قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی اہم پریس کانفرنس 21 جولائى 2022


بنوں: قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن کی اہم پریس کانفرنس تحریری صورت میں
 21 جولائى  2022
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم اما بعد
حال ہی میں جو افسوس ناک واقعہ پیش آیا جس میں جمعیت علماء اسلام کے انتہائی ذمہ دار مولانا سمیع الدین صاحب، مولانا نعمان صاحب اور ہمارے ایک منتخب اس حلقے کے چیٸرمین شہید ہوٸے، اس واقعے پر جذبات مجروح اور دل زخمی ہیں اور اِس پر شمالی وزیرستان ہی نہیں پورا قبائلی علاقہ سبھی اپنی ناراضگی کا اظہار کررہا ہے۔
دو عشروں سے زیادہ عرصہ ہوگیا کہ قبائلی علاقوں میں مختلف ناموں سے آپریشن جاری ہیں، ہم نے پورے فوج کو قیام امن کے لیے فاٹا کے اندر جونک دیا اور قوم کو یہ تسلی دیتے رہے کہ ہم آپ کو امن دینا چاہتے ہیں، سوات سے لیکر جنوبی وزیرستان تک لوگوں نے اپنے ملک اندر ہجرت کی، اپنے گھروں کو چھوڑا اور کٸی کٸی سال اپنے ملک کے اندر کیمپوں میں رہے، آج بھی قبائلی عوام کراچی سے لیکر چترال تک پورے پنجاب میں اور ملک کے مختلف علاقوں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں، دربدر ہوچکے ہیں، یہ قربانیاں کس لیے دی گٸی، اور آج ٹارگٹ کلنگ اُسی طرح ہورہی ہے، اور شاٸد عوام کے علم میں یہ بات نہیں ہے کہ ضرب عضب آپریشن کے دوران ہمارے پانچ سو سے زیادہ قبائلی ٹارگٹ کلنگ سے شہید ہوٸے ہیں، آج بھی آپ باجوڑ جاٸیں اس ایک سال کے اندر جمعیت علماء اسلام کے سو علماء شہید کیے گٸے، مہمند ایجنسی میں شہید ہورہے ہیں، ہمیں کون مار رہا ہے، قیام امن کے دعووں کے باوجود ہم اِن حالات سے کیوں دوچار ہیں، امن کے مذاکرات بھی ہورہے ہیں اور اِس دوران ہمارا خون بھی بہہ رہا ہے۔
تو اِس حوالے سے ہمیں بتایا جاٸے میرا قاتل کون ہے، ورنہ پھر میرے قتل کی ذمہ داری ریاستی ادارے قبول کرے، یہ پاکستان ہے یہ سٹیٹ ہے، ہر شہری کی جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے ، ہم تو اداروں کو طاقتور بھی دیکھنا چاہتے ہیں، ہم اداروں کو معزز بھی دیکھنا چاہتے ہیں، ہم نے اُن کے سخت ترین فیصلوں سے اختلاف ضرور کیا ہے، اپنی راٸے دی ہے لیکن اگر پارليمنٹ نے اور حکومتوں نے اُس پر اتفاق کیا تو ہم راستے کے رکاوٹ نہیں بنے، لیکن نتاٸج وہی ہے جو ہم نے کہا تھا اُس کے مطابق نتائج سامنے آرہے ہیں کہ نتيجہ صفر، وفود قبائلی علاقوں میں جاتے ہیں ایک مسجد بنائی ہے اُس کا رنگ و روغن کیا ہوا ہے کہ دیکھو ہم مسجدیں بنا رہے ہیں، سو سے زائد مسجدیں اور مدارس شہید کرکے ایک مدرسے کا ماڈل پیش کرکے کہتے ہیں کہ جی ہم یہی کچھ کرتے ہیں۔
اب ہمیں کیا دے رہے ہیں آج بھی ہمارے دینی مدارس پر ریاستی اداروں کا قبضہ ہے، سول اداروں کو کیوں قبضہ میں لیا ہوا ہے، عوام چندہ دیتے ہیں اور یہ چندے کی بنیاد پر لوگوں کو تعلیم دیتے ہیں ایک سکول بند ہوتا ہے تو کہتے ہیں تعليم بند ہوگٸی، جب کہ ایک دینی مدرسہ باقاعدہ ایک راسخ تعلیمی ادارہ ہے، اِس تعلیمی ادارے کی پاکستان میں کوٸی قدر و قمیت نہیں ہے، اسلام کے نام پر بنے ہوٸے ملک کے اندر، اس کو دہشت گردی کا مرکز کہا جارہا ہے، اور پھر اُسی ادارے اسی مدرسے کے علماء سے تعاون بھی لیا جارہا ہے ، اُنہی کو دہشت گرد بھی کہا جارہا ہے، دہشت گردی اور شدت پسندی کے ادارے بھی کہا جارہا ہیں، یہ ہمارے لیے انتہائی پریشان کن صورتحال ہے۔
ہم نے ملک کی سیاسی استحکام میں ہمیشہ اپنا رول ادا کیا ہے، ہم سے کوٸی شکایت نہیں کرسکتے، ہم آٸین کے ساتھ کھڑے ہیں، ہم ملک کے ساتھ کھڑے ہیں، لیکن ملک کے ساتھ کھڑا ہونا بھی ہمارا جرم، آٸین کے ساتھ کھڑا ہونا بھی ہمارا جرم، یہ اپنی سیاست کررہے ہیں اور اپنی سیاست کے اندر ہمیں ذبح کررہے ہیں، اس طرح تو پھر نہیں چلے گا، لہذا یا مجھے اپنا قاتل بتایا جاٸے، اِس کے خلاف کارواٸی کی جاٸے یہ نہیں کہ مجھے کہے کہ آپ خود اُس کے خلاف بندوق اُٹھاٸے، ہم پھر بھی بندوق نہیں اُٹھاٸیں گے، میں پھر بھی قبائل سے کہوں گا بندوق مت اُٹھاو، اپنی جمعیت سے کہوں گا بندوق مت اُٹھانا، ہم اِس ملک کو خراب نہیں کرنا چاہتے، لیکن اگر کوٸی مجرم ہے تو اُس کو پکڑنے والا کوٸی ریاست کے اندر ہے یا نہیں، ادارے ہیں یا نہیں ہیں اور یا پھر خود تسلیم کرے کہ ہم اِس کے ذمہ دار ہیں کیوں کہ میرے جان و مال کی حفاظت آٸینی طور پر ان کی ہے۔
یہ وہ ساری صورتحال ہے میں آج اعلان کرتا ہوں کہ ہمارے پورے صوبے میں میں نے صوباٸی جماعت کو کہا ہے کہ کل جمعہ کے اجتماعات میں صوبہ بھر کے خطبا کرام، آٸمہ کرام اپنے خطبوں میں شمالی وزیرستان اور اِس کے علاوہ جو بے گناہ شہریوں کے شہادتوں اور قتل کے واقعے ہورہے ہیں، اِس پر بھرپور احتجاج کرے، لوگوں کو بیدار کرے اور جمعے کے فوراً بعد اتوار کے روز پورے صوبے میں مظاہرے ہوں گے، اِس کے بعد باقاعدہ احتجاج ہوگا، ہم اداروں کو بھی یہ اجازت نہیں دیتے کہ وہ ملک کا مذاق اڑاٸے، اِس کے اندر اپنی سیاست کھیلے، اور ہم امن چاہتے ہیں ہم نے امن میں کردار ادا کیا ہے، ہم نے امن میں قربانیاں دی ہے، اپنے وطن سے وفاداری کا ہم نے سزاٸیں کاٹی ہیں، ہم پر قاتلانہ حملے ہوٸے ہیں، ہمارے بڑے بڑے سینٸر لوگ شہید ہوٸے ہیں، ہمارے اُوپر حملوں میں بیس بیس تیس تیس لوگ شہید ہوٸے ہیں، یہ خون مقدس نہیں ہے، یہ خون محترم نہیں ہے۔
ایک تو اِس حوالے سے میں اعلان کرتا ہوں کہ کل جمعے کے روز تمام آٸمہ کرام، خطبہ اِس واقعے کی بھرپور مذمت کرے اور پھر اتوار کے روز پورے صوبے میں مظاہرے کیے جاٸیں گے، اِس واقعے کے خلاف احتجاجی طور پر، اور یہ ہم اپنا آٸینی حق استعمال کریں گے، ہم اپنے کارکن کو اب بھی کہہ رہے ہیں کہ آپ نے پرامن رہنا ہے، ہم نے سیاسی مقابلہ کرنا ہے، اِن قوتوں کو شکست دینی ہے، لیکن بہر حال جذبات جذبات ہے کب تک ہم جذبات کنٹرول کرتے رہیں گے، کیا ریاست پاکستان یہ چاہتا ہے کہ ہمارا نوجوان جذبات میں اکر بندوق اٹھاٸے، پھر کیا ہوگا اس ملک کا، اس مک کو بچانے میں ہمارا کردار ہے، اس ملک کے استحکام میں ہمارا کردار ہے، بخدا فوج تنہا اِس ملک کو نہ بچاسکتی اگر قوم اِس کے پشت پر نہ کھڑی ہوتی، اگر علماء اُس کے پشت پر نہ کھڑے ہوتے، اگر تمام مکاتب فکر اُس کے پشت پر نہ کھڑے ہوتے، اور اس کے باوجود بھی مذہبی ہونے کے ناطے اسے سزا دی جارہی ہے۔
تو یہ ساری چیزیں اپنی جگہ پر ہیں ، کون عدم استحکام پیدا کررہا ہے وہ ہم سب جانتے ہیں، لیکن ہم ملک میں افراتفری نہیں چاہتے، آج ہمارے ملک میں کیا ہورہا ہے، میں ایک بات آپ سے کہنا چاہتا ہوں کہ عمران خان کی حکومت کا خاتمہ یہ حکومت کا خاتمہ نہیں ہے اُسی سے پاکستان کو ہم نے بچایا ہے، پاکستان کو تین ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کا ان کا منصوبہ سامنے اچکا ہے، اِن کے بیانات اس پر آچکے ہیں، عجیب صورتحال ہے کہ ہم تو حیران ہیں کہ پنجاب میں ضمنی الیکشن ہوا، اگر ضمنی الیکشن کے نتائج اتے ہیں اگر ہم عمران خان کے حق میں آنے والے فیصلے کے خلاف ہوتے تو ہم آج بھی کھڑے ہو جاتے ناں، لیکن ہم نے دو ہزار اٹھارہ میں دھاندلی کے خلاف بات کی، اور ہمارا مٶقف صحیح تھا، یہ ملک کو تباہ کرنے کے ایجنڈے پہ آیا تھا، اور اِس کی حکومت کا خاتمہ پاکستان کی بقا کے لیے لازم تھا، آج وہ کبھی کاغذ پھرا رہا ہے میرے خلاف سازش ہوٸی ہے اور ایسے پاگل اِس کے پیچھے ہیں وہ جو کہے اِس کے پیچھے دوڑ رہے ہوتے ہیں، ایسا بیوقوف طبقہ میں نے دنیا میں نہیں دیکھا، ایک احمق کے کہنے پر یہ اِس کے پیچھے دوڑ رہے ہوتے ہیں، اور آج کل کہہ رہے ہیں ہم تو جہاد لڑ رہے ہیں، جہاد کس طرح لڑ رہے ہیں تمہارے خلاف جہاد جاٸز ہے، جس کے خلاف جہاد ہونا چاہیے وہ کہہ رہا ہے ہم جہاد لڑ رہے ہیں ”الٹی گنگا“، بے حیاٸی ، فحاشی ، عریانی ، مہنگائی ، بے روزگاری، بین الاقوامی اداروں کے ساتھ غلط شرائط پر معاہدات، اُن پر دستخط کرنا، ملک کی معشیت کو بیچنا، بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا آپ نے پاکستان کا، اور اب پھدک پھدک کر اچھل رہے ہو کہ میں تم کو بچا رہا ہوں، عمران خان اپنے حدود میں رہو، جمعیت والے زندہ ہیں، ہم آپ کے لیے زمین اتنی گرم کردیں گے کہ آپ کے یوتھیوں کے نرم تلوے اس زمین پر نہیں رکھے جاسکیں گے، ہم فضا کو اتنی گرم کردیں گے کہ تمہاری یہ چھوٹی چھوٹی تتلیاں اُس کے نرم پَر فضا کی اُس گرمی کو برداشت نہیں کرسکیں گے، حدود میں رہو ہم بیرونی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے میدان میں آٸے ہیں، ہم بیرونی مشن کو اِس ملک میں شکست دینے اٸے ہیں، اور تم بیرونی مشن کے ایجنٹ ہو، ہم نے تمہیں صحیح کہا ہے کہ تم کسی کے ایجنٹ ہو ، تم ہو کیا چیز، لاس اینجلس سے لیکر ڈی چوک تک تمہاری تعفن کی بدبو پھیل رہی ہے، اخلاق تمہارے یہ ہے، کردار تمہارا یہ ہے، لہذا ایسی حرکتیں مت کرو، یہی فوج تھی جب آپ کو سپورٹ کررہی تھی ، اور ہمیں اِس کے کردار پر اعتراض تھا تو آپ کہہ رہے تھے فوج ٹھیک کررہی ہے، جرنل صاحب زبردست ہے، آج جب وہ نیوٹرل ہوگیا ہے تو تم اُسے جانور کہتے ہو، میں تو خراج تحسین پیش کرتا ہوں میں تو چاہتا ہی ہوں کہ نیوٹرل ہی رہے، لیکن جب تمہارے حق میں استعمال ہورہے تھے اس وقت وہ ٹھیک تھے، آج تم اُن کو گالیاں دے رہے ہو، تمہارے اس یوٹرن پہ تمہیں شرم نہیں اتی، الیکشن کمیشن نے بیس ضمنی سیٹوں پر الیکشن کراٸے ، آپ نے کہا زبردست زبردست ماشاءاللہ، نتائج پر خوشی، اور اگلے دن جب خبر آٸی کہ فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ آنے والا ہے تو کہا الیکشن کمیشن مستعفی ہوجاٸے، ایک دن پہلے تعریفیں اور ایک دن بعد مستعفی ہو جاٸے کیوں مستعفی ہو جاٸے، تمہارے گریبان میں ہاتھ پڑگیا، تمہاری چوری پہ ہاتھ پڑگیا، تمہارے گپلوں پہ ہاتھ پڑگیا، اور پرسوں ہم نے میٹنگ کی میں نے حکومت سے کہا ہے کہ اگر وہ پاکستان کے معزز طبقے کو، معزیزین کو جیلوں میں ٹھوس کر ذلیل و رسوا کرتے ہیں تو پاکستان کی بین الاقوامی چور کو ایک ایک مقدمہ ڈال کر ان کو گرفتار کریں گے ان شاء اللہ۔
تمہیں اِس طرح ہم ناچنے نہیں دیں گے، یہ تو شہباز شریف صاحب ہیں جو ذرا غیر ضروری شرافت دکھا رہے ہیں، حکیم ثناءاللّٰہ کو بلاو، اُس کو حرکت میں لاٶ، کتنے بڑے بڑے کیس پڑے ہوٸے ہیں، بلین ٹری کدھر ہے ایک ارب درخت، بی ار ٹی کا کیا حال ہے، کتنے پیسے کھاٸے، ملم جبہ والا کیس کدھر گیا، اتنے بڑے بڑے گپلوں کا حساب آپ کے ساتھ ہوگا، لیکن میں ضرور کہوں گا کہ فارن فنڈنگ کیس کو آخر کیوں مٶخر کیا جارہا ہے، نیب کے خلاف قانون سازی ہوٸی عدالت نے سماعت کے لیے قبول کرلیا، ہم عدالت کا احترام کرتے ہیں، عدالت کو عدل و انصاف کرنے کا پورا اختیار حاصل ہے، لیکن عدالت کو اتنا تو ضرور کہوں گا ناں کہ قانون سازی پارليمنٹ کا حق ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ قوانین اِس کو ہم تسلیم کرے، اِس کو ہمیں تبدیل کرنا ہے، قانون بنانے کا حق پارليمنٹ کو حاصل ہے یہ عدالت کا کام نہیں ہے، لیکن یہاں پر حوصلہ افزاٸی کی جارہی ہے کس چیز کی حوصلہ افزاٸی، بات وہی ہے جس طرح عدالت نے کہا کہ جو رولنگ تھی اسمبلی کے اندر وہ آٸین شکنی تھی، ڈپٹی سپیکر نے بھی آٸین شکنی کی ہے اور صدر مملکت نے بھی آٸین شکنی کی ہے، اِس پر کارواٸی ہونی چاہیے اور ہم نے حکومت کو مشورہ دیا ہے۔
بات بنیادی یہ ہے کہ اِس وقت ہم ملک میں ایک یکجہتی کی طرف جانا چاہتے ہیں، ہم اقتصادی بحران میں ہے، چار سال میں جو بحران پیدا کیا گیا، ہم سے کہا جارہا ہے کہ چار دن میں اُس کو ٹھیک کرے، لیکن اِس کے باوجود میں ایک راٸے رکھتا ہوں یہ حکومت ایک سال کے لیے یا سوا سال کے لیے، قلیل المدت حکومت قلیل المدت فیصلے کرے، طویل المدت فیصلے نہ کرے، قیمتوں کو بڑھانے پر میں نے اختلاف کیا تھا ، میں نے راٸے دی تھی کہ پبلک میں برا تاثر جاٸے گا، کس طرح آپ ان کو سمجھاٸیں گے، لیکن بہر حال جب سب ایک راٸے رکھتے ہیں تو پھر ہم نے بھی کہا کہ ٹھیک ہے، آپ کی یہ راٸے ہے ہم نے راٸے دے دی، پورا ریکارڈ پہ ہے، ریکارڈ پر رہے گی۔
آٸی ایم ایف کے شراٸط پر معاہدات اِس کے لیے ہمیں رکاوٹیں ڈالنی چاہیے تھی، اِس بحران کا ہمیں مقابلہ کرنا چاہیے تھا، لیکن سب نے کہا دنیا کے ساتھ چلنا ہے تو پھر اس طرح چلو، اِس میں کوٸی شک نہیں مشکلات ہیں لیکن جمعیت علماء اسلام نے اپنی راٸے پوری دیانتداری کے ساتھ دی ہے، اور ہم اپنی راٸے دیانتدارانہ طور پر دیتے رہے گے، ہم نے الیکشن 2018 کے بعد جو راٸے دی ہے اگر اِس سے اتفاق نہیں ہوا تو جس طرح شرعی اُصول بھی یہی ہے کہ جب سب دوست ایک راٸے پر آجاٸے، آپ نے حق ادا کردیا، اُس کے بعد اگر صحافی حضرات یکدم مجھے کہیں گے پھر آپ مستعفی کیوں نہ ہوٸے یہ آپ کا آخری سوال ہوتا ہے، بابا آپ بھی گھر میں کوٸی خاندان رکھتے ہیں یا نہیں رکھتے، خاندان کا گھر میں جرگہ ہوتا ہے یا نہیں ہوتا، پھر آپ کی ایک راٸے آگٸی اور خاندان نے نہیں مانی تو پھر آپ کو یہی کہا جاٸے گا کہ گھر چھوڑ دو، پھر گھر میں بیٹھے کیوں ہو۔
ملک کو چلانا ہے اور مشاورت کے ساتھ چلانا ہے لیکن اپنی راٸے ہم ضرور دیتے رہیں گے۔
لہذا اِن حالات میں ملک کو بچانا ہے، الیکشن کمیشن اب تک ٹھیک ہے لیکن آج غلط ہوگیا، نیب کے ذریعے سے آپ لوگوں کو روزانہ گرفتا کرکے ذلیل کرتے رہے، لوگوں کے اوپر جھوٹے کیس کرتے رہے، تم نے سیاستدانوں کو ذلیل کیا ہے، اپنے چوریوں پر کیوں روزانہ عدالت جاتے ہو کہ اُس کو نہ سنا جاٸے، جب تمہارے خلاف کیس جارہے ہیں تو تم روزانہ درخواست دے رہے ہو، فارن فنڈنگ کیس کے حوالے سے کتنی درخواستیں دی ہیں، بی ار ٹی کے حوالے سے کتنی درخواستیں دی ہیں، بلین ٹری کے حوالے سے، کہ اُس کو نہ سنا جاٸے، خود تو بھاگ رہے ہو، عدالت کے پیچھے چپھنے کی کوشش کررہے ہو، لیکن جب ہم کہتے ہیں کہ قانون ٹھیک کرو، الیکشن کے قواعد و ضوابط ٹھیک کرو، نیب کے قواعد و ضوابط اور قانون کو ٹھیک کرو تاکہ یہ جبر نہ کرسکے، یہ ساری چیزیں عام دنیا میں مروجہ نظام جو انسانی حقوق کا ہوتا ہے اس کے مطابق ہمیں چلنا چاہیے، اور پاکستان تو اسلام کے نام پر بنا ہے، اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں آپ نے مجھ پر الزام لگا دیا، میرے ذمے ہے کہ میں ثابت کروں گا کہ میں بے گناہ ہوں یا آپ کے ذمے ہیں کہ آپ ثابت کرے کہ میں گنہگار ہوں، یہ ساری چیزیں امتیازی طور پر پاکستان میں چل رہی ہے اِس کا خاتمہ کرنا بلکل ہمارا مقصد ہے، اور آپ کو اقتدار سے اُتارنا یہ پاکستان کی وفاداری ہے، میں آج بھی پاکستان کے ہر اُس شہری کو درخواست کرتا ہوں کہ پاکستان کو تباہ کرنے میں عمران خان کے ساتھ نہ جاٸے، ملک کو بچانے کے لیے آپ میدان میں آٸے اور ملک کے وفادار قوتوں کا ساتھ دے۔
تو اس حوالے سے ان شاء اللّٰہ العزیز ہم میدان میں ہیں اور میدان میں رہیں گے اور تم اگر اقتدار میں آنے کی خواہش رکھتے ہو پہلے تو تمہاری خواہش ان شاء اللّٰہ پوری نہیں ہوگی اور یاد رکھو ہم تو ایک لمحہ آرام سے رہنے نہیں دیں گے، ہم تمہیں جانتے ہیں،ہیں تمہارے آقاوں کو جانتے ہیں، تمہارے پیچھے قوتوں کو جانتے ہیں، اور یہ بھی تمہیں آقا نے پڑھایا ہے کہ پاکستان میں مجھے گالیاں دیا کرو پاکستان میں یہ سیاست چلتی ہے۔
تو یہ چیزیں ان شاء اللّٰہ العزیز نہیں چلے گی، ہم بھرپور طور سے پاکستان میں ایک سیاسی کردار ادا کررہے ہیں، ملک کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں، ملک کو بحرانوں سے نکالنے کی تگ و دو کررہے ہیں، اور یہ لوگ ہیں جو ہمیں دلدل میں پھنساٸے جارہے ہیں تاکہ ہم اصلاحات نہ کرسکے، جو گند چار سال انہوں نے کیا ہے اُن سے اب ہم نکل نہ سکے، اصلاحات کی طرف نہ اسکے، اس میں رکاوٹیں ڈالی جاٸے یہ اُن کی سیاست ہے اِس کے علاوہ کچھ نہیں۔
میں ایک بات ضرور کہوں گا آپ مجھے بتاٸے کہ اگر ایک جج ان کے حق میں فیصلہ دیتا ہے مجھے پتہ ہے کہ اُس جج کا داماد الیکشن لڑرہا ہے اور وہ اُن کو سپورٹ بھی کررہا ہے، میں کیسے پھر ان سے انصاف کی توقع رکھوں گا، اور اس کے سارے کیس وہ اپنے پاس رکھنا چاہتا ہے، یہ تو پھر نہیں چلے گا، ہمیں نظر انا چاہیے کہ جو انصاف کی کرسی پر بیٹھا ہے اُس کا ماحول بھی وہ ہے کہ اُس ماحول کے اندر وہ مجھے انصاف مہیا کرسکتا ہے، اگر مجھے شبہ ہو جاٸے اور اُس کے کردار پر مجھے اعتراض ہو جاٸے، پھر بات کیسے چلے گی، لہذا ہم ایک معزز، محترم عدلیہ اور محترم ادارہ چاہتے ہیں اور اِس قسم کی کسی بھی شک و شبہ سے اُن کو بالاتر دیکھنا چاہتے ہیں کہ جہاں اُن کے عدل و انصاف کے فیصلوں پر کوٸی اعتراض کرسکے۔
آپ حضرات کا بہت بہت شکریہ
واخر دعوان ان الحمد للّٰہ رب العالمین

صحافی کے سوال پر جواب:
جمعیت علماء اسلام کا اُس کی سیاست سے کوٸی تعلق نہیں ہے وہ جانے اور وہ جانے۔

صحافی کے سوال پر جواب:
حضرت وہ واحد میں ہوں کہ جس نے آپریشن کی مخالفت کی تھی، جنہوں نے آپریشن اور انضمام کی حمایت کی تھی، آج آپ اُن کو قبائل کا ہمدرد کہہ رہے ہیں کہ وقت گزرنے کے بعد فوج کو ایک گالی دے دو تو پھر آپ قبائل کے خیرخواہ بن گٸے، اس طرح نہیں ہوا کرتا سنجیدہ سیاست کیا کرو،رو سنجیدہ راٸے قاٸم کرو، ہم نے بروقت راٸے قاٸم کی تھی اور بروقت راٸے دی تھی لیکن فورم پر دیتے ہیں اور دیانتدارانہ طور پر دیتے ہیں، دلاٸل کی بنیاد پر دیتے ہیں، جب آپ کا انضمام ہوتا ہے قبائل کی مستقبل کو تاریک کیا جاتا ہے، قبائل کی عزت و ناموس کو تاراج کیا جاتا ہے وہاں تو آپ فوج کے فیصلوں کے ساتھ ہوتے ہیں، پھر وقت انے پر آپ ایک دم بدل جاتے ہیں اور گالیاں دینا شروع کردیتے ہیں، ظاہر ہے قوم میں ناراضگیاں تو ہوتی ہے ان ناراضگیوں کو آپ غلط استعمال کرتے ہیں بھی آپ کی مرضی اور صحیح استعمال کرتے بھی آپ کی مرضی، ہم قوم میں ایسے جذبات نہیں ابھارنا چاہتے کہ جس سے ہم اپنے ملکی اداروں کو قوم کے خلاف کھڑا کردے۔

صحافی کے سوال پر جواب:
مجھے اِس بات کا احساس ہے اور یہ میں نے پہلے میٹنگ میں کہا تھا کہ قیمتیں مت بڑھاو، آٸی ایم ایف کے ساتھ بات مت کرو، اُس کو نٸے شرائط پر انگیج کرو، لیکن جب سب لوگوں نے ایک راٸے دی تو میں کیا کرسکتا تھا۔

صحافی کے سوال پر جواب:
ظاہر ہے اب وہی ہوگا جس سے ہم مشکل سے نکل جاٸیں گے، اِس میں کوٸی شک نہیں میں اِس حوالے سے بہت پریشان ہو، میں اِن حالات میں جس کرب کا شکار ہوں کہ ہم کس طرح عام آدمی کو ریلیف دے سکے یہ ہمارا ہدف ہے، اور اِس کے لیے اپ ہمیں حکومت پریشر گروپ سمجھے، حصہ دار جو بھی ہمیں کہیں، لیکن ہم اپنی راٸے دیں گے، اس وقت یہ حالات نہیں ہے کہ کوٸی یہ کہے کہ میں حکومت کو چھوڑتا ہوں اور افراتفری مچ جاٸے گی، ایک اور بات بھی آپ کو بتادو کہ شرعی عدالت نے سود کے خلاف جو فیصلہ دیا تھا پہلے تو یہ تھا کہ حکومت کلیٸر نہیں ہے، آگے ہورہی ہے پیچھے ہورہی ہے، لیکن ہماری حکومت میں شمولیت کا فاٸدہ یہ ہوا کہ اب اس پر عملدرامد کے لیے ٹاسک فورس بن گیا ہے اور ملک کے جید علما کرام مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب اور دوسرے مکاتب فکر کے آکابرین اس میں موجود ہیں۔

ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر ٹیم جے یو آٸی سوات
#teamjuiswat 

0/Post a Comment/Comments