راولپنڈی: قاٸد جمعیتہ حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب کا حکیم ملت سیمنار سے خطاب تحریری صورت میں
25 جون 2022
خطبہ مسنونہ کے بعد
برادر مکرم مولانا حضرت عبدالمجید صاحب ہزاروی، سٹیج پر موجود میرے اکابرین، اِس اجتماع میں شریک علماٸے کرام، مشاٸخ عظام، بزرگان ملت، میرے بھاٸیو اور دوستو! ہم سب کے لیے بڑی سعادت کی بات ہے کہ ہم اپنی تاریخ کے ایک بڑی علمی شخصیت کو یاد کرنے کے لیے جمع ہیں، اور حضرت مولانا شاکر صاحب نے مولانا عبدالحکیم ہزاروی رحمہ اللّٰہ کتاب کی صورت میں اِنہوں نے اُن کی زندگی کا احاطہ کرتے ہوٸے اُس کو شاٸع کیا اور یہ تقریب آج اُسی رونماٸی کے نسبت سے منعقد کی گٸی ہے، میں حضرت مولانا کا شکر گزار ہوں کہ اُنہوں نے محنت کی اور ہمارے اکابر کو آپ نے زندہ جاوید بنانے کی کوشش کی، تاکہ آنے والی نسلیں اپنی اکابر کو پڑھ سکے، اُن کو سمجھ سکے، اُن کی زندگی کے نصب العین کو جان سکے، اور پھر اُن کے نقش قدم پر چلنے کا استعداد پیدا کرسکے۔
میرے محترم دوستو! میرے لیے یہ تقریب محظ ایک تقریب نہیں ہے، تقریبات ہوتی رہتی ہیں ہم اُن میں شریک ہوتے رہتے ہیں، لیکن جس شخصيت کی یاد میں یہ تقریب منعقد کی گٸی ہے اُن سے میرا ذاتی رشتہ ہے، غالباً ہم پانچویں جماعت میں تھے، گرمیوں کی چھٹیاں تھیں، حضرت والد صاحب رحمہ اللہ قومی اسمبلی کے ممبر تھے، تو آپ ہمیں پنڈی لاٸے تھے، میری دونوں والدہ صاحبہ ہم یہاں پر اُن دنوں یہاں رہیں، تو والد صاحب نے میرا داخلہ جامعہ فرقانیہ میں کرایا، اور وہ چند مہینے میں نے اُس مدرسے سے اکتساب فیض کیا ہے۔
اِس قسم کے تقریبات اور اِس میں اپنے اکابر کے تذکرے ہمیں اپنی تاریخ کی طرف متوجہ کرتے ہیں، ہمیں اپنے اکابر کے نصب العین اور اُن کے مشن کی طرف متوجہ کرتے ہیں، جب ہم اپنے نٸے مستقبل اور آنے والے حالات میں اپنے لیے کوٸی راستہ ڈھونڈتے ہیں، تو ہماری ماضی ہمارے اسلاف اور اُن کی قربانیاں ہماری رہنماٸی کررہی ہوتی ہے۔
ہمارے اکابر و اسلاف کی تاریخ یہ ہے کہ ہر زمانے کی جماعت کو اُس وقت کی آزمائشوں کا سامنا تھا اور اُن آزمائشوں کا مقابلہ اُنہوں نے اِس بے باکی کے ساتھ، جس حکمت کے ساتھ اور جس دوراندیشی کے ساتھ کیا، ہم جو یہاں بیٹھے ہوٸے ہیں یہ وہی متاع ہیں جو آپ کے اور ہمارے حصے میں آٸی ہے اور ہم بھی اپنے دور کے کچھ آزماٸشوں سے گزر رہے ہیں۔
میں ایک زمانے سے اپنے دوستوں کے سامنے جب حالات پر گفتگو آتی ہیں تو عرض کرتا رہتا ہوں کہ کبھی ہماری جدوجہد اپنے نظریے اور عقیدے کے غلبے کے لیے ہوا کرتی ہے، لیکن آج اِس وقت ہم جس حالات سے گزر رہے ہیں یہ شاٸد اب غلبے کی نہیں بلکہ اپنے عقیدے، اپنے ایمان، اپنے نظریے، اپنے نصب العین اور اپنے اسلام کی بقا کے لیے کررہے ہیں، اور آج کی اِس دور میں جس حکمت کی ضرورت ہے شاٸد ہم ابھی تک اِس حکمت کا حق ادا نہ کرسکے، حالانکہ دین حکمت کا نام ہے۔
ہمارے اساتذہ ہمیں دو تین الفاظ کے معانی سکھاتے ہیں، کسی چیز کے نفس ادراک کو علم کہتے ہیں، لیکن کسی چیز کے ادراک کے پیچھے جو علت کارفرما ہوتی ہے جب ہم اس علت کو سمجھتے ہیں تو اِس کو فقہ کہتے ہیں، اور جب ہمیں کسی چیز کا نفس ادراک بھی ہو جاٸے اور اِس کے پیچھے جو علت ہے اُس کا ادراک بھی ہو جاٸے تو پھر اُس علم کو پبلک کے سامنے رکھنا، اُس کا بیان کرنا، جب آپ اُس کے موقع محل کو پہچان لیتے ہیں تو اِس کو پھر حکمت کہتے ہیں، سو جب انسان کے اندر علم بھی ہو، انسان کے اندر فقہ بھی ہو اور انسان کے اندر حکمت بھی ہو، تو پھر جس میں یہ تین چیزیں جمع ہو جاتی ہیں اُس کو پھر عالم ربانی کہتے ہیں۔
تو علماٸے کرام کی بہت بڑی موجودگی یہاں ہیں اِس حوالے سے آج ہمیں بہت بڑے مسائل درپیش ہیں، امریکہ اور مغربی دنیا اپنی تمام تر توانائیاں، اپنی پوری سیاست، بین الاقوامی سیاسیات حتی کے بین الاقوامی معیشت اِس نظریے پر استوار کررہے ہیں کہ دنیا سے مذہب اسلام کا خاتمہ کیا جاٸے ، اور دین اسلام کی بقا، اُس کی تعلیم، اُس کی تبلیغ، اُس کی ترویج کے لیے جتنے ادارے دنیا میں موجود ہیں اُن اداروں کا خاتمہ کیا جاٸے، اُن جماعتوں کا خاتمہ کردیا جاٸے، اگر ہم واقعی اُن کے اِس ایجنڈے کو اور اِس ایجنڈے کے پیچھے اُن کی حکمت عملی کو اور اُن کے اہداف کو صحیح معنوں میں سمجھ لے، تو پھر ایک بات میں آپ حضرات کے سامنے کہنا چاہوں گا کہ پھر بندوق اُٹھاکر لڑنے والا اُس کا دشمن نہیں بلکہ حکمت و سیاست کے ساتھ اُس کے دجل کا مقابلہ کرنا اور اُس کے ایجنڈے کو ناکام بنانے والا مولوی اور سیاست دان اُس کا دشمن ہیں، سو ہم بھی اُن کو جانتے ہیں وہ بھی ہم کو جانتے ہیں، معاملے بلکل واضح ہیں۔
ہم آپس میں بیٹھے ہیں، ہماری سیاست میں مفادات کی سیاست بھی ہوتی رہتی ہے، ہمارے سیاستدان مفاد پرست بھی ہوتے ہیں، اقتدار پرست بھی ہوتے ہیں، ایسے عیب ہیں جو چھپانے سے چھپاٸے نہیں جاتے، لیکن کسی بین الاقوامی ایجنڈے کے تحت اُن کا مشن لے کر اگر اقتدار تک کسی نے رساٸی حاصل کی ہے یا اقتدار تک اُس کو رساٸی دینے کے لیے بین الاقوامی لابی اور اندر کی قوتیں استعمال ہوٸی ہیں تو یہ یہی حکومت تھی جس نے پاکستان کے خاتمے کو اپنا ایجنڈہ بنایا، سو آج نشانے پر کیا ہے، نشانے پر آپ کا آٸین ہے جو آپ کے اِس وطن عزیز کو اسلامی شناخت دیتا ہے، اُس کے نشانے پر آپ کی وہ تہذیب ہیں جس کو آپ اسلامی تہذیب اور مشرقی تہذیب کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں، سو اِس چادر کو وہ آپ سے نوچنا چاہتے ہیں، اور پھر آٸین کے بارے میں اور اُس کی جو اہمیت ہے اُس کے بارے میں آپ خود جانتے ہیں کہ آٸین میثاق ملّی ہیں، عام آدمی ہو، ادارے ہو، سیاسی جماعتیں ہو، اُس کے قیادت ہو، اداروں کے سربراہ ہو، حکمران ہو، پارلیمنٹ ہو، عدلیہ ہو، منتظمہ ہو سب کے سب ہم اس عہد و پیمان پر ایک قوم ہیں اور اگر آٸین بیچ میں نہیں ہے تو پھر اِس قوم کو مجتمع کرنے کے لیے آپ کے پاس کوٸی دستاویز موجود نہیں، پھر سب چیزیں زبانی کراٸے میں ہو جاٸے گی، یہ وہ بنیادی چیز ہیں جو قوم کو ایک پلیٹ فارم پر رکھ سکتی ہیں۔
ہم نے اِس چیز کا ادراک کیا اور اِس ادراک کے بعد ہم نے ایک مٶقف لیا، مجھے یاد ہے 2017 میں غالباً جولاٸی کے مہینے میں میں نے پشاور کی ایک تقریب میں یہ بات کی تھی کہ ذرا دنیا کے ایجنڈے کو سمجھو، ناٸن الیون کے بعد امریکہ اپنا نظریہ دیکھ چکا ہے کہ اکسیویں صدی میری ہے اور اِس میں اب نٸی جغرافيائی تقسیم میرے مفادات کے مطابق ہوگی، اور امریکہ کی خارجہ پالیسی کی بنیادیں دو چیزیں ہیں ایک انسانی حقوق اور اِس کے لیے اُن کا نظریہ یہ ہے کہ اُس کے لیے کوٸی سرحدات نہیں ہے اور دنیا میں کہی پر بھی انسانی حق کا مسٸلہ پیدا ہوگا تو ہم وہاں پر فوجی اتارنے کا بھی حق رکھتے ہیں، انسانی حقوق کے بارے میں اُس کی تعریف، تشریح اُس کی اپنی مرضی ہے، اور دوسرا ہے امریکی مفادات، سو امریکی مفادات کے لیے جتنی چھوٹی چھوٹی ریاستیں ہوں گی اُس ریاست کے وسائل تک رساٸی اور اُس پر قبضہ کرنا امریکی مفاد میں اُس کے لیے اسان ہوگا، میں نے کہا اگر اِس نظریے سے ہم واقف ہیں تو اِس کی ترتیب کیا ہوگی، اِس کی ترتیب یہ ہوگی کہ ریاست میں پہلے عدم استحکام پیدا کرو اور جب سیاسی عدم استحکام پیدا ہو جاٸے تو پھر معاشی عدم استحکام پیدا کرو، اور جب سیاسی لحاظ سے افراتفری ہو، معاشی لحاظ سے ملک دیوالیہ ہو جاٸے تو پھر اُس ملک کے اندر بغاوتیں کھڑی ہوتی ہیں اور اُس ملک کے تقسیم کے اسباب پیدا ہو جاتے ہیں، تو میں نے کہا یہ جو پانامہ کا مسٸلہ ایا ہے یہ سیاسی عدم استحکام کے لیے ایا ہے اور جب یہ عدم استحکام ملک میں اجاٸے گا اِس کے بعد اگلا ایجنڈہ معاشی عدم استحکام کا ہوگا جو آپ حضرات نے عمرانی حکومت کی صورت میں دیکھ لیا ہے۔
تو یہ لوگ اِس ترتیب سے چل رہے ہیں، اور اُنہوں نے خطے میں پاکستان کو نشانہ بنایا، پہلے ا ف غ ا ن س تا ن میں ناکام ہوگٸے، وہاں تمدنی ماحول پر قبائلیت غالب ہیں، تو وہاں کی سٹریٹیجک پالیسی مختلف ہوگی، لیکن پاکستان میں قباٸلیت کے اُوپر تمدن غالب ہیں ، یہاں آٸین ہیں یہاں ادارے ہیں، یہاں ایک طرح کی ریاستی سٹیبلٹی موجود ہیں، سو ہم نے کہا کہ ایک گرا تو گھر ہی نہیں ہے ، تو پھر گھر کو تعمیر کرنا پڑتا ہے، اُس کے لیے جو اسباب ہو وہ اکھٹی کرنی پڑتی ہیں، لیکن اگر گھر موجود ہے، مکان بنا بنایا موجود ہے اور اُس میں خامی پیدا ہو جاٸے، تو خامی کے لیے گھر نہیں گراٸے جاتے خامی دور کرنی پڑتی ہے، سو پاکستان کے لیے ہماری حکمت عملی یہ ہوگی کہ ہم اگر اپنے وطن میں کوٸی خامی یا کمزوری دیکھتے ہیں اِس کی اصلاح کے لیے توانائیاں ہم صرف کریں ایسے پالیسیاں نہیں بناٸیں گے جس سے ہمارے ملک کی بنی بناٸی عمارت ہی گر جاٸے۔
اِس سمت پہ ہمیں سفر کرنا ہے، اب یہ دونوں صورتیں آگٸی، سو جو ہمارے ہاں سیاست میں مفاد پرستی ہوتی ہے وہ لوکل چیز ہے، لیکن گزشتہ تین چار میں یا جو اِس وقت پانچ سالہ چل رہا ہے یہ بین الاقوامی ایجنڈے کے تحت چل رہا ہے، جس میں ہماری اداروں کی بھی گردن مروڑی گٸی، سیاستدانوں کے بھی ہاتھ مروڑے گٸے، اور کہا اِن کے ساتھ اِس طرح چلنا ہے، ہماری صحافت، ہماری سیاست، ہماری معیشت سب کچھ ایک لاٸن پہ ڈال دی گٸی، اب آپ کو سمجھ میں اگیا ہوگا، کہ تمام سیاسی قوتوں کا ایک جگہ اکھٹا ہونا کیوں ضروری تھا، اور پچیس جولاٸی 2018 کے اگلے دن 26 جولاٸی کو میں اسلام اباد پہنچا اور 27 جولاٸی کو میں نے تمام سیاستدانوں کو ایک مجلس میں بٹھا دیا، میں شکر گزار ہوں کہ پاکستان کی تمام سیاسی قیادت یکجاں ہوگٸی، اور یہ سیاسی فیصلہ کیا کہ یہ حکومت ناجائز ہے، الیکشن قبول نہیں ہے، بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوٸی ہے ، حالانکہ اِس قوت کے بارے میں جو میرا نظریہ تھا ممکن ہے اُس وقت میں کسی کو قاٸل نہ کرسکتا، لیکن جس نکتے پر ہم اُس کو قاٸل کرسکتے تھے اور اُن کو آمادہ کرسکتے تھے، وہ دھاندلی کا ایسا کھلا دن دیہاڑے ڈاکہ تھا کہ جس کا انکار کوٸی نہیں کررہا تھا یہاں تک کہ ہمارے ساتھ اِس قرارداد میں اور اِس اتفاق راٸے میں بیٹھی ہوٸی کچھ جماعتيں جو بعد میں حکومت میں شامل ہوگٸی لیکن اِس تدریج میں ہمارے ساتھ تھی، ایک اتفاق راٸے پیدا کیا چاہے مذہبی جماعتیں ہو، چاہے قوم پرست جماعتیں ہو، چاہے علاقائی جماعتيں ہو، چاہے قومی سطح کے جماعتیں ہو سب کے سب ہم ایک پلیٹ فارم پر اکھٹے ہوگٸے تاکہ ملک کو بغاوتوں سے بچایا جاسکے، جہاں تک ہوسکے بکھرنے کے تمام اسباب کے راستے روکے جاٸے ، اور ہم نے تحریک چلاٸی۔
میرے ساتھیو تحریک کی حکمت عملی پر ہماری راٸے شاٸد قبول نہ بھی ہوٸی ہو لیکن ہم نے اِس بات کو اہمیت دی کہ اتفاق راٸے ہر صورت قاٸم رہے ، اِس سیاسی اتحاد میں تھوڑی بہت توڑ پھوڑ بھی آتی رہی لیکن ہم نے اُنہیں دور جانے نہیں دیا کہ ہدف ایک رکھو، اگر آپ کا ہدف تقسیم ہوگیا تو پھر اس ملک کے مستقبل کا کوٸی پتہ نہیں۔
اب آپ مجھے بتاٸیں کہ اگر نتیجہ آٸین ہو، اگر ہدف مذہب ہو، تو کیا آٸین کے اسلامی حیثیت اُن کا ہدف ہوگا یا نہیں، آٸین کے اسلامی دفعات جو آپ کے ملک کو مذہب کے حوالے سے ایک دستوری حیثیت دیتے ہیں کیا اُس کا خاتمہ ہوتا یا نہ ہوتا، اگر ہمارے آٸین میں اسلامی دفعات ہیں، ناموس رسالت کا تحفظ ہے، عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ ہے کیا ہم اب بھی اُسی انتظار میں ہو کہ ہاں کنفرم کرلے کہ ہیں یا نہیں، اِس سے بڑھ کر سادگی اور نہیں ہوگی، اِس خول سے ہمیں اب نکلنا ہوگا، اور معاشی انحطاط یہ منصوبے کے تحت تھا، اور سب چیزیں اب سامنے ارہی ہے۔
دو سو سال یا ڈھاٸی سال پہلے کا جو زمانہ ہے، بین الاقوامی معیشت ایشیا کے ہاتھوں میں تھی اِس دوران نو مالیاتی نظام ایا، کہی پر فرانس نے کہی پر اٹلی نے جگہ جگہ علاقوں پر قبضے کرلیے اور جس کو ہم سامراج کہتے ہیں سامراج، پھر میرے خیال میں ڈکشنری میں یہ لفظ نہیں ہوگا، لیکن ہم خود اِس کی ایک تعریف کرتے ہیں ”کہ کسی ریاست کے معیشت پر قبضہ کرکے اُس کو سیڑھی بناکر اُس کے اقتدار پر قبضہ کرنا اُسے سامراجیت کہتے ہیں“ یہ ہمارے ساتھ ہوا ہے، انگریز نے یہی راستہ اختیار کیا ایسٹ ا ن ڈ یا کمپنی آٸی تجارتی کمپنی تھی، لیکن بعد میں حکمران بن گٸے اور جونہی انہوں نے اپنے حکمرانی کا اعلان کیا ہمارے اکابرین نے اُس کے خلاف ج ہ ا د کا اعلان کردیا۔
اب ایک نٸی دنیا وجود میں آگٸی ہے ، ناٸن الیون کے بعد وہ جو یک محوریت تھی کہ روس ختم ہوگیا اب دنیا یک محور ہوگٸی اور دنیا کی معیشت ایک ہی قوت کے ہاتھ میں ہوگی، سیاست ایک ہی قوت کے ہاتھ میں ہوگی، وہی ہمار ے جغرافيائی تقسيم کا فیصلہ کرے گا، ہمارے نٸے مستقبل کا فیصلہ کرے گا، تھوڑے ہی عرصے میں بہت محنتیں ہوٸی اور دوبارہ اِس کو کثیر المحوریت کی طرف لے جانا پڑا، چنانچہ روس کے خاتمے پر جو سرد جنگ ختم ہوگٸی تھی آج چین کی قیادت میں ایشیا نے دوبارہ اپنی سرد جنگ کا اغاز کردیا ہے۔
پاکستان کے راستے سے دنیا کے ساتھ تجارت کا پہلا راستہ پاکستان تھا اور سویت یونین کے شکست کے بعد اِس فارمولے پہ کام ہونا لگ گیا تھا، پاکستان پر اعتماد تھا کہ یہ چین کا اتنا قریبی دوست ہے کہ دنیا کے ساتھ میری تجارت کی شاہراہ بننے کے بعد کم از کم پاکستان مجھے نقصان نہیں پہنچاٸے گا، جاپان کے سمندروں میں ان کو خطرہ تھا ، لیکن پاکستان کو وہ محفوظ راستہ سمجھتا تھا اُس پر ہم سب کی کمٹمنٹ تھی لیکن ایسی قیادت کو پاکستان پر مسلط کیا گیا کہ جس کا ہدف چین کی تجارتی راستے کو روکنا تھا، سی پیک ایک سڑک کا نام نہیں ہے، ایک شاہراہ کا نام نہیں ہے ایک پیکج کا نام ہے، جس میں آپ کی معیشت، آپ کی توانائی، آپ کی انرجی پاور کو بڑھانا اور بین الاقوامی تجارت سے پاکستان کو وابستہ کرنا، اِس عظیم منصوبے کو ناکام بنانا یہ پاکستان کو معاشی لحاظ سے کمزور کرنا تھا۔
کتنے بڑے بڑے منصوبے جو اب تک پتہ نہیں کہاں تک پہنچ چکے ہوتے، اور ایک چیز میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ وہ گوادر جس کی بندرگاہ کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ پوری ایشیا کا گہرا ترین سمندر ہے اور دنیا کا بڑا سے بڑا جہاز یہاں اکر رک سکتا ہے، کراچی سے بھی گہرا، چا بہار سے بھی گہرا، بندر اباد سے بھی گہرا، دبٸی سے بھی گہرا، جدہ سے بھی گہرا، اتنا گہرا ترین سمندر جو پورے ایشیا میں تصور کیا جاتا تھا، آج آ پ جاٸیں اور اُس سمندر پر کھڑے ہو جاٸیں اُس کی سطح مٹی اتے اتے اب گیارہ فٹ رہ گٸی ہے، انہوں نے ہمارے اِس پورے منصوبے کو تباہ و برباد کردیا، اب اگر یہ سب اکھٹے نہ ہوتے، یہ قومی وحدت وجود میں نہ آتی، ہم اِس ایجنڈے کے خلاف جہاد نہ کرتے اور مذید میں سالوں کی بات نہیں کہتا چند مہینے بھی مذید یہ حکومت برقرار رہتی تو شاٸد آپ آج ملک کو دعاٸے خیر کہہ رہے ہوتے۔
لہذا ہم نے جو تحریک چلاٸی پاکستان کی بقا کی چلائی، پاکستان کے آٸینی شناخت کی چلائی ہے، لیکن بہت سی چیزیں ہم گنوا بھی چکے ہیں ہماری تہذیب بری طرح متاثر ہوٸی ہے، ایک طرف آپ کے این جی اوز ہیں، آپ کا مدرسہ این جی او ہے جو بچوں کی تعليم اور ان کی کفالت کرتا ہے، آپ کے خیراتی ادارے ہیں ایک طالب علم کو کتاب بھی مہیا کرتا ہے، کمرہ بھی مہیا کرتا ہے، چارپاٸی بھی مہیا کرتا ہے، بستر بھی مہیا کرتا ہے، بجلی اور گیس بھی مہیا کرتا ہے، صبح و شام ناشتہ اور کھانا بھی مہیا کرتا ہے، اور یہاں تک امتحان میں دی گٸی پرچہ کی کاغذ پر ایک روپیہ بھی طالب علم سے وصول نہیں کیا جاتا اور ہر مہینے طلبہ کو مدرسہ میں وظیفے بھی دیے جاتے ہیں تاکہ وہ اپنی ضرورتیں پوری کرسکیں، دنیا میں اِس طرح کے رفاہی ادارے کا کوٸی تصور موجود نہیں ہے، اگر ایک این جی او آپ کے گاٶں میں آپ کے علاقے میں کوٸی رفاہی کام کرے تو اسّی فیصد اگر وہ خرچ کرتے ہیں تو بیس فیصد آپ نے خرچ کرنے ہوتے ہیں، ایک میرا مدرسہ ہے کہ جس میں پڑھنے والے کو ایک روپیہ بھی دینا نہیں پڑتا، اُس ادارے کی طرف ایکٹیو ہوگٸے اور ایسی این جی اوز جو صرف اس بات کے لیے تشکیل دی گٸی ہیں کہ وہ ہماری تہذیب کے خلاف آواز اٹھاٸے، ہماری نٸی نسل کو تباہ کرے اور میرے سامنے اُس کا اعتراف ہوا ہے میرے سامنے، کہ ہم نے خیبر پختونخواہ کی حکومت اِس لیے اُن کی حوالے کی ہے کہ پشتون بیلٹ میں مذہب کی جڑیں گہری ہیں اور مذہب کی اِن گہری جڑوں کو اکھاڑنے کے لیے اِس سے زیادہ موزوں شخص ہمارے پاس نہیں تھا، میرے سامنے یہ اعتراف کیا ہے، خدا کے لیے ان چیزوں سے آگاہی حاصل کرے۔
آج ہم نے کچھ جزوی کامیابی حاصل کی ہے، جس دلدل میں قوم اترگٸی تھی اور خاص طور پر معاشی حوالے سے، اب اِس دلدل سے نکالنا، میرے خیال میں نکالنے میں زیادہ وقت لگتا ہے، لیکن عام آدمی تو بھوکا ہے، بھوک والے تو یہ بات سننے کو تیار نہیں، تو عام آدمی کا رونا دھونا اور شکایت کہ جی پہلے بھی یہ حالت تھی اب بھی وہی صورتحال ہے، تو یہ شکایاتیں اپنی جگہ پر ہیں، لیکن ہمیں ان حالات سے نکلنا ہے، اس دلدل سے ہمیں نکلنا ہے، اور حضرت ابھی بہت سی چیزیں داٶ پر لگی ہوٸی ہیں، ابھی بھی آپ کا آٸین داٶ پر لگا ہے ، ابھی بھی آٸی ایم کا دباو اور پریشر اسی طرح چل رہا ہے اور فارن فنڈنگ کیس کیوں لمبا ہوتا جارہا ہے کہ جس کے نتیجے میں وہ اور اس کی پارٹی نااہل ثابت ہوسکتی ہے، کوٸی بین الاقوامی پریشر تو ہے ناں، کہ جس کے تحت اس کیس کو لمبا کیا جارہا ہے ہم لوگ فیصلہ نہیں دے پارہے، اور آپ کا ایٹمی پروگرام داٶ پر ہے، اب اس چیز کو بھی ہمارے سیاستدانوں نے سوچنا ہے، ہمارے قوم کے ہر فرد نے سوچنا ہے، ہمارے تمام اداروں نے سوچنا ہے، یقیناً ہمیں اسٹبلشمنٹ سے شکایت تھی لیکن جب اس نے اپنی غلطیوں کے ازالے کا فیصلہ کیا ، تو آج کل ہماری شکایتیں تھیں، کوٸی مہینہ پہلے پشاور کے بڑے جلسہ عام میں میں نے یہ بات کہی کہ مجھے سمجھ میں نہیں ارہا کہ پاکستان کا اشرافیہ ایلیٹ کلاس اس کا ریٹائرڈ جرنل، ریٹائرڈ جج، ریٹائرڈ بیوروکریٹ وہ کیوں ناراض ہیں اس کے گھروں میں ہماری آنٹیاں وہ کیوں اس کے جانے پہ انسو پونچھ رہی ہیں، اس کا معنی یہ ہے کہ ہمارے ملک کے اندر کی قوتیں بین الاقوامی نیٹ ورک سے وابستہ تھیں، یہ تو میں نے بات کہی تھی، پھر آپ نے دیکھا کہ اسلام اباد پریس کلب کے سامنے وہ لوگ اٸے یا نہیں اٸے، یہ وہی لوگ تھے جن کا اپنی قیادت پہ دباو اگیا اور وہ ابھی تک برقرار ہے ایسا نہیں کہ ختم ہو چکا ہے۔
تو اِس ساری چیزوں کو ہمیں دیکھنا ہے اور پھر ہمارا فرض بن جاتا ہے کہ اگر ہماری ملک کی ادارے یہ ادراک کرچکے ہیں کہ ملک جارہا ہے اور سیکیورٹی کی ذمہ داری تو ہماری ہے، تو اِس ادراک کے بعد اب فرض نبھانا چاہتے ہیں تو اُس کے ہم اُن کے پشت پر کھڑے ہو جاٸیں گے کوٸی عیب کی بات نہیں ہے، یہ نہیں کہ ہم کوٸی مرعوب ہیں یہ نہیں کہ ہمارے کوٸی مفادات ہیں، جب اختلاف تھا تو ڈٹ کر کیا، لیکن آج ہی اگر ملک کو بچانے کا متفقہ تصور سامنے اگیا ہے، احساس سامنے اگیا ہے تو اُس احساس میں ہم ایک قوم بننے کے لیے تیار ہیں کوٸی عیب کی بات نہیں۔
یہ ساری چیزیں ہمیں مدنظر رکھنی ہوگی کہ ملک کہاں داٶ پر لگا ہوا ہے، لیکن ان شاء اللّٰہ آٸی ایم ایف کے اِس دباو پر بھی ہم حکمت سے مقابلہ کریں گے، اور اگر آٸی ایم ایف ہو یا ایف اے ٹی ایف ہو یا کوٸی بین الاقوامی ادارہ ہو اِس قوت کو جو ان کے کہنے پہ ایا تھا تو ہم اِن کے خلاف بھی آواز بلند کریں گے، ہم اپنے ملک اور ملک کے مفاد پر کمپروماٸز کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، خط لہرایا میرے خلاف سازش ہوٸی ہے، وہ ماں تو مرگٸی وہ مسٸلہ خاموش ہوگیا، پھر کہا مجھے قتل کرنے کی سازش ہورہی ہے، کس نے مارنا ہے تمہیں کیا کرکے مارنا ہے وہ بھی ختم ہوگٸی، اب کہتے ہیں خط پہ کمیشن بٹھاو، امریکہ نے بھی کہہ دیا جھوٹ بولتا ہے ہمارے سیکیورٹی نے بھی کہہ دیا جھوٹ بولتا ہے، میں نے کہا کمیشن اس پر نہیں بٹھاٸیں گے یہ کوٸی اتنی بڑی بات نہیں ہے، اگر کمیشن بٹھانا ہے تو کمیشن اس بات پر بٹھاٸیں گے کہ تمہیں اقتدار میں لانے والے کون تھے تمہیں قوم پر مسلط کرنے والی قوت کون تھی، یہ باتیں اب نہیں چلے گی چار حلقے کھول دو، دس حلقے کھول دو، پچاس حلقے کھول دو، ستر حلقے کھول دو، اور ہم مانتے جارہے مانتے جارہے اور اُس میں مستی اتی رہی اور سمجھتا رہا جو کچھ میرے منہ سے نکلتا رہتا ہے سب ہوکے رہتا ہے، تو اب زبان سے بات کرکے نکال میں دیکھتا ہوں، تم نے ملک کو مذاق بنا رکھا ہے، یہ جو چند دن آپ شور شرابہ دیکھ رہے تھے ناں تو میں نے اُس وقت بھی کہا تھا کہ اپنوں کو مردے پر نوحہ کرنے کا حق حاصل ہیں اور پھر میں نے یہ بھی کہا تھا، کہتے تھے اجتماع بڑا ہوگیا جلسہ بڑا ہوگیا، میں نے کہا میت پر ایک کروڑ لوگ بھی جمع ہو جاٸے ان کو زندہ نہیں کرسکتے، اس حوالے سے بے فکر رہو۔
الحَمْدُ ِلله ابھی ہم زندہ ہے مدد اللّٰہ کی ہے اِس ملک کو بھی بچانا ہے، ملک کے نظریے کو بھی بچانا ہے، تو یہ ہماری اُن اکابرین کی تاریخ ہے کہ جس کو اج آپ نے اور ہم نے زندہ رکھنا ہے، اپنے حجرے میں بیٹھ کر اپنے زندگيوں کو محرابوں تک محدود کرکے ہم اپنے اُن اکابرین کا حق ادا نہیں کرسکتے ہم شاٸد اِس عمل پر قیامت کے دن اُن کے سامنے جوابدہ ہوں گے، ہمیں چلنا ہے عام اُمتی تو یہی کہتا ہے ناں کہ میں اپنے کالے کرتوتوں کی وجہ سے اپنے رسول اللّٰہﷺ کے سامنے کیسے پیش ہوں گا کیسے منہ دکھاوں گا، تو میں نے کہا حضرت رسول اللّٰہﷺ کا مقام تو پوری کاٸنات میں سب سے بڑا ہے ہم تو حضرت شیخ الہندؒ کو جواب دینے کے قابل نہیں ہوں گے، ہم تو حضرت شیخ الاسلامؒ کو جواب دینے کے قابل نہیں ہوں گے، ہم تو مفتی محمودؒ کو جواب دینے کے قابل نہیں رہیں گے، مولانا غلام غوث ہزارویؒ کو جواب نہیں دے سکیں گے، مولانا عبدالحکیمؒ کو جواب نہیں دے سکیں گے، لہذا اپنے اکابر کی جدوجہد کو زندہ رکھنے کے لیے مردانہ وار میدان میں اترنا ہوگا۔
آج آپ کے مدارس پر حملہ کیا جارہا ہے، رجسٹریشن آپ کے بند، بینک اکاونٹ آپ کے بند، کوٸی آپ کو چندہ دے اور اُن کو پتہ چل جاٸے تو اُن کے پیچھے لگ جاتے ہیں، مدرسے کو دس روپیہ کیوں دی، مدرسوں پہ چھاپے سلسلے اب بھی جاری ہیں ، یہ سب معاملات ہمیں ٹھیک کرنے ہوں گے، یہ روش قابل قبول نہیں ہے، مولانا تقی عثمانی صاحب دامت برکاتھم تشریف لاٸے تھے تو پتہ چلا کہ وہ پشاور آٸے تھے اور کچھ لوگوں نے اُن سے درخواست کی تھی کہ یہ جو پاکستان میں ط ا ل ب ا ن ہیں اِن پر آپ اثرانداز ہوسکتے ہیں، اِس مشکل کو ختم کرنے میں آپ کی مدد چاہیے تو مجھ سے بھی بات کی، میں نے کہا بلکل ختم ہونا چاہیے جو ہم سے ہوسکے گا ہم کرنے کو تیار ہیں لیکن اتنا تو ہمیں پوچھنے کا حق حاصل ہے ناں کہ جس کو آپ د ہ ش ت گرد کہتے ہیں، جو د ہ ش ت گ ر د ملک کے لیے درد سر ہیں، ملکی سلامتی کے لیے خطرہ ہے، اِن مدرسہ نے پیدا کیا ہے اِن مدرسوں میں شدت کے اسباق پڑھاٸے جاتے ہیں، اِن مدرسوں میں انتہا پسندی پڑھاٸی جاتی ہے، انہی مدرسوں سے د ہ ش ت گ ر د ی پیدا ہوتی ہے، انہی مدرسوں سے ہمیں تحفظات ہیں، اِن کے رجسٹریشن بند کرو اِن کے اکاونٹ بند کرو، تو میں نے کہا پہلے مجھے ملک کا وفادار تو تسلیم کرو تاکہ میں اُس پر اثرانداز ہوں، اس ساری د ہ ش ت گ ر د ی کا ذمہ دار بھی میں اُس کی ذمہ دار بھی مدرسہ اور اُس کو پڑھانے والا بھی مدرسہ ، د ہ ش ت گردی سکھانے والا بھی مدرسہ، بندوق کندھے پہ اٹھانے والی تعلیم بھی مدرسے نے دی اور مدرسے سے کہا جارہا ہے اٸے میرے ساتھ تعاون کرو، اِس طرح سودے نہیں چلتے، ہم بلکل تیار ہیں، ہمیں ملک میں امن چاہیے، امن کے بغیر اقتصادی ترقی نہیں ہوسکتی، چنانچہ امن اور معیشت ایک دوسرے سے وابستہ ہیں، اور اِس حوالے سے ہم ملک کے معاملات ٹھیک کرنا چاہتے ہیں، ایسے معاملات کو سنجیدگی سے لیا جاٸے، بین الاقوامی دنیا بھی اس پہ سیاست کررہی ہے کہ مدرسہ مدرسہ کیا یہ مدرسہ صرف پاکستان میں ہے یہ مدرسہ وہی مدرسہ ہے جو ہ ن د و س ت ا ن میں ہے وہاں تو آج بھی رجسٹریشن شرط نہیں ہے، پاکستان میں ضروری قرار دیا گیا، پانچ وفاق ہاٸے مدارس ادھر بنگلہ دیش میں ہیں اور پانچوں کو بورڈ کا درجہ دیا گیا ہے اور میری معلومات یہی ہے کہ پچھلے سال سرکاری ملازمتوں کے لیے جو انٹرویوز ہوٸی ہیں ٧٣ فی صد نوجوان سرکاری ملازمتوں میں دینی مدارس سے منتخب ہوٸے ہیں، اس طرح صرف ہمارے ملک کا مولوی خطرناک ہوگیا ہمارے ملک کا درسہ خطرناک ہوگیا، یہ مساٸل حل کرنے کی ہے، یکطرفہ ٹریفک کیوں چلاٸی جارہی ہیں، ایک زمانہ تھا مشرف کے زمانے میں مذاکرات ہوٸے تو ہمیں کہنے لگے کہ آپ کی یہ پانچ تنظیمیں کیوں ہیں دیوبندی ہے، بریلوی ہے، سلفی ہے، ش ی ع ہ ہیں فلاں ہیں فلاں ہیں، آپ ایک نصاب بناو ایک مدرسہ بناو، ہم نے کہا خواہش کی حد تو ٹھیک ہے لیکن اس کا کوٸی پس منظر بھی ہے، زمینی حقاٸق اور ہیں تو خواہش کی حد تک تو ہوسکتا ہے لیکن عملی طور پر شاٸد ممکن نہ ہو، اب ایک طرف ایک زمانہ وہ تھا جب ہمیں کہا جارہا تھا ایک مدرسہ بناو اور ایک زمانہ آج عمران خان کا ہے کہ جس میں پانچ کی بجاٸے پندرہ نٸے مدرسوں کے تنظیمیں بناٸی گٸی، پندرہ بورڈ دیے گٸے، اب آپ بتاٸے کہ یہ اپنے گفتگو میں سنجیدہ کتنے ہوتے ہیں ان کے کیا مقدصد ہوتے ہیں۔
لہذا یہ چیزیں ہماری مدنظر ہیں، مدارس کا کردار ہے ، مدارس ایک ادارہ ہے، مدارس کی ایک حقیقت ہے، مدارس ایک تاریخ ہے، مدارس کی ایک پس منظر ہے اور اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا ان شاء اللّٰہ، اور ان شاء اللّٰہ العزیز اِس پر ہماری بات چیت چل رہی ہے تاکہ حکومت کے اندر بھی ہم اُس کے تمام پہلووں کا جاٸزہ لے اور مسٸلے کا ایک مناسب حل نکالے، آپ دعا فرماٸے کہ اللّٰہ تعالی ہمیں اُس میں کامیابی عطا فرماٸے اور اُن کی بہتری کے لیے تاکہ آنے والا مستقبل اِن تنازعات سے نکل سکے اور یہ بات چیت سے نکل سکتا ہے، وسعت ظرفی سے نکل سکتا ہے اچھے جذبات کے ساتھ ہم معاملات کو حل کرسکتے ہیں اور ان شاء اللّٰہ العزیز کریں گے، لیکن یہ بنیادی چیزیں کہ ملک میں سیاسی افراتفری ہو، معاشی طور پر دیوالیہ ہو، جغرافيائی طور پر قوم کے اندر بغاوتیں ہو، ملک تقسيم ہو اور اس ایجنڈے تک کہ نہ اپ کا جغرافیہ رہے، نہ جغرافیے کی مذہبی شناخت رہے ، نہ اِس کی تہذیبی شناخت رہے اور اِس طرح پاکستان کو ایک دیوالیہ پن کی طرف پہنچانا یہ شاٸد ایک خاص ایجنڈے کے تحت تھا جس کو ہم نے ناکام بنایا ہے اور میں عمران خان کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ بین الاقوامی سازش نے آپ کو نہیں گرایا، فضل الرحمن کی سازش نے آپ کو گرایا ہے۔
واخر دعوان ان الحمد للہ رب العالمین
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر ٹیم جے یو آٸی سوات
#teamjuiswat
ایک تبصرہ شائع کریں