پشاور پی ڈی ایم اجلاس کے بعد قائد محترم حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی میڈیا سے گفتگو
02 جنوری 2022
بسمہ اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
پی ڈی ایم کی مرکزی قیادت نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ٢٣ مارچ کو پوری قوم اسلام آباد کی طرف مارچ کرے گی، اس حوالے سے مرکزی قائدین کی ذمہ داری قرار دی گئی تھی پنجاب میں میاں شہباز شریف صاحب صوبہ پنجاب کی پی ڈی ایم قیادت کو بلائیں گے، یہاں خیبر پختونخواہ میں میری ذمہ داری عائد کی گئی، صوبہ سندھ میں جناب شاہ اویس نورانی صاحب کی، بلوچستان میں جناب محمود خان اچکزئی صاحب کی، تاکہ صوبوں کی پی ڈی ایم کی قیادت کو بلا کے ٢٣ مارچ کے اس مہنگائی مارچ کے انتظامات پر کام شروع کیا جائے، اس پر تیاریوں کے لیے کام شروع کیا جائے۔ آج تمام جماعتوں نے ٢٣ مارچ کے مہنگائی مارچ میں اپنی بھرپور شرکت اور اس حوالے سے اپنے عزم، اپنے ارادے اور اپنے جذبے کا اظہار کیا ہے کہ ہم پوری قوت کے ساتھ اس میں شریک ہوں گے اور ایک بار پھر پوری قوم کو یہاں سے آواز دی جارہی ہے کہ ناجائز حکومت اور پھر نااہل حکومت جس نے ملک کی اقتصاد اور معشیت کو تباہ و برباد کردیا ہے اور عام آدمی اس وقت مہنگائی کے پہاڑ تلے کراہ رہا ہے، زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔ آج بھی واقعہ ہوا ہے کہ لوگ غربت کی وجہ سے اپنے بچوں کو قتل کردیتے ہیں، اپنے بچوں کی بھوک ان سے دیکھی نہیں جاتی، دریا بُرد کرلیتے ہیں، خودکشیاں کرلیتے ہیں، اور ان کو موت آسان نظر آتی ہے اور زندگی مشکل نظر آتی ہے۔ ایسی صورتحال سے ملک کو نکالنا یہ اب ایک قومی فریضہ بن چکا ہے۔
اس اعتبار سے یہ بات بھی مدنظر ہے کہ یہاں پر بلدیاتی الیکشن کا ایک مرحلہ مکمل ہوچکا ہے، اس مرحلے میں حکمران جماعت کو جو شکست ہوئی ہے اس کے مقابلے میں اگر جمعیت علماء اسلام کو زیادہ ووٹ ملا ہے تو یہ بھی اپوزیشن کی فتح ہے۔ اور اس نے ثابت کردیا ہے کہ عوام اب مزید اس حکومت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ہرچند کے ہمارا مطالبہ عام انتخابات کا ہے لیکن یہ بلدیاتی الیکشن اس حوالے سے ایک کامیاب تجربہ بھی ثابت ہوا اور عوام کے جذبات کی ترجمانی بھی اس نے کی اور میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ ان شاء اللہ اگلہ مرحلہ میں بھی اس سے کہی زیادہ برا حشر حکمران جماعت کا ہوگا اور قوم یہ بات ثابت کرے گی کہ پچھلے الیکشن میں اس کی کامیابی جعلی تھی اور دھاندلی کی پیداوار تھی، حقیقی رائے اب قوم کے سامنے آرہی ہے اور ان شاء اللہ العزیز اس میں مذید اضافہ کیا جائے گا۔
صحافی کے سوال پر جواب
اس میں جو بھی فیصلہ ہوگا اگر کوئی بات ہے تو مرکزی قیادت ہی طے کرے گی، آج صوبائی اجلاس نے اس فیصلے پر عمل درامد کے لیے اپنے بھرپور عزم کا اظہار کیا۔
صحافی کے سوال پر جواب
آپ نے دیکھا انہوں نے پہلے سے ضلع نکال دیا تاکہ ڈپٹی کمشنر، ایس پی اور تمام محکموں کے ضلعی عہدیداران تاکہ وہ بلدیاتی میں منتخب نمائندوں کے ما تحت نہ آسکے اور جب ان کو ناکامی ہوئی ہے تو اب تحصیلوں میں بھی نئے قانون کے تحت ایسا کیا جارہا ہے۔ ایسا ان شاء اللہ نہیں ہونے دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ میں اپنے تمام دوستو کی تائید کے ساتھ آپ سے عرض کرنا چاہوں گا کہ جو ابھی قومی اسمبلی میں منی بجٹ لایا گیا ہے اس منی بجٹ پر کوئی بحث نہیں ہوئی، بغیر ڈیبیٹ کے بلڈوز کیا گیا، اتنے اہم قومی مسلے پہ اس بل کو قومی سٹینڈنگ کمیٹی میں جانا چاہیے تھا، سٹینڈنگ کمیٹی میں بھی نہیں بھیجا گیا اور ایوان کے اندر بھی اس پر بحث نہیں کی گئی۔ اور میں آپ کو یہ بھی بتانا چاہتا ہو کہ اب جو نیا بل تیار کیا جارہا ہے کہ جس کے ذریعے سٹیٹ بینک کو براہ راست آئی ایم ایف کے ساتھ وابستہ کیا جائے گا، اس کے بعد لوگ کہتے ہیں کہ پھر سٹیٹ بینک حکومت کے مطالبے پر بھی حکومت کو قرض نہیں دے گا، تو میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ یہ تو آئندہ کی بات ہوگی اب بھی جولائی ٢٠١٩ سے ہمارے سٹیٹ بینک نے حکومت پاکستان کو قرضہ نہیں دیا ہے، جتنے کل قرضے لیے گئے ہیں وہ کمرشل بینکوں سے لیے گٸے ہیں، اب کمرشل بینکوں سے قرضے لینے کے نفع و نقصان کے مالکان کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔
صحافی کے سوال پر جواب
شاید اس وقت فیصلہ بھی ہمارا تھا لیکن ان کے صرف تائید کے ساتھ تھا۔ یکجہتی ضرور دکھائی تھی، اب تو فیصلہ ہی مشترکہ ہے، فیصلہ مل کر ایک ہی فورم پر ہوا ہے لہٰذا اس میں اور اِس میں تھوڑا سا فرق ہے، آپ اس پہ قیاس نہ کرے۔ ان شاء اللہ سب یکساں طور پر اپنے بھرپور ذمہ داری کے احساس کے ساتھ اس مارچ کو کامیاب بنائیں گے۔
صحافی کے سوال پر جواب
دیکھیے استعفے بھی تو ہم لوگ اس لیے دے رہے تھے اور بات کی جارہی تھی کہ ہم اس کے ذریعے سے فوری طور پر الیکشن حاصل کرسکے۔ لیکن اگر یہی استعفے آج ان حالات میں اور ان دنوں میں الیکشن لینے میں کچھ مشکل پیش کررہی ہے تو پھر اسمبلی کی رکنیت کو طاقت بناکر ان سے حکومت حاصل کی جائے اور الیکشن حاصل کیے جائے۔
صحافی کے سوال پر جواب
دیکھیے جہاں تک پیپلز پارٹی اور اے این پی کا تعلق ہے ہم نے کبھی بھی ان کو اپنا مخالف نہیں سمجھا ہے۔ ہم نے ہمیشہ ان کو اپوزیشن کا حصہ سمجھا ہے۔ تنظیمی طور پر ہرچند کہ وہ پی ڈی ایم کا حصہ نہیں رہے ہیں تاہم پارلیمنٹ کے اندر جناب شہباز شریف صاحب لیڈر آف دی اپوزیشن ہے اور وہاں پر ان کے ڈومین میں یہ سب اکھٹے بیٹھتے ہیں، اکھٹے پارلیمانی پالیسی اور حکمت عملی طے کرتے ہیں۔ تو ایسا بھی نہیں کہ حکمران خوش رہے کہ ہم آپس میں لڑ رہے ہیں، ایک تنظیم کے حوالے سے شاید وہ ہمارا حصہ نہیں، لیکن اس کے علاوہ سوچ اور فکر اس حکومت کے خلاف اس پر اب بھی اتفاق رائے موجود ہے۔
صحافی کے سوال پر جواب
ہمارا ایک واضح مطالبہ ہے چاہے مذاکرات میں یہ بات آئی ہو یا نہ آئی ہو، لیکن ہر وقت استقامت کے ساتھ ہم اس ایک مطالبے پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ ٢٠١٨ میں جو مداخلت انتخابی عمل میں کی گئی تھی، اور ہم جس دھاندلی کے ذمہ دار ان کو ٹہرا رہے تھے آج کے اس بلدیاتی الیکشن میں ہمیں وہ نیوٹرل نظر آئے ہیں اور ان کو ہم نے ایپریشیٹ بھی کیا ہے، اور آپ لوگوں نے دیکھ بھی لیا کہ جب وہ ذرا غیر جانبدار ہوتے ہیں تو پھر نتائج بھی اسی طرح آجاتے ہیں۔
صحافی کے سوال پر جواب
دیکھیے آپ باہر کی عوامی تذکرہ یہاں نہ کرے ہم اپنے ملک کے اندر رہتے ہوئے خودمختار لوگ ہیں، باہر سے تاثر لینا، باہر سے ڈکٹیشن لینا اسی کے خلاف تو ہم جنگ لڑ رہے ہیں۔ لہٰذا آپ کے ملک میں، آپ کے ماحول میں، آپ کے معاشرے میں، آپ کی قوم میں، آپ کے ووٹر میں جب تبدیلی کا ایک احساس پیدا ہوتا ہے تو اس عام آدمی کی سوچ اور فکر کو اگر آپ کہی باہر ملک کے ساتھ جوڑتے ہیں، کہی آپ اداروں کے ساتھ جوڑتے ہیں تو پھر تو آپ قوم کی، ان کی ووٹ کی، ان کی سوچ کی توہین کررہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں ووٹ کی عزت، ووٹر کی عزت، اور اس کی خودمختاری اور آزادی رائے اس کو کسی باہر سے جوڑنا یا ملک کے اندر کسی ادارے سے جوڑنا یہ عام آدمی کی ووٹ کی عزت کی بات نہیں ہے۔ تو اس پر آپ بھی ذرا معذرت کرلے۔
صحافی کے سوال پر جواب
ہر دم آئے اپنا وطن ہے ہم پوری طرح چشم براہ ہے۔ اللہ تعالی پورے جوش و خروش کے ساتھ انہیں اپنے وطن کی سرزمین پر قدم رنجہ فرما ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔
صحافی کے سوال پر جواب
میرے خیال میں اس پر یہاں بات نہیں کروں گا کہ جب انضمام کی بات ہورہی تھی تو میں اس وقت سے اس خدشات کی بات کررہا تھا، خدا نہ کرے کہ ہم کسی مشکل میں چلے جائے، ایک بات بہر حال میں دوستو کی موجودگی میں کرنا چاہتا ہوں کہ برطانیہ گیا تو کشمیر کا تنازعہ چھوڑ کر گیا، عرب دنیا میں اس ر ا ئیل کا تنازعہ چھوڑ کر گیا، ابھی افغانستان سے امریکہ گیا شاید ڈیورنڈ لائن کا تنازعہ چھوڑ کر جانا چاہتا ہے۔ دونوں ممالک کو بڑی احتیاط کرنی چاہیے اور کوئی جذبات میں آکر اپنے لیے نئی مشکل پیدا نہ کرے ہم پرامن طور پر بھی اف غ ا ن س تان کو ایک مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں، مستقل امن کی وہاں ضرورت ہے، چالیس سالہ جنگ کی خاتمہ کی ضرورت ہے۔ اور یہ سازش ہمیں ناکام بنانی ہوگی، خدانخواستہ ہم مشرقی سرحدات کی ستر سالہ مشکل کو آج مغربی سرحد پر منتقل کررہے ہیں۔ یہ غلط پالیسیاں ہوتی ہیں جن سے ہم اپنے وطن کو اور اپنے ریاست کو مشکل کی طرف دھکیل دیتے ہیں۔ ہمیں اس سے بچنا چاہیے۔ آپ سب کا بہت بہت شکریہ
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#TeamJuiSwat ۔
ایک تبصرہ شائع کریں