قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا سرینہ ہوٹل اسلام آباد میں بین الاقوامی سیرت النبیﷺ کانفرنس سے خطاب 09 اکتوبر 2022

اسلام آباد: قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا بین الاقوامی سیرت النبی ﷺ کانفرنس سے خطاب 
 09 اکتوبر 2022
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم اما بعد فرمایا

گرامی قدر جناب اسحاق ڈار صاحب، جناب مفتی عبدالشکور صاحب، علماء اُمت ، اکابرین اُمت ، میرے دوستو اور بھائیو میں اِس مبارک اور جناب رسول اللّٰہﷺ کی نسبت سے اِس اجتماع کی انعقاد پر جناب مفتی عبدالشکور صاحب اور وزارت مذہبی اُمور کا شکر گزار بھی ہوں اور انہیں مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ جس نام سے یہ مجلس موسوم کی گئی ہے اُسی سے اِس کی قدر و منزلت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ، اللّٰہ رب العزت اِس میں آپ کی اور ہماری شرکت کو قبول فرمائے اور اسے ہماری نجات اور مغفرت کا سبب اور ذریعہ بنائے۔
برادران محترم جناب رسول اللّٰہﷺ کی سیرت طیبہ پوری انسانیت کے لیے ایک مکمل رہنمائی ہے ، جناب رسول اللّٰہﷺ کی ظاہری صورت اور ظاہری حسن اُس کی حقیقت کا ادراک بھی علماء فرماتے ہیں کہ قوت بشری سے باہر ہیں ، صحابہ کرام رضوان اللّٰہ تعالیٰ اجمعین نے آپ کے شمائل کا تذکرہ کیا ہے ، آپ کی صورت ظاہری کا تذکرہ کیا ہے ، آپ کے حُسن کا تذکرہ کیا ہے ، لیکن جہاں تک اُن کی قوت بشری ساتھ دیتی تھی اسی حد تک انہوں نے بیان کیا ہے آپ کا حُسن تو اُس سے بھی آگے ہے ، اُس سے بھی آگے ہے کہ حُسن ظاہری کا احاطہ کرنا اور اُس کی حقیقت کا ادراک کرنا یہ بھی انسانی قوت سے باہر تصور کیا گیا ہے اور ظاہر ہے کہ حُسن صورت اُس میں تو آپ کا اتباع بھی ممکن نہیں ،
 ہم آپ جیسا رخ انور کہاں سے لاٸے ، آپ جیسے روشن جبین کہاں سے لاٸے ، آپ جیسے منور آنکھیں کہاں سے لاٸے ، اُن آنکھوں پر سجی پلکیں کہاں سے لاٸے ، اُس کے اوپر آبروو کا ہلال کہاں سے لائ ، 
آپ کے اعضاء کا تناسب وہ کہاں سے لائے،
 دندان مبارک کہاں سے لائے ، منہ مبارک کہاں سے لائے ، اُس کے بَل کہاں سے لاٸے ، کوٸی تصور نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اُس لحاظ سے آپ کا اتباع ممکن ہے اور اِس حیثیت میں آپ کا تعارف پورے کائنات میں محمد بن عبداللّٰہ کی ہے ،
حسنِ یوسف ، دمِ عیسیٰ ، یدِ بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند ، تو تنہا داری
آپ کا مختصر تعارف
" بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر“ 
اگر کائنات کا خالق اللّٰہ رب العالمین ہے تو وجہ تخلیق رحمت اللعالمین ہے ، پھر ایسی ذات مبارکہ کے اُمتی ہونے پر ہم فخر کیوں نہ کرے ، لیکن جہاں تک آپ کی سیرت طیبہ کا تعلق ہے میں تو اپنے دوستوں سے کہتا ہوں کہ آپ حدیث کا مطالعہ کرے ، احادیث کی کتابوں کو پڑھے ، پڑھتے ہوئے آپ کو اندازہ لگ جائے گا کہ میں سیرت پر عمل کرتے ہوئے کتنے پانی میں ہو ، محبت کا اظہار اِس کے لیے کسوٹی، وہ اتباع ہے اور چوں کہ آپ کی سیرت اُس کا اتباع ممکن ہے تو اِس اعتبار سے آپ واجب الاتباع بھی ہے ، باعتبار صورت کے آپ واجب الاتباع نہیں کہ ہماری استطاعت میں نہیں ہے ، لیکن باعتبار سیرت کے آپ واجب الاتباع ہیں کہ وہ ہماری استطاعت میں ہے اور جس اعتبار سے آپ پوری انسانيت کے لیے واجب الاتباع ہے اُس اعتبار سے آپ کو ہر ہر جگہ موجود ہونا ضروری ہے ،
 آپ کا قیام آپ کی نشست ،
 آپ کی مجلس ، آپ کی گفتگو ، آپ کے بیٹھنے کے اداب ،
 انسان کے حقوق کا لحاظ ، انسانوں سے رویہ ،تعاون، یہ ساری چیزیں وہ ہیں کہ ایک امتی کے اندر کم از کم اس کی جھلک نظر تو آنی چاہیے ، چاہیے اور پھر اللہ رب العزت نے فرمایا مومنین کے لیے ان کی ذات سے رسول اللّٰہﷺ مقدم ہیں ، پہلے وہ ہے ، غالباً حضرت شاہ رفیع الدین صاحب یا شاہ عبدالقادر صاحبؒ نے ترجمہ کیا ہے اور ترجمے کے ساتھ جو ایک چھوٹی سی ایک جملے میں تفسیر کی ہے فرمایا اگ میں  کودنا حرام ہے لیکن اگر نبی حکم دے تو واجب ہے ، یہ جناب رسول اللّٰہﷺ کا مقام ہے ، حضرت عاٸشہ رضی اللّٰہ عنہا سے اخلاق مبارکہ کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا قران کو دیکھو یہ رسول اللّٰہ کا سیرت ہے ، پورا قران کریم جناب رسول اللّٰہﷺ کی سیرت ہے ، اور اللّٰہ پاک نے سرٹیفیکیٹ دے دیا ” انک لعلی خلق عظیم“ ، اب اتنی بڑی ذات کہ جس کو اللّٰہ تعالیٰ نے سند عطاء کی ہے ، لوگوں اعتماد رکھو جو بھی فرماٸیں گے اپنے طرف سے نہیں میری طرف سے وحی ہوگی ، جو رسول اللّٰہﷺ نے فرما دیا سمجھو یہی اللّٰہ کا حکم ہے ، یہی اللّٰہ کا منشاء ہے ، اللّٰہ رب العزت نے فرمایا آپ کو اور ہم کو مخاطب کرکے فرمایا کہ جو رسول اللّٰہﷺ نے آپ کو کرنے کے لیے کہا وہ کرو اور جس سے روکا ہے اُس سے رکو ، اتنی بڑی اتھارٹی آپ کو بنادیا  کہ نہ آپ کی گفتگو ، نہ آپ کی اعمال مبارکہ وہ آپ کے اپنے ہیں وہ اللّٰہ کی طرف سے ہے اور پھر جس طرح وہ آپ کی رہنمائی کرے اُسی طرح اگے چلو ، جس کام کے کرنے کو کہے وہ کرو ، جس سے روکے اُس سے رکو ،
عجیب ذات اللہ رب العزت نے اس امت کوعطاء فرمائی اور پھر اللہ رب العزت نے فرمایا

*وَمَا كَانَ لِمُؤۡمِنٍ وَّلَا مُؤۡمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَرَسُوۡلُهٗۤ اَمۡرًا اَنۡ يَّكُوۡنَ لَهُمُ الۡخِيَرَةُ مِنۡ اَمۡرِهِمۡ*
(سورة الاحزاب ایت نمبر 36)
 جھگڑا ہو جائے، جو فیصلہ جو قانون اللّٰہ اور اُس کے رسولﷺ نے بھیجا، اور آپ نے فیصلہ دے دیا تو کسی کے مائی کے لال کو اس بات کا اختیار نہیں ہے کہ اِس میں ذرہ بھر ردوبدل کرسکے ، آپ سے اور ہم سب سے اتھارٹی چھین لی ہے ، کس بات کا غرور ہے آپ کو اور ہم کو حکومتیں کرنے کا، احکامات صادر کرنے کا اور قوانين صادر کرنے کا، یہ اتھارٹی بھی تو اللّٰہ نے  آپ کو عطاء فرمائی ، اب ہم جو فیصلے کریں گے وہ رسول اللّٰہ کے فیصلوں کے تابع ہوں گے، ہم خودکون ہوتے ہیں شریعت دینے والے ؟
 ہم خود کون ہوتے ہیں قانون دینے والے ؟ اور میرے نزدیک قران و حدیث کی ایک طالب علم کی حیثیت سے رسول اللّٰہﷺ کے مقام اور آپ کی عظیم منصب اور مسند کے حوالے سے جو مستحکم آیت میرے نزدیک ہے جس میں اللّٰہ رب العزت نے فرمایا 

*وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّ حِكْمَةٍ ثُمَّ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَ لَتَنْصُرُنَّهٗؕ۔-قَالَ ءَاَقْرَرْتُمْ وَ اَخَذْتُمْ عَلٰى ذٰلِكُمْ اِصْرِیْؕ-قَالُوْۤا اَقْرَرْنَاؕ-قَالَ فَاشْهَدُوْا وَ اَنَا مَعَكُمْ مِّنَ الشّٰهِدِیْنَ*
سورة ال عمران ایت نمبر81)
تمام انبیاء کرام سے اللّٰہ پاک نے عہد لیا ” کہ میں نے آپ کو کتاب اور علم عطاء کیا ہے اور جو دین و شریعت میں نے تم کو عطاء کیا ایک پیغمبر آنے والا ہے جو آپ کی اِس کتاب اور علم اور حکمت کی تصدیق کرے گا ، تواب ایک وعدہ لیتا ہوں تم سے  ، تم سارے انبیاء کرام میرے ساتھ وعدہ کرو اور پھر یہ وعدہ اپنے اُمتوں سے لو کہ اگر آپ کو رسول اللّٰہﷺ کا زمانہ ملے یا آپ کی اُمتوں کو رسول اللّٰہﷺ کا زمانہ ملے،
 وعدہ کرو کہ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ
 اُن پر تم ضرور ایمان لے او گے ، 
 وَ لَتَنْصُرُنَّهٗؕ
اور ضرور اُن کی مدد کروگے، ایمان کے ساتھ نصرت کی بات بھی کی کہ انبیاء کرام پر سب سے زیادہ آزمائشیں آتی ہے ، اور جتنا مقام نبوت میں جناب رسول اللّٰہﷺ کا بلند تھا اتنی ہی آزمائشیں آپ پرآنی تھی تو یہ عہد بھی لے لیا کہ صرف ایمان لانا نہیں پھر اُن کی مدد بھی کرنی ہے ، اور اگر آپ کو وہ زمانہ نہیں ملا تو آپ کے اُمتوں کو اگر وہ زمانہ ملا تو اپنے اُمتوں سے بھی عہد لے لو کہ رسول اللّٰہﷺ پر ایمان بھی لے آئیں گے ، اُن کی اطاعت بھی کریں گے اور اُن کی مدد بھی کریں گے ۔
تو پھر جب آدم علیہ السلام تک تمام انبیاء سے کہا گیا کہ وعدہ کرو کہ تم نے رسول اللّٰہﷺ پر ایمان لانا ہے اور انہوں نے وعدہ کیا ،
اب آدم علیہ السلام تک انسانيت پیچھے جاؤ، قیامت تک انسانيت آگے جاؤ ، اب بتاؤ سید الاولین اور سید الاخرین ہوئے یا نہیں ، تمام انسانیت کا سردار 
*أَنَاسَیِّدُ وُلْدِ اٰدَمَ َوَلَافَخْرَ* قیامت کے دن میں تمام انسانيت کا سردار ہوں گا ، اور یہ میں کوئی فخر کی بنیاد پر نہیں جو اللّٰہ تعالیٰ نے مجھے ایک مقام دیا ہے وہی میرے ہاتھ میں ہوگا ، میرے ہاتھ میں جھنڈا ہوگا۔
تو تمام انبیاء کرام بھی آپ کی طرف دیکھتے ہیں کہ ہمارا سردار یہی ہے ، امام الانبیاء ہیں ، شب معراج میں مسجد اقصیٰ کا سفر اور تمام انبیاء کرام کی امامت ، تو انبیاء بھی آپ کے مقتدی بن گئے اور پھر اُن کے اُمتی بھی بالواسطہ آپ کے مقتدی بن گئے ، کوئی گنجائش تو رہی نہیں۔
ایک شخص نے ایک مولوی صاحب سے پوچھا کہ نبی کی تعریف کیا ہے ، وہ اصل میں اپنے اُس جھوٹے پیغمبر پہ کچھ لانا چاہتا تھا ، اُس نے جواب دیا کہ پیغمبر اُسے کہتے ہے جس نے مسجد اقصیٰ میں رسول اللّٰہ کے پیچھے نماز پڑھی تھی ، بات وہی ہوگئی اُس کے بعد کوئی گنجائش نہ رہی ، کوئی گنجائش ہی نہ رہی ، تو آپ کے ختم نبوت کی بھی یہی دلیل ہے اُس کے بعد تو پیغمبر کا تصور ختم ہو جاتا ہے۔
لیکن میرے محترم دوستو! سوال یہ ہے ہم نے اپنے سے سوال کرنا ہے کہ جب بارہ ربیع الاول آتا ہے تو ہم یوم میلاد کی طور پر یہ دن مناتے ہیں اور رسول اللّٰہﷺ کا نور جب دنیا میں چمکا اور پورے کائنات کو روشن کیا ، آج اُمت اُس پر خوشی کا اظہار کرتی ہے ، اِس اعتبار سے تو رسول اللّٰہ ہمارے محبت کے مستحق ہیں ، اُن کے بغیر ہم جاٸیں گےکدھر؟ ،
لایومن احدکم حتی اکون احب الیه من والده وولده والناس اجمعین
 ” تم میں سے کوٸی شخص اُس وقت تک مؤمن نہیں ہے جب تک میں اسے اپنے والد سے، اپنے بیٹے سے، اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ بن جاؤں“
 تب تک ایمان کامل نہیں ہوگا ، اللّٰہ رب العزت نے بڑی صراحت کے ساتھ فرما دیا ، 
 ”قل ان کان آباؤکم وابناوکم وخوانکم وعشیرتکم “ 
انسان کا تعلق دنیا میں جن چیزوں سے ہے وہ سب گِن کر بتادی خونی رشتہ ہے ، باپ دادا کی محبت ، بیٹے پوتوں پڑپوتوں کی محبت ، بھاٸیوں کی محبت ، قبیلے کی محبت ، میاں بیوی کی محبت ، وہ مال جو تو نے بڑی محنت سے کمایا ہے ، وہ کاروبار جس کی نقصان کے لیے ہر وقت فکرمند رہتے ہو کہ کہی نقصان نہ ہو جائے ، وہ گھر جس میں تم خوشی خوشی رہتے ہو ، اب اِن چیزوں کے ساتھ محبت تو فطری ہے اور طبعی ہے ، لیکن اللّٰہ کے ساتھ محبت پیدا کرنا ، رسول اللّٰہﷺ کے ساتھ محبت دل میں پیدا کرنا ، اور آپ کے راستے میں جہاد کرنا ، اِس کے لیے تو ذرا اکتساب کی بھی ضرورت ہوتی ہے ، اب آپ اندازہ لگائیے
 اِس کے باوجود فرماتے ہیں ”فتربصو“ تو انتظار کرو ”حتی یاتی اللہ بامرہ“ خدا کا عذاب تمہارے اوپر آجائے ، اب ایک چیز خلقتاً ہے تخليقی ہے ، طبیعی ہے ، فطری ہے اُس میں کسی تکليف اور الفت اکتساب کی ضرورت نہیں ہے اور دوسری چیز جو ہے اُس میں ذرا اکتساب ہے محنت کرنی پڑتی ہے ، اور وہاں پر بھی اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہمت کرو ، محنت کرو ، تعلق بناؤ اتنا بناولؤ اتنا بناؤ کہ ماں باپ بھی کچھ نہ رہ جائے ، برادری بھی کچھ نہ رہ جائے ، مال اور تجارت بھی کچھ نہ رہ جائے ، تمہارے گھر اور بنگلے بھی کچھ نہ رہ جائے ، اور اگر یہ اللّٰہ اور اُس کے رسول کے راستے میں جہاد سے بڑھ گئے تو پھر خدا کے عذاب کا انتظار کرو۔
ہم نے ذرا سوچنا ہے ، اپنے انفرادی زندگی کے حوالے سے بھی سوچنا ہے ، مملکتی اور اجتماعی زندگی کے حوالے سے بھی سوچنا ہے کہ میلاد پر تو ہم خوشی منائے، ایک اُمتی ہونے کا اظہار کرے ، لیکن سیرت کے حوالے سے جہاں آپ واجب الاتباع ہیں وہاں ہمارا کردار کیا ہے ؟
 سارا سال تو ہم نے دین کی طرف دیکھا نہیں ، آپ کی اتباع کی طرف دیکھا نہیں ، اور اللّٰہ تعالیٰ نے تو اپنی ساتھ محبت کو بھی آپﷺ کی اتباع کے ساتھ وابستہ کرلیا کہ اگر میرے ساتھ تمہاری محبت ہے تو پھر رسول اللّٰہﷺ کی اتباع کرو ، 
قل انکنتم تحبون اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللّٰہ کی محبت بھی اگر ہمیں نصیب ہوتی ہے تو وہ بھی اِس شرط پر کہ رسول اللّٰہ کی اطاعت کرو ، تو آپ اندازہ لگائیے کہ من حیث القوم ہماری وہ کوتاہی کہ اگر ہم آپﷺ کی اتباع نہیں کررہے ، قدم قدم پر نافرمانیاں کررہے ہیں اور پھر سوچتے ہیں کہ اللّٰہ کی رحمت آئے گی ، یہ بھی اللّٰہ کی مہربانی ہے کہ ہمارے روز روز کی گناہوں کی کثرت اور اللّٰہ کی طرف سے جس طرح ہمارے ساتھ گزارہ ہوتا ہے ، ہمارے ایک بزرگ فرمایا کرتے تھے کہ ہم اللّٰہ کے ساتھ گزارہ نہیں کررہے وہ ہمارے ساتھ گزارہ کررہا ہے ، 
جہاں پر اللّٰہ کا دین ہوگا ، یاد رکھے دین اسلام کی ایک خصوصيت ہے جو کسی دوسری دنیا کے قوانين میں نہیں ، تمام دنیا میں چلے جائیے اُن کی مملکتی اور قومی زندگی کا آغاز قانون سے ہوتا ہے ، کوئی تنازع کھڑا ہو جائےفوری طور میں عدالت جاؤ قانون کا سہارا لو ، لیکن دین اسلام جس کی ابتدا اور آغاز اخلاقیات سے ہوتا ہے ، پہلا دائرہ اخلاق کا ہے ، اخلاقی رویوں کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ نباہ کرو ، والصلح خیر صلح کرلو کوئی بات نہیں معاملات کو آپس میں طے کرلو ، آپ نے کسی کو قرض دے دیا ، مہینے کے بعد واپس کرنا ہے ، اُس نے مہینے کے بعد واپس نہیں کیا ، آپ نے مطالبہ کیا وہ کہتا ہے میرے پاس ادا کرنے کے لیے ابھی کچھ نہیں ، تو اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں 
*فَنَظِرَةٌ إِلٰی مَیْسَرَة* مہلت دے دو کوئی بات نہیں ، جب تک اُس پر اسانی آجائے گی تب ادا کردے گا ، تو اخلاق سے شروع ہوتی ہے ، اب اگر وہ اِس کے باوجود بھی ادا نہیں کرتا تو قرض دینے والے کو کہتا ہے کہ معاف کردو چھوڑ دو ، اب جب ایک مہلت نہیں دے رہا اور دوسرا ادا نہیں کررہا تو پھر اُس کے بعد قانون کا دائرہ شروع ہو جاتا ہے ، پھر عدالت میں جانا پڑے گا ، آپ کو ثابت کرنا پڑے گا کہ یہ میرا حق ہے اور ریاست وہ حق آپ کو لے کر دے گی ، کیا ایسا نظام دنیا میں کہیں ہے ، اور رسول اللّٰہﷺ نے فرمایا "کہ قیامت کے روز میزان اُس کا بھاری ہوگا جس کے اخلاق حسنہ زیادہ ہو" 
وہ دین جو اپنے انفرادی اور اجتماعی اور مملکتی اور معاشی اور معاشرتی زندگی کا آغاز ہی اخلاقیات سے کرتا ہو اِس سے بڑھ کر امتیاز اور کیا ہوسکتا ہے ، اگر چہرہ بگاڑا ہے ہم نے بگاڑا ہے ، 
اپنی ذات پر بھی انسان ذرا غور کرلے ، اپنے گھر پر بھی انسان خود غور کرلے ، خود احتسابی کرے پتہ چل جائے گا کہ قصور میری طرف سے ہے ، مملکتی سطح پر اجائے پچھتر سال ہمارے گزر گئے اسلام کے نام پر بننے ہوٸے ملک میں آج بھی ہم شریعت کی پیاس کیوں محسوس کررہے ہیں ، 
اخر وہ تشنگی کیوں ہیں آخر؟ ، وہ تشنگی ختم کیوں نہیں ہورہی ہے؟
 کچھ تو وجہ ہے ناں ۔
ایک آدمی کہتا ہے میں پیاسا ہوں تو پیاسا ہوگا تو اُس کا کرب نظر آئے گا ناں ، مستی سے تو کوئی نہیں کہتا کہ پیٹ بھرا ہوا ہے اور میں پانی مانگتا ہو ، تو پیاس ہوگی تو اُس کی بنیاد پر وہ کرب کا اظہار کرے گا ، اگر آج پاکستان کے اندر عام مسلمان، دینی طبقہ ،مذہبی لوگ اِس حوالے سے تشنگی کا اظہار کررہے ہیں اور کرب کا اظہار کررہے ہیں تو کچھ تو ہے جو ہمیں نہیں مل رہا ہے اور ابھی تک نہیں ملا ہے ، تو ہمیں سوچنا چاہیے کہ اگر مملکتی طور پر ہمارا کردار یہ ہے تو کیا ہمیں سیرت النبی کی بنیاد پر جلسے کرنے کا حق حاصل ہے ؟
 کیا نسبت ہم قائم کررہے ہیں۔ زبانی؟  زبانی تعلق تو منافقین بھی اظہار کرتے تھے وہ بھی کہتے تھے کہ ہم کلمہ پڑھتے ہیں ، مسجد میں بھی چلے جاتے تھے ، ٹکریں مار لیتے تھے ، لیکن اسلام کی حقیقت آجائے ، اور  اسلام کی حقیقت مشکل بھی نہیں ہے بھائیوں!
 ، مشکل بھی نہیں ہے۔
ہم جب کسی منصب پر جاکر فاٸز ہوتے ہیں تو اُس منصب پر فاٸز ہونے کے لیے ایک کراٸٹیریا ہوتا ہے ، آپ بیس بائیس گریڈ کے منصب پر پراٸمری سکول کے طالبعلم کو نہیں بٹھا سکتے ، اُس کے پاس کرائٹیریا نہیں ہے ، اُس کے پاس علم نہیں ہے ، اُس کے پاس تجربہ نہیں ہے ، اُس کے پاس تربیت نہیں ہے ، تو جب ہم خلافت کی بات کرتے ہیں ، امامت کی بات کرتے ہیں ، امارت کی بات کرتے ہیں تو اِس منصب پر فائز ہونے کے لیے کرائٹیریا عبادت ہے ، اللّٰہ کی بندگی تو اختیار کرو ناں ، اور عبدیت یہ انسان کو خلقتاً ودیعت کی گٸی ہے ، پیدائشی طور پر انسان کے اندر عبدیت موجود ہیں ، لیکن عبدیت تشریعی ہے تکوینی نہیں ہے ۔
 عبدیت تشریعی کا معنی یہ کہ انسان کے عقل و اختیار کے حوالے کردیا گیا ہے آپ چاہے تو ایمان لائے آپ چاہے تو ایمان نہ لاٸے ، 
*فَمَنْ شَاءَ فلْیُۏْمِنْ ومَنْ شَاءَ فلْیَکْفُرْ* 
*اِنَّاھدَیْنَاہُ السَّبِیْلَ إِمَّا شَاکِرًاوَّإِمَّاکَفُورًا*
آپ کی مرضی …
 تو پھر جاکر ہم اقتدار کے مستحق بن جاتے ہیں ، کیا ہمارے اندر وہ عبدیت ہے؟ ،کم از کم ہم پانچ وقت کی نماز پڑھتے ہیں ؟ ہم لوگ فراٸض ادا کرتے ہیں ؟ جب انسان کے اندر عبدیت نہیں ہے تو اِس کا معنی یہ ہے کہ اُس کے اندر خلافت کا کرائیٹیریا نہیں ہے اُس کا معیار موجود نہیں ہے ، تو جو سوالات دنیا میں اٹھتے ہیں تو ہم کہتے ہیں یہ تو انتہا پسند ہے یہ تو شدت پسند ہے ، کوئی شدت پسندی نہیں ہے ۔
اسلام کے کچھ اُصول ہے ، جس طرح آپ کے ہاں اُصول ہیں اسلام کے بھی اُصول ہیں ، شریعت کے بھی کوئی اُصول ہیں ، اور مملکتی زندگی میں اسلام آپ سے کیا چاہتا ہے ، دو ہی تو باتیں چاہتا ہے ایک امن اور ایک معشیت ۔
 امن تین حروف کا چھوٹا لفظ ہے ، لیکن تین حروف کا یہ چھوٹا سا لفظ تمام انسانی حقوق پر محیط ہے ، اور تمام انسانی حقوق کا تعلق تین چیزوں کے ساتھ ہے انسان کی جان ، انسان کا مال اور انسان کی عزت و آبرو ، دنیا میں تمام قوانين اِن تین چیزوں کے لیے بنتے ہیں ، 
حق دینا اور حق کی تلافی کرنا ، اگر کوئی حق چھینے تو اُس کی تلافی کیسی ہوگی؟ اُس کے لیے نظام بنتا ہے ۔
 اور دوسری چیزہے خوشحال معشیت  ، حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب منصب امامت عطا کیا گیا ، اُس کے لیے بھی اللّٰہ پاک نے ابراہیم علیہ السلام کا انٹرویو کیا تھا ،
” واذابتلی “ ، اُس میں کامیاب ہوٸے ” قال انی جاعلک للناس اماما “ اب میں تمہیں امام بنانے والا ہو ، اب وہ شخصيت جو ساری زندگی شرک کے خلاف لڑتا رہا ، توحید کا درس دیتا رہا ، رب اور بندے کے درميان تعلق قائم کرتا رہا ، اُسے کے لیے آگ میں جونک دیا گیا ، کیا کیا آزمائشیں آپ اٸی ، لیکن جونہی آپ کو منصب امامت عطا کیا گیا ، اب آپ کی ترجيح بدل گئی ،
اب آپ ایک امن کی دعا کررہے ہیں کہ اِس شہر کو امن کا شہر بنادے اور اِس شہر والوں کو پھل فروٹ عطا فرما ، خوشحال معشیت عطا فرما ، لیکن آپ نے ایمان والوں کے لیے مانگا ،
 اللّٰہ تعالیٰ نے ایک ضابطہ دیا کہ ایک دنیوی زندگی ہے اور ایک اخروی زندگی ہے ، دنیوی زندگی میں
قال ومن کفر جو کفر کرتے ہیں اُس کو بھی دوں گا ، یہ دنیا اللّٰہ نے پیدا کی ہے اِس کی جو نعمتیں ہیں ، اِس کی جو طیبات ہیں اِس پر پہلاحق کس کا ہے؟
”قل من حرم ذینة اللہ “ یہ جو اللّٰہ تعالیٰ نے دنیا کی خوبصورتی پیدا کی ہے اور طیبات رزق پیدا کیے ہیں ، کس نے تم پر حرام کیے ہیں؟  کیوں آپ اِس سے دستبردار ہورہے ہیں ؟
” قل للذین آمنوا فی الحیوة الدنیا خالصة یوم القیمة “
دنیا کے اندر تو کافر بھی آپ کے ساتھ شامل ہیں اور قیامت کے دن سب آپ کے لیے ہیں ، اور قیامت کی نعمتیں دنیا کی نعمتوں کے مقابلے میں جیسے ایک کے مقابلے میں سو ، کیوں کہ رسول اللّٰہﷺ فرماتے ہیں کہ اللّٰہ نے اپنی رحمت کا ایک فیصد دنیا میں بھیجا ہے ، اور اُس فیصد کو بھی انسانوں میں ، حیوانات میں ، جمادات میں ، نباتات میں سب میں پھیلا دیا ہے ، تو جب ایک فیصد میں اللّٰہ نے ہمیں محروم نہیں کیا ہے اللّٰہ ایمان کے ساتھ زندگی اور خاتمہ نصیب فرمائے تو ننانوے میں کیسے ہمیں محروم کرے گا ؟ لیکن ہمیں تھوڑا سا ذرا اللّٰہ کا بندہ بن جانا چاہیے ، ہم بندے نہیں ہے ، بندے بھی بنو بندے دا پتر بھی بنو۔ تب جاکر اللّٰہ آپ کی طرف متوجہ ہوں گے ، حدیث میں اتا ہے کہ جب انسان عبادت کرتا ہے تو کہیں غافل ہو جاتا ہے تصورات میں چلا جاتا ہے اور اللّٰہ پکار رہا ہوتا ہے میری طرف میری طرف ، میری طرف التفات کرو۔
اُس کو اپنے بندے سے کتنا پیار ہے میری طرف متوجہ ہوکر پڑھا کرو ، تو آپ کی جو غفلت ہے اُس کے لیے اللّٰہ پاک آپ سے کیا رویہ اختیار کررہا ہے ، کیا فکرمندی کا اظہار کررہا ہے ، وہ آپ سے آپ کی توجہ مانگ رہا ہے ۔
ہمیں مملکتی نظام بھی ٹھیک کرنا ہے ، اِس وقت ذرا آپ سوچے جو اللّٰہ رب العزت فرماتے ہیں
ضرب اللہ مثلا قریة کانت آمنة
ایک آبادی کی مثال اللّٰہ رب العزت دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اُس میں امن بھی تھا اور اطمینان بھی تھا ، امن و سکون کی علّت کیا تھی؟ اِس سکون و اطمینان کی علت کیا تھی؟
 اُن کے پاس ہر طرف سے رزق کھچ کھچ کے ارہا تھا ، خوشحالی تھی یعنی معاشی خوشحالی سے امن بھی آتا ہے اور معاشی خوشحالی سے اطمینان و سکون بھی اتا ہے ، لیکن جب اُس آبادی کے لوگوں نے اُن نعمتوں کا انکار کیا ، پھر سزائیں کیا دی؟
 پھر بھوک اور خوف اُن پر مسلط کیا گیا ، سو ایک معاشی بدحالی آتی ہے بھوک آتی ہے اور بدامنی آجاتی ہے ، کیا ہمارے پاس یہ دونوں چیزیں ہیں یا نہیں ہے ، روزگار کے لیے ہم چیخ رہے ہیں ، سیلاب آگیا لوگ آج تک سڑکوں پر پڑے ہیں ، زلزلہ آیا تو ابھی تک ہم سے اُن کی بحالی نہیں ہو پارہی ہے ، اُن کو ہم روزگار مہیا نہیں کرسکتے ، اور امن و امان کا یہ عالم کہ گھر سے نکلو تو یہ اطمینان نہیں کہ شام کو گھر واپس آؤنگا بھی یا نہیں؟اب یہ دونوں عذاب اِس میں ہم ایک دوسرے کو ملامت کررہے ہیں ، تو ذمہ دار ہے اور تو ذمہ دار ہے اور یہ ذمہ دار ہے اور وہ ذمہ دار ہے ، ایک دفعہ یہ نہیں سوچا کہ اللّٰہ کی طرف متوجہ ہوکر اپنی تقصیرات کا جاٸزہ لے لیں اور جناب رسول اللّٰہﷺ کی دی ہوئی تعلیمات کے حوالے سے سوچے کہ ہمارے اندر آپ کی تعلیمات اور سیرت کی کوٸی جھلک بھی ہے ؟
 شائد مکمل تو ہم اُس طرح نہ بن سکے لیکن جھلک بھی ہے ؟
تو اِس لحاظ سے یہ دور ہے یہ وقت ہے کہ ہم ہر سطح پر ہمارا ہر ادارہ ، ہماری حکومت ، ہماری انتظامیہ ، ہماری اسٹبلشمنٹ ، ہماری پبلک ہمارا عوام ہر ایک اپنی اپنی سطح پر سوچے کہ سیرت النبیﷺ کے حوالے سے میری تقصیرات کیا ہیں اور اللّٰہ نے تو اِسی سے راضی ہونا ہے ، قل ان کنتم تحبون اللہ، تو اللّٰہ کو اگر راضی کرنا ہے ، اُس کی نعمتوں کو آپ نے دعوت دینی ہے کہ میرے اوپر اترو ، تو اُس کے لیے ایک ہی بات ہے کہ رسول اللّٰہﷺ کی سیرت کی اتباع کی جائے ، تمام انبیاء نے بھی کی ہے ، تمام امتوں نے بھی  کی ہے اور جو نہیں کرتے وہ کفر کررہے ہیں ۔
تو اِس لحاظ سے ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہیے ، اور ایک بڑا مقدس اجتماع ہے اِس میں ہمیں کچھ سیکھنا چاہیے ، کچھ ہمیں سمجھنا چاہیے اور اِس جانب ہمیں کچھ قدم آگے بڑھانے چاہیے ، آج کل تو ہر آدمی بازار میں آپ سے یہی پوچھتا ہے پھر آپ جو اِس قسم کی باتیں کرتے ہیں تو آپ تو حکومت میں ہے پھر آپ کرتے کیوں نہیں ، تو میں نے اتنا ہی کرنا ہے جتنا میری ریاست میں طاقت ہے ، میرے ریاست کو اتنا کمزور کردیا گیا ہے کہ اب کوئی بھی آئے تو اِس کو اب واپس اُس مقام تک لانے میں کیا کچھ کرنا پڑتا ہے ، ہماری دعا ہے کہ پاکستان کی معشیت کو اللّٰہ پاک مستحکم کرے ، اور پاکستان کو امن و اشتی کا گہوارہ بنائے ، اور ہمیں صحیح معنوں میں جناب رسول اللّٰہﷺ کی اتباع کی توفیق عطا فرمائے ۔
وٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔

ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
تصحیح: #حافظ_یحییٰ
ممبر ٹیم جے یو آٸی سوات
#teamjuiswat

0/Post a Comment/Comments