ڈیرہ اسماعیل خان : قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان کی اہم پریس کانفرنس
23 جولائى 2022
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
آپ کا سوال نہایت ہی حالات سے متعلقہ سوال ہے اور اپنی جگہ پر بڑی اہمیت رکھتا ہے، میں ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے یہ سمجھتا ہوں اور بار بار اِس بات کو دہراتا رہا ہوں کہ ہمارے ملک میں اسٹبلشمنٹ ہو، عدلیہ ہو، پارليمنٹ ہو، سیاستدان ہو، تنظیمیں ہو، انجمنیں ہو، عام پبلک ہو، سب کے درمیان مشترک چیز وہ آٸین پاکستان ہے، لیکن یہاں پر ایک عجيب سی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے کہ جب ادارے اپنے داٸرہ کار سے باہر جاکر سیاست میں مداخلت کرتی ہے، پارلیمنٹ کے معاملات میں مداخلت کرتی ہیں، ہماری پارليمنٹ، ہمارے سیاستدان، ہماری حکومتیں آٸے روز عدلیہ کی کٹہرے میں کھڑی ہوتی ہے، اور اس طریقے سے پھر ملک نہیں چلتا، ملک کمزور ہوجاتا ہے، ہمارے ہاں اگر کوٸی ادارہ یہ کہتا کہ جی جس وقت ہم دیکھے کہ ریاست کو نقصان پہنچتا ہے تو ہم فوری طور پر حرکت میں آٸینگے، اُصولی طور پر تو شاٸد یہ بات صحیح ہو لیکن ریاست کو نقصان بھی تو سیاست میں اِنہی کی مداخلت سے پہنچا ہے، سیاست میں اِس حد تک دخیل ہونے کے بعد ریاست کمزور ہوگٸی، تو اپنے ہی ہاتھوں سے ریاست کو کمزور کرنا اور پھر اپنے ہی ہاتھوں سے اِس ریاست کا علاج کرنا یہ عجيب سی صورتحال بن جاتی ہے، اِس روش سے کم از کم مجھے ہمیںشہ ایک اختلاف راٸے رہا ہے۔
اور آج عجيب صورتحال پیدا ہوٸی، عدالت نے ایک فیصلہ دیا اور اُس فیصلے کے جو الفاظ ہیں اُن الفاظ کو کوڈ کرتے ہوٸے پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر نے رولنگ دی ہے، اُس رولنگ پر انہوں نے اپیل سماعت کے لیے قبول کرلی ہے، اب صورت یہ ہے کہ اگر کوٸی فیصلہ عمران خان کو سوٹ کرتا ہے تو آپ اراکین اسمبلی کو ووٹ بھی گننے کے لیے آمادہ نہیں ہے اور آپ فیصلہ دیتے ہیں کہ اِن کو ڈی سیٹ کیا جاٸے ، پھر یہ بھی نہیں کہ صرف یہاں تک بات ہے، پھر باقاعدہ ضمنی الیکشن ہوتے ہیں، ضمنی الیکشن کو دونوں فریق یا سب فریق تسلیم بھی کرتے ہیں، آج وہی خط جو بحیثیت پارٹی سربراہ کے قومی اسمبلی میں عمران خان نے اپنے اراکين کے لیے لکھا، اُس کو تو آٸین کے مطابق قرار دیا جارہا ہے لیکن اگر چوہدری شجاعت نے بحیثیت سربراہ اپنے پارٹی کے اراکين کو خط لکھا ہے تو اس کے ساتھ پارلیمانی پارٹی کو نتھی کردیا جاتا ہے، پارليمان پارٹی صرف ایک فیصلہ کرنے میں یا تجویز دینے میں اپنی پارٹی سربراہ کی معاون کی حیثیت رکھتی ہے، وہ بھی تو اپنے صدر کے ماتحت ہے اسی کے حکم کے ماتحت ہے، تو یہ کیا بات ہے کہ پیمانہ عمران خان کے لیے کچھ اور، اور چوہدری شجاعت حسین کے لیے کچھ اور، پیمانہ عمران خان کے لیے کچھ اور، اور حمزہ شہباز کے لیے کچھ اور، یہ چیزیں یہ سوالات عام آدمی کے ذہن تک پہنچ رہے ہیں، اور عدالت کی حیثیت روز بروز متنازع ہوتی جارہی ہے، اِس وقت حکومت اور اُس میں شامل تمام جماعتوں کا متفقہ مطالبہ ہے کہ اس کیس کی سماعت کے لیے سپریم کورٹ کا فل بینچ بیٹھے، ہم فل بینچ کے سامنے اپنا مٶقف رکھنا چاہتے ہیں، ہر دفعہ یہی دو تین شخصيات، فاضل جج حضرات قابل احترام، لیکن ہر سیاسی کیس یہی دو تین آدمی سنے، اور جن کی ذہنی میلان کا مشاہدہ قوم بھی کررہی ہے، سیاستدان بھی کررہے ہیں، پارليمنٹ بھی کررہی ہے، اس طریقے سے میرے خیال میں کسی جج کو ایسی صورتحال سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے، اگر ایسا کوٸی تاثر کسی بھی جج کے بارے میں پیدا ہوتا ہے وہ بینچ کا حصہ بھی نہیں ہونا چاہیے، اُس کو ایسے کیسسز کا سماعت بھی نہیں کرنی چاہیے کہ جس کے بارے میں کسی ایک فریق کے تحفظات ہو یا خدشات ہو۔
تو یہ سارے سوالات آج پیدا ہوٸے ہیں اور ہورہے ہیں اور ڈسکس کیے جارہے ہیں، اور ساتھ ساتھ اس حوالے سے روز روز نٸی نٸی لاحقے وہ فیصلوں کے ساتھ وابستہ نہ کیے جاٸے، فیصلہ ایک ہوتا ہے، ووٹ ایک ہے، آج وہ ایک فیصلہ دے رہا ہے، کل وہ اس میں ترمیم کررہا ہے، ہم تشریح کے لیے نہیں بیٹھے، بات کو سمجھنے کے لیے بیٹھے ہیں، کل ہمیں سمجھ میں نہیں آیا، آج ہم سمجھنا چاہتے ہیں، میرے خیال میں اگر وہ کل ایک غلطی کرچکے ہیں یا وہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے صحیح فیصلہ نہیں دیا تو پھر اس کیس کو کم از کم وہ نہ سنے، اور پھر فل بینچ اس کے اوپر بیٹھے، تمام ججز کے سامنے ہمیں اپنی بات کرنے دیجیے، اور یہ جو ہمارے ملک میں بند کمروں کی سیاست شروع ہوچکی ہے، ٹیلیفون کے ذریعے ہدایات دینے، خفیہ طریقے سے ملنے ملانے، اور ایک ادارہ جو دوسرے ادارے پر اثرانداز ہونے کی سیاست کررہا ہے، اب یہ سیاست ریاست کی تباہی کا سبب بن رہا ہے، لیکن ذمہ دار ہمیشہ ایک سیاستدان کو ایک سیاسی حکومت کو قرار دیا جاتا ہے۔
تو اِس اعتبار سے کم از کم ہم اس صورتحال سے مطمٸن نہیں ہے اور یہ چیزیں فوری طور پر ٹھیک ہو جانی چاہیے۔
🌺صحافی کا سوال
تو اب یہ جو عمران خان اور اسٹبلشمنٹ کے حوالے سے تین تجاویز سامنے آٸی ہے کہ پی ڈی ایم عمران خان کے ساتھ مل کر بیٹھے، تین ایشو جو ہے ان کو ڈسکس کرے، ایک نٸے آرمی چیف کی تعیناتی کا مسٸلہ، انتخابی اصلاحات کا مسٸلہ، اور الیکشن کا ٹاٸم فریم، تو کیا آپ اسٹبلشمنٹ کے کہنے پر عمران خان کے ساتھ بیٹھے گے؟
🌺مولانا فضل الرحمن کا جواب
دیکھیے بات یہ ہے جس حکومت کے خلاف ہم نے ساڑھے تین سال تحریک چلاٸی ہے، جس کو ہم نے سلیکٹڈ کہا ہے، اور اس سلیکٹڈ کے خلاف پارليمنٹ نے فیصلہ دیا ہے، سیاسی پارٹیوں نے دیا ہے، اور آج ایک نٸی حکومت وجود میں آٸی ہے، ایک طرف ملک کی معشیت ڈوب رہی ہے اور اتنا بھی مہلت سیاسی حکومت کو نہیں دی جارہی ہے کہ وہ ملک کی معشیت کو اٹھاسکے، اور تاثر دیا جارہا ہے کہ شاٸد عمران خان نے تو اتنا نقصان نہیں کیا تھا بلکہ اب جو حکومت آٸی ہے یہ اس سے کہی زیادہ نااہل ہے، عمران خان کو تمام اداروں نے چاہے اسٹبلشمنٹ ہو، چاہے عدلیہ ہو، اُس نے فل سپورٹ دیا ہے اور ہر سطح پر اُن کی حوصلہ افزاٸی کی ہے، لیکن جب سے نٸی حکومت آٸی ہے دونوں قوتیں ایک طرف غیر جانبدار بھی وہ ہیں، نیوٹرل بھی وہ ہیں، اور اِس حکومت کے لیے روز روز نٸے مسائل پیدا کرنا، اور روز روز اس کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرنا، یہ رویے بھی اِس وقت ہم دیکھ رہے ہیں، اور نٸی نٸی تجویزیں آرہی ہیں نیا الیکشن ہونا چاہیے، یہ ہونا چاہیے وہ ہونا چاہیے، یہ تجویز کسی صحافی کی نہیں ہے، یہ تجویز ایک سافٹ مداخلت کا نتیجہ ہے، ہم نا ہارڈ مداخلت کو تسلیم کرتے ہیں، نہ سافٹ مداخلت کو تسلیم کرتے ہیں، ہمیں آٸین کے مطابق اپنا کام کرنے دیجیے، روز روز آٸین کی ناک موم کی ناک بناکر جدھر موڑ دی جاٸے، جو چیز کل قومی اسمبلی میں ان کے لوگوں کے لیے ٹھیک تھی، آج وہی چیز ہمارے لیے گناہ بن گٸی، ایک مہینہ پہلے جو فیصلہ جن الفاظ میں آیا تھا اُس پر عمل درامد ہوا، اب عمل درامد کے بعد کہا جارہا ہے کہ پتہ نہیں ہم نے ٹھیک کیا کہ غلط کیا، یہ چیزیں عدلیہ اور ججز کے حق میں بھی اچھی نہیں جارہی، اور ملک بحرانوں سے ڈوبتا ہے، معشیت بحرانوں سے ڈوبتی ہے، بحران کون پیدا کررہا ہے، میں دھڑلے سے کہہ رہا ہوں کہ بحران ادارے پیدا کررہے ہیں، ادارے خدا کے لیے اپنے داٸرہ کار میں واپس چلے جاٸے، سیاستدانوں کو اپنے داٸرہ کار میں کام کرنے دیا جاٸے، پارليمنٹ کو کام کرنے دیا جاٸے، روز روز اس قسم کی مداخلتیں وہ نظام کو معطل کردیتی ہے، اور معطل ہونے میں کوٸی دشمن ہی فاٸدہ اٹھاسکتا ہے، کوٸی خیرخواہ اس میں کردار ادا نہیں کرسکتا۔
تو یہ عجیب بات ہے کہ جب کوٸی بات عمران خان کے حق میں جاتی ہے تو پھر ٹھیک، اگر اس کے گلے پڑتی ہے تو پھر دوبارہ سماعتیں، تو یہ چیزیں نہ پیدا کی جاٸے، ہم ان باتوں کے ساتھ نہ کمٹمنٹ کرسکتے ہیں اور اگر وہ ہمیں بے بس سمجھتے ہیں تو وہ اور بات ہے۔
🌺صحافی کے سوال
یہ جو صورتحال اس وقت نظر آرہی ہے اسٹبلشمنٹ کو بہر حال موجودہ صورتحال پر انہیں بھی تشویش ہیں، تو کیا آپ کو وہ مجبور کرتی ہے تو آپ مجبور نہیں ہوں گے، کیوں کہ شہباز شریف یا مسلم لیگ نون کا جو طریقہ کار رہا ہے اُس سے آپ تھوڑے بہت پہلے سے شاکی ہے، آپ نے تھوڑے دن پہلے بھی کہا تھا کہ شریف خاندان کو اتنا نرم اور شریف نہیں ہونا چاہیے، تو اگر وہ مجبور ہوتے ہیں تو آپ کو بھی مجبور ہونا پڑے گا؟
🌺مولانا فضل الرحمن کا جواب
حضرت میں یہ بات آج واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ نواز شریف تین بار وزیراعظم رہ چکا ہے، شہباز شریف تین دفعہ وزیراعلی رہ چکا ہے، اس کے پارٹی کے لوگ منسٹر رہ چکے ہیں، سب ملک کے معزیزین ہیں، معاشرے کے ایک معزز طبقے سے وابستہ لوگ ہیں، ایک ایک کو پکڑ کر انہوں نے جیلوں میں ڈالا، سی کلاس میں ڈالا، ان کو گالیاں دی، ان کو عوام میں بدنام کرنے کی کوشش کی گٸی، سارے حربے استعمال ہوٸے لیکن جو اُس کے حکومت میں گپلے ہوٸے ہیں تو اب تک ہم کیوں خاموش ہیں یہ میری شکایت اپنی حکومت سے ضرور ہیں، اور ہمیں اپنے اختیارات صحیح طور پر استعمال کرکے بلکل آٸین و قانون کے مطابق کوٸی بھی ناجاٸز مقدمہ کسی بھی کے خلاف اُس کی میں مخالفت کروں گا، لیکن اگر کوٸی جاٸز معاملات ہیں، صحیح معاملات ہیں، گراونڈ پر انہوں نے ملک کو تباہ کیا ہے، اُس حوالے سے تو ہمیں کم از کم فوری طور پر اقدامات کرنے ہوں گے، اور ان کو بتانا ہوگا کہ یہ ہوتا ہے کسی غلط کام کو پکڑنا اور کٹہرے میں کھڑا کرنا۔
🌺صحافی کا سوال
اس ساری صورتحال میں جو ہمیں نظر آرہا ہے عمران خان آپ کو مجبور کررہا ہے اور اسٹبلشمنٹ کو بھی اس نے مجبور کردیا ہے۔
🌺مولانا فضل الرحمن کا جواب
عمران خان میں یہ صلاحيت ہی نہیں ہے کہ وہ کسی کو مجبور کرسکے، نہ وہ اتنی بڑی سیاسی قوت ہے، ہاں اگر کوٸی شخص اندر سے بد نیت ہو اور وہ چاہتا ہوں کہ میں کوٸی بحران پیدا کرو تو اس کی کسی دھمکی یا بھڑک کو بنیاد بناکر پَر کو پرندہ بنانا ملک کے اندر کوٸی مشکل کام نہیں، تو یہ چیزیں اس وقت ہمارے ملک کے اندر چلتی ہے۔
🌺صحافی کا سوال
تو جو اس وقت مسلم لیگ کی قیادت ہے وہ تو ایسا نہیں سمجھتی، انہوں نے تو ابھی تک اس قسم کا کوٸی شک ظاہر نہیں کیا کہ جس سے بات کرکے وہ لوگ آٸے تھے تو وہ اسٹبلشمنٹ وہ تو اب بھی اسے نیوٹرل سمجھتے ہیں اور وہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ نیوٹرل ہیں۔
🌺مولانا فضل الرحمن کا جواب
میں بھی ان کو نیوٹرل ہی دیکھنا چاہتا ہوں عدلیہ کو بھی، فوج کو بھی، جنرلز کو بھی، لیکن اگر بعض واقعات سے ہمیں اس قسم کی خوشبو آنے لگ جاٸے تو بعض لوگ خاموش ہو جاتے ہیں، ہم ذرا بول لیتے ہیں، سو اتنی سی بات ہے، اور ہم بجا طور پر احساس کرتے ہیں، بلاوجہ احساس نہیں کرتے، تو یہ کچھ چیزیں سامنے آرہی ہے۔
🌺صحافی کا سوال
تو آپ کیا سمجھتے ہیں یہ جو موجودہ سیاسی بحران ہے اس کو آپ کی حکومت اور پی ڈی ایم کا جو الاٸنس ہے وہ سنبهال لے گی؟
🌺مولانا فضل الرحمن کا جواب
حضرت کوٸی چیز ہی نہیں ہے، کوٸی بحران ہی نہیں ہے، خدا کے لیے ادارے خاموش بیٹھ جاٸے کچھ بحران نہیں ہے، عمران خان ہمارے لیے چٹکی بھی نہیں ہے چٹکی، ہم اس کو چٹکی برابر بھی نہیں سمجھتے، لیکن اس کو ہمارے سامنے بلا بناکر پیش نہ کیا جاٸے، ہم اس کے اوقات جانتے ہیں وہ ہمیں جانتا ہے، ایسا کوٸی مسٸلہ نہیں ہے، بلاوجہ اگر ایک بحران پیدا کرنا ہے تو عام آدمی کو بازار میں کھڑا کردو، ڈرامے بناکر، ویڈیو بناکر کہ بوڑھا شخص ویل چیٸر میں بیٹھ کر ان کے جلسے میں آرہا ہے کہ خدا کے لیے ہم تو بھوک سے مررہے ہیں، اس قسم کی ڈرامہ بازی ملک کے اندر نہیں چلے گی، بحران میں سیاسی جماعتوں کو کون مبتلا کررہا ہے اس پر ہمیں کھل کر بات کرنی ہوگی، میں کسی کو راضی کرنے کے لیے سیاست نہیں کررہا، میں ایک نظریاتی آدمی ہو، میں بڑے سے بڑے آدمی کو بھی ناراض کرتا ہو لیکن خلوص نیت کے ساتھ ان کو مشورہ دیتا ہوں کہ آپ یہ کام غلط کررہے ہیں، آپ کی اس کام سے مشکلات پیدا ہوں گی، اور اگر کوٸی پراٸم منسٹر ہے تو اسے یونٹی آف کمانڈ حاصل ہے، تمام ادارے اس کے ڈاٸریکشن کو دیکھ کر آگے چلے ، یہاں پر تو حکومت کو کہا جاتا ہے کہ آپ کو ہمارے ڈاٸریکشن پر چلنا ہوگا ورنہ پھر آپ کی حکومت کے لیے ہم بحران پیدا کردیں گے، تو میرے خیال میں یہ روش کبھی بھی صحیح نہیں ہے اور اس کو ہمیں ٹھیک کرنا پڑے گا۔
🌺صحافی کا سوال
مولانا صاحب سیمپل سی اک چھوٹی سی بات میرے ذہن میں آرہی ہے کہ اس وقت مولانا فضل الرحمن کے، آصف زرداری کے اور شہباز شریف کے یا مسلم لیگ ن کی یہ کلیدی پارٹیاں ہے یہ اس وقت حکومت کررہی ہے اور آپ تینوں کے جو سٹانس ہے اس میں فرق نظر آرہا ہے، مطلب آصف زرداری صاحب کی طرف سے ابھی تک ایسی کوٸی بات سامنے نہیں آٸی کہ وہ نیوٹرل نہیں سمجھتے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرف سے کوٸی کردار ادا کیا جارہا ہے۔
🌺مولانا فضل الرحمن کا جواب
سب کی سوچ ایک جیسی ہے کوٸی بولے گا کوٸی نہیں بولے گا، بس اتنی سی بات ہے ، اگر کسی طرف سے بات نہیں آٸی تو اس کا یہ معنی بھی نہیں کہ اس کے تحفظات نہیں ہے، سب کو اپنی جگہ یہ شکایتیں ہیں۔
بڑی مہربانی سر
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر ٹیم جے یو آٸی سوات
#teamjuiswat
ایک تبصرہ شائع کریں