اسلام آباد: قائدِ جمعیۃ حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب کی اہم پریس کانفرنس
24 جولائى 2022
بسمہ اللّٰہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
چونکہ قومی اہمیت کا حامل ایک مسٸلہ ہے اور پنجاب کے انتخابات، وزیراعلی کا وہاں چناٶ اور اُس کے بعد وہاں ہنگامی بنیادوں پر مسٸلہ عدالت میں لے جانا، فوری طور پر اُس کو سماعت کے لیے منظور کرنا، یہ ساری چیزیں ہر پاکستانی شہری کو یہ احساس دلاتی ہے کہ عدالت جو کچھ بھی کررہی ہے وہ یا تو ایک دباو کے تحت کررہی ہے اور یا اُن کی کوٸی اپنی ایسی دلچسپی ہے جس پر اُن کے ماضی کے فیصلے شاہد عدل ہے، اس لیے جمعیت علما اسلام پاکستان اِس مقدمے میں فریق بننے کا اعلان کرتی ہے، اور اِس سلسلے میں ہم نے اپنے آٸینی اور قانونی ماہرین کو ہدایات جاری کردی ہے تاکہ وہ اس حوالے سے عدالت کو درخواست دے سکے۔
پاکستان کی دستور سازی سے لے کر دستور کی بقا کے لیے اور انصاف کی تقاضوں کی تکميل کے لیے جدوجہد جمعیت علما اسلام کو اپنے آکابر سے ورثہ میں ملی ہے، اور آج بھی اِس نازک موقع پر اپنے فرض کی تکميل کے لیے فرنٹ لاٸن پر اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ عجيب عجيب نٸی نٸی باتیں عدالتی ماحول کے اور اُن فضاوں سے جو اُٹھتی ہے، عام آدمی کے کانوں میں پڑتی ہے، اُنہیں اِس پر تعجب ہورہا ہے، ماضی میں جو فیصلے کیے گٸے وہاں کہی بھی یہ سوال نہیں اُٹھایا گیا، اور پارٹی لیڈر ہی پارٹی فیصلوں کا آخری اختیار رکھتا ہے، پوری دنیا کا نظام یہی ہے کہ کسی بھی ادارے کا سربراہ، کسی بھی پارٹی کا سربراہ، کسی بھی حکومت کا سربراہ وہی آخری اور فیصلہ کن قوت ہوتی ہے باقی تو اُس کے ماتحت ہوتے ہیں، اُس کو تجویز دے سکتے ہیں، وہ اُن سے مشورہ لے سکتا ہے، لیکن پھر بھی آخری فیصلہ اُسی کا قرار دیا جاتا ہے، آج یہ نٸی بات چھیڑ دی گٸی ہے کہ پارلیمانی پارٹی کا فیصلہ یا پارٹی ہیڈ کا فیصلہ، پارليمان کے اندر بعض اوقات پارٹی کا سربراہ پارلیمنٹ کا بھی ممبر ہوتا ہے اور پارليمانی سربراہ بھی ہوا کرتا ہے، یہ بھی ہوتا ہے کہ پارٹی کا سربراہ پارلیمنٹ سے باہر ہوتا ہے، پارليمانی پارٹی پارليمنٹ کے اندر ہوتی ہے، لیکن وہ پارٹی کے نظم کے ماتحت کہلاتی ہے، روزمرہ کے چھوٹے بڑے معاملات پارليمنٹ کے اندر پارليمانی پارٹی طے کرتی ہے لیکن بعض اہم فیصلوں پر پارٹی قیادت ہی انہیں ہدایات جاری کرتی ہے ، ایک بڑی واضح بات کو ایک معروف معاملے کو، ایک بدیہی مسٸلے کو نظری مسٸلہ بنادیا گیا دور آج اِس پر بحث ہورہی ہے ، جب کے آپ جانتے ہیں کہ پرویز الہی صاحب کے صاحبزادے مونس الہی صاحب انہوں نے اِس لیٹر کے بعد جو چوہدری شجاعت صاحب نے لکھا، خود اعلان کردیا کہ اب ہم ہار چکے ، وہ تو پارلیمنٹ کے اندر پارليمانی پارٹی کا حصہ، اور اپنے والد محترم کے حوالے سے فوری طور پر خط کا معنی سمجھ لیتے ہے، لیکن تعجب ہے کہ پاکستان کی عدالت عظمی وہ آج اس بات پر بحث کررہی ہے کہ ہمیں مسٸلہ سمجھ میں نہیں آرہا، ہمیں مسٸلے کو سمجھنا ہے، یہ چیزیں میرے خیال میں ایک دانشور کے لیے قابل قبول نہیں ہوسکتی۔
اِسی لیے ہم مطالبہ کررہے ہیں کہ یہ کیس جو اِس وقت تین رکنی بینچ کی زیر سماعت ہے یہ سپریم کورٹ کا فل کورٹ سنے، سپریم کورٹ کے تمام ججز، یہ ہمارا متفقہ مطالبہ ہے، پورے حکومتی اتحاد کا مطالبہ ہے، اور صرف تین حضرات پر بحث ہورہی ہے ایسے فیصلے پھر عام ماحول میں لوگوں کا ذہن قبول نہیں کرتا، ہم سمجھتے ہیں کہ عدالت کا وقار بحال رہے اور اُن کے فیصلوں کو ہر شخص دل و جان سے قبول کرے۔
تو ایک تو آج ہم اِس بنیادی نکتے کی بنیاد پر بات کررہے ہیں کہ ہمیں فل کورٹ سپریم کورٹ کا چاہیے، تین یا پانچ ججز کا پینل وہ شاٸد اب انصاف کے حوالے سے لوگوں کے لیے اُن کا فیصلہ قابل قبول نہیں ہوسکے گا۔
یہاں پر آج بات ہورہی ہے کل بھی میں نے اِس پر بات کی تھی کہ ریاست کمزور ہورہی ہے، کسی بیرونی دشمن کے ہاتھوں نہیں ہمارے اپنے اداروں کی سیاست میں مداخلت کی وجہ سے، حکومتی نظام کو مظطرب رکھا جارہا ہے، حکومت کو حکومت کرنے دے، حکومت نے ایک چیلنج کی طور پر اِس نظام کو قبول کیا ہوا ہے، چار سالہ غلاظتیں قوم کے اوپر ایک کوہ گراں بن کر جب یہ لوگ مسلط رہے، آج جب اُن سے جان خلاصی ہوٸی ہے تو اُن سارے مشکلات سے نکلنا ایک چیلنج ہے، لیکن مداخلت کے نتیجے میں اگر حکومتی نظام مظطرب رہتا ہے، کنفیوژن رہتی ہے، تو ادارے بھی کام نہیں کریں گے، مالیاتی ادارے بھی کام نہیں کریں گے، انتظامی ادارے بھی کام نہیں کریں گے اور عام آدمی بھی اپنے گھر میں پریشان اور سرگرداں رہے گا۔
تو اِس اعتبار سے ریاست کمزور ہو جاتی ہے اور اگر ریاست کمزور ہوتی ہے تو میرے خیال میں اُس حوالے سے پھر میں ایک بات بڑی وضاحت کے ساتھ کہنا چاہوں گا کہ ہمارے اداروں میں یقیناً کچھ افراد ایسے ہیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد پھر وہ ایکسپوز ہو جاتے ہیں، پہلے انہوں نے کوور لیا ہوتا ہے جبکہ وہ دوران ملازمت ایک پارٹی کے ساتھ وابستگی رکھتے ہیں، پی ٹی آٸی کے ساتھ وابستگی رکھ رہے ہیں، پھر میں اُن کو یہی مشورہ دوں گا کہ آپ دوران ملازمت ایک پارٹی کے لیے ادارے کو استعمال مت کرے، آپ مستعفی ہو، میدان میں آٸے اور میدان میں مقابلہ کرے اور پھر عوامی سطح پر مقابلہ کرے، ادارے کو استعمال مت کرے، کہ ریٹائرمنٹ کے بعد پھر پریس کلب کے سامنے مظاہرے کرتے ہیں اور اپنی بات کررہے ہیں ، اِس قسم کی صورتحال سے ہمیں نکلنا چاہیے، اور اِس ملک پر ادارے رحم کرے، اپنی طاقت دکھانا، اپنی بھاری رسی دکھانا اور اِس خواہش میں رہنا یہ شاٸد ملک کو نقصان پہنچا رہا ہے۔
جہاں تک عمران خان کی سیاست ہے اُس کی پوری سیاسی زندگی ایک جھوٹے بیانیے پہ کھڑی ہے ، اُس کا نہ کوٸی مستقل نظریہ ہے، نہ کوٸی مستقل عقیدہ ہے، آٸے روز اُن کا بیانیہ تبدیل ہوتا رہتا ہے، اور اُس کی ڈپلی پر کچھ لڑکے اور لڑکیاں ناچتی رہتی ہے اور اِس کو پاکستان میں سیاست کہا جارہا ہے، کہاں گٸی پاکستان کے اندر شرافت اور وقار یکی سیاست، نظریے کی سیاست، میرے نزدیک اگر وہاں پر کوٸی اُس کی مستقل حیثیت ہے وہ ایک ہی ہے جو ہم نے پہلے دن سے کہا ہے کہ بیرونی قوتوں کی ہدایات، اُن کی خواہشات، اور اُن کی دولت کی پشت پناہی میں بطور مشنری پاکستان میں کام کرنا، مشن کیا ہے ریاست کو تباہ کرنا اور ریاست کے نظریے کو تباہ کرنا، اِس کے علاوہ کوٸی چیز ہو نہیں سکتی تھی۔
تو اِس لحاظ سے ہم اِس محاذ پر ایک بھرپور جنگ لڑنے کے لیے تیار ہیں، یہ ملک کی بقا کا سوال ہے، ملک کی عزت و وقار کا سوال ہے، بین الاقوامی برادری کے ساتھ ہم نے ایک برابری کی حیثیت پہ چلنا ہے، لیکن ہمیں کمزور کیا جارہا ہے، آج کشمیر ہمارے ہاتھ میں نہیں رہا ہے اور گلگت بلتستان ہمارے ہاتھ میں نہیں رہا ہے، ہم خود اُن اصولوں کی خلاف ورزی کررہے ہیں کہ جن اصولوں کے لیے ہم چوہتر سالوں تک ہند و س تا ن کو ذمہ دار قرار دیتے رہے، فارن فنڈنگ کیس، ایک دن الیکشن کمیشن کی تعریف ہوتی ہے، اُس کے ضمنی نتائج تسلیم کیے جارہے ہیں اور اگلے دن اُن سے استعفی کا مطالبہ کیا جارہا ہے، اِس لیے کے فارن فنڈنگ کیس کا معاملہ اِن کے سروں پر لٹک رہا ہے، اُس کو کون تحفظ دے رہا ہے، کیوں ادارے اِس حوالے سے اپنا فرض سرانجام نہیں دے رہے اور بلاوجہ ایک شخص کو آپ سہارا دے رہے ہیں، ہمارے لیے یہ چیزیں انتہائی تشویش کا باعث ہے، ہم اپنے تشویش کے اظہار کا حق رکھتے ہیں اور ہم کررہے ہیں، اور کل اِس کیس میں بطور جماعت کے فریق بنے گے اور ہمارے آٸینی ماہرین اُس میں اپنی درخواست جمع کریں گے اور فل کورٹ کا ہم مطالبہ کریں گے۔
🌺صحافی کا سوال
مولانا صاحب یہ بتاٸے کہ جس جماعت کو عدالت کا فیصلہ پسند آتا ہے وہ خوشیاں مناتی ہے، جس کو پسند نہیں آتا وہ اُس کے خلاف ہو جاتی ہے، کیا اِن عدالتوں کو تالے لگا دیے جاٸے، جو کچھ اِس وقت حکمران جماعتوں کی طرف سے سوشل میڈیا پر ججوں کے حوالے سے ہورہا ہے یا اُس سے پہلے پی ٹی آٸی والوں کی طرف سے ہورہا تھا، ڈالر کہاں چلا گیا ہے معاشی ماہرین سر پکڑ کر بیٹھ گٸے ہیں کہ یہ سیاستدان ہمارے ملک کے ساتھ کر کیا رہے ہیں، آخر کیا کیا جاٸے کسی کو بھی فیصلے پسند نہیں ہے۔
🌺مولانا فضل الرحمن صاحب کا جواب
میں نے آپ کو یہ بات بتاٸی ہے کہ ہم اُن کے فیصلوں کا اختیار نہیں چھین رہے ہیں، کس نے کہا ہے کہ ہم عدالت کے فیصلے کا اختیار چھین رہے ہیں، لیکن عدالت خود کہہ رہی ہے کہ ہمارے فیصلے پر آپ تبصرہ کرسکتے ہیں ، تو تبصرہ مثبت بھی آسکتا ہے منفی بھی آسکتا ہے، ہم آج بھی فل کورٹ کا مطالبہ اِس لیے نہیں کررہے ہیں کہ ہم خدانخواستہ اُن کے فیصلے کا اختیار چھین رہے ہیں، ہم اُن کو ایک بڑے فورم کے اندر فیصلہ کی درخواست کررہے ہیں۔
🌺صحافی کا سوال
مولانا آپ یہ سمجھ رہے ہیں جس طرح آپ نے ابھی کہا اسٹبلشمنٹ نیوٹرل نہیں ہے، لگتا یہی ہے جس طرح آپ نے باتوں میں بتایا کہ ابھی تک عمران خان کو سپورٹ کررہے ہیں۔
🌺مولانا فضل الرحمن صاحب کا جواب
میں نے یہ نہیں کہا، میں نے یہ کہا ہے کہ جس بعض لوگ ریٹائرمنٹ کے بعد ایکسپوز ہوٸے ہیں، تو اِس طرح کے لوگ آج بھی اگر اداروں کے اندر بیٹھ کر خاص کوور میں اور ادارے کو سیاست میں استعمال کررہے ہیں، اُن کا شوق ہے تو میدان میں آجاٸے۔
🌺صحافی کا سوال
مولانا صاحب یہ بتاٸے کہ یہ جو جج صاحبان کررہے ہیں کیونکہ عدلیہ کا ماضی اگر آپ دیکھے تو بہر حال اسٹبلشمنٹ کی زیر اثر رہی ہے تو کیا آپ نہیں سمجھتے کہ اسٹبلشمنٹ پیچھے اور عدلیہ کو آگے کیا گیا ہے، یا اسٹبلشمنٹ کی ان ڈاٸریکٹ انوالمنٹ سیاست میں ہے۔
🌺مولانا فضل الرحمن صاحب کا جواب
آپ کا سوال خود بتارہا ہے کہ کچھ نہ کچھ تو ہے کہ ادارے اداروں میں مداخلت کررہے ہیں، جب ادارہ اپنے ادارے سے باہر جاکر اثر رسوخ استعمال کرے گا، اپنی طاقت کے استعمال کو توسیع دے تو ظاہر ہے مشکلات تو پیدا ہوں گی، آپ کا سوال خود بتا رہا ہے کچھ نہ کچھ تو ہے۔
🌺صحافی کا سوال
مولانا صاحب آپ کیا سمجھتے ہیں کہ جو ادارہ ادارے میں مداخلت کررہی ہے تو یہ مداخلت پشاور سے ہورہی ہے یا راولپنڈی سے ہورہی ہے؟
🌺مولانا فضل الرحمن صاحب کا جواب
واہ آپ کا سوال بڑا زبردست ہے، جواب ہی نہیں اِس سوال کا، آپ کا سوال جی کو لگتا ہے۔
🌺صحافی کا سوال
محترم پاکستان کی تاریخ میں تین خط نمایاں ہوچکے ہیں، ایک قطری خط، ایک عمران خان جو لہرا رہے ہیں، اب یہ خط، پہلے والا وزیراعظم کھاگیا، یہ تیسرا خط کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں کہ وزیراعلی شپ بچے گی یا نہیں ؟
🌺مولانا فضل الرحمن صاحب کا جواب
میرے خیال میں ہمیں آپ کے سوال کو سنجیدگی سے لینا چاہیے، یہ خط جو چوہدری شجاعت نے لکھا ہے پارٹی لیڈر کی حیثیت سے لکھا ہے اور آٸین کے تقاضے کے مطابق لکھا ہے، اُس کے اپنے پارٹی نے اُس کو تسلیم کیا ہے، پارٹی اُس کی حیثیت اور اختیار کو سمجھ پاٸی ہے اور سمجھنے کے بعد اعلان کرتے ہیں کہ ہم شکست کھاگٸے، اُس کے بعد عدالت کے ماحول میں اِس مسٸلے کو اُٹھانا، یہاں پر سوالات پیدا ہورہے ہیں اور اِس پر میں آپ سے عرض کررہا ہوں کہ فل کورٹ اِس کو سنے، اور اِس پر ہم فریق بن کر پیش ہونا چاہتے ہیں۔
🌺صحافی کا سوال
فل بینچ اگر آپ کے خلاف فیصلہ دیتا ہے تو اُس سے آپ مطمٸن ہوں گے؟
🌺مولانا فضل الرحمن صاحب کا جواب
دیکھیے فیصلے سے ہم مطمٸن ہو یا نہ ہو ، لیکن فیصلے کے لیے ایک ادارہ ہوتا ہے جو فیصلہ کرتا ہے تو فیصلہ فیصلہ ہوتا ہے۔
🌺صحافی کا سوال
مولانا صاحب آج ن لیگ کے باقی لوگوں نے بھی پریس کانفرنس کی ہے جیسا آپ نے کہا کہ گورنمنٹ کی راہ میں رکاوٹيں ڈالی جارہی ہے، آپ کو واقعی الیکشن کی طرف مجبور کیا جارہا ہے، کوٸی پروپوزل آیا ہے پی ڈی ایم یا اِس میں شامل کسی جماعت کو؟
🌺مولانا فضل الرحمن صاحب کا جواب
نہیں ہمارے سامنے ایسی کوٸی بات نہیں، لیکن حکومتی اتحاد کا یہ فیصلہ ہے، ابتداٸی دنوں سے جب ہم ایک دفعہ سڑکوں کی تحریک سے اور استعفوں کی سیاست سے پارليمنٹ کے اندر عدم اعتماد کے طرف آٸے اور پھر اتحادی جماعتیں جو عمران خان کے ساتھ تھی تو انہوں نے اُس کا ساتھ چھوڑ کر ہمارے ساتھ ووٹ کیا، تو ظاہر ہے اب ہم جو وہ چار سال سڑکوں پہ رہے وہ پارٹیاں نہیں بلکہ اُن کے ساتھ اور پلس ہوگٸی تو اُن کی راٸے کو بھی ہمیں دیکھنا ہے، دو دفعہ فیصلہ ہوا ایک جب ابتدا میں میٹنگ ہوٸی تھی تو اتفاق راٸے سے فیصلہ ہوا تھا کہ ہم اپنی مدت پوری کریں گے ، اور ایک جو پرسوں لاہور میں ہوٸی اُس میں فیصلہ ہوا کہ ہم مدت پوری کریں گے، یہ تو تقریباً طے ہے۔
🌺صحافی کا سوال
کیا مقتدر حلقوں کی جانب سے پی ڈی ایم کے ساتھ قبل از وقت انتخابات کے حوالے سے کوٸی بات ہوٸی ہے ؟
🌺مولانا فضل الرحمن صاحب کا جواب
ہمارے سامنے ابھی تک کوٸی بات سامنے نہیں آٸی، جب آٸی نہیں ہے تو اُس پر تبصرہ قبل از وقت ہوتا ہے۔
بہت بہت شکریہ جی بڑی نوازش
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر ٹیم جے یو آٸی سوات
#teamjuiswat
ایک تبصرہ شائع کریں