کراچی: سربراہ پی ڈی ایم حضرت مولانا فضل الرحمان صاحب کا جمعیت علماء اسلام صوبہ سندھ کے مجلس عمومی اجلاس سے خطاب 31 جنوری 2022


 کراچی: سربراہ پی ڈی ایم حضرت مولانا فضل الرحمان صاحب کا جمعیت علماء اسلام صوبہ سندھ کے مجلس عمومی اجلاس سے خطاب

 31 جنوری 2022

خطبہ مسنونہ کے بعد

تو ظاہر ہے جب ہم ملک میں اسلام کی بات کریں گے تو اجتماعی زمہ داریاں سنبھالنا جس کو آپ یا خلافت سے تعبیر کرتے ہیں یا امامت سے تعبیر کرتے ہیں اُس سے استعداد ہی تب بنتا ہے جب آپ کے اندر عبدیت ہو، اللّٰہ کی بندگی مملکتی نظام کو سنبھالنے اور چلانے کے لیے بنیاد اور اساس ہے ”آیت کریمہ“ تو دل کے اندر عبادت اور دل کے اندر دیانت یہ اولین چیز ہے اور یہ ہم سب کی ضرورت ہے۔

اِس لحاظ سے اللّٰہ رب العزت نے جو نظام بھیجا ہے، اللّٰہ تعالیٰ نے خود اِس کی مکمل ہونے کا اعلان کیا ہے ”میں نے تمہارا دین تمہارے لیے مکمل کردیا ہے“ تعلیمات کے حوالے سے، احکامات کے حوالے سے، ہدایات کے حوالے سے، لاٸحہ عمل کے حوالے سے کامل اور مکمل، ”واتممت علیکم نعمتی“ اور میں نے اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے۔

ہمارے حضرات اتمام نعمت کو اِس دین کی اقتدار سے تعبیر کرتے ہیں، اِس کی حکومت آجاٸے تاکہ یہ عملی شکل اختیار کرے۔ لیکن ظاہر ہے کہ عبادت اُس کے لیے تنہائی بھی چاہیے، اُس کے لیے پُرسکون ماحول چاہیے، پُرامن ماحول چاہیے، تو یہ ایک تربیت ہے کہ اپنی شخصی زندگی میں اللّٰہ کی بندگی کو اُتارنا اور اللّٰہ سے اپنا رشتہ جوڑنا، اور اُس کے لیے تنہائی اختیار کرنا، اور اُس تنہائی کے لیے سکون، اطمینان، اَمن کا ماحول تلاش کرنا، اور جب آپ اُس میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور پھر اُسی تنہائی میں آپ یہ ساری چیزیں جاری رکھتے ہیں تو پھر یہ اسلام کا مزاج نہیں ہے، یہ تو رہبانیت ہے، تو اسلام کا مزاج یہ ہے کہ جو سکون آپ نے اپنے ذات کے لیے، جو اطمینان کا ماحول آپ نے اپنے ذات کے لیے، اور جو اَمن کا ماحول آپ نے اپنے ذات کے لیے، اُس کے عبادت کے تقابل کے لیے اختیار کیا ہے یہی اَمن، یہی سکون، یہی اطمینان آپ پورے معاشرے کو دے، اِس تربیت کا یہ فاٸدہ ہوتا ہے۔ تو اسلام پھر پوری دنیا میں پھیل جاٸے گا، اور اللّٰہ رب العزت نے انسان کی شرافت اور اُس کی تکریم اُس کے لیے واضح طور پر فرمایا ”آیت کریمہ“ ہم نے انسان کو شرف انسانیت عطا کیا ہے اور بحر و بر پر اُس کی حاکمیت ہے، آپ نے پھیلنا ہے اسلام کو ایک عالمگیر نظام کے طور پر دکھانا ہے، اِس کی آفاقیت بتانی ہے۔ ہمیں اپنے ماحول تک محدود رکھنے کے لیے دنیا میں کام ہوتے ہے، کبھی ہمیں فرقہ واریت کے بنیاد پر ایسا لڑاتے ہیں کہ مذہب اور دینی جماعتيں اپنے اپنے ماحول میں سکڑ جاٸے اور وہ اسلام کی برکات کو پوری انسانیت تک نہ پہنچا سکے، کبھی ہمیں قومیت کے نعرے دیے جاتے ہیں میری برادری، میری قومیت، میری زبان، اور اِن تعصبات کی بنیاد پر بدبودار قسم کے نعرے تخلیق کیے جاتے ہیں، تعصب کی بنیاد پر قومیت کا نعرہ اِس کا مجرم کون ہے؟ نسل پر فخر کرنا اور نسل کی بنیاد پر خود کو بڑا ثابت کرنا اِس کی ابتدا تو ابلیس نے کی تھی ”آیت کریمہ“ میں اِس کو سجدہ کروں گا، میں تو آگ سے پیدا ہوا ہو یہ مٹی سے بنا ہے، تو نسلی تعصب کا آغاز تو اُس شیطان نے کیا تھا، اور صحابہ کرام رضوان اللّٰہ تعالی علیہم اجمعین کے زمانے میں جب دو صحابی آپس میں لڑے اور دونوں نے اپنے اپنے قبیلوں کو آواز دی تو آپ نے فرمایا کہ یہ نعرہ یہ آواز یہ بدبو ہے، ہر ایک بااثر ہوتا ہے لیکن برادری کی بنیاد پر کسی کو حقیر سمجھنا، حقوق کے نام پر قومیت کا نعرہ استعمال کرنا، آج جمعیت علماء اسلام سیاسی جماعت ہونے کے ناطے ہمارا کارکن جدوجہد میں ہے لیکن اگر وقت آجاٸے اور ملک کا اقتدار آپ کو مل جاٸے تو اِس اقتدار میں پھر آپ کے ملک میں کوٸی ہندوں نہیں ہوگا؟ کوٸی سکھ نہیں ہوگا؟ کوٸی عیساٸی نہیں ہوگا؟ کوٸی شیعہ نہیں ہوگا؟ بریلوی نہیں ہوگا؟ تو اُس وقت تو آپ سارے حقوق صرف دیوبندیوں کو دیں گے اور اُن کو دفع کرو۔

تو جب کل کو بطور حکمران آپ کی زمہ داریاں ملک کے تمام شہریوں کو بِلا امتیاز اُن کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے تو آج جدوجہد میں بھی آپ نے اُن رویوں کو اپنانا ہے، یہ بات ہمیں رویے سے پہلے سوچنی پڑے گی، مذہبی جماعتیں اور بھی ہیں اسلام اسلام کی باتیں کرتے ہیں۔ ہمارے کچھ دوست ہیں علمی لوگ ہیں لیکن جب بھی دیکھو خلافت راشدہ خلافت راشدہ، تو اُن سے میں نے کہا اللّٰہ کے بندوں خلافت راشدہ زبان سے ذکر کرنے کا نام ہے، کوٸی ہوا میں اَٹکی ہوٸی چیز کا نام ہے، یہ روٸے زمین پر باقاعدہ ایک عملی نظام ہے اور اِس عملی نظام کو آپ ایک دوسرے شریک کے خلاف استعمال کررہے ہیں لیکن خود اِس کو نافذ کرنے کی جدوجہد نہیں کررہے ہیں کیوں؟

تو اِس لحاظ سے انسانی حقوق کا محافظ بننا، اور معاشرے کا نظام جہاں رسول اللّٰہﷺ کو جب اللّٰہ نے حکم دیا ”آیت کریمہ“ کہ دین ابراہیمی کی پیروی کرنی ہے اب دینی ابراہیمی میں جب پیروی کا لفظ آتا ہے تو اِس سے اُس کی عالمگیریت کی طرف اشارہ ہے کیوں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ”اِنِّی جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامَا“ تو جس پیغمبر کے دین کی پیروی کا آپ کو حکم دیا جارہا ہے وہ پیغمبر پوری انسانیت کے لیے امام تھا اور جب پوری انسانیت کے لیے امام بن گیا تو وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام جو توحید کی بات کرتا تھا، جو شرک کے خلاف لڑرہا تھا، جو کفر کے خلاف لڑرہا تھا، لڑتے لڑتے آگ میں ڈالا گیا تمام امتحانات سے گزر گیا، اب جب وہ امام بناٸے گٸے اب آپ کے اُصولوں میں فرق کیوں آٸے، اُس کے بعد آپ کہتے ہیں ”آیت کریمہ“ اب آپ کو اِس منصب کی نسبت سے یہی فکر لاحق ہوٸی کہ میں اِس ساری آبادی کو اَمن کیسے دوں گا، اُس کے انسانی حقوق کا تحفظ کیسے ہوگا اور میں اِس کو خوشحال معیشت کیسے دوں گا، لیکن آپ کی نظر میں صرف مومن، لیکن دنیا کی زندگی میں اللّٰہ تعالی نے فرمایا ”وَمَن کَفَر فَاُامَّتِعّہُ“ جس نے کفر کیا اُس کو بھی دوں گا، کیوں کہ یہاں بشر ہے۔ آج اُس بشر کے حق کا مالک امریکہ بنا ہوا ہے اور کہتا ہے کہ بشری حقوق اور انسانی حقوق کے لیے کوٸی جغرافیاٸی حدود نہیں ہوتے، اُس کے جو جغرافیاٸی حدود نہیں ہوتے تو اُس کے لیے وہ ا ف غ ا ن ستان میں اترتا ہے کیوں کہ یہاں پر انسانی حقوق مارے جارہے ہیں، اسلام کی بات کرنا جرم ہے، اِس کو تنگ نظر کہا جاتا ہے، اُس کو شدت پسند کہا جاتا ہے، تو میں نے اُن سے کہا اچھا وہ جو تم نے گوانتاناموبے میں کیا وہ دنیا کے کونسے انسانی حقوق تھے، جب تم نے کہا کہ یہ قیدی جنیوا کنونشن کے منشور کے مطابق قیدیوں کے زمرے میں بھی نہیں آتے اور اُن کو حقوق حاصل نہیں ہے، سمندر میں تمہاری بحری بیڑیں اُن کے اندر جو انسانوں کے ساتھ ہوا، بگرام جیل کے عقوبت خانوں میں ابھی بھی دیواروں کے اُوپر خون کے دھبے لگے ہوٸے ہیں جو بیس سال تم نے اُن پر مظالم کیے، شبرغان جیل میں اور بتاوں گا تو کیا کچھ نہیں کیا بمباریاں، ڈرون یہ وہ سب کچھ کیا، اور نتیجہ یہ ہے (قہقہوں کی آوازیں)۔

اب جو قوت اپنے آپ کو سپر پاور کہتی ہے ا ف غ ا ن ستان میں شکست کھانے کے بعد بھی اُس کو یہ حق حاصل ہے کہ اپنے آپ کو سپر پاور کہہ سکے، ایک تو اپنے قوم کی دماغوں سے، اپنے بیوروکریسی کی دماغوں سے، اپنی اسٹبلشمنٹ کی دماغوں سے امریکہ کی اِس رعب کو اُتارنا ہے یہ بھی آپ کے زمہ ہے۔

تو اِس اعتبار سے پہلی بات کہ ہم خود اللّٰہ کے بندے بنے اور عبادت و دیانت ہمارے دل کے اندر آٸے، اُس کے بعد اِسی نظام کا اقتدار، میں کبھی کبھی مولوی صاحبان سے کہتا ہوں بطور طالب علم کہہ رہا ہوں پتہ نہیں صحیح کہہ رہا ہوں کہ غلط کہہ رہا ہوں، لیکن میں نے اُن سے کہا کہ اللّٰہ رب العزت نے اَمر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے جو الفاظ استعمال کیے ہیں ”آیت کریمہ“ یہاں پر اُمت، جماعت اُس کی وہ طاقت ہے کہ وہ پوری انسانیت تک یہ پیغام پہنچاٸے اور دنیا میں طاقت اور قوت اپنے ہاتھ میں لے کر پھر بھلاٸ کا حکم دے گا اور براٸی سے روکے گا، اَمر اور نہی دو ایسے الفاظ ہیں کہ جس کا مصداق اُس وقت تک ہمیں نہیں مل سکے گا جب تک کے اِس کی پُرس اور قوت نہیں ہوگی، ورنہ قران کریم وعظ کا لفظ بھی استعمال کرتا ہے، شریعت دعوت کا لفظ بھی استعمال کرتی ہے، شریعت نصیحت کا لفظ بھی استعمال کرتی ہے، تذکیر کا لفظ بھی استعمال کرتی ہے، یہاں پر اَمر کا لفظ کیوں استعمال کیا، یہاں پر نہی کا لفظ کیوں استعمال کیا، تو ہمارے ہی دوست ہمارے ہی ساتھی کہتے ہیں یار آپ ہمارے سارے کام کیوں خراب کررہے ہیں یہ تو ہر اُمتی کا فرض ہے امر بالمعروف کرے اور نہی عن المنکر کرے اِس کے لیے اقتدار کی کیا ضرورت ہے، تو میں نے کہا پھر اللّٰہ تعالی کی اِس آیت کو کہا فٹ کروگے ”آیت کریمہ“ تو وہ لوگ جن کو ہم نے روٸے زمین میں اقتدار دیا اور پھر اُنہوں نے نماز قاٸم کی اور زکوٰۃ دی اور امر بالمعروف کیا اور نہی عن المنکر کیا، ”وَاَعِدُو لَھُم مَااسّتَطعتُم مِن قُوة“ اور جب ایک دفعہ آپ کو اقتدار مل جاٸے تو پھر دشمن کے مقابلے میں اپنے اِس ریاست اور ریاست کے اندر اِس نظام کی محافظت کے لیے دفاعی قوت بنانا بھی ضروری ہے۔

اب بظاہر تو شخصی زندگی کا میدان الگ ہے، سیاست اور اقتدار کا میدان الگ ہے، سرحدات پر حفاظت کرنا اور دفاع کا انتظام سنبھالنا اِس کا میدان الگ ہے، لیکن ہر چند کے تینوں کے میدان الگ ہے لیکن پھر بھی اُن کے اندر فٹ ترازو ہے کہ یہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہے۔

تو اِس اعتبار سے ہمیں جو اپنے آکابرین نے رہنماٸی عطا کی ہے اُس کو مظبوطی سے پکڑنا ہے، ہمیں اپنے آکابر نے جمعیت علماء کے معززیزین نے دو چیزیں دی  ہے ایک جماعتی نظریہ اور ایک اُس جماعت کے کام کرنے کا رویہ ہے۔ یہ دونوں امانت ہے رویے میں بھی اگر بے اعتدالی آگٸی تو افراط و تفریط کا شکار ہوگیے افراط بھی نَقس ہے تفریط بھی نَقس ہے جماعت اعتدال ہے۔

تو اِس نہج پر ہمیں اپنے معاملات آگے بڑھانے ہے، تتا بتا ہم محنت کرتے ہیں بڑی بات ہے ”آیت کریمہ“ محنت کو اللّٰہ ضاٸع نہیں کرتا، دنیا میں بھی اُس کے نتاٸج مرتب کرتا ہے اور آخرت میں بھی اِس کے نتاٸج مرتب کرتا ہے۔ تو جس طرح آپ قوم کو اپنے طرف متوجہ کررہے ہیں ہرچند کے آپ کو طعنے بھی سننے پڑتے ہیں، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مولوی صاحب کیا جانتا ہے، حالانکہ پہلی بات یہ کہ آپ خارجہ پالیسی، بین الاقوامی تعلقات اُس کے لیے کوٸی پالیسی نہیں بناسکتے جب تک کہ آپ معاشی لحاظ سے مستحکم نہ ہو، جب تک آپ دنیا کے مفادات کو اپنے ساتھ وابستہ نہیں کرتے، آپ اچھی خارجہ پالیسی بناہی نہیں سکتے۔ ایک زمانہ تھا انڈیا میں بے جے پی کی حکومت تھی اور آج بھی وہاں بے جے پی کی حکومت ہے، اُس وقت بے جے پی کا وزیراعظم بس میں لاہور آتا ہے اور مینار پاکستان پر کھڑے ہوکر پاکستان کی حقیقت کو تسلیم کرتا ہے اور کہتا ہے پڑوسی تبدیل نہیں کیے جاتے ہم پڑوسی ہیں، کیوں آیا تھا، وہ آپ کے ساتھ تجارت کرنا چاہتا تھا، آپ کی معیشت بہتر تھی، پیاز آلو ٹماٹر کی تجارت کرنا چاہتا تھا، اور آج کہتا ہے میرا تو کوٸی نہیں سنتا، کیوں سنے بھٸی، ایک تو دنیا کی نظر میں تم عوام کے نماٸندے نہیں ہو، دوسرا نااہل ہو خود کی معیشت تباہ کردی، کنگال کے ساتھ کون بیٹھتا ہے، اب آپ بتاٸے جہاں جس ملک کے اندر معاشی پالیسی نہ ہو اور ہر چار مہینے کے بعد ٹیکس وصول کرنے کے لیے ایک مِنی بجٹ پیش ہوتا ہو ورنہ پھر آپ کے پاس تنخواہیں نہیں ہوگی۔ اِس وقت پاکستان کے بینکوں میں زرمبادلہ کے جو ذخائر موجود ہیں Reserve وہ سو فیصد قرضوں کہ پیسے ہے سو فیصد، اپنی آمدن نہیں ہے۔

ابھی بل پاس کیا ہے کہ سٹیٹ بینک کو خودمختار بنایا جاٸے یعنی اپنی مرضی اگر چاہے تو اپنے حکومت کو بھی قرضہ نہ دے، اِس پہ سٹیٹ بینک نے انحصار نہیں کیا، آج ہم 2022 میں جارہے ہیں جولاٸی 2019 سے اب تک اِس حکومت کو ہمارے سٹیٹ بینک نے ایک روپیہ کا قرضہ بھی نہیں دیا، کیوں کہ اِس میں ادا کرنے کی قوت نہیں ہے، آج تک سارے قرضے کمرشل بینکوں سے لیے ہیں اور ہمیں قومی سلامتی پالیسی دے رہے ہیں، نیشنل سیکیورٹی پالیسی، اب نیشنل سیکیورٹی پالیسی آج دینا اِس کے معنی یہ ہے کہ پچھلے چوہتر سال ہم نے بغیر سیکیورٹی پالیسی کے گزارے، یا یہ کہ پہلے ایک پالیسی تھی اور اب نٸی پالیسی دے رہے ہیں تو پھر اُن کی خامیاں تو بتاو، وہ پالیسی کیا تھی اور اب دوبارہ کیا ضرورت پڑگٸی، ایسی بڑی بات کردینا تاکہ لوگوں کی توجہ ہوجاٸے کہ لوگ سمجھے شاٸد کچھ بہتری آنے والی ہے، کونسی سیکیورٹی پالیسی، پاکستان کی وہ سیکیورٹی پالیسی کہ جنرل ایوب خان نے ہمارے تین دریا بیچ دیے تھے، پاکستان کی وہ خارجہ پالیسی جس کے نتیجے میں پاکستان دولخت ہوگیا تھا، پاکستان کی وہ سیکیورٹی پالیسی جس کے نتیجے میں ضیاءالحق کے زمانے میں سیاہ چین ان کے حوالے ہوگیا تھا، پاکستان کی وہ سیکیورٹی پالیسی کہ جہاں ہم نے کارگل انڈیا کے حوالے کردیا تھا، یا ہماری وہ سیکیورٹی پالیسی جو ہم قباٸل میں اختیار کیے ہوٸے ہیں کہ ڈیورنڈ لاٸن کو مسلسل متنازعہ رکھا ہوا ہے اور آج بھی دونوں ملکوں کے تعلقات کے بیچ پڑی آگ ہے۔ تو عالمی طاقتیں جب کسی ملک سے نکلتی ہے تو کوٸی شیطانی چھوڑ جاتے ہیں، ہندوستان سے انگریز نکلا کشمیر کا تنازعہ چھوڑا، عرب دنیا سے انگریز نکلا ا س را ٸیل کا تنازعہ چھوڑ گیا، آج ا ف غ ا ن س تان سے امریکہ نکلا ڈیورنڈ لاٸن کا تنازعہ چھوڑ گیا تاکہ پاکستان اور ا ف غ ا ن ستان امارت وہ آپس میں لڑ پڑے، یہ ہماری سیکیورٹی پالیسی ہے، کیا پالیسی کس چیز کی پالیسی، جب تک آپ کی معیشت مظبوط نہیں نہ آپ مٶثر خارجہ پالیسی بناسکتے ہیں اور تنہائی تنہائی کشمیر کے اوپر تنہائی یہاں تک کہ ہم نے وہ بھی اُن کے حوالے کیا، ہم ج ن گ نہیں لڑ سکتے، پاکستان کو اِس مقام پر لانا کہ وہ نہ اپنے سرحدات کی حفاظت کرسکے، وہ کشمیر کے تنازعے کو چھوڑ جاٸے اور ا ف غ ا ن ستان کے ساتھ ایک نٸے تنازعے کی طرف بڑھے، تو کیا آپ باڑ لگا رہے ہیں وہ باڑ نہیں مان رہے، تو کون سی سیکیورٹی پالیسی، آپ نے دیا کیا ہے۔

اِن ساری چیزوں کو دیکھنا ہوگا ہم نے تو ایک پالیسی کہ چین کے ساتھ ستر سالہ دوستی وہ دوستی جو کوہ ہمالیہ سے اونچی، بحرالکاہل سے گہری، شہد سے میٹھی، لوہے سے مظبوط، چوہتر سال یا ستر سال بعد وہ اقتصادی دوستی میں تبدیل ہوگٸی، ستر ارب ڈالر انہوں نے پاکستان بھیجے، پینتیس ارب ڈالر بجلی کی پیداوار پر خرچ کیے، بجلی پیدا ہوگٸی لیکن ٹرانسمیشن لاٸن نہیں ہے اتنی طاقتور کہ وہ اتنی بڑی بجلی اپنے اُوپر لاد سکے یہ تار جل جاٸیں گے اگر اِس کے اوپر آگٸی، تو پڑی رہی نیشنل گریڈ میں آکے جمع ہوگٸی، پوری دنیا کے لیے پاکستان کو تجارتی شاہراہ بنانا، اِس حکومت نے آکر سی پیک کے سارے منصوبے تباہ کردیے۔ اور چین میں گیا تو چینی حکومت کو کہتا ہے کہ ہمارا ملک وہ میگا پروجیکٹس کا متحمل نہیں ہے، میگا پروجیکٹس کا متحمل نہیں ہے، تو کیا کروگے میڈیم لیول اور ماٸیکرو لیول کی تجارت، اب میرے جیسا ایک اَن پڑھ وہ بھی اتنا کچھ جانتا ہے کہ ماٸیکرو لیول کے چھوٹے موٹے کاروبار پبلک ٹو پبلک ہوتے ہیں، عام آدمی خود ایک دوسرے کے ساتھ سودا کرتا ہے میلے میں جاٸے کوٸی بکرا بیچ رہا ہے کوٸی خرید رہا ہے، مرغا کوٸی خرید رہا ہے کوٸی بیچ رہا ہے، انڈہ کوٸی خرید رہا ہے کوٸی بیچ رہا ہے، کٹا کوٸی خرید رہا ہے کوٸی بیچ رہا ہے، زمین کا کوٸی چھوٹا سا ٹکڑا ہے ایک نے بیچ دیا دوسرے نے خرید لیا، تو پبلک کے اندر اندر یہ چیزیں ہوتی ہے اِس پر بین االاقوامی فورم پر بات کرنے کی کیا ضرورت ہے۔

پھر میڈیم لیول پر درمیانی لیول پر یہ پبلک اور ریاست کے درمیان ہوتا ہے، آپ ایک کاروبار کرنا چاہتے ہیں اُس کے لیے آپ کو ریاست کی تعاون کی ضرورت ہے، اُس کے لیے آپ قرضہ لیتے ہیں ریاست کا تعاون لیتے ہیں، آپ ایک کارخانہ لگانا چاہتے ہیں اِس کے لیے زمین آلاٹ کرنا چاہتے ہیں، سرکار آپ کو قرضہ مہیا کردیتی ہے۔

لیکن جہاں میگا پروجیکٹس ہوتے ہیں وہ ملٹی نیشنل کمپینیاں ہوتی ہیں وہ جاکے اُس ملک میں انوسٹ کرتی ہے اور وہاں پر وہ سرمایہ کاری کرتی ہے اور اُس سے نہ امریکہ بے نیاز ہے، نہ یورپ بے نیاز ہے، نہ چین بے نیاز ہے اور نہ روس بے نیاز ہے۔

اب کون اِن کو سمجھاٸے تمہارے عقل کو رونا آٸے اِس طرح کوٸی معیشت کے بارے میں سوچتا ہے، اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سالانہ بجٹ زیرو سے نیچے آگیا، اِس قسم کے حکمران ملک کو ڈبو رہے ہیں، یہ ملک کسی کا نہیں بلکہ ہم سب کا ہے، کسی جرنیل کا نہیں ہے، کسی بیوروکریٹ کا نہیں ہے، ہر ایک کو اپنے وطن کے لیے فکرمند ہونا ہے، اور آنے والے وقت میں اِس کو چیلنج کے طور پر لینا ہے کہ ہم نے ملک کو کس طرح اِس بحران سے نکالنا ہے، کس طرح ہم نے اِس تنہائی سے نکالنا ہے، کس طرح اپنے دوست پیدا کرنے ہے، کس طرح اُن کے لیے پاکستان میں دلچسپی پیدا کرنی ہے۔

تو یہ وہ چیزیں ہوتی ہے کہ اگر ہمیں دنیا میں چلنا ہے تو ہم نے اِن بنیادوں پر چلنا ہے، اِس لیے اِس نہج کو دوام بخشے اور حالات سے اپنے آپ کو آگاہ رکھے۔ عام آدمی کو بھی یہی بتانا ہے، اب عام ووٹر کو کیا چاہیے، عام ووٹر کو یہی چاہیے کہ تم وڈیرے کے ظلم سے مجھے تحفظ دے سکتے ہو کہ نہیں، اور مجھے کوٸی مسٸلہ درپیش ہوجاٸے آپ وہ حل کرسکے گے یا نہیں، بس یہ اعتماد دلانا ہے۔

اب ہم مولوی صاحبان ہے ہم ووٹ مانگتے ہیں لوگ ووٹ دے دیتے ہیں، اُس کے بعد بیچارے کا کوٸی مسٸلہ پیدا ہوگیا، جب مسٸلہ پیدا ہوگیا اور میرے پاس آیا تو میں نے جٹ سے اُس کہا تو نے کاموں کے لیے مجھے ووٹ دیا تھا جاو اپنا کام کرو تم نے اسلام کے لیے ووٹ دیا تھا کام کے لیے تو ووٹ نہیں دیا تھا۔ جناب رسول اللّٰہﷺ فرماتے ہیں کہ جو شخص اپنے مسلمان بھاٸی کی حاجت روی کرتا ہے اللّٰہ تعالی اُس کی حاجتیں پوری کرے گا۔ فرماتے ہیں اللّٰہ تعالی کی ایک مخلوق وہ بھی ہے جسے اللّٰہ تعالی نے لوگوں کی ضرورتیں پوری کرنے اور حاجات کے لیے پیدا کیا ہے، عام لوگ اپنی ضرورتوں کے ساتھ اُن کی طرف دوڑتے ہیں، ایسے لوگوں کے لیے اُس جماعت کے لیے جو اللّٰہ نے یہ توفیق بخشی ہے اُن کو دنیا میں بشارتیں دے رہے ہیں، اللّٰہ تعالی جس بندے کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتے ہیں تو لوگوں کی ضرورتیں اُس کی طرف متوجہ کردیتا ہے، وہ عام آدمی غریب، مسکین، بیچارہ اُس کے لیے نکلنا پڑتا ہے۔ تو جماعتوں کو ہر جگہ اتنا طاقتور بناو کہ عام آدمی سمجھے کہ مجھے اب کسی وڈیرے کی ضرورت نہیں ہے، کوٸی بڑا بیوروکریٹ مجھ پر زور نہیں کرسکتا، میرا حق نہیں چھین سکتا، اُس کو پتہ ہوتا ہے کہ ہم اُس کے ساتھ کھڑے ہیں، اِس ماحول کو لانا اور عام آدمی کی حمایت و تاٸید کو حاصل کرنا، اُس کو جماعت میں لانا، لوگ عجیب لوگ ہیں کہ یہ مفاد پرست لوگ ہیں یہ جماعت میں آرہے ہیں، پتہ نہیں کل ہوں گے یا نہیں ہوں گے، اِس سے آپ کا کیا تعلق ہے، ہوتا ہے یا نہیں ہوتا اللّٰہ اِس کو استقامت دے، اور نہیں تو یہ جماعت چھوڑنا نٸے لوگوں کے آنے کے ساتھ متاثر ہوتا ہے، یہ نٸے سرمایہ دار جمعیت میں آگٸے تو کل نہیں ہوں گے، وہ جو آپ کے پکے پکے نظریاتی نظریاتی علماء کرام تھے وہ آپ کو چھوڑ کر نہیں گٸے، یہ کوٸی بات ہے۔

ہمارے والد رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے میں اکوڑہ خٹک میں پڑھتا تھا تو وہاں کوٸی مسٸلہ ہوگیا، تو فرمایا کہ فرعون کے جادوگر جب حضرت موسی علیہ السلام کے مقابلے میں ہار گٸے تو فوراً ایمان لے آٸے، اور گھنٹے دو گھنٹے کا ایمان ہوگا فرعون نے کہا میرے اجازت کے بغیر اُلٹا لٹکا دوں گا، تمہارے ہاتھ پیر کاٹ دوں گا، تو اُنہوں نے کہا دنیا کی زندگی میں جو کچھ کرنا ہے کرو جاو ہم ایمان لے آٸے ہیں، بس موسی اور ہارون کے رب پر ہمارا ایمان ہے، اور آج ساٹھ ساٹھ ستر ستر سالوں کے ایمان والے، جانے کا فیصلہ ہم نے اور آپ نے نہیں کرنا، آپ نے بس متاثر کرنے کے لیے اپنا کردار پیش کرنا ہے، اور ایک شخص آگیا چلو مفاد کی نیت سے آگیا اُس کو جماعت میں اِس طرح رکھو کہ جب اُس کی ہی خاندان میں نٸی نسل آٸے اور نٸی نسل اُس کے خاندان میں آنکھ کھولے تو وہاں جمعیت کے جھنڈے بھی نظر آٸے، جمعیت کے اشتہار بھی نظر آٸے، جمعیت کے بینرز بھی نظر آٸیں گے،  پھر آپ دیکھے گے کہ اُسی کے خاندان سے لوگ کہیں گے کہ نہیں ہم پیداٸشی جمعیتی ہیں، یہ آپ اور ہم جو جمعیت میں ہے اور ہم کہتے ہیں کہ ہم پیداٸشی جمعیتی ہے تو ہمارا بھی کوٸی اہل سے اُس میں تھا، تو آپ کو کوٸی سمجھے اُن کو محبت دے، عجیب صورتحال یہ ہے کہ جو جمعیت میں نیا آدمی آتا ہے حضرت یہ علاقے کا بڑا سردار ہے، بڑا مظبوط آدمی ہے، اِس کا بڑا قبیلہ ہے، ماشاءاللّٰہ بڑا مٶثر انسان جماعت میں آرہا ہے ماشاءاللّٰہ ماشاءاللّٰہ، اور پھر ہم اُس کو ہار بھی پہناتے ہیں، جمعیت کے مفلر بھی پہناتے ہیں، جمعیت کی ٹوپیاں بھی پہناتے ہیں، اور بڑے زبردست آدمی ہے، لیکن جو ہی چند مہینے بعد الیکشن آتا ہے اور بیچارہ ٹکٹ مانگتا ہے یہ کہاں سے آیا ہے، یہ کل کا آیا اِس کو آپ ٹکٹ دیں گے ہم تو پیداٸشی جمعیتی ہے، اِس کا کیا علاج ہے، کل کو عوام کہیں کہ ہم آپ کو ووٹ نہیں دیں گے پھر کیا کروگے، یہ چیزیں جو ہے یہ فکر، یہ سوچ، ایسی بڑی جماعت کے مقام و بقا کے ساتھ مماثلت نہیں رکھتے، جو نیا آٸے اگر وہ بڑے خاندان کا ہے وہاں کا سردار ہے، لاو اُس کو، جس طرح وہاں عزت دار تھے اُسی طرح یہاں بھی عزت دو۔

اسلام نے ایک تعلیم دی ہے کہ اسلام کے داٸرے میں آنے والا اگر اُس سے پہلے وہ اپنے ماحول میں معزز تھا تو اُس کے دماغ میں کبھی یہ بات نہ آٸے کہ وہاں تو میں عزت مند تھا یہاں آکے کہ میں کیوں پیچھے رہ گیا ہوں، اُس کے اِس احساس کو آپ نے سمجھنا ہے، تم کوشش کرو جماعت کے ماحول، جماعت کا نظریہ، جماعت کے خیر و برکات، اُس کے فکر کو مظبوط کرو، یہ تو پھر بھی مسلمان ہے حق والے ہیں، وہ طاٸف والوں نے جو کیا، کیا کیا اُن کے ساتھ، اور فرشتہ آیا اور کہا کہ آپ حکم دے تو دونوں پہاڑوں کے بیچ اِن کو ریزہ ریزہ کر دو آپﷺ نے فرمایا نہیں مجھے اِن کے اولادوں سے اُمید ہے۔

اِس لحاظ سے آپ جاٸے اپنے معزیزین کو دعوت دے، آپ کے دعوت کا کام پورا ہو جاٸے گا باقی دل میں ڈالنا اللّٰہ کا کام ہے۔

تو اِس لحاظ سے جماعت کے کام کو آگے بڑھانا ہے اور سندھ میں ان شاء اللّٰہ اِس دفعہ ہم نے سیٹیں جیتنی ہے، اور اللّٰہ تعالی ہم سے اپنے مرضی کا کام لے، ہمارے تقصیرات کو اللّٰہ رب العزت اپنے رحم و کرم سے معاف فرماٸے، اور ٢٣ مارچ آنے والا ہے، ٢٣ مارچ کو  ان شاء اللّٰہ العزیز مارچ ہوگا۔

تو آپ تیاری کریں گے اور اُسی طرح جس طرح کہ اِس سے پہلے آپ نے آزادی مارچ کے لیے کی تھی، تو یہ چیزیں آپ کو اس حوالے سے یاد ہونے چاہیے۔ مغرب کے نماز کا وقت ہوا چاہتا ہے باقی باتوں کی گنجاٸش نہیں ہے۔

واخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمین۔

ضبط تحریر: #سہیل_سہراب

ممبر ٹیم جے یو آٸی سوات

#teamjuiswat

0/Post a Comment/Comments