سکھر جامعہ حمادیہ مظہر العلوم سندھ باب الاسلام کانفرنس سے قائد محترم حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا خطاب 18 جون 2022


سکھر جامعہ حمادیہ مظہر العلوم سندھ باب الاسلام کانفرنس سے قاٸد محترم حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا خطاب  
 18 جون 2022

خطبہ مسنونہ کے بعد
جناب صدر محترم ، اکابر علماٸے کرام ، انتہائی محترم میرے عزیز فضلاء ، طلباء ، میرے بزرگوں، میرے دوستو اور بھاٸیو! میرے لیے یہ سعادت کی بات ہے کہ ایک طویل عرصہ کے بعد اپنے محبوب مکرم مرحوم حضرت مولانا محمد مراد صاحب کی یادگار اور ان کی شاہکار جامعہ جامعہ حمادیہ مظہر العلوم میں آپ سے مخاطب ہورہا ہوں ، اِس جامعہ کی ہمہ جہت خدمات پورے برصغیر میں دینی مدرسے میں قرآنی علوم ، حدیث کے علوم اور فقہ کے علوم کو تحفظ فراہم کیا ، انگریز نے پورے برصغیر میں سرکار کے زیر انتظام چلنے والے تعلیمی اداروں میں اِن علوم کا خاتمہ کردیا ، اور یہ نظریہ دیا کہ ہم نے برصغیر کو ایک ایسا نظام تعليم عطاء کیا ہے کہ اسے پڑھنے کے بعد ہند و ستا ن کی آٸندہ نسلیں بظاہر تو اپنے آپ کو مسلمان سمجھے گی لیکن اُن کے اندر سے ہم اسلام کو نکال دیں گے ، کالجز اور یونیورسٹیوں کے علوم سے ہمیں کوٸی جھگڑا نہیں ، ہم علم کو علم سمجھتے ہیں ، چاہے وہ جدید ساٸنس ہو ، جدید ٹیکنالوجی ہو ، جغرافیہ ہو ، پولیٹیکل ساٸنس ہو ، طبیعیات ہو ، جتنی بھی انسان کی ضرورت سے وابستہ علوم ہیں ، ہم اِن علوم کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ، لیکن یاد رکھے اِن سب علوم کو فروغ دینے کے لیے اور اِس کی روشنی میں زندگی میں ترقی پیدا کرنے کے لیے عقل کی ضرورت ہے، اللّٰہ نے حضرت انسان کو عقل کی نعمت سے نوازا ، لیکن یاد رکھو عقل غلطی بھی کرتا ہے ، عقل مغلوب بھی ہو جاتا ہے ، خواہشات نفس سے مغلوب ہو جاتا ہے ، محبت اور غضب سے مغلوب ہو جاتا ہے ، تو عقل کے فیصلے میں خطا اور انحراف کی گنجائش ہوا کرتی ہے ، اِس کا امکان ہوا کرتا ہے، اللّٰہ رب العزت نے اِس کا عظیم انتظام کیا کہ عقل کی رہنمائی کے لیے براہ راست وحی بھیجی ، اور وحی میں خطا اور انحراف کا کوٸی امکان نہیں ، عقل اور وحی کے درميان ایسا رشتہ پیدا کیا کہ آپ کی آنکھیں آپ کے آنکھوں کی بیناٸی ہے ، آنکھوں کی بیناٸی بلکل ٹھیک ہے ، پوری طرح قوت بیناٸی موجود ہیں ، لیکن اگر اُسے خارجی روشنی مہیا نہ کی جاٸے تو اندھیرے میں وہ بیناٸی کام نہیں دیتی ، رات کا اندھیرا ہو ، کمرے میں بجلی بھی نہیں ، دروازے بھی بند ہو جاٸے ، تاریکی ہی تاریکی ، آپ کی بیناٸی میں کتنی بھی طاقت ہوگی اُسے کچھ بھی نظر نہیں آٸے گا ، تو باہر سے اگر سورج کی روشنی مہیا نہ ہو تو انسان کی بصارت کام نہیں کرتی ، اِسی طرح اگر عقل کی روشنی کو باہر سے وحی کی روشنی مہیا نہ ہو تو پھر عقل رہنمائی نہیں کرسکتا وہ مانند پڑ جاتا ہے ، تم نے عقل کو اللّٰہ کی وحی کی رہنماٸی سے محروم کیا ، یہ ہے اِس دور کی جدیدیت ، جو ہمیں قرآن و حدیث اور سنت سے لاتعلق کرنا چاہتا ہے ، اِس مدرسہ نے اِس تعلق کو برقرار رکھا ہے ، اِس لیے آج مجھے حق پہنچتا ہے کہ میں تہہ دل سے اِن فضلاٸے کرام کو مبارکباد پیش کروں ، اور آج جو دستار انہوں نے اپنے سر پہ سجھاٸی ہے قیامت کے دن اللّٰہ کرے یہ سونے کہ تاج میں تبدیل ہو جاٸے ، دنیا وقفہ کی عزت کا ذریعہ بن جاٸے۔
میرے محترم دوستو! کتنی کتنی رکاوٹیں پیدا کی جارہی ہیں ، دنیا میں کہی پر کوٸی دہشت گردی کا واقعہ ہوتا ہے تو اِسے مدرسہ سے وابستہ کرلیاجاتا ہے ، اِسے مذہب سے وابستہ کرلیا جاتا ہے ، اِسے داڑھی اور پگڑی سے وابستہ کرلیا جاتا ہے ، اور یہ کوٸی چھوٹی موٹی تنظيميں نہیں کررہی عالمی قوتیں اِس مشن کے پیچھے ہیں ، مال کی لحاظ سے دنیا کی طاقتور قوتیں اربوں ڈالر خرچ کرکے آپ کے اِن علوم کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں ، آپ کے مدرسہ کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں ، آپ کی پگڑی اور داڑھی کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں ، قرآن و حدیث سے آپ کا رشتہ ختم کرنا چاہتے ہیں ، لیکن اِن فقیروں نے ، اِن ملنگوں نے عالمی قوتوں کی اربوں ڈالر کی اُس پوری طاقت کو ختم کر دیا ہے اور اُس کو شکست دے دی ہے اور  ان شاء اللّٰہ آگے بھی ہم آپ کو شکست دیتے رہیں گے۔
تم علماء کو ختم نہیں کررہے تم اللّٰہ کے دین کا خاتمہ چاہتے ہو ، تم جلسوں میں کہتے ہو کہ مدرسہ کا آدمی پڑھا لکھا نہیں ، اگر آپ کے علم میں نہ ہو تو میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ دینی مدرسہ کے تعلیم یافتہ کو اگر انپڑھ کہا ہے تو انگریز نے کہا ہے ، علامہ شبیر احمد عثمانی کو انگریز نے اپنے کتاب میں انپڑھ اِس لیے لکھا کہ وہ اپنے گاٶں سے پراٸمری سکول سے فارغ ہوٸے ، اِس معیار کو ہم تسلیم کرے تم ہوتے کون ہو ، کس دور میں یہ باتیں تم کررہے ہو ، اور جب ایک ووٹ کی چھوٹی سی پرچی کی ضرورت پڑ جاٸے تو یہ بڑے بڑے سیاستدان اور وڈیروں کو میں نے دیکھا ہے کس طرح گھروں میں اور دیرے پر لوگوں کے سامنے قرآن لے کر جاتے ہیں ، اِس کو قرآن یاد آجاتا ہے۔
تو میرے دوستو اگر ووٹ کے لیے قرآن لے جانا اور اِس پر ووٹ حاصل کرنا حق بنتا ہے تو پھر تمہارا نہیں بنتا پھر علماء کا اور جمعیت علماء کا بنتا ہے ، جن کو قرآن پڑھنا نہیں آتا ، جن کو قرآن کریم ک تلاوت کرنی نہیں آتی ، اُن کو بھی اِن دنوں میں قرآن یاد آجاتا ہے ، ساٸیں قرآن مجید ، ساری زندگی سر پر پگڑی نہیں رکھی جب الیکشن آتا ہے ، تو پبلک کے سامنے پگ کے ساتھ جاتے ہیں ، ساٸیں پگ دے ووٹ دیو ، او کم بختوں تم نے آج پگڑی پہنی اور میری پوری زندگی پگڑی ہی پگڑی ہے تو پھر حق میں رکھتا ہوں کہ تم رکھتے ہو ، پھر جلسوں میں جاتے ہو ، دامن بچھاتے ہو ، تو میں تمہیں جانتا ہوں تم تو گاٶں میں آکر قمیص پہنتے ہو اور تمہارا دامن بن جاتا ہے ورنہ تمہاری پوری زندگی تو کوٹ پتلون میں گزر جاتی ہے ، جس کا دامن ہوتا ہی نہیں ہے اگر پوری زندگی صبح و شام کسی کا دامن ہے تو وہ جمعیت کے ان فقیروں کا ہیں جو ہمیشہ قمیص شلوار میں رہتے ہیں ، تو اگر دامن کا حق ہے کہ اس کو ووٹ دیا جاٸے تو وہ پھر مولوی کا حق ہے ، علماء کا حق بنتا ہے۔
اور میں علماٸے کرام کی خدمت میں بھی عرض کرنا چاہتا ہوں الیکشن لڑنا ہے تو ظاہر ہے آپ ایک حکومتی نظام کی طرف جارہے ہیں ، حکومتی نظام کی طرف جانے کے لیے دو چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ایک روحانی ایک مادی ، جب آپ میدان سیاست میں اتریں تو پھر آپ کا عقیدہ ہونا چاہیے کہ میرا مقصد اعلاں کلمتہ اللّٰہ ہے ، اللّٰہ کے کلمے کی سربلندی ہے ، جب اندر سے یہ نیت ہو پھر اِس کا مقصد یہ کہ آپ کی زندگی کا نصب العین اللّٰہ کا دین ہوا ، یہ روحانی مقصد ہے ، جس طرح کلمہ ہر جگہ آپ کے ساتھ رہتا ہے ، آپ دکان میں بیٹھے ہیں تو کلمہ آپکے ساتھ تو آپ مسلمان کہلاتے ہیں ، آپ سرکاری دفتر میں ہوتے ہیں تو وہاں بھی کلمہ آپ کے ساتھ ہوتا ہے آپ مسلمان کہلاتے ہیں ، لہذا میدان سیاست میں جب بھی آپ قدم رکھے ، ووٹ لینا ہو یا ووٹ دینا ہو تو اس وقت ایک مقصد اپنے دل کے اندر رکھ لو کہ میرا اس سے مقصد اللّٰہ کی دین کی سربلندی ہے۔
اب ظاہر ہے جب آپ سیاست میں جاٸیں گے اور سیاست میں جاٸیں گے تو آپ حکومت میں جاٸیں گے ، اور جب آپ حکومت میں جاٸیں گے تو ملکی وسائل پر آپ کو دسترس حاصل ہوگی ، اور جب ملکی وسائل پر آپ کو دسترس حاصل ہوگی تو لوگوں کی ضرورتیں اِن وسائل سے وابستہ ہوتی ہیں ، اُن کو روزگار بھی چاہیے ، اُن کو نوکری بھی چاہیے ، اُن کو سکول بھی چاہیے ، اُن کو ہسپتال بھی چاہیے ، اُن کو سڑک بھی چاہیے ، اُن کو ڈاکخانہ بھی چاہیے ، ساری چیزیں جو دنیوی ضرورتیں ہیں وہ ہم انسان کو چاہیے ، اور وسائل پر اُن کا حق ہے ، اور آپ حکومت میں آٸے ، وسائل آپ کے ہاتھ میں آگٸے ، تو اب پبلک آپ کے طرف آٸے گی ، آپ مسجد میں بیٹھے رہیں ، دم چپ کرتے رہیں ، کوٸی نہیں آٸے گا کہ مولوی صاحب میرے ساتھ تھانے چلو ، آپ خانقاہ میں بیٹھے رہیں اور صرف تعویذ لکھتے رہیں کوٸی آپ کو تنگ نہیں کرے گا کہ مولوی صاحب میرے ساتھ ذرا فلاں دفتر تو چلو ، لیکن جب آپ سیاست میں آٸیں گے ، ملکی وساٸل تک آپ کا ہاتھ پہنچے گا ، آپ کی قدرت میں آٸیں گے تو پبلک آپ کی طرف دوڑیں گے ، اور آپ سے کہیں گے یہ ضرورت ہے اِس کو پورا کرو۔
اب یہاں پر آپ نے اپنے آپ کو دیکھنا ہے کہ یہ حق عوام کا ہیں لیکن یہ مادی ہے ، اور اندر سے میرا عقیدہ اسلام کی سربلندی ہے ، اِس اسلام کا تقاضہ ہے کہ آپ لوگوں کی اِن ضرورتوں کو پورا کریں گے۔
چنانچہ حدیث میں آتا ہے ، جناب رسول اللّٰہﷺ فرماتے ہیں ” اللّٰہ تعالیٰ کی ایک مخلوق ایسی بھی ہے کہ جسے اللّٰہ نے اپنی مخلوق کی خدمت اور ان کی حاجتیں پورا کرنے کے لیے پیدا کیا ہے ، لوگ اپنی ضرورتوں کے ساتھ اِن کی طرف لپکتے ہیں ، اور رسول اللّٰہﷺ نے بشارت دی قیامت کے روز یہ لوگ اللّٰہ کے عذاب سے محفوظ رہیں گے۔“
اب آپ مجھے بتاٸے کہ اندر سے ایمان ہو اور پھر سیاست کے میدان میں قدم رکھے تو اعلاں کلمتہ اللّٰہ اور اِس کے دین کی سربلندی ، آپ کا نصب العین ہو ، اور اِس میدان میں جب آپ اترے ملکی وسائل تک آپ کا ہاتھ پہنچے ، آپ کی قدرت میں وسائل آٸے اور پبلک آپ کے طرف اپنے ضرورتوں کے لیے آٸے اور آپ اِس پر لبیک کہے ، اُن کی ضرورت کو پورا کرے ، تو اِس بڑھ کر اور اجر کیا ہوسکتا ہے کہ آپ کی آخرت محفوظ ہو جاتی ہے۔
تو یہ سیاست خدمت بھی ہے ، یہ وسائل کی صحیح استعمال کا نام ہے ، عوام کی ضرورتوں کو پورا کرنے کا نام ہے ، ”جب اللّٰہ تعالیٰ اپنے بندے کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتا ہے تو لوگوں کی ضرورتوں کو اُس کی طرف پھیر دیتا ہیں۔“
میرے علماء کرام بھاٸیو اِس سے گبھرانا نہیں ہے یہ تو اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے باعث اجر کام ہے ، عام آدمی ، غریب آدمی کے کام آپ آٸے ، آپ اُس کے ساتھ دوڑیں ، آپ نے ظلم کو اُس سے نجات دلاٸی ، آپ نے اُس کی حاجت پوری کی ، تو ایسی صورت میں یہ سیاست شرعیہ کا تقاضہ ہے ، جمعیت علماء اسلام آپ کو اِس سیاست کی تعلیم دیتی ہے ، لوگوں کو ڈانٹو مت ، ساٸیں آپ نے مجھے اسلام کے لیے ووٹ دیا ہے کھانے کے لیے تھوڑا دیا ہے ، آپ نے تو مجھے اسلام کے لیے ووٹ دیا ہے نوکری کے لیے تھوڑی دیا ہے ، نہیں  اب اُن کا حق ہے کہ وہ آپ کے پاس آٸے اور آپ اُن کی خدمت کریں۔
اور  ان شاء اللّٰہ میرے کارکن کے پاس عام آدمی کی خدمت کی صلاحيت بہت زیادہ ہے ، وہ کام کے لیے اُس سے رشوت نہیں لیتا ، وہ کام کے لیے اُس سے چپھتا نہیں ہے ، اُس کا مذاق نہیں اڑاتا ، اُس کو حقارت کی نظر سے نہیں دیکھتا ، میں نے بڑے خوانین کو دیکھا ہے ، بڑے بڑے برجوں کو دیکھا ہے جو اپنے تقریروں میں کہا کرتے تھے یہ ہماری روٹیوں پر پلنے والے ملّا آج ہمارا مقابلہ کررہے ہیں ، بخدا وہ اُونٹ جتنے اُونچے آج چھوٹی بکری کے قدموں میں آگٸے ہیں اور وہ چھوٹی بکری والے مولوی ملّا آج اونٹ سے بھی اُونچے قد میں نظر آرہے ہیں (نعرہ تکبیر اللّٰہ اکبر)۔
میرے محترم دوستو! یہ نظریاتی اک مقابلہ ہے ہم نے یہ راستہ اختیار کیا ہے ، پبلک کے پاس جاتے ہیں ، پبلک کو ووٹ کا حق ملنا چاہیے ، اُس کو یہ حق دینے میں مشکلات پیدا نہ کی جاٸے ، اور ایک چیز اور ہے جس کی بنیاد پر وہ ووٹ لیتے ہیں ، پیسے کی بنیاد پر ، تو پیسہ میرے پاس نہیں ہے ، اچھا پیسے کی بنیاد پر جب آپ ووٹ دیں گے تو پھر یہ مت کہو کہ میں نے ووٹ دیا ہے ، سیدھا کہو میں نے ووٹ بیچا ہے ، ووٹ دینے والی بات نہ کرو وہ تو عزت والی بات ہے ، سیدھا کہو ووٹ بیچا ہے ، کیوں بیچا ہے ؟ اِس لیے کہ ہم عام آدمی کی ضرورت پورا نہیں کرتے ، ہم اُس کو غریم رکھتے ہیں ، محتاج رکھتے ہیں ، اور جب ووٹ کا وقت آتا ہے  تو اُس کی غربت کا ناجائز فاٸدہ اٹھاتے ہیں۔
اور جمعیت علماء اسلام کا یہ عقیدہ ہے کہ پاکستان ایک مملکت ہے ، ایک صحیح سالم اور مستحکم عمارت کی طرح اور ایک تمدن ہے ، بنی بناٸی عمارت میں خرابی آسکتی ہے لیکن خرابی ٹھیک کی جاتی ہے مکان نہیں گراٸے جاتے ، ایک چھوٹی سی خرابی کے لیے مکان نہیں گراٸے جاتے ، دیوار پھٹ گٸی ، بجلی کمزور ہوگٸی ، تاریں ٹوٹ گٸی ، پانی کا نظام خراب ہوگیا ، اِس کے لیے گھر گراٸے جاتے ہیں یا مرمت کی جاتی ہیں ، تو پاکستان ایک مستحکم ملک ہے ایک اسٹبلش سٹیٹ ہیں ، خرابیاں بہت ہوں گی لیکن ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم اِن خرابیوں کی طرف توجہ دیں گے ، ہم ملک کو گرانا نہیں چاہتے ، لیکن یاد رکھیں پھر ہم اتنے سادہ مولوی بھی نہیں ہیں کہ جو ملک کو گرانے کے لیے آتے ہیں اُن کو بھی نہ پہچان سکے ، جو ملک کو گرانے کے ایجنڈے پہ آتے ہیں اُن کو ہم پہچانتے ہیں ، اور یہ بھی پہچانتے ہیں کہ کس کے لیے ملک کو گرا رہے ہیں ، کس ایجنڈے کے تحت گرا رہے ہیں ، پھر یہ پاکستان کسی کے باپ کی جاگیر نہیں ہے ، یہ جتنا کسی اور کا ہے اتنا ہی میرا بھی ہے اور میں آپنے وطن عزیز کی حفاظت اور اِس کے بقا و تحفظ کے لیے ہر قوت سے ٹکر لینے کی کوشش کروں گا (نعرہ تکبیر اللّٰہ اکبر)۔
میں آپ کو سلام پیش کرتا ہوں عمران خان کی وہ حکومت کہ جو ایک بیرونی ایجنڈے کے تحت آٸی تھی اُس کو اُٹھا کر باہر پھینکنے میں جو کردار آپ نے ادا کیا ہے اُسے تاریخ بھلا نہیں سکے گی ، ابھی کاغذ لہرا رہا ہے میرے خلاف سازش ہوٸی ہے ، ابھی کہتے ہیں کمیشن بناو ، کمیشن بناٸیں گے لیکن اس بات پر نہیں کہ تمہیں باہر کی کون سی قوت نے اقتدار سے نکالا ، اس بات پر کمیشن بناٸیں گے کہ کس بین الاقوامی سازش کے تحت تمہیں پاکستان پر مسلط کیا گیا ، تم تو باہر سے لاٸے گٸے ، تمہاری تو تربیت باہر سے ہوٸی ، تمہاری تو نظریاتی تربيت بھی یہو د یو ں نے کی ، تمہیں تو پیسہ بھی یہو د یو ں نے دیا ، اور سب یہو د یو ں نے نہیں ، ہند و س تان کے لوگوں نے بھی تمہیں پیسہ دیا ہے ، امریکہ سے بھی جو پیسہ تمہیں ملا ہے وہ پیسہ بھی تمہیں یہو د یو ں نے دیا ہے ، اور اب فارن فنڈنگ کیس کے لیے روز عدالت میں جاتے کہ نہ سنا جاٸے نہ سنا جاٸے ، کیوں نہ سنا جاٸے بھٸی ، اب تک ایک ایک کو جیل میں ڈالتے رہے ، تم نواز شریف سے زیادہ مقدس ہو ، تم شہباز شریف سے زیادہ مقدس ہو ، کہ وہ تو احتساب کے نام پہ جیلوں میں رہے اور جب تیری باری آگٸی تو روزانہ کورٹ میں جاتے ہیں جی مجھے نہ سنایا جاٸے ، میرا فلاں کیس نہ سنایا جاٸے ، کرپشن اور پاکستان کی تاریخ میں جن حکمرانوں نے ستر سال تک جو قرضے لیے تھے اس کی حد وہ نہیں ہے جو تم نے چار سال میں لیے اور پاکستان کو قرضوں کے بوجھ تلے ڈبو دیا۔
میرے محترم دوستو! خیبر پختونخواہ پہ اِس نے نو سال سے حکومت کی ہے جب آٸے تو سو سے کم ارب روپیہ قرضہ تھا اور اِس وقت آٹھ سو ارب سے زیادہ کا قرضہ ہے ، اور پھر سٹیٹ بینک کو آپ نے آٸی ایم ایف کے نماٸندے کے حوالے کیا ، جو مصر میں بھی اُن کے سٹیٹ بینک کو تباہ کرچکا تھا ، اور کہتے تھے میں تو میرٹ پر لوگوں کو لاوں گا ، جو باقاعدہ ایک ملک کی معشیت کا بیڑہ غرق کرچکا ہے  تم نے اس کو لاکر ہمارے ملک کے مرکزی بینک پر بٹھا دیا ، نتیجہ کیا نکلا کہ ہم نے وہ بینک آٸی ایم ایف کے حوالے کر دیا ، تم نے معاہدے کیے اور معاہدے جن شراٸط پر کیے ، جو آج آپ کی معشیت کا ترجمان ہے ، تمہارا وزیر خزانہ وہ جب آیا تو اُس نے کہا کہ معاہدے غلط ہوٸے ہیں جو آج تمہارا دفاع بھی کررہے ہیں ، تو نے پانچ وزیر خزانہ تبدیل کیے ، نااہل کے بچوں ایسا بھی کوٸی کرتا ہے ، ہر سال نٸے وزیر خزانہ ، ملک کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا ، اور یہ جو اس وقت آپ مہنگائی دیکھ رہے ہیں چاہے وہ پٹرولیم مصنوعات کی ہے چاہے وہ اشیاٸے خوردنی کی ہے ، آپ بتاٸیں چار سال ہم نے اِن کے خلاف اِس مہنگائی پر احتجاج نہیں کیا ، لیکن معاہدے کریں گے ، اب یہ معاہدے درحقیقت نے والے حکومت کے لیے مشکلات ہیں۔
اب بات سمجھنے کی کوشش کرے یا تو ہم اِس کو چھوڑ دیتے کہ جو گند ہے اِس کے سر پر ہی رہے ، آج آپ کا ملک ٹوٹ چکا ہوتا یا ٹوٹ جاتا ، اور ابھی خود کہا ہے کہ فوج آپس میں لڑے گی ، پھر کہتے ہیں ملک تین حصوں میں تقسیم ہوگا ، یہ کہاں سے وحی آتی ہے اِس کے اوپر ، یہ اختیارات کہاں سے پیش کررہے ہیں ، تو ہم نے ہی فیصلہ کیا کہ جتنا جلدی ہو جب تک ملک ہے اِس سے واپس لیا جاٸے ، اور واپس لیا لیکن مہنگاٸی کا ایک بڑا بوجھ اِس نے ہمارے سروں پہ لاد دیا ، اب ظاہر ہے غریب آدمی نے یہی دیکھنا ہے کہ آج حکومت کس کی ہے ، عمران کی حکومت میں بھی ایسا تھا شہباز کی حکومت میں بھی ایسا ہے وہ کہیں گے ، اُس بیچارے کا تو کوٸی قصور نہیں ہے ، لیکن چار سالوں کا گند ، چار سالوں کی غلاظت اور چار سالوں کو ملکی معشیت کو دلدل میں پھنسانے کے بعد ، اِس کو وہاں سے نکالنا کچھ وقت تو لگے گا ناں ، ایسا تو نہیں ہے وعدے تم نے کیے ہیں ، آج آٸی ایم ایف مجھے قرضہ دینے کو تیار نہیں ہے، اور پھر معاہدوں میں ہمارے دوست ممالک کو تم نے ضامن بنایا وہ ضمانت کی وجہ سے میری مدد نہیں کرسکتے ، تو تم نے تو نہ مجھے عالمی اداروں کا چھوڑا اور نہ اپنے دوستوں کا چھوڑا ، تو کیا کیا جاٸے ، تو ایک چند عرصے ہم تھوڑے مشکل میں جاکر کنٹرول کریں گے ، مشکل میں جاکر کنٹرول کرسکتے ہیں  ان شاء اللّٰہ العزیز
سی پیک کا معاہدہ جو چین کے ساتھ ہوا وہ تم نے روکا اور پھر تم نے اُس معاہدے کے کچھ خفيہ راز جو آپ کی امانت تھی ، ہمارے اور چین کے بیچ میں تھی تم نے خفيہ راز آٸی ایم ایف کو دیے یا نہیں ؟ جس سے ہماری ملک کی معشیت کو زبردست دھچکا لگا ، آج وہ سارے دوبارہ پاکستان کے ساتھ تعاون کو تیار نہیں ، لیکن مشکل سے نکلنے کے لیے وقت تو چاہیے۔
تو یہ ، کبھی آہ لب پہ مچل گٸی ، کبھی اشک آنکھ سے ڈھل گٸے
یہ تمہارے غم کے چراغ ہیں ، کبھی بجھ گٸے کبھی جل گٸے، یہ تمہارے غم کے چراغ ہیں کچھ وقت کے لیے یہ جلتے بجھتے رہیں گے۔
لیکن  ان شاء اللہ العزیز ہم نے جو اِس کی حکمت عملی بناٸی ایک مختصر وقت کی ایک طویل المدت ، اُس میں 
ان شاء اللہ ہم چند مہینوں کے اندر صورتحال کنٹرول کرلیں گے ، اور جو کنٹرول کیا ہے وہ یہ کہ ملک کو بچالیا ہے ، ورنہ یہ ملک بھی نہ ہوتا۔
تو  ان شاء اللّٰہ العزیز چیلنج قبول کرنا ، زمہ داری مت لو ہے اچھی بات ، ملک بھی تباہ ہورہا ہے ، ہم نے اِس صورتحال کو چیلنج سمجھ کر قبول کیا ہے ، ہمیں اِن دقتوں کا پتہ تھا ، اور معاہدہ بھی کیا اور جاتے جاتے پھر بارودی سرنگیں بھی ہمارے لیے بچھا دی ، دس دس روپے قیمتیں کم کردی کہ تم کل جارہے ہو ، بین الاقوامی معاہدے کے خلاف تم نے کیے ہیں ، معاہدے بھی تم کرتے ہو مہنگائی کے لیے ، اور پھر جاتے جاتے دس روپے کم بھی کردیتے ہو تاکہ اگلی حکومت کو لوگ گالیاں دے تجھے کچھ نہ کہے ، تو ہم تمہیں جانتے ہیں۔
تو ایسی صورتحال میں  ان شاء اللّٰہ حالات کا مقابلہ کریں گے ، حکومت میں نہیں تھے تو تم مشکل تھے ، اور چار سال تمہارے ساتھ لڑاٸی لڑی ، تمہیں اتار دیا اب تمہارا گند مشکل ہے ، اِس گند کو بھی اللّٰہ کی مدد سے  ان شاء اللّٰہ باہر پھینکے گے ، اور قوم مطمٸن رہے  ان شاء اللّٰہ۔
میرے محترم دوستو! انہی حالات میں صوبہ خیبر پختونخواہ میں بھی الیکشن ہوٸے ، بلوچستان میں بھی ہوٸے اور جمعیت علماٸے اسلام کے اِن کارکنوں نے بڑے بڑے برج الٹ دیے اور اِن حکمرانوں کو شکست دی ہے ،
ان شاء اللّٰہ صوبہ سندھ میں بھی آپ ایک انتہائی اعلی کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے اور اِن فقیروں پر اعتماد کریں گے ، اللّٰہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو۔
واخر دعوان ان الحمد للہ رب العالمین

ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر ٹیم جے یو آٸی سوات
#teamjuiswat

0/Post a Comment/Comments