ڈیرہ اسماعیل خان: قائدِ جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمان صاحب کا انتخابی جلسہ عام سے خطاب تحریری صورت میں
07 فروری 2022
خطبہ مسنونہ کے بعد
حضرات علماٸے کرام، میرے بزرگو، میرے دوستو، میرے بھاٸیو! ہمارے نوجوان علماء نے جس جذبے اور ولولے سے جو کہنا تھا انہوں نے آپ کو پیغام پہنچایا، یقیناً میں اُس پر کوٸی اضافہ نہیں کرسکوں گا لیکن آپ جانتے ہیں کہ 2018 الیکشن جو 25 جولاٸی کو منعقد ہوا تھا، میں نے 26 جولاٸی کی تاریخ پڑھنے سے پہلے پہلے اِس الیکشن کو مسترد کردیا تھا، میں نے دیکھا کہ پورے ملک میں نتیجے تبدیل کردیے گٸے، اور پھر میں نے ملک کے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک ہفتے کے اندر اندر ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا کیا اور سب نے بیک آواز کہا کہ الیکشن سر تہ سر دھاندلی ہے اور ہم اِس کو مسترد کرتے ہیں۔
میرے دوستو! میں اُس مٶقف پر آج بھی قاٸم ہو ووٹ عوام کا حق ہے، ووٹ آپ کا حق ہے، آپ کے حق کو چوری کرنے کا کسی کو حق حاصل نہیں اور آپ کا حق ان شاء اللّٰہ آپ کو لوٹا کر ہی دم لیں گے۔
میرے محترم دوستو! ایک تو ناجائز حکومت اور اب تین ساڑھے تین سال کا عرصہ گزرنے کے بعد اِس کی کارکردگی بھی آپ کے سامنے آگٸی ہے، جس نالاٸقی کا مظاہرہ کیا ہے، جس نااہلی کا مظاہرہ کیا، آج اِس نے ملک کو ڈبو دیا ہے، آج ملک کی کشتی ڈبو دی گٸی ہے اور یہ میں نہیں کہہ رہا فیڈرل بورڈ آف ریوینیو ایف بی آر کا چیٸرمین کہتا ہے کہ پاکستان دیوالیہ ہوگا نہیں، پاکستان دیوالیہ ہوچکا ہے۔ تمہارے گھر کی گواہی ہے تمہارے پنجاب کا گورنر کہتا ہے کہ آٸی ایم ایف نے ہم سے سب کچھ لکھوا دیا ہے، اب پاکستان کے معیشت کا کوٸی شعبہ بھی ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے۔ اور سال میں ایک بجٹ آتا ہے یہاں سال میں چار بجٹ آتے ہیں، کیوں کہ پاکستان کا جعلی وزیراعظم وہ بڑا وژن رکھتا ہے اور کہتا ہے ہمارے پاس سال کے بارہ موسم ہیں، حالات سے واقف اتنا عقلمند آدمی ہے، اور کہتا ہے کہ جرمنی اور جاپان یہ پڑوسی ہے ان کی سرحدات آپس میں ملتی ہے، کہاں جرمنی مغربی دنیا میں اور کہاں جاپان مشرقی دنیا میں، اور جغرافیے سے اتنا واقف ہے کہ کہتا ہے کہ جاپان اور جرمنی کی سرحدیں ملتی ہیں، اب یہ باتیں پتہ نہیں اِس نے کس حالت میں کہی ہے، میرے خیال میں شہد پی کر کی ہوگی۔ اور پھر ڈیرہ اسماعیل خان سے جنہیں جعلی طور پر نماٸندگی دی گٸی جب پارلیمنٹ میں اُس کی سریلی آواز کو لوگوں نے سنا، تو یقین آگٸی کہ یہ آواز دھاندلی سے آسکتی ہے عوام کے ووٹ سے نہیں آسکتی۔
میرے محترم دوستو! جب ہماری حکومت تھی تو پاکستان کی سالانہ آمدن میں ترقی کا تخمینہ ساڑھے پانچ فیصد تھا اور اگلے سال کے لیے ساڑھے چھ فیصد کا اندازہ دیا گیا، لیکن جب یہ لوگ آٸے جنہوں نے بیج لگاٸے ہوٸے تھے کہ امانت اور دیانت ہمارے اندر ہے تو پاکستان کی معیشت زیرو سے بھی نیچے چلی گٸی۔ پوری دنیا میں آج ہمیں کوٸی قرض دینے والا نہیں، کیوں قرض دے گا ہمیں اپنا سٹیٹ بینک بھی قرض دینے کو تیار نہیں ہے۔ اور آج ہم نے پاکستان کے سٹیٹ بینک کو پاکستان کے مرکزی بینک کو آٸی ایم ایف کے سپرد کردیا ہے، اب پاکستانی گورنمنٹ کا اِس پر کوٸی کنٹرول نہیں ہے، آج ہمارا سٹیٹ بینک نہ پاکستان کے پارلیمنٹ کو جوابدہ ہے، نہ پاکستان کی گورنمنٹ کو جوابدہ ہے، نہ پاکستان کے وزیراعظم کو جوابدہ ہے اور اگر حکومت کہے بھی کہ مجھے قرضہ چاہیے تو اُس کے قرضے کی درخواست کو مسترد کرسکتا ہے۔ اور میں اِس لیے یہ بات پورے یقین اور وثوق سے کہہ رہا ہوں کہ جب تک ہم نے سٹیٹ بینک کو آٸی ایم ایف کے حوالے نہیں کیا تھا تب بھی جولاٸی 2019 سے آج تک سٹیٹ بینک نے اِس حکومت کو ایک روپیہ کا قرضہ بھی نہیں دیا۔ اب آپ مجھے بتاٸے کہ جس ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر سو فیصد قرضوں کے پیسے سے ہوں اور اپنی آمدن کا کوٸی حصہ اِس میں شامل نہ ہو اور اپنا بینک دو سال سے آپ کو قرضہ نہیں دے رہا، اور اب آپ نے اِس کو اپنے حال پہ چھوڑ دیا کہ یہ براہ راست آٸی ایم ایف سے معاملات طے کرے وہ آٸندہ پاکستان کے حکومت کو کیوں قرضہ دے گا، ملک کو قلاش کردیا گیا ہے۔
آج مہنگاٸی کا کیا حال ہوگیا، ابھی بھی کہا جارہا ہے کہ مذید ٹیکس لگاو، اتنے ٹیکس لگاو کہ غریب آدمی اپنے بچوں کے لیے بازار سے راشن خریدنے کے قابل نہ رہے، آج پاکستان کا غریب آدمی اس کے جیب میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ اپنے بچوں کے لیے راشن خرید سکے، آج ایک غریب آدمی کے پاس اتنا پیسہ نہیں کہ وہ اپنے بچوں کے لیے دواٸی خرید سکے، آج میرے ملک کے غریب کے جیب میں اتنا پیسہ نہیں کہ وہ اپنے بچوں کے سکول کے فیس ادا کرسکے، اور بجلی اتنی مہنگی کردی گٸی کہ اگر کم سے کم کمانے والا، بارہ پندرہ ہزار کمانے والا اگر اُس کی گھر کی بجلی کا بل سات آٹھ ہزار آجاٸے تو آپ مجھے بتاٸے کہ وہ مہینہ تو کیا ایک ہفتہ کیسے گزارے گا۔
یہ ملک اِس لیے بنا تھا کہ اِس قسم کے لوگ آکر قوم پر تجربے کرتے رہیں گے، ایسے نااہلوں کو لاکر بین الاقوامی ایجنڈے پورے کٸے جاٸیں گے، اور قانون سازی کیا ہوٸی ہے اِس ملک میں اگر قانون سازی ہوٸی تو یا تو ایف اے ٹی ایف کے تحت پارليمنٹ نے قانون سازی کی کہ کس طرح آپ کے ملک کی معیشت کو قبضے میں لیا جاٸے، کس طرح آپ کے اوپر مذید ٹیکس بڑھاٸے جاٸے، آپ کی معیشت کو تنگ کردیا جاٸے، ملک کو آپ اِس طرح ڈبوٸیں گے، اور جب الیکشن آٸے گا تو خزانے سے آپ کو پیسے ملے گے اور پھر گلی کوچے میں آپ پیسے بہاٸیں گے، اور کہیں گے میں تو آپ کو پیسے دے رہا ہوں، آپ کی گلی کو پکا کررہا ہوں، آپ کی گھر میں ٹوٹی لگا رہا ہوں، آپ کے گھر میں میٹر لگا رہا ہوں، آپ یہ سیاست کررہے ہیں کہ ملک ڈوب رہا ہے اور آپ کسی سے کہہ رہے ہیں کہ ایک میٹر سے آپ بچ جاٸے گے، جب ملک ڈوبے گا نہ آپ رہیں گے نہ ہم رہے گے اور نہ کوٸی رہے گا۔ اِس لیے میں آج آپ کے سامنے یہ سوال لے کر آیا ہوں اور یہ پیغام آپ کو دینا چاہتا ہوں کہ جب ملک ڈوب رہا ہے تو آپ نے فیصلہ کرنا ہے کہ پی ٹی آٸی کو ووٹ دے کر کیا آپ ملک ڈبونے کے جرم میں اُن کے ساتھ شریک ہورہے ہیں یا نہیں، یہ فیصلہ آپ نے کرنا ہے، ملک کو غرق کرنے میں کیا آپ اُن کے ساتھ شریک ہونا چاہتے ہیں، ملک کی کشتی ڈوب رہی ہے بلکہ ڈوب چکی ہے، یہ تو پاکستان کے غریب عوام ہے حب اوطنی کی وجہ سے آج اپنے ملک کے ساتھ کھڑے ہیں ورنہ جب ملک پر ایسے حالات آتے ہیں تو قوم بغاوتیں کھڑی کرتی ہیں۔ ہم نے ان شاء اللّٰہ اس ملک کو بچانا ہے، اللّٰہ کی مدد سے بچانا ہے، اِس ملک کی بقا کی جنگ ہم لڑ رہے ہیں، آج اگر ہم آپ سے ووٹ مانگ رہے ہیں تو اپنی ذات کے لیے نہیں ملک کے لیے مانگ رہے ہیں، ہماری بات کو سمجھنے کی کوشش کرے۔
میرے محترم دوستو! حالت یہ ہے کہ شکایت کرتا ہے کہتا ہے امریکہ کا نیا صدر جوباٸیڈن مجھے فون نہیں کرتا اور پھر کہتا ہے کہ ہ ن د و ستان کا وزیراعظم میرا فون نہیں اٹھاتا، ایک فون کرتا نہیں دوسرا فون اٹھاتا نہیں، ابھی سرکاری دورے پر وزیروں کا لشکر ساتھ لے کر چاٸنہ گیا تو چاٸنہ کی قیادت نے ویڈیو لنک پر اِس کے ساتھ ملاقات کی، ویڈیو لنک پر بات کرنی تھی تو پاکستان سے نہیں کرسکتے تھے یہ خرچہ کیوں کیا، یہ جہاز کیوں لے گٸے، اور پھر واپس آنے سے انکار کردیا کہ جب تک آپ مجھے ملیں گے نہیں میں پاکستان واپس نہیں جاسکتا۔
میرے محترم دوستو! پاک چاٸنہ تعلقات جب امریکہ نے آپ سے ہاتھ اٹھایا، جب یورپ نے آپ سے ہاتھ اٹھایا، جب آٸی ایم ایف نے آپ سے ہاتھ اٹھایا تو چین نے ستر سالہ وہ دوستی جو ہمالیہ سے بلند، بحرالکاہل سے گہری، شہد سے میٹھی اور لوہے سے مظبوط دوستی تھی اسے معاشی دوستی میں تبدیل کردیا، اور پاکستان کے اندر فوری طور پر پہلی قسط میں ستر ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی، اور یہ سی پیک اُسی پاک چاٸنہ تعلقات کی علامت ہے، لیکن جب یہ نٸی حکومت آٸی تو اِس نٸی حکومت کے ایجنڈے میں یہ بات شامل تھی کہ سی پیک کے منصوبے کو روکنا ہے۔ آج پورا چین آپ سے ناراض ہے، چین کے لوگ واپس چلے گٸے ہیں، جس حصے کے ٹینڈر ہوچکے تھے وہی حصہ کچھ بنا لیکن بین االاقوامی نگرانی کے بغیر بنا ہے، اور جب یہاں یارک تک سی پیک مکمل ہوگیا تو اِس کا افتتاح بند کمرے میں کیا، بند کمرے میں کیوں کرتے ہو، کس سے سے شرما رہے ہو، اپنا منہ تو دکھاو۔ تو ہم نے کہا یہ بین الاقوامی منصوبہ پاک چاٸنہ تعلقات کا مظہر، اُس کی علامت، ہم عوامی افتتاح کریں گے تاکہ چین کو پاکستان کے عوام کی طرف سے پیغام ملے کہ ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں اور ان شاء اللّٰہ آپ کا یہ منصوبہ مکمل ہوگا، گوادر تک مکمل ہوگا، ان شاء اللّٰہ ژوب اورکوٸٹہ تک اگلے سیکشن کا افتتاح بھی ہم عوام کے ہاتھوں کریں گے۔
میرے محترم دوستو! اِنہوں نے پاکستان کو کالونی بنادیا ہے، اگر ہم نے کالونی میں رہنا ہوتا تو دو سو سال فرنگیوں کے خلاف نہ لڑ رہے ہوتے، بیک وقت پچاس ہزار علماٸے کرام کو توپوں سے اڑایا گیا، سولیوں پہ لٹکایا گیا اور جب ہ ن د و ستان کی سولیاں رک گٸی تو درختوں سے لٹکایا گیا، تاریخ کی یہ لازوال قربانیاں ہم نے اِس لیے دی تھی کہ ایک وقت آٸے گا اور ملک کا حکمران عمران جیسا نااہل ہوگا اور وہ پھر پاکستان کو امریکہ کی کالونی بناٸے گا۔
میرے دوستو! امریکہ کا جو رعب اور دبدبہ جس کے نتیجے میں وہ چھوٹی قوموں کو غلام بناٸے رکھنا چاہتا ہے، پاکستان کو غلام بنانا چاہتا ہے، ا ف غ ا ن س تا ن نے امریکہ کو اپنی اوقات یاد دلا دی، اور ایک عالمی قوت، سُپر طاقت جس شکست خوردگی سے دوچار ہوا اور ا ف غ ا ن س تان سے نکلا، آج اُس کا رعب و دبدبہ ٹوٹ چکا ہے اور میں کہتا ہوں کہ امریکہ کو آج کے بعد سُپر طاقت کہلانے کا کوٸی حق حاصل نہیں۔
ہم کاروبار کریں گے دنیا کے ساتھ کریں گے لیکن پاکستان کے مفاد کو سامنے رکھتے ہوٸے کریں گے، آپ نے ہمیں کنگال کردیا نہ دوستوں کا چھوڑا اور ہمیں تنہا کردیا۔ آج انڈیا کی معیشت کہاں کھڑی ہے، آج چاٸنہ کی معیشت مغرب کی معیشت کا مقابلہ کررہی ہے، آج ملاٸیشیا، انڈونیشیا، بنگلہ دیش کی معیشت آسمان سے باتیں کررہی ہے اور ہم سے تو اِس ٹوٹے پھوٹے ا ف غ ا ن س تان کی معیشت بھی بہتر ہورہی ہے، اُس کا پیسہ بھی ہم سے طاقتور ہے، ایران کا پیسہ ہم سے طاقتور ہے، لیکن پاکستان کو کہاں کھڑا کردیا گیا ہے۔ اور میں یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ یہ چھوٹے موٹے ایجنڈے کے ساتھ نہیں آیا تھا، پاکستان کو معاشی لحاظ سے اِس طرح ڈبونا اِس کا ایجنڈہ تھا، اور یہ میں نہیں کہتا، میں کہوں گا تو لوگ کہیں گے کہ یہ الزام لگا رہے ہیں اُن کے اپنے رفقاء، وہ دوست جو اِس کو اقتدار میں لانے کے لیے اپنی تمام تواناٸیاں صرف کرچکے، آج کہتے ہیں کہ جس طرح ملک ڈوبا ہے فضل الرحمن ٹھیک کہتا تھا یہ ایجنڈے کے ساتھ آیا ہوا ہے۔ آج وہی اینکرز وہی دانشور کہتے ہیں کہ ہم نے اِن کے ساتھ تعاون کیا، اِن کو ایک آٸیڈیل سمجھا، آج اپنے اُوپر لعنت بھیج رہے ہیں کہ ہم نے یہ گند کیوں کیا تھا۔
میرے دوستو! ڈیرہ اسماعیل خان کی تاریخ سنجیدہ سیاست کی ہے، ڈیرہ اسماعیل خان مفتی محمود کو پیدا کیا اور دنیا کو اپنا شناخت کروایا، سنجیدہ سیاست دنیا کو بتاٸی، آج ہمارے سامنے اُن لوگوں کو لایا گیا ہے کہ جن کا نام لینا بھی اپنی زبان پر ہم اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ آج میں شہر میں کھڑا ہوں میری زندگی آپ کے سامنے گزری، میرے والد اور میرے خاندان کی زندگی آپ کے سامنے گزری، اِس لٸے میری مجبوری ہے کہ میں گلی کوچے کے لچھے لفنگوں کی زبان استعمال نہیں کرسکتا، لیکن یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ جس طرح عمران خان نے پاکستان کا بیڑہ غرق کیا، اُس کی کشتی ڈبوٸی، یہاں کے لوگ اور یہاں کے جعلی نماٸندے ڈیرہ کو ڈبو رہے ہیں، ان شاء اللّٰہ نہ پاکستان کو ڈوبنے دیں گے نہ ڈیرہ اسماعیل خان کو ڈوبنے دیں گے۔
تو میرے دوستو! آج ترقیاتی منصوبوں کے نام پر ووٹ خریدے جارہے ہیں، دیہاتوں میں جاکر کروڑوں روپوں کی ضمانتیں رکھواٸی جارہی ہیں، پیسے کو پانی کی طرح بہایا جارہا ہے، میرے دوستو آپ بتاٸے کہ جب مفتی صاحب چیف منسٹر بنے گومل یونیورسٹی ڈی آٸی خان میں آٸی، چشمہ راٸٹ بنک کینال آیا، کون سی ضمانت آپ نے مفتی صاحب سے رکھواٸی تھی کہ ہم آپ کو تب منتخب کریں گے پہلے اتنا پیسہ رکھو، یہ وعدہ کرو، آپ نے کوٸی ضمانت رکھواٸی تھی۔ لیکن اُس کا منشور تھا کہ میں نے اپنے پسماندہ علاقے کو آباد کرنا ہے اِس کو ترقی دینی ہے۔ ہم اُس کے وژن کو آگے لے کر جارہے ہیں، آج اگر ہم دامان کے لیے لفٹ کینال کی بات کرتے ہیں ہم نے تو منظور کروایا، رُکا ہے تو اِن نااہلوں کی وجہ سے سارا منصوبہ رک گیا ہے۔ ہم نے میڈیکل کالج، بہت بڑا ہاسپیٹل، گرلز کالج، زرعی یونیورسٹی تمام کچھ کٸے، گومل زام، ٹانک زام یہ تمام منصوبے جس کی طرف ہم نے پیش رفت کی کچھ مکمل ہوگٸے کچھ درمیان میں رہ گٸے، کون سی ضمانتیں آپ نے ہم سے رکھواٸی تھی، کس گاٶں اور دامان کے کون سے علاقے نے ہمیں کہا کہ ہم تب ووٹ دیں گے پہلے آپ ہمارے پاس اتنے کروڑ روپے ضمانت رکھے۔ لیکن ہمارا منشور تھا، ہماری حکومت صوبے میں تھی، ہمارے جمعیت کی منشور ہے کہ میٹرک تک تعلیم مفت دی جاٸے گی، ہم نے پہلے سال میں پراٸمری کو مفت کتابیں دی، ہم نے اگلے سال میں مڈل کو مفت کتابیں دی ہم نے اس سے اگلے سال میٹرک کے طلباء کو جو سرکاری سکولوں میں پڑھتے تھے اُن کو مفت کتابیں دی اور آخری سال میں ہم نے ایف اے/ ایف اے سی کے طلبا کو بھی مفت کتابیں مہیا کی۔ اور پھر ہم نے چیلنج کیا کہ پوری اپوزیشن بتاٸے کہ پورے صوبے میں اگر پہاڑ کی چوٹی پر بھی ایک پراٸمری سکول ہو اور اُس میں ایک طالب علم بھی وہاں رجسٹرڈ ہو اور اُس کو کتاب نہ ملی ہو تو ہمارے نوٹس میں لاو، نہیں لاسکے اور آج تک نہیں لاسکے۔ بعد کی حکومتیں برقرار نہ رکھ سکی لیکن ہم نے ثابت کیا کہ یہ جمعیت کا منشور ہے (نعرہ تکبیر اللّٰہ اکبر)۔
میرے دوستو! یہ ہم نے فیصلہ کیا کہ تمام اضلاع میں اے لیول ہاسپیٹل بناٸیں جاٸیں گے، بارہ اضلاع تک ہم کامیاب ہوٸے اور پورے صوبے میں ہم نے ایمرجنسی مفت کرادی، جو آپ زخمی اور ٹوٹے پھوٹے ہاسپیٹل میں جاتے تھے تو پہلے آپ کے سامنے دواٸیوں کی اتنی لمبی فہرست رکھی جاتی تھی کہ یہ خرید کر لاو، یہ ڈرپ خرید کر لاو، اب یہ زمہ داری ہاسپیٹل کی بنی آپ کو ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کرنی پڑتی۔ تو یہ ساری چیزیں آپ نے ہم سے کوٸی ضمانتیں رکھواٸی تھی، یہ ہوتا ہے وژن یہ ہوتا ہے نظریہ یہ ہوتی ہے کمٹمنٹ، اور یہ صرف آپ سے نہیں اپنے رب کے ساتھ بھی کمٹمنٹ ہوتی ہے۔ یہ خدمت خلق یہ شریعت کا حصہ ہے، جس طرح سیاست انبیاء کی وراثت ہے خدمت خلق بھی انبیاء کی وراثت ہے، اِس کو ہم نے کاروبار بنادیا۔
میرے دوستو! یاد رکھو جس کو دیکھو دیہاتوں میں جاکر ہمارے بھاٸیو کے ساتھ کاروبار کررہے ہوتے ہیں، تُسی ووٹ دے تُسی پیسے دے سو، سیاست کاروبار نہیں، سیاست نظریے کا نام ہے، سیاست سیاست ہوتی ہے، اُس کے اپنے اخلاقیات ہوتے ہیں، اپنے ایک ممبر شپ کے لیے لوگوں کی غلط تربیت کرنا، اُن کی غلط عادتیں بنانا اور ووٹ پر لوگوں کو رشوت دینا یہ چیزیں ملکی سیاست کو تباہ و برباد کردیتی ہے، یہ ملک کی سیاست کے لیے ناسور ہے۔ لہذا نظریہ بناو، اگر میرا عقیدہ ہے کہ پانچ وقت میرے اُوپر نماز فرض ہے اور میں اذان سنتے ہی نماز کے طرف متوجہ ہوتا ہوں اور کوٸی مجھ پر جبر نہیں ہے، تو عوام کی خدمت یہ بھی ایک عقیدہ ہونا چاہیے کسی کا جبر نہیں ہونا چاہیے۔
تو میرے محترم دوستو! مسٸلہ کفیل نظامی کا نہیں ہے، کفیل نظامی ایک نوجوان ہے، ہمارا برخوردار ہے، مسٸلہ یہ ہے کہ آپ نے بلّے کو ووٹ دے کر ملک کو تباہ کرنا ہے یا کتاب کو ووٹ دے کر ملک کو آباد کرنا ہے، یہ بنیادی نکتہ ہے (ٹھپے پہ ٹھپہ کتاب پہ ٹھپہ کے نعرے)۔
تو آج اِس اجتماع سے آپ ایک پیغام لے کر جاٸے، اپنے محلوں اپنے گھروں اور اپنے بیٹھکوں میں جاٸے اور لوگوں کو سمجھاٸے کہ آج اِس موقع پر جب ایک فیصلہ کرنے کا ایک اختیار آپ کے ہاتھ میں آگیا ہے اب یہاں پر تمہارے ہاتھ نہ کانپ جاٸے اور تمہارا دل غلط فیصلہ نہ کرلے، ان شاء اللّٰہ ہم نے ملک کو بچانا ہے، ہم نے کتاب کو ووٹ دے کر ملک کی بقا کی گواہی دینی ہے اور جو لوگ بلّے کو ووٹ دیں گے اُس نے اپنے اوپر گواہی دینی ہے کہ میں اِس پاکستان کو ڈبونا چاہتا ہوں۔
تو اللّٰہ تعالی ہمیں پاکستان کو بچانے کی توفیق عطا فرماٸے (مولانا تیرے جان نثار بے شمار بے شمار)، باقی میں تبصرے نہیں کرتا یہ ہمارا پیغام ہے اور ہم اِس خطے کی بقا اِس کی ترقی اور اِس کے روشن مستقبل کے لیے آپ کے پاس آٸے ہیں اور ہم آپ سے یہ یقین حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ ان شاء اللّٰہ اِس وطن، اِس سرزمین، اِس علاقے کی ترقی اور ملک کی مستقبل کے لیے آپ نے کتاب کا ساتھ دینا ہے۔
اللّٰہ تعالی ہمارے اس چھوٹے سے عمل کو قبول فرماٸے اور ہماری گناہوں کو معاف فرما دے۔
واخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمین۔
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر ٹیم جے یو آٸی سوات
#teamjuiswat
ایک تبصرہ شائع کریں