قائدِ جمعیۃ حضرت مولانا فضل الرحمن کا ڈیرہ اسماعیل خان میں 24 نیوز کے صحافیوں سے گفتگو 21 جون 2022


قائدِ جمعیۃ حضرت مولانا فضل الرحمن کا ڈیرہ اسماعیل خان میں 24 نیوز کے صحافیوں سے گفتگو تحریری صورت میں
 21 جون 2022
صحافی کی طرف سے آزادی مارچ میں قرآن پاک پر ہاتھ رکھنے کے حوالے سے سوال پر قاٸد محترم کا تفصیلی جواب:
یہ کلپ مجھے بھی ملا ہے اور مجھے بڑا تعجب ہوا ، پتہ نہیں کون ہے ، نہ ہم ان کو جانتے ہے ، کس لیول کا آدمی ہے ، کس ماحول کا آدمی ہے ، اور ایسی بات کہنا کہ قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر فضل الرحمن نے کہا ہے ، مجھے بڑا تعجب ہوا کہ کیسے دنیا میں لوگ جھوٹ بولتے ہیں۔
اگر حقیقت میں آپ کو بتادو اتنی کوشش کی ہے ان لوگوں نے اسٹبلشمںٹ نے ، کہ ہماری آزادی مارچ کو روکے ، اور آپ نے بھی مشاہدہ کیا ہوگا کہ ہمارے کارکنوں نے اس آزادی مارچ میں جانے کے لیے جو بسیں کراٸے پے لی تھی جو ویگن کراٸے پر لیے تھے ، آخری رات میں ان لوگوں نے اُن پر پریشر ڈال کر ہمارے ساتھ معاہدے توڑ دیے ، انہوں نے ہمیں کرائے واپس کردیے ، اور کہا کہ اِن کی طرف سے ہم پر بڑا پریشر ہے ، اور ہمیں اس بات پر اُن سے بہت بڑا گلہ تھا ، لیکن حضرت لوگوں نے سیلاب کی طرح وہ سب بندھنے توڑ دی ، اور اتنی قوت کے ساتھ وہ چلے گٸے اور یہ ساری دنیا جو ہے کراچی سے لے کر تربت ، چترال ، گلگت بلتستان سے لے کر تمام قافلوں کو لمحہ بہ لمحہ واچ کرتے رہے ، کس طرح پشاور موٹر وے پر پشاور سے لے کر اسلام آباد تک انسانیت تھی ، پھر انہوں نے ہیلی کاپٹر کے ذریعے واچ کیا کہ یہ سیلاب آج ہمارے روکنے کا نہیں رہا ، اور ہم پہنچے ہیں ، بارہ دن ہم رہے ہیں ، اور ہم اس وقت اٹھے ہیں جب انہوں نے پولیٹیکل گارنٹرز کی موجودگی میں یہ کمٹ کیا کہ ہم اگلے سال ، ہم نومبر میں بیٹھے تھے ناں ، کہ ہم جنوری ، فروری ، مارچ تک اس ملک میں الیکشن دیں گے اور ہم آپ سے ریکوسٹ کررہے ہیں کہ بس ختم کرے۔
ہم تو شکایت کررہے ہیں کہ ہمارے ساتھ بدعہدی ہوٸی ہے ، اور یہ الگ بات ہے کہ جن لوگوں سے یہ توقع کی جارہی تھی کہ یہ تو مذہبی لوگ ہیں ، یہ تو بڑے انتہا پسند لوگ ہیں ، یہ تو بڑے شدت پسند لوگ ہیں ، اور پتہ نہیں اسلام آباد آٸیں گے تو کیا سے کیا اگ لگ جاٸے گی ، اور کیا ہو جاٸے گا ، ہم نے ملتان ، سکھر ، لاہور ٹریفک تک نہیں روکی ، ہمارے جلسوں کے دوران ٹریفک چلتی تھی ، اور راستے میں اگر کوٸی ایکسیڈنٹ یا حادثہ اتفاقی طور پر ہوتا ہے ، تو پولیس بعد میں پہنچتی ہے اور ہمارے رضاکار پہلے پہنچتے ہیں اور اُن کو ہسپتال پہنچاتا ہے ، اور پھر چودہ دن ہم نے اسلام آباد میں گزارے اور دو اعشاریہ چھ کلومیٹر تک پبلک تھی ، یہ بھی آپ کو بتادوں کتنا فاصلہ اس کا تھا ، اور دو طرفہ سڑک جو دونوں طرف چھ رویہ ہے ، یہ مکمل پبلک سے بھری ہوٸی تھی ، اب پتہ نہیں ان کے انٹیلجس نے اِن کو کیا رپورٹ کیا ہوگا ، لیکن ہمارے جو دو اجتماعات تھی ایک پہلے یعنی جمعہ کے دن اور دو چار روز بعد جو سیرت النبیﷺ کا اجتماع تھا ، اُس میں ہمارا فل کراوڈ تھا جس کے بارے میں دنیا نے کہا کہ پندرہ سے سترہ لاکھ لوگ تھے ، اور ایک پتہ نہیں ٹوٹا ، کسی درخت کے اندر کوٸی پھل ہے وہ نہیں گرا اور نہ کسی نے اس کو ہاتھ لگایا ، اور خواتین کا احترام ، غیر ملکی خواتین آٸی اُن کا احترام ، اُن کی عزت و توقیر ، پوری میڈیا نے اِس کو واچ کیا کہ کتنے منظم انداز کے ساتھ دن میں اپنے صفائی کا کام وہ خود کرتے تھے ، اور حضرت اتنے غریب لوگ آٸے تھے کہ دن کو جاکر بازار میں مزدوری کرتے تھے اور اسی پیسوں سے شام گزارتے تھے اور اپنے کھانے پینے کا انتظام کرتے تھے۔
اس جذبے کے ساتھ دنیا آٸی ہوٸی تھی ، یہ نہ کوٸی مدرسے کا طالب تھا ، نہ کوٸی جیالہ ، ایسی بات بلکل نہیں تھی ہاں شریک تھے پندرہ لاکھ میں کتنے شریک ہوں گے ، پچاس ہزار ہوں گے لاکھ ہوں گے۔
تو اِس قسم کی صورتحال سے ہم نمٹے ، کیسے حالات سے ہم گٸے گزرے ، اور ایک جھوٹا آدمی پتہ نہیں کون ہے ، کہاں رہتا ہے ، کس ماحول کا ہے ، وہ آج پورے کریڈیبلٹی کو تباہ کرنے کے لیے ، میری کیا باقی سب کی تباہ کررہا ہے۔
تو ہم فوج کو بدنام نہیں ہونے دینا چاہتے ، فوج پر ایسا حرف نہیں لانے دینا چاہتے ، ہاں اختلاف کریں گے ہمیں شکایتیں تھی ، ہمیں کیوں روکا ، ہمارے کارکنوں کو کوں روکا ، ہمارے ساتھ آنے والے بسیں ، ٹرک ، ویگن اُن کو کیوں ہراساں کیا ، آخری وقت تک آپ نے اُن پر کیوں پریشر ڈالے ، یہ شکایتیں اپنی جگہ پر تھی ، لیکن یہ شکایتیں معروضی ہوتی ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوجاتی ہے اور پھر ہم آگے بڑھتے ہیں۔
اب بھی ہمارا مٶقف یہی ہے کہ ہم نے آگے بڑھنا ہے ، ہم نے عمران خان کے رجیم کو گرایا ہے ملک کو بچایا ہے ، ورنہ اب تو کہہ چکا ہے کہ ملک تین حصوں میں تقسیم ہو جاتا ، فوج آپس میں لڑے گی ، تو فوجی بھی ریٹائرڈ نکل آٸے ، ایکسپوز ہوگٸے ، کہ کتنا ایک بین الاقوامی نیٹ ورک ہے جس سے ہمارا اشرافیہ وابستہ ہے ، اور یہ تو مرد تھے جو باہر آٸے ، ان کے گھروں میں موجود آنٹیاں وہ کس غم میں آنسو پونچھ رہی ہیں ، کیوں کہ اُن کا ایجنڈہ تباہ ہوگیا ، اور اب بھی اگر بین الاقوامی قوتیں ہم پر دباو ڈال رہی ہے کہ عمران خان کو کلیٸر کرو تو پتہ چل جاتا ہے کہ کتنی بین الاقوامی کانسپرنسی ہے ، کتنی بین الاقوامی سازش ہے ، اس قسم کے چھوٹے چھوٹے مہرے جگہ جگہ ایسی چیزوں کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
ہم اپنی فوج کو اپنی ذمہ داریوں تک محدود رکھنے کا مٶقف رکھتے ہیں ، اس حوالے سے ہم ادارے کو طاقتور دیکھنا چاہتے ہیں ، پاکستان کی دفاع کو طاقتور دیکھنا چاہتے ہیں ، ہم کبھی کبھی شکوہ بھی کرلیتے ہیں ، اختلاف راٸے بھی کرتے ہیں ، کبھی اُس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم ادارے کو کمزور کرنا چاہتے ہیں ، اور ملکی نظام سیاستدانوں کے ہاتھوں میں ہونا چاہیے ، ہم کسی بین الاقوامی دباو کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ، آٸی ایم ایف کا دباو ہو ، ایف اے ٹی ایف کا دباو ہو ، ٹھیک ہے ہمارے بہت سی مجبوریاں ہوں گی ، معروضی طور پر ہوں گی ، اور ہم ان مجبوریوں کے تحت سفر بھی کررہے ہیں ، دونوں سفر کررہے ہیں اقتصادی لحاظ سے بھی سفر کررہے ہیں اور سیاسی لحاظ سے بھی سفر کررہے ہیں ، تو وہ چلتا رہتا ہے۔
اور اِس وقت ایک حکومت ہے جس نے صرف عمران خان کو اتارنے کا چیلنج قبول نہیں کیا تھا اُس کے اتارنے کے بعد جو ملکی معیشت کو زمین بوس کردیا اُس کو دوبارہ سے اٹھانے کا چیلنج بھی قبول کیا ہوا ہے ، اور یقیناً آج اگر قوم ، پبلک تنقید کرتی ہے ، چیختی ہے ، چلّا رہی ہے کہ بھٸی وہ تو ایسے تھے اب تو تم اگٸے ہو تو تمہاری حالت میں تو اور مہنگائی آرہی ہے ، اب یہ عام آدمی کو سمجھانا بہت مشکل ہے کہ یہ سب کچھ انہی معاہدات کے سلسلے میں ہیں ، اُس نے جو بین الاقوامی دنیا کو اپنی معیشت پر مسلط کیا ہے یہاں تک کہ ہم نے اُن کے دباو کے اوپر قانون سازی بھی کرلی ہے۔
تو اِن حالات سے نکلنے میں تھوڑا وقت تو لگے گا اور آپ کو یاد ہے ہمارے جلسوں میں شہباز شریف صاحب کہا کرتے تھے کہ چھ مہینے آپ مجھے دیں گے ، تو ابھی تک تو پریزڈینسی ان کے ہاتھ میں ہے ، ابھی تک تو کے پی کی حکومت اُن کے ہاتھ میں ہیں ، کتنی مشکلات ہمارے لیے پیدا کی جارہی ہیں ، قانون سازی میں ، پالیسیوں میں مشکلات پیدا کی جارہی ہیں۔
جو اشرافیہ ہے ریٹائرڈ جرنل ، ریٹائرڈ ججز ، ریٹائرڈ بیورو کریٹس ، اُن کا ایک نیٹ ورک ، وہ کس طرح بین الاقوامی نیٹ ورک کی خدمت کررہا ہے ، اور اُن اداروں کے لیے کس طرح استعمال ہورہے ہیں ، اور پھر بڑے دھڑلے سے کہہ رہے ہیں کہ ہم تو طاقتور لوگ ہیں ، اور طاقتور آپ تھے ابھی آپ ریٹائرڈ ہیں گھر میں رہیں ، ہماری طرح زندگی گزارے ، اور ہمارے سیاسی معاملات میں مداخلت نہ کرے ، یہ فوج کے اپنے قوانين کی بھی خلاف ورزی ہیں ، وہ بھی اِن کو نہیں کرنی چاہیے ، اور اِس پر ادارے کو بڑا ایکشن لینا چاہیے اور قانون کے مطابق لینا چاہیے ، کیوں کہ اِس قسم کی چیزیں اگر ہو جاتی ہیں تو کل بیورو کریٹس نکلیں گے ، کل کوٸی اور نکل آٸے گا ، ملک میں ہنگامہ آراٸی اور ملک کے سیاسی نظام کو آپ کمزور کرنا چاہتے ہیں۔
لہذا اس وقت ایک جنگ ہیں کہ جس طرح ملک کے نظام کو کمزور کیا سیاسی لحاظ سے ، اقتصادی لحاظ سے ، خارجہ تعلقات کے لحاظ سے ، اِن تمام شعبوں کو ہم نے اٹھانا ہے اور ابھی بھی وہ قوتیں رکاوٹیں پیدا کررہی ہیں چاہے بین الاقوامی ادارے ہو ، چاہے بین الاقوامی خفيہ نیٹ ورک ہو ، چاہے اُس سے وابستہ ہمارے یہاں کا اشرافیہ ہو ، یہ سارے لوگ ابھی بھی پرانے نظام کو لانے ، تاکہ ملک کا جو کچھ بچا ہوا ہے اُس کا بھی کباڑا ہو جاٸے۔
تو  ان شاء اللہ العزیز حالات کا مقابلہ کررہے ہیں ، اِس کو چیلنج سمجھ کر ہم نے قبول کیا ہے ، پبلک کی پریشانیاں بلکل مدنظر ہیں ، ہم پبلک میں رہتے ہیں ، دن رات لوگوں کے ساتھ موجود رہتے ہیں ، جلسے کررہے ہیں ، عام آدمی کی جو صورتحال ہے یہ جنگ ہم نے اور عوام نے مل کر لڑنی ہے اور  ان شاء اللہ جیتنی ہے۔
ہماری ایک کمٹمنٹ ہے جتنے بھی لوگ اس وقت اِس حکومت کے اندر ہیں باوجود اِس کے کہ وزارتوں کے معاملات بھی آتے ہیں ، عہدوں کے معاملات بھی آتے ہیں ، ہر پارٹی کے اپنے ڈیمانڈ ہوتے ہیں ، سرکاری محکموں میں اپنے لوگوں کو ایڈجسٹ کرنے چیزیں بھی آتی ہیں ، یہ چبقلشیں ساتھ ساتھ چلتی رہتی ہیں ، لیکن ایک کمٹمنٹ ہم سب کی ہیں کہ ہم نے اِس ملک کے مستقبل کو محفوظ کرنا ہے ، سٹریٹجک حوالے سے بھی ، معاشی لحاظ سے بھی ، سیاسی حوالے سے بھی ، بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے بھی محفوظ کرنا ہے۔
تو یہ ساری چیزیں اِس وقت ہماری مدنظر ہیں ، اور اِس پر حکومت جو کچھ بھی کررہی ہے اِس وقت سب کی کمانڈ شہباز شریف ہیں لیکن جو بھی حالات آتے ہیں ، کوٸی بڑا ایشو آتا ہے تو اُس پر مشاورت بھی کرتے ہیں اور سب کو اعتماد میں بھی لیتے ہیں۔ بہت بہت شکریہ

ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر ٹیم جے یو آٸی سوات
#teamjuiswat

0/Post a Comment/Comments