قائدِ جمعیۃ حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی رہائش گاہ پر تراویح میں ختم القرآن کے موقع پر خطاب تحریری صورت میں 17 اپریل 2022


قائدِ جمعیۃ حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی رہائش گاہ پر تراویح میں ختم القرآن کے موقع پر خطاب تحریری صورت میں

17 اپریل 2022

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم اما بعدحضرات علما کرام، بزرگان دین، میرے دوستو اور بھاٸیو، آپ جس محبت کے جذبے سے یہاں تشریف لاٸے ہیں میں دل کی گہراٸیوں سے اُس کی قدر کرتا ہوں اور آپ حضرات کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے خاص طور پر کہ آج تراویح میں ختم القرآن ہورہا تھا اُس کو ایک مبارک تقریب سمجھ کر آپ تشریف لاٸے اور جب سے ملک کے اندر حالات تبدیل ہوٸے ہیں ہمارے ساتھیوں کی مبارکبادی کا سلسلہ بھی بدستور جاری ہے اور ضرورت سے زیادہ جاری ہے کیوں کہ اب نٸے حالات کے اندر ہمیں نٸے مشاورت جماعت کے اندر بھی دوسرے پارٹیوں کے ساتھ بھی اُس کے لیے ہمیں وقت نہیں ملتا، ایک تو میں آپ سے گزارش کروں گا کہ ایک تو اِس حالات میں ہمیں انے والے مستقبل پر نظر رکھنی ہے اور اِس حوالے سے ہمیں سوچنا ہے۔

میں چند باتیں آج کی اِس مجلس میں آپ سے عرض کردینا چاہتا ہوں کہ ہمارا جو بنیادی موقف تھا کہ پچیس جولاٸی 2018 کی الیکشن میں جو دھاندلی ہوٸی ہے اور اُس کے نتیجے میں غلط اسمبلیاں آٸی ہے اور یہ جو ساڑھے تین سال ہم نے جدوجہد کی ایک ناجاٸز حکومت کے خلاف بھی کی اور کارکردگی کے لحاظ سے بھی بہت ہی ناقص اور نالاٸق ثابت ہوٸے، تو ظاہر ہے کہ پھر ہمیں عوام کے ساتھ کھڑا ہونا پڑا اور اُن کے مساٸل کو بھی ہم نے اٹھایا، ملک کی معشیت تباہ و برباد کردی گٸی اور اِس وقت پاکستان کے لوگ مہنگاٸی جیسے مصیبت میں اِس دفعہ پسے ہے تاریخ میں شاٸد اِس کی کوٸی مثال نہیں ملتی، اب میں آپ سے جلسوں میں بھی کہہ چکا ہوں کہ ملک کے بھی مساٸل ہیں، معشیت ملک کا مسٸلہ ہے اور معشیت کے حوالے سے اسلامی ممالک میں ہمارے قریب تر اگر کوٸی ہے تو وہ مملکت سعودی عرب ہے اُس کا اعتماد بھی ہم نے خراب کیا، غیر اسلامی دنیا میں ہمارے قریب تر اگر کوٸی ہے تو وہ چین ہے اُس کا بھی ہم نے اعتماد خراب کیا اور پھر مغربی دنیا نے اور مغربی مالیاتی اداروں نے بھی ہمارے ساتھ کوٸی تعاون نہیں کیا، لیکن یہ عجیب حکومت ہے کہ یہ جب آج اقتدار سے گری ہے تو چوں کہ آپ کو یاد ہوگا کسی زمانے میں ہم نے کٸی سال تک امریکہ مردہ باد کے جلسے کٸے اُس کے خلاف تحریک چلاٸی، اُس سے ایک امریکہ مخالف ماحول وجود میں ایا اور صرف پاکستان میں نہیں پورے برصغیر میں، تو اِن سب کو پتہ ہے کہ پاکستان میں مقبول ترین نعرہ یہ ہے کہ امریکہ مخالفت کی بات کرلیا کرو، چنانچہ اقتدار میں انے سے پہلے اِس نے بڑے آٸیڈیل قسم کی باتیں کنٹینر پر کرتا رہا، جلسوں میں کرتا رہا میں نوجوانوں کو ایک کروڑ نوکریاں دوں گا، میں بے گھروں کو پچاس لاکھ گھر دوں گا، ایسی معشیت ہوگی کہ باہر کے لوگ پاکستان میں اکر نوکری کریں گے، لوگ ہم سے بھیک مانگیں گے، میں نے اگر آٸی ایم ایف سے بھیک مانگا تو میں خودکشی کرلوں گا، پتہ نہیں کیا کیا کچھ کہتا رہا، لیکن اُس کے بعد ہمارے ملک میں اگر قانون سازی ہوٸی ہے تو ایف اے ٹی ایف کے دباو کے تحت ہوٸی، آٸی ایم ایف کے دباو کے تحت ہوٸی ہے اور آج پھر وہ امریکہ مردہ باد کی بات کرتا ہے، اب دو چیزیں ہوتی ہے اختلاف ہو اصول پر، نظریات پر تو اسے کاز کہا جاتا ہے، اور اگر اپ وقتی طور پر ایک مقبول نعرے کو استعمال کرتے ہیں جذباتی ماحول میں اُس کا فاٸدہ اٹھانے کے لیے تو پھر اُس کو کارڈ کہتے ہیں، یہ جو گفتگو میں کررہا ہے یہ ایک کارڈ استعمال کررہا ہے، تو اِس حوالے سے ہمیں بڑا ہوشیار رہنا پڑے گا، ابھی جو نٸی حکومت بنی ہے ظاہر ہے کہ وہ ایک سال کے لیے ہے زیادہ سے زیادہ وہ بھی زیادہ سے زیادہ، لیکن اِس حکومت کے اندر جمعیت علما اسلام کا اپنا وجود ہے، اپنا تشخص ہے، اپنا موقف ہے اور ہم اُن سے یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں اب بھی فوری طور پر الیکشن چاہیے چاہے وہ چلا گیا اُس کو ہم نے رخصت کردیا پھر بھی قوم کو امانت واپس کرنا ہماری ذمہ داری ہے جس کے لیے ہم نے جدوجہد کی ہے، ہاں اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ انتخابی نظام میں خامیاں ہیں، دوبارہ اُس کے اندر دھاندلی کے امکانات ہیں تو وقتی طور پر اِنہی اسمبلیوں کا فاٸدہ اٹھاکے آپ انتخابی اصلاحات کرلے، کچھ ایسی اصلاحات جو ناگزیر ہو تاکہ اُس گند کا صفایا ہوسکے کہ ہم گدلے پانی سے تو نکلے لیکن دوبارہ گدلے پانی میں نہ اترے بلکہ شفاف پانی میں اترے، تو اِس حد تک ہم اپنے موقف پر اُسی طرح قاٸم ہیں، مصلحت کی بھی حد ہوتی ہے اقتدار پھر اُس کو لمبا کرنا اور غیر ضروری طور پر لمبا کرنا یہ شاٸد جمعیت علما اسلام کا موقف نہ ہو اور اِس پر ہم اپنی راٸے رکھیں گے اور اُن کے سامنے بھی ہماری راٸے بلکل واضح ہے، لیکن پھر بھی چوں کہ ہم نے جدوجہد مل کر کی ہے تو اِس حوالے سے مشاورت اور ایسی تصور نہ دے کہ کل جو لوگ اپوزیشن میں متحد تھے آج وہ حکومت میں ایک دوسرے کے مخالف ہوگٸے، یا وہ وحدت ٹوٹ گٸی، وحدت کو برقرار رکھنا یہ بھی اِس وقت ضروری ہے ورنہ پھر اِس کا فاٸدہ دشمن کو ہوگا، لیکن بہر حال یہ جو ابھی اِس مجلس میں بھی بات ہوٸی کہ آٸین کو ختم کرنا، اسلامی دفعات کو ختم کرنا، ق ا د ی ا ن ی و ں کی پرانی پوزیشن بحال کرنا، ناموس رسالت کے حوالے سے تبدیلی لانا، آٸین کی اسلامی حیثیت کو ختم کرنا، میں آپ کو داد دیتا ہوں کہ آپ کی قربانیوں نے حکومت کو شکست دے دی اور وہ ایسا نہیں کرسکا، اور حالات سے ادمی سیکھتا ہے بہت سے چیزیں منکشف ہوتی ہے یعنی آپ یقین جانیے کہ ہمیں شاٸد علم نہ ہوتا اور یہ چیزیں بڑے دبیز پردوں کے اندر چھپی رہتی، لیکن جب حکومت کو شکست ہوگٸی اور وہ اقتدار سے نکل گٸے تو پتہ چلا کہ پاکستان میں ایک ایلیٹ کلاس ہے جس میں بڑے بڑے دبنگ گھرانوں کے لوگ ہیں ریٹائرڈ لوگ، اِن سروس لوگ بھی کہ اُن کے گھروں میں کیوں ماتم بچھ گیا، اُن کے عورتیں کیوں بین کرنے لگ گٸی، اِس کا معنی یہ ہے کہ یہ جو بین الاقوامی نیٹ ورک ہے مغرب کا یا یہودیت کا، یا صہونیت کا یا ق ا د یانیت کا، یہ ایلیٹ کلاس یہ در حقیقت اُس نیٹ ورک کا حصہ تھا اُن کی ماں مری تو اُن کے گھر میں رونا دھونا شروع ہوگیا۔

تو ہمیں اِس حوالے سے بھی اگے جاکر دیکھنا ہوگا کہ اگر ہمارے ملک کے اندر بڑے بااثر حیثیت میں یہ عناصر موجود ہیں تو ہم نے انے والے وقت میں اُن عناصر کو بھی شکست دینی ہے۔

اِس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ ہم ابھی بھی تحریک میں ہے حکومت میں ہوتے ہوٸے بھی جمعیت تحریک میں ہے، اور ابھی تو ہمارے صوبے میں اِنہی کی حکومت ہے تو کم از کم ہمارے خیبر پختونخواہ والے تو اُسی جگہ کھڑے ہیں۔

تو اِس لحاظ سے جماعت جو ہے وہ بڑے پھونک پھونک کے اگے جاتی ہے، سارے صورتحال کو دیکھتی ہے اور کبھی بھی ہم یہ بات ذہن میں رکھے کوٸی یہ مت سوچے کہ ہم کسی اچھی وزارت پر خوش ہوکر اپنی موقف چھوڑ دیں گے، وزارتیں ہم نے بہت دیکھی ہے، خود بناٸی ہے لیکن جمعیت علما اسلام کے کارکنوں کی قربانیاں دیکھ کر فیصلے کریں گے، وقتی مصلحتوں دیکھ کر نہیں کریں گے، ہم نے اُن تمام حضرات کو یہ بھی کہا ہے کہ ہم پارلیمنٹ کے اندر جمعیت کے حجم کی بنیاد پر بات نہیں کریں گے، ہم روڈ کے اوپر اپنے طاقت کی بنیاد پر بات کریں گے، یہ سب پرواہ نہیں کیا ہم نے، کیوں کہ یہ عبوری دور ہے اِس عبوری دور کے لیے ہمارے کارکن کی ساڑھے تین سال یا پونے چار سال کی قربانیاں ہے ہم اُس کو نظرانداز کرکے فیصلے نہیں کریں گے بلکہ اُس کو سامنے رکھ کر فیصلے کریں گے، تو اگر حکومت میں جاٸیں گے تو اِن چیزوں کو مدنظر رکھ کر جاٸیں گے اور نہیں جاٸیں گے تو بھی اِن چیزوں کو بنیاد بناکر فیصلے کریں گے، اِس پر آپ کو پوری طور پر اعتماد میں رہنا چاہیے، یہ امریکہ مخالف باتیں اب جب اٸی ایس پی ار کی ایک پریس کانفرنس اگٸی تو اب جلسے میں اُس کا نام نہیں لیتے، اب آپ نے دیکھا خط کا نام نہیں لیتا، ایک جھوٹے خط کی بات کی اور یہ جو سفید کاغذ لہراتا ہے یہ اُس کاغذ کا رنگ ہی نہیں جو سفیر بھیجا کرتے ہیں، کاغذ کا رنگ ہی کچھ اور ہوتا ہے جو سفیر بھیجا کرتے ہیں اور یہاں وزارت خارجہ میں اتا ہے، پھر یہ چیزیں راز کی ہوتی ہے تو نے حلف اٹھایا ہے کہ میں حکومتی راز باہر نہیں نکالوں گا، نکالی بھی اور جھوٹ بول کر نکالی، تو اِس قسم کے بے احتیاط لوگ جو نہ ریاست کے مفاد کو دیکھتے ہیں، نہ ریاست کے ضرورتوں کو دیکھتے ہیں، مجھے کہا جی وہ تو جلسے کررہا تو میں نے کہا ظاہر ہے جب ادمی مر جاتا ہے تو رونے دھونے والے تو اکر جمع ہوتے ہیں، ماتم تو ہوتا ہے، پھر مجھ سے کسی نے کہا جی یہ تو دوبارہ زندہ ہورہا ہے تو میں نے کہا مردہ کے اوپر دس کروڑ لوگ بھی اکھٹے ہو جاٸے تو اُس کو دوبارہ زندہ نہیں کرسکتے۔ 

ان شاء اللّٰہ العزیز ہم نے چوکس رہنا ہے کیوں کہ یہ حکومت میں نہ بھی ہو تب بھی عناصر تو ہے اور پھر ایلیٹ کلاس کے اندر ہے، اُن کا نیٹ ورک موجود ہے، باہر سے کون سی دنیا ہے جو اِس نظریے کو سپورٹ کر رہی ہے، کہ میرا ملک ہوگا، باٸیس پچیس کروڑ مسلمان یہاں رہوں گا اور میرے فیصلے بین الاقوامی فورم پر ہوں گے، اور اس میں بنیادی کردار یہودیت کا ہوگا، ق ا د یانیت کا ہوگا، انہوں نے ق ا د ی ا نیوں سے وعدہ کیا تھا کہ ہم اپ کی پوزیشن بحال کریں گے اور یہ ریکارڈ پر اچکی ہے، لیکن نہیں ہوسکا۔

تو اِن ساری چیزوں کو ہم نے مدنظر رکھ کر ہم نے بڑا چوکس رہنا ہے اور اپنے آپ کو اب بھی آپ تحریک میں سمجھے، اقتدار میں نہیں، اقتدار اگر ہے بھی تو یہ ایک عبوری سیٹ اپ ہوگا اور اُس میں ہم یہی چاہے گے کہ ایک شفاف الیکشن کی حد تک پہنچے اور پھر ایک نیا نظام اور قوم ایک نٸے مینڈیٹ کے ساتھ اٸے، تو قوم کو سمجھانا ہے آپ لوگوں نے پبلک میں رہنا ہے، عوام کو اپنی موقف سے ہر وقت اگاہ رکھنا ہے، جس طرح انہوں نے ملک کا بیڑا غرق کیا اُس کے بعد ان کی میٹھی میٹھی اور جذباتی جذباتی باتوں پر قوم کیوں دھوکہ ہوگی، تو ان شاء اللّٰہ حرکت میں برکت ہے ہم اِن برکات کو حاصل کریں گے، تو اللّٰہ کی طرف رجوع ہونا چاہیے اُسی کو راضی رکھنے کی کوشش کرے، اُسی سے اٸندہ کے لیے خیر کی توقعات وابستہ کرے اور اُسی سے دعاگو رہے، اللّٰہ تعالیٰ آپ کی اِن کاوشوں کو قبول فرماٸے اور یہ جو ہم نے قرآن شریف پڑھا ہے اللّٰہ سے دعا ہے کہ اِس کو قبول فرماٸے، جتنے بھی ساتھی اٸے ہیں میں سب کا شکر گزار ہوں، اللّٰہ تعالی آپ سب کو خوش رکھے۔


ضبط تحریر: #سہیل_سہراب

ممبر ٹیم جے یو اٸی سوات

0/Post a Comment/Comments