قائدِ جمعیۃ حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا کراچی پریس کلب میں خطاب اور صحافیوں سے گفتگو تحریری شکل میں 12 مئی 2022

قائدِ جمعیۃ حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب کا کراچی پریس کلب میں خطاب اور صحافیوں سے گفتگو تحریری شکل میں

 12 مئی 2022

بسمہ اللہ الرحمن الرحیم

نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم اما بعد

کراچی پریس کلب کے صدر محترم، کلب کے سیکرٹری جنرل، کلب کے باڈی کے معزز اراکین اور کراچی پریس کلب کے میرے تمام دوستو، بھاٸیو اور بہنوں یہ میرے لیے اعزاز ہے کہ آج میں کراچی کے اس بڑے تاریخی پریس کلب میں اور پریس کلب کے اس تاریخی بلڈنگ میں ایک بار پھر آپ سے مخاطبت کا شرف حاصل کررہا ہوں، آپ کی طرف سے ہمیشہ محبت اور احترام کا رویہ رہا ہے، پچھلے سال بھی آپ کی دعوت تھی لیکن ناسازی طبع کی وجہ سے میں اس وقت حاضر نہ ہوسکا اور یہاں پر حاضری دینے میں جتنا بھی فاصلہ بڑھا ہے اس کے لیے میں آج آپ کے فورم پر آپ تمام دوستو سے معذرت خواہ بھی ہوں اور شکر گزار بھی ہوں کہ آپ نے اپنے اس تعلق کا تسلسل برقرار رکھا ہے، آپ نے پھر دعوت دی ہے اور جس طرح آپ نے مجھے یہاں ویلکم کہا ہے اس میں جو خلوص تھا اس کے لیے بھی میں انتہائی ممنون ہوں اور سٹیج سیکرٹری صاحب نے اس وقت تبدیلیوں کا جو موضوع چھیڑا ہے میرے خیال میں مجھے تبصرہ کرنے کی بجاٸے انہوں نے خود ہی فیصلہ کردیا کہ اس خوشی میں انہوں نے مجھے حلوہ کھلایا ہے۔

میرے محترم دوستو! پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے پسماندہ ملک سے ایک ترقی پذیر ملک تک کا سفر کوٸی آسان سفر نہیں ہوا کرتا بڑا کھٹن سفر ہوتا ہے لیکن جہاں ہمیں آگے بڑھنا چاہیے اور آگے بڑھ کر ہمیں ترقی کی نٸی راہیں تلاش کرنی چاہیے بدقسمتی سے ہم نے گزشتہ تین چار سالوں میں ترقی ماکوز کی ہے اور ہم بڑی تیزی کے ساتھ پیچھے کی طرف اٸے ہیں، اگر ہم نے پاکستان کی معیشیت کو سالانہ شرح نمو کے ساتھ چھ فیصد پہ رکھا تھا تو ان تین سالوں میں ہم نے دیکھا کہ پاکستان کی سالانہ شرح تخمینہ وہ زیرو پر بھی چلا گیا، اب ظاہر ہے کہ دو پہلووں پہ آپ کو غور کرنا ہوتا ہے ایک یہ کہ آپ اپنی پبلک کو کیسے مطمٸن کرسکتے ہیں دوسرا یہ کہ آپ بین الاقوامی برادری کو اپنے ساتھ کیسے اینگیج کرسکتے ہیں، بین الاقوامی برادری کے ساتھ بہتر تعلقات ان کو پاکستان کے ساتھ اینگیج کرنا اس کے لیے بھی معاشی قوت کی ضرورت ہوتی ہے آپ دنیا کے مفادات اپنے ساتھ وابستہ کرے تو لوگ آپ کے قریب اٸے، آپ کے ساتھ معاملات کرے، آپ کے ساتھ تجارت کرے، آپ کے ملک میں انویسٹمنٹ کرے اور اس طرح جو ہے ملک اگے بڑھے اور اس سے جو منافع اٸے اس سے قوم مستفید ہو، قوم آسودہ حال ہو اور عام ادمی کی زندگی بہتر ہو، یہ مختصر سا فارمولہ ہے۔

ہم نے دونوں طرف مایوسیاں دیکھی ہے ایک طرف قوم کا کرب، عام ادمی کی پریشانی، بھوک، افلاس، مہنگاٸی، بیروزگاری، والدین بچوں کے سکول فیس ادا کرنے سے قاصر، بجلی گیس کا بِل ادا کرنے سے قاصر یہاں تک معاملات پہنچ گٸے تو آپ خود اندازہ لگاٸے کہ ہم نے ستر سال کا جو سفر تھا اسے کس طرح اس تین ساڑھے تین سالوں میں گرا دیا اور ہم پھر پاکستان کے اغاز پہ کھڑے ہوگٸے۔

سادہ سی بات ہے اسلامی دنیا اور غیر اسلامی دنیا، اسلامی دنیا میں اگر پاکستان کے سب سے زیادہ قریب تر کوٸی ہے تو وہ سعودی عرب ہے وہ قریب تر دوست بھی آپ سے مایوس، آپ سے ناراض، آپ سے معاملات کرنے سے گریزاں، آپ کے ملک میں سرمایہ کاری سے اپنے پیسے کا ضیاع اور غیر مسلم دنیا میں پاکستان کا اگر کوٸی قریب ترین دوست ہے تو وہ چاٸنہ ہے، چاٸنہ کی مایوسی اور ناراضگی جو اپنے عادت کے مطابق زیادہ بولتا نہیں ہے لیکن جب انہوں نے اپنے ہی سرمایہ کاری سے ہاتھ اٹھا لیا اور جو منصوبے انہوں نے اپنی نگرانی میں کرنے تھے اور ان کا اغاز کردیا تھا، ستر ارب ڈالر انویسٹ کردیے تھے، سی پیک کا منصوبہ شروع کردیا تھا، تواناٸی کی شعبے میں بجلی کی پیداوار میں اضافہ کیا اور یہ ساری چیزیں ہوٸی اور اپنے ہی انویسٹمنٹ سے دستبردار ہوگیا تو آپ خود اندازہ لگاٸے کہ ہمارے ملک کے اندر معاشی پالیسیوں کا ان پر کیا اثر پڑا، اُس پر کیا ریپلکٹ ہوا۔

اس حوالے سے بہت سی پارٹیوں کا اپنا نقطہ نظر ہوگا لیکن ہمارا نقطہ نظر بڑا واضح رہا ہے کہ ہم نے 2018 کے الیکشن ہی کو تسلیم نہیں کیا اور یہ ایک متفقہ راٸے تھی جس کی بنیاد پر ہم نے تحریک کا اغاز کیا، ہم نے کچھ مشورے انتظامی بھی دیے کہ مٶقف خود نہیں لڑا کرتے، جمہوری ملکوں میں ایک مٶقف عوام کی طاقت سے اگے بڑھتا ہے، تدبیر کی دنیا میں جب تک آپ قوم کو اپنے قریب نہیں لاٸینگے تو ہم نے کچھ مشورے بھی دیے تھے کہ ہم اس نظام کا حصہ نہ بنے، ہم حلف نہ اٹھاٸے لیکن اس وقت مجموعی راٸے یہ بنی کہ نہیں ہمیں ایوان میں جانا چاہیے سو چلے گٸے اور بعد میں اعتراف کیا گیا کہ ہاں آپ کی راٸے ٹھیک تھی لیکن اب تو وقت گزر چکا تھا ہر چیز کی اپنی ٹاٸمنگ ہوتی ہے، ظاہر ہے کہ وہ جو ہمارے جعلی حکمران تھے اگر وہ کوٸی اچھی کارکردگی دکھا دیتے تو شاٸد وہ اس کو کوور کرلیتے، ان کو لانے والے بھی ہمیں کہہ سکتے کہ اگر ہم نے غلطی کی ہے تو پھر بھی کارکردگی تو اچھی ہے سو وہ بھی نہ ہوا، تو ایک طرف جعلی، ایک طرف ناکامی، نااہلی، نالاٸقی یہ سب جمع ہوگٸی اور تب جاکے ظاہر ہے کہ عوام نے ساتھ دیا لوگ سڑکوں پہ اٸے اور صرف جمعیت علما اسلام نے ملک میں چودہ ملین مارچ کیے، کراچی میں بھی ہم نے کٸی ملین مارچ کیے بہت کامیاب رہے ہیں، پھر آزادی مارچ جو ایک تاریخی مارچ تھا پاکستان کی تاریخ میں اس کو یاد رکھا جاٸے گا، ایک فضا بنی اور اداروں نے بھی تسلیم کرلیا کہ یہ نظام اب چلنے والا نہیں ہے، اداروں سے ہمارا مطالبہ کیا تھا کہ آپ فریق مت بنے، آپ حکومت اور حزب اختلاف کی بیچ میں فریق بننے والا ادارہ نہیں ہے، آپ ریاست کا ادارہ ہے ایک حکمران بھی آپ کو ”ہماری فوج“ کی لفظ سے پکارتی ہے اور ایک اپوزیشن بھی آپ کو ”ہماری فوج“ کے لفظ سے پکارتی ہے، میرا مخالف بھی کہتا ہے میری فوج اور میں بھی کہتا ہوں میری فوج، اس مقام پر واپس انا چاہیے۔

میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ ہم نے اپنے حدود سے تجاوز نہیں کیا لیکن اپنی بات کرتے رہے کرتے رہے اور ایک وقت ایا کہ حقاٸق کا ادراک ہوا آج جب وہ اپنے حقیقی مقام کی طرف جانا چاہتے ہیں ایک آٸینی داٸرہ کار کے اندر اپنے آٸینی کردار کی طرف جانا چاہتے ہیں تو پھر جب وہ لفظ نیوٹرل استعمال کرتے ہیں تو ان کو جانور سے تعبیر کیا جاتا ہے یہ تقدس ہے ان کے دلوں میں ان کی، اور آج ان کو میر جعفر کے لفظ سے پکارا جاتا ہے جو تاریخ کی دغا اور بغاوت کا ایک کردار ہے، میر جعفر ایک فرد کا نام نہیں ہے، تو یہ ہے ان کے دلوں میں اپنے اداروں کی توقیر، کہ جب تک ان کا سہارا بنے وہ ملک کو ڈبوٸے تب بھی ان کا سہارا بنے وہ ملک کی کشتی کو غرق کرے تب بھی سہارا بنے اور جب سہارا بنتے ہیں تو پھر ٹھیک، پھر ہماری شکایت بھی ناجائز، لیکن کچھ سوالات ضرور پیدا ہوتے ہیں کل بھی مجھ سے ایک انٹرویو میں پوچھا گیا کہ آزادی کی باتیں تو آپ کرتے تھے آج عمران خان نٸے بیانیے کے ساتھ آزادی کی بات کررہا ہے میں نے کہا اسے کہتے ہے تبدیلی کہ الیکشن پچھلا لڑا تبدیلی کے نعرے سے اور اب نٸے الیکشن کی طرف جانا چاہتا ہے آزادی کے نعرے سے، تو آزادی کے نعرے میں تو ہماری نقالی کررہا ہے تو پھر نقالوں سے ہوشیار رہنا چاہیے (مسکراہٹ)، نقالوں کو پہچاننا چاہیے جو پاکستان کے اندر غلامی کی علامت ہے رونا اسی پہ اتا ہے کہ وہ بھی آزادی کی بات کرے جو پاکستان کی معیشیت کو اپنے قبضے میں لینا چاہتے ہیں، پاکستان کو تہذیبی لحاظ سے اپنے رنگ میں رنگنا چاہتے ہیں۔

اب تہذیب اور مذہب، مذہب انسان کے اندر سے اس کے عقیدے کو کھینچ لینا اور تہذیب انسان کے جسم کے اوپر حیا کی چادر نوچ لینا ان دونوں پہ کام ہورہا ہے اور یہ دونوں ان کے ایجنڈے میں شامل تھے، اور یہ نہیں کہ میں گھر سے یہ بات کررہا ہوں ان کے وفود نے مجھے کنونس کرنے کے لیے 2013 میں میرے پاس بار بار اٸے اور جنہوں نے اس کا اعتراف کیا کہ اگر پاکستان میں مذہب اور مشرق کی تہذیب ہوگی تو بیرونی امداد آپ کو نہیں ملے گی اور دنیا کی معیشیت یہودیوں کے ہاتھ میں ہے جب تک ہم ان کی گاٸیڈ لاٸن نہیں اپناٸیں گے بین الاقوامی معیشیت کی تجوری اپ کے طرف متوجہ نہیں ہوسکتی اور آخری جملہ جو انہوں نے مجھے کہا 2013 کی بات کررہا ہوں کہ مولانا پشتون بیلٹ میں مذہب کی جڑیں گہری ہیں اور ان گہری جڑوں کو اکھاڑنے کے لیے ہمارے پاس اس سے زیادہ مناسب ادمی اور نہیں تھا اور اسی لیے پشتون صوبہ انہوں نے پہلے ان کے حوالے کیا ہے اور ہم نے یہاں کے نوجوان کے فکر کو تبدیل کرنے، اپنے مذہب اور معاشرت سے اس کو باغی بنانے کے لیے پندرہ سال این جی اوز کی خدمات لیے ہیں، تو مجھے نصیحت کرتے ہیں کہ مولانا اب پیسہ اٸے گا، بہت بڑا پیسہ اٸے گا، گلی کوچے تک پہنچے گا، آپ کی مسجد تک پہنچے گا، مولوی اور امام تک پہنچے گا اور تم اس محاذ پر بھی تنہا رہ جاوگے ہم چاہتے ہیں کہ آپ نظام کے ساتھ ساتھ چلتے رہے لیکن میں نے انکار کردیا ہم نے وہاں سے کام شروع کیا ہم نے دنیا کو سمجھنے کی کوشش کی ہے، اس کو بھی میں سمجھتا ہوں کہ شاٸد ہم دنیا کو سمجھنے کا حق ادا نہیں کرسکے لیکن جو ادمی کسی میدان میں کام کرتا ہے تو کچھ حالات ان پر منکشف ہوتے رہتے ہیں آج جب ایک پہلی کامیابی ہمیں ملی کہ پارليمنٹ کے راستے سے اس حکومت کو گرایا گیا، جمہوری اور آٸینی راستے سے، تو ہمیں ملک کے اندر ایک کھلبلی نظر اٸی، کھلبلی عوام میں نہیں کھلبلی پاکستان کے ایک ایلیٹ کلاس کے اندر، کھلبلی پاکستان کے اشرافیہ کے اندر، کھلبلی پاکستان کے ریٹاٸرڈ اسٹبلشمنٹ بیوروکریسی کے گھروں کے اندر، جہاں پر ہمیں ماتم نظر اٸے یہ کیا تھا ؟ یہ کیوں ہوا ؟ اور ان گوشوں سے کیوں پریشر ارہا ہے دفاعی قیادت پر، سیاسی قیادت پر، اور آج بھی آپ کے بین الاقوامی ادارے چاہے ایف اے ٹی ایف ہے، چاہے اٸی ایم ایف ہے، چاہے ورلڈ بینک ہے اس کے دباو کا تسلسل ختم نہیں ہوا ہے لہذا آفٹر شاکس اتے رہیں گے۔

ابھی جو کامیابیاں ہیں وہ جزوی اور ضمنی قسم کی کامیابیاں ہیں مکمل کامیابیاں نہیں ہے آپ نے اگے بڑھنا ہے، اس ملک کی مشکلات کی اصل جڑوں تک ہم نے پہنچنا ہے، بہت گہری جڑیں ہیں ہم نے اس نیٹ ورک کو شکست دینی ہے، ہم نے ان کو نظریاتی شکست دینا ہے اور اس کے لیے ہم نے ازسر نو سوچنا ہے، ابھی چند روز پہلے حکومت میں شامل اتحادیوں کی سربراہان کے اجلاس میں بیوروکریٹس بھی بیٹھے ہوٸے تھے اب بیوروکریٹس تو نظام کا تسلسل ہوتے ہیں جو بریفنگ دی گٸی اس بریفنگ میں میں نے محسوس کیا کہ تسلسل ہے جو راستہ پچھلی گورنمنٹ کو دکھایا گیا وہی راستہ ہمیں دکھایا گیا، جو سبق ان کو پڑھایا گیا انکھیں بند کرکے انہوں نے ان کے سبق کو لیا وہی سبق ہمیں پڑھایا جارہا تھا اٸی ایم ایف کے شراٸط کو قبول نہیں کریں گے تو ہم دیوالیہ ہوجاٸیں گے تو جب ملک نہیں رہے گا تو پھر ہم کیا کریں گے اور کیا کیا چیزیں ہماری سامنے لاٸی گٸی میں تھا تو تنہا لیکن میں نے ہمت کی اور میں نے کہا ہم اس بریفنگ کو تسلیم نہیں کرتے، ایک اور ہے وہ بیوروکریٹ جو ہمیں پرانا سبق یاد دلا رہے ہیں جس سبق کے خلاف ہم نے جنگ لڑی ہے جسے ہم نے پاکستانی سیاست کے کیروکولم سے نکالا ہے دوبارہ اس میں ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے اور ہم لکیر کے فقیر اس کے پیچھے چلتے رہیں گے، ہمارے اندر صلاحيت ہونی چاہیے، صلاحيت یہ کہ ہمارے پاس نیا فارمولہ ہونا چاہیے اٸی ایم ایف کوٸی اسمان سے نہیں اترا ہم پر مشتمل ایک ادارہ ہے ہم بھی اس کے رکن ہے ہماری بھی ان کو سننی پڑے گی، ہمیں نٸے فارمولو کی طرف جانا ہوگا، ہمیں نٸے فارمولے کے ساتھ ان کو انگیج کرنا ہوگا، ان کو حقاٸق بتانے ہوں گے اور اگر میں ایک سیاسی کارکن کے طور پر بات کرنا چاہو میری آپ تاٸید کرے یا نہ کرے یہ میری ایک راٸے ہے کہ جو حکومت ہمارے نظر میں جعلی ہے، جو عوام کا نماٸندہ نہیں اور اٸی ایم ایف والوں سن لو ماضی میں تم نے جتنے معاہدے ان کے ساتھ کٸے ہیں ہماری نظر میں وہ ریاست کے معاہدے نہیں ہے ریاست کو اس کے پابند ہونے کی ضرورت بھی نہیں ہے، ہمارے ساتھ ازسر نو بات کرو ہم بھی جانتے ہیں کہ ہم نے ملک کو کیسے چلانا ہے، ملک کی معیشیت کو کیسے بہتر کرنا ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ عام ادمی یا ہمارا مخالف ساڑھے تین سال کے گند کو کہتے ہیں تین دن میں اپ نے کیوں نہیں اٹھایا ؟ مہنگاٸی اتی ہے تو پالیسیوں کے نتیجے میں اتی ہے جمعہ جمعہ اٹھ دن میں تو پالیسیاں نہیں بنتی، پالیسی بھی بنتی ہے تو اس کے اثرات نہیں اتے تو یہ اونچ نیچ ہوتی رہے گی، پہلے دن حکومت بنی اور ایک دن کے بعد آپ کا روپیہ دس سے گیارہ روپے ڈالر کے مقابلے میں مستحکم ہوا، آپ کا سٹاک ایکسچینج اوپر اٹھا، ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ ہوا، اٹے کی قیمت کم کی گٸی اور آج بھی ڈیبیٹ چل رہی ہے کہ اگر اٸی ایم ایف کہتا ہے کہ سبسیڈیز ختم کرو تو کیا ہم ان کے کہنے پر اس وقت سبسیڈیز ختم کرتے، میری اپنی راٸے یہ ہے کہ ہم کچھ وقت تو مشکل میں گزار سکتے ہیں لیکن عام ادمی کو مشکل میں ڈالنے کے حق میں نہیں ہے کیوں کہ جمہوری حکومت عوام کے تاٸید سے چلتی ہے، آپ پبلک کو کیا تاثر دیں گے مشاورت چل رہی ہے ماہرین بھی اس کے اوپر پلان کررہے ہیں لیکن ماہرین کی جو ذہنیت ہے وہ واضح ہونی چاہیے اگر وہ غلامانہ ذہنیت ہے وہ عالمی قوتوں کو خدا سمجھتے ہیں، ان کے دباو کے سامنے نہیں ٹِہک سکتے تو پھر ہمیں ایسے ماہرین کی ضرورت نہیں ہے ہمیں ان ماہرین کی ضرورت ہے جو دباو بھی قبول نہ کرے، ان کے سامنے ٹہرنے کی صلاحيت بھی رکھے اور وہ راستہ بنانے کی صلاحيت بھی رکھے۔

لہذا ہم نے پالیسیز بھی بنانی ہے، پالیسیز ایک دن میں نہیں بنتی کیوں کہ ابھی تک تو حکومت نہیں بنی جب تک حکومت نہیں بنتی پالیسی کیسے بنے، تو مہینہ دو مہینے تو حکومتیں بنانے میں، پھر یہاں تو تبدیلی ہے ابھی اس تبدیلی میں بیوکریٹس کو بھی تبدیل کرنا ہوگا وہاں بھی آپ کو ایڈجسٹمنٹ کرنی پڑے گی، ان کے پرانے لوگ جنہوں نے تباہی کا یہ راستہ ان کو دکھایا تھا وہ ہمیں بھی وہی راستہ دکھاٸے گے، تو یہ ساری چیزیں وہ ہے جس کو ہم نے لیکر اگے بڑھنا ہے اور احتیاط کے ساتھ ہم نے اگے چلنا ہے۔

روز روز بیانیے تبدیل ہوتے رہتے ہیں آج کا بیانیہ ایک جعلی خط ہے اور جس پر پاکستان کی قومی سلامتی کی کمیٹی بھی واضح راٸے دیتی ہے اور جس پر امریکہ کہ سٹیٹ افس سے بھی واضح راٸے اگٸی ہے جھوٹ، لغو، پروپیگنڈا اس قسم کے الفاظ ان کے لیے استعمال کیے گٸے ہیں جو عام طور پر سفارتی زبان نہیں ہوا کرتی لیکن آپ نے لوگوں کو مجبور کردیا کہ وہ یہاں تک اٸے، ایف اے ٹی ایف کے دباو پر قانون سازی آپ نے کی، اٸی ایم ایف کے دباو پر قانون سازی آپ نے کی، امریکہ اور مغرب کے شہریوں کی پندرہ تک کی تعداد آپ کی کابینہ میں شامل رہے، اٸی ایم ایف کے نماٸندوں کو پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار آپ نے سٹیٹ بینک اف پاکستان کا صدر بنایا، پہلی دفعہ آپ نے سٹیٹ بینک کو بااختیار کے نام پر اٸی ایم ایف کے حوالے کردیا جو آج پاکستان کو جوابدہ ہی نہیں ہے نہ پراٸم منسٹر کو، نہ پارلیمنٹ کو اور نہ ہی کیبنٹ کو، تو ایسی صورتحال میں جو کہ سب کچھ امریکہ کہ رہنماٸی میں چل رہا تھا اور آپ اس پر فخر محسوس کررہے تھے آج امریکہ مخالف چورن بیچنے پر اگٸے ہو، نظریاتی لحاظ سے ایسا کنگال ادمی کسی اور کو نہ کرے کہ گندگی میں جہاں کوٸی چیز چنتے چنتے مل جاٸے تو آپ اسے اٹھاٸے کہ دیکھو یہ میرا کمال ہے، یہ ساری چیزیں ہمیں اتی ہے۔

جمعیت علما اگر کوٸی بات کرتی ہے تو کاز کے بنیاد پر کرتی ہے اور تم اگر کوٸی بات کرتے ہو تو ڈاٹ کی بنیاد پر کرتے ہو، تو اس لحاظ سے میں حیران اس بات پر ہوں میں نے 2017 میں پشاور میں ایک تقریر کی تھی اور میں نے اس میں یہ بات کہی تھی کہ ناٸن الیون کے بعد امریکہ کی جو ایک نیا نظریہ دنیا کے سامنے ایا ہے نیو ورلڈ ارڈر یا جیو ورلڈ ارڈر کہ 2021 کی دنیا کی جغرافیاٸی تقسیم یہ ہمارے مفادات کے تابع ہوگی، مفادات کے لیے اس کو جغرافیاٸی تقسیم چاہیے لیکن انسانی حقوق کے نعرے کے لیے اور اس کو استعمال کرنے کے لیے امریکہ کے پاس جغرافیاٸی حدود نہیں ہے جہاں چاہے اس ملک میں اتر جاٸے کہ انسانی حقوق پامال ہورہے ہیں لیکن مفادات کے لیے دنیا کو ٹکڑے ٹکڑے کرو تو ہم نے کہا اس مقصد کے لیے انہیں جغرافیاٸی تقسیم کی بات ہورہی ہے، تو اس سے پہلے سیاسی عدم استحکام اٸے گا، سیاسی عدم استحکام کے لیے پانامہ اگیا اور معاشی عدم استحکام کے لیے عمران خان اگیا۔

اب مجھے یہ بات سمجھاٸی جاٸے کہ کہاں سے وحی اٸی کس ارستو نے آپ کے دماغ میں یہ بات ڈالی کہ کشمیر کو تین حصوں میں تقسیم ہونا چاہیے جب کہ یہ بات پاکستان کے ریاستی مٶقف سے کوٸی مطابقت نہیں رکھتی اس لیے کہ ہم 1949 کے اقوام متحدہ کے قراردادوں کے علمبردار ہیں، ابھی حال ہی میں ایک بیان دیتے ہیں کہ اگر فوج نہیں ہوتی تو پاکستان تین حصوں میں تقسیم ہو جاتا یہ تین حصوں میں تقسیم کی اگاہی کہاں سے اگٸی نہ دو حصوں میں نہ چار حصوں میں، تین حصوں میں یہ تعین کرتا ہے، اسلامی تنظیم کانفرنس کو تقسیم کرنے کے لیے ملاٸیشیا کانفرنس کی بنیاد ڈالی اور بنیاد ڈالنے کے بعد جب دباو ایا تو جانے کے قابل ہی نہیں رہا، پھر اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہاں جاسکے، آج وہ پاکستان کہ وہ ادارے جو ریاست کا تحفظ کرتے ہیں ان کو تقسیم کرنے پر لگے ہوٸے ہیں اور ایک لابی وہ اس وقت اِن سروس قیادت کے اوپر دباو ڈال رہا ہے کیوں ؟ ہم اس حد تک اقتدار کے لالچی ہوگٸے کہ اداروں کو اپس میں لڑاٸیں گے تو پھر کیا بنے گا ملک کا ؟ پھر ہمارے دفاع کا کیا بنے گا ؟ اختلاف کریں گے اختلاف ہم نے بھی کٸے ہیں برملا کٸے ہیں لیکن حدود کے اندر اندر، ابھی کل مجھے ایک عجیب سی بات سننے کو ملی کہ جی گھر پر ڈاکہ پڑتا ہے تو ڈاکہ پڑتے وقت چوکیدار کہے میں نیوٹرل ہو یہ غلط بات ہے، او بھٸی ذرا سن لو وہ چوکیدار حکومت کے نہیں وہ چوکیدار ریاست کے ہیں، اگر تمہیں کچھ آٸین کا سمجھ ہے حکومت کو ضرورت ہو تو وہ حکم دے سکتی ہے لیکن وہ حکومت کے چوکیدار نہیں ہے حکومت کے چوکیدار عوام ہیں، حکومت کی چوکیدار اس کا سیاسی نظام ہے، اس کا کانسٹیچیوشن ہے، اس کی ڈیموکریسی ہے، اب تو سمجھ میں اگٸی ناں کہ کون اس کی حفاظت کررہا تھا اور کس کے سہارے وہ چل رہے تھے۔

تو یہ ساری چیزیں وہ ہے کہ جسے ہمیں سمجھنا بھی ہوگا اور ان خطوط پہ ہمیں اگے بڑھنا ہوگا، پالیسیاں یقیناً بنے گی اتار چڑھاو اتا رہے گا، آفٹرشاکس ہوتے رہیں گے، اس نظام میں جس میں ساڑھے تین سال میں جو گند ڈالا گیا ہے اس کو تین دن میں اٹھایا نہیں جاسکتا، اس کے لیے بھی وقت لگتا ہے گند ڈالنے میں وقت نہیں لگتا صاف کرنے میں وقت لگتا ہے، آپ کو یاد ہوگا میں کٸی جلسوں میں یہ بات کہہ چکا ہوں عام پبلک جلسوں میں کہ چیلنج یہ نہیں ہے کہ ملک ڈوب گیا چلینج یہ ہے کہ دوبارہ اٹھاٸیں گے کیسے، وہ ہچکولے کھاتی ہوٸی کشتی جو ہمارے ہاتھ اٸی ہے اب اس کو ساحل پہ کیسے پہنچانا ہے، وہ ڈوبتا ہوا ملک معاشی لحاظ سے اس کو کیسے اٹھانا ہے اس کے لیے پبلک کا تعاون چاہیے یہ عوام کا مشترکہ اجتماعی مسٸلہ ہے، قومی مسٸلہ ہے اور اسے قومی سوچ کے بنیاد پر ہمیں حل کرنا چاہیے، باقی تو ہر کسی کو حق حاصل ہے جلسے کرتے ہیں یا جلپڑیاں کرتے ہیں یہ ان کی مرضی ہے، تو یہ چلتا رہے گا جلسے ہوتے رہیں گے لیکن ملک کو کس طرح اگے لے جانا ہے ہم نے ساری توجہ اس بات پہ دینی ہے اور نہ ملکی اداروں کو تقسیم ہونے دینا ہے نہ ملک کو تقسیم ہونے دینا ہے نہ اسلامی امہ کو تقسیم ہونے دینا ہے اور ہم نے نہ مصنوعی نعروں پر کوٸی پیروی کرنی ہے ہم نے نٸی نسل کو حقاٸق سے سمجھانا ہے کہ کیا یہ جو باہر تحریک چلاٸی جارہی ہے اس لیے کہ واپس اٸے جب واپس اٸیں گے تو ساڑھے تین سالہ کارکردگی کیا ہے یہ جو بچ گیا ہے وہ بھی ختم کردے تاکہ دوبارہ اٹھنے کے قابل ہی نہ رہے، سو یہ ملک کے بچے کچھے بقا کو بھی تباہ و برباد کرنا چاہتے ہیں اور  ان شاء اللہ اس کی اجازت نہیں دی جاٸے گی، پوری دانشمندی اور سنجیدگی کے ساتھ معاملات کو نمٹانا چاہتے ہیں، اگے بڑھانا چاہتے ہیں، اس میں سنجيدگی چاہیے آج سعودی عرب بھی پاکستان کے طرف متوجہ ہورہا ہے، آج چاٸنہ بھی پاکستان کے طرف متوجہ ہورہا ہے ان کے خطوط بھی پاکستان کو موصول ہوچکے ہیں کہ وہ کس طرح نامکمل منصوبوں کو مکمل کرلے حالانکہ حکومتی سطح پر ان سے مذاکرات نہیں ہوٸے کوٸی شراٸط سامنے نہیں اٸی لیکن ایک امید پیدا ہوگٸی ہے کہ ایک دفعہ پھر بین الاقوامی دنیا اس طرح مثبت نظروں سے پاکستان کی طرف دیکھے ہمارے دوست ہمارے ساتھ دوبارہ اپنی دوستی کو بحال کرلے اور اسے پروان چڑھانے کے لیے اپنا کردار ادا کرسکے گے، آپ حضرات کا بہت بہت شکریہ

ایک بات کا ذکر کرنا بھول گیا ہوں جی وہ میں آپ سے شٸیر کرلیتا ہوں کہ جو مسجد نبویﷺ میں بے حرمتی ہوٸی ہے اگر یہ اس پر خاموشی بھی اختیار کرلیتے تو قابل قبول لیکن اس کی تاویلیں کی گٸی، اس کے لیے جواز تلاش کٸے گٸے اب ظاہر ہے کہ پاکستان کے نوجوان نسل میں اگر مسجد نبوی کی حرمت یا حرم پاک کی حرمت وہ متاثر ہوتی ہے ہماری ایمان اور ہماری مسلمانی کس کام کی، تو ہم نے اس حوالے سے 19 مٸی کو کراچی میں اور 21 مٸی کو پشاور میں بہت بڑے جلسے رکھے ہیں اور  ان شاء اللہ کامیابی کے ساتھ ہوں گے اور آپ کو اس میں شرکت کی دعوت دینا چاہتے ہیں۔

سوالات جوابات

صحافی اسماعیل: مولانا صاحب میرا اپ سے سوال یہ ہے کہ آپ ماشاءاللہ سے ساڑھے تین چار سال سے تحریک چلا رہے تھے وہ اخر کار کامیاب ہوگٸی لیکن وہ اپنے تمام انٹرویوز میں یہ کہہ رہے ہیں کہ بھٸی انہوں نے مجھے ہٹانے کے لیے فیض حمید کو عہدے سے ہٹوایا تو جب ہی میں ہٹ پایا اگر وہ نہ ہٹتا تو میں بھی نہ ہٹتا، اس بات میں کتنی حقیقت ہے ؟

مولانا صاحب: اس کا تو مطلب یہ کہ وہ اعتراف کررہے ہیں کہ جنرل فیض میری پشت پہ تھا اور وہی مجھے بچا رہا تھا تو وہ تو خود فوج کو فریق بنانے کی اعتراف کررہا ہے۔


صحافی طلعت: مولانا صاحب میرا سوال آپ سے یہ ہے کہ کل پوری کابینہ لندن گٸی ہے اور یہاں نٸے انتخابات کی بازگشت ہے تو کیا آپ نٸے انتخابات کے حق میں ہے یا نہیں اور دوسری جانب زرداری صاحب کہہ رہے ہیں کہ نٸے انتخابات نہیں ہونے چاہیے تو آپ کا اس میں مٶقف کیا ہے ؟

مولانا صاحب: دو باتیں ہیں اس پر کوٸی اختلاف نہیں ہے ایک یہ کہ ہمیں فری ایک فیٸر فریش الیکشن چاہیے، دوسرا یہ الیکشن سے پہلے اصلاحات چاہیے چاہے وہ الیکشن اصلاحات کے حوالے سے ہو یا وہ نیب کے حوالے سے ہو، اب اس وقت تو نیب انتقامی ادارہ تھا لیکن ہم اس کو انتقامی ادارہ نہیں بنانا چاہتے اس میں بھی اصلاحات کی ضرورت ہوگی، اب یہ بات کہ فریش الیکشن کب ہونے چاہیے ایک فاصلہ تو اس میں یہی ہے کہ ہم اصلاحات کی طرف جاٸے، دوسرا یہ کہ اب جب پارليمنٹ کے ذریعے تبدیلی اٸی ہے تو اب ہمارے ساتھ وہ لوگ بھی ہے جو پچھلے حکومت کے اتحادی تھے اور اتحاد چھوڑ کے پہلے اپوزیشن میں اٸے پھر اب حکومت کا حصہ ہے تو ہمارے اج تک جتنے بھی فیصلے ہوٸے ہیں وہ مشاورت سے ہوٸے ہیں، ہم نے کہا کہ حلف نہ لو لیکن جب سب نے کہا کہ لینا چاہیے تو ہم سب دوستو کے ساتھ تھے اگر ہم نے کہا کہ عدم اعتماد کی بجاٸے ہمیں تحریک کی بنیاد پر تبدیلی لانی چاہیے تو ہماری راٸے تھی لیکن جب سب دوستو نے کہا کہ عدم اعتماد کی حالات اب مناسب ہے اس کی طرف کامیابی کے ساتھ اگے بڑھ سکتے ہیں تو ہم رکاوٹ نہیں بنے ہے اب بھی آٸندہ کے انتخاب کب ہوں گے اس کا فیصلہ بھی  ان شاء اللہ اتفاق راٸے سے ہوگا۔


صحافی طارق: مولانا صاحب سوال یہ ہے کہ آپ نے اپنی تقریر میں بھی اس کا ذکر کیا ہے کہ ملک میں فوج کا ادارہ اس وقت بہت زیادہ تنقيد کی زد میں ہے اور فوج کی قیادت بھی، جب تک آپ لوگ اپوزیشن میں تھے آپ نے بھی تقریباً اسی طرح فوج پہ تنقيد کی، تو اس بے توقیری کی زمہ دار خود ادارہ ہے یا سیاسی قیادت ہے ؟

مولانا صاحب: آپ ہمارے کسی تقریر میں یہ بات دکھا سکتے ہیں کہ میرے جلسے میں کسی نے فوج کو گالی دی ہو، یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے، باجوہ کو گالی دی ہو، ہم نے تنقید کی ہے کہ اسٹبلشمنٹ کو غیر جانبدار ہونا چاہیے جانبداری ہمارے نزدیک ٹھیک نہیں تھی، لہذا اج جو کچھ مناظر ہمارے سامنے ملے ہیں آپ نے کبھی نیوٹرل کو جانور کہا، آپ نے کبھی دہشت گردی کے پیچھے وردی کا نعرہ لگایا، آپ کے کارکنوں نے کیا کچھ نہیں کہا، آپنے سپہ سالار کو میر جعفر کہا، یہ چیزیں اب سامنے ارہی ہے اس سے قبل کسی کو ادارے یا ادارے کی قیادت کے حوالے سے توہین کا تصور بھی نہیں ہوسکتا تھا۔


صحافی عامر سید: اَلسَلامُ عَلَيْكُم مولانا صاحب جب یہ عمران خان کو ہٹانے کے لیے آپ سب اتحادی جماعتوں نے سر جوڑے، اتحادی جماعتوں کے سارے رہنما اس بات پہ متفق ہوگٸے کہ عمران خان کو ہٹانا چاہیے آپ لوگوں نے میٹینگز کٸے ظاہر ہے یہ بات ڈسکس کیا ہوگا کہ جب یہ ہٹ جاٸے گا تو جو نٸی حکومت بنے گی اس میں شیٸرنگ فارمولہ کیا ہوگا، کیا عہدے ملیں گے جیسے آپ نے اپنے بیٹے کو ایک منافع بخش وزارت دلوادی تو شیٸرنگ فارمولے میں یہ بھی شامل تھا کہ آپ کو صدر مملکت کا عہدہ ملے گا یا اب آپ اس سے دستبردار ہوگٸے، اور دوسرا میرا سوال یہ ہے کہ عمران خان کے حکومت کو واپس انے کی اجازت نہیں دی جاٸے گی وہ بیڑہ غرق کردے گا، ساڑھے تین سال میں بیڑہ غرق کردیا مذید کردے گا، تو جمہوریت میں تو عوام کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنی حکومت کو منتخب کرے اگر عوام عمران کو ووٹ دیتے ہیں اور وہ اتا ہے تو پھر آپ اس کے خلاف ایک اور لانگ مارچ کریں گے ؟

مولانا صاحب: دیکھٸے جو شیٸرنگ کے حوالے سے بات آپ نے کی ہے اس کے نماٸندے ایوان اور حکومت میں موجود ہیں اور اس پر قانون سازی اتفاق بھی ہوا ہے لہذا وہ مسٸلہ حل ہوچکا ہے اور اس پر مذید سوال کی گنجاٸش نہ ہو، جہاں تک بات ہے عوام سے بات کرنے کی تو ہم عوام سے بات کررہے ہیں ناں، تو عوام کو سمجھانا کہ پھر دوبارہ اٸے گا تو کیا ہوگا یہ ہمارا حق ہے کہ ہم بولے اور جمہوریت اکثریت کے فیصلے کو تسلیم کرنے کا نام ہے اس سے اتفاق کرنے کا نام نہیں ہے ورنہ پھر اپوزیشن کا تصور ختم ہوجاتا ہے تو اپوزیشن کا تصور ہی اسی بات پر ہے کہ اکثریت کا فیصلہ تسلیم ہے لیکن یہ فیصلہ صحیح نہیں ہے اس سے اختلاف راٸے کیا جاسکتا ہے تو ہم اپنی بات جمہوری اصول کی بنیاد پر کررہے ہیں۔

راشد محمود سومرو: ایک منٹ بڑی معذرت کے ساتھ میں مولانا صاحب کی اجازت کے ساتھ ایک بات کا جواب دے دو کہ اسعد محمود صاحب کو منسٹری دینے کا فیصلہ مولانا فضل الرحمن صاحب کا نہیں ہے یہ جمعیت علما اسلام کا فیصلہ ہے اور جمعیت علما اسلام کی شوریٰ ہے وہ فیصلے کرتی ہے وہ پارليمنٹ کا ممبر ہے جس طرح پارلیمنٹ کے دوسرے ممبروں کو منسٹری لینے کا حق ہے اسعد محمود صاحب کو بھی حق ہے اس چیز پہ کہ وہ مولانا صاحب کے بیٹے ہے تو وہ کسی چیز کے لیے اہل نہیں ہوں گے یہ زیادتی ہوگی یہ جمعیت علما اسلام کا فیصلہ ہے۔

مولانا صاحب: اور ہم آپ کو ثابت کرکے دکھاٸے گے کہ یہ منافع بخش نہیں ہے (مسکراہٹ)، یہ ثابت کرکے دکھاٸیں گے۔


صحافی: مولانا صاحب بلدیاتی انتخابات کے اندر کے پی کے پہلے مرحلے میں آپ لوگوں کو بڑی کامیابی ملی تھی خصوصاً جمعیت علما اسلام کو، لیکن دوسرے مرحلے میں وہ کامیابی نظر نہیں آٸی جو پہلے مرحلے میں نظر اٸی تھی، پہلے مرحلے پر آپ نے خوب جشن منایا تھا کہ کے پی سے پی ٹی اٸی کا خاتمہ ہوا لیکن دوسرے مرحلے میں انہوں نے کم بیک کیا اس پر آپ کی راٸے جاننا چاہتا ہوں، ضمنی انتخابات میں بھی جو پی ٹی اٸی ایم این اے کا انتخاب ہوا تھا ان کے حکومت کے خاتمے کی باوجود انہوں نے وہ سیٹ نکالی، اس پر آپ کی کیا راٸے ہے ؟

مولانا صاحب: وہاں پر اب بھی ان کی حکومت ہے اور اگلے مرحلے پر انہوں نے جو پیسہ جھونکا ہے، جسطرح پیسہ انہوں نے جھونکا ہے اور پھر بلدیاتی الیکشن میں، میں تو حیران ہو اس بات پر، مجھے تو اپنے علاقے کا پتہ ہے کہ اگر سرکار کی طرف سے ایک ارب اٹھانوے کروڑ کا فنڈ الیکشن کے دنوں میں دیا جاتا ہے اور امیدوار بھی پچاس ساٹھ ارب روپے خرچ کردیتا ہے تو یہ ایک تحصیل کے اندر ڈھاٸی ارب روپے ایک کنڈیڈیٹ خرچ کرسکتا ہو تو آپ بتاٸے کہ پھر دو تین ہزار کے ووٹ کا فرق جو ہے اس کا آپ خود اندازہ لگاٸے آپ کیسے منیج کریں گے۔


صحافی: عمران خان نے لانگ مارچ کی کال دی ہے 30 مٸی کی ڈیڈ لاٸن دی ہے کہ اگر 30 مٸی تک یہ حکومت نہیں گٸی تو ہم اس کو بھگاٸیں گے اور خانہ جنگی کا بھی انہوں نے کہا ہے کہ خانہ جنگی ہوگی۔

مولانا صاحب: دیکھٸے کوٸی خانہ جنگی نہیں ہوگی میں ایک بات واضح کردینا چاہتا ہوں کہ مردہ لاش کے اوپر اپنوں کو رونے کا حق حاصل ہے وہ حق ہم ان لوگوں کو دینا چاہتے ہیں جو ان کے میت پر کھڑے ہوکر، اور اگر ایک کروڑ لوگ بھی ان کے میت پر جمع ہو جاٸے تو بھی  ان شاء اللہ ان کو زندہ نہیں کرسکیں گے، کوٸی خوف نہیں ہے یہ سب ہمارے اپنے داٸیں ہاتھ کے کھیل ہیں  ان شاء اللہ کوٸی مسٸلہ نہیں۔


صحافی منظر رضوی: میں نے یہ سوال کل زرداری صاحب سے کرنا تھا پر موقع نہیں ملا اسی لیول کہ آپ لیڈر ہیں تو آپ سے یہ سوال کرتا ہوں کہ امریکہ مخالف بیانیہ لیکر چل رہے ہیں کپتان جو ہے امریکہ مخالف بیانیہ، یہاں بڑا مشہور ہوتا ہے گو امریکہ گو کی تحریک بھی چلی، بعد میں پتہ چلا کہ وہ ایک ڈرامہ ہے، کہی ایسا تو نہیں کہ پی ڈی ایم جو ہے امریکہ کے ڈبل گیم کا شکار بن رہی ہو، پتہ چلا ہے کہ جو امریکہ مخالف باتیں کررہے ہیں وہ امریکہ ہی کے ادمی نکلے، ایک سوال یہ ہوگیا دوسرا سوال یہ ہے کہ آپ کے صدر بننے میں کیا رکاوٹ آرہی ہے ؟

مولانا صاحب: ھھھھ میرے سوال کے پہلے حصے کا جواب تو آپ نے دے دیا ہے میں نے کہا ناں ایک ہوتا ہے کاز، جب ہم کریں گے تو کاز ہوگا اور جب وہ کریں گے تو کارڈ ہوگا تو کاز اور کارڈ میں ذرا فرق سمجھنا چاہیے اور صدر کے منصب کا جو فیصلہ ہے ایک منصب ہے آٸینی منصب ہے اگر کسی دوسری پارٹی کو اس کے مطالبہ کرنے کا حق ہے میری پارٹی نے بھی اگر ابھی تک کو کیا نہیں ہے آپ کے میڈیا سے یہ خبریں سن رہے ہیں کسی نے انفرادی طور پر کوٸی بات کہہ دی، ایسی کسی فورم پر اس وقت تک کوٸی طے شدہ بات نہیں ہے وہ جو طے ہوگی تو اس کے بعد ہم کہہ سکیں گے کہ ہاں، لیکن اس وقت تک اگر آپ سمجھتے ہیں کہ رکاوٹ کون ہے تو بیٹھا ہوا رکاوٹ ہے۔


صحافی: میرا سوال وہی ہے جو کل میں نے ایک اور شخصیت سے بھی کیا تھا کیا سیاسی جماعتيں اس پواٸنٹ پر متفق ہوسکتی ہے بیٹھ سکتی ہیں کہ جو عسکری ادارے ہیں ان میں سے پولیٹیکل ونگز ختم کی جاٸے تاکہ آٸندہ کسی بھی حکومت کو نہ تو ڈکٹیشن دی جاسکے اور نہ اسطرح جیسے آپ سلیکٹڈ کہتے رہے اس طرح کہ سلیکٹڈ حکمران اتے رہے۔

مولانا صاحب: اس پر میں آپ کو تفصیلی بیان دے چکا ہو اس کا خلاصہ یہی بات ہے جو آپ نے فرماٸی ہے ہم یہی چاہتے ہیں کہ کوٸی ادارہ اپنے سپاہی کو برتی کرنے کے بعد یا کسی نوجوان کی کمیشن ہوجانے کے بعد پہلا حلف وہ یہی اٹھاتے ہیں کہ ہم سیاست میں حصہ نہیں لیں گے تو اسی پہ قاٸم رہنا چاہیے اور اسی سے اداروں کا وقار اور احترام بنتا ہے۔


صحافی: ملک میں یہ بحث بھی چل رہی ہے کہ نواز شریف صاحب واپس اٸے یا نا اٸے آپ کا اس بارے میں کیا مٶقف ہے ؟ دوسرا سوال آپ کے پارٹی کو جو ناراض لوگ ہیں الیکشن میں کیا آپ ان کو ایگری کرلینگے کہ وہ آپ کے ساتھ واپس اجاٸے ؟

مولانا صاحب: جہاں تک جو میاں نواز شریف کی بات ہے وہ جس گراونڈ پر گٸے ہیں انہوں نے اسی گراونڈ پہ واپس انا ہے اور اس کا فیصلہ میں نے نہیں کرنا انہی لوگوں نے کرنا ہے جنہوں نے اس وقت ان کے جانے کا فیصلہ کیا تھا، باقی رہا وہ کب اتے ہیں تو وہ جب چاہے ان کا ملک ہے، ان کا وطن ہے تین دفعہ ملک کے وزیراعظم رہ چکے ہیں تو یہ فیصلہ انہوں نے کرنا ہے یا انہوں نے جنہوں نے ان کو اس گراونڈ پر جانے کی اجازت دی تھی، لیکن تاہم جب وہ تشریف لاٸیں گے تو کچھ قانونی تقاضے ایسے ہیں کہ وہ ان کے انے سے پہلے پورے کرنے پڑیں گے یہ بات اپنی جگہ پر ہے، اور رہی ناراض لوگوں کی بات، تو الحَمْدُ ِلله ناراض تو ہمارے ہاں کوٸی نہیں ہے وہ پارٹی جمعیت علما اسلام ہی ہے کہ جس کے صفوں کے اندر آپ کسی پر ناراض کی انگلی نہیں رکھ سکتے، الحَمْدُ ِلله ہماری صفوں میں وحدت ہے اگر آپ کا ان لوگوں کی طرف اشارہ ہے تو پھر موج ہے دریا میں اور بیرونی دریا کچھ نہیں۔


صحافی اکرم بلوچ: مولانا صاحب کل یہ سوال میں نے سابقہ صدر اصف علی زرداری سے کیا تھا لیکن انہوں نے اس وقت جواب نہیں دیا تھا مجھے امید ہے کہ آپ مجھے جواب دیں گے، یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ اب بھی اسٹبلشمنٹ کا ایک بڑا حلقہ عمران خان کے پشت پر ہے چوں کہ عمران خان کو مکمل ازادی دی گٸی ہے وہ اور اس کی ٹیم بار بار آٸین شکنی کے مرتکب ہورہے ہیں، اس کے علاوہ وہ انتشار کی سیاست پھیلا رہے ہیں، مارشل لا کی دھمکیاں، خونریزی کی دھمکیاں لیکن کوٸی ان کا کچھ بھی نہیں کررہا ہے تو کیا آپ نہیں سمجھتے ہیں کہ اسٹبلشمنٹ نے آپ کو اور پی ڈی ایم کو ٹریف کیا۔

مولانا صاحب: میرے خیال میں اب یہ آپ کی مرضی ہے کہ آپ سوال میں جو بھی الفاظ استعمال کرے ٹریف کردیا، یہ کردیا وہ کردیا، میں نے اپنی تقریر میں آپ کو یہ کہہ دیا ہے بڑی صراحت کے ساتھ کہ ایک لابی ہے جو اس وقت بھی اس کے لیے لابنگ کررہی ہے پریشر ڈال رہی ہے وغیرہ وغیرہ جو میں نے نیٹ ورک کی بات کی ہے اور یہ چیزیں چلے گی نہیں حضرت، باقی رہی یہ بات کہ وہ جو کچھ کررہا ہے جب تک کوٸی بات ایسی نہیں اتی کہ جس پہ ہم کہے کہ آٸین کو سبوتاژ کردیا ہے یا اس نے ملک سے غداری کا ارتکاب کرلیا ہے اور اگر ایسی کوٸی بات اتی ہے تو پھر حکومت ضرور اس پہ اقدام بھی کرے گی اور اس کے لیے یہ تاثر ہم کیوں لوگوں کو دے کہ ہم نے حکومت میں اتے ہی پکڑ دھکڑ شروع کردی، نہیں ان کو ذرا کھلی چھٹی ملنی چاہیے وہ روز روز بونگیاں مارتا ہے بونگیاں مکمل کرنے دے ان کی، ہم بھی اس کے منتظر ہیں۔


صحافی: اسلام نے عورت کو سب سے زیادہ حقوق اور عزت دی لیکن آپ کی جماعت میں جو سیاست کرتی ہے اس میں کوٸی عورت کسی بھی عہدے پر نظر نہیں آتی۔

مولانا صاحب: ہمارے پارلیمنٹ کے اندر خواتین کی قیادت ہماری خاتون کررہی ہے اور یہ وہ خاتون ہے کہ جسے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اسمبلی کی نشست کی صدارت کی ہے، ہمارے ہاں مسیحی خاتون ہماری ممبر رہی ہے، ہمارے اس وقت بھی اسمبلی کے اندر مسیحی اراکین موجود ہیں، ہماری اس وقت بھی صوبہ خیبر پشتون خواہ میں خواتین موجود ہیں، اس وقت وہاں پر اقلیتوں کے نماٸندے موجود ہیں، لہذا ایک سیاسی جماعت کے ناطے ہم پاکستان میں نہ خواتین کے حقوق کو نظرانداز کرسکتے ہیں نہ ہم کسی مکتبہ فکر سے وابستہ لوگوں کے حقوق کو نظرانداز کرسکتے ہیں نہ ہم غیرمسلموں کے حقوق کو نظرانداز کرسکتے ہیں، سیاسی جماعت آٸین کے حوالے سے اور یہ کہ وہ شیڈو گورنمنٹ ہے کل اس نے حکومت بنانی ہے تو حکومت سے پہلے بھی ہمارے رویے وہ ہونے چاہیے کہ جو حکومت کے بعد ہم نے اپنانے ہوتے ہیں، لہذا یہ بات شاٸد آپ ایک مذہبی حوالے سے لوگوں کے بارے میں جو تاثر ہے اس حوالے سے کررہے ہیں جمعیت علما بڑی میچیور پولیٹیکل پارٹی ہے۔


صحافی فیاض قریشی: خواجہ آصف نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ وقت سے قبل انتخابات ہوسکتے ہیں تو کیا یہ پی ڈی ایم کا مٶقف ہے کیا آپ بھی اس بات کے اتفاق کرتے ہیں یا صرف یہ بات نون لیگ کی حد تک محدود ہے۔

مولانا صاحب: میرے محترم میں بڑی ادب کے ساتھ یہ عرض کروں گا کہ میں پی ڈی ایم کا بھی سربراہ ہوں اور میں اپنی پارٹی کا بھی سربراہ ہوں میں سیکنڈ لاٸن کے لوگوں کو جواب نہیں دیتا، پارٹی قیادت کی کوٸی بات اٸے گی تو اس پہ  ان شاء اللہ بات ہوگی۔


صحافی نواب علی شاہ: ایک بات تو کلیٸر ہوگٸی کہ ریاستی اداروں کا کچھ حصہ اب بھی عمران خان کے ساتھ ہے تو آپ کی سیاسی بصیرت کیا کہتی ہے کہ ان کا مستقبل کیا ہے ؟

مولانا صاحب: میرے خیال میں ایک شخص جو اپنی کارکردگی کی بنیاد پر اس کو کسی نے ہٹایا نہیں ہے، کاکردگی کے بنیاد پر خراب ہوا ہے، پبلک نے دیکھا کہ کس طرح اس نے تین سال سے اس ملک کو بٹھایا ہے اب یہ پرچی کے پیچھے چھپنا چاہتا ہے نہیں چھپ سکتا، وہ کارکردگی دکھاٸے اس پہ بحث کرے کہ ملک کو دیا کیا ہے، کیا پرچی دکھا رہا ہے کہ یہ امریکہ سے ایا ہے، امریکہ بھی تردید کررہا ہے آپ کی قومی سلامتی بھی تردید کررہی ہے، اب وہ چھوڑ دیا اس نے، میں آپ کو بتا رہا ہوں وہ بیانیہ نہیں چلا اب اس نے کوٸی میر جعفر والی بات اٹھالی ہے وہ بھی دو تین دن کے اندر ختم ہوجاٸے گی کیوں کہ انہوں نے کہا ہے کہ میری مراد باجوہ صاحب نہیں تھے وہ تو شہباز شریف تھے تو شہباز شریف سپہ سالار کب تھے، تو یہ ساری چیزیں ایسی ہے کہ جو عارضی باتیں ہوتی ہے آپ بڑے سنجیدہ لوگ ہیں، بڑے دانشور ہیں، آپ جس محاذ پہ بیٹھے ہوٸے ہیں ان بھول بھولیوں کو گپ شپ ہی لیتے رہے، اس کو انجواٸے کرتے رہے، اس سے زیادہ ان باتوں کو سنجیدہ نہ لیا کرے۔


صحافی ارباب چانڈیو: مولانا صاحب میں اس چینل سے تعلق رکھتا ہوں جو آپ سے بے پناہ محبت کرتی ہے اے آر واٸی ھھھ، اور آپ سے سوال بھی محبت والا ہے کہ آپ عمران خان سے محبت کرتے ہیں یا نفرت ؟

مولانا صاحب: آپ یہ بتاٸے کہ اے آر واٸی کی لاٸٹنگ صحیح ہے (قہقہہ)۔


صحافی عبدالجبار ناصر: آپ نے فرمایا تھا کہ بہار اٸے نا اٸے خزاں چلی جاٸے، اس سے مراد کیا عمران خان تھے یا کوٸی غیر جمہوری عمل تھا یا دونوں مراد تھے ؟

مولانا صاحب: آپ ایک دفعہ شعر ٹھیک کرلے کراچی میں بیٹھے ہوٸے ہیں یہاں اردو والے لوگ بیٹھے ہوٸے ہیں کس طرح اردو کا بیڑہ غرق کردیا کہ خزاں جاٸے بہار اٸے نا اٸے، تو میرے خیال میں خزاں چلی گٸی اب بہار کے انے کی طرف کوشش کریں گے۔


صحافی عاجز جمالی: مختلف ضمنی انتخابات میں یہ محسوس ہوا کہ اپوزیشن کی مختلف جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف الیکشن میں کھڑی ہوتی ہے کیا مستقبل میں ایسا کوٸی امکان ہے کہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، آپ اور پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتیں مل کر آٸندہ انتخابات میں ایسا کوٸی الاٸنس بناٸے جو الاٸنس کی صورت میں الیکشن میں حصہ لے کیا یہ ممکن ہے ؟

مولانا صاحب: دیکھٸے میں اس سلسلے میں الیکشن کے تجربات سے گزرا ہوا ادمی ہو ایک ہے جو اتحاد پہلے موجود ہے وہ تحریک کے لیے تھا انتخابی اتحاد نہ تھا، اس وقت بھی ہمارا جو اکھٹ ہے پارليمنٹ کے اندر وہ کل کی اپوزیشن تھی آج وہ حکومتی اتحاد ہے، اگلے انتخاب میں کیا ہونا ہے اس کو ماضی کے انداز میں چھوڑے جس طرح حالات بنتے جاٸیں گے ہم اس حوالے سے سوچتے جاٸیں گے کیوں کہ ایک پارٹی ہے پنجاب میں اس کی پوزیشن اور ہے اس کو وہاں کے مفاد کے خاطر وہاں کے اتحادی چاہیے، سندھ کی ایک پارٹی ہے اس کو وہاں کے ماحول کے مطابق انتخابی مفاد کے لیے اپنے اتحادی چاہیے، بلوچستان اور کے پی میں وہاں کے حالات کے مطابق ایڈجسٹمنٹ کرنی ہوتی ہے تو یہ چیزیں انتخاب قریب انے کے وقت ڈسکس کیے جاتے ہیں، سیاسی پارٹیوں کا باہمی اتحاد یہ خارج از امکان نہیں ہے لیکن یہ ہے کہ اس کے لیے کیا حکمت عملی بناٸی جاتی ہے ابھی اس کے لیے وقت ہے۔ بہت شکریہ جی

ضبط تحریر: #سہیل_سہراب

ممبر ٹیم جے یو آٸی سوات

0/Post a Comment/Comments