29 جنوری 2022
خطبہ مسنونہ کے بعد
صاحب صدر، آکابر علماٸے کرام، فضلاء جامعہ، طلباء عزیز، علاقے کے تمام معززیزین، شرکاء اجلاس، میرے بزرگوں، دوستو اور بھاٸیو! میرے لیے انتہائی سعادت کی بات ہے کہ جامعہ قاسم العلوم بھوانی کے اِس احاطے میں بڑے عرصے کے بعد آپ حضرات کے ساتھ ملاقات ہورہی ہے۔ یہ اجتماع اِس لحاظ سے بھی مبارک ہے کہ جامعہ کی فضلاء کی دستار بندی کی گٸی، اِنہیں عالم دین بننے کے اسناد ادا کیے گیے اور سینکڑوں کی تعداد میں بچے اور بچیاں حفظ قران کے دولت سے مالامال ہوٸے، علم دین کا یہ سلسلہ جسے انگریز نے مٹانا چاہا لیکن ہمارے آکابر نے اِن علوم کے لیے مستقل مدرسہ قاٸم کرکے اِس کو تحفظ بخشا ہے۔ اور اِن مدارس میں وحی کے علوم پڑھاٸے جاتے ہیں۔ وحی درحقیقت اللّٰہ رب العزت کی طرف سے براہ راست رہنماٸی کا نام ہے۔ اللّٰہ رب العزت نے آسمانوں میں اِس پیغام کو ملاٸکہ کے حوالے کرکے روٸے زمین پر انبیاء کی جماعت کو حوالے کیا۔
جو دین جناب رسول اللّٰہﷺ کو عطا کیا گیا یہ کامل اور مکمل دین ہے، اور اللّٰہ رب العزت نے اعلان کردیا ”الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا“ آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا ہے، نظام زندگی مکمل ہوگیا ہے، اللّٰہ تعالی نے جو احکامات بھیجے، جو تعلیمات عطا کی، وہ مکمل ہوگٸے، اِسے اکمال دین سے تعبیر کیا گیا ہے، لیکن اللّٰہ رب العزت نے فرمایا ” واتممت علیکم نعمتی“ میں نے اپنی نعمت تم پر تمام کردی، ہمارے علماء اتمام نعمت کو دین کے اقتدار سے تعبیر کرتے ہیں، ایک ہے نظام جس میں آپ کو تعلیم دی جاتی ہے، اخلاقیات کی تعلیم دی جاتی ہے، فراٸض و واجبات کی تعلیم دی جاتی ہے، حرام اور مکروہ بتاٸے جاتے ہیں اور دوسرا یہ کہ اُسے آپ اپنے اوپر نافذ کرے، اِس کو عملی جامہ پہناٸے۔
چنانچہ قران کریم میں اِس حوالے سے تین بڑے شعبوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، پہلی بات یہ کہ آپ کے اندر شخصی زندگی میں عبادت و دیانت ہونی چاہیے ”وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون“ میں نے انس و جن کو صرف اپنی عبادت کرنے کے لیے پیدا کیا ہے، تو انسان کے اندر جو عبدیت ہے یہ خلقتاً انسان کو ودیعت کی گٸی ہے، لیکن عبدیت یہ تشریعی ہے تکوینی نہیں ہے۔ تشریعی عبدیت انسان کے ارادے و اختیار کے حوالے کیا گیا ہے کہ انسان چاہے تو قبول کرلے اور انسان چاہے تو رد کردے، انسان کو اختیار ہے چاہے ایمان لے آٸے اور انسان کو اختیار ہے چاہے وہ کفر کرلے، اِس کا انکار کردے ”قرآنی آیت“ یہ اُس کی مرضی ہے، ” قرآنی آیت“ ہم نے تو صحیح راستہ انسان کو بتا دیا ہے اب یہ اُس کی مرضی ہے کہ اِس کو قبول کرتا ہے یا رد کرتا ہے۔ ”وَماَ اُمِرُوٗا اِلاَّ لِیَعٗبُدوا اللّٰہَ مُخٗلِصِیٗنَ لَہٗ الدّیٗنَ حُنَفَآ وَیُقِیٗمُوا الصَّلٰوةَ وَیٗٶٗتُوا الزَّکٰوةَ وَذٰلِکَ دِیٗنُ الٗقَیِّمَةِ“ انسانوں کو یہی حکم دیا گیا ہے کہ وہ ایک اللّٰہ کی عبادت کرے اور پوری دیانت کے ساتھ، اِس میں اخلاص ہو، للہیت ہو، دیانت ہو، اِس کے بعد اِسی نظام کا اقتدار ”اَلَّذِیٗنَ اِنٗ مَّکَّنّٰھُمٗ فِی الٗاَرٗضِ اَقَامُو الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُالزَّکٰوةَ وَاَمَرُوٗا بِالٗمَعٗرُوٗفِ وَنَھَوٗا عَنِ الٗمُنٗکَرِ“ جن لوگوں کو ہم نے زمین میں اقتدار بخشا ہے پھر وہ نماز بھی قاٸم کرتے ہیں، زکوٰة بھی دیتے ہیں، جانی اور مالی عبادات، انسان کو پابند کردیا گیا، لیکن پھر یہ معروف کا حکم بھی دیتے ہیں اچھے کاموں کا حکم دیتے ہیں اور منکرات اور برے کاموں سے روکتے ہیں۔
اب قران کریم نے تو لفظ وعظ بھی استعمال کیا ہے، شریعت نے لفظ نصیحت بھی استعمال کیا ہے، شریعت نے لفظ دعوت بھی استعمال کیا ہے۔ وعظ، نصیحت، دعوت، تذکیر، اس کی تو منت سماجت بھی کی جاتی ہے، پیار سے بھی بات کی جاتی ہے لیکن جہاں اقتدار کی بات آگٸی تو اقتدار کی بات میں اللّٰہ نے بھلاٸی اور معروف کے لیے لفظ امر استعمال کیا ہے اور منکرات براٸیوں کے لیے اُنہوں نے نہی کا لفظ استعمال کیا ہے، یہ حکم دینا کہ کرو اور حکم دینا کہ مت کرو یہ طاقتور قوت کا کام ہے یہ صوفیوں اور تبلیغیوں کا کام نہیں ہوسکتا، اِس کے لیے باقاعدہ ایک مملکتی نظام ہونا چاہیے، طاقتور نظام ہونا چاہیے۔ پھر دوسری جگہ اللّٰہ نے فرمایا کہ جن کو میں نے اقتدار دیا ہے۔ اب اِس اعتبار سے جو دین کامل اور مکمل کرکے اللّٰہ نے آپ کے حوالے کیا ہے، اِس کو دنیا میں نافذ کرنے کا حکم بھی آپ کو عطا کیا ہے۔ محض تعلیم بہت بڑی نعمت ہے لیکن اِس وقت تک کافی نہیں، اُس وقت تک اِس کو نعمت نہیں کہا جاسکتا جب تک آپ اُس کو باقاعدہ عملی طور پر نافذ بھی نہیں کرتے، نماز کے مساٸل آپ نے مدرسے میں پڑھ لیے اب آپ نماز پڑھتے نہیں ہے، روزے کے مساٸل پڑھ لیے، علم حاصل کرلیا روزہ رکھتا نہیں، زکوٰة کے مساٸل پڑھ لیے، زکوٰة دیتا نہیں ہے، اِسی طرح دین کے تمام احکامات آپ نے پڑھ لیے لیکن وہ ایسے ہی فضا میں اِدھر اُدھر گھوم رہے ہیں، انسانوں پر اِس کو عمل کرنے کے لیے آپ کسی کو آمادہ نہیں کرسکتے، اور پھر یہ کوٸی علاقاٸی مذہب نہیں ہے، یہ کوٸی ایک زمانے تک خاص مذہب نہیں ہے، یہ تمام انسانوں کے لیے ہے۔ اور اس حوالے سے اللّٰہ رب العزت نے جناب رسول اللّٰہﷺ کو دین ابراہیمی کی پیروی کا حکم دیا ہے ” قرآنی آیت“ اب جب دین ابراہیمی کی پیروی کا حکم اللّٰہ نے عطا کیا تو حضرت ابراہیم کیا تھا ” اِنِّی جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامَا“ میں تو تمہیں ساری انسانیت کا امام بنانے والا ہوں۔ تو جب حضرت ابرہیم سارے انسانیت کے لیے امام بن گٸے تو اُن کا دین عالمی دین بن گیا اور جب رسول اللّٰہﷺ کو حکم دیا کہ ”قرآنی آیت“ تو پھر اِس کا معنی یہ ہے کہ اب آپ کو جو دین دیا جارہا ہے یہ بھی عالمی دین ہے عالمگیر اور آفاقی ہے، یہ کسی خاص زمانے یا خاص وقت کے ساتھ خاص نہیں ہے، جس طرح آج کل لوگ کہتے ہیں چودہ سو سال پہلے کا دین ہے آج کے زمانے میں فٹ نہیں ہوتا، یہ گمراہی اور ذلالت ہے، یہ ایک طرح کا انکار ہے۔ چنانچہ رسول اللّٰہﷺ کو بھی حکم دیا گیا ” قُل یَااَیُّھَاالنَّاسُ اِنِّ رَسُولُ اللّٰہِ عَلَیکُم جَمِیعَا“ تمام انسانیت کو کہہ دو کہ میں تم سب کی طرف سے اللّٰہ کا پیغمبر ہوں، تو عالمگیر ہوگیا۔ اب جو اُمت رسول اللّٰہﷺ کو عطا کی گٸی ” کُنتُم خَیراً اُمَّتً اُخرِجَت لِلنَّاس تَامُرُونَ بِالمَعرُوفِ وَتَنھُونَ عَنِّ المُنکِر“ امت کا کام بھی یہ ہے کہ اللّٰہ کے اِس دین کو پورے کرہ ارض پر نافذ کرنے کے لیے نکلے اور ایسی قوت حاصل کرے کہ وہ بھلاٸی کا حکم کرے اور براٸی سے روک سکے۔
تو اِس اعتبار سے اللّٰہ تعالی نے اِس عظیم الشان دین سے ہمیں وابستہ کیا، لیکن ہمارے ماحول میں، اور یہ ماحول انگریز کے زمانے سے ہمیں منتقل ہوا ہے۔ آج بھی ہماری بیورو کریسی، ہماری اسٹبلشمنٹ، ہمارا نظام حکومت آج بھی یہی سبق لوگوں کو سکھاتا ہے یہ سیاست کا دین سے کیا تعلق ہے۔ سیاست انبیاء کا وظیفہ ہے ”کانت بنی اسراٸیل تسوسو ھم الانبیاء“ بنی اسراٸیل کی سیاست اُن کے انبیاء کرتے تھے ایک جاتا تھا دوسرا اُس کی جگہ لیتا تھا، یہ جو ہم مولوی صاحبان جلسے کرتے ہیں اور ختم نبوت کے عنوان سے کرتے ہیں تو بڑی معصومیت کے ساتھ یہ عنوان سیاست سے بالاتر ہے۔ یہ اُمت کا متفقہ فیصلہ ہے، کیا دین اسلام امت کا متفقہ مسٸلہ نہیں ہے اور جناب رسول اللّٰہﷺ نے ”ولا نبی بعدی“ کو سیاست کے زمرے میں اور اُس کے ذیل میں شمار نہیں کیا، میں آخری سیاستدان، سیاسی نظام دینے والا ہوں۔
اب پیغمبر تو نہیں آٸے گا ”وسیکون بعد الخلفا“ میرے بعد میں خلیفہ ہوں گے، اور ہم نے دین اسلام کو کہا کھڑا کردیا ہے۔
جمعیت علماء اسلام نے، ہرچند کے لوگ کہتے ہیں کہ یہ تو مدرسوں کے مولوی صاحبان ہیں، لیکن اسلام کی جامعیت، اسلام کی آفاقیت، اسلام کی عالمگیریت، اگر دنیا کو منواٸی ہے عام مسلمان کو منواٸی ہے تو الحَمْدُ ِلله آج جمعیت علماء اسلام نے دنیا کو منواٸی ہے (نعرہ تکبیر اللہ اکبر)۔
اسلام مملکتی نظام کے لیے دو ترجیحات رکھتا ہے ایک یہ کہ عام آدمی کو امن مہیا کرو دوسرا یہ کہ عام آدمی کی معیشت کو بہتر کرو اُس کے روزگار کا انتظام کرو، لوگوں کو امن مہیا کرو یعنی لوگوں کے انسانی حقوق جان، مال، عزت و آبرو، حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب اللّٰہ نے پوری انسانیت کا امام بنایا تو آپ نے جو دنیا کو ایک نٸے نظام کے حوالے سے اللّٰہ سے درخواست کی ”وَاِذ قاَلَ اِبرَاہِیمُ رَبِّ اجعَل ھٰذَا بَلَدًا اٰمِناً وَّارزُق اَھلَہُ مِنَّ الثَمَرات مَن اَمَنَ مِنہم باللّٰہ والیوم الاخر“ ابراہیم علیہ السلام نے امن مانگا اور خوشحال معیشت مانگی اور صرف اِس کے لیے جو اللّٰہ پر اور یوم آخرت پر ایمان لے آتا ہے، لیکن اللّٰہ رب العزت نے فرمایا ”قرآنی آیت“ جس نے میرا انکار بھی کیا، میرے دین کو قبول بھی نہیں کیا اُس کو بھی یہ حقوق دوں گا۔ اب ہمارے ہاں کیا ہے ہم کس حد تک احساس کمتری میں چلے گٸے ہیں، ہم کر کیا رہے ہیں، جب انسانی حقوق کی بات آٸے گی تو پھر امریکہ اور مغربی دنیا اُس کے لیے دعویدار بن جاتے ہیں، جب معیشت کی بات آٸے گی تو روس اور چین اُس کے دعویدار بن جاتے ہیں، اور ہم بھی سمجھتے ہیں کہ واقعی امریکہ اور مغرب انسانی حقوق کے علمبردار ہیں، اور واقعی روس اور چین وہی انسانیت کے معاش کے لیے فکر مند ہیں، جب کہ آپ کا دین ابراہیمی سب سے پہلے اِن مقاصد کو اجاگر کرچکا ہے۔ دنیا میں جزا و سزا کا مدار بھی اللّٰہ کے نعمتوں کا شکر ادا کرنے والا اور نہ کرنے والا، تو اِس لحاظ سے بھی اللّٰہ رب العزت نے تمام انسانی حقوق کے تحفظ کا قانون دیا ہے۔ اور اللّٰہ رب العزت نے سوساٸٹی میں، مملکت کے اندر خوشحال معیشت کی بات کی ہے۔
اب تمام انسانی حقوق اس کا نظام بھی اللّٰہ ہمیں عطا کرتا ہے ”قرآنی آیت“ ایک آبادی کا ذکر کرتے ہیں اُس کا اَمن اور باہمی اطمینان اور سکون اُس کی بنیاد خوشحال معیشت کو بتایا ہے لیکن جب لوگوں نے اللّٰہ کی اُن نعمتوں کا انکار کیا، نافرمانیاں شروع کی ” قرآنی آیت“ خوف بھی مسلط کیا، کیا بدامنی بھی آگٸی اور بھوک پیاس بھی آگٸی، پھر اللّٰہ نے اُن کو مزہ چھکا دیا۔ آج اُن دونوں بیماریوں میں ہم مبتلا ہیں یا نہیں، جس ملک کو ہم نے لاالہ الااللہ پر حاصل کیا تھا، جو نظام امن کی ضمانت دیتا ہے، حقوق کی ضمانت دیتا ہے، ہم نے کہا نہیں اللّٰہ کی وحی ہماری رہنماٸی نہیں کرتی نعوذباللّٰہ ہمارا اپنا عقل کام کرے گا۔ اور اِس طریقے سے آج چوہتر سال ہوگٸے ہم نے چوہتر سال لاالہ الااللہ کلمے کا مذاق اڑایا ہے، ہم نے اِن مدارس کا مذاق اُڑایا ہے، ہم نے اِن علماء کا مذاق اُڑایا ہے، ہم نے اِن مساجد کا مذاق اُڑایا ہے، دینداری کا مذاق اُڑایا ہے۔ کیسے راحت آٸے گی، کیسے سکون آٸے گا۔ بڑا سے بڑا سیاستدان کیوں نہ ہو، بڑا سے بڑا جرنیل کیوں نہ ہو، بڑا سے بڑا بیورو کریٹ کیوں نہ ہو، تمام تر اختیارات اس کے ہاتھ میں مرتکز ہو، لیکن اگر وہ اللہ کی دی ہوٸی رہنماٸی، اُس کی تعلیمات کو ضروری نہیں سمجھتا بخدا وہ ملک کے نظام کی اصلاح نہیں کرسکے گا، رعب داب کرتے رہو، کوٸی وردی پہن کر ہم پر رعب کرتا ہے، کوٸی بیورو کریٹ بن کر ہم پر رعب کرتا ہے، کوٸی جاگیردار بن کر ہم پر رعب کرتا ہے، کوٸی سرمایہ دار اور نواب بن کر ہم پر رعب کرتا ہے، غریب انسانیت اور معاشرے کی قدر و قیمت نہیں ہے اور اگر کوٸی لوگ اللّٰہ کی دین کی رہنمائی میں زندگی گزارنا چاہتے ہیں اُن کو آپ حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
اِس فکر اِس نظریے کے خلاف جمعیت علماٸے اسلام ایک جنگ کا نام ہے اِس کے لیے تیار ہو جاٸے۔ ایک دن میں نہیں آیا، ہم تو جمہوری سیاست کرتے ہیں نا، تو جمہوری سیاست میں تدریجی اصلاحات ہوتی ہے لیکن پاکستان میں جمہوریت کا جو تجربہ ہے وہ بھی ناکام تجربے کی طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ بندوق کے راستے سے ہمیں اسلام نہیں چاہیے، ٹھیک ہے بھٸی بندوق نہیں اٹھاتے، جمہوری راستے سے چاہیے جب سے اسمبلیاں پاکستان میں بنی ہے ایک قانون آج تک ہم نہیں بناسکے اور وہ جو آٸین بنا تھا اُس پر عمل درامد نہیں ہے۔ تو ہم تو اُسی کی بات کررہے ہیں، مدرسے تو اُسی کی بات کررہے ہیں، مساجد اور ممبر کی محراب سے تو یہی باتیں اُٹھتی ہے۔ اور جب آپ اندر سے عبادت و دیانت، مملکتی اقتدار، قران و سنت، تو پھر آپ کو دفاعی قوت کی بھی ضرورت ہوتی ہے اُس کے سرحدات کی حفاظت بھی کرنی پڑتی ہے ” وَاَعِدوُالَھُم مَااستَطَعتُم مِن قُوَّةٍ وَّمِن رِّبَاطِ الخَیل تُرھِبُونَ بِہ عَدُوَاللّٰہِ وَعَدُوَکُم“ تو عبادات کی دنیا، سیاست و اقتدار کی دنیا اور دفاع کا نظام یہ تینوں شریعت کے مستقل عنوانات ہے۔ جس کا میدان الگ الگ ہے لیکن باوجود اِس کے میدان الگ الگ ہیں پھر بھی آپس میں متلازم ہیں ایک دوسرے کے بغیر الگ نہیں رہ سکتے۔
تو اِس لحاظ سے ہم نے جو نظام بنایا ہے، اب جمہوریت کیا ہے لوگ خط مبحث کرتے ہیں تشکیل حکومت اور نظام حکومت میں فرق نہیں کرتے، تشکیل حکومت میں عوام کی مرضی ہے لیکن نظام حکومت میں انسان کی مرضی نہیں ہے وہ اللّٰہ کی مرضی کے مطابق چلنا ہے۔ جیسے آپ کے محلے میں آپ کے مسجد کا امام لوگوں کے مرضی کے بغیر مصلے پر کھڑا نہیں ہوسکتا، کوٸی بھی امام کسی بھی گاٶں یا محلے میں مسجد کے مصلے پر جبراً قبضہ نہیں کرسکتا، وہ اپنے مقتدیوں کی مرضی سے آتا ہے، اُن کی رضامندی سے امام بنتا ہے۔ لیکن امام بننے کے بعد اُس کا یہ اختیار نہیں ہے کہ نماز بھی اپنی مرضی کے پڑھے، نماز وہی پڑھے گا جو اللّٰہ کی طرف سے حکم ہوا ہے، جس طرح اُس کو تعلیم دی گٸی ہے۔ اِسی طریقے سے تشکیل حکومت میں اُمت کی، قوم کی خواہش و اختیار، لیکن جب حکومت قاٸم ہو جاٸے تو پھر نظام حکومت قران و سنت کے تابع ہوگا۔ اور آج کل ہمارے مولوی صاحب جو ہے میرے خیال میں اگر اُس کو نکاح طلاق کا مسٸلہ درپیش ہو جاٸے تو پھر میرے خیال میں وہ مولوی قمر الدین کے پاس جاٸے گا یا مولوی فیض محمد کے پاس یا غلام قادر کے پاس، کہ جی مجھے یہ مسٸلہ درپیش ہوگیا ہے آپ میری رہنماٸی کرے لیکن اگر کفر کا فتویٰ لگانا ہو تو پھر ہر ایک آدمی اپنے آپ کو کہتا ہے کہ میں مفتی ہو، جو سب سے مشکل فتویٰ ہے اِس کے لیے ہر ایک مفتی بنا ہوا ہے۔
آج پاکستان میں بھی ہمیں یہی مسٸلہ درپیش ہے کہ ہمارے حکمران وہ عوام کی راٸے سے نہیں بنتے، ہمارے ہی شکل و صورت کے مولویوں نے بڑی وکالت کی اب یہ امیر ہے اب اِس کی اطاعت واجب ہے، وہ امیر نہیں ہے دھاندلی سے آیا ہے، ناجائز ہے، بداخلاق ہے، بدکردار ہے، نااہل ہے، نالاٸق ہے، تو اِس لیے ہم نے تو بیعت ہی نہیں کی۔ اب آپ مجھے بتاٸے آپ یہاں پر بڑے معزیزین لوگ بیٹھے ہیں، قوم کے بھی بڑے ہیں، علمی دنیا کے بھی بڑے بڑے لوگ یہاں بیٹھے ہیں، بطور ایک عام مسلمان کے اور ایک عام شہری کے اپنے اندر آپ ذرا سوچ لے کیا اس قسم کا حکمران یہ ہماری حمیت، ہماری غیرت، ہمارا عزت نفس اِس کو قبول کرسکتا ہے (نہیں نہیں کی آوازیں)۔
تو میرے محترم دوستو! اب عجیب عجیب باتیں شروع کی، آج کل آپ مجھے بتاٸے جو خارجہ پالیسی ہے یاد رکھے کسی بھی ملک کی کامیاب خارجہ پالیسی تب مرتب ہوسکتی ہے اگر آپ معاشی طور پر مستحکم ہے، جب آپ معاشی طور پر مستحکم ہے دنیا آپ سے کاروبار کرنا چاہے گی، جب دنیا آپ سے کاروبار کرنا چاہے گی وہ آپ کی عزت کرے گی اور اچھے تعلقات بناٸے گی۔
ستر سال کے بعد چین کے ساتھ ہماری دوستی جس کو ہم کہتے تھے یہ ہمالیہ سے بلند ہے اور بحرالکاہل سے گہری ہے اور شہد سے میٹھی ہے اور لوہے سے مظبوط ہے وہ معاشی دوستی میں منتقل ہوگٸی، تو اچھا ہوگیا وہ کاشغر سے لے کر گوادر تک اتنا بڑا تجارتی شاہراہ جو بین الاقوامی تجارتی شاہراہ ہے، ہمارے اِن حکمرانوں نے اُس کو تباہ و برباد کردیا۔ کہتا ہے موٹروے نہیں ہونا چاہیے، موٹروے پر رفتار تیز ہوتی ہے، تیز رفتاری میں ٹاٸر جلدی پرانے ہوجاتے ہیں، اُس کے پرزے جلدی گھس جاتے ہیں، خرچے بڑے آتے ہیں، اب آپ بتاٸے کس نے اسے گاڑی کا انجینٸر بنایا ہے۔ لوگوں کو کاروبار کی سہولت مہیا ہوتی ہے، لوگ زیادہ پیسہ کمالیتے ہیں، لوگوں کی تجارت بڑھ جاتی ہے، آمدن کے وساٸل بڑھ جاتے ہیں۔ جو چیزیں عام آدمی کی معاشی خوشحالی کی بنیاد اور اساس ہیں انہوں نے اِس کا بھی بیڑہ غرق کردیا۔ نوجوانوں تمہیں یاد ہے اِس نے کہا تھا ایک کروڑ نوکریاں دوں گا، سنہ 47 سے لے کر آج دن تک پاکستان کے اندر کل نوکریاں چھوٹی سے لے کر بڑی نوکری تک اِن چوہتر سالوں میں ایک کروڑ تک نہیں پہنچی اور اِس نے ہمیں ایک سال کے اندر ایک کروڑ نوکریاں دینی ہے، کس عقل کی بنیاد پر اِس سے امیدیں وابستہ کی گٸی۔
عجیب شے ہے کبھی کہتا ہے پاکستان میں چین جیسا نظام ہونا چاہیے اب ظاہر ہے اِس نے مطالعہ کیا ہوگا لوگ سمجھتے ہیں شاٸد کوٸی بڑا اچھا نظام ہوگا، چند دن گزرتے ہیں کہتا ہے پاکستان میں ایران جیسا انقلاب آنا چاہیے، یااللّٰہ پرسوں تو کوٸی اور تھیوری تھی آج کوٸی اور تھیوری آگٸی، چند دن گزرتے ہیں کہتا ہے پاکستان میں امریکہ جیسا نظام لانا چاہتا ہوں۔ اُس کے بعد اِس پر منکشف ہوتا ہے کہ نہیں مجھے یہاں پاکستان میں ریاست مدینہ بنانا چاہیے، اب اِن کو دیکھو اور ریاست مدینہ کا تصور دیکھو، کہاں وہ نفوس قدسیہ، کہاں وہ پاک لوگ اور کہاں یہ نجاست اور نحوستیں، کوٸی نسبت ہے۔ تو ہمارا تو نہ ایمان نہ غیرت ایسے لوگوں کی حکمرانی تسلیم کرتی ہے، یعنی ایسے حکمرانوں کی وہ باتیں جو میری شرافت مجھے اجازت نہیں دیتی کہ میں مجمع عام میں کہہ سکوں، یہ ہمارے حکمران ہے۔ اور کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے ہمارے پانچ سالوں میں ترقی نہیں ہوٸی تو رسول اللّٰہﷺ کے پانچ سالوں میں بھی تو ترقی نہیں ہوٸی۔ پھر حدیث اور واقعہ مدینے کا ہے اور یہ مکّی زندگی کے اُوپر فٹ کررہا ہے، اِس کے دین کا علم بھی اتنا بڑا ہے۔ تمہارے ناپاک مقاصد ہم جانتے ہیں کس طرح تم نے آٸین سے اسلامی دفعات نکالنے کا ایجنڈہ باہر سے لیا، کس طرح تم نے ناموس رسالت کا قانون ختم کرنے کا ایجنڈہ باہر سے لیا، کس طرح تم نے ختم نبوت کے عقیدے کو آٸین سے نکالنے کا ایجنڈہ باہر کی دنیا سے لیا، کس طرح تم نے امریکہ سے سی پیک ختم کرنے کا ایجنڈہ لیا۔ آج صورتحال تبدیل ہورہی ہے، ہم نے ہمت کرنی ہے، پبلک نے ہمت کرنی ہے۔ امریکہ اپنے قوت بازو پر اپنے ٹیکنالوجی پر اپنے ساٸنس پر بڑا گھمنڈ ہے بیس سال پہلے ا ف غ ا ن ستان میں آیا اور کہا کہ میں تین مہینے کے اندر د ہ ش ت گردی کو ختم کردوں گا، بیس سال کے بعد دم دبا کے بھاگ گیا۔ شکست خوردہ ملک، اب ایسا ملک انسانی حقوق کی بات کرتا ہے۔ ان کے سفرا میرے پاس آٸے تھے کہ جی ہمارا مطالبہ ہے کہ ا ف غ ا ن ستان میں انسانی حقوق محفوظ ہو، میں نے کہا کون سے انسانی حقوق، وہ جو تم نے گوانتاناموبے میں کیا وہ انسانی حقوق، جو کچھ تم نے سمندر میں کھڑے بیڑیوں میں انسانیت سے کیا وہ انسانی حقوق، جو کچھ تم نے شبرغان جیل میں قیدیوں کے ساتھ کیا وہ انسانی حقوق، جو کچھ تم نے بگرام کے عقوبت خانوں میں انسانوں کے ساتھ کیا وہ انسانی حقوق، انسانی حق انسانی حق، یعنی انسانی حقوق کا قاتل دعویٰ کرتا ہے کہ میں انسانی حقوق کا محافظ ہوں۔ جس کے ہاتھ سے پوری انسانیت کا خون ٹپک رہا ہے وہ کہتا ہے میں انسانیت کی قیادت کرتا ہوں، تو کم از کم یہ بات تو واضح ہوگٸی کہ ا ف غ ن ستان میں شکست کھانے کے بعد اب امریکہ دنیا کی سپر طاقت نہیں رہا (نعرہ تکبیر اللّٰہ اکبر)۔
میرے محترم دوستو! ملک کی معیشت تباہ و برباد ہوگٸی ہے، ملک کی امن و امان تباہ و برباد ہوگٸی ہے۔ ہمارے ہاں قباٸل کا انضمام کیا گیا، آپ نے قباٸل کو کیا دیا، بلوچستان میں خونریزی ہورہی ہے، کراچی میں خونریزی ہورہی ہے، فاٹا کے علاقوں میں ہورہی ہے، پھر کہتے ہیں جی ہم نے تو امن قاٸم کرنا ہے ہم تو امن والے ہیں۔ کیا امن ہے سواٸے اِس کے کہ آپریشن کے نام پر باہر سے پیسے اور ڈالر بٹورے۔ اِس طریقے سے ملک نہیں چلا کرتے، ملک چلانے کے لیے کردار بھی ہونا چاہیے، عقل بھی ہونی چاہیے۔ معیشت تمہاری ہے نہیں اور خارجہ پالیسی بنارہے ہو۔ آج کل پھر ایک بڑی بات کی، قومی سلامتی پالیسی، نیشنل سیکیورٹی پالیسی، جب معیشت ہی تمہاری ختم ہے کس اَساس پر تم قومی سلامتی پالیسی بناسکتے ہو، اِس کے لیے تو بنیاد اور اَساس اُس کی ریڑھ کی ہڈی تو معیشت ہے مظبوط معیشت، آپ نے تو معیشت کے سارے دروازے بند کردیے۔ قوم کو پڑھایا جارہا ہے اَنڈے بیچو، مرغیاں بیچو، کٹے بیچو اور خریدو بس آپ کی معیشت بہتر ہوجاٸے گی، اِس کے ساتھ ریاست کا کیا تعلق ہے۔ یہ تو شہری کا شہری کے ساتھ براہ راست تعلق ہے، ایک شہری گھر سے نکل کر میلے میں جاتا ہے وہاں اپنی گاٸے بیچ دیتا ہے، بھینس بھی بیچ دیتا ہے، کٹا بھی بیچ دیتا ہے، انڈہ بیچ دیتا ہے خرید بھی لیتا ہے اور واپس آجاتا ہے یہ پبلک ٹو پبلک معاملہ ہے اس کا ریاست کے ساتھ کیا تعلق ہے، پھر دوسرا مرحلہ آتا ہے جو شہری اور ریاست کے بیچ میں معاملہ آتا ہے، میڈیم قسم درمیانی قسم کے کاروبار، کوٸی آپ چھوٹا سا یونٹ لگانا چاہتے ہیں آپ نے بینک سے قرضہ لے لیا، آپ نے کام شروع کردیا، متوسط قسم کا طبقہ اِس قسم کے کام کرتے ہیں، لیکن میگا پراجیکٹ یہ بین الاقوامی کمپنیوں کے بغیر نہیں ہوتا، اِس سے امریکہ بھی بے نیاز نہیں، چین بھی بے نیاز نہیں، یورپ بھی بے نیاز نہیں، اِس حکومت نے ہمیں پانچ سال میں کیا پڑھایا، کیا دیا، ابھی کہتا ہے کہ اگر مجھے نکالا گیا میں باہر بڑا خطرناک ثابت ہو جاوں گا۔ تو اب آ تو سہی ذرا پبلک میں، قومی مجرم کی طرح لوگ تمہارا محاسبہ کریں گے، پاکستان کا بڑا قومی مجرم اب ذرا قوم کے سامنے آکر تو دکھاٸے، میں باہر آوں گا تو بڑا خطرناک ثابت ہوگا تو پھر امریکہ جاوں ان کے لیے خطرناک بن جاو، پھر یورپ جاو اُن کے لیے خطرناک بن جاو، کس کے لیے خطرناک، کس کو ڈرا رہے ہو، تم ہو کیا چیز، کیا پدی کیا پدی کا شوربہ، تیری حیثیت کیا ہے، ہم نے تو پہلے دن بھی تمہیں ٹکے کا نہیں سمجھا ہم آج بھی تمہیں ٹکے کا نہیں سمجھتے (نعرہ تکبیر اللّٰہ اکبر)۔ جن کی کرسی اپنی تھی اُن کی کرسی مظبوط ثابت نہیں ہوسکی تو تم تو پراٸی کرسی پر بیٹھے ہو۔
تو میرے بلوچستان کے دوستو! الیکشن آٸیں گے ضرور آٸیں گے ان شاء اللّٰہ، آپ کی جدوجہد اور قربانیاں راٸیگاں نہیں جاٸے گی، میں تو خود ذاتی طور پر آپ جانتے ہیں کہ بلدیاتی الیکشن کے خلاف تھا کہ ہمارا اصل مطالبہ کچھ اور ہے، لیکن جب جماعت نے کہا کہ نہیں ہم پارلیمانی لوگ ہے ہمیں حصہ لینا چاہیے، تو صوبہ خیبر پختونخواہ میں اُنہوں نے پہلے مرحلے میں مار کھایا کہ نہیں، اور دوسرے مرحلے میں بھی مار کھاٸے گے پھر صوبہ بلوچستان میں بھی مار کھاٸے گے ان شاء اللّٰہ۔
تو میرے محترم دوستو! حوصلے سے رہے، مومن کبھی بزدل نہیں ہوا کرتا، بزدلی یہ ہماری سرشت میں نہیں ہے، موت اور زندگی، میں نے کسی سے زندگی کی بھیک مانگنی ہے، عزت اور ذلت کوٸی انسان ہمیں دے سکتا ہے، روزی روٹی ہمیں کوٸی انسان دے سکتا ہے، پھر خوشامد کس چیز کی، موت کا جو وقت مقرر ہے ایک لمحہ اُس سے آگے نہیں ہوسکتا، جو دانہ اللّٰہ نے میرے قسمت میں لکھا ہے کسی کا باپ بھی وہ نہیں چھین سکتا، جو عزت اللّٰہ نے میرے لیے لکھی ہے کوٸی نہیں چھین سکتا، اِنہوں نے ہمیں بدنام کرنے کی کتنی کوششیں کی، کوٸی کمی اِنہوں نے نہیں چھوڑی۔ لیکن ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ ہم ان شاء اللّٰہ ڈٹے ہوٸے ہیں اور ڈٹے رہیں گے ان شاء اللّٰہ، اب یہ ہل چکے ہیں، اب یہ گرتی ہوٸی دیوار ہیں بس ایک دھکے کی ضرورت ہے۔ اور پورا ملک 23 مارچ کو ان شاء اللّٰہ اسلام آباد کی طرف روانہ ہوگا۔
تو ان شاء اللّٰہ العزیز ایسے حکمرانوں کے خلاف ہمارا یہ جہاد جاری رہے گا اور آنے والے مستقبل میں اللّٰہ سے خیر مانگے، اللّٰہ سے کامیابی مانگے، تمام دوست اپنے گھروں میں اللّٰہ کی طرف رجوع کرنے کا اہتمام کرے، دعا کرے میرے لیے بھی اور پوری جمعیت علماٸے اسلام کے لیے بھی دعا کرے، اللّٰہ کے دین کے لیے دعا کرے، پاکستان کے لیے دعا کرے ایک روشن پاکستان ایک مستحکم پاکستان ایک مستقل پاکستان اِس کے لیے ہم نے آگے بڑھنا ہے اور جدوجہد کرنی ہے، اللّٰہ تعالی ہم سب کو سرخروٸی اور کامیابی عطا فرماٸے۔
واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر ٹیم جے یو آٸی سوات
#teamjuiswat
ایک تبصرہ شائع کریں