قائدِ جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا چمن میں علماء کنونشن سے خطاب تحریری صورت میں یکم فروری 2022


قائدِ جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا چمن میں علماء کنونشن سے خطاب تحریری صورت میں

یکم فروری 2022

خطبہ مسنونہ کے بعد

جناب صدر محترم حضرت حافظ محمد یوسف، سٹیج اور اِس اجتماع میں موجود گرانقدر علماٸے کرام، چمن اور اِس علاقے کے معزیزین، طلباء عزیز اور دوستو! اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎، میں بہت زیادہ شکرگزار ہو کہ اِس عظیم جامعہ اور اِس عظیم جامعہ کے عظیم اجتماع میں آپ نے ہمیں دعوت دی، اور اللّٰہ کا شکر گزار ہوں کہ مجھے آپ کے سامنے حاضری کی توفیق عطا فرماٸی۔

حضرت الشیخ الحاج عبدالغنی صاحب نوراللّٰہ ومرقدہ نے پودا لگایا تھا اور اپنی محنت، اور خون پسینے سے جس پودے کی آبیاری کی تھی آج وہ پودا ایک گھنے ساٸے کا ایک گھنہ درخت ہے۔ یہ علم کا وہ چشمہ ہے جو حضرت الشیخ کے اخلاص اور اُس کے محنتوں کے زیر سایہ چل رہی ہے اور ہزاروں کی تعداد میں علم کے پیاسے اِس چشمے سے اپنی علمی پیاس بجھا رہے ہیں، اللّٰہ رب العزت یہ سلسلے اِسی طرح جاری و ساری رکھے، یہ چشمہ اللّٰہ تعالیٰ ایسے جاری و ساری رکھے، یہ گھنا سایہ اللّٰہ یونہی ہمیشہ اِن کے سروں پر قاٸم و داٸم رکھے، اور ان شاء اللّٰہ العزیز اُن کا جانشین، اُن کا خاندان، اُن کے دوست، اُن کے علماء اور اساتذہ کی محنت سے یہ جامعہ مزید ترقی کرے گا اور علم کے پیاسے مزید اِسی طرح اپنی علمی پیاس اِس چشمے سے بجھاتے رہیں گے۔

میرے محترم بھاٸیو! ہم ایک ایسے دور میں زندگی گزار رہے ہیں کہ مدارس پر، علماء پر، مدارس میں قران و حدیث کے علوم پر، عالمی قوتوں کی طرف سے دباو ہے، پاکستان کے حکمرانوں کی طرف سے بھی مدارس پر دباو ہے۔ بہت میٹھے میٹھے الفاظ اور معصوم جملوں سے بظاہر ہمدردی کی باتیں کرتے ہیں، خیرخواہی کی باتیں کرتے ہیں، لیکن اُس کے اندر اُن کے ارادے وہ اتنے خطرناک ہے، اور علماء کرام جانتے ہیں کہ جب اندر کے ارادے اور ہو اِس لیے اچھی طرح باخبر ہے کہ آدم علیہ السلام اور حوا بی بی کو بھی جنت میں شیطان نے یہی کہا تھا ”آیت کریمہ“ اور کیا کیا اُن کو جنت سے نکال دیا۔

تو میرے محترم دوستو! ایسے حالاتوں میں ہم صرف پاکستانی اسٹبلشمنٹ، پاکستانی نظام کا مقابلہ نہیں کررہے بلکہ عالمی استعمار کے مد مقابل ہے، اور اُن سے کہتے ہیں کہ اگر آپ کے باپ دادا، اُس فرنگی نے مدرسہ کو ختم نہیں کیا تو آج بھی کسی کا باپ اِس مدرسہ کو ختم نہیں کرسکتا، ان شاء اللّٰہ اِس کا محافظ اللّٰہ ہے۔

جو حکمران ہمارے نصیب میں آٸے ہیں اُن کا نام لینے سے بھی آدمی کو شرم محسوس ہوتی ہے، آج پاکستان کو غلامی کی طرف دھکیل دیا ہے، یہ بیرونی قوتوں کا ایجنٹ آج پاکستان پر حکومت کررہا ہے، لیکن ان شاء اللّٰہ ہم باطل کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کرسکتے، ایک تو ناجاٸز حکومت ہے، ناجائز کے اوپر نالاٸق حکومت بھی ہے، ملک اور وطن کو کمزور کردیا، اور ان شاء اللّٰہ العزیز اِن کا انجام وہی ہوگا جو انجام ا ف غ ا ن ستان میں اشرف غنی کا تھا۔ اِن لوگوں سے ہم خوفزدہ نہیں ہے، نہ ہم اِن سے مرعوب ہیں، اور نہ ہم پاکستان میں کسی کو پاکستان کے وفاداری کا ٹھیکدار مانتے ہیں، اور نہ ہم کسی سے وطن کی وفاداری کا سرٹیفیکٹ مانگتے ہیں۔ یہ وطن ہمارا ہے، یہ مٹی ہماری ہے، اور اِس وطن اور مٹی پر شریعت کا چراغ روشن کرے گے۔

میرے محترم دوستو! آج کے حکمرانوں نے پاکستان کو دیوالیہ کردیا ہے، معاشی لحاظ سے ملک کو کنگال کردیا ہے، آج پاکستان میں پیسہ نہیں ہے۔ پارلیمنٹ کے اندر اِس وقت جو قانون سازیاں ہورہی ہے پاکستان کو مالیاتی لحاظ سے عالمی قوتوں کا غلام بنایا جارہا ہے، پاکستان کے پارلیمنٹ میں اگر قانون سازی ہوٸی تو ایف اے ٹی ایف کے ہدایات کے مطابق ہوٸی، اگر آج منی بجٹ پاس ہوا تو آٸی ایم ایف کے دباو میں پاس ہوا، ہم نے اپنے ملک کے سٹیٹ بینک کو خودمختاری کے نام پر اپنے ملک کے کنٹرول سے باہر کیا اور آج وہ براہ راست آٸی ایم ایف کے کنٹرول میں ہوگا جہاں پر آپ کا اپنا بینک بھی آپ کی مدد نہیں کرے گا۔ یہ غلطی خلافت عثمانیہ نے کی جب اُس نے اپنے مرکزی بینک کو عالمی مالیاتی اداروں سے وابستہ کیا اور پھر جب عثمانی خلافت پر مشکلات آٸی تو اپنے بینک نے اُن کو قرضہ دینے سے انکار کردیا۔

اور میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ سٹیٹ بینک کے حوالے سے قانون تو اب پاس ہوا، کس طرح پاس ہوا وہ بھی ہم جانتے ہیں لیکن جولاٸی 2019 سے سٹیٹ بینک نے اِسی حکومت کو ایک روپے کا قرضہ بھی نہیں دیا۔ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر اِس میں سے سو فیصد ڈالر قرضے کے پڑے ہیں، ہماری اپنی اقتصادی ترقی کا اور اپنی کماٸی کا ایک پیسہ بھی ہمارے بینکوں میں موجود نہیں ہے۔ یہ کیا معیشت ہے، ملک اُسی وقت تباہ ہوجاتے ہیں، ملکی معیشت اُسی وقت گرجاتی ہے جب اُس کی معیشت تباہ ہو۔ آج اگر ہم اِن حکمرانوں کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں بخدا ہم پاکستان کی بقا کی جنگ لڑرہے ہیں، آج ہم کشمیر سے پسپا ہوگٸے، ہم نے کشمیریوں کو ہندوستان کے ظلم کے حوالے کردیا، اِس لیے کہ ہمارے بس میں نہیں ہے۔

عام آدمی تو کہتا ہے کہ میرے پاس بل ادا کرنے کے پیسے نہیں ہے، میں بجلی کا بل ادا نہیں کرسکتا، میں گیس کا بل نہیں ادا کرسکتا، میں سکول میں اپنے بچوں کی فیس نہیں ادا کرسکتا، میں بازار سے راشن نہیں خرید سکتا، ایک خبر آٸی ہے کہ ہمارے فوج نے بھی درخواست کردی ہے کہ ہمارے بجلی کے بل کو بھی پچاس فیصد ہمارے لیے معاف کردے۔ اگر ہماری دفاع کا بھی یہ حال ہو جاٸے تو آپ بتاٸے اِس ملک کا کیا بنے گا۔ اور اِن حالات میں بھی پاکستان کا مذہبی طبقہ، پاکستان کے مدارس، پاکستان کے علماء، جو اِس ملک کے وفادار اِس ملک کی بقا کے جنگ لڑ رہے ہیں وہاں اُن کے محلات میں انہی علماء کے خلاف سازشیں ہورہی ہے۔

مدارسوں کے وفاق ہیں ہر وفاق کے مقابلے میں نٸے سرکاری وفاق بناٸے گٸے اور اِن کا نشانہ یہ ہے کہ وفاق المدارس کو کمزور کیا جاٸے۔ اِن کا خیال تھا کہ وفاق المدارس میں عہدوں پر جنگ ہوگی اور عہدوں کی یہ جنگ وفاق کو توڑ ڈالے گی، لیکن ہم نے ثابت کردیا کہ وفاق میں عہدوں پر کوٸی جنگ نہیں ہے، اور وفاق ایک مُٹھی اور متحد ہے۔ پھر اپنے گھر سے نٸے وفاق پیدا کردیے، ایک زمانے میں مشرف صاحب نے بھی مدارس کے نام پر بورڈ بناٸے تھے اور کہہ رہا تھا کہ اِس میں بچے تعلیم حاصل کریں گے، میں نے وہاں بھی کہا تھا کہ دوست مدرسہ کا طالب علم اِس میں سبق نہیں پڑھے گا البتہ اِس میں گدھے چریں گے (نعرہ تکبیر اللہ اکبر)۔

اِن کا یہ خیال تھا کہ وفاق کمزور پڑ جاٸے گا، جب وفاق کے مقابلے میں نٸے وفاق بنادیے تو آج دن تک کا حساب آپ کو دے رہا ہوں کہ ہمارے وفاق سے غالباً بیس پچیس مدارس نکلے ہوں گے اور اُن کے ساتھ الحاق کیا ہوگا لیکن ہمارے وفاق میں ایک سو چوبیس مدارس اور آٸے اور وفاق کے ساتھ الحاق کردیا۔ اُن کا خیال تھا کہ مدارس کمزرو پڑ جاٸیں گے، اب آنے والے مہینے کے آخر میں وفاق المدارس کے سالانہ امتحانات ہوں گے، اِن سالانہ امتحانات میں پچھلے سال کی بنسبت اِس سال چالیس ہزار زیادہ داخلے ہوٸے ہیں، آپ اسے ختم کرو نا، اللہ پاک تو اِسے مزید وسعت دے رہا ہے۔

تو میرے محترم بھاٸیو! اِن کا ایجنڈہ یہ تھا کہ ہم پاکستان کے آٸین سے اسلامی دفعات ختم کردیں گے، اِن کا ایجنڈہ یہ تھا کہ ناموس رسالت ﷺ کا قانون ختم کردے گے، اِن کا خیال تھا کہ ختم نبوت کے قانون کو ہم ختم کردے گے، لیکن ہم نے بھی اِن کو چیلنج کیا کہ ہر سو آپ نے دھاندلی کی، ہر سو علماء کو اسمبلیوں سے باہر رکھا، ہر سو ہمیں دنیا کے سامنے کمزور دکھایا، لیکن جب ہم میدان میں نکلے تو آپ کا باپ بھی یہ ایجنڈہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکے گا (ان شاء اللّٰہ)۔ یہ اتنا آسان نہیں ہے ہمیں اپنے وطن اور گھر پر رحم آتی ہے، میرے گھر کو آگ مت لگاو، اور امریکہ کو بھی یہ آواز پہنچانا چاہتے ہیں کہ مدارس کے حدود، مدارس کے نصاب، مدارس کے علوم، اور جو کوٸی مدارس کے علوم پڑھاتے ہیں اور یہی علم حاصل کرتے ہیں یہ اُس کا مانا ہوا بین الاقوامی انسانی حق ہے تم اِس حق سے اِس عالم اور طالب کو محروم نہیں کرسکتے۔

تو میرے محترم دوستو! آپ کے ملک میں مہنگائی ہے، ملک کنگال ہے اور اِس حالت میں بھی ہم ا ف غ ا ن ستان کے ساتھ تجارت کرنا چاہتے ہیں یا وہ ہمارے ساتھ تجارت کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہم سرحدات کو بند کردیتے ہیں، کاروباری طبقے کے کاروبار کو ختم کردیتے ہیں، مزدوروں کی مزدوری ختم کردیتے ہیں۔ اِنہوں نے نوجوانوں سے کہا کہ ہماری حکومت آٸے گی تو ایک کروڑ نوکریاں دے گا اور نوجوانوں نے مان لیا کہ شاٸد اِن کی حکومت آٸے گی تو ایک کروڑ نوکریاں دے گی لیکن اِن کو یہ پتہ نہیں ہے کہ جب سے پاکستان بنا ہے آج چوہتر سال پورے ہورہے ہیں اِن چوہتر سالوں میں بڑے ملازمتوں سے لے کر چھوٹی ملازمتوں تک ابھی تک ایک کروڑ کو نہیں پہنچی، چوہتر سالوں میں ہماری نوکریوں کی تعداد ایک کروڑ تک نہیں پہنچی اور یہ آکے لوگوں سے کہتا ہے ایک سال میں ایک کروڑ نوکریاں دوں گا، یہ خود بیوقوف ہے کہ ہمیں بیوقوف سمجھ رہا ہے۔

ہماری خارجہ پالیسی نہیں ہے، خارجہ پالیسی تب بنتی ہے جب آپ کی معیشت مظبوط ہو، لوگ آپ سے کاروبار کرنا چاہے، دنیا کے مفادات آپ سے وابستہ ہو، ایک کنگال ملک کے ساتھ کون بیوقوف ہوگا جو تجارت کرے گا، کاروبار کرے گا، کون بیوقوف ہوگا جو اِس نالاٸق حکومت کی ناکام معاشی پالیسیوں کے ہوتے ہوٸے وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرے گا۔ اور جب چین نے سرمایہ کاری کی تو اِن حکمرانوں کو ملک حوالے کیا، یہ نااہل لوگ دھاندلی کے ذریعے اِن کے حوالے کیا گیا، یہ عوام کے نماٸندے نہیں ہے، یہ قوم کے نماٸندے نہیں ہے، اور اِسی لیے دنیا اِن کے ساتھ تعاون نہیں کررہی کہ وہ بھی اِن کو پاکستان کا نماٸندہ نہیں سمجھتی۔

چین نے یہاں ستر ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی، معاہدات ہوٸے، عظیم الشان تجارتی شاہراہ سی پیک کے نام سے اُس کی تعمیر شروع ہوٸی، بجلی کی پیداوار اُس میں اضافہ ہوا لیکن بجلی میں اضافے کے باوجود ابھی تک عوام کو وہ بجلی مہیا نہیں کی جاسکی، سی پیک کا منصوبہ روک دیا گیا، وہ چین جو پاکستان کا دوست تھا اور جس دوست کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ دوستی کوہ ہمالیہ سے بلند ہے، بحرالکاہل سے گہری ہے، شہد سے میٹھی ہے، یہ دوستی لوہے سے مظبوط ہے، آج ہم نے دیکھا کہ وہ دوستی معاشی دوستی میں تبدیل ہورہی ہے تو ہم نے ستر سالہ چین کی دوستی کو لات ماری اور ایک بااعتماد دوست کے اعتماد کو ٹھیس پہنچایا۔ اِس طرح ملک نہیں چلا کرتے، ہندوستان آپ کے بارے میں کیا سوچتا ہے میں دعوے سے کہتا ہوں، میں ایک سیاسی کارکن ہو اور ایک طویل عرصے سے سیاست کی گلی کوچوں میں آوارہ گردی کررہا ہوں، کافی تجربات سے گزرا ہوں، ا ف غ ا ن ستان میں اگر کوٸی تنظیم پاکستان کا دوست ہے تو وہ امارت اسلامیہ کے ا ف غ ا ن طا ل ب ا ن ہیں، امریکہ چاہے گا کہ پاکستان اور ا ف غ ا ن س تان کے درمیان تعلقات خراب ہو، امریکہ اور برطانیہ ہندوستان سے نکلا تو کشمیر کا جھگڑا چھوڑ کے گیا تاکہ لڑاٸیاں ہوتی رہے، برطانیہ عرب دنیا سے نکلا اُسے تقسیم کیا جاتے جاتے اُس نے ا س ر ا ٸیل کا ناسور چھوڑا، جس نے دنیاٸے عرب کو زخمی کیا اور دنیاٸے عرب کی زخموں سے آج بھی پیپ نکل رہا ہے، یہ وہ ناسور ہے۔ آج جب امریکہ ا ف غ ا ن ستان سے نکلا تو نکلنے کے بعد ڈیورنڈ لاٸن کا مسٸلہ بیچ میں چھوڑا تاکہ کسی طریقے سے یہ دو دوست دوست نہ رہ سکے۔ سرحدات پر ہر ملک کا اپنا مٶقف ہوسکتا ہے لیکن سرحدات کے تنازعات کو جنگ میں نہیں لے کے جاتے اور آگے دور جنگوں کا ہے بھی نہیں، اور اگر ہم یہ جنگ لڑیں گے تو امریکہ کی سازش کامیاب ہوگی، ہمیں ہر قیمت پر اِس صورتحال کی طرف جانے سے اپنے قدم روکنے چاہیے۔ اپنے ملک کو بھی یہ مشورہ دیتا ہوں میں ا ف غ ا ن ستان کو بھی یہ مشورہ دیتا ہوں۔

آج اِس وقت نیشنل سیکیورٹی پالیسی بناٸی جارہی ہے، بڑے بڑے الفاظ استعمال ہوتے ہیں لوگ سمجھتے ہیں کہ کوٸی بڑا کام ہونے والا ہے، اگر آج قومی سلامتی پالیسی بناٸی جارہی ہے تو پہلے یہ بتایا جاٸے کہ چوہتر سال سے پاکستان کی کوٸی سلامتی پالیسی تھی، اگر ستر یا چوہتر سال سے ہم نے اپنے ملک کی سلامتی پالیسی نہیں بناٸی تو پھر یہ جواب دیا جاٸے کہ پاکستان کی پالیسی کیوں نہیں بنی، اور آج جب تم نیشنل سیکیورٹی پالیسی بناتے ہو، جب تک پاکستان کی معیشت تباہ ہے، معاشی بدحالی ہے، ملک معاشی لحاظ سے کمزور ہے، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ آپ ایک سلامتی پالیسی بناسکے۔ پہلے آپ کو اُس ریڑھ کی ہڈی کو مظبوط کرنا ہوگا اور ریڑھ کی ہڈی اُس کی معیشت ہوا کرتی ہے۔

اسلام ریاستی اور مملکتی زندگی میں، اجتماعی زندگی میں دو باتوں کو ترجیح دیتا ہے پہلی بات کہ انسانی حقوق کا تحفظ ہو، انسانی حقوق کا تحفظ ہے تو پھر وہ امن کی ضمانت ہے، انسان کی جان، انسان کا مال، انسان کی عزت و آبرو، دنیا میں جہاں بھی قانون سازی ہوتی ہے انسان کے اِن تین حقوق کے اردگرد گھومتی رہتی ہے۔ امریکہ کہتا ہے کہ انسانی حقوق کی کوٸی حدود نہیں اور کہتا ہے کہ ا ف غ ا ن ستان میں ہماری شرط یہ ہے کہ اگر ہم ا ف غ ا ن ستان کے امارتی حکومت کے ساتھ تعاون کریں گے تو پہلے ضمانت دینی ہوگی کہ وہ انسانی حقوق کی تحفظ کریں گے۔ تو میں نے کہا کون سی انسانی حقوق، وہ انسانی حقوق جو لوگوں نے گوانتاناموبے میں دیکھ لیا، تم نے گوانتاناموبے میں جو انسان کے ساتھ کیا اور یہ کہا کہ جنیوا انسانی حقوق کے قانون میں جو قیدی کے حقوق ہے وہ قانون اِن پر لاگو نہیں ہوتا، کون سے انسانی حقوق کی بات کرتے ہو جب بیس سال تم نے منی ایٹم بم ا ف غ ا ن ستان پر گراٸے، وہ انسانی حقوق جو لوگوں نے شبرغان جیل میں دیکھے اور برداشت کیے، وہ انسانی حقوق جو آپ نے بگرام جیل کے عقوبت خانوں میں قیدیوں پر آزماٸے، یہ حقوق، تم کس منہ سے انسانی حقوق کی بات کرتے ہو۔ اور پہلے اپنے دامن کو تو دیکھو آپ کے ہاتھوں سے انسانوں کا خون ٹپک رہا ہے اور پھر انسانی خون کی حفاظت کی بات بھی کرتے ہو، ہم تو مشورہ ہی دے سکتے ہیں کہ آپ ا ف غ ا ن ستان کے امارتی اسلامیہ سے انسانی حقوق کے حوالے سے ضمانت مانگنےکا حق نہیں رکھتے، ہم آپ سے ضمانت مانگے گے کہ امریکہ ہمیں ہمارے انسانی حق کی ضمانت دے، یہ ہمارا حق ہے کہ ہم ان سے مطالبہ کرے۔ اس کے بعد ہی دنیا سے دوستی ہوسکتی ہے ورنہ پھر یہ دوستی نہیں طاقت ہے۔ اور ہمارا اول دن سے یہ نعرہ ہے کہ ہم دوستی کی بات کرتے ہیں تم طاقت کا استعمال کروگے تو ہم طاقت کا انکار کرتے ہیں، طاقت کوٸی دلیل نہیں ہے۔ طاقت کی بھی کوٸی اُصول ہوتی ہے، اِس کے لیے کوٸی ضابطے ہوتے ہیں، اگر تم انسانی حقوق کے لیے کہتے ہو کہ اِس کی کوٸی حدود نہیں ہے تو اِس کا معنی یہ ہے کہ دنیا کہ کسی ملک میں آپ کسی پر بھی یہ الزام لگا دے کہ یہاں انسانی حقوق پامال ہورہے ہیں وہاں پہنچ کر اُس ملک میں اپنے فوجی اتار دو۔ تو پھر ہمارا بھی یہ عقیدہ ہے بحثیث مسلمان کے ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ اسلام کی کوٸی جغرافیاٸی حدود نہیں ہے، کرہ ارض کا ہر مسلمان ایک دوسرے کا بھاٸی ہے اگر ہم کسی ملک کی بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں تم تو کسی کی اندرونی معاملات میں مداخلت کررہے ہو۔

تو انسانی حق یہ اسلامی کی تعلیمات کی بنیادی اساس ہے اور دوسری چیز ہے خوشحال معیشت، یہ انسانیت کا مسٸلہ ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب امامت عطا کی گٸی ”انی جاعلک للناس اماما“ تو اُس کے بعد آپ کا لب و لہجہ تبدیل ہوگیا، زمہ داریوں کے تبدیلیوں کے ساتھ آپ کی گفتگو میں بھی تبدیلی آگٸی اب آپ اللّٰہ سے کہتے ہیں ”آیت کریمہ“ آپ نے تو صرف مومن کے لیے امن مانگا، اور خوشحال رزق مانگا، لیکن اللّٰہ نے فرمایا نہیں دنیا میں جو کافر ہے اُس کو بھی دوں گا۔

یہ اسلام کی بنیادی اُصول ہے اور یہ عالمگیر اُصول ہے کیوں کہ یہ امامت کبری ابراہیم علیہ السلام کی تمام انسانیت کے لیے تھی، اور جب ابراہیم علیہ السلام کی امامت تمام دنیا کے لیے تھی تو اللّٰہ نے نبی علیہ السلام کو حکم دیا ”آیت کریمہ“ آپ بھی دین ابراہیم کی پیروی کریں گے، تو اِس کے معنی یہ کہ نبی علیہ السلام بھی تمام انسانیت کے لیے بھیجے گٸے تھے۔ ”آیت کریمہ“ تمام انسانیت کے لیے میں اللّٰہ پاک کا پیغمبر ہو، تو جس طرح نبی علیہ السلام ابراہیم علیہ السلام کی دین کی پیروی کرتے تھے اور اُس اعتبار سے وہ اللّٰہ کی طرف سے تمام انسانیت کے پیغمبر تھے تو پھر اُمت بھی ایسی دی ”آیت کریمہ“ آپ بھی تمام انسانیت کو اللّٰہ کی دین پہنچاٸے گے اور اللّٰہ کی دین کی طرف اُن کو بلاوگے۔ اور پھر اُن تمام انسانیت کی طرف امت کا نکلنا یہ قوت سے ممکن ہوتا ہے، حاکمیت سے ہوتی ہے، اِس لیے تو کہتے ہیں یامرون بالمعروف وینہون عن المنکر، اللّٰہ نے وعظ کا لفظ بھی استعمال کیا ہے، شریعت نے نصیحت اور دعوت کے لفظ بھی استعمال کیے ہیں، لیکن اِسی جگہ پر اَمر کا لفظ استعمال کرتے ہیں، اِسی جگہ پر نہی کا لفظ استعمال کرتے ہیں، اَمر اور نہی کے پیچھے قوت کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ حکومتی طاقت ہے، اور انسانیت کی شرف اِسی میں ہے ”آیت کریمہ“ اسلام انسانیت کو ایک اعلی مقام دیتی ہے، نبی علیہ السلام کے رسالت کو کتنی بڑی مقام عطا کرتی ہے، نبی علیہ السلام کے امت کو کتنا بڑا مقام عطا کرتی ہے، آج اِن حکمرانوں، اِن کی فکر اور غلامانہ ذہنیت کی وجہ سے مسلمان دنیا میں مجموعی طور غلام بن کر رہ گیا ہے۔

میرے محترم بھاٸیو! جمعیت علماٸے اسلام کا یہ نکتہ نظر اور نظریہ ہے پہلی چیز اللّٰہ پر ایمان اور جب اللّٰہ پر ایمان لے آٸے، پھر دل کی عمل، اور یہ روحانی عمل، اور پھر اعمال صالحہ اور اُس ایمان کے تقاضے کے مطابق اعمال کرنا یہ جسم اور جوارح پر منحصر ہے۔

اِس لحاظ سے پہلی چیز یہ ہے کہ عبدیت اور دیانت یہ دل میں پیدا کرے، اگر عبدیت و دیانت نہ ہو تو وہ دل روٸے زمین پر اللّٰہ کی عبادت کا حق نہیں رکھتا، ”آیت کریمہ“ تو بنیاد و اساس یہ اللّٰہ کی عبدیت ہے اور وہ دیانت دل میں ہو اور پھر اُس کے بعد اقتدار، ”آیت کریمہ“ تو اَمر اور نہی اِسے ”آیت کریمہ“ کی طرف لاٸے گیے ہیں، معلوم ہوتا ہے کہ اِس کے لیے اقتدار ضروری ہے۔ اگر یہاں ہم اقتدار کی بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں یہ سیاسی مولوی، یعنی سیاست دنیاوی کاروبار ہے، تو سیاست دان اُسے کہا جاٸے گا جو اچھا کاروباری ہو، پیسہ زیادہ کما سکتا ہو، دھوکہ اچھی طریقے سے دے سکتا ہو، تو کہتے ہیں یہ اچھا سیاست کرتے ہیں، تو کیا سیاست ہے لوگوں کو دھوکہ دیا، لوگوں سے جھوٹ بولا ہے۔ ہم نے تو قران سے یہی سیکھا ہے ”الیوم اکملت لکم دینکم“ آج آپ کے لیے آپ کا دین کامل کردیا، مکمل کیا، تعلیمات کے اعتبار سے، احکامات کے اعتبار سے، ہر لحاظ سے ہم نے دین کو مکمل کیا یہ اکمال دین ہے، اور ”واتممت علیکم نعمتی“ اور جب یہ عالمگیر دین اور مکمل دین آپ کے سپرد کی گٸی تو اب نعمت یہ ہے کہ اِسی کی اقتدار بھی ہو، اِس دین کی اقتدار یہی اتمام نعمت ہے۔ تو اسلام اقتدار کی دین ہے اور سیاست اِس کا راستہ ہے، سیاست وہ مشکل راستہ ہے کہ وہ راستے سے مشکلات ہٹاکر قوت پیدا کرتی ہے۔ تو جب ایک دفعہ آپ میں عبدیت آگٸی، دیانت آگٸی، دین کامل آپ کے دل میں آیا، اور پھر اقتدار آگٸی اور تم پر نعمت تمام ہوگٸی، تو اب اِس کا سنبھالنا بھی ضروری ہے، اور سنبھالنے کے لیے پھر کیا ضروری ہے ”آیت کریمہ“ دفاعی لحاظ سے اپنے آپ کو اتنا طاقتور کردو کہ دشمن آپ سے مرعوب ہو، آج ہمارے حکمران جو نام کے مسلمان ہے اُن کے ہاتھوں ک ا ف ر مرعوب نہیں ہوگا بلکہ یہ اُن کے ہاتھوں مرعوب ہوں گے۔

تو اِس لحاظ سے سیاست کرنا، اسلام کو اقتدار تک پہنچانا یہ اتمام نعمت ہے، اور پھر اِس کی دفاع کرنا، اِس کی حفاظت کے لیے دفاعی قوت تیار کرنا، دشمن کے مقابلے میں اِس کے حملوں کے خطروں سے خود کو بچانا اور محفوظ کرنا اِس کے لیے دفاعی قوت بنانا لازمی ہے۔

ہم ایسے خوبصورت اور منور قرانی تعلیمات رکھتے ہیں، جناب رسول اللّٰہ ﷺ کی حیات طیبہ، صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی زندگی، وہ ہمارے لیے رہنما ہے اور یہی جمعیت علماء اسلام کے آکابر سے ہمیں یہ درس ملا ہے، آج جمعیت علماٸے اسلام پاکستان میں میں ایک بڑی سیاسی قوت شمار کی جاتی ہے، صرف یہ نہیں کہ یہ ایک مذہبی جماعت ہے، صرف یہ نہیں کہ یہ مولویوں کی جماعت ہے بلکہ علماء کی قیادت میں آج یہ عوام کی جماعت ہے۔ اِس کے پاس قوت ہے اور ان شاء اللّٰہ اِس قوت کو مزید بڑھاٸیں گے۔

تو اِس لحاظ سے ہمارے لیے اپنے دین اسلام کی رہنماٸی کافی ہے، اور یہی مدارس اِسی کی تعلیم دیتی ہے، ورنہ جن یونیورسٹیوں میں کسی نے تعلیم حاصل کی ہے بہت ہی بڑے بڑے وزیر، بہت ہی بڑے لیکچرار، پروفیسرز، آفیسرز، پھر اُن کو سورة اخلاص پڑھنی نہیں آتی، پھر جب اُن کو قل ھواللّٰہ نہیں آتی یا پھر بھی کچھ پڑھنی آتی ہو لیکن اگر دعاٸے قنوت کے بارے میں اُن سے پوچھو گے تو پھر تو خواہ مخواہ وہ اُن کو نہیں آتی، وہ تو اتنے بے خبر ہے کہ یہ بھی نہیں جانتے کہ ہمارے پیغمبرﷺ کا نام کیا تھا، یہ بھی نہیں جانتے کہ ہمارے پیغمبرﷺ کہاں پر پیدا ہوٸے، تو پھر تم بھی اپنے کالج یونیورسٹی کی پوزیشن ذرا ٹھیک کردو، یہ بھی تو مسلمان ہے مسلمان گھروں کے بچے ہیں اور یہ کلمے تک سے بے خبر ہے، انجینٸرگ بھی پڑھی ہے، میڈیکل بھی پڑھی ہے، بڑا آفسر بھی ہے، تمام تعلیمات مکمل کی ہے، اور مسلمان بھی ہے، کلمہ گو بھی ہے، لیکن اِن کو کلمہ بھی نہیں آتا، نماز پڑھنی بھی نہیں آتی، پیغمبرﷺ کا نام بھی یاد نہیں، قل ھواللّٰہ بھی پڑھنا نہیں آتا، تو وہاں اقتدار کی حالت میں پہلے اللّٰہ بندگی کی بات کرتے ہیں ”آیت کریمہ“ تو اِسی ترتیب سے ہمارے مدارس نٸی نسل تیار کررہی ہے، نٸے نسل کو رہنماٸی دیتی ہے، عصری علوم کے ساتھ ہماری کوٸی دشمنی نہیں ہے، یا تو چیلنج دیتے ہیں کہ آٸے اور حساب کتاب کرلے کہ میرے مدرسے کے کتنے طلباء کالجز میں سبق پڑھتے ہیں، عصری علوم کے امتحانات دیتے ہیں اور آپ کے کتنے طلباء مدارس میں پڑھتے ہیں، آپ میرے حساب کو نہیں مانتے میں تو آپ کے حساب کو مانتا ہوں، میں تو اپنے بچوں پر دینی و عصری علوم حاصل کرتا ہوں۔

داود علیہ السلام کو اللّٰہ پاک نے لوہے کا ہنر سکھایا تھا وہ نیزے بناتے تھے، سلیمان علیہ السلام کو اللّٰہ پاک نے بادشاہی کا طریقہ سکھایا تھا، آسمانوں، زمینوں، ہواوں، چرند پرند، دریاوں کو اُس کے لیے مسخر کردیا گیا تھا، نوح علیہ السلام کو اللّٰہ پاک نے کشتی بنانے کا طریقہ سکھایا تھا، یوسف علیہ السلام کو اللّٰہ نے ریاضی کی تعلیم دی تھی، تو یہ تو دنیاوی علوم تھی، تو دینی علوم اور عصری علوم میں یہ فرق کس نے بنایا ہے یہ فرنگی نے پیدا کیا ہے، فرنگی نے بنایا اور پاکستان کے حکمران، پاکستان کے بیورو کریسی، پاکستان کے اسٹبلشمنٹ اُن کے نقش قدم پر چلتے ہیں۔ جیسا کہ نبی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ایک زمانہ آٸے گا کہ آپ پچھلی اُمتوں کے قدم بہ قدم، بالشت بہ بالشت ایسی پیروی کروگے کہ اگر وہ گوہ کے غار میں بھی گھس جاٸے تو آپ وہاں بھی اُن کے پیچھے جاوگے کہ ہوسکتا ہے یہاں کوٸی خزانہ ہو اور بہت مال ہوگا، صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ ہم یہود و نصاری کے پیچھے جاٸیں گے تو نبی علیہ السلام نے فرمایا اور کون ہوسکتے ہے۔

تو اِس لحاظ سے آج چمن میں جو ا ف غ ا ن ستان کے زمین کے ساتھ جڑا شہر ہے، آپ کے اِس اجتماع میں امارتی اسلامیہ کے فتح پر اُن کو پورے جمعیت کی طرف سے، تمام علماء کی طرف سے اور پاکستانیوں کی طرف سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

تو پاکستان کے سمت میں ان شاء اللّٰہ ہمارے آکابر کا نظریہ، اور اِس نظریے کے لیے محنت و کوشش، اِس کے لیے رویہ، حکمت عملی ہم پاکستان کے ماحول میں تیار کریں گے اور ان شاء اللّٰہ، اللّٰہ کامیابی دے گا، کامیابی اللّٰہ کے ہاتھ میں ہے، نتیجہ اللّٰہ کے ہاتھ میں ہے، اللّٰہ آپ سے یہ نہیں پوچھے گا کہ تم نے یہ کام مکمل کیا کہ نہیں، پر یہ پوچھے گا کہ محنت کیا کہ نہیں، تو ان شاء اللّٰہ جب ہم محنت کریں گے تو اُس پر اللّٰہ پاک کامیابی کے نتاٸج مرتب کریں گے۔ اللّٰہ اِس اجتماع کو قبول فرماٸے، اِس میں آپ کی شرکت قبول فرماٸے، اللّٰہ پاک اسے ہمارے عافیت کا ذریعہ بناٸے، ہمارے نجات کا ذریعہ بناٸے اور دینی علوم کی ترقی کا ذریعہ بناٸے۔

واخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمین۔

ضبط تحریر: #سہیل_سہراب

ممبر ٹیم جے یو آٸی سوات

#teamjuiswat

0/Post a Comment/Comments