کراچی : قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن کی مقامی ہوٹل میں منعقدہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے بانی سردار عطاء اللّٰہ مینگل مرحوم کی یاد میں تعزیتی ریفرنس سے خطاب
18 ستمبر 2022
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم اما بعد
میں اُن چار باتوں کو وہ حیثیت دیتا ہوں کہ جیسے یہ آئین کا بنیادی ڈھانچہ ہے، اگر ائین کے اِن چار ستونوں میں سے ایک ستون بھی گرتا ہے تو ائین کی پوری عمارت گر جاتی ہے، سب سے پہلے یہ ملک اسلامی ہے، ائین کے اندر اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب تسلیم کیا گیا ہے اور قرآن و سنت کی بنیاد پر قانون سازی کو لازم قرار دیا گیا ہے، یہ پہلا اُصول ہے، دوسرا اُصول ائین کی رو سے جمہوریت، دنیا میں جمہوریت کی کوئی متفقہ تعریف موجود نہیں ہے، اور صرف اِسی کو ایک متفقہ نکتہ کہا جاتا ہے کہ مملکتی نظام میں عوام کی شراکت، اب مملکتی نظام میں عوام کی شراکت کی شکل کیا ہونی چاہیے، دنیا کی مختلف ممالک میں اُس کی صورت اور ہے، سو ہمارے ہاں بھی اُس کی ایک شکل موجود ہے جس کا تعین ہم نے اپنے ائین میں کیا ہے، اور تیسری چیز کہ یہ ملک وفاقی ہوگا، اور وفاق کے زیر انتظام چار یونٹوں کا ذکر ہے، چار وحدتوں کا ذکر ہے، اور چوتھی بات یہ کہ یہاں پر نظام وہ پارلیمانی ہوگا، پارليمنٹ بالاتر ہوگی، ائین سازی ہو یا قانون سازی، ائین میں ترمیم ہو یا قانون میں ترمیم، اُس کا اختیار صرف عوام کے منتخب اسمبليوں کو ہوگا، اب یہ وہ چار بنیادی اُصول ہے جس کو ہم 1973 کے ائین کے ستون کہتے ہیں، اور سنہ 73 کا ائین اِس کو ہم ایک میثاق ملی سے تعبیر کرتے ہیں، ملک کے اندر صوبے موجود ہیں، ملک کے اندر قومیتیں موجود ہیں، ملک کے اندر صوبوں کے اپنے وسائل ہیں، اُن وسائل کی اپنی شناخت ہے، خطے ہیں، اُن خطوں کی اپنی شناخت ہیں، اُن کی وسائل کی اپنی شناخت ہیں، اور اُس حوالے سے ہر خطہ ہر صوبہ اور صوبے کے عوام وہاں کے بچے اپنے وسائل کے خود مالک ہوں گے، اور اپنے وسائل پر سب سے پہلے حق اُن کا ہوگا، ہم نے ائین میں اُصولی طور پر اِس کو تسليم کیا ہے، لیکن اِن چاروں میں سے عملی طور پر کچھ بھی نہیں، ہم حکومتوں میں آجاتے ہیں، اسمبلیاں بھی بن جاتی ہیں، ہم وزیراعظم بھی بن جاتے ہے، وزیراعلیٰ بھی بن جاتے ہیں، لیکن میں ایک سوال جو پی ڈی ایم کے اجلاسوں میں بھی کرتا رہا ہوں اور میرے اکابرین اِس کے گواہ ہیں، اور میں اِن سے یہ سوال کرتا رہا ہوں کہ میں کم از کم ذاتی طور پر جنرل ضیاءالحق کی مارشل لا سے جمہوریت کی جنگ لڑ رہا ہوں، اِس سے پہلے کی تحریکوں میں میں نے کچھ مشاہدات بطور طالب علم کے کیے ہیں، لیکن اُس میں باقاعدہ حصہ نہیں تھا، نہ میری وہ عمر تھی، جنرل ضیاءالحق کی مارشلائی دور سے لے کر آج تک ہم نے جمہوریت کی جو جنگ لڑی، آمریت کے خلاف جو جنگ لڑی، ذرا نتیجے کے لحاظ سے مجھے بتا تو دو، اور اُس کی کمزوری کی وجہ یہ ہے کہ ہم سیاستدان وہ مفاد پرست بھی بن جاتے ہیں، موقع پرست بھی بن جاتے ہیں، اور اپنے وقتی ضرورتوں کو اتنا اہم سمجھتے ہیں کہ ملک کی ائین کو بھی قربان کردیتے ہیں اور ملک کی جمہوریت کو بھی قربان کردیتے ہیں، کچھ ہمیں اپنی غلطیوں کی طرف بھی دیکھنا چاہیے، صرف کسی کو مورد الزام ٹہرانا دنیا کی سیاسیات میں جبر کا ایک مستقل پہلو ہے، دنیا میں جبر کی بنیاد پہ حکومتیں بھی قائم ہوتی ہے، اور جبر کی بنیاد پر حکومتیں چلتی بھی ہیں، لیکن جبر سے انصاف کی طرف لانا، عدل کی طرف لانا، اُس کے لیے جب تک سیاستدانوں کا کردار نہیں ہوگا، اور مۏثر کردار نہیں ہوگا، ایک کمٹمنٹ نہیں ہوگی، میں نہیں سمجھتا کہ یہ خواب کبھی شرمندہ تعبیر ہوسکے گا۔
ریاست کو دو چیزوں کی ضرورت ہے ایک امن اور ایک خوشحال معیشت، جب ہم لفظ امن استعمال کرتے ہیں تو یہ تین حروف کا سب سے چھوٹا لفظ ہے، لیکن یہ لفظ امن تمام تر انسانی حقوق کو محیط ہے، تمام انسانی حقوق کا احاطہ کرتا ہے، اور تمام انسانی حقوق تین چیزوں کے گرد گھومتی ہے، انسان کی جان، مال، عزت و آبرو، دنیا جہان میں قانون بنتے ہیں اِن تین شعبوں میں حقوق کے تحفظ کے لیے، تو حقدار کو حق دینا، اور اگر اُس کی حق تلفی ہو تو اُس کی تلافی کرنا، اِس مقصد کے لیے ائین اور قانون بنائے جاتے ہیں، اور جب ہم بغاوت کرتے ہیں، جبر کرتے ہیں، حقوق پر ڈاکہ ڈالتے ہیں، غلط پالیسیاں بناتے ہیں، تو پھر نتیجے میں ہمیں دو سزائیں ملتی ہیں ایک بھوک کی صورت میں اور ایک بدامنی کی صورت میں ہوتی ہے۔
انسانی تاریخ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو امامت کبریٰ عطا کی گٸی، اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا
” إَنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ إِمَامًا“
(سورة البقرة ایت نمبر124)
میں تمہیں ساری انسانیت کا امام بنانے والا ہو،
اتنی عظیم منصب پر فائز ہونے کے بعد اب آپ کی ترجیحات میں فرق آگیا ذمہ داریوں کے حوالے سے، وہ حضرت ابراہیم جو شرک کے خلاف لڑتے رہے، توحید کی بات کرتے رہے، رب سے اپنے بندے کا رشتہ جوڑ رہے تھے، بتوں کو توڑ رہے تھے، اور اُس کی پاداشت میں آگ میں جھونک دیے گٸے، آج انسانیت کی امامت کا منصب عطا ہونے کے بعد نئی ذمہ داریوں کا احساس ہوا، تو اللّٰہ تعالیٰ سے یوں مخاطب ہوتے ہیں ”
وَاِذْ قَالَ اِبْـرَاهِيْمُ رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا بَلَـدًا اٰمِنًا وَّارْزُقْ اَهْلَـهٝ مِنَ الثَّمَرَاتِ (سورة البقرة ایت نمبر 126)
“ اِس شہر کو امن کا شہر بنادے، اور اِن کو پھل فروٹ نصیب فرما، خوشحال معیشت نصیب فرما، لیکن آپ نے خوشحال معیشت مانگی۔
مَنْ اٰمَنَ مِنْـهُـمْ بِاللّـٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ
(سورة البقرة ایت نمبر 126)
جو اللّٰہ پر ایمان لاتا ہے اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے، لیکن اللّٰہ نے فرمایا کہ نہیں ” قال ومن کفر فاامتعہ قلیلا“ جس نے میرا انکار کیا دنیا میں اُس کو بھی دوں گا، یعنی معہشت پوری انسانیت کے لیے برابر کا حق ہے، ایک ملک کے اندر ہر عقیدے اور ہر فکر سے وابستہ ہر انسان کے معاشی حقوق اور انسانی حقوق برابر ہو جاتے ہیں۔
اب یہ حقوق کہاں ہیں، اور جب ہم اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتوں کا انکار کرتے ہیں، کفران نعمت کرتے ہیں، تو خود رب العزت فرماتے ہیں
وَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا قَرْیَةً كَانَتْ اٰمِنَةً مُّطْمَىٕنَّةً یَّاْتِیْهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّٰهِ فَاَذَاقَهَا اللّٰهُ لِبَاسَ الْجُوْ عِ وَ الْخَوْفِ بِمَا كَانُوْا یَصْنَعُوْنَ۔
(سورة النحل ایت نمبر 112)
ایک آبادی کی اللّٰہ مثال دیتے ہیں، وہ آبادی جہاں امن بھی تھا، اطمینان بھی تھا، سُکون کی زندگی گزر رہی تھی، ہر طرف امن و امان تھا، لیکن اِس امن و اطمینان کی علت کیا تھی، ہر طرف سے رزق وہاں کھچ کھچ کے آرہا تھا، خوشحال معیشت تھی، لیکن جب انسان نے اللّٰہ کی نعمتوں کا انکار کیا، تو پھر اللّٰہ نے اُن کو بھوک اور بدامنی کا مزہ چھکا دیا۔
تکوینی طور پر ہمیں ذرا صورتحال کا جائزہ لینا چاہیے، آج ہم کہاں کھڑے ہیں، کس مقام پر ہم کھڑے ہیں، حوف کے سائے ہر طرف منڈلا رہے ہیں، انسانی زندگی خطرے میں ہے، سمجھ میں نہیں آرہا کہ اُس کا حل کیا ہونا چاہیے، ہماری معیشت ڈوب چکی ہے، کس لیے ڈوبی، کیوں آج ہم یہاں تک پہنچے کہ آج ہم سے اپنا ملک نہیں سنبھالا جارہا، اور ہم تو انسان ہیں ہم نے تو اپنے عقل اور تدبیر کی بنیاد پر نظام کی بہتری کے لیے حکمت عملی بنانی ہے، پالیسیاں بنانی ہے، اُوپر سے قدرتی آفت آجائے تو ہم کیا کرسکتے ہیں، سیلاب کی تباہ کاری آئی ہے، زلزلے کی تباہ کاری آئی ہے، اور پوری دنیا مل کر بھی نہ اِس کا راستہ روکنے کی طاقت رکھتی ہے، نہ اِس کے تلافی کرنے کی طاقت رکھتی ہے، جتنی مدد آپ اُن کی کرسکے وہ آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
الحَمْدُ ِلله ہمارے ملک میں بہت کچھ ہے، زمین کے اُوپر بھی اللّٰہ کی نعمتیں ہیں اور زمین کے نیچے بھی اللّٰہ کی نعمتیں ہیں، لیکن ہمیں اُس پر اختیار نہیں ہے، بلوچستان میں کیا کچھ نہیں ہے، شائد سونے چاندی تانبے اور کوئلے کی اتنی کانیں جو اِس وقت بلوچستان میں موجود ہیں، چولستان آپ کا کوئلے کی کانوں سے بھرا ہوا ہے، اس وقت وزیرستان ایشیا کا سب سے بڑا ذخيرہ ہے جہاں سونے چاندی اور تانبے کی کانیں بھی ہیں اور جہاں پر گیس بھی نکل آئی ہے، اب آپ بتائیے یہ قوم کی چیزیں ہیں، ملک کی چیزیں ہیں، 75 سال ہمارے ہوگئے ہم اپنی ملکیت کو ہاتھ نہیں لگا سکتے، اپنی ملکیتوں پر ہمارا اختیار نہیں ہے، تو اِس انداز میں جو ہم زندگی گزار رہے ہیں یقیناً ہم سب کو مل کر سوچنا ہوگا، میں تو اِس کے حق میں ہوں میری بھی پارٹی ہے، ہم بھی چاہتے ہیں کہ ہم زیادہ سے زیادہ حصہ لے، محمود خان ہم سے زیادہ حصہ لینا چاہتا ہے، مینگل صاحب بھی، لیکن یہ خواہشات ہمیں چھوڑنی پڑے گی، جس طرح آج پاکستان کی تاریخ کا بڑا اتحاد حکمران ہے، اُن کو سر جوڑ کر سوچنا پڑے گا، سوچ فکر والے لوگ ہیں، ماہرین ہیں، ماہرین اقتصادیات ہیں، اور ہر طبقے کو مطمئن کرنا پڑے گا، بھوکا آدمی لڑتا ہے پھر، ابھی سی پیک کا منصوبہ ہورہا تھا تو کچھ معاملات ایسے آگئے تھے کہ مجھے خود چائنہ جانا پڑا، اور وہاں کے قیادت سے بات کرنی پڑی، تو اُن کا سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ آپ کے ملک میں تو دہش ت گردی ہے اور اِن راستوں سے تو ہم گزرینگے ، یہ تو خوف ہوگا اور کیسے یہ اتنا بڑا منصوبہ کامیاب ہوگا، میں نے اُن سے کہا جی آپ تو کمیونسٹ لوگ ہیں اور آپ کا عقیدہ یہ ہے کہ معدہ خوشحال ہے تو سب ٹھیک ہے، معدے کی اصلاح ہو جائے تو پورا جسم ٹھیک رہتا ہے، تو آپ جب اِس پسماندہ علاقے سے اتنا بڑا منصوبہ گزاریں گے، اور اِس سے لوگوں کو جو روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، اور لوگوں کی معیشت بہتر ہوگی تو وہی اُس کا علاج ہوگا، تو ہم تو آپ کے پاس اسی چیز کا علاج کرنے آئے ہیں، لیکن مشکل یہ ہے کہ پچھلے تین ساڑھے تین سالوں میں ہم نے اُس کو فریز کردیا، اور امریکہ بہادر اُس کی خارجہ پالیسی کا اِس خطے میں اور اِس علاقے میں اُس کی پالیسی کا محور بن گیا کہ اگر سی پیک کا کوئی حامی ہے تو وہ امریکہ کا مخالف اور سی پیک کا مخالف وہ امریکہ کا دوست، سو پچھلی حکومت نے اُس کو فریز کرکے امریکہ کے ساتھ غلامی کی کمٹمنٹ کی، آج ہم پھر اُس کو شروع کررہے ہیں،
، آج ہم پھر اُس کو شروع کررہے ہیں، ازسر نو شروع کررہے ہیں، خارجہ پاليسی کبھی بھی جامد نہیں ہوا کرتی، اور خارجہ پالیسی کبھی بھی کسی جامد اُصول کی بنیاد پر تشکیل نہیں دی جاتی، خارجہ پالیسی ہمیشہ ملک اور وطن کی مفادات کے گرد گھومتی ہے، ہم انڈیا کے ساتھ بھی تجارتی تعلقات بنائے تو ظاہر ہے ہمارے سامنے اپنے ملک کی مفاد ہوگی، ایران کے ساتھ، ا فغا نستا ن کے ساتھ، کسی زمانے میں افغا نستا ن جنوبی ایشیا کا دروازہ تھا، لیکن آج ہم پاکستان کو بھی اُس کا دروازہ تصور کرتے ہیں، افغا نستا ن اور پاکستان کی باہمی شراکت اور باہمی اتحاد اِس پورے خطے میں امن اور استحکام کا ذریعہ بن سکتا ہے، لیکن سنہ 1980 سے لے کر آج تک وہاں اضطراب ہے، بے قراری ہے، کب استقرار آئے گا، کب استقلال آئے گا، کب صورتحال ایسی بنے گی کہ ہم افغا نستا ن کا استفادہ کرسکے اور وہ ہمارا استفادہ کرسکے، ہم آج بھی اِن فلسفوں میں گھوم رہے ہیں، افغا نستا ن میں حکومت ہے بھی اور نہیں بھی، ایک پڑوسی ہونے کے ناطے افغا نستا ن سے جو ضرورتیں میری وابستہ ہیں اُس کا امریکہ کو ادراک ہی نہیں ہے، شائد کسی اور کو بھی نہ ہو، ایران میرا پڑوسی ہے، پڑوس ممالک کے آپس میں سو مشترکات ہوتی ہیں، اُن پر بھی نظر رکھنی پڑتی ہے، ایک دو تنازعے بھی ہوتے ہے، لیکن اُس کے لیے دونوں ملکوں کے بیچ کچھ پروٹوکولز ہوتی ہیں، آپ تعلق بھی چاہتے ہیں، دونوں کا بہتر تعلق اور دونوں کا بہتر استحکام ایک دوسرے کے لیے مفید بھی تصور کرتے ہیں، لیکن پھر اس کو تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ بھی محسوس کررہے ہیں کہ اُوپر سے ابھی اجازت نہیں ملی، جب ہم اپنے مفادات کو اُوپر کی اجازت سے وابستہ کرلے تو کس طرح یہ ملک آزاد ہوگا، کس طرح اِس ملک میں جمہوریت کا استحکام ہوگا، کس طرح ہماری معشیت بہتر ہوگی اور کس طرح ہمیں ایک پُر امن ماحول ملے گا، ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہم اِس امور پر غور کرے، اِن کی طرف جائے۔
آج اگر ہم سردار عطاءاللّٰہ خان مینگل کا نام لیتے ہیں تو آج وہ دنیا میں نہیں ہے، لیکن سردار اختر جان اور اُن کے رفقاء نے اُن کی یاد میں اِس ریفرنس کا انعقاد کرکے، کہ جس طرح ہم جو بڑوں کے جانشین کہلاتے ہیں، وارث کہلاتے ہیں، اپنے بڑوں کو زندہ جاوید بنانے کا یہی طریقہ ہے، اُن کی زندگی کو سمجھو، اُس پر لکھو، اُس پر بولو، تاکہ نئی نسل تک اُن کے افکار و خیالات منتقل ہوسکے، اور پھر اُن کی مرضی کون سی اچھی چیز چنتے ہیں اور کوئی چیز اچھی نہیں لگتی اُس کو چھوڑ دیتے ہیں، ستھری چیز کو اُٹھاؤ اور اُس پر کوئی گرد آلود ہے اور آپ کے نظر میں وہ قابل استعمال نہیں اُس کو چھوڑ دو، آپ کی مرضی ہے، لیکن ہم اکابرین کی جدوجہد اور قربانیوں سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
سو اِس ملک کے لیے ائین بنا، میثاق ملی، قانون کی بالادستی، آئین پر عمل درآمد، اللّٰہ کے دی ہوئے نظام کی پیروی، ایک جمہوری ماحول، اور نظام مملکت میں عوام کی شراکت اور اس کے پیرامیٹرز، یہ سب چیزیں اِس کو ہم بہتر طور پر استعمال کرنے کی پوزیشن میں آسکتے ہیں بشرط یہ کہ ہم ایک دوسرے کو سننے کے لیے تیار ہو، جس وقت میں آپ کو سننے کے لیے آمادہ ہو جاؤں اور آپ مجھے سننے کے لیے آمادہ ہو جائے تو ہم ضرور اپنے مشترکات کا تعین کرسکیں گے، ہم نے ائین کی روشنی میں سفر کرنا ہے، اگر ہم ائین کی روشنی میں اپنے ملک کو نہیں سمجھے گے تو پھر چھینا چھپٹی ہوگی، ہم ایک دوسرے کے حقوق کا خیال نہیں رکھ سکے گے۔
تو ہماری یہی درخواست ہے کہ ہمارے اکابرین کی وہ خدمات جو ہمارے لیے مشعل راہ ہے، ہم اُس کی روشنی میں اپنے مستقبل کو سنوارے، اپنا نیا مستقبل ہم بہتر انداز کے ساتھ تراشے، اُس پر آگے بڑھے، اور نٸے نسلوں کو امن و آشتی نصیب کرے، اُن کو خوشحال معیشت اور پُرسکون اور اطمینان بخش زندگی یہ اُن کا ہمارے اوپر حق ہے، ہمیں سوچنا ہے کہ کوئی ہے جو اپنے اولاد کے بارے میں یہ سوچے کہ اُن کی زندگی کرب میں ہو، دشمنیوں میں ہو، خونریزیوں میں ہو، بھوک اور پیاس میں ہو، اگر میں اپنے بچوں کے بارے میں نہیں سوچ سکتا تو پھر مجھے قوم کے بچوں کے بارے میں بھی وہی وطیرہ اختیار کرنا ہوگا، تاہم بحیثیت باپ کے ہم اِس قوم کے بچوں کا حق ادا کرسکتے ہیں، ورنہ پھر زبانی باتیں ہیں، ملتے رہینگے بولتے رہیگے اور اچھی اچھی باتیں کرنا کوئی مشکل بات نہیں ہے۔
اللّٰہ تعالیٰ ہمیں وہ راستہ نصیب فرمائے کہ جس راستے پر چل کر ہم آنے والے نسلوں کو حفاظت مہیا کرسکے، خوشحال زندگی مہیا کرسکے، اور پاکستان اور وطن کے لیے ہم استحکام کے راستے ڈھونڈ سکے۔
وٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر ٹیم جے یو آٸی سوات
#teamjuiswat
ایک تبصرہ شائع کریں