اسلام آباد قائد جمعیۃ حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب کا دارالعلوم زکریا ترنول کے سالانہ روحانی، علمی و تربیتی اجتماع سے خطاب تحریری صورت میں 10 فروری 2022


 اسلام آباد قائد جمعیۃ حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب کا دارالعلوم زکریا ترنول کے سالانہ روحانی، علمی و تربیتی اجتماع سے خطاب تحریری صورت میں

 10 فروری 2022

خطبہ مسنونہ کے بعد

جناب صدر محترم، آکابر علماٸے کرام، مشاٸخ عظام، طلبا عزیز، میرے بزرگو، دوستو اور بھاٸیو! اللّٰہ تعالیٰ نے توفیق عطا کی اور آج کے اِس روحانی مرکز میں اور روحانی طور پر خوشبودار اور خوشگوار ماحول میں آپ کے درمیان کچھ وقت بیٹھنے کا شرف حاصل ہوا، مجھ جیسے ایک طالب علم کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ میں آکابر علماء کی موجودگی میں آپ کو کچھ بتا سکوں، لیکن ہماری اجتماعات کے روایات ہیں کہ جب کہاں جاٸے کہ آپ نے بولنا ہے تو پھر بولنا بھی پڑتا ہے۔

ہمارے بزرگ حضرت مولانا عزیز الرحمن ہزاروی صاحب رحمہ اللّٰہ اُن کا یہ لگایا ہوا پودا اللّٰہ رب العزت ہمیشہ برقرار رکھے اور اللّٰہ کرے کہ ہم اِس پھلدار میوے سے ہمیشہ کچھ حاصل کرتے رہے۔

بار بار ایک لفظ کہا جارہا ہے کہ یہ خانقاہیں اور خانقاہیں اور خانقاہیں، ہمارے آکابر نے ہمیں دین کی جو تعلیم عطا کی ہے اُس میں بڑی جامعیت ہے، شریعت ایک راستہ ہے جسے ہمارے آکابر نے تعلیم الاحکام کا نام دیا ہے، راستہ نہ ہو تو جانا کدھر ہے، تو تخلیقی انسانیت بے مقصد ہو جاتی ہے، ایک دوسری اصطلاح جو ہمارے ہی ماحول میں استعمال ہوتی ہے وہ طریقت کی ہے، جس کو ہمارے بزرگ تہذیب الاخلاق سے تعبیر کرتے ہیں، یہ راستے پہ چلنے کے ڈھنگ اور اُس پر چلنے کے اسلوب سکھاتے ہیں، راستہ تو ہے لیکن آپ کو اُس کے چلنے کے نہ تو آداب معلوم ہے نہ اُس پر چلنے کا کوٸی طریقہ معلوم ہے، اِس راستے کے مشکلات کیا ہے اُس کا اندازہ آپ نہیں لگا سکتے، منزل تک پہنچے گے کیسے، اُس کے بارے میں آپ کو کچھ بھی معلومات راستے کے نہیں ہے، تو اِس اسلوب کو سمجھنا اِس کو ہم طریقت کہتے ہیں، لیکن جب آپ ایک راستے کے مسافر بنتے ہیں اور آپ کو اُس راستے پہ چلنے کے اُسلوب بھی آجاتے ہیں، تاہم اُس راستے میں رکاوٹیں آتی ہیں، پتھریلی زمین آگٸی، جھاڑیاں آگٸی، پہاڑی ماحول آگیا، ندی نالہ آگیا، اب اِس مشکل کو عبور کیسے کریں گے، راستے کے اِس مشکل کو دور کرنے کے عمل کو سیاست کہتے ہیں، اور جن کو ہمارے آکابر تنظیم الاعمال سے تعبیر کرتے ہیں، اور ظاہر ہے کہ جب کوٸی پتھریلی زمین، جھاڑیاں اِس قسم کے راستے میں آتی ہے تو دور کرنے کے لیے اُسی کے مناسبت سے آوزار بھی اُٹھانے پڑتے ہیں اور پھر جب آپ اُن آوزار کو استعمال کرتے ہیں تو اُس سے کچھ شور کی آواز بھی اُٹھتی ہے، تو سیاست کے راستے میں کچھ شور شرابہ ہوتا رہتا ہے، یہ اُس کے لوازمات میں سے ہیں۔

ہم جس ماحول میں بیٹھے ہیں اِس ماحول میں ہمیں یہی جامعیت ملتی ہے کہ یہاں شریعت بھی ہمیں ملتی ہے، یہاں ہمیں طریقت بھی ملتی ہے اور یہاں ہمیں سیاست بھی ملتی ہے، لیکن اللّٰہ رب العزت نے دین کو کامل اور مکمل کرکے انسانیت کے حوالے کیا ہے، اب جب دین مکمل ہوگیا تو کسی اور دین کی ضرورت نہیں رہی، اور جب دین مکمل ہوگیا تو اب کسی نٸے پیغمبر کی بھی ضرورت نہیں رہی، اور جب دین مکمل ہوگیا تو اب کسی وحی کی بھی ضرورت نہیں رہی، تو اللّٰہ رب العزت نے خود اعلان فرمایا ”الیوم اکملت لکم دینکم“ آج میں نے تمہارا دین تمہارے لیے مکمل کردیا ہے، سو ایک چیز ہمارے سمجھ میں آگٸی جس کو کہتے ہیں اکمال دین، اور ظاہر ہے کہ اکمال دین چاہے کتاب اللّٰہ کی صورت میں ہو، چاہے احادیث صحیحہ کی صورت میں ہو، وحی مطلوع کی صورت میں ہو یا وحی غیر مطلوع کی صورت میں ہو، وحی جلی کی صورت میں ہو یا وحی خفی کی صورت میں ہو، تعلیمات و احکام کے اعتبار سے دین مکمل ہے اور آپ کے حوالے کردیا ہے۔ اور اِس کے بعد اللّٰہ رب العزت نے فرمایا ”واتممت علیکم نعمتی“ میں نے اپنی نعمت تم پر تمام کردی، تو یہ دوسری چیز سامنے آگٸی وہ ہے اتمام نعمت، اب اِس اتمام نعمت کو ہمارے آکابر نے تعبیر کیا ہے کہ یہ کامل اور مکمل دین کی سیاست اور اقتدار کا نام ہے، کوٸی شے جب مطلق ذکر ہوتی ہے تو خارج میں فرد کامل مراد ہوتا ہے، تو اتمام نعمت سے اِس دین کا اقتدار مقصود ہے، اور اللّٰہ رب العزت نے جو ترتیب رکھی ہے، ترتیب بھی اللّٰہ نے کچھ اِس طرح رکھی ہے کہ تخلیق انسان کی مقصد کو فرمایا ”وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون“ میں نے انس و جن کو صرف اور صرف اپنے عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ ”آیت کریمہ“ اب یہاں پر انسان کے اندر خلقتاً عبدیت ودیعت کردی گٸی ہے، انسان کو اللّٰہ کا بندہ بننا ہے اِس کا تعلق فرد سے ہے، اور تعلق ہر فرد کے دل کے ساتھ ہے کہ دل مومن ہو جاٸے، دل کے اندر عبادت رچ بس جاٸے، دیانت رچ بس جاٸے۔

اب جب آپ حجرے میں بیٹھتے ہیں تو اِس کا معنی یہ ہوتا ہے کہ عبادت اور دیانت کے لیے پُرسکون ماحول چاہیے، جو کسی قسم کے شور شرابے، جھگڑے، افراتفری، اضطراب اُس سے بلکل یکسوں ہوکر، اب یہ عبادت آپ کو ایک تربیت دے رہی ہے کہ جب اللّٰہ کی بندگی اور دیانت کے لیے پُرامن اور پُرسکون ماحول چاہیے، اب اِس کو اگر آپ نے حجرے میں بند کردیا، اور اب آپ نے کہہ دیا کہ ساری زندگی حجرے کے پُرامن ماحول میں گزارتا رہوں گا تو اسلام کا اُصول ہے ”لا رہبانیتہ فی الاسلام“ اور پھر یہ شکل رہبانیت کی ہے، لہذا دین اسلام کے مزاج کا تقاضہ یہ ہے کہ یہی سکون، یہی امن جو آپ نے اپنے ایک محدود ماحول میں اپنے لیے پیدا کیا، اور ڈھونڈا اور پھر اِس کو قاٸم کیا، یہی امن یہی سکون اور یہی اطمینان اب آپ معاشرے کو عطا کرے، اِس کو پبلک میں لے جاٸے، کیوں کہ انسان کا مقام حجرہ نشینی نہیں ہے، شرف انسانیت اللّٰہ نے بیان کیا ہے ”آیت کریمہ“ علماٸے کرام بیٹھے ہیں کیا میں لفظی ترجمہ کرو کہ پورے کرہ ارض کے ہر قسم ماحول چاہے وہ بر کا ہو یا بحر کا ہو، اُس پر انسان کو سوار کردیا، اُس کی حاکمیت کا حق اُس کو دے دیا، اب یہ سکون دنیا میں لے جاو، جب دنیا میں آپ انسانیت کو سکون دیں گے تو اُس کے لیے اقتدار چاہیے، اور اقتدار امر بالمعروف ونہی عن المنکر، اب اللّٰہ کے پاس وعظ کا لفظ بھی ہے، اللّٰہ کے پاس نصیحت کا لفظ بھی ہے، اللّٰہ کے پاس تذکیر کا لفظ بھی ہے، اللّٰہ کے پاس دعوت کا لفظ بھی ہے، لیکن جہاں پر آپ امر کا لفظ استعمال کرتے ہیں، جہاں پر آپ نہی کا لفظ استعمال کرتے ہیں، تو پھر امر اور نہی اُن سے ذرا مختلف ایک چیز ہے کہ جس کے پیچھے لجاجت، درخواست، مہربانی، اللّٰہ کے راستے کے طرف آجاو، مسجد کی طرف آجاو، نماز پڑھ لو، نہیں اُس کے پیچھے تو ایک قوت کارفرما ہوتی ہے، امر اور نہی کا تقاضہ یہی ہے۔

تو رسول اللّٰہﷺ کو جو دین عطا کیا گیا بنیادی طور پر آپ کو دین ابراہیمی کی پیروی کا حکم دیا گیا ”انتبع ملت ابراہیم حنیفا“ دین ابراہیمی کو سمجھنا ہے اور جناب رسول اللّٰہﷺ کو حکم دیا ”قل یا ایھا الناس ان رسول اللہ الیکم جمیعا“ تمام انسانیت کے طرف آپ بھیجے گیے ہیں کسی خاص قبیلے یا خاص زمانے تک محدود نہیں ہے، قیامت تک اور تمام انسانیت کے لیے، اور پھر اُس کے بعد امت عطا کردی ”کنتم خیر امت اخرجت للناس“ ایسی امت عطا کی گٸی جو حجرہ نشینی کی بجاٸے انسانیت کی طرف آگے بڑھے گی، اور آپ کی امت ایسی طاقت حاصل کرے گی کہ جس کے پاس یہ طاقت آٸے گی کہ ”آیت کریمہ“۔

اب ظاہر ہے جس ماحول میں ہم بیٹھے ہیں ایسے ہی ماحول میں ایک دفعہ بعض دوستو نے پوچھا کہ ہم تو دعوت دیتے ہیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی اِس کا اقتدار سے کیا تعلق ہے، تو میرے ساتھ بعض ساتھیوں نے بحث کی تو میں نے کہا کہ ٹھیک ہے جانے دو اِسے ٹھیک ہے، لیکن اِس آیت کا کیا معنی کروگے ”آیت کریمہ“ اب یہ تمام انسانیت کی طرف نکلنا، امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ سنبھالنا اُس سے پہلے جو اقامو الصلوة واتو الزکوة ہے ہر جگہ آپ کو یہ احساس دلاٸے گا کہ پہلے اللّٰہ کی بندگی ہے تو تب انسانیت کی طرف جاوگے۔

تو تخلیق انسان عبدیت کے لیے ہے اب جو بندہ بن گیا اُس کے بعد لفظ خلق استعمال نہیں ہوگا لفظ جعل استعمال ہوگا ”انی جاعلک للناس اماما“، اور ”انی جاعل فی الارض خلیفہ“ پھر اِس مفہوم کی طرف ہم جاٸیں گے۔ تو جو بندہ ہوگا اور جہاں پر وہ عبدیت تشریعی ہے تکوینی نہیں ہے، عبدیت تشریعی و تکوینی میں فرق یہ ہے کہ عبدیت تشریعی انسان کے ارادے و اختیار کو تفویض کیا گیا ہے، اپنے ارادے و اختیار کے ساتھ ”آیت کریمہ“ اگر تکوینی ہوتا تو اللّٰہ کے لیے کیا مشکل ہے، تو یہاں عبدیت تشریعی ہے لہذا جس نے ایمان لے آیا وہ ایک طرفہ ہوگیا جس نے کفر کیا وہ دوسرا طرفہ ہوگیا ”سورة الکافرون“ دو طرفوں میں تقسیم ہوگٸے ایک طرف ایمان والے اور دوسری طرف کفر والے، لہذا خلافت ایمان والوں کو دی جاٸے گی، کفر والوں کو نہیں دی جاٸے گی۔ اور جب ہم نے دنیا والوں کو اطمینان دینا ہے، دو چیزیں حاصل کرنی ہے ایک انسانی حقوق کا تحفظ اور ایک خوشحال معیشت، امن آٸے گا جب انسانی حقوق محفوظ ہوں گے، جان مال عزت و آبرو پوری دنیا کے قوانین اِن تین چیزوں کے اِرد گرد گھومتے ہیں، لیکن دنیا کے قوانین اور شریعت کے قوانین میں واضح فرق یہ ہے کہ اسلام باہمی زندگی، مشترک زندگی، اجتماعی زندگی کا آغاز اخلاقیات سے کرتا ہے اور دوسری دنیا اپنی زندگی کا آغاز قوانین سے کرتا ہے، بس اخلاقی داٸرے سے نکل گٸے تو اُس کو بعد تو پھر قانون شروع ہو جاتا ہے۔ ایک نے قرض دیا دوسرے کو تو جس نے قرض لیا ہے پہلے اللّٰہ اُسے کہتا ہے کہ ادا کردو اور وقت پہ ادا کردو، اگر وہ وقت پہ ادا نہیں کرتا تو پھر قرض دینے والے کو کہتا ہے کوٸی بات نہیں ہے ڈیل دے دو، کوٸی مسٸلہ نہیں ہے، اگر ڈیل دینے کے باوجود بھی وہ ادا نہیں کرتا تو دینے والے کو کہتا ہے معاف کردو، اب ایک واپس نہیں کررہا دوسرا معاف نہیں کررہا، اب معاملہ قانون میں داخل ہو جاٸے گا، وہاں سے قانونی کارواٸی شروع ہوگی، عدالت میں مسٸلہ جاٸے گا۔

اب خوشحال معیشت یہ اُمور اجتماعیہ میں سے ہے ”آیت کریمہ“ تو لفظ قریة استعمال کی ہے یعنی آبادی، لوگوں کی مل جل کر رہنے کی جگہ، فرد کے حوالے سے بات نہیں ہے اور اُس میں امن بھی تھا، انسانی حقوق بھی محفوظ تھے۔ ”آیت کریمہ“ جب اللّٰہ تعالی کے اِن نعمتوں کا انکار کیا، کفران نعمت کیا، تو پھر سزاٸیں کیا دی، بھوک اور بدامنی، اب دو چیزیں ہے امر اجتماعی میں ترجیح دو چیزوں کو حاصل ہے کہ آپ انسانی حقوق کو تحفظ دے اور دوسرا یہ کہ آپ اُن کے معیشت کا معاملہ ٹھیک کردے، اور جب آپ انکار کرتے ہیں تو پھر چیزیں تم پر حملہ آور ہوتی ہے ایک بدامنی اور دوسرا بھوک، سو آج ہم نے لا الہ الا اللہ سے مذاق کرتے ہوٸے چوہتر سال گزار دیے، پھر یہ دن دیکھنے نہیں پڑیں گے ہر طرف بدامنی، صبح آدمی گھر سے نکلتا ہے یقین نہیں ہوتا کہ شام کو واپس گھر آوں گا کہ نہیں، غریب آدمی آج اپنے بچوں کے لیے بازار سے راشن خریدنے کے قابل نہیں رہا، اُس کی قوت خرید ختم ہوچکی ہے۔ مدرسے والوں آپ کو تو ہر طرف سے اللّٰہ دے رہا ہے آٹا بھی آرہا ہے، ترکاری بھی آرہی ہے، گوشت بھی آرہا ہے پک بھی رہا ہے، ذرا محلوں کے اندر جاٸے وہ غریب جو دیہاڑی پہ زندگی گزارتا ہے اور پھر جس کی تنخواہ بارہ ہزار ہو، پندرہ ہزار ہو اور بیچ میں چھ آٹھ ہزار کا بجلی بل بھی آجاٸے تو پھر وہ بیچارہ کیا کرے گا، مہینہ کیسے گزارے گا تو یہ آپ خود سوچ لے، تو آج ہم اِن حالات کے طرف جارہے ہیں۔

تو پہلی چیز ہے کہ آپ کے اپنے ذات کے اندر عبدیت و دیانت موجود ہو، دوسری چیز ہے کہ پھر اِس دین متین کا اقتدار ہو، اور جب اقتدار قاٸم ہو جاٸے تو دشمن سے حفاظت کے لیے پھر دفاعی قوت بھی حاصل کرنی پڑتی ہے ”آیت کریمہ“ ملک جنگ نہیں لڑا کرتے، فوجیں اِس لیے نہیں کہ جنگیں لڑا کرے، دشمن پر دھاک رہے کہ ہمارا حفاظتی حصار مظبوط ہے، آپ ہمارے نظام کو کچھ بھی نہیں کرسکے گے۔

تو یہ سب چیزیں میادین ہر ایک کا اپنا اپنا ہے، عبادت مسجد، حجرہ اِس کا میدان بلکل الگ ہے، سیاست قوم، اجتماعیت اِس کا میدان، اقتدار بلکل الگ دنیا ہے، اور دفاعی قوت وہ بلکل الگ سی ایک نظم ہے، لیکن ہر چند کے تینوں کے میادین مختلف ہیں لیکن پھر ایک دوسرے کے ساتھ اُن کا آپس کا تلازم بھی ہے، یہ تینوں تلازم کے بھی نہیں رہ سکتے ورنہ پھر اِس کی افادیت ختم ہو جاتی ہے۔

تو اِس منہج پر ہم جب بات کریں گے تو پھر تم بنوگے علماٸے دیوبند، پھر آپ نعرہ لگا سکیں گے کہ علماٸے حق علماٸے دیوبند، اور جب اُن میں سے ایک ہی راستہ اختیار کروگے اور اُسی پہ مطمٸن ہوجاوگے تو پھر حضرت شیخ الہندؒ تو ایسے نہیں تھے، نہ حضرت مدنیؒ ایسے تھے، نہ مولانا قاسم نانوتھویؒ، اُن کی زندگی کو دیکھو پھر چلو آگے سب کچھ اُس کے اندر ملتا ہے، تصوف کا میدان بھی ملتا ہے، دعوت کا میدان بھی ملتا ہے، نصیحت کا میدان بھی ملتا ہے، تزکیہ کا میدان بھی ملتا ہے، امر کا میدان بھی ملتا ہے، سیاستی اقتدار کا میدان بھی ملتا ہے اور ہر چیز کے لیے جدوجہد کی ضرورت ہے، یہ جو آپ نے لفظ مجاہدہ، لفظ ریاضت تخلیق کی ہوٸی ہے یہ صرف خانقاہ کے لیے آلاٹ ہیں، یہاں پر بھی آپ کو ایک محنت کرنی ہوتی ہے کہ سینے کے اندر ڈھونڈو جو مادی کسافتیں ہیں اُن مادی کسافتوں کو آپ نے روحانی لطاٸف سے تبدیل کرنا ہے، آپ بیٹھے ہوٸے ہیں اور اللّٰہ کی ضربیں لگارہے ہو، لگارہے ہو، لگارہے ہو، اللّٰہ کو یاد کررہے ہو، اُس کے سامنے رو رہے ہو (ساونڈ جانے کی وجہ سے ایک دو فقرے غاٸب ہیں) اور جس سے میری نشونما ہوا کرتی ہے، تو یہ اتنے سارے فیض اِن تینوں سے آپ تب ہی حاصل کریں گے جب اِن کے ساتھ آپ کا علاقہ آدب کا ہو، گستاخی نہ کرے، کتاب کو داٸیں ہاتھ سے پکڑے، کتاب کو سرہانہ نہ بنایا کرو، اور جب نقل مارتے ہو تو وہی کتاب غسل خانے میں لے جاتے ہو نیک بختو، یہ ساری چیزیں آپ کے تمام علم کی برکات کو ختم کردیتی ہے۔

حضرت شیخ مولانا عبدالحق صاحب رحمہ اللّٰہ ختم البخاری کے درس میں ہمیں نصیحت فرماتے، اور فرماتے کہ آج تم یہ سمجھ رہے ہو کہ ہم عالم بن گٸے، نہیں تم عالم نہیں بنے ہو آٹھ دس سال تم نے مدرسے میں گزار کر آج تم نے اپنے اندر عالم بننے کا استعداد حاصل کرلیا ہے، سو آج کے بعد اگر تم چاہو کہ میں عالم بن جاو تو اب بن سکتے ہو، اب آگے کام کرو، علم سے وابستہ رہو، مطالعہ کیا کرو، دنیا کو سمجھو، دنیا کو پڑھو، تو انسان مرنے کے دن تک طالب علم ہے، اگر عالم بننا ہے تو اُس سے آگے کام کرو۔

تو یہ چند گزارشات میں نے آپ کے خدمت میں عرض کردی، میں ایسے ماحول میں جب آتا ہوں تو مجھے بڑا رشک آتا ہے، یہ مدرسہ کا طالب علم، مسجد کا امام اور کہاں چلا گیا ہوں۔ تو کبھی کبھی اِس ماحول میں آکر آپ حضرات کے ساتھ کچھ طالب علمانہ باتیں کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔

اللّٰہ تعالی ہمیں سمجھنے اور اُس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرماٸے۔

واخر دعوان ان الحمد للہ رب العالمین۔


ضبط تحریر: #سہیل_سہراب

ممبر ٹیم جے یو آٸی سوات

#teamjuiswat

0/Post a Comment/Comments