمانیہ نے یہی غلطی کی کہ اپنے مرکزی بینک کو عالمی ادارے سے وابستہ کیا اور جب اس پر مشکلات آئی اور اپنے بینک سے پیسہ مانگا تو اپنے بینک نے پیسہ نہیں دیا اور وہ سلطنت عثمانیہ کے سقوط کا باعث بن گیا۔ اتنا بڑا ایمپائر سلطنت عثمانیہ، افریقہ اور پورا عرب دنیا اور جب اس نے کسی بینک کو عالمی ادارے سے وابستہ کرنے کی کوشش کی تو پوری سلطنت گر گئی۔ آپ میں اتنی جان ہے پھر ہم کیا کریں گے۔
میں آپ کو واضح طور پر کہہ دینا چاہتا ہوں کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کو آئی ایم ایف کی کنٹرول میں دینا ملکی معشیت کو آخری کفن پہنانا ہے اور ان کی آزادی کو آخری کفن پہنانا ہے۔ اور اس کے بعد پاکستان عالمی قوتوں، عالمی اداروں کی کالونی سے بڑھ کر اور کچھ نہیں ہوگا۔ یہ بات میں نے کچھ عرصہ پہلے ایک کانفرنس میں کی تھی تو ایک اینکر نے ٹویٹ کیا کہ فضل الرحمٰن اتنا بے خبر ہے کہ جو کہتا ہے کہ پاکستان کالونی بن جائے گا، اس کو یہ پتہ بھی نہیں ہے پاکستان تو کالونی ہے بن چکا ہے۔ اور ہم کہتے تھے، دنیا بھی ہمیں سمجھاتی تھی کہ پاکستان دیوالیہ پن کے قریب ہے، بینک کرپٹ ہونے کے قریب ہے۔ لیکن ایف بی آر کے چیئرمین نے پرسوں آن ریکارڈ کہا کہ پاکستان بینک کرپٹ ہو چکا ہے، پاکستان دیوالیہ ہوچکا ہے۔ ہماری اس ریاست کی یہ حالت کردی ہے۔
تو میرے بھائیو آپ اندازہ لگائے کہ آپ کی ذمہ داریوں میں کتنا اضافہ ہوگیا ہے، اور کیا ہم نے کسی کے رحم و کرم پر اس وطن عزیز کو حوالے کرنا ہے، جو چاہے ہمارا فیصلہ کردے۔ اس اعتبار سے میں آپ سے عرض کرنا چاہتا ہوں آج کیا وجہ ہے یہاں پر ابھی میٹینگز ہوئی ہیں قومی سلامتی کے کابینہ کا اجلاس ہوا ہے، قومی سلامتی پالیسی بنائی جارہی ہے۔ ہر چھ مہینے کہ بعد ایک بہت بڑی بونگی ماری جاتی ہے تاکہ جب اتنی بڑی بات قوم سنے گی تو شاید ان کو کچھ پیدا ہوجائے کہ حکومت شاید کچھ دینے والی ہے۔ اس بڑی بونگی سے بڑھ کر اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ میں نے پہلے عرض کیا کہ قومی سلامتی کے لیے قومی مالیاتی پالیسی کی ضرورت ہے جب تک آپ کے پاس ایک کامیاب قومی مالیاتی پالیسی نہیں ہے آپ کسی بھی قیمت پر قونی سلامتی پالیسی نہیں بنا سکتے، یہ آپ کے لیے ممکن نہیں ہے۔ تو تم کیوں لوگوں کو دھوکہ دے رہے ہو، کس بنیاد پر قوم کو دھوکہ دے رہے ہو۔
یہ چیزیں بھی آپ کو مدنظر ہونی چاہیے کہ ایک طویل المدت معاشی پالیسی ہی کہ ذریعے سے قومی سلامتی پالیسی بناٸی جاسکتی ہے۔ ان میں وہ صلاحیت ہی نہیں ہے تو پھر دیکھنا پڑے گا کہ ملک کون چلا رہا ہے۔ میرے خیال میں اس کا جواب بھی عام آدمی کے پاس نہیں ہوگا کہ ملک کو کون چلا رہا ہے۔ ایک فرانسیسی مفکر کہتا ہے کہ اگر یہ معلوم کرنا ہو کہ ملک کو کون چلا رہا ہے تو یہ معلوم کرلو کہ کس پر تنقید کرنا جرم ہے۔
امریکہ نے آج دوستی کا معیار اس بات کو بنایا ہے کہ آپ چین کے ساتھ کیے گئے معاہدے سی پیک کے حق میں ہے تو آپ امریکہ کے مخالف ہے اور اگر آپ سی پیک کے مخالف ہے تو امریکہ کے دوست ہے۔ تو ہمارے صاحب نے اسی پہ آرا رکھا کہ سی پیک منصوبے کو ایک داخلی سڑک کے منصوبے تک محدود کردیا۔ وہ کثیر المقاصد منصوبہ جس کے ساتھ ہماری توانائی کی پیداوار، بجلی کی پیداوار، گیس پائپ لائن، صنعتی علاقے سب چیزیں وابستہ تھی۔ یہاں تک کے گوادر، کراچی اور کاشغر تک ریلوے لائن بچھانے کا منصوبہ اس میں شامل تھا، سب کے سب دھرے رہ گئے۔ بس وہی کچھ بن رہا ہے جس کے لیے پہلے سے فنڈ نکل چکے تھے اور ان کی ٹینڈر نوٹس ہوچکی تھی، یہاں تک ہمیں پہنچا دیا ہے۔ ہاں ایک چیز جس پر میں مطمئن ہوں آج آپ سے ضرور یہ لوگ کہیں گے ہمارا تو جی یہ ارادہ بھی نہیں تھا ہم تو جی رحمت اللعالمین اتھارٹی بنا رہے ہیں، ہم تو ریاست مدینہ اتھارٹی بنارہے ہیں، ایسی بات نہیں ہے تمہارا ایجنڈہ تھا کہ ناموس رسالت کا قانون ختم کریں گے، تمہارا ایجنڈہ تھا کہ آئین سے عقیدہ ختم نبوت کی تحفظ کا شق ختم کریں گے۔ تمہارا ایجنڈہ اب بھی ہے کہ دینی مدارس کو ختم کیا جائے، تم اب بھی مساجد کے انہدام کے فیصلے دے رہے ہو، اگر آپ نہیں کرسکے تو ان فقیروں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے جنہوں نے روڈ پہ کھڑے ہوکر آپ کو چیلنج کیا کہ تمہارا باپ بھی ایسا نہیں کرسکتا (نعرہ تکبیر اللہ اکبر)۔
ہم جج کا احترام کرتے ہیں، قابل احترام جج صاحب پہلے جج نے جاتے جاتے فیصلہ کیا، مغرب کے لیے قابل قبول ہونے کے لیے کہ اس نے ناموس رسالت کی توہین کی مرتکب کو آزاد کردیا اب مغرب میں جگہ مل گئی نا، پاسپورٹ بھی مل گئے، گھر بھی مل گئے، آسائیشیں بھی مل گئی۔ آپ بھی جاتے جاتے مسجدوں کو گرانے کا فیصلہ دے رہے ہیں تاکہ آپ بھی مغرب کے لیے قابل قبول ہوسکے اور ہمیں کہتے ہو کہ میں نے تو قانون کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔ غصب زمینوں پر، پہلے مقدمہ تو چلاوں، پہلے ثابت تو کرو کہ یہ غصب زمین پہ ہے۔ اور اگر ان کے پاس اسناد ہے کہ آپ کی ہی سرکاری اداروں نے اسے این او سی دی ہے اور تب جاکر مسجد تعمیر ہوئی ہے اور اگر غصب زمین پر بھی ہو تب بھی مسجد بننے کے بعد گرائی نہیں جاسکتی ان کا تاوان دیا جاسکتا ہے۔
یہ وہ چیزیں ہیں جس کے لیے آپ کو میدان میں اترنا پڑے گا، کہی آپ کا انتخاب، آپ کا الیکشن، الیکشن میں کامیابی آپ کے تحریکوں کو ٹھنڈا نہ کردے۔ اس ملک کو اللہ اپنے حفظ و امان میں رکھے ہم نے یہی رہنا ہے یہ ملک ہمارا ہے۔ ہم کیا ہے ہمارے اعمال کیا ہے، لیکن بہانہ ہے اللہ سے امید ہے کہ وہ ہمارے اس عمل کو قبول کرلے گا۔
تو اس اعتبار سے میں نے آپ کا کچھ وقت زیادہ لے لیا ہے لیکن یہ چیزیں آپ حضرات کی نوٹس میں لانی ضروری تھی۔ اس ملک کو اللہ اپنے حفظ و امان میں رکھے، ہم نے یہی رہنا ہے، یہ ملک ہمارا گھر ہے، اس کا چپہ چپہ ہماری عزت ہے اور ہم نے اس کی حفاظت کے لیے تمام توانیاں صرف کرنی ہے۔ اللہ ہمارے دین کی حفاظت فرماے، جمعیت علماء کو مذید آگے کامیابی عطا فرمائے اور پاکستان کی حفاظت فرمائے۔
واخر دعوان ان الحمد للہ رب العالمین
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#TeamJuiSwat .
ایک تبصرہ شائع کریں