اسلام آباد: قائدِ جمعیۃ حضرت مولانا فضل الرحمان صاحب کا تحفظ ناموسِ رسالت کانفرنس سے خطاب
29 ستمبر 2022
بسم الله الرَّحمن الرحیم
الحمد لله رب العالمین والصلوة والسلام علی اشرف الانبیاء والمرسلین وعلی اٰله وصحبہ الطیبین الطَّاہرین وعلی من دعی بدعوتھم الی یوم الدین۔
اما بعد
فاعوذ بالله من الشیطن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم
ھوالذی ارسل رسولہ بالھدی و دین الحق علی الدین کل وکفی باللہ شھیدا محمد رسول الله صدق الله العظیم۔
میرے انتہائی محترم، قابل قدر جناب مولانا اسعد محمود صاحب دامت برکاتہم، عزیز مکرم عمر ابن الحفیظ حفظ اللہ، سٹیج پر موجود اکابرین ملت، علماء اُمت، میرے بزرگو! دوستو اور بھائیو! انتہائی سعادت کے لمحات ہیں کہ جناب رسول اللّٰہﷺ کے ناموس، آپ کی سیرت مطہرہ کے موضوع پر ہم سب اِس اجتماع میں شریک ہورہے ہیں، موضوع کے اعتبار سے اِس اجتماع کو ایک بہت بڑی نسبت حاصل ہے، اور جہاں ہم رحمت کائنات فاونڈیشن اور اُن کے ذمہ داران کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے ہمیں اِس سعادت کا موقع عطا فرمایا، وہاں میں خاص طور پر جمہوریہ المصریہ العربیہ سے تشریف لائے ہوئے مایہ ناز قاری الشیخ محمود الشحات انور حفظہ اللّٰہ ورعاہ وہ بھی تشریف لائے ہیں، اور اپنی خوبصورت تلاوت سے وہ ہمارے قلوب کو منّور فرمائیں گے، اِس ماحول کو قرآن کریم کی خوشبو دار اور خوشگوار مہک عطا فرمائیں گے، میں اُن کو دل کی گہرائیوں سے خوش آمدید کہتا ہوں، اور اُن کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے ہماری اِس اجتماع کے رونق کو دوبالا کیا ہے۔
میرے محترم دوستو! جس ضرورت کے تحت اِس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا ہے، یقیناً دنیا کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے، خود پاکستان کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے اِس کی ضرورت تھی، جناب رسول اللّٰہﷺ کی سیرت طیبہ کو اور بالخصوص اور آپ کے سیرت کی رحمت کے پہلوؤں کو اُجاگر کرنا، چار دانگ عالم اُس کو نشر کرنا، ہر انسان تک اُس کے برکات کو پہنچانا، اور اِس حقیقت سے پوری انسانيت کو آگاہ کرنا کہ جناب رسول اللّٰہﷺ کی ذات مبارکہ اور آپ کی سیرت مطہرہ یہ تمام انسانیت کے لیے رحمت ہے، ہم تو شائد انسانيت کی بات کرے لیکن اللّٰہ رب العالمین جو پورے کائنات کا احاطہ کرتا ہے، اللّٰہ کی ذات کی عظمت کو سامنے رکھتے ہوئے اور کُل کائنات پر اُس کے علم کا احاطہ کرتے ہوئے آپ نے رحمت للعالمین فرمایا ہے، آج کہاں کہاں سے تیر برسائے جارہے ہیں، کس کس طرف سے آپ کی اِس خوبصورت سیرت کو مجروح کیا جارہا ہے، کیا کیا غلط معنی اُس کو پہنائے جارہے ہیں، کیا کیا غلط تشریحات و تعبیرات کی جارہی ہے، اور یہ نہیں کہ وہ جانتے نہیں، یہ نہیں کہ اُن کی سٹڈی نہیں ہے، لیکن اسلام کے تعصب میں وہ ہر حد کو پار کرنے کے لیے تیار ہیں، ظاہر ہے کہ ایک مسلمان کی رسول اللّٰہﷺ سے محبت اُس کا بھی کوئی احاطہ نہیں ہے، عربوں نے بھی یہ سمجھا قبائلی ماحول تھا، اب اُس قبائلی ماحول میں جس قوم کے جوان زیادہ ہو، اُن کے پاس جتنی زیادہ افرادی قوت ہو، اتنا ہی اُن کو طاقتور تصور کیا جاتا، اور یہ ائمہ کفر ایک دوسرے کو تسلی دیا کرتے تھے کہ اِن کی تو اولاد ہی نہیں ہے، بیٹے ہوئے وہ بھی بچپن میں چلے گئے، پیچھے کوٸی ہے ہی نہیں، تو اِس کو زیادہ سنجیدہ نہ لے، جس دن اُن کی آنکھیں بند ہوں گی پردہ کرے گے، معاملہ ختم ہو جاٸے گا، اپنے آپ کو تسلی دیا کرتے تھے، لیکن اللّٰہ رب العزت نے اُن کے اِس سوچ کو مسترد کردیا اور فرمایا ” مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ “ بجا کے وہ تم میں کسی مرد کے والد نہیں ہے، جس طرح قبائلی معاشرے میں طاقت کا ایک تصور تھا، وہ یہاں موجود نہیں ہے، لیکن یہ تو جسمانی اور خونی رشتے کے حوالے سے ہے، میں ایسی اولاد اُس کو عطا کروں گا کہ قیامت تک اُس کا ایک ایک امتی اُس پر سر کٹانے کے لیے تیار رہے گا
” مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ"
اِس سے استثنٰی ہے ” وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ “ اُن کی زوجة مطہرات کے ساتھ اُن کی وفات کے بعد امت نکاح نہیں کرسکے گا، وہ اُن کی مائیں ہیں، بحیثیت رسول کے وہ باپ ہے، اور ایسا رسول کے اُس کے بعد دوسرا پیغمبر بھی نہیں آئے گا، تو اِس کے ساتھ نبوت مکمل ہوگئی، اور آج وہ کامل دین کے ساتھ اتنی بڑی امت کے ساتھ زندہ ہے، یہ مقام دنیا میں کسی اور امت کو حاصل نہیں ہے، اِس لیے ہم اُن کو نصیحت بھی کرنا چاہتے ہیں کہ تم ہزار تعصب میں ڈوبے ہو، اسلام دشمنی کو تم اپنے زندگی کا مقصد قرار دے دو تب بھی جس کی حفاظت کا ذمہ اللّٰہ نے لیا ہے تمہارا باپ بھی نہ اِس دین کا کچھ بگاڑ سکتا ہے نہ جناب رسول اللّٰہﷺ کے مقام کو تم بگاڑ سکتے ہو
(نعرہ تکبیر اللّٰہ اکبر تاجدار ختم نبوت زندہ باد)،
یہ ایک زندہ امت ہے، اور اِس طرح کے کانفرنسیں آپ کریں گے میدان میں رہیں گے، تو ان شاء اللہ العزیز یہ دین بھی رہے گا، رسول اللّٰہﷺ کا نام بھی رہے گا، اُن کی تعلیمات بھی رہے گی اور قیامت تک رہے گی، نہ قادیا نیت اِس کا کچھ بگاڑ سکے گی، نہ مسیلمہ کذاب اُس کا کچھ بگاڑ سکا، نہ اُس کے بعد آنے والے کوٸی دجال اُس کا کچھ بگاڑ سکے، اور میں کیا کہوں آپ کو، جو لوگ سادہ لوحی میں امت کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں، اور وہ کہتے ہیں ناں کہ ایک شخص فقیر کا لباس پہنے ہوا تھا اور فقیری کے لباس میں اُس نے پیچھے غلیل چھپایا ہوا تھا اور جب اُس نے کبوتر کو نشانہ بنایا تو اُس نے کہا آپ ضرور میرا شکار کرے لیکن شکاری کے لباس میں کرے فقیر کے لباس میں نہ کرے۔
تو ہم اِن سازشوں کو جانتے ہیں، اور ایسا جانتے ہیں ایسا جانتے ہیں ایسا جانتے ہیں کہ کوئی مولوی پگڑی داڑھی والا بھی آپ پر پردہ نہیں ڈال سکتا ہے
(نعرہ تکبیر اللّٰہ اکبر، للکار للکار ہے
شیر کی للکار ہے قائدجمعیة مولانا فضل الرحمن زندہ باد کے نعرے)۔
میں حیران اِس بات پہ ہوں لوگ کہتے ہیں مغرب یہ مذہب کا دشمن ہے، میں کہتا ہوں مذہب کا نہیں مذہب اسلام کا دشمن ہے، قادیا نیت بھی تو مذہبی موضوع ہے، لیکن جس مذہب سے مذہب اسلام کو نقصان پہنچتا ہو اور اُس کی فصیل کو نقصان پہنچتا ہو وہاں وہ اُس کو بھی سپورٹ کرتے ہیں، صرف اِس لیے کہ اُس سے اسلام کو نقصان پہنچتا ہے، تو باہر کے فتنے اتنے خطرناک نہیں ہوتے جتنے ہمارے اندر کے فتنے ہمارے لیے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں، لیکن آج کی اِس کانفرنس سے میں پوری قادیا نیت کو اور اُس کی پوری قیادت کو پیغام دینا چاہتا ہوں آو توبہ کرو، داٸرہ اسلام میں واپس آجاو، ورنہ اِس خبث باطن کے ساتھ تمہارا باپ بھی پاکستان میں اپنے آپ کو مسلمان نہیں کروا سکے گا، اور یہ سب پاکستان میں، مغرب میں کیا جمہوریت کی بات کرتے ہے، پاکستان کے پارليمنٹ نے فیصلہ کیا ہے، یہ مولویوں کا فیصلہ نہیں ہے، یہ پارليمنٹ کا فیصلہ ہے، بین الاقوامی معیارات کے اوپر ایک جمہوری اور عوامی ادارے کا فیصلہ ہے، اور یہ تو پاکستان ہے یہاں تو مسلمان بیٹھتے ہیں، جنوبی افریقہ میں تو مسلمان نہیں تھے جس عدالت نے اُن کو غیر مسلم قرار دیا تھا، جنوبی افریقہ کی عدالت میں جو مقدمہ ہوا تو اُس کے جج نے بھی دلائل سننے کے بعد کہا کہ اِس کے بعد یہ مسلمان نہیں ہوسکتے، اب صرف آپ کو مرکز ملا ہے اسرا ئیل میں، مرکز ملا ہے آپ کو برطانیہ میں، اور خود کہتا ہے میں تو انگریز کا خودکار سا پودا ہو، سو وہ آج بھی اِس پودے کو پانی پلاتے ہیں لیکن پودا ان شاء اللہ آگے نہیں بڑھے گا
(نعرہ تکبیر اللّٰہ اکبر کے نعرے)
میرے دوستو! ہم نے جو بھی فیصلے کیے ہیں ہم نے عمیق فکر کے ساتھ کیے ہیں، شرح صدر کے ساتھ کیے ہیں، اُس میں ان شاء اللہ کسی اضطراب کی کوئی گنجائش نہیں، ہم جہاں کھڑے ہیں کسی دلیل سے، تو ان شاء اللہ العزیز جنگ جاری رہے گی اور پیچھے نہیں ہٹنا ان شاء اللہ، اسرا ئیل کو تسلیم کرنے کی کوئی بات کرے گا تو بھیڑوں کی جتھے کو ہاتھ لگائے گا، ایسا آسان نہیں ہے، دنیا میں کیا حماقت کی باتیں ہیں، ستر پچھتر سال سے موضوع یہ ہے کہ فلسطین کی سرزمین اور فلسطین کی سرزمین کی آزادی، آج بلکل صورتحال آپ نے بدل دی، فلسطین کا حق ہی بھول گٸے، فلسطین کی شناخت ہی ختم کررہے ہو، فلسطین کو تسلیم کرنے کی بات ہی ختم، اور الٹی بات تنگ موضوع کہ اسرا ئیل کو تسلیم کرنا ہے یا نہیں کرنا، یہ کون سی عقل کی بات ہے، مسلمان کا موضوع یہ ہونا چاہیے کہ فلسطین کو تسلیم کرو، مسلمان کی شناخت یہ ہے کہ وہ فلسطین کو تسلیم کرنے کی بات کرے گا، اسرا ئیل کو تسلیم کرنا یہ تو اپنے شناخت کو ختم کرنے کی مترادف ہے، لہذا اپنے مۏقف میں ہمیں ڈٹے رہنا ہے اور آپ حضرات زندہ رہے کوئی حکمران اِس کی جرأت نہیں کرسکے گا۔
یہاں میں جب پہنچا تو ذکر ہوا شرم بھی آتی ہے یہ لفظ زبان پر لاتے ہوئے ٹرانسجینڈر، اب اِس قسم کی چیزیں پاکستان میں قانون اور ایکٹ کی شکل اختیار کرتی ہے، اور جو بھی ہوتا ہے پاکستانی عوام ہمیں ووٹ نہ دے لیکن یہ ضرور کہتے ہیں کہ تم کدھر تھے، لیکن ان شاء اللہ العزیز جو بِل علماٸے کرام کے5 مشورے کے ساتھ، ماہرین ائین و قانون کے مشاورت کے ساتھ ترمیمی بِل جمعیت علماء اسلام نے تیار کیا ہے وہ صرف تیار نہیں ہے بلکہ سینیٹ میں داخل کر دیا گیا ہے، یہ بات آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ اِس محاذ پر ہم ہیں لیکن آپ کا تعاون چاہیے، بجائے اِس کے کہ کوئی کمزوری نظر آئے تو اُس کو اچھالے اور اچھائی نظر آئے تو اُس کو چھپائے، تو اِس سے تو رسول اللّٰہﷺ نے پناہ مانگی ہے (دعا)، تو ہم وہ لوگ بن گئے، اپنے ماحول میں کمزوریاں ڈھونڈنے کے پیچھے لگ گئے، اِس طرح تو آپ دیمک کی طرح اندر اندر سے اپنے جماعت کو کھالیں گے، اپنے قوت کو خود کمزور کررہے ہیں، اپنی طاقت کو بڑھاؤ، سیاست میں آپ کا کام تب ہے اگر آپ کے پاس طاقت ہے، اگر طاقت نہیں، مجھے حضرت شیخ ذکریا صاحب رحمہ اللہ کی ایک کتاب ملی، اچھا ہے ماحول بھی انہی کی لوگوں کا ہے اور مجھے بھی اللّٰہ نے یہ سعادت دی ہے کہ اُن کی طرف سے مجھے سند حدیث حاصل ہے، تو ہندو ستان میں ایک موضوع وہاں کے علماء نے اٹھایا کہ برصغیر میں امارت شرعیہ قائم کی جائے تو اُس پر علماء کرام کی آپس میں مشاورت ہوئی، اُس پر حضرت شیخ نے خود ایک چھوٹا سا رسالہ لکھا ہے اور انہوں نے اُس رسالے میں فرمایا ہے کہ امارت شرعیہ کی بات تو ٹھیک ہے ، لیکن امارت شریعیہ کے لیے قوت بمنزل رکن کے، اگر قوت نہیں تو امارت کا تصور نہیں، تو پہلے قوت پیدا کرو، قوت دعوت سے پھیلتی ہے ، اور دعوت ہی حکمت اور حسن موعظت کے ذریعے اور تیسری چیز ہے
” وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِی ھِیَ أَحْسَن “
تو جدال فی نفسہ دعوت نہیں ہے، لیکن اگر دعوت دینے والا اور جس کو دعوت دی جارہی ہے آپس میں کسی مسئلے پر الجھ جائے تو پھر اِس کو شائستہ انداز کے ساتھ حل کرے، بالتی ھی احسن یعنی اس طرح حل کرو کہ اِس جدال کا جو نتیجہ ہو وہ ہی ہو جو حکمت اور حسن موعظت کا ہے ، پھر آپ طاقت حاصل کریں گے، اور ہم تو جمعیت والے لوگ ہیں، دعوت میں تو آپ انفرادی اصلاح کی محنت بھی کرتے ہیں جیسے ہمارے تبلیغی جماعت والے کرتے ہیں افراد کی اصلاح میں لگے ہوئے ہیں کام کررہے ہیں، لیکن جمعیت علماء اسلام اپنے ساکھ اپنے موضوع اپنے میدان کے حوالے سے اجتماعی فتنوں کا مقابلہ بھی کرتی ہے، کسی کو اِس بات کی اجازت نہیں کہ وہ بظاہر تو لباس شریعت کا پہنے اور اندر سے وہ عبداللہ بن ابی کا کردار ادا کرے، تو ہم جانتے ہیں کہ جہاں مدینہ منورہ کی نسبت جناب رسول اللّٰہﷺ کے ساتھ ہیں اِس میں کوئی شک نہیں ہے لیکن وہاں عبداللہ بن ابی جیسے لوگ بھی رہا کرتے تھے اور اُن کا لباس بھی اسی طرح تھا، داڑھی پگڑی بھی اس طرح تھی، لیکن اُس نے اسلام کو متاثر نہیں کیا، مخلصین کو متاثر نہیں کیا، تو آج بھی میں دنیا کو کہتا ہوں کہ آپ بھی اِس لباس میں ہوکر ہمیں متاثر نہیں کرسکتے، ہم نے جو مؤقف دیا ہے اُس پر ڈٹے ہوٸے ہیں، مقابلہ کریں گے اور تمہیں انجام تک پہنچائینگے۔
واٰخر دعوان ان الحمد للہ رب العالمین
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر ٹیم جے یو آٸی سوات
#teamjuiswat
ایک تبصرہ شائع کریں