پشاور: قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا صوبائی جنرل کونسل کے اجلاس سے خطاب 17 ستمبر 2022

 

پشاور: قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا صوبائی جنرل کونسل کے اجلاس سے خطاب
 17 ستمبر 2022
خطبہ مسنونہ کے بعد
میرے لیے خوشی اور سعادت کی بات ہے کہ صوبہ خیبر پختونخواہ جمعیت کی اس عمومی کے اجلاس میں آپ کے ساتھ شریک ہورہا ہوں، اگرچہ میرے مصروفيات کی ترتیب تو کچھ اور تھی لیکن وارنٹ ایسے تھے کہ اُس میں ضمانت نہیں ہو پارہی تھی، اور اِس طرح مجھے آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کا شرف عطا کیا گیا، صوبے کی صورتحال پر آپ حضرات نے بحث کی ہوگی، ساتھیوں نے گفتگو کی ہوگی اور یقیناً جماعت کے بہتر مستقبل کے لیے آپ نے اپنے آرا اپنے تجاویز دیں ہوگی، اللّٰہ تعالیٰ اُس میں برکت نصیب فرمائے اور قوم اور اُمت کی رہنمائی کے لیے اُسے ذریعہ ثابت فرمائے۔
جماعتوں کے اندر خالص نظریاتی لوگ بھی ہوتے ہیں اور مولفۃ القلوب بھی ہوا کرتے ہیں اور کوئی زمانہ اِس سے خالی نہیں ہے، لیکن جماعتيں مخلص اور نظریاتی کارکنوں کو اہمیت بھی دیتی ہے، اُن کو ترجيح بھی دیا کرتی ہے، اور جو لوگ جماعت میں شامل ہوتے ہیں اور اُن کے سامنے اغراض و مقاصد ہوتے ہیں دنیوی اغراض و مقاصد، مال سے متعلق ہو یا جاہ سے، جماعت یہ کوشش کرتی ہے کہ ایسے لوگوں کو بھی اپنے اندر جذب کرلے اور اُن کے احساس کو تبدیل کردے، اُنہیں بھی خالص نظریاتی ڈھانچے میں لے آئے، یہ پھر جماعت کا کام ہے، کارکنوں کا کام ہے کہ کس طرح کس حکمت سے وہ یہ کرسکتے ہیں، اب اِس حوالے سے اللّٰہ رب العزت نے جو ہمیں تعلیمات دی ہے اور ایک طالب علم کی طور پر اگر میں اُس سے کچھ اخذ کرسکا ہوں تو اللّٰہ رب العزت فرماتے ہیں کہ ” جو لوگ اللّٰہ پر ایمان لائے اور اُس نے دین کا عقیدہ اپنایا، اور صبح و شام وہ اللّٰہ کو یاد کرتے ہیں تاکہ اللّٰہ راضی ہو جائے“، تو ایسے لوگ بعض دفعہ کچھ ناگوار حرکتیں بھی کرتے ہیں، ناگوار باتیں بھی کرلیتے ہیں، اُس کو برداشت کرلیا کرو، کیوں کہ اندر سے ٹھیک ہے، چالیس بیالیس سالہ سفر میں مجھے خود ایسے نوجوانوں سے اپنے ساتھیوں سے پالا پڑا ہے کہ اجلاسوں میں وہ کچھ کہہ دیتے ہیں جو بظاہر ہر قسم کے اداب سے خالی ہوتے ہیں، لیکن پھر جب ہم اُن کو میدان میں دیکھتے ہیں تو کمربستہ، پسینہ پسینہ، دھوپ میں دوڑ رہے ہیں، کام کررہے ہیں، نہ دن دیکھتے ہیں نہ رات دیکھتے ہیں، آدمی سوچتا ہے کہ جو آدمی نہ دن دیکھتا ہے نہ رات دیکھتا ہے تو اُس نے اگر مجلس میں ایسی کوئی آدھ بات کہہ بھی دی ہے تو اُس کو برداشت کرلیا کرو، اور چوں کہ رسول اللّٰہﷺ کے زمانے میں دنیادار لوگ، سرمایہ دار لوگ، اپنے قوموں کے سردار، وہ جب مجلس میں آتے تھے تو خود کو بڑے لوگ سمجھتے تھے اور جب ہم بیٹھے ہو تو یہ غریب غربا پیچھے ہو، تو اِس حوالے سے اللّٰہ رب العزت نے جو تعلیمات عطا فرمائی ولا تعدو عینک عنھم، اِن لوگوں سے آنکھیں نہ پھیرئے، اِن کو نظرانداز مت کیجیے، تاثر یہ ملے گا کہ آپ بھی دنیوی زندگی کی اِس زینت کو، خوبصورتی کو ترجيح دے رہے ہیں اور آپ کا مقصد بھی کہی دنیا ہے، تو ایک نظریاتی کارکن کے ساتھ رویہ اتنا پیارا اور محبت کا ہونا چاہیے کہ یہ تاثر نہ ملے کہ چوں کہ یہ بہت بڑا سرمایہ دار اور جاگیردار ہے اور مجھے تو یہی لوگ چاہیے، اِن سے میرا معاشی مفاد وابستہ ہے، یہی محترم ہے کارکن کو پیچھے دھکیل دو، یہ قرآن کی تعلیمات نہیں ہے، اور جو لوگ سردار تھے اپنے آپ کو بہت بڑے لوگ کہتے تھے، جن کے دلوں میں دین نہیں دنیا تھی، اُس کے بارے میں اللّٰہ تعالی نے فرمایا کہ ” جن کے دلوں کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کرلیا اور اُن کے دلوں میں ہم نے دنیا کی محبت ڈال دی، ایسے لوگوں کی پیروی مت کیا کرو، یہاں لفظ پیروی کا ہے اُن کی اطاعت نہ کیا کرو، بڑے لوگ وہ سوچتے ہیں کہ ہمارے پیچھے لوگ چلیں گے، اُن کا مزاج یہی ہوتا ہے ناں، وہاں لفظ بھی ایسے استعمال کیا کہ اِن کی جو خیال ہے کہ ہمارے پیچھے یہ لوگ چلیں گے، اُن کے پیچھے نہیں چلنا، یہ اپنے خواہشات کے پیروکار ہیں، اور خواہشات کے پیروکار کی پیروی آپ نے نہیں کرنی، اور اُن کا جو معاملہ ہے اُن میں ذیادتی ہے، یہ افراط کے مرتکب ہیں، اب یہ تفریط آپ نے کیسی کرنی ہے، یہ تقسیم کس طرح اللّٰہ پاک نے حکمت کے ساتھ بیان فرمایا، لیکن ساتھ ساتھ دنیادار بھی تو آتے تھے، اسلام قبول کرتے تھے، فتح مکہ سے پہلے والے اور فتح مکہ کے بعد والے تو فرق تو ہے، لیکن آپ کی تعلیمات یہ تھی کہ اِن کو اپنے اندر جذب کرو، اِن کو اپنے مقام پر لاو، دھکیلو مت، یہ کل آیا ہوا ہے آج ہمارا بڑا بننے کی کوشش کرتا ہے، تو اسلام اُصول دیتا ہے، جاہلیت میں کوئی اگر اپنے قوم کا بڑا تھا اسلام میں آنے کے بعد بھی اُس کو وہ احترام دیا جائے گا، وہ عزت دی جائے گی، وہ یہ نہ سمجھے کہ اُس وقت تو میری عزت تھی، یہاں آگیا تو میری تو کوئی عزت ہی نہیں کرتا، تو اُن کو عزت دینا، احترام دینا یہ ایک تربیتی گفتگو ہے، اور اللّٰہ کا دیا ہوا اک نظام ہے، کس حکمت کے ساتھ جماعتیں تشکیل دی جاتی ہیں، اُمت تشکیل دی جاتی ہے، کس طریقے سے ہر آدمی کو اُن کے مقام پر لینا اور اُس کے مطابق اُن کے ساتھ چلنا یہ ساری چیزیں ہے، اور پھر جب اُمت وجود میں آگئی تو دوسرے لوگوں کے ساتھ بھی بڑی حکمت کے ساتھ چلنا، ترجیحات بھی طے ہوں گی، اب مدینہ منورہ میں پہلی ریاست بنی، اب وہاں یہود بھی ہے نصاریٰ بھی ہے، اگر رسول اللّٰہ ﷺ اہل مدینہ کے ساتھ اور وہاں کے یہود و نصارٰی کے ساتھ الجھتے ہیں، تو پھر داخلی مشکلات اسلام کے مستحکم ہونے میں مشکلات پیدا کرسکتی، اور دوسرا یہ اصل دشمن مشرکین مکہ ہے، مشرکین مکہ کو تنہا کرنا، ایک محاذ پر جنگ لڑنا، ہم نے مختلف محاذ نہیں کھولنے، باقی محاذوں کو خاموش کردو، تو معاہدات کیے، ہم نے مدینہ کے اندر امن سے رہنا ہے، اور پھر کبھی وعدے کی خلاف ورزی نہیں کی، یہ نہیں کہ آج غرض پورا ہوگیا جانے دو، یہ کام بھی انہوں نے کیا ہے، رسول اللّٰہﷺ اور صحابہ کرام کی طرف سے کوئی بات نہیں تھی، اور صحابہ کرام آپ کے ساتھی تھے، بعض دفعہ ایسے واقعات رونما ہوجاتے تھے کہ خود رسول اللّٰہﷺ بھی حیران و پریشان ہو جاتے تھے، جس طرح غزوہ احد میں جو کچھ ہوا، فتح تھی، کس طرح میدان پلٹ گیا، صحابہ کرام شہید ہوگئے، اللّٰہ پاک بے ادبی سے محفوظ فرمائے یہ بھی احساس ہوا ہوگا کہ میں پیغمبر ہوں میں فیصلہ خود کرسکتا تھا، اِن سے میں نے مشورہ کیوں کیا، تو اب اللّٰہ تعالی ان کی مخلص صحابہ کی سفارش کررہے ہیں کہ نہیں آپ اپنے ساتھیوں پر غصہ نہ کرے ” اگر آپ کی طبعیت میں سختی اور درشتگی آگئی تو پھر تو یہ آپ سے دور ہو جائیں گے، آپ کے رغبت سے دور ہوں گے، آپ کے برکات سے دور ہو جائیں گے، تو آپ نرم ہی رہیے“، فعف عنھم وستغفر لھم، اُن سے درگزر کیجیے، اِن کو معاف کردو، بخش دو، صحابہ کی سفارش کررہے ہیں، اتنے بڑے واقعے کے بعد وشاورھم فی الامر، اور آپ کے دل میں یہ بات آئی ہے کہ میں نے کیوں اِن سے مشورہ کیا، تو نہیں پھر بھی مشورہ کرے کیوں کہ اندر سے یہ بڑے مخلص لوگ ہیں۔
تو ایسے مخلص کارکنوں کی اور مخلص ساتھیوں کی بعض اوقات ایسی صورتحال پیش آجاتی ہے کہ اب اللّٰہ تعالی اُن کی سفارش کررہے ہیں، یہ علماء کی جماعت ہے اور ہمارے اکابر نے اِس کی جو بنیاد رکھی ہے وہ خلوص پے رکھی ہے، لیکن یہ جماعت ہے اور اِسے علماء کی جماعت کہا جاتا ہے، نام بھی جمعیت علماء ہے، علماء کے نام سے جماعت کیوں بنائی گئی، دعوت تو آپ سب عوام کو دے رہے ہیں، علماء و غیر علماء سارے جمعیت میں ہے، پھر اِس کا نام جمعیت علماء کیوں ہے، دیکھو محلے میں جو مسجد ہوتی ہے وہ محلے والوں کی ہوتی ہے، مولوی کی نہیں ہوتی، لیکن امامت کے لیے ہم ایک ایسا آدمی چنتے ہیں کہ جو نماز پڑھانے کا علم رکھتا ہو، اور دوسروں سے اچھی نماز پڑھتا ہو، تو جب وہ امامت کرے گا تو دوسروں کی نماز بھی ٹھیک ہوگی، تو اسلام کو جاننے والے، اُس کا علم رکھنے والے، جب وہ امامت کریں گے تو جو لوگ بھی عام لوگوں میں اُس کے ساتھ شامل ہوں گے اُن کی جدوجہد بھی صحیح ہوگی، اُن کو بھی اُس کا برابر حصہ ملے گا، اب جماعتیں ایک جامع نظریے کے تصور کے ساتھ بنتی ہے، کسی جزوی مسئلے کی بنیاد پر، یا کسی وقتی مسئلے کی بنیاد پر، سیاسی جماعتیں تشکیل نہیں دی جاتی، اِس میں تو انجمنیں تشکیل دی جاتی ہے، کوئی حادثہ ہو جاتا ہے ہم فوراً کوئی بورڈ بنادیتے ہیں، اور وہ تحریک کو چلارہی ہوتی ہے، وہ تحریک ختم ہوجاتی ہے، یعنی کسی ایک ایشو کے اُوپر، ایشو بیسڈ پولیٹکس جسے کہتے ہیں، کہ کسی ایک حادثے کی بنیاد پر سیاست، یہ نہیں ہے، جامع نظریہ ہونا چاہیے، اب اُس جامع نظریے کے بارے میں طے یہ کرنا ہے کہ وہ جامع نظریہ حق ہے یا باطل، اگر جامع نظریہ حق ہے، قرآن و سنت کی روشنی میں ہے، اُسی سے اخذ کیا گیا اُسی سے مستنبط کیا گیا، تو پھر اُس جماعت کے ساتھ وابستہ ہونا واجب ہے، علیکم بالجماعة پھر اُس جماعت کے ساتھ وابستہ ہونا واجب ہے، اور اگر جامع نظریہ باطل ہے، قرآن و سنت کی روشنی میں نہیں بلکہ خواہشات کا تابع ہے، تو پھر اُس جماعت کے لاتعلق ہونا واجب ہوجاتا ہے، تاہم حق نظریہ رکھنے والی جماعت کبھی وقتی معاملے میں کسی جزوی معاملے میں اجتہادی غلطی بھی کرسکتی ہے، تو کسی ایک جزوی اور وقتی مسئلے میں اجتہادی طور پر غلط فیصلہ کرنے کی وجہ سے اُس جماعت سے لاتعلق ہونے کا جواز پیدا نہیں ہوسکتا، اور باطل نظریہ کی حامل ایک جماعت وہ کسی خاص مسئلے پر خاص وقت میں ایک اچھا فیصلہ بھی کرسکتی ہے، لیکن وہ اچھا فیصلہ اُس جماعت کے ساتھ وابستہ ہونے کے لیے جواز پیدا نہیں کرسکتا، اِس کی مثال ایسی ہے کہ ایک بڑا زبردست قسم کا گھنا چھاؤں رکھنے والا درخت ہے، اب آپ سفر میں ہے دھوپ ہے، اِس درخت کے سایے سے اب آپ بے نیاز نہیں رہ سکتے، اور ممکن ہے اُس درخت کا چھوٹا سا شاخ وہ خشک بھی ہو، ممکن ہے اُس شاخ کے کچھ پتے گر بھی گئے ہو، تب بھی کسی ایک چھوٹے سے شاخ کا خشک ہو جانا یا اُس کے پتے گر جانا، یہ اُس درخت کے سایے سے ہمیں بے نیاز نہیں کرسکتی، لیکن ایک درخت ہے جس کے سارے پتے گر چکے ہیں، اب آپ دھوپ میں کھڑے ہیں اور درخت بھی وہ جس میں کوئی پتہ نہیں ہے تو آپ چاہیں گے کہ اُس کے نیچے کھڑے ہو، کوئی فائدہ ہی نہیں ہے، ہاں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اُس کا کوئی ایک شاخ ہرا ہو، دو چار پتے اُس میں ہرے ہو تب بھی وہ آپ کو سایہ مہیا نہیں کرسکتی، تو جماعت اکابر نے اُس کے نظریات کا تعین کیا، اُس کے رُخ کا تعین کیا، وہ ہمارے لیے سایہ ہے، اُس کے بغیر ہم زندہ نہیں رہ سکتے، اُس کے بغیر ہمارا سفر آگے نہیں بڑھ سکتا، ہم نے اُس چھاؤں میں ضرور جانا ہوتا ہے، اور اگر باطل ہے تو باطل جماعت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، یہ ساری وضاحتیں ہیں، اب بعض چیزیں ایسی ہے کہ ہم اپنے مجلس میں شاید کرسکے، کسی کھلی جگہ پر کریں گے تو بہت سے لوگ ناراض ہو جائیں گے۔
اب اِس صورتحال میں ایک جماعت آپ کے پاس ہے، آپ کے پاس امانت میں دو چیزیں ہیں ایک نظریہ اور ایک اِس نظریے کے لیے کام کرنے کا رویہ، دونوں اکابرین نے ہمیں عطا کیے ہیں، منشور ہمارا نظریہ ہے اور اُس منشور میں بنیادی اعتقادات، اُس میں معاشرہ، اُس میں اقتصاد، اُس میں خارجہ پالیسی، بین الاقوامی تعلقات تمام چیزیں اُس کے اندر ہے، میں نے اپنے ایک بزرگ سے پوچھا اللّٰہ تعالی اُن کی مغفرت نصیب فرمائے، عالم دین تھے، حضرت جمعیت کا جب منشور بن رہا تھا آپ اُس کمیٹی میں تھے، تو میں آپ سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں جمعیت کا منشور بناتے وقت آپ نے کیا طے کیا تھا کہ تمام ائمہ مجتہدین کی آرا سے استفادہ حاصل کریں گے یا صرف فقہ حنفی سے استفادہ کریں گے، تو بہت خوش بھی ہوئے اور کہا آپ نے عجيب سوال کرلیا، میں نے کہا مجھے صرف اتنی بات سمجھا دے، تو فرمایا کہ اُصول تو ہم نے یہ بنایا تھا کہ جب ہم اپنا منشور بنائیں گے تو تمام ائمہ مجتہدین کی آرا سے استفادہ کریں گے لیکن مکمل ہوگیا اور فقہ حنفی سے باہر جانے کی ضرورت نہیں پڑی، اب ہم نے یہ شناخت بھی ختم نہیں کی، لیکن ہم ایمان رکھتے ہیں کہ یہ دین پوری انسانیت کے لیے ہیں، جناب رسول اللّٰہ ﷺ کی بعثت تمام انسانیت کے لیے ہے، قل یاایھا الناس انی رسول اللہ علیکم جمیعا، اب جب تمام انسانیت کے لیے یہ دین ہے تو آغاز ہوگا دعوت سے، اب دعوت میں شدت نہیں چلتی، بدزبانی نہیں چلتی، اُس میں کرخت انداز نہیں چلتا، تین چیزیں یہاں ذکر کرتے ہیں ایک ہے حکمت، اور حکمت بڑی عجیب چیز ہے، آپ مجھے بتائے کتاب اللّٰہ سے کوئی اور سچا کلام ہے، لیکن اللّٰہ تعالی کتاب کا بھی ذکر کرتا ہے اور ساتھ حکمت کا بھی ذکر کرتا ہے، اب کتاب کے ساتھ حکمت، یعنی کتاب کو آپ نے انسانیت کے ساتھ پیش کس طریقے سے کرنا ہے، جب آپ کس موضوع پر بات کرے تو آپ نے ماحول کو سمجھنا ہے کہ میں کس طرح اسے لوگوں کے لیے قابل قبول بناؤ، اور پھر آپ کی زبان گفتگو، شائستہ انداز گفتگو، اب حکمت اور حسن موعظیت یہ دو چیزیں ہیں ذریعہ دعوت اور تیسری چیز ہے جدال، جدال ذریعہ دعوت نہیں ہے، لیکن دعوت دیتے ہوئے داعی اور جس کو دعوت دی جارہی ہے کسی مسئلے میں کہی اُلجھ گئے، جب آپس میں اُلجھ جائیں گے وہاں پھر کیا کرنا ہے، تو فرمایا پھر اُس الجھن کو بھی بالتی حی احسن طے کرنا ہے، شائستہ انداز گفتگو کے ساتھ، مطلب یہ کہ دعوت کے طریقے تو دو ہیں ایک ہے حکمت اور ایک ہے حسن موعظیت تیسری چیز جدال، جو کہ اصلًا وہ بذات خود ہی دعوت کا ذریعہ نہیں، لیکن جب آپ بالتی حی احسن کہیں گے تو یہ حسن لغیرہ بن جائے گا، یعنی بظاہر جدال ہے لیکن اُس کا نتیجہ اور محال وہی ہے جو حکمت اور حسن موعظیت کا ہے، یہ ہے جدال بالتی حی احسن، سو اِس انداز کے ساتھ جب ہم اپنے جماعت کا نظم آگے بڑھائینگے تو آپ کے ماحول میں ایک اعتماد پیدا ہوگا، لوگ آپ پر اعتماد کرنے لگ جائیں گے، یہ جو ہمارے ملک کی معروضی سیاست ہے اور جس میں ہم چل رہے ہیں اِس میں عام آدمی کو یہ باور کرانا کہ پپلزپارٹی، پی ٹی آئی، مسلم لیگ، نیشنل پارٹی، جمعیت میں بہت بڑا فرق ہے یہ بہت مشکل ہو جاتا ہے، اور اِس میں آپ کو صدیاں لگ جاتی ہے یہ باور کرانے میں کہ فرق ہے، بھئی اِس چیز کو تھوڑا سمجھو، اب ظاہر ہے ہمارا کام ہے امر اجتماعی، مملکتی، اس لیے کہ انسان کے زندگی کے دو حصے ہیں ایک انفرادی اور ایک اجتماعی، انفرادی زندگی میں عبادات ہیں، کچھ معاملات بھی معاشرت سے متعلق معاملات بھی ہوتے ہیں، تو اُس کے لیے تو ایک فرد عالم کی رائے بھی حجت ہے، آپ نے نماز پڑھ لی، آپ کو محسوس ہوگیا کہ نماز میں مجھ سے غلطی ہوگئی، اب کیا کرو، تو آپ قریب میں اپنے مدرسے کے مفتی صاحب کے پاس چلے جاتے ہیں یا اپنے محلے کے امام کے پاس چلے جاتے ہیں کہ مولوی صاحب آج مجھ سے نماز میں یہ غلطی ہوگئی، آج مجھ سے روزے میں یہ غلطی ہوگئی، زکوٰة ادا کیا تو ذرا اس طرح ہوگیا اور میراث، نکاح وغیرہ کا معاملہ، تو وہ مولوی صاحب آپ کو مسئلہ بتا دیتا ہے اور آپ اُس کو شریعت سمجھ کر اُس پر عمل کرتے ہیں اور بات ختم، لیکن جو قومی معاملات ہیں، ملّی اور مملکتی معاملات ہیں، اُس میں ہمارے اکابر کی نظر میں ایک فرد عالم کی رائے حجت نہیں ہے، تو وہاں شوریٰیت کی ضرورت ہے، تو علماء کی جماعت چاہیے، علماء کا ایک پلیٹ فارم چاہیے تاکہ وہ قوم کی از روئے شریعت رہنمائی کرنے کے لیے ایک فورم تشکیل دے اور ایک اجتماعی رائے بنائے، تاکہ اُس اجتماعی رائے کی روشنی میں اُمت کو کہے کہ اِس راستے پر چلے، یہ ہے سارا معاملہ جس کے لیے جمعیت علماء قائم کی گئی تھی۔
اب ظاہر ہے کہ ہمارے اوپر پوری اُمت کا حق ہے کہ ہم اُن کو شریعت کا راستہ بتائے، اُس پہ اُن کو چلائے، اُس کے لیے ہمت کرے، تو اُس کے لیے جب تک علمائے کرام موجود نہیں ہوں گے تو کس طرح آپ بنائیں گے، ورنہ پھر یہ قانون سازیاں ہوں گی جس طرح ابھی ہورہی ہے، مرد کو حق ہے اپنے آپ کو عورت بنادے، عورت کو حق ہے اپنے آپ کو مرد بنادے، بھئی خدا کا خوف کرو اللّٰہ تعالی نے جو چیزیں پیدا کی ہے وہ امور تکوینیہ ہے، اور امور تکوینیہ میں کسی قسم کی ردوبدل کرنا یہ اللّٰہ کی حکمت تخلیق پر اعتراض ہے، اِس کا تو مطلب یہ ہے کہ کل آپ کہیں گے یہ گدھا کیوں پیدا کیا، اُونٹ کیوں پیدا کیا، بکری کیوں پیدا کی، اُونٹ کو اُونٹ نہیں ہونا چاہیے تھا فلاں ہونا چاہیے تھا، آپ کون ہوتے ہیں، تخلیق کاٸنات کا مالک صرف اللّٰہ ہے، البتہ امر آپ امور زندگی اور اس کی شوریٰیت کے ذریعے طے کرسکتے ہیں، لیکن تخلیق میں بات نہیں ہوسکتی، وہ تکوینی عمل ہے، تشعییات پر آپ بات کرسکتے ہیں تکوینیات پر آپ بات نہیں کرسکتے، اب اللّٰہ تعالی تو ہمیں مرد و زن سے پیدا کرے، اور مرد پیدا کرے یا عورت، سو اللّٰہ کا نظام، اُس نے قیامت تک چلانا ہے، جب تک اللّٰہ تعالی کو یہ دنیا منظور ہے، جب تک اس کی نسل کو رکھنا ہے، تو نسل در نسل سوسائٹی کو یونٹ مہیا کرنا یہ مرد کی زمہ داری ہے، اب جس وقت یونٹ مہیا کرنا سوسائٹی کو یہ مرد کی زمہ داری ہے تو سہولت بھی مرد کو دی جائی گی ناں، وہ حق مرد کا بنتا ہے، یہی وجہ ہے کہ نسل مرد کی تابع ہے، ہم آدم و حوا کی اولاد ہیں، لیکن پورے قرآن میں مجھے بتاؤ کہی پر یابنی حوا کہا ہے، ہر جگہ یابنی آدم یابنی آدم، اِس کا معنی یہ ہے کہ سوسائٹی کو نیا یونٹ اور خاندان مہیا کرنا یہ زمہ داری مرد کی ہے، سو جب یہ زمہ داری مرد کی ہے تو سہولتیں بھی مرد کو مہیا کی جائے گی، تو اِس قسم کے سوالات معاشرے میں پیدا کیے جاتے ہیں، انسانیت کو گمراہ کیا جاتا ہے، اور پتہ نہیں کیا کیا چیزیں اٹھائی جاتی ہے، ایک جگہ پر میں امریکہ یا اُس طرف گیا تھا تو ایک ٹی وی انٹرویو میں دراز سے خط نکالا اور مجھے کہا کہ یہ ایک خاتون کا خط ہے اور یہ خاتون کہتی ہے کہ نعوذباللّٰہ نعوذباللّٰہ ہمیں قرآن پر اعتراض ہے، کیا اعتراض ہے قرآن پر، کہتے ہیں اُس نے ایک بات کی ہے جو امتیازی قانون بنتا ہے اور اُس میں عورت کا حق مارا جارہا ہے، میں حیران ہوگیا کون سی ایسی آیت ہے، تو اُس نے اُس کا ترجمہ کیا کہ اگر تمہاری کوئی خاتون بدخو ہو جائے، تمہیں اُس سے کوئی شکایت ہو جائے، تو پھر اُس کو سمجھاؤ، بسترے سے الگ کرو، مارو، تو میں نے کہا اِس آیت سے وہ یہ کہتی ہے کہ دیکھو عورت بدخو ہو جائے تو مرد کو کہا ہے کہ آپ اسے سمجھائے، مرد کو کہا ہے کہ آپ بستر الگ کردے، مرد کو کہا ہے کہ آپ اُس کو مارے، اور اگر مرد بدخو ہو جائے تو، وہاں خاتون کے لیے کوئی رعایت نہیں ہے، میں نے کہا اللّٰہ کے بندے اِس آیت کی حکمت پر ذرا نظر ڈالو اِس میں خاتون کے لیے رعایت ہے، اور ایک عورت کی حرمت اور عزت اللّٰہ کو اتنی عزیز ہے، اتنی عزیز ہے، اتنی عزیز ہے کہ اُس کا خاوند جس کو اللّٰہ نے خاتون کا لباس کہا ہے، بیوی کا لباس کہا ہے، اور بیوی کو مرد کا لباس کہا ہے، یہ جو رشتہ ہے اِس میں کمرے سے باہر عورت کی بے عزتی نہ چلی جائے، تو کمرے کے اندر ہی میاں اُس کو سمجھا دے، کمرے کے اندر کی تھوڑا دور لیٹ جائے، کمرے کے اندر ہی اگر نہ سمجھتی ہو تو ایک آدھ تھپڑ مارے، لیکن عورت کی حرمت وہ صحن میں بھی نہ آئے، گلی میں نہ چلی جائے، معاشرے میں خاتون بدنام نہ ہو جائے، اِس سے بچانے کے لیے وہ رعایت اللّٰہ نے اِس آیت میں خاتون کو دی ہے، اور مرد شاید یہ کہے کہ مجھے یہ رعایت کیوں نہیں ہے، کیوں کہ مرد کے خلاف تو عورتیں گئی ہے، رسول اللّٰہ ﷺ کی خدمت میں بھی حاضر ہوئیں ہیں، خلفائے راشدین کی خدمت میں بھی حاضر ہوئیں ہیں، تو اِس آیت میں جو رعایت عورت کو دی گئی ہے اُس پہ ذرا نظر رکھو ناں، ہکا بکا آنکھیں پھاڑ کر میری طرف دیکھ رہا تھا، کوئی بات اُن سے نہیں بن رہی تھی، اِس قسم کے سوال ہم کب سنتے ہیں بس میرے لیے اللّٰہ تعالی نے مدد کی۔
تو یہ آپ سے باتیں کررہا ہوں، ایسی صورتحال میں ہمیں جو میدان ملا ہے وہ پاکستان کی سیاست اور پارلیمانی سیاست، یہ میدان ہمیں ملا ہے، اُس میں ہم نے اپنا کردار ادا کرنا ہے، اور ظاہر ہے انسان پر اللّٰہ تعالی نے احسانات کیے ہیں، ایک تو اللّٰہ تعالی نے جس چیز کا اُسے مکلف قرار دیا ہے وہ حسب استطاعت ہے، یعنی استطاعت کے دائرے کے اندر اندر آپ کام کرے، اُس سے زیادہ کا آپ کو مکلف نہیں بنایا، دوسرا احسان اللّٰہ نے کیا ہے کہ اُس کے نتیجے کا مالک آپ کو نہیں بنایا، آپ نے محنت کرنی ہے نتیجہ میرے ہاتھ میں ہے۔
تو اِن دو چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں کام کرنا چاہیے، اور فتنے آتے ہیں، ملک میں فتنے آجاتے ہیں، جس طرح کے ایک فتنے سے ہمارا واسطہ ہے، لیکن ان شاء اللہ اِس فتنے کا سر ہم کچل چکے ہیں، اب میں اُن کو یہی سے پیغام دینا چاہتا ہوں کہ اب آپ کی حکومت دوبارہ نہیں آئی گی، اپوزیشن میں رہ کر بڑی بڑی آئیڈل باتیں کرنا بڑا آسان ہے، تم جب حکومت کررہے تھے تمہاری نااہلیاں اور حماقتیں ہم بھول گئے ہیں؟، یہ آپ کی حکومت تھی، غلاموں کے غلام، ثابت ہوگیا کہ تم نے پیسے کہاں سے لیے تھے، اسرا ئیل سے لیے، انڈیا سے لیے، امریکہ سے لیے، اور کہتا ہے میں دنیا سے آزادی چاہتا ہوں، بھٹو کو پھانسی ہوئی، نواز شریف کو اقتدار سے الگ کیا، دوبارہ الگ کیا، بینظیر کو الگ کیا، جیلوں میں ڈالا گیا، سب کچھ لیکن اُس کے لیے نہ اقوام متحدہ کے فورم پر بات ہوتی ہے نا اسرا ئیل کا چینل بولتا ہے، واحد عمران خان ہے جس کے لیے اقوام متحدہ میں بھی بات ہورہی ہے اور تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے کہ ہم نے جو اُن کو چوری چھپے پیسے دیے تھے تم نے اُس کو کیوں پبلک کردیے اور اُس کو جرم قرار دے دیا، اور آج اسرا ئیل کا چینل اس کے حق میں بات کررہا ہے، ایسے لوگ پاکستان میں ہو تو پھر یاد رکھو میرے ساتھیوں میں آپ سے کہنا چاہتا ہوں کہ شاید یہ کسی اور پارٹی کی تاریخ نہ ہو لیکن جمعیت علمائے اسلام کی شناخت یہ ہے کہ ہم نے غلامی کے خلاف جنگ لڑنی ہے اور یہ غلام ابن غلام ابن غلام ابن غلام ہم پر حکومت کرنے کی جرات کرے گا تو ہمیں ہی میدان میں مقابلے کے لیے پائے گا (نعرہ تکبیر اللّٰہ اکبر کی صدائیں)۔
تو اِس صورتحال میں اب آپ دیکھے کہ اُس نے کتنے کتنے کام ہمارے ملک کے اندر خراب کیے، اور جب تقریر کرتا ہے تو کوئی نہ کوئی بونگی مارتا ہے نہ درود و سلام اُس کو پڑھنا آتا ہے، نہ کلمہ صحیح پڑھنا آتا ہے، نہ نماز اُس کو صحیح پڑھنی آتی ہے، نہ اُس کو صحیح وضو کرنا آتا ہے، ہمیں ہر جلسے میں اسلام سکھاتا ہے، کہتا ہے مذہب کا ٹچ دو، اور یہ باقاعدہ باہر سے سکھائے جاتے ہیں کہ پاکستانی سوسائٹی میں یہ باتیں کرو، ایک سیاستدان نے مجھے کہا آپ مذہبی کارڈ استعمال کرتے ہیں میں نے کہا جب مذہب کی بات تم کروگے ناں تو وہ مذہب کارڈ ہوگا اور جب مذہب کی بات میں کروں گا تو وہ کاز ہوگا کارڈ نہیں ہوگا، کاز اور کارڈ کو سمجھو ذرا، تو یہ جو لوگ مذہبی کارڈ استعمال کرتے ہیں ہم اِن کو جانتے ہیں کہ اِن کے اندر اسلام کتنا ہے، اب یہ بھی کوئی بات ہے جو آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ مرد کو اجازت ہے وہ عورت بن جائے اور عورت کو اجازت ہے وہ مرد بن جائے۔
تو اِس حوالے سے آج میں پہلی مرتبہ آپ کو بتا رہا ہوں، ہم بیان بازی سے بچتے ہیں، محض شور مچاکے کریڈٹ لے لینا اور آپ کے پاس بنیاد نہ ہو بنیاد کمزور ہو، تو ہم اِن باتوں پہ نہیں چلتے، ہم نے اُس پورے قانون کا جائزہ لیا ہے، اور یہ بھی بتادوں کہ اِس قسم کے قوانین اسمبليوں میں چوری چھپے بھی پاس کیے جاتے ہیں، این جی اوز اور یہ لوگ ملکر پارٹیوں میں لابنگ کرکے اور کچھ ابتدا میں بڑا معصوم نقشہ پیش کرکے ایک آدھ عالم دین سے فتویٰ بھی لے لیتے ہیں اور پھر وہ چلتے چلتے چلتے اُس دن اسمبلی میں پاس کرتے ہیں جس دن اسمبلی میں لوگ نہ ہو، ہمارے جماعت نے اُس وقت بھی کہا تھا کہ اِس کو کمیٹی میں لے جاؤ پاس مت کرو، لیکن انہوں نے بڑی معصومی سے پاس کیا اور ابھی ایکٹ بن گیا، آج انسانی حقوق کی کمیٹی میں یہ زیر بحث ہے لیکن جمعیت علمائے اسلام نے پورے قانون کو پڑھ لیا ہے، اول تا آخر پڑھ لیا ہے، اُس کا متبادل ہم نے مرتب کرلیا ہے اور وہ اب ہم جمعیت سے باہر بھی جید علمائے کرام کے سامنے پیش کریں گے اور ان شاء اللہ پھر قوم کے سامنے آئے گا کہ قانون کیا ہے اور جمعیت علمائے اسلام کیا رہنمائی کررہی ہے، ان شاء اللہ العزیز ہمارا ہوم ورک تقریباً مکمل ہے، اور بھرپور انداز کے ساتھ آئے گا ان شاء اللہ۔
اب عجیب بات ہے پھررہا ہے آزادی، کس چیز کی آزادی، کہ میں تمہیں رسول اللّٰہ سے آزادی دلانا چاہتا ہو، اب تعبیر نہیں آتی، گفتگو کرنے کا اِن لوگوں کے پاس الفاظ نہیں ہے، علم جب نہیں ہے تو الفاظ کہاں سے آئینگے، تو اوٹ پٹانگ مار دیتا ہے، تو آپ مجھے بتائے کہ اِس بات پر فخر کرنا کہ میں نے آسیہ ملعونہ کو بحفاظت ملک سے باہر بھیج دیا، یہ اُس نے اپنی مرضی سے کیا یا باہر کا دباؤ تھا، ایک دفعہ اِس نے ملائیشیا کے صدر سے کہا کہ ہم ایک اسلامی کانفرنس کرنا چاہتے ہیں، پھر کانفرنس سے ایک دن پہلے کہا میں تو نہیں آسکتا، بتاسکتا ہے کہ میں کیوں نہیں گیا، اپنی مرضی سے نہیں گیا، ہم تمہیں نہیں جانتے تمہاری پاس طاقت کتنی ہے، کسی نے آنکھیں دکھائی اور پھر تم قدم بھی نہیں اُٹھاسکے، ہم نے ہند و ستان کے ایک پائلٹ کو پکڑا اُس کا جہاز گرایا، چوبیس گھنٹے کے اندر اندر ہند و ستان کے حوالے کردیا، آپ نے اپنی مرضی سے کیا، کہیں سے تڑی آئی کہ فوراً حوالے کرو، اور وہاں سے نگرانی ہوتی رہی کہ حوالے کردیا یا نہیں، لاہور پہنچ گیا یا نہیں، واہگہ پہنچ گیا یا نہیں، نگرانی ہوتی رہی اور تم اُس کو حوالے کیے جاتے رہے کیے جاتے رہے، تم آزاد تھے، تم نے آزادی کے ساتھ یہ کام کیا، ہمیں تمہاری آزادی کا پتہ نہیں کہ تم کتنے آزاد آدمی تھے، پاکستان کے سٹیٹ بینک کو تم نے آئی ایم ایف کے حوالے کیا، اپنی مرضی سے کیا، یہ تم سے کرایا گیا، کہاں تھی اس وقت تمہاری آزادی، اُس وقت تمہاری آزادی کدھر گئی تھی، چورن بیچتے ہو آزادی آزادی آزادی، ہم تمہاری آزادی کو جانتے ہیں، ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے جنازے میں اسلام آباد میں ہوتے ہوئے شریک نہیں ہوسکے، ہمیں پتہ ہے کس کے دباؤ میں تم اپنے ملک کے محسن کے جنازے میں نہیں جاسکے، ہمیں تمہارا ایمان معلوم ہے، بات کرتے ہو میں آزادی دلاتا ہوں قوم کو، تم نے قوم کو یہی دلانا ہے جو قانون آرہا ہے، امریکہ کے خلاف باتیں کرتا ہے سمجھتا ہے پاکستان کی طرح امریکہ والا چورن اچھی طرح بکتا ہے، انہوں نے آنکھیں دکھائی، اب جناب وہ سفیر کے قدموں میں پڑ رہا ہے، ملاقاتيں بھی کرنا چاہتا ہے، اور خود امریکہ کے اندر انہی لوگوں کو اس نے اپنے بطور لابی ہائر بھی کرلیا ہے، یہ لوگ ہمیں آزادی کا درس دیں گے، اِن سے ہم مرعوب ہوں گے، لیکن پبلک کو سمجھانا آپ حضرات کا کام ہے، آپ نے عوام میں جانا ہے۔
نائن الیون کے بعد دنیا بدل گئی، ہمارے وہ دوست جو کسی زمانے میں امریکہ کے خلاف بولتے تھے لیکن جب روس کا خدا مرگیا تو اُس نے دوبارہ امریکہ کو خدا بنایا، یہ ایک جمعیت ہے جو کل بھی کہتی تھی کہ ہم استعمار کے خلاف ہیں اور آج بھی کہتی ہے کہ ہم استعمار کے خلاف ہیں۔
تو یہ ساری وہ چیزیں ہیں اب فارن فنڈنگ کیس آچکا ہے، چوری نکل آئی ہے، کون اِس کے اوپر خفا ہے یا اسرا ئیل خفا ہے وہاں پر اقوام متحدہ کے کچھ لوگ، کس کے زیر اثر ہے، کون اُس سے یہ باتیں کروا رہا ہے، اب بات عجیب ہے اگر عدالت اُس کے خلاف فیصلہ دے تو عدالت غلط، اگر الیکشن کمیشن فیصلہ دے تو وہ جانبدار، اگر فوج حمایت چھوڑ دے ، پیچھے ہٹ جائے تو فوج مجرم، جرنیل مجرم، یعنی آپ کو عدلیہ وہی قبول ہے جو آپ کے حق میں فیصلے دے، آپ کو جرنیل وہی قبول ہے جو آپ کی پشت پناہی کرے اور آپ کو تحفظ دے، آپ کو بیوروکریٹ وہی قبول ہے جو آپ کو تحفظ دے، آپ کو الیکشن کمیشن وہی قبول ہے جو دھاندلی کرے، پہلے تم نے یہاں پر ہمارے نوجوان کو گمراہ کیا، اب بیرونی ملک پاکستانیوں کو گمراہ کیا جارہا ہے، یہ وہ حربے ہیں جو استعمال کیے جاتے ہیں اور قوم کو اِس ذریعے سے بہکایا جاتا ہے، شکایت تو ہمیں ہے کہ پنجاب کے اسمبلی کے ممبران کے لیے پی ٹی آئی والوں کے پاس جب عمران خان کا خط جاتا ہے تو پارٹی سربراہ ہے اور اِس لیے اب اِن کا ووٹ نہیں گِنا جائے گا، لیکن اُسی اسمبلی کے اندر جب مسلم لیگ ق کا صدر شجاعت حسین خط بھیجتا ہے، تو کہتے ہیں نہیں اِس کے خط کی کوئی حیثیت نہیں ہے ممبران خود فیصلہ کریں گے، یہ مشکلات ہمیں درپیش ہیں، اِس کو ختم ہونا چاہیے، عدالت میں تحریری جواب داخل کرتا ہے اور عدالت کہتی ہے اِس سے ہم مطمئن نہیں ہے ایک ہفتہ اور دیتے ہیں دوبارہ جواب بنادو، اب بتاؤ اِس نظام کے بہرحال ہم خلاف ہیں، قانون قانون ہے، اب کہتا ہے آرمی چیف تمہاری مرضی کا نہیں بنے گا، تو کیا تیری مرضی کا بنے گا، ظاہر ہے اُس کو پرائم منسٹر بنائے گا، تو آپ کے کہنے پہ بنائے گا، تم نے فوج کے قدر و قیمت اور عزت و وقار کا بیڑہ غرق کردیا ہے، کہتا ہے میں کال دوں گا، میں نے کہا کال تم دوگے، حکیم ثناءاللہ پھر انتظار میں بیٹھا ہوا ہے، ڈنڈا تیل میں رکھا ہوا ہے تو ذرا وہاں پر آکر دکھاؤ، یہ جمعیت کے جوان ہیں جو ہر حالت میں اسلام آباد پہنچ سکتے ہیں، پھر کہتا ہے میں حکومت کو مزید ٹائم نہیں دے سکتا، تم سے ٹائم مانگا کس نے ہے، آپ کے پاس جو ٹائم تھا وہ بھی ہم نے لے لیا ہے، تمہیں تو ہم نے ہٹایا ہے، تم ہمیں کیا ٹائم دوگے نہیں دوگے، اب الیکشن تمہاری مرضی سے ہوں گے نہیں ہوں گے، الیکشن ہماری مرضی سے ہوں گے، پہلے کہتا تھا آرمی چیف کو رخصت کرو اب کہتاہے اُس کو ایکسٹینشن دو، میں نے کہا اب اُس کی ایکسٹینشن دینے والی بات نہیں ہے، ایکسٹینشن دینی والی بات پارليمنٹ کی ہے کہ اِس کو مزید ٹائم دے کہ نہ دے۔
مرعوب بلکل نہیں ہونا، اُس کے جلسے ناکام ہے، اپنی قدر و قیمت بازار میں دیکھ رہا ہے کہ کیا ہے، کوڑی کی برابر قیمت اُس کی ہوتی جارہی ہے، تو ملک کو برباد تم نے کیا ہے، معشیت آپ نے تباہ کردی، اور اب کہتے ہو یہ تمہارے وقت میں مہنگائی ہوگئی، ہاں ہوگی جس راستے پر آپ نے ڈالا ہے تو آپ نے ساڑھے تین سال میں ملک کو غرق کیا ہے، ہمارے تو ابھی تین ساڑھے تین مہینے نہیں ہوئے، لیکن ٹھیک ہوگا ان شاء اللہ، وہ تمام معطل منصوبے جو تین سال تک معطل رہے دوبارہ شروع کیے جائیں گے، بین الاقوامی تجارت شروع کی جائے گی، ملک کے اندر ہم کام شروع کرنا چاہتے ہیں، ریکوڈک پر کام شروع کررہے ہیں، وزیرستان میں نئے ذخائر سامنے آگئے ہیں، چولستان کے کوئلے کے ذخائر سامنے آگئے ہیں، اور سب پر کام جاری ہے، جب یہ چیزیں آئیں گی تو ملک کی معشیت کو ایک استحکام ملے گا، یقیناً عوام متاثر ہے، ابھی سیلاب نے تباہ کردیا، یہ تو اللّٰہ کی طرف سے ہے قدرتی آفات ہیں، جس سے کہ پورے ملک میں نبردآزما ہوا ہے، جب ہمارا کارکن کراچی، لسبیلہ اور بدین سے لیکر کوہستان اور چترال تک ہر یونین کونسل میں مصروف رہا ہے، یا لوگوں کو ریسکیو کرنے کے لیے، اُن کو مدد پہنچانے کے لیے، یا اُن کے لیے مدد اکھٹا کرنے کے لیے، ہر سطح پر جمعیت کا کارکن بیک وقت مصروف رہا ہے، اور میں فخر محسوس کرتا ہوں آپ کی اِن خدمات کو تحسین کی نگاہ سے دیکھتا ہوں اور ان شاء اللہ العزیز آگے بھی ہم جاری رکھیں گے، لیکن ملک تباہ ہوا، جب ساری جماعتیں، تنظیمیں، ملک کا وزیراعظم، جمعیت علمائے اسلام ہر جگہ پہنچ رہے ہیں تم کدھر ہو، ایک جگہ اپنا تلوہ پانی کے اوپر رکھا جیسے میں سیلاب میں پھررہا ہوں، ابھی تونسہ گیا ہے کوٸی باٸیس تٸیس ٹرک لیکر گیا ہے اور اُس میں صرف دو ٹرکوں کا سامان، اور وہ بھی بھاگ گیا لوگ پیچھے بھاگ رہے ہیں اور سامان نہیں ہے، سارا ڈرامہ تھا، ایسا ڈرامہ میں نے دنیا میں نہیں دیکھا، تو اِس ڈرامہ باز کو بتادے کہ ہم آپ ان شاء اللہ آپ کا ڈرامہ چلنے نہیں دیں گے، ابھی سکرین بند ہوچکی ہے، ڈرامہ فلاپ ہوچکا ہے۔
تو اِس کے لیے آپ نے کام کرنا ہے، اور اُس کے لیے میں نے جب یہاں مجلس عمومی مرکزی تھی تو اُس میں بھی آپ سے عرض کیا تھا کہ اگر ضمنی الیکشن آتے ہیں تو جو اُصول مرکز میں تمام پارٹیوں کے بیچ میں طے ہوتے ہیں پھر ہم نے معاہدے پر پورا اترنا ہے، جو طے ہوا ہے اُس پر ہم نے پورا ترنا ہے، اور یہ نہیں دیکھنا کہ کسی نے ہمارے بارے میں کیا کہا ہے، کیا نہیں کہا، بات یہ ہے کہ جب ایک چیز طے ہوگئی ہے تو اُس کو عزت دینی ہے، اور جو شرعی اُصول ہے اُسی کی پیروی کرنی ہے، فتنے کو شکست دینا ہے۔
تو اِن چیزوں کو بھی ہمیں دیکھنا ہوگا، اور ان شاء اللہ ہم اُس پر پورا اتریں گے، اِس کو کامیاب بنائیں گے، ابھی سیلاب آگیا، سیلاب میں الیکشن ہو نہیں سکتے، کارکن متوجہ ہو نہیں سکتا، لوگ بے گھر ہیں، گھروں میں پانی کھڑا ہے، ووٹ کے لیے کیسے نکلیں گے، کس طرح ووٹ ڈالیں گے، تو یہ ساری مشکلات اپنی جگہ پر ہیں اور الیکشن کمیشن اِس پر غور کرسکتا ہے، کہ اِس کو مؤخر کرتے ہیں یا جو بھی شکل ہے اس کی وہ اُس کا اپنا مسئلہ ہے، کوئی درخواست دے گا تو وہ پھر دیکھے گا کہ درخواست میں کتنی جان ہے، لیکن بہرحال جب تک یہ الیکشن ہوتے ہے، ہم ان شاء اللہ العزیز اپنے معاہدوں پہ کھڑے ہیں، اور بھرپور طور پر ہم اس کے قدر و قیمت کا احترام کریں گے۔
تو یہ چند گزارشات تھی جو آج کی اس محفل میں مجھے آپ سے کہنے کا موقع ملا، اور اللّٰہ تعالی قبول فرمائے، آپ کو بھی قبول فرمائے، اور میرے لیے دعا کیا کرے کافی دنوں سے میری طبعیت بھی ٹھیک نہیں تھی، علاج کے لیے لاہور بھی گیا، اور ان شاء اللہ اب بہتر ہورہی ہے، تو مجھے آپ کی دعاؤں کی بہت ضرورت ہے، اور میں آپ کی دعاؤں سے چل رہا ہوں، تو آپ لوگ دعاؤں کا جو سلسلہ ہے اُس کو ختم نہ کیا کرے، اللّٰہ تعالی آپ کو اس کا اجر عطا فرمائے۔
واخر دعوان ان لحمد للہ رب العالمین۔
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر ٹیم جے یو آٸی سوات
#teamjuiswat

0/Post a Comment/Comments