قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو 3 اگست 2022


اسلام آباد قاٸد جمعیت و سربراہ پی ڈی ایم حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی پریس کانفرنس 
 03 اگست 2022
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم اما بعد
الیکشن کمیشن بہت سے لوگوں کو نااہل قرار دے چکی ہے، آج ہم اُس مرحلے میں داخل ہوچکے ہے کہ صاف نظر ارہا ہے کہ اُس نے ریاست کو اور ریاست کی عمارت کو زمین بوس کرنے کے لیے عالمی سطح پر مدد حاصل کی ہے، بلکہ یہ ایک عالمی ایجنڈے کے طور پر عالمی امداد حاصل کرکے اقتدار تک پہنچ کر پاکستان کے ریاست کو اکھاڑ پھینکنے اور ملک کے خاتمے کے لیے اِس نے اقتدار حاصل کیا، ضروری امر یہ ہے کہ آج پاکستانی قوم اور ہر وہ ادارہ، ہر وہ جماعت، ہر وہ فرد جو دفاعِ وطن کے جذبے سے سرشار ہے اور دفاع وطن کو اپنا فریضہ سمجھتا ہے، لازم ہوگیا ہے کہ اِس وقت وہ ریاست کے ساتھ کھڑے ہو، اور ریاست کی بقا اور اُس کی حفاظت کا فرض ادا کرے، اب کوٸی دوسرا آپشن نہیں رہا ہے۔
فارن فنڈنگ کیس میں ہوش ربا حقائق سے یہ ثابت ہوچکا ہےکہ وہ غیر ملکی کٹھ پتلی ہے، لاکھوں ڈالر، اربوں روپے غیر ملکی ایجنڈے کو پورا کرنے کے لیے وہ سیاست میں لایا، تین سو اکاون غیر ملکی کمپنیوں اور چونتیس غیر ملکی شہریوں سے غیر ملکی فنڈنگ لی گٸی، اور ہم تو ایک زمانے سے کہہ رہے ہیں، میں تو اول دن سے اِس مٶقف پر ہوں کہ اِس نے (ا س ر ا ٸی ل) سے بھی مدد لی ہے، اِس نے (ہ ن د و س تا ن) سے بھی مدد لی ہے، اور آج جو حقائق سامنے آٸے ہیں تو فنڈنگ دینے والے شہریوں کا تعلق (ا س ر ا ٸی ل)، بھارت، امریکہ، کینیڈا، ڈنمارک اور فن لینڈ سمیت کٸی ممالک کے ساتھ ہیں، میں یہ راٸے رکھتا ہوں کہ جن ممالک کے نام یہاں آٸے ہے وہ پاکستان کے خلاف بطور ریاست کے ہی نہیں سوچ رہے بلکہ پاکستان کی اسلامی حیثیت اور ایک اسلامی ریاست کے حوالے سے اُن کی سوچ دنیا کے سامنے آٸی ہے، یہی ممالک ہے کہ آج جن ممالک سے اِن کو فنڈ مل رہا ہے وہ پاکستان اور پاکستان کے نظریے کے بارے میں کیا سوچتے ہیں، لہذا پاکستان کا آٸین جو ہمارے ملک کے نظریے کا تعین کرتا ہے وہ اُس کے نشانے پہ ہے، اور ملک کی اِس اسلامی حیثیت کا خاتمہ اُن کے ایجنڈے پر تھا، جو ملک سامنے آرہے ہیں اُن کے اِس فنڈنگ سے یہ اندازہ لگ رہا ہے کہ اُن کا ایجنڈہ کیا تھا، اور انہوں نے اِس کو کس ایجنڈے کے تحت پاکستان میں اِن کیا تھا۔
سولہ بینک اکاونٹس الیکشن کمیشن سے چھپاٸے، اور عجيب بات یہ ہے آدمی کو ہنسی آتی ہے یکدم سے بیانات شروع کیے کہ فیصلہ ہمارے حق میں آگیا، ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے ہیں، فیصلہ ہمارے حق میں آگیا، لیکن تھوڑا سا جب ہوش آیا تو آج الیکشن کمیشن کے سامنے مظاہرہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ ہمارے خلاف آگیا، بھٸی تمہارا کل کیا ہوش تھا تمہارا آج کیا ہوش ہے، ایک دن الیکشن کمیشن کو خراج تحسین پیش کرتے ہو، اگر پنجاب میں ضمنی الیکشن کا فیصلہ آپ کے حق میں آتا ہے، دوسرے دن آپ الیکشن کمیشن سے مستعفی ہونے کی بات کرتے ہے، اور آپ کو یاد ہوگا میں نے بنوں کی پریس کانفرنس میں یہ بات کہی تھی کہ اب وہ فوری طور پر ٹرن لے رہا ہے اور الیکشن کمیشن پر دباٶ ڈال رہے ہیں کہ وہ مستعفی ہو، وجہ کیا ہے؟ ظاہر ہے ابھی تازہ دو تین دن کا ضمنی الیکشن تو نہیں ہوسکتا، لیکن فارن فنڈنگ کیس اب اُن کے دماغ پر سوار ہوگیا ہے، اب وہ الیکشن کمیشن کو بلیک میل کررہا ہے، سو الیکشن کمیشن بلیک میل نہیں ہوا، اُس نے فیصلہ دے دیا ہے، لیکن یہ 2013 تک کے اکاونٹس کا حساب کتاب ہے جب ایک دفعہ 2013 تک کے اکاونٹس اِس طرح چوری کے نکل آٸے ہے، تو اب ہم پوچھتے ہیں کہ 2013 کے بعد کا بھی حساب لیا جاٸے۔
ہم اُن کے خلاف کوٸی مدعی نہیں تھے، مدعی بھی اُن کی پارٹی ہی کا ایک پاونڈر ممبر تھا اکبر ایس بابر صاحب، جس استقامت کے ساتھ اپنا مقدمہ لڑا اور انہی کو سرخروٸی ملی ہے، الیکشن کمیشن ایک ادارہ ہے وہ اُن کے حقائق کو نہیں جھٹلا سکا، ثبوت فراہم کیے ہیں تو سٹیٹ بینک نے فراہم کیے ہیں، وہ ایک ادارہ ہے اور اُن کے حکومت کے دوران بھی کیے ہیں، سکروٹنی کمیٹی اگر اُس نے اِن کے خلاف رپورٹ دی ہے، تو اُن کی حکومت کے دوران میں دیے ہیں، ایسا بھی نہیں کہ خدانخواستہ اُن کے مخالف کسی حکومت نے اِن رپورٹوں کو زبردستی نکلوا کر الیکشن کمیشن کو پیش کروایا ہے۔
تو اِس اعتبار سے یہ ضرور تھا کہ آٹھ سال سے التوا میں پڑا ہوا ایک مقدمہ کیوں پڑا ہوا ہے، اِس پر ضرور سیاسی لوگوں نے بات کی ہے لیکن دعوی کرنا، مقدمہ چلانا، اُس کی پیروی کرنا، اُس حوالے سے ثبوت پیش کرنا، سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ، سٹیٹ بینک کے معلومات، یہ سب کچھ اِس تو سیاست سے کوٸی تعلق نہیں ہے، یہ تو سب اداروں نے کیا ہے اور حقائق کی بنیاد پر یہ سارا کچھ کیا ہے، اور پھر اکبر ایس بابر صاحب نے 2011 میں ہی جیسے کے اُن کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے عمران خان کو ذاتی طور پر اِن تمام غیر قانونی دھندوں سے اور اِن جراٸم سے آگاہ کیا تھا، جو اُن کے بیانات کہتے ہیں، تو پھر اِس کو یہ کہنا کہ مجھے تو اِن چیزوں کا علم ہی نہیں تھا یہ پھر ایک عذر لنگ ہے، بدتر گناہ ہے، اِس قسم کا عذر وہ کیسے قوم کے سامنے پیش کرسکتا ہے کہ مجھے پتہ ہی نہیں تھا، اپنے دستخطوں سے بینک اکاونٹس کھلواٸے، اور الیکشن کمیشن کے فیصلے میں وہ تمام رپورٹ تفصیل سے لکھ دی گٸی ہے ، بینک نمبرز،رز اُس میں آنے والے تمام رقوم کی تفصیل، ریکارڈ بتا رہا ہے کہ عمران خان کے اپنے دستخطوں سے آنے والے درخواستوں پر یہ اکاونٹس کھولے گٸے، سٹیٹ بینک آف پاکستان نے ہزاروں دستاویزات پر مبنی ناقابل تردید شواہد الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھجواٸے، یہ ریکارڈ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے پاکستان بھر کے تمام بینکوں اور مالیاتی اداروں سے جمع کیا تھا، صرف ایک بینک کی بات نہیں ہے، صرف ایک ادارے کی بات نہیں ہے۔
میں نے کسی زمانے میں کہا تھا کہ بھٸی صرف عمران خان مجرم نہیں ہے، یہ پورا ٹبر مجرم ہے، تو آج بھی میں کہنا چاہتا ہوں کہ یہ پوری پارٹی اِس تمام تر جرم کی ذمہ دار ہے، اور اُن کے مرکزی عہدیدار ہو یا صوبائی عہدیدار ہو، یہ سب اِس جرم میں شریک ہے اور اِن سب کے خلاف جرم ثابت ہوچکا ہے، اور تمام سیاسی جماعتيں اِس بات پر متفق ہیں، اور اپنی حکومت سے یہ کہہ رہی ہے، اُن کو مشورہ دے رہی ہے کہ فوری طور پر اب اُن کے خلاف کارواٸی کی جاٸے، اور ظاہر ہے کہ عمران خان خود ہو یا ڈاکٹر عارف علوی ہو، اِن کو تو فوری طور پر استعفی دے دینا چاہیے، اپنی پارٹی کے عہدے سے بھی اور ملک کی صدارت سے بھی، کیوں کہ اب یہ مجرم ثابت ہوچکے ہے۔
ایک مجرم جو رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہے اور اب کبھی کہتا ہے جن لوگوں کے نام لیتا ہے وہ دنیا سے جاچکے ہیں، تو ملبہ اپنے مرحوم ساتھیوں کے اوپر ڈالنے کی کوشش کررہا ہے، کس قدر بونڈی حرکت ہے۔
پی ٹی آٸی کے عہدیداران اب فوری طور پر اُن کی گرفتاریاں عمل میں لاٸی جانی چاہیے ، پارٹی کے چار ملازمین کو نجی اکاونٹس میں ملک کے اندر اور باہر سے پیسہ جمع کرکے اُن کو اجازت کیوں دی گٸی، گھر کے چار ملازمين ہیں اُن کے نام پر اکاونٹس کھلے ہوٸے ہیں، اُن میں پیسہ آیا ہوا ہے، تو اُن کو گرفتار کرکے مذید تفصيلات حاصل کی جاٸے، یہ قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے اور اِس میں پارٹی چیٸرمین ہو یا سیکرٹری جنرل ہو، ڈاکٹر عارف علوی ہو، یہ سب کچھ انہی کے اجازت سے ہوا ہے ، اور یہ سب لوگ جرم کے مرتکب ہیں۔
یہ آج کی اجلاس میں دوستوں نے جو ذکر کیا ہے میرے خیال میں میں پھر ایک دفعہ دہرانا چاہتا ہوں کہ اب اِس وقت مسلٸلہ سٹیٹ کی بقا کا ہے، ریاست کی بقا کا ہے اور ریاست کی بقا کے لیے، ریاست کی دفاع کے تمام ذمہ داران اور سرزمین وطن کے دفاع کے جذبے سے سرشار اُن تمام اداروں، تمام قوتوں اور تمام تنظیموں کو ایک جان ہوکر اِس ملک کو بچانے کی فکر کرنی چاہیے، سب چیزوں سے ہمیں بالاتر ہونا چاہیے، اور ایک صف میں کھڑے ہوکر ہم اپنے ملک کا دفاع کرے، اِس کی بقا کی جنگ لڑے، اور اِس قسم کے جرائم پیشہ طبقوں کو ملک کی سیاست سے اُکھاڑ باہر پھینکے، اِس کو تاریخ میں عبرت کا علامت بنانا چاہیے، تاکہ آنے والی نسلیں اِس قسم کی لوگوں کی انجام سے عبرت حاصل کرے۔ خدا حافظ

ضبط تحریر: #سہیل سہراب
ممبر ٹیم جے یو آٸی سوات
#teamjuiswat 

0/Post a Comment/Comments