سکھر: قاٸد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی میڈیا سے گفتگو 21 ستمبر 2022

سکھر: قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی میڈیا سے گفتگو 
 21 ستمبر 2022
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سیلاب کی تباہ کاریاں جس کا مشاہدہ میں نے کیا یقیناً وہ بلا حدود ہے اور اِس پر تفصیلی بات راشد سومرو صاحب نے کردی ہے، اللّٰہ تعالیٰ اُن تمام کارکنوں کو اور صرف جمعیت علما اسلام نہیں جس تنظیم نے بھی اور جس ویلفیٸر ایسوسی ایشن نے بھی جہاں جہاں خدمات کی ہیں اور اپنا حصہ ڈالا ہے میں اُن سب کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، اور اِس کے لیے ہمیں قومی جذبے کے ساتھ اِس آزمائش سے نکلنے کی کوشش کرنی ہوگی اور اِس وقت جو متاثرہ لوگ ہیں اُن کی داد رسی ایک انسانی فریضہ بن جاتا ہے، ایک اسلامی فریضہ بن جاتا ہے، تو اِس سے آگے اگر آپ کے کوٸی سوالات ہیں تو آپ کرسکتے ہیں۔
صحافی کا سوال: اچھا مولانا صاحب جیسا کہ آپ نے مشاہدہ کیا ہے تو سندھ کتنا متاثر ہوا ہے اور گورنمنٹ کیا کررہی ہے ؟ کیوں کہ جہاں جہاں بھی میڈیا جارہی ہے نہ سندھ گورنمنٹ نظر آرہی ہے نہ وفاقی ادارے نظر آرہے ہیں، صرف سماجی تنظيميں اپنی مدد آپ کے تحت متاثرین کی مدد کررہے ہیں، گورنمنٹ کدھر ہے ؟
قاٸد جمعیت کا جواب: دیکھیے میری جو پہلے دن سے ایک پالیسی ہے کہ میں اِس آزمائش کی ماحول میں کسی پر سیاسی تنقید کرنا، پارٹی سیاست کے حوالے سے بات کرنا، اُس سے پوری طرح اجتناب کررہا ہوں، لیکن کل میں نے جو چھ اضلاع کا فضائی دورہ کیا ہے اِن چھ اضلاع کے اندر مجھے پانی کے درمیان کہیں کوٸی فاصلہ نظر نہیں آیا، یعنی پورے تسلسل کے ساتھ ایک سمندر کی طرح پانی کھڑا ہے، اور سمجھ نہیں آرہا کہ یہ ایک کیا کٸی حکومتوں کی بس میں نہیں ہے، کیا صورت ہوسکتی ہے ابھی صرف لوگوں کو ریسکیو کیا جارہا ہے، چاہے پانی سے نکالنے کا عمل ہو، چاہے اُن کو خیمے مہیا کرنے کا، لیکن سندھ کے اِس گرم موسم میں جسطرح وہ پتلے چادروں کے ساٸے میں، درختوں کے ساٸے میں وقت گزار رہے ہیں، میں نہیں سمجھتا سواٸے اِس کے کہ اللّٰہ توفیق دے رہا اُن کو، ورنہ یہ کوٸی انسانی زندگی کی علامت نہیں ہے، انسانی زندگی مکمل طور پر معطل ہے، اور اِس کو بحال کرنے کے لیے ایک قومی جذبے سے کام کرنا ہوگا، جو سامان آرہا ہے، جس طرح رفاہی تنظيميں پورے دیانت کے ساتھ لوگوں تک امانتیں پہنچا رہے ہیں، حکومت کا بھی فرض ہے اگر حکومت کہتی ہے کہ باہر سے کوٸی ایک سو دس ایک سو بیس طیارے آٸے ہیں، بحری جہاز کے ذریعے سے امداد آٸے ہیں تو پھر وہ نظر آنا چاہیے کہ وہ پبلک تک پہنچ رہا ہے، اور اِس میں لوگوں کی شکایتوں کا ازالہ ہونا چاہیے، پہلی ذمہ داری ظاہر ہے حکومت کی ہے کیوں کہ اُس کے پاس وساٸل ہے، اور رفاہی تنظيميں تو بیچاری محدود وساٸل کے اندر کام کرتی ہے، اور کچھ وقت کرکے پھر اُن کی سکت بھی نہیں رہتی، دوبارہ اُس کے لیے جمع پونجی کرنی ہوتی ہے، اور بھیک مانگ کر کچھ چیزیں اکھٹی کرکے لوگوں تک پہنچانی ہوتی ہے، تو اِس میں یقیناً حکومتوں کو اپنی ذمہ داری پوری کرنی ہوگی چاہے وفاقی ہو چاہے صوبائی حکومت ہو، اور ہم نے تو خیبر پختونخواہ میں بھی یہ کہا تھا کہ ہم یہاں کے حکومت کے ساتھ بھی سیلاب کی تباہ کاریوں میں تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں۔
صحافی کا سوال: مولانا صاحب آپ کے بیٹے کمیونیکیشن کے وفاقی وزیر ہے اور سندھ میں تمام کے تمام ہاٸی وے، نیشنل ہاٸی وے معطل رہے، بند رہے، کراچی کا دیگر شہروں سے رابطہ منقطع رہا، آپ کا بیٹا وفاقی وزیر ہے تو کیا بحالی کا کام ہورہا ہے ؟
قاٸد جمعیت کا جواب: جی میں گزارش کروں پورا انفرا سٹرکچر سڑکوں کا ملک میں مکمل طور پر تباہ ہے، جہاں جہاں سیلاب آٸیں ہیں پانی اتر نہیں رہا، لیکن ساتھ ہی انہوں نے جو اعلان کیے ہیں وہ حوصلہ افزا ہیں کہ اگر وفاق اُن کو اپنے خزانے سے مدد نہیں بھی دے گی تو این ایچ اے اپنے اخراجات کے ساتھ بحالی کے لیے آگے بڑھے گی، ابھی صرف اتنا ہوا ہے کہ جہاں راستے منقطع تھی اُن کو بحال کرنے کی کوشش کی گٸی ہے، لیکن سڑکوں کو واپس اپنے حالت میں لانا اِس میں یقیناً وقت بھی لگے گا، اُس کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کرنی ہوگی، اُن کے لیے فنڈز متعین کرنے ہوں گے، اور یہ بہت بڑا کام ہے کوٸی معمولی کام نہیں ہے کہ ہم صرف ایک سوال کرکے اُس کا جواب فوری طور پر حاصل کرسکے، اِس کے لیے تھوڑا انتظار کرنا ہوگا۔
صحافی کا سوال:
قاٸد جمعیت کا جواب: دیکھیے میں اِس پر کوٸی تبصرہ نہیں کروں گا، اِس پر سندھ کے لوگ خود تبصرہ کرے، وہ جو شکایت کریں گے ہم اُن شکایتوں کو اہمیت دیں گے، اُن کو سنجیدہ لیں گے، اور صوباٸی حکومت جو امداد باہر سے آرہی ہے اگر اُن کے وساطت سے جارہی ہے، تو اُن کو حقدار تک پہنچنا چاہیے جیسے میں نے پہلے بھی عرض کیا، اور مقامی طور پر آپ صحافی لوگ بھی ساری چیزوں کو دیکھ رہے ہیں، اور سیاسی جماعتیں، ہماری جماعت بھی دیکھ رہی ہے، اور مقامی سطح پر آپ اِس پر ضرور تبصرہ بھی کرے اِن کو زیر بحث بھی لاٸے تاکہ حکومت کو متنبہ کرسکے۔
صحافی کا سوال:
قاٸد جمعیت کا جواب: جہاں تک مذمت کی بات ہے اِس کا تعلق پالیسیوں کے ساتھ ہیں، ہم نے آٸی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کرکے اپنے ملک کی معشیت اُن کے حوالے کیا، جن پالیسیوں کے تحت ہم نے اپنے سٹیٹ بینک کو آٸی ایم ایف کے حوالے کیا اور اُس کو ورلڈ بینک کی آزادی سے تعبير کیا، اور آج وہی پارٹی کہہ رہی ہے کہ ہم لوگوں کو آزادی دیں گے، کس چیز کی آزادی دے رہے ہیں، آپ کے اپنے لوگوں نے کہا ہے کہ ہم نے سب کچھ اُن کو لکھ کر دیا ہے، تو پالیسیاں اصل میں وہ حمایت یا مذمت کی بنیاد ہوتی ہے، اُن پالیسیوں کے جو اثرات ہوتے ہیں حکومتيں تبدیل ہونے سے وہ اثرات تبدیل نہیں ہوتے بلکہ ایک وقت تک اُن کے انتہائی منفی اثرات بڑھتے چلے جاتے ہیں، اب ساڑھے تین سالوں کی وہ ناکام پالیسیاں کہ جس نے ملک میں یہ ساری معاشی بدحالی پیدا کی، تین چار مہینے کے اندر آگر آپ کہیں، ہاں اضافہ ہوا ہے میں خود اِس پر پریشان ہوں، اور ہم اِس پر حکومت اور وزیراعظم پر دباو ڈال رہے ہیں کہ اِس کے لیے فوری طور پر اقدامات کرے، چنانچہ وہ لگے ہوٸے ہیں کہ کس طرح ہم معشیت کو سنبھال سکے، مہنگائی کو کنٹرول کرسکے، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قوت کو ہم بڑھا سکے، یہ ساری چیزیں پالیسی سے تعلق رکھتی ہے، لیکن پالیسیز پچھلی حکومت نے بناٸی اب ہم اُن چیزوں کو بھگت رہے ہیں، تنقید کا نشانہ بھی ہم بن رہے ہیں، میں آپ کو ایک بات کہنا چاہتا ہوں کہ جہاں تک پی ٹی آٸی کا یا عمران خان کا تعلق ہے جس طرح اپنے حکومت کے دوران وہ ایک نااہل جماعت اور نااہل قیادت ثابت ہوٸی، آج سیلاب کی تباہ کاریوں میں اُسی طرح نااہل ثابت ہوٸی، حکومت میں جانے کے بعد جہاں وہ بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں، یہ سیلاب سے بڑی آزمائش قوم پر نہیں آسکتی اور اِس میں اُن کا کردار زیرو ہے، صرف نمائش کی حد تک، اب آپ مجھے بتاٸے کہ جہاں جس ضلعے یا تحصیل میں وہ پچیس ٹرک لے کے جاتے ہو اور اُس میں صرف دو ٹرکوں کا سامان ہو اور وہ بھی صرف پینے کا پانی، اس طرح ڈرامے کیوں کیے جاتے ہیں، یہ حکومت کرتے ہوٸے بھی نااہل تھے، اپوزیشن کرتے ہوٸے بھی اور سیلاب کی تباہ کاریوں میں لوگوں کی مدد کرتے ہوٸے بھی نااہل ثابت ہوٸے۔
صحافی کا سوال: مولانا صاحب آپ یہ فرماٸیے گا کہ تمام لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ احتساب کا عمل بھی ہو، معاملات بھی بہتر ہو، پالیسی بھی، پچھتر سال گزر گٸے ہم آج بھی پریشان ہیں کہ پاکستان کے اندر حکومت کس کی ہے عدلیہ کی ہے، سیاستدانوں کی ہے یا کسی اور کی ہے، پچھتر سال بعد بھی آج ہم بھیک مانگ رہے ہیں، اتنے بڑے کراٸسزز سے گزر رہے ہیں، لوگوں کی حالت آپ خود دیکھ رہے ہیں، تو یہ پالیسی کون تبدیل کرے گا ؟ کب ہوگا ؟ گرینڈ ڈاٸیلاگ ہوگا یا اس طرح پٹتے رہیں گے، باتیں کرتے رہیں گے۔
قاٸد جمعیت کا جواب: سوال میں تو میں آپ کے ساتھ ہوں، بلکل سنجیدہ اور ویلیڈ سوال ہے پچھتر سال سے ہم ترقی کی بات کررہے ہیں لیکن ہم تنزلی کی طرف جارہے ہیں، ہم جمہوریت کی جنگ لڑتے ہیں لیکن جمہوریت کمزور ہوتی چلی جارہی ہے، ہم اسٹبلشمنٹ کی بالادستی کو کم کرنے اور سیول سپرمیسی کی بات کرتے ہیں لیکن سیول سپرمیسی کمزور ہوتی جارہی ہے، اسٹبلشمنٹ طاقتور ہوتی جارہی ہے، کیوں ہے یہ اہم سوال ہے، میں نے خود یہ سوال ہر فورم پہ اٹھایا ہے، تو یہ باتیں آپ کی بلکل اپنی جگہ پر لیکن اِس وقت جو ہمیں معروضی صورتحال درپیش ہیں اور فوری نوعیت کا مسٸلہ درپیش ہے وہ آپ کے سامنے ہے اور اُس پر ہم بات بھی کررہے ہیں اور اِس سے ہم نکلنے کی کوشش بھی کررہے ہیں۔
صحافی کا سوال: جس طرح آپ نے آرمی چیف کے حوالے سے بیان دیا ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ عمران خان کی عہدیداروں کی آپس میں بن گٸی ہے کیا کبھی اِس طرح سے ہوتا رہا ہے کہ مداخلت کی ہو اداروں میں، اور آپ سینٸر پولیٹکس ہے تو یہ ہمارے ادارے کہاں جارہے ہیں۔
قاٸد جمعیت کا جواب: دیکھیے عدالت آٸین کے مطابق فیصلہ کرے گی اور تعجب کی بات یہ ہے کہ ایک بین الاقوامی مجرم اور ایک امپورٹڈ چور وہ پاکستان کی حکومت اور سیاستدانوں کی بات کرتا ہے، اداروں کی بات کرتا ہے، یہ درحقیقت جو مجرم ہے سیاسی طور پر ہماری نظر میں، جو امپورٹڈ چور ہے فارن فنڈنگ کیس سے اس کی پوزیشن واضح ہوگٸی ہے، فرد جرم اُس پر عاٸد ہونے والا ہے، اب وہ سیاسی لیڈر بننا چاہتا ہے، اداروں پہ تنقید کرو، فوج پہ تنقید کرو، عدالتوں پہ تنقید کرو، پارلیمنٹ پہ تنقيد کرو، جمہوریت پہ تنقید کرو، تاکہ جب اُس پر ہاتھ ڈالا جاٸے تو وہ کہے کہ شاٸد سیاستدان پر حق گوٸی کی پاداشت میں ہاتھ ڈالا گیا ہے، یہ اب نہیں ہوگا، مجرم پہ ہاتھ ڈالا جاٸے گا، قومی مجرم اور امپورٹڈ چور پر  ان شاء اللہ ہاتھ ڈالا جاٸے گا، اور اُن کو نہ اب کوٸی سیاستدان تسلیم کرتا ہے، نہ وہ سیاسی تھا، نہ وہ سیاسی ہے نہ اُن کی آٸندہ کوٸی سیاست موجود ہے، وہ گر چکا ہے اور اب ایشو بیس سیاست کررہا ہے ، ایشو بیس سیاست وہ بلبلے کی طرح ہوتی ہے، کچھ وقت کے لیے ہوتی ہے پھر ختم ہوجاتی ہے۔
صحافی کا سوال: مولانا صاحب ٹرانسجینڈر بل جو منظور ہوا ہے اس میں جے یو آٸی مخالفت کررہی ہے۔
قاٸد جمعیت کا جواب: جے یو آٸی کا کیا فاٸدہ ہے ایسی بِل میں، جے یو آٸی کی ضرورت تو نہیں ہے، ٹرانسجینڈر یہ جے یو آٸی کی نہیں پی ٹی آٸی کی ضرورت ہے۔
بہت بہت شکریہ جی
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر ٹیم جے یو آٸی سوات
#teamjuiswat

0/Post a Comment/Comments