قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا جامعہ مدنیہ جدید میں تقریب سے خطاب تحریری صورت میں
12 فروری 2022
خطبہ مسنونہ کے بعد
برادر مکرم حضرت مولانا سید محمود میاں صاحب، جامعہ مدنیہ کے اساتذہ کرام، یہاں پر موجود علماٸے کرام اور مشاٸخ عظام، طلبا عزیز، میرے بزرگو، دوستو اور بھاٸیو! جامعہ مدنیہ ہمارے مخدوم و مکرم اور ہمارے محسن حضرت مولانا سید حامد میاں رحمہ اللّٰہ کا ایک شاہکار ہے، ایک بہت بڑے علمی ادارے کی روپ دھار لی ہے اور اِس میں کچھ شک نہیں کہ حضرت کے خانوادے اور اُن کے صاحبزدگان نے اُن کے لگاٸے ہوٸے پودے کو اپنے محنت و مشقت اور خلوص کے ساتھ اُسے ایک شجرہ سایہ دار بنادیا ہے، اور آج یہاں پر تشنگان علوم دینیہ اپنے علم کی پیاس بجھا رہے ہیں، میں اِس سال کے نٸے فضلا کی تکمیل تعلیم کے لیے اُن کو دل کی گہراٸیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
ہمارے حضرت شیخ مولانا عبدالحق صاحب رحمہ اللّٰہ ختم بخاری کے موقع پر ہمیں ایک نصیحت کرتے تھے کہ آٹھ دس سال یہاں مدارس میں گزار کر آپ جب فارغ ہورہے ہیں، تو آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اب ہم عالم بن گٸے ہیں، تو فرمایا کہ آپ عالم نہیں بنے اب آپ کے اندر عالم بننے کی استعداد پیدا ہوگٸی ہے، اگر آپ عالم بننا چاہے تو اِس کے بعد اب آپ عالم بن سکتے ہیں۔ تو یقیناً علم ایک ایسی دنیا ہے کہ موت تک انسان طالب علم رہتا ہے اور عالم بننے کی کوشش کرتا ہے، لیکن ہمارے آکابر نے جو علوم دینیہ کا نصاب تیار کیا اور اُس نصاب کے ساتھ ہمارے آکابر نے جو زندگی کے مقاصد بتلاٸے وہ بہت وسیع ہے، یہاں میں بار بار دیوبند کے لفظ سنتا رہا ہوں اور دیوبندیت دیوبندیت کے الفاظ، لیکن یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ دیوبند کوٸی فرقہ نہیں ہے جیسے آج ہم نے اُس کو فرقہ بھی بنادیا اور ہم میں سے ہی کچھ لوگوں نے اس کو اپنی دکان بھی بنالی ہے جو ہماری روزی روٹی کا سبب بھی بن رہا ہے، یہ ہمارا علمی سلسلہ ہے اور ہماری سند یہاں سے گزرتی ہے اور جناب رسول اللّٰہﷺ پر جاکر پہنچتی ہے، جامعہ اظہر سے فارغ ہونے والے اپنے آپ کو اظہری کہتے ہیں تو کیا جامعہ اظہر فرقہ ہے، مدینہ یونیورسٹی سے فارغ ہونے والے اپنے ساتھ لفظ مدنی استعمال کرتے ہیں تو کیا مدنی ہونا ایک فرقہ ہے، ندو العلما سے فارغ ہونے والے اپنے آپ کو ندوی کہتے ہیں تو کیا ندویت فرقہ ہے، علی گڑھ سے فارغ ہونے والے اپنے پیچھے ایک لفظ علی لکھتے ہیں تو کیا وہ ایک فرقہ ہے، بہت سی مثالیں آپ دنیا میں لے لے، سو دارلعلوم دیوبند ایک مادر علمی ہے اور یہ جو نصاب ہم اور آپ پڑھ رہے ہیں اُس کا معثث ادارہ ہے، اِن علوم کو حاصل کرنے کے ساتھ ہمیں اپنے آکابر کی طرز زندگی کا بھی مطالعہ کرنا ہوگا کہ اِنہی علوم کو دنیا میں فروغ دینے کے لیے انہوں نے اپنی زندگی کیا گزاری، اُن کی اپنی زندگی کا منہج کیا تھا، آپ سب جانتے ہیں کہ دارلعلوم دیوبند کا پہلا طالب علم محمود حسن تھا، اور اُس کا پہلا فارغ التحصیل یہی محمود حسن تھا جس نے اپنے اساتذہ کی تحریک جدوجہد آزادی کو برصغیر میں تسلسل دیا، ہم یہ نتيجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ دارلعلوم دیوبند نے اِن علوم کے ذریعے جو پہلا اُصول زندگی عطا کیا ہے وہ آزادی کا حصول ہے، حریت اور آزادی یہ انسان کا پیداٸشی حق ہے۔
حضرت شیخ الہندؒ نے جنہوں نے مالٹا سے واپس آکر جمعیت علماء کی بنیاد رکھی، اب وہی محمود حسن دارلعلوم دیوبند کی اساس میں آپ کو نظر آتے ہیں اور وہی محمود الحسن جمعیت علماء کی اساس میں آپ کو نظر آتے ہیں، تو پھر دیوبندیت مدرسے کا اور جمعیت کا نام ہے۔
میرے محترم دوستو! ہمارے آکابر نے تو اسلام کی آفاقیت اور اُس کی عالمگیریت کا درس دیا ہے، جس طرح کے اللّٰہ رب العزت نے جناب رسول اللّٰہﷺ کو پہلا حکم یہ دیا ”آیت کریمہ“ کہ آپ دین ابراہیمی کی پیروی کرے، اور حنیفا کا ترجمہ ہمارے ایک بزرگ حضرت شیخ قاری محمد طیب صاحب نے یہ کیا ہے کہ اُس دین ابراہیمی کی پیروی جس میں کوٸی کجی نہیں، اب وہ دین ابراہیمی کیا ہے ”آیت کریمہ“ میں تمام انسانيت کے لیے آپ کو امام بنانے والا ہوں، یعنی آپ کی عالمگیریت آپ تمام انسانيت کے امام ہیں اور اُسی کی پیروی میں جناب رسول اللّٰہﷺ کو اللّٰہ نے حکم دیا ”قل یا ایھا الناس ان رسول اللہ الیکم جمیعا“ تمام انسانیت کو بتادو کہ میں کوٸی وقتی پیغمبر نہیں، کسی خاص علاقے کے لیے میری بعثت نہیں ہوٸی، بلکہ تمام انسانیت اور قیامت تک کے لیے میں پیغمبر ہو، اللّٰہ کا نماٸندہ ہو، یہی پوری انسانیت کی تصور کے ساتھ رسول اللّٰہﷺ کو اُمت عطا کی گٸی ” کنتم خیر امت اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنہون عن المنکر“ اب جب معروف کے لیے امر کا لفظ استعمال ہوا اور منکر کے لیے نہی کا لفظ استعمال ہوا، تو قران کریم کے پاس تو الفاظ دعوت کی بھی تھے، الفاظ نصیحت کی بھی تھے، الفاظ وعظ کی بھی تھے، الفاظ تذکیر کی بھی تھے، لیکن یہاں پر آپ نے لفظ امر اور لفظ نہی کو استعمال کیا، معلوم ہوتا ہے کہ اِس امت نے اِس دین متین کی حاکمیت پوری دنیا پر قاٸم کرنی ہے اور پھر جب قوت اقتدار حاصل ہو جاٸے تو پھر آپ نے بھلے کاموں کے لیے حکم دینا ہے اور برے کاموں سے روکنا ہے، جب تک حاکمیت کا تصور نہیں، اقتدار کا تصور نہیں اور ہمارے ہی آکابر نے ”الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی“ ایک اکمال دین ہے اور ایک اتمام نعمت ہے، اکمال دین تو تعلیمات و احکامات کے اعتبار سے ہے لیکن اتمام نعمت اُس کے اقتدار کے حوالے سے ہے، لہذا اِس دین متین کی جب اقتدار کی بات کی جاتی ہے، بڑی آسانی سے کہہ دیا جاتا ہے یہ مولوی صاحب بھی سیاست کرتا ہے، یعنی سیاست اُن لوگوں کا کام ہے جن کو انبیاء نے اپنے وراثت کا سرٹیفیکٹ نہیں دیا، اور جن کو انبیاء نے اپنے وراثت کا سرٹیفکیٹ دے دیا ہے ”العلماء ورثة الانبیاء“ یہ علم جو آپ آج حاصل کررہے ہیں اور جس کی تکمیل کے لیے آپ اِس تقریب کا اہتمام کررہے ہیں یہی وہ علم ہے جس کو جناب رسول اللّٰہﷺ نے انبیاء کا ورثہ کہا اور اِس کے وارث اِسی علوم کے علماء ہے۔ اگر محراب میں مصلے پر غیر عالم کھڑا نہیں ہوسکتا اِس لیے کہ مصلہ یہ رسول اللہ کی میراث ہے، اگر مسجد کے محراب پر محض مسجد کے منبر پر کوٸی خطبہ دینے کے لیے نہیں بیٹھ سکتا اِس لیے کہ رسول اللّٰہ کی میراث ہے، بغیر علماء کہ آپ کسی کو نہیں چھوڑتے تو پھر مسند سیاست پر علماء کو اجنبی سمجھنا یہ جہالت کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے، ہاں اقتدار، امر اجتماعی، مملکتی نظام، خلافت، امامت اِن سب کے لیے بنیادی استعداد اور اُس کا معیار عبادت ہے۔ تو سب سے پہلے عبادت، دیانت دل کے اندر آنی چاہیے اور پھر اُس کے بعد اللّٰہ رب العزت نے فرمایا ”آیت کریمہ“ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے جب اُن کو زمین پہ اقتدار ملے گا، اور اُس سے پہلے اقامت اور زکوٰۃ کی بات کرنا، یہ احساس دلانا ہے کہ اساس پھر بھی عبادت و دیانت ہے۔ لہذا تخلیق انسان کا مقصد تو عبادت ہے لیکن عبادت اور عبدیت یہ تشریعی ہے تکوینی نہیں ہے، اور تشریعی کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے ارادے و اختیار کو تفویض کردیا گیا ہے، اب اپنے ارادے و اختیار سے اگر وہ ایمان لے آتا ہے تو اللّٰہ کا خلیفہ بننے کا استعداد اُس کے پاس ہے اور اگر وہ اللّٰہ پر ایمان نہیں لے آتا، عبادت کا راستہ اختیار نہیں کرتا، توحید کو قبول نہیں کرتا تو پھر از روٸے شریعت وہ انسانیت کا خلیفہ بننے کا حق نہیں رکھتا۔
اب سیاست کیا ہے اصلاح، استصلاح، ارشاد، حکم، امر، نہی اِن کے معانی کے مجموعے کو اہل عرب نے لفظ سیاست سے تعبیر کیا ہے، قران میں اِس کا ذکر نہیں ہے، لیکن جناب رسول اللّٰہﷺ نے لفظ سیاست استعمال کیا ہے ”کانت بنی اسراٸیل تسوسو ھم الانبیاء“ ھم نے دنیا کو سبق سکھایا ہے کہ ختم نبوت کی بات غیر سیاسی ہے، ختم نبوت سیاست سے بالاتر نعرہ ہے، ختم نبوت کا تعلق عقیدے کے ساتھ ہے اور رسول اللّٰہﷺ اُس کو سیاست کی ذیل میں ذکر کررہے ہیں، آپ دنیا کو کیا پڑھا رہے ہو کہ انبیاء کے ہاتھ میں مملکت کا نظام ہوا کرتا تھا اور تدبیر و انتظام انبیاء کے ہاتھ میں ہوا کرتا تھا، اور ایک جاتا دوسرا اُس کی جگہ لیتا، اور اب میں آخری سیاستدان ہو اور مملکت کی تدبیر و انتظام کا اختیار اب میرے پاس ہوگا، میرے بعد بحیثیت نبی کے کوٸی نہیں آٸے گا، لیکن خلفاء کی صورت میں آٸیں گے۔
تو اِس اعتبار سے سیاست کس چیز کا نام ہے، بہت سے علماء سیاست کے سیاست کی تعریفات کا خلاصہ اور جمہور کا مسلک اِس حوالے سے، ایک کام کو اِس طرح کرنا کہ اِس سے نتیجے میں اصلاح آٸے، معاملات ٹھیک ہو، اِسی لیے تو فرمایا کہ حکمران اپنے تدبیر کے ذریعے سے جب احکامات صادر کرتا ہے تو بعض دفعہ وہ منسوس بھی نہیں ہوتا یہاں پر بھی ذرا وسیع النظری سے کام لے، بعض دفعہ وہ منسوس بھی نہیں ہوتا اور افضل بھی نہیں ہوتا، لیکن وہ سمجھتا ہے کہ یہ جو حکم میں دے رہا ہوں مفضول ہوتے ہوٸے بھی پبلک کے لیے بہتر ہے لہذا وہ یہ حکم جاری کرسکتا ہے، اگرچہ وحی کے ذریعے سے اور نس کے ذریعے ثابت بھی نہ ہو لیکن تاہم اِس بات کا خیال رکھا جاٸے گا کہ کسی نس سے متصادم نہ ہو، بس حرام کے زمرے میں نہ آٸے۔ لہذا مملکتی نظام میں جب تدبیر و انتظام انسان کے حوالے ہے اور حکمران اللّٰہ کے دین کو سامنے رکھتے ہوٸے احکامات جاری کرتا ہے تو اُس میں بھی بڑی وسعت رکھی گٸی ہے۔ تنگ نظر مُلّا مت بنا کرو، اللّٰہ رب العزت نے آپ کو بڑا کھلا میدان دیا ہوا ہے۔
تو اِس اعتبار سے اتمام نعمت کو اگر سمجھنا ہے تو پھر اقتدار کی صورت میں ہی اُس کے مظاہر سامنے آسکتے ہیں کہ دین کامل اور مکمل بھی ہے اور دین کا اقتدار بھی ہے، اِس حوالے سے میں جب آپ کے سامنے یہ باتیں کرتا ہوں تو میرے خیال میں صوفیا اِن چیزوں کو قبول نہیں کرتے، عجیب بات یہ ہے کہ ہم نے نام تقسیم کرلیے ہیں خانقاہ میں ذکر اذکار کا اہتمام ہوتا ہے تو وہاں جب ہم ذکر کرتے ہیں اور اندر کی مادی کسافتوں کو روحانی لطافتوں سے تبدیل کرتے ہیں تو اُس کا نام ہم نے مجاہدہ رکھا ہے، جب میدان عمل سیاسی میدان میں محنت کرتے ہیں کام کرتے ہیں تو اُس کا نام ہم نے جدوجہد رکھ دیا ہے، اور پھر اُس میں کسی نے بندوق اٹھاٸی تو ج ہ ا د اور مجاہد نام رکھ دیا ہے، یہ تقسیم کہاں سے آٸی ہے۔
تین چیزیں ہیں نمبر ایک عبادت و دیانت یہ انسان کا انفرادی معاملہ ہے اِس کے لیے پُرسکون ماحول چاہیے پُرامن ماحول چاہیے، یہ جو اللّٰہ کے ساتھ رابطہ جوڑنے کا ایک پُرامن ماحول آپ نے تیار کرلیا ہے اِس کو اگر آپ نے حجرے تک رکھنا ہے تو یہ رہبانیت ہے ”ولا رہبانیتہ فی الاسلام“ اب اِس تربیت کو پبلک تک لے جاو اور ملک میں امن قاٸم کرو، سکون قاٸم کرو، انسانی حقوق کو تحفظ دو، جان مال عزت و آبرو کو، اور خوشحال معیشت کا انتظام کرو، کیوں کہ یہی چیزیں مملکتی نظام میں ترجیح رکھتی ہے، اور پھر اُس کے لیے دفاعی قوت بھی ہونی چاہیے کہ آپ اپنے مملکت کے سرحدات کی حفاظت کرے ”آیت کریمہ“ یہ ساری چیزیں ہیں لیکن کیا کرے ہمارے سیاست کا عملی تعبیر جو آپ کے اور ہمارے سامنے آج کل ہے یہ تو نہ ایوں میں نہ شیوں میں، مخنث قسم کی حکومت ہے، کچھ پتہ نہیں چلتا کہ ہے کیا، اور حسن کارکردگی پر انہوں نے کل کچھ وزرا کو تمغے بھی عطا کیے ہیں، اسناد عطا کیے ہیں، اسناد کب دی جاتی ہے، اسناد اُس وقت دی جاتی ہے جب کھیل ختم ہو جاتے ہیں، تو لگتا ہے کہ انہوں نے اپنا کھیل ختم ہونے کا عندیہ دے دیا ہے، اِسی لیے ہم نے رات کو اپنے آنے والے مستقبل کا عندیہ بھی دے دیا ہے (نعرہ تکبیر اللہ اکبر)، بھٸی آپ تو خود کہتے ہیں کبھی کہتے ہیں کہ معاشی بہتری کے اشارے مل رہے ہیں، کبھی کہتے ہیں دنیا نے ہماری معاشی ترقی کو تسلیم کرلیا ہے، جب آپ نے خود یہ کہا تو پھر ہمارے معیشت اور خزانے کے وزیر کو کیوں محروم رکھا، آپ تو کہتے ہیں کہ ہم نے بڑے اچھے خارجہ تعلقات بناٸے ہیں، اور ا ف غ ا ن ستا ن کے مسٸلے پر ایک او آٸی سی کا اجلاس بھی ہوا جسے وہ ایک زبردست اور کامیاب خارجہ پالیسی کی علامت قرار دیتے ہیں تو پھر شاہ محمود قریشی کو کیوں محروم رکھا، آخر کیوں ؟ کہتے ہیں ہمارا دفاع مظبوط ہاتھوں میں ہیں یہ اُن کا بیان ہے اگر دفاع مظبوط ہی ہاتھوں میں ہے تو پھر پرویز خٹک کو کیوں محروم رکھا، وزارت ابلاغ و اطلاعات جہاں پر حکومت کی دفاع کرتے کرتے کچھ غیر ضروری زبان بھی استعمال کرلیتے ہیں، آداب کے داٸرے سے بھی باہر چلے جاتے ہیں، اخلاقیات کو بھی گھر چھوڑ آتے ہیں تو فواد چوہدری کو کیوں نہیں دیا، یہ تو اِن کی کارکردگی اور تمغات کا نتیجہ نکلا ہے، شیخ رشید کو بھی محروم کردیا، اب آپ مجھے بتاٸے کہ یہ سوچ کہاں سے آٸی، یہ ترجیحات کس عقل کی، ایسے حکمرانوں سے اِسی عقل کی توقع رکھنی چاہیے، اِدھر سے تمغے دے رہے ہیں اور ابھی حال ہی میں مِنی بجٹ آیا ٹیکسیں بڑھا دی اور شاٸد آج ہی انہوں نے تین روپے سے زیادہ پٹرول کی قیمت اور بڑھا دی ہے۔
مہنگاٸی عروج پر ہے، عام آدمی کراہ رہا ہے، اپنے کرب کے ہاتھوں اپنے بچوں کو مار رہا ہے، ذبح کررہا ہے، دریا بُرد کررہا ہے، پارلیمنٹ کے سامنے بچے براٸے فروخت کے کتبے لگا رہا ہے کہ اُن کی بھوک اُن سے گھر میں نہیں دیکھی جاتی، اور تم تمغے دے رہے ہو، یہ دن بھی ہم نے دیکھنے تھے، اور تمغے بھی ایسے لوگوں کو کہ جس کا نام لینا بھی اپنے شرافت کے خلاف لگتا ہے۔
تو میرے محترم دوستو! خارجہ پالیسی کامیاب پالیسی، جو باٸیڈن تو مجھے فون ہی نہیں کررہا تو میں کیا کرو، مودی میرا فون نہیں اٹھاتا میں کیا کرو، چین کے دورے پر جاتا ہے تو چینی کی قیادت ویڈیو لنک پہ اُس سے گفتگو کرتی ہے، اگر ویڈیو لنک پہ ہی بات کرنی تھی تو یہاں سے کرلیتے اتنا خرچہ کیوں کیا، کہتے ہیں جی وہ کوویڈ کی وجہ سے ذرا مجبوری تھی، کوویڈ کی وجہ سے مجبوری تھی تو اُسی روز روس کے صدر سے کیوں ملاقات کی، اِس قسم کے عجوبو سے ہمارا واسطہ ہے۔
اور پھر خارجہ پالیسی، کوٸی پڑوس آج ہم سے راضی نہیں ہے، انڈیا تو ہوا ہمارا دشمن، ایران اِس وقت خارجہ پالیسی کے اعتبار سے ہ ن د ستان کے پلڑے میں کھڑا ہے، چاٸنہ سی پیک کے مسٸلے پر پاکستان سے نالاں ہے، جو زیرو فیصد، ایک فیصد اور ڈیڑھ فیصد پر پاکستان کو مدد مہیا کرتا تھا، آج اُس نے سعودی عرب کا قرضہ ادا کرنے کے لیے جو دو ارب ڈالر آپ کو دیے چودہ فیصد پہ دیے ہیں، اور کہتے ہیں کیوں نہ کرے آپ نے ہمارے ساتھ کیا کیا ہے۔ امریکہ وہ بھی انسانی حقوق کی بات کرتا ہے اور کہتا ہے کہ انسانی حقوق کے لیے کوٸی جغرافیاٸی حدود نہیں جہاں بھی انسانی حق کا مسٸلہ ہوگا ہم پہنچے گے، تو میں نے کہا پھر مسلمانوں کا بھی عقیدہ ہے کہ اسلام کے کوٸی جغرافیاٸی حدود نہیں ہے، تو یہ اجازت سب کو ہونی چاہیے، اور پھر انسانی حقوق کے قاٸل تو سب ہے لیکن انسانی حق کی تشریح کیا ہے؟ اِس پر کوٸی اتفاق راٸے حاصل کیا ہے، جنیوا کے انسانی حقوق کا چارٹر، اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کا چارٹر ہمیں سو فیصد نہ قبول سہی، لیکن جب آپ نے ا ف غ ا ن س تان پر حملہ کیا تو کیا آپ نے ا ف غ ا ن س تا ن میں وہاں کی امارت کی حکومت اور اُن کے ط ا ل بان کو جنیوا انسانی حقوق کے حوالے سے ایک انسانی قیدی مجرم کا حق بھی دیا تھا، کیا انسانی حق یہ جو آپ نے گوانتاناموبے میں انسانوں کو دیا، کیا انسانی حق یہ جو آپ نے سمندر کے اندر بحری بیڑیوں میں عقوبت خانے بناٸے تھے کیا وہ انسانی حق تھا، جو آپ نے شبرغان جیل میں انسانیت کے ساتھ کیا جہاں آپ نے انسانوں کو کنٹینروں میں بند کرکے اٸیر لاک کیا اور سانس گھٹتے گھٹتے لوگ شہید ہوگٸے، جہاں آج بھی جب بگرام جیل تک رساٸی ہوٸی اُن کو کھولا گیا تو دیواروں پر آج بھی خون پڑا ہوا تھا، یہ انسانی حقوق ہے جس کا امریکہ بات کرتا ہے۔
میرے پاس آٸے تھے اور مجھے کہا ہم نے انسانی حقوق کے حوالے سے بات کرنی ہے تو میں نے کہا جی آپ تو کہتے ہیں وہاں کی معیشت خراب ہے، جب ط ا ل با ن افغا ن س ت ان میں داخل ہوٸے اور آپ اُن کی مدد نہیں کررہے اور کہہ رہے ہیں کہ وہاں بھوک آٸے گی تو جب بھوک آٸے گی اور ایک انسانی المیہ پیدا ہوگا، تو کیا اِس میں آپ زمہ دار نہیں ہوں گے ؟ کیا یہ انسانی حق میں نہیں آتا۔ اور آج ہی اعلان کیا ہے کہ ہم ا ف غ ا ن ستان کے منجمد اثاثوں کو ط ا ل بان کے حوالے نہیں کریں گے، یہ ہے انسانی حقوق، ایک طرف معاہدہ بھی تم نے کیا، ایک طرف معاہدے میں امارت اسلامی کو تم نے دستخط کرکے تسلیم کیا، ایک طرف تم نے ا ف غ ا ن ستان چھوڑا، اب آپ کو کوٸی حق نہیں پہنچتا کہ آپ اُن کے لیے اقتصادی مشکلات پیدا کرسکے اور اُن کے منجمد اثاثے آپ اُن کے حوالے نہیں کریں گے۔
تو یہ وہ چیزیں ہے کہ جو ملک میں اور دنیا میں ہورہی ہے اِس جبر کے خلاف، اِس ظلم کے خلاف، اِس انسانیت کش پالیسیوں کے خلاف ہم نے دین اسلام کا پیغام پہنچانا ہے، انسانی حق کی بات کرنی ہے (نعرہ تکبیر اللّٰہ اکبر)۔
تو ہمیں احتیاط کے ساتھ چلنا ہوتا ہے، قوت کو حاصل کرنا تدریج کا عمل ہے اور سیاست کے بارے میں آپ بھی جانتے ہیں کہ اِس کی لغوی معنی کیا ہے کسی چیز کو برابر کرنا، گھوڑے کو خرخرا دینا، گھوڑے کی صفاٸی کرنا اُس وقت تک کہ آپ اُس کے اوپر زین رکھ سکے، اِس سارے عمل کو سیاست کہتے ہیں۔ حضرت اسما بنت ابی بکرؓ جو حضرت زبیرؓ کی اہلیہ تھی وہ فرماتی ہے ”ولھو فرس“ یعنی میرے خاوند کا ایک گھوڑا تھا ”وکنت اسوسھا“ میں اُس کی سیاست کرتی تھی یعنی میں اُس کی دیکھ بھال کرتی تھی، اُس کی چارہ گری کرتی تھی، تو سیاست اگر آج کے سیاستدانوں سے پوچھا جاٸے کہ سیاست کون سی زبان کا لفظ ہے تو زیادہ سے زیادہ کہیں گے اُردو کا لفظ ہوسکتا ہے ورنہ فارسی کا لفظ ہوسکتا ہے، اب وہ لوگ سیاستدان ہے جن کو لفظ سیاست کا یہ بھی پتہ نہیں کہ کون سی زبان کا لفظ ہے اور علماٸے کرام حجروں کی طرف زور کررہے ہیں کہ رہبانیت کو فروغ دے، جاٸے حجروں کی طرف کہ اللّٰہ کی ذکر کے لیے پُرسکون ماحول چاہیے لیکن یہ پُرسکون ماحول اپنی ذات تک محدود نہ رکھے اِس کو پبلک تک پہنچاٸے، شرافت انسانیت اور کرامت انسانیت اِسی میں ہے ”آیت کریمہ“ اِس پر عمل کرے، ”آیت کریمہ“ یہ امنتً، مطمٸنتً امن بھی تھا، سکون بھی تھا کس وجہ سے تھا، ہر طرف سے رزق کچ کچ کے آرہا تھا، معاشی خوشحالی تھی، ”آیت کریمہ“ جب کفران نعمت کیا تو پھر اللہ تعالیٰ نے دو سزاٸے دی ایک بھوک اور ایک بدامنی، آج ہمارے ملک میں یہی صورتحال ہے ہم بدامنیوں کی طرف جارہے ہیں، ہمارے اندر وہ اجتماعی نظم نہیں رہا ہے، اور اگر آج عوام کے اندر پاکستان کے طول و عرض میں جمعیت علماء اسلام سب سے بڑی قوت بن رہی ہے اور ملک کی اقتدار تک قربت حاصل کررہی ہے تو پتہ نہیں کیا کیا طعنے ہمیں لوگوں سے سننے کو مل رہے ہیں، یہ تو دنیادار لوگ ہیں، دنیادار لوگوں کا یہ معنی ہے کوٸی دنیاداری اور زہد کے درمیان آپ کو فرق بھی آتی ہے، زہد کا یہ معنی ہے کہ تم نہ کھاو نہ پیو نہ پہنو، گندے اور میلے کچیلے رہو، تو رسول اللّٰہﷺ کے پاس جو ایک صحابی آیا بال بکھرے ہوٸے گرد آلود، کپڑے پھٹے ہوٸے اور آپ نے پوچھا کیا کرتے ہو کہا بکریاں چراتا ہوں، کتنے بکریاں ہیں کہا سو سے بھی زیادہ، تو پھر جب آپ کو اللّٰہ نے اتنی نعمت دی ہے تو آپ پر اتنی دیکھنی بھی چاہیے، تو صاف ستھرے بھی رہو، تو اللّٰہ کی نعمتوں کو استعمال کرنا ہم نے پتہ نہیں اِس زہد کے کیا کیا معنی کردیے ہیں۔ ”آیت کریمہ“ دنیا کی نعمتیں کس نے آپ کو کہا ہے کہ وہ استعمال نہ کرے، اور طیبات اِس میں تحقیق نہیں کی جاتی اصل اشیا میں طہارت ہے، اصل اشیا میں حلت ہے، اور حرمت کے لیے دلیل چاہیے ہوتی ہے، اور یاد رکھو میں بڑی احتیاط سے ساتھ بات کررہا ہوں علماء کے بیچ میں بیٹھ کر بات کرنا بڑا خطرناک ہوتا ہے کہ جو مثالیں ہم آج کے دور میں پیش کرتے ہیں، عہد اول کی مثالیں وہ تقوی کی مثالیں ہیں اور حکومتیں فتوے سے چلتی ہے تقوی سے نہیں، یہ اُن کے بس میں تھا ہمارے اور آپ کے بس میں تقوی پہ چلنا نہیں فتوے پہ چلنا ہے، یہ طیبات حلال طریقے سے استعمال کرو، اچھی سی اچھی خوبصورت زندگی گزارو۔ ہمارے حضرت مولانا عبدالحق صاحب رحمہ اللّٰہ فرمایا کرتے تھے کہ یہ جو دو بھاٸی ہوتے ہیں ایک دیہات میں کھیتی باڑی کرتا ہے ایک مدرسے میں پڑ رہا ہوتا ہے تو دونوں کے ظاہری شکل میں بھی آپ کو نظر آٸے گا کہ پڑھنے والا مدرسے میں آنے والا وہ لباس کے حوالے سے چہرے کے حوالے سے بڑی تر و تازگی رکھتا ہے بنسبت اُس کے، حالانکہ ایک باپ کے بیٹے ہیں، تو کیا دعا ہے آپ کے لیے، جس نے میری باتوں کو سنا، پھر یاد کیا، پھر اُسی طرح امانت کے ساتھ لوگوں تک پہنچایا، ایسے لوگوں کو اللّٰہ تر و تازہ رکھے، تو یہ ہے جو اِس وقت آپ کی تر و تازگی نظر آرہی ہے یہ اِنہی علوم کی برکت سے ہے، اور نظارت، تر و تازگی اِس میں عموم ہے چاہے دنیوی زندگی ہو چاہے برزخی زندگی ہو، چاہے اخروی زندگی ہو۔
تو اللّٰہ تعالیٰ رسول اللّٰہﷺ کی یہ دعا آپ کے لیے ہم سب کے لیے قبول فرماٸے اور اللّٰہ تعالیٰ ہمیں اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرماٸے۔
واخر دعوان ان الحمد للّٰہ رب العالمین۔
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر ٹیم جے یو آٸی سوات
#teamjuiswat
ایک تبصرہ شائع کریں