
اسلام آباد: قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن کا جمعیت طلباء اسلام کے زیر اہتمام مفتی محمود کانفرنس سے خطاب
15 اکتوبر 2022
👈پہلی نشست👉
خطبہ مسنونہ کے بعد!
وہ شب زدوں میں سحر کا دماغ رکھتا تھا ،
ہوا کے دوش پہ اپنا چراغ رکھتا تھا
جو کررہا تھا رفو دوسروں کی زخموں کو ،
وہ شخص آب دلِ داغ داغ رکھتا تھا
وہ دشت غم کا مسافر تھا ایک دیوانہ ،
وہ اپنے دل کو مگر باغ باغ رکھتا تھا
وہ جس کے عزم پہ قربان جوانیوں کا غرور ،
وہ مردِ پیر بھی کیسا شباب رکھتا تھا
عجیب جاگتی آنکھوں میں خواب رکھتا تھا ،
وہ نوکِ خار پہ برگِ گلاب رکھتا تھا
خدا کے ذات پہ اُس کا یقین کامل تھا ،
وہ دل میں عشق رسالت مآب ﷺ رکھتا تھا
اور کرن کرن کو اُجالوں کی بھیک دیتا تھا
نظر نظر میں وہ صد آفتاب رکھتا تھا
وہ اپنی زیست کے لمحوں کی لاج رکھتا تھا
وہ کل کو اپنی تصرف میں آج رکھتا تھا
وہ ایک خطیب کہ شعلہ نوا بھی تھا لیکن
غضب کی دھوپ میں شبنم مزاج رکھتا تھا
وہ خار زار محبت پہ چل رہا تھا مگر ،
گلوں پہ قرض وہ اپنا خراج رکھتا تھا
اور آخری شعر ہے کہ
وہ اک مرد قلندر بھی کیا سکندر تھا ،
جو اپنی پاؤں کے ٹھوکر پہ تاج رکھتا تھا
میرے محترم جناب وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف صاحب ، سٹیج پر موجود تمام زعمائے قوم ، حضرات علماء کرام ، جمعیت طلباء اسلام کے جوانوں اور جمعیت کے جیالوں ! آج اِس موقع پر جب آپ اپنے قائد قافلہ حریت کے سرخیل حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے نام سے اِس کانفرنس کا انعقاد کررہے ہیں، اور اسلام آباد کے جناح کنونشن سنٹر میں آپ جس طرح جمع ہوئے ہیں، کنونشن سنٹر بھی یاد رکھے گا کہ کس کے نام پر پورا ملک اُس کے لئے آج اِس کنونشن سنٹر کا دامن تنگ آچکا ہے، جب بھی حضرت مفتی صاحب کا تذکرہ آتا ہے، تو ہمیں اُس کی تاریخی پس منظر میں جانا پڑتا ہے، برصغیر کی آزادی کی تحریک اور اُس آزادی کی تحریک کا وہ موڑ جب حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن نے پہلی جنگ عظیم اول کے بعد مالٹا کی طویل قید و بند سے واپس آکر مسلح جہاد کی بجائے تحریکی اور عدم تشدد پر مبنی تحریک کا آغاز کیا جس سن 1919 میں شیخ محمود حسن کا انتقال ہوتا ہے اور وہ دنیا سے رخصت ہوتے ہیں اُسی سال 1919 میں حضرت مفتی محمود دنیا میں تشریف لاتے ہیں، اللّٰہ کے تکوینی نظام کو دیکھے کہ تحریک کے تسلسل کے لئے ہر دور میں اللّٰہ نے کیسے شخصیات کو پیدا کیا اور ہم جس کو دیوبند کی تحریک کہتے ہیں مجھے دُکھ ہوتا ہے کہ ہم نے اُس تحریک کو ایک فرقے کا عنوان دے دیا ہے فرقہ پرستی کے محدود سوچ کیساتھ اُس کو وابستہ کردیا ہے ، یہ تو تحریک تھی اسلام کی آفاقیت کی ، اسلام کی عالمگیریت کی، اسلام کی ہمہ گیریت کی اور صرف برصغیر کی آزادی نہیں اقوام عالم کی آزادی کا منزل انہوں نے طے کرلیا تھا اتنا وسیع، اتنا بلند اور اتنا عمیق فلسفہ جس کی بنیاد پر یہ سارا نظام چل رہا تھا آج ہم نے اُسکو ہم نے اپنی کمائی کا دکان بنادیا ہے۔
میرے نوجوانوں! اپنے اسلاف کو اسی طرح کے کانفرنسیں رکھنی ہے کتابوں کی صورت میں، تصنیفات کی صورت میں آپ نے اُن کو زندہ رکھنا ہے اُن کے نظریات کو زندہ رکھنا ہے، اُن کے اعتقادات کو زندہ رکھنا ہے اور اُن کی وسعت نظر کو زندہ رکھنا ہے اور دنیا کو بتانا ہے کہ ہم ایک فرقہ نہیں، ہم ایک محدود تصور کے لوگ نہیں ہماری نظر میں آفاقیت ہے، ہماری نظر میں عالمگیریت ہے اور ہمارا یہ مسلکی عنوان یہ صرف اسلامی دنیا تک نہیں بلکہ مالٹا سے واپس آکر اُنہوں نے وطن کی آزادی پر ملک کے ہر مذہب کے لوگوں کو اپنے پلیٹ فارم پر بلایا اور ایک قوم کی صورت میں ہندوستان کو کھڑا کیا اور ایک سال سے بھی کم عمر ملی لیکن نظریہ ایسا عطا کیا کہ انگریز اپنے پاؤں نہیں جما سکا برصغیر پر اور بلآخر اُن کو یہاں سے جانا پڑا ۔
میرے محترم دوستو! اُن کی طالبعلمی کا زمانہ تھا 6 سال انہوں نے مدرسہ قاسمیہ مراد آباد میں مدرسہ شاہی میں تعلیم حاصل کی اور دوران تعلیم بھی آزادی کی تحریک میں جیل میں گئے اور جب پاکستان بنا سن1941 میں وہ فارغ ہوئے اور 1960 تک آپ نے بیس سال تک جم کر درس و تدریس سے وابستہ رہے اور ایک بڑے فقیہ مفتی اعظم اور محدث کے طور پر متعارف ہوئے ، اِس علمی پختگی کے بعد آپ نے پاکستان میں جمعیت علماء اسلام کو منظم کیا مولانا شبیر احمد عثمانی شیخ الاسلامؒ جو جمعیت علماء اسلام کے بانی تھے اور اُن کے رحلت کے بعد خلا پیدا ہوا لیکن حضرت مفتی صاحبؒ نے ایک ایک تنکہ کو اکٹھا کیا اور ایک منظم جمعیت علماء اسلام قائم کی وہاں سے سفر شروع کیا اور 1962 میں پہلی مرتبہ آپ نے پارلیمانی زندگی کا آغاز کیا اور قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ مغربی پاکستان کے صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور یہ سفر چلتا رہا اور پھر 1962/1961 سے لے کر آپکی پارلیمانی زندگی سن 1980 میں جب آپ دنیا سے جارہے تھے تو 20 سال پھر آپ نے قومی اور وطنی سیاست میں اِس ملک کے عوام اور قوم کی قیادت کیں ۔
میں یہ سوچتا ہوں کہ وہ ایک شخص نہیں تھے، وہ ایک نظریہ تھے اور ہر حلقہ فکر میں اُن کے لئے احترام تھا،
ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی حکومت تھی مفتی صاحب خان عبد الولی خان کے جیل میں جانے کے بعد قائد حزب اختلاف بنے لیکن باہمی محبت اور احترام کا رشتہ برقرار رہا، نیشنل عوامی پارٹی آج کی عوامی نیشنل پارٹی ایک سفر ہم نے کیا ہے، مسلم لیگ کے حلقوں میں اُن کے لئے ایک احترام پایا جاتا تھا، مسلم لیگ کے اندر بہت سے لوگ تھے جیسے عبد الرب نشتر مرحوم علماء دوست تھے، علماء سے اُن کا ایک رشتہ تھا ایک تعلق تھا اور کس طرح علماء نے اِس ملک کے اندر کام کیا، پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے قرارداد مقاصد حضرت شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی کا تیار کردہ مسودہ تھا جسے وزیر اعظم پاکستان نوابزادہ لیاقت علی خان نے دستور ساز اسمبلی میں پیش کیا، اور متفقہ منظور ہوا قرارداد مقاصد آج بھی مذہبی دنیا کے ہر مکتبہ فکر میں ایک متفقہ دستاویز ہے۔
سن 1973 میں آئین بنا وہ آئین اور اُس کے تمام اسلامی حیثیت اِس پر آج بھی علماء کرام کا اتفاق ہے اور محترم رضا ربانی صاحب تشریف فرما ہے ائین کی اصلاحات کمیٹی میں وہ چیٸر کررہے تھے اور میں نے دو تین روز اِس بات پر اصرار کیا کہ ائین کی اصلاحات کے لیے آپ ضرور آغاز کرے یہ وقت کی ضرورت ہے لیکن سب سے پہلے آئین کا بنیادی ڈھانچہ متعین ہونا چاہیے، اور میں نے اِس کی وضاحت بھی کی کہ ہمارے آئین کا بنیادی ڈھانچہ کیا ہے، پہلی بات کہ ہمارے آئین کا اساس اسلام ہے، آئین کہتا ہے اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہوگا، قرآن و سنت کے مطابق قانون سازی ہوگی اور منافی کوئی قانون نہیں بنے گا، اسلامی نظریاتی کونسل وجود میں آئی اور آج تک تمام سفارشات پر تمام مکاتب فکر کا اتفاق ہے، کونسل کے اندر بھی اور کونسل کے باہر بھی، دوسرا اساس جمہوریت ہے یہاں ڈیکٹیٹر شپ نہیں چلے گی یہاں پر جمہوری نظام ہوگا جس میں عوام کے شراکت کا تصور ہوگا، تیسری چیز کہ پارلیمانی طرز حکومت ہوگی یعنی صدراتی طرزِ حکومت نہیں ہوگی، اور چوتھی چیز کہ یہاں ایک وفاق اور اس کے نیچے چار وحدتیں ہوں گی، ہم اُس وقت آگے بڑھے جب میاں رضا ربانی صاحب نے منظوری دے دی کہ ہاں یہ چار باتیں ٹھیک ہے، اور آج ان شاءاللّٰہ وہ میری تائید کریں گے۔
تو اِن بنیادوں پر ہمارا ملک کھڑا ہے اور یہ آئین متفقہ آئین کہلاتا ہے، اِس میں ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ دو تہائی اکثریت تھی اِس میں لیفٹسٹ بھی تھے, رائیٹسٹ بھی تھے اور سنٹرلسٹ بھی تھے، اِس میں خان عبد الولی خان بھی تھے، غوث بخش بزنجو صاحب بھی تھے، مفتی صاحب بھی تھے ، جماعت اسلامی بھی تھی اور اپوزیشن کے دوسرے جماعتیں بھی تھیں، لیکن طے کیا کہ ہر چند کہ ہمارے پاس دو تہائی اکثریت ہے لیکن ہم نے آئین کی منظوری تب دینی ہے جب پورا ایوان متفق ہوں، اور اِس اتفاق رائے میں سب کامیاب ہوئے۔
یہ وہ تاریخ ہے کہ کس طرح اِس ملک کو متحد رکھنے کی کوشش کی گئی، اِس ملک کو ایک نظریہ دیا گیا اور اُس نظریے پر اِس ملک کو چلایا گیا، یہ چند باتیں ابتدائی طور پر میں اِس لئے عرض کررہا ہوں کہ جناب وزیراعظم نے آپ سے خطاب کرنا ہے اور اُس کے بعد یہ اجلاس چلتا رہے گا اور پھر آخر میں بھی ان شاء اللّٰہ دوسرا خطاب کروں گا تاکہ کچھ باتیں پھر میں اُس موقع پر آپ سے عرض کرسکوں وآخر دعوانا الحمد للّٰہ رب العالمین۔
👈دوسری نشست👉
خطبہ مسنونہ کے بعد!
قائدین کرام ، زعماء قوم ، حضرات علماءکرام ، جمعیت طلبہ اسلام کے نوجوانوں ، ہمارے سپوتوں ! آج کی اِس کامیاب مفتی محمود کانفرنس کی انعقاد پر میں جمعیت طلبہ اسلام کی قیادت ، ذمہ داران اور کارکنوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ کس طرح آپ نے اپنے جذبے اپنے جدوجہد کے ساتھ اپنے اسلاف اور اکابرین کو زندہ جاوید بنادیا ہے۔
میرے محترم دوستو ! میں جناب وزیراعظم پاکستان کا بھی شکر گزار ہوں ، جناب رضا ربانی صاحب کا بھی ، جناب سلیم صافی صاحب کا، برادر محترم شاہ اویس نورانی صاحب کا ، جناب امیر حیدر خان ہوتی صاحب، جناب سلمان گیلانی صاحب، جناب سعید یوسف صاحب اور تمام اپنے رفقاء کار جنہوں نے آج اِس سٹیج پر اِس کانفرنس کو رونق بخشی ہے ، میں دل کی گہرائیوں سے اُن کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللّٰہ تعالیٰ ہمارے ساتھ گزارے ہوئے چند لمحات کو اپنے دربار میں قبول فرمائے اور اسے ہماری زندگیوں کی خیر کا باعث بنائے اور اخروی نجات کا ذریعہ بنائے۔
میرے محترم دوستو! جیسا کہ میں پہلے عرض کرچکا ہوں حضرت مفتی صاحب رحمہ اللّٰہ کی حیات مبارکہ پر بحث کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ اُس تاریخ کو پڑھا جائے، اُس تاریخ اور ماضی کا تذکرہ کیا جائے جس کے وہ وارث اور امین بنے، جمعیت طلباء کے نوجوانوں کو حضرت مفتی صاحب رحمہ اللّٰہ اور اُن کے اسلاف و اکابر اور جمعیت علمائے اسلام کہ نظریہ سیاست کو اور جمعیت علمائے اسلام کے منہج سیاست کو سمجھنا ہوگا، نظریہ سیاست ہو یا منہج سیاست یہ اپنے اندر ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے، وسیع معانی رکھتا ہے اور ہم نے سیاست کو کس چیز کا نام رکھ دیا ہے ، سیاست مفادات حاصل کرنے اور اقتدار تک رسائی کا نام نہیں ہے، سیاست ایک مقدس وظیفہ ہے اور یہ انبیاءکرام کا وظیفہ ہے، جناب رسول اللّٰہﷺ نے فرمایا کہ ” بنی اسرا ئیل کی سیاست انبیاء کرتے تھے، ایک پیغمبر جاتا تھا تو دوسرا سیاسی ذمہ داریاں سنبهالتا تھا اور اب میں آخری پیغمبر ہو اور انسانی معاشرے کا سیاسی انتظام و انصرام اب میرے ہاتھ میں ہوگا اور میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، البتہ میرے نائیبین آئیں گے، بڑی تعداد میں آئیں گے لیکن نبوت میری اوپر تمام ہوگئی“ ۔
میرے نوجوانوں! ہمارے ہاں عام طور پر جب ختم نبوت کے نام سے اجتماع ہوتا ہے، کوئی سیمینار ہوتا ہے، کوئی کانفرنس ہوتی ہے تو ہم کہتے ہیں یہ ہمارا اجتماعی مسٸلہ ہے، امت مسلمہ کا مشترکہ مسٸلہ ہے، سیاست سے بالاتر مسئلہ ہے، خالصتاً مذہبی مسئلہ ہے، یہ کیا سوچ ہے؟
رسول اللّٰہﷺ نے تو اپنی ختم نبوت کو سیاست کی ذیل میں ذکر کیا ہے، اور ہم آپ کے اتنے بلند منصب اور بلند مقام کو سیاست سے بالاتر قرار دیتے ہیں، تو پہلے تو سیاست کو ہی سمجھ لو، تو اِس لحاظ سے ہمارے اکابر، علماء شریعت انہوں نے اپنی سیاست، سیاست کے اُصول، سیاسی نظام، سیاسی رویے، سیاسی منصب، سیاسی منہج اُس کو تو قران و سنت کی روشنی میں طے کیا ہے ۔
یاد رکھو انسان کو انفردی، اجتماعی ، مملکتی، ملّی اور قومی زندگی میں بھی شریعت کی رہنمائی کی ضرورت ہے، لیکن ایک انفرادی مسئلے میں تو فرد عالم کی رہنمائی حجت ہوسکتی ہے، آپ نماز پڑھ رہے ہیں اُس میں بھول ہوگئی، روزے میں بھول ہوگئی، زکوٰة کا مسئلہ پیش ہوگیا، نکاح طلاق، میراث کا مسئلہ کسی کا پیش ہوگیا، تو آپ جلدی سے کسی مدرسے جاتے ہیں، دالافتا میں کسی مفتی سے رجوع کرتے ہیں کہ جی مجھے یہ مسئلہ درپیش ہوا ہے اور وہ آپ کو مسئلہ بتاتا ہے اور آپ اُس پر عمل کرتے ہیں، ایک فرد عالم کی رہنمائی آپ کے لیے کافی ہے ، لیکن جب مملکت کا سوال ہوگا، قومی اور ملّی زندگی کا سوال ہوگا تو پھر اُس کے لیے ایک فرد عالم کی رائے حجت نہیں ہے، اُس کے لیے علماء کی جماعت چاہیے، اُس کے لیے شورائیت چاہیے، شورائی نظام چاہیے، حضرت ابوبکر صدیقؓ فرماتے ہیں کہ جب خلافت کے معاملات میں مجھے کوئی نیا مسئلہ سامنے آتا تو میں اُس کا حل قران میں تلاش کرتا، میں وہاں کامیاب نہ ہوتا تو میں رسول اللّٰہﷺ کی زندگی میں اُس کا حل تلاش کرتا، اگر مجھے وہاں بھی کامیابی نہ ملتی تو میں عابدین و ذاھدین اور اہل الرائے کو اکھٹا کرتا، اُن سے مشورہ لیتا اور جس معاملے میں اُن کی رائےےایک جگہ ٹہھر جاتی تو میں اُس کے مطابق فرمان جاری کرتا۔
حضرت عمرؓ صرف ایک اضافے کے ساتھ یہی بات فرماتے ہیں کہ میں پھر حضرت صدیق کے دور میں اُس کا حل تلاش کرتا، اگر مجھے وہاں سے حل نہ ملتا تو پھر میں عابدین و ذاھدین اور اہل الرائے کو اکھٹا کرتا، عمائدین عمدہ لوگوں کو اکھٹا کرتا اُن سے رائے لیتا، اور جہاں وہ ایک رائے پر متفق ہو جاتے میں فرمان جاری کرتا۔
حضرت عثمانؓ سے پھر ایک اور اضافے کے ساتھ یہی روایت منقول ہے کہ پھر میں حضرت عمرؓ کے زمانے سے رہنمائی لیتا، اگر مجھے کامیابی نہیں ملتی تو پھر میں اہل الرائے اور اہل شوریٰ کو بلاتا، اور اُن سے مشورہ کرتا اور اُن کے متفقہ فیصلے کے مطابق فرمان جاری کرتا، اور حضرت علیؓ کو تو رسول اللّٰہﷺ نے براہ راست حکم دیا تھا کہ آپ نے امت کے فیصلے اپنی ذاتی رائے سے نہیں کرنے ۔
اِس تصور کو لیکر آپ خود اندازہ لگائے کہ برصغیر میں جمعیت علماء کی بنیاد کن اصولوں پر رکھی گٸی تھی، ذرا اِن چیزوں کو سمجھو، کس اساس پر جمعیت علماء قاٸم ہے؟ کس تصور پر یہ قاٸم ہے؟ سو آج بھی قوم کو اِس طرح کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔
میرے محترم دوستو! اللّٰہ رب العزت نے فرمایا ”الیوم اکملت لکم دینکم“ آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا، تمہارے لیے نظام زندگی مکمل کردیا، ”واتممت علیکم نعمتی“ اور میں نے اپنی نعمت تم پر تمام کردی، ہمارے علماء اِس کی تشریح و توضیح یہ کرتے ہیں کہ بہ اعتبار تعلیمات و احکامات کے میں نے تمہارا دین مکمل کردیا ہے، لیکن یہ اکمال دین ہے اپنے تعلیمات اور احکامات کی روشنی میں، لیکن اتمام نعمت یہ اِس نظام کا اقتدار ہے، جب یہ کامل اور مکمل نظام ہوگا اور اِس کی حاکمیت ہوگی تو پھر یہ اتمام نعمت ہے، ہم صرف آیت پڑھتے ہیں اور تلاوت سے دل کو ٹھنڈا کرتے ہیں اُس سے اگے قران کریم کی مفہوم اور اُس کی تشریحات اِس کا ہم نے کبھی نہیں سوچا، اب ظاہر ہے کہ سب سے پہلے تو انسان کو اپنے اندر کی عبادت و امانت چاہیے، اندر سے اندر اُس کی ایمان ہے ، اندر سے اندر اُس کی عبادت ہے، بندگی کا احساس ہے، بندگی کا اعتراف ہے تو پھر
*”وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإِنْسَ إِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ“*
میں نے جن و انس کو صرف اِس لیے پیدا کیا کہ وہ میری ہی عبادت کریں گے، جب اپنے اندر آپ کو بندگی کا اعتراف ہو جاٸے، تو پھر اِس کے بعد اِس نظام کی حاکمیت کا مرحلہ آئے گا، اور جب نظام حاکم ہو جائے تو اِس کو محفوظ بنانے کی بھی ضرورت ہوتی ہے، سرحد کو محفوظ بنانا تاکہ دشمن چڑھائی نہ کرسکے، ریاست کے اندر ایک ریاستی نظم پیدا کرنا کہ جس سے نظام کو استحکام ملے فرمایا کہ” دشمن کے مقابلے میں پھر جتنا تمہارا بس چلے اپنی طاقت بناو اور جدید دور کا اسلحہ اُس میں جتنی چاہے ترقی کرتے جاو، تو یہاں قوة یہ معطوف علیہ ہے اور من رباط الخیل یہ معطوف ہے، اور آپ علماء کہتے ہیں کہ اِن دونوں کے درمیان مغائرت ہے، تو قوة اور من رباط الخیل میں کیا مغایرت ہے ؟
تو سیدھی بات ہے کہ قوة نکرہ ہے اُس میں عموم ہے
اور رباط الخیل معرفہ ہے اُس میں خصوص ہے، جہاں عموم ہے آج کے دور میں آپ اِس ایت پر کیسے عمل کریں گے ؟ نظام بدلتے رہتے ہیں، زمانے بدلتے رہتے ہیں، ہر زمانے میں قران کریم اور شریعت کی تعلیمات یہ فِٹ ہونے کے قابل ہے، اُس میں سمو لیتے ہیں، تو پھر جو عموم ہے اُس کو عوام کی طرف کرلو، قوت جونسی قوت ہو علمی قوت، سیاسی قوت، تحقیقی قوت ہو، تنظیمی قوت ہو جو قوت آپ کے بس میں ہے اور آپ کو اِس کی اجازت ہے ریاست کے اندر وہ قوت حاصل کرو اور خصوص کو خواص کے حوالے کردو، ہمیں تو چاقو رکھنے کی بھی اجازت نہیں ہے لائسنس دینا پڑتا ہے، لیکن ریاست کو حق ہے کہ وہ اپنی دفاعی قوت کو مظبوط بنائے کلاشنکوف سے لیکر ایٹم بم بنانے تک یہ حق ہمیں قران کریم نے دیا ہے، ہم سے یہ حق چھیننے والا امریکہ کون ہوتا ہے، اور پھر ہمیں یہ بھی بتادیا کہ ایک ہے قوت کا حصول اور ایک ہے قوت کا استعمال، تو قوت کے حصول اور استعمال کے الگ ضابطے ہیں، لہذا قوت حاصل کرو جتنا تمہارے بس میں ہے، لیکن پھر یہ نہیں فرمایا کہ *تقاتلون بہ عدواللہ وعدوکم*
اِس لیے طاقت حاصل کرو کہ اپنے اور دین کے دشمن کے خلاف لڑنے کے لیے استعمال کرو فرمایا اِس لیے حاصل کرو تاکہ اُن کے اوپر آپ کا دبدبہ رہے ، ہم نے ایٹمی قوت استعمال کرنے کے لیے حاصل نہیں کی، ہم نے ایٹمی قوت کسی پڑوسی ملک کے خلاف جارحیت کے لیے تیار نہیں کی، ہم نے ایٹمی قوت پاکستان کی ریاست اور اُس کی دفاع کے لیے یہ طاقت حاصل کی ہے۔
تو میرے محترم دوستو! اِن اصول کو ہمیں سمجھنا ہوگا ہم شریعت کی بات کرتے ہیں، خلافت راشدہ کی بات کرتے ہیں، خلافت ہو، امامت ہو، امارت ہو، صدارت ہو، وزارت ہو یہ تمام نام مترادف ہیں لیکن اِن تمام الفاظ مترادفہ کا خارج میں مدلول ایک ہے ایک حکمران کے منصب کا نام ہے، آپ نماز کے طریقے میں تبدیلی نہیں کرسکتے، آپ روزے کے احکامات میں تبدیلی نہیں کرسکتے، آپ زکوٰة کے احکامات میں تبدیلی نہیں کرسکتے، ہاں البتہ یہ عبادات ہیں اور عبادت خلافت کے لیے کرائٹیریا ہے، اگر آپ اللّٰہ کے بندے نہیں ہے اگر بندگی میں قصور ہے تو پھر آپ کو امور مملکت میں اللّٰہ کا نائب بننے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔
تو بنیادی چیز یہی ہے کہ اولین چیز اللّٰہ کی عبدیت ہے اور یہی عبدیت معیار ہے، استعداد اور صلاحیت ہے کہ آپ کو اللّٰہ کا نائب اور خلیفہ دنیا میں بنادیا، تو خلافت امر اجتماعی ہے لیکن نظام مملکت نظام خلافت اُس کے لیے کوئی خاص شکل متعین نہیں ہے حضرت ابوبکر صدیقؓ کی خلافت ایک طریقے سے ہوئی ،
حضرت عمر فاروقؓ کی دوسرے طریقے سے،
حضرت عثمانؓ کی خلافت تیسرے طریقے سے اور
حضرت علیؓ کی خلافت چوتھے طریقے سے ہوئی،
ایک خلافت راشدہ کے اندر ان چار خلفاء کے انتخاب کا طریقہ ایک دوسرے سے مختلف رہا، مطلب یہ کہ اِس میں وسعت ہے، بس جلدی سے ہم تنگ نظری میں جو میرا نظریہ ہے وہی اسلام ہے اور جو اِس کے خلاف کرے گا وہ کافر ہے یہ کوئی بات ہے۔
یاد رکھے انتہا پسندی، شدت پسندی یہ اُس وقت اتی ہے جب آپ مایوس ہو جاتے ہیں، آپ عوام کو مطمئن نہیں کرسکتے، اُن کی تائید حاصل نہیں کرسکتے، جب پبلک کے طرف سے آپ کو قبولیت نہیں ملتی تو پھر حواس باختگی اور مایوسی میں انسان شدت کی طرف جاتا ہے، یار یہ راستہ تو کام نہیں آرہا، یہ جمہوریت تو فضول چیز ہے، پارلیمنٹ کی کیا سیاست ہے؟ الیکشن میں دس دفعہ کھڑے ہوکر فیل ہوجاتے ہیں، تو راستہ کیا ہے؟ پھر اپنے دماغ میں جو جذباتی طور پر اُس کے ذہن میں ایا اُسی کو لے لیا، اور صرف لیا نہیں، اسی کو شریعت کہتے ہیں اور صرف شریعت نہیں کہا پھر جب آپ اُن کے فکر کے خلاف کرتے ہیں تو آپ کو کافر بھی کہتے ہیں اور جمہوریت کو کفر بھی کہتے ہیں۔
پہلے تو یہ بات ہے کہ جمہوریت ہے کیا چیز ؟،جمہوریت کی تعریف کیا ہے، اِس کی تعریف تو ابھی تک دنیا میں ہم نے نہیں دیکھی، زیادہ سے زیادہ اگر کہی ہم اُس کا خلاصہ نکالیں گے تو ایک لفظ سمجھ میں اتا ہے کہ عوام کی شراکت،
اب رہی بات یہ کہ عوام کی حاکمیت ،تو حاکمیت تو اللّٰہ رب العالمین کی ہے، تو اللّٰہ کی حاکمیت کے بعد عوام کی حاکمیت کی بات کرنا یہ تو پھر شرک ہوگیا، تو پھر آپ جو فتویٰ لگائے ٹھیک ہے، لیکن میرے ملک کا ائین کیا کہتا ہے؟ میرے ملک کا ائین کہتا ہے کہ حاکمیت مطلقہ اللّٰہ رب العالمین کی ہے، قرارداد مقاصد ائین کا حصہ ہے وہ اللّٰہ کی حاکمیت کی بات کرتا ہے تو اِس کا معنی یہ ہے کہ مغرب،مغرب یورپ اور امریکہ میں اگر جمہوریت کی کوئی تعریف ہے تو وہ جانے اور اُن کا کام جانے، ہم تو اُس تعریف کے پابند ہیں جو ہمارے ائین نے ہمارے ملک کے اندر کیا ہے۔ پارلیمنٹ کی اکثریت قانون بناسکتی ہے ، یہ اُس کا ائینی حق ہے لیکن اگر ائین نے کہہ دیا کہ یہ قانون قران و سنت کے خلاف ہے تو اکثریت کو بھی حق نہیں ہے کہ وہ قران و سنت کے خلاف قانون بناسکے۔
اب اصول تو طے ہے جس طرح عدالتیں کہتی ہے کہ اٸین کا فلاں شق انسانی حق سے متصادم ہے یہ انسانی حق کی نفی کرتا ہے تو پھر جب پارليمنٹ کا باقاعدہ ترمیم شدہ ائین کا حصہ کوئی شق جو پارليمنٹ نے بنایا ہو اور عدلیہ اُس کی تشریح کرے اور کہے کہ یہ انسانی حق کی منافی ہے تو ائین ختم ہو جاتا ہے، اسی طریقے سے ہماری عدالتیں یہ بھی کہہ سکتی ہے کہ چوں کہ یہ قانون قران و سنت کی منافی ہے لہذا پارليمنٹ کا یہ بنایا ہوا قانون اِس کو ختم کیا جاتا ہے یہ قانون نہیں ہوگا ، لیکن اب ہمارے ہاں وہ عدلیہ آئے تو سہی، ہمارے ہاں وہ پارليمنٹ آئے تو سہی، اب اُس پارليمنٹ کو بنانے کے لیے، اُس نظام کو تشکيل دینے کے لیے، اُس عدلیہ کے قیام کے لیے ایک جدوجہد کی ضرورت ہے ناں۔
محنت کرو، پبلک کو مطمٸن کرو، اِس محنت کی ضرورت ہے اور یہ جہا د ہے، رسول اللّٰہﷺ نے واضح طور پر جہا د کے بارے میں فرمایا ہے کہ ” ہر وہ محنت ہر وہ کوشش جو اعلاءکلمة اللّٰہ کے لیے ہو وہی جہا د ہے، لہذا اسلام اور اللّٰہ کی کلمے کی سربلندی کے لیے آپ جو بھی حکمت عملی بنائے ، جدوجہد اور محنت کا جو منہج آپ اپنائے اُسی کو جہا د کہا جاٸے گا، اِس کے لیے کوئی خاص طریقہ متعین کرنا یہ بھی تو علمی لحاظ سے ہمارے سمجھ سے بالاتر ہے، میں بھی تو قران و سنت کا ایک طالب علم ہوں، میں بھی تو انہی مدرسوں سے فارغ ہوا ہوں، انہی اساتذہ سے میں نے پڑھا ہے۔
تو اِس قسم کی چیزوں پہ آخر ہمیں کیا پڑھی ہے ہمیں اسلام سے تو جھگڑا نہیں ہے، کوٸی اسلام کی بات کرتا ہے تو سر انکھوں پہ، لیکن جہت نظر پر اختلاف ہوسکتا ہے، کیا پاکستان میں اِس حد تک جانا کراچی سے لیکر، بدین سے لیکر، تربت سے لیکر اور وہ گلگت بلتستان اور چترال تک آپ جاٸے اتنے طول و عرض میں آپ جاٸے مدارس کا جال بچھا ہوا ہے، علماء کرام کا جال بچھا ہوا ہے، تنظیمیں ہیں، پھر مختلف مکاتب فکر ہے اتنی اجتماعی رائے کے ساتھ یہ تمام مذہبی طبقہ، یہ علما، یہ مدارس آپ کے ملک کے ائین کے ساتھ کھڑے ہیں، ملک کے نظام کے ساتھ کھڑے ہیں، پارليمنٹ کے ساتھ کھڑے ہیں یہ حجت نہیں تو اور کیا ہے ؟
پھر کون حجت ہے؟
وہ جو مایوس ہوگٸے ؟
وہ جو جذباتی ہوگٸے ؟ وہ جو مرنے مروانے پہ آگئے؟
وہ حجت ہو جاتے ہیں؟
کچھ تو ہمیں بات سمجھنی چاہیے ، ہم اندھے تو نہیں ہے ہماری زندگی اللّٰہ کی دین کے لیے وقف ہے، ہم اسی کے لیے جدوجہد کررہے ہیں، اور سیاست کا راستہ اپنایا ہوا ہے، ورنہ تو اسلام کی خدمت مختلف طریقوں سے ہوتی ہے۔
تعلیم الاحکام جسے ہم شریعت کہتے ہیں،
تہذیب الاخلاق جسے ہم طریقت کہتے ہیں،
تنظیم الاعمال جسے ہم سیاست کہتے ہیں۔
اِن تینوں چیزوں کا آپس میں ربط ہے ،
شریعت طریقت اور سیاست، اگر شریعتِ محض ہو اور طریقت اور سیاست معاون نہیں تو یہ تنگ نظری پیدا کرتی ہے، یہ حجرے میں بیٹھے ہوئے مولوی بڑے تنگ نظر ہوتے ہیں، اِن سے شکوہ نہیں کرنا چاہیے اِن کا ماحول تنگ نظری کا ہوتا ہے، اور طریقت ہو لیکن شریعت اور سیاست معاون نہ ہو تو پھر یہ رہبانیت پیدا کرتی ہے
اور رہبانیت اسلام کا مزاج نہیں ہے۔
اسلام کا مزاج کمرے سے باہر صحن میں، صحن سے باہر گلی میں آؤ
پھر محلے اور محلے سے آگے شہر میں آؤ، اِس سے اگے میدانوں اور پہاڑوں پہ چھا جاؤ، سمندروں پہ چھا جاؤ دنیا پہ چھا جاو۔
اللّٰہ رب العزت نے کیا مقام آپ کو عطا کا ہے ہم نے انسان کو شرف و احترام عطا کیا ہے اور خشکی اور تری پر اُس کو حاکمیت دی ہے اور دنیا کی پاک چیزیں بطور رزق ہم نے اُن کے لیے متعین کی ہے ، کلو وشربو کھاو پیو، یہ ترغیب نہیں ہے اللّٰہ کا حکم ہے لیکن زیادہ نہ کھاو پیو
ولا تسرفو
ساتھ لگا ہوا ہے، جتنی ضرورت ہو بس وہی ٹھیک ہے ، اللّٰہ قناعت نصیب فرمائے۔
تو میرے محترم دوستو! آپ اِن اصولوں کو سامنے رکھے اور پھر دیکھے ہماری ملک میں سیاسی پارٹیاں ہیں اُن کی بھی نظریات ہیں، اُن کو بھی ہمیں وسعت نظر سے دیکھنا چاہیے، ممکن ہے وہ قران و سنت کا حوالہ نہ دے لیکن وہ کچھ کہتے ہیں اور وہ قران و سنت سے متصادم نہیں ہے تو بات چل سکتی ہے، مذاکرہ ہوسکتا ہے، گفتگو ہوسکتی ہے، لیکن کوئی اور راستہ نہیں ہے کہ ہم کفر کفر کی باتیں شروع کرے، فتووں کی سیاست شروع کردے۔
لیکن میرے محترم دوستو! جیسے میں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ ہماری تاریخ ہماری ماضی سو دو سو سال پہلی کی ماضی برصغیر میں یہ آزادی کے لیے تھی اور جب حضرت شیخ الہندؒ سے پوچھا گیا کہ مغرب کی کالونیاں تو دنیا میں اور بھی ہے آپ صرف برصغیر کی آزادی کی جنگ کیوں لڑ رہے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ برصغیر سے اگر انگریز کے قدم اکھڑ جائے تو پھر دنیا میں کہی پر بھی وہ اپنے قدم مضبوط نہیں رکھ سکے گا،
وہ برطانیہ جس کے بارے میں کسی زمانے میں کہا جاتا تھا کہ سلطنت برطانیہ میں سورج غروب نہیں ہوتا آج انہیں اکابرین اور اسلاف کی جدوجہد کے نتیجے میں برطانیہ اتنا سمٹ گیا ہے کہ اُس میں سورج طلوع نہیں ہوتا (نعرہ تکبیر اللّٰہ اکبر)۔
اسی نظریے کی اساس پر ہم نے فتنے کا مقابلہ کیا ہے فتنہ فتنہ ہوتا ہے، ملّت کا اجتماعی فتنہ ، قوم کا اجتماعی فتنہ ہم نے میدان سیاست میں اُس کا مقابلہ کیا ہے، کسی زمانے میں مجھے یہاں تک کہا گیا کہ باہر سے بہت بڑا پیسہ آئے گا، گلی گلی کوچے کوچے تک جائے گا، اور آپ کے مسجد تک پہنچے گا، اور مولوی اور امام تک پہنچے گا تو کوئی مولوی بھی آپ کے ساتھ نہیں رہے گا، یہ مجھے دھمکی دی گئی تھی، میں نے کہا توکل بر خدا، آج مولویوں کا شائدکوئی کچرا اُس کی طرف ہو، اسی لیے میں نے آپ سے اُس وقت کہا تھا کہ اِس کو جماعتی تقسیم سے تعبیر مت کرے، جماعت کے عمل تطہیر سے تعبیر کرے ، اور کیا وہ سب کچھ ثابت نہیں ہوا۔
اب آپ مجھے بتائے کہ ہماری ملک کی عدليہ بہت اچھی عدليہ ہے اگر اُن کے لیے ادھی رات میں کورٹ کھولے اور اُن کی ضمانت کرائے، لیکن وہی عدليہ اگر اسے ائین شکن کہیں تو پھر عدالت کی قسمت میں گالیوں کے علاوہ کچھ نہیں ہے، عدالت کی طرف سے آپ ائین شکن ثابت ہوچکے ہے، سب کو چور چور کہتے رہے جب کچھ نہیں ملا تو کہنے لگے کہ مجھے تو آئی ایس آئی والے کہتے تھے یہ یہ چور ہے اور وہ چور ہے اِس لیے میں چور چور کہتا رہا، یہ ہے ہمارے سیاستدان، لیکن آپ کے خلاف تو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ثابت کیا ہے کہ آپ چور ہیں، مہا چور اور اسرا ئیل اور انڈ یا سے پیسہ لیا، امریکہ سے پیسہ لیا باہر سے پیسہ لیکر ہڑپ کرگئے یہ تو آپ پر ادارے نے ثابت کیا ہے یہ تو ہمارا الزام اور بہتان نہیں ہے، دوسروں کو چور چور کہنے والا اور خود ، اب الیکشن کمیشن کو گالیاں مل رہی ہے، اگر الیکشن کمیشن آر ٹی ایس کو بند کرکے آپ کے لیے دھاندلی کرکے آپ کو اقتدار میں لائے تو الیکشن کمیشن ٹھیک، لیکن اگر الیکشن کمیشن آپ کو کہے کہ تم چور ہو تم نے پیسے لیے اور چھپائے تو اب اسی الیکشن کمیشن کو روز گالیاں دے رہا ہے، ادارے بک گٸیں اب اُن کو گالیاں مل رہی ہیں، اور پھر آپ خود اندازہ لگائیں اگر فوج اور اسٹبلشمنٹ جانبدار ہیں تو پھر وہ زبردست ہے لیکن اگر وہ کہتے ہے میں غیر جانبدار ہو ، بس میں اپنے علاقے میں واپس جارہا ہوں اُس کے بعد اُن کو گالیاں دینا شروع ہوجاتی ہے ، اُن کو کہتے ہیں نیوٹرل کیا ہوتا ہے نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے، اب ہمیں تو پتہ تھا لیکن بات یہ ہے کہ اب تو وہ خود کہتا ہے کہ میرا کوئی اختیار نہیں تھا میں تو ایسے ہی سٹیٸرنگ پہ بیٹھا تھا ڈرائیونگ تو پیچھے سے کوئی اور کررہا تھا، اور میں نہیں کہہ رہا ہوں اُن کا اپنا صدر مملکت عارف علوی صاحب وہ کہتا ہے کہ عمران خان کو ہٹانے میں کوئی سازش کار فرما نہ تھی ، ایک کاغذ اٹھایا اور اسے سازش کا نام دے دیا، کیا کاغذ سازش ہوتی ہے، اچھا وہ کاغذ وہ اتنی بڑی دستاویز جس کے لیے اتنی بڑی حکومت ختم کی گٸی وہ کدھر ہے ؟ ابھی کہہ رہا ہے وہ گم ہوگئی ہے، میں نہیں کہہ رہا آپ کا اپنا صدر مملکت کہہ رہا ہے کہ اقتدار چھیننے کی وجہ سے یہ حواس باختہ ہوچکا ہے، میں نہیں کہہ رہا ہو آپ کا صدر مملکت کہہ رہا ہے کہ یہ اپنے باتوں کا جواب خود دے میں اس کے باتوں کا جوابدہ نہیں ہو، تو اب تو گھر کا بھیدی گواہی دینے نکل ایا، اور یہ خود کہہ رہا ہے کہ میں حکومت نہیں کررہا تھا اصل کنٹرول تو کسی اور کے ہاتھ میں تھا، خود کہہ رہا ہے کہ مجھے تو کچھ معلوم نہیں تھا یہ مجھے کہتے تھے ، اب کوئی کچھ کہیں اور آپ اسی پر الزام لگادے کیوں ؟ ادارے ہیں وہ اپنا کام کرے ، طاقتور اور مضبوط نیب موجود ہے، اگر ہم انتقامی سیاست کرتے تو ضرور آپس میں بیٹھ کر یہ سوچتے کہ نیب کے قوانین میں ابھی تبدیلی نہیں کرنی اسی طرح نیب رہے تاکہ ہم اُس کو پکڑے تاکہ اُن سے کوئی پوچھ بھی نہ سکے، لیکن ہم نے کہا یہ چیز غلط ہے وہ ٹھیک ہو جانا چاہیے ہم نے اقتدار میں اکر اُس کو ٹھیک کیا ہے، یہ نہیں سوچا کہ اُس کو فائدہ ملے گا، ایسی مخلوق سے ہمارا واسطہ پڑا ہوا ہے اور یہ پھررہا ہے اور میں حیران ہو کہ لوگ اِس کو کیسے سنتے ہیں، ایسا عجیب نمونہ ہے کہ اپنے بچے اپنے سابقہ بیوی کو حوالے کردیے اور اِس کی موجودہ بیگم پیرنی نے اپنے بچے اپنے سابقہ شوہر کے حوالے کردیے اور یہ ہمارے اور آپ کے بچوں کی فکر کرنے کے لیے نکلے ہیں، ایسی مخلوق بھی اِس دنیا میں بستے ہیں اور آپ مفتی محمودؒ ، شاہ احمد نورانی ، ذوالفقار بھٹو اور ولی خان کو یاد کررہے ہیں، آج آپ کیا کروگے یہ آج آپ کس سے الجھے ہوئے ہو، میں نے پی ٹی اٸی کے ایک بڑے سے کہا کہ یہ آپ کس پاگل کے پیچھے پڑے ہوٸے ہیں؟
تو وہ مجھے کہنے لگے کہ پاگل شخص سے گھر والے بہت تنگ ہوتے ہیں یا باہر والے ؟
اب یہ صورتحال ہے ایسی مخلوق سے ہمارا واسطہ ہے جس کے نہ کوئی اگے ہے نہ کوئی پیچھے ہے۔
تو ایسی صورتحال میں ہمیں اپنے اکابرین کے دامن کو نہیں چھوڑنا چاہیے، سیاست کی ذمہ داری اور مسئولیت، اور اُس کی عزت اور عظمت اِس کو ہم نے تحفظ دینا ہے، ہم نے اکابر کے نظریے کو بھی تحفظ دینا ہے وہ بھی ہمارے پاس امانت ہے اور اُن کے رویے کو بھی تحفظ دینا ہے وہ بھی ہمارے پاس امانت ہے اِس رویوں میں کسی فرقہ پرستی کی گنجائش نہیں ہے، ہمارے اکابر نے ہمیں فرقہ پرستی کا درس نہیں دیا، ہمیں اسلام کی افاقیت کا درس دیا اور اِس دائرے کو صرف مسلمانوں تک محدود نہیں رکھا پوری انسانیت تک اُس کو وسیع کیا ہے، آج ہم نے اُن اکابرین کی امانت کو تحفظ دینا ہے اور یہ بات میں آج کی اجتماع میں اس لیے کررہا ہوں کہ میرے نوجوانوں کو ذرا اپنے اکابر اور اُن کی امانت کا علم ہو جائے کہ ہماری ذمہ داری کیا ہے، لیکن پھر بھی ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہم گلی کوچے اور محلے میں جائیں اور اپنے اکابر کے نظریے کو ہم فروغ دے ۔
سیاست کے غلط معنی نہ کیا کرو، سیاست کے معنی ہے انتظام و انصرام ، تدبیر تدبر، اور یہ جو تدبیر اور تدبر دو الفاظ ہیں جو عربی کے ہیں دونوں مصدر ہیں، اِن دونوں کا مادہ ”د ب ر“ ہے ، مطلب یہ کہ جو بھی آپ کام کرے اور اُس کے لیے سوچ بچار کرے تو پھر ہر کام کے انجام پر بھی آپ کی نظر ہونی چاہیے کہ کل اِس کا انجام کیا ہوگا، یہ فیصلے لمحوں کی خطائیں اُن کی سزا پھر صدیوں کو ملتی ہے، سوچ سمجھ کر ہمیں چلنا پڑے گا۔
1923 میں اتاترک کا انقلاب آیا تھا اور اتاترک نے ترکیہ کو سیکولر ملک بنادیا تھا اور سو سال کے لیے اُس کو ائینی تحفظ دیا، ابھی میں اُس قیادت کو ملا تو مجھے کہا کہ پہلے ترکی کا نظریہ اور تھا آج کی ترکی کا نظریہ کچھ اور ہے، پہلے ترکی کا نظریہ فریڈم فرام ریلیجن ”مذہب سے آزادی“ تھا، اور آج کی ترکی کا نظریہ ہے فریڈم اف ریلیجن ”مذہب کی آزادی“ ، مذہب سے آزادی کا تصور تب ہم نے ختم کردیا ہے اب ایک نٸے نظریے کے ساتھ ہم عوام کے سامنے ہیں کہ مذہب کی آزادی یہاں پر ہونی چاہیے ، لیکن انہوں نے کہا یہ کام ڈیموکریسی اف دی پیشنٹ یہ برداشت کی جمہوریت ہے، انہوں نے from سے of تک سو سال کا سفر کیا ہے، ایک طویل سفر ہم نے برداشت اور تحمل کے ساتھ کیا ہے، بہت کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے، ہمیں بھی کام کرنا ہے اصلاحات، عمل درامد کے لیے کام کرنا ہے، اور ہمارا اپنا ایک شکوہ ہے وہ ہم نوٹ کراتے رہیں گے، رضا ربانی صاحب ہمارے بڑے ہیں اِن کی موجودگی میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ بندوق کے ذریعے شریعت کی بات کرنا غلط اور جرم، تو پارليمنٹ کے ذریعے شریعت کب ملے گی ؟ سن 73 سے لیکر اب تک اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر ایک قانون سازی تک نہیں ہوئی تو احتجاج تو ریکارڈ کرائیں گے ناں؟
وہ تو غلط لیکن پارلیمنٹ کے راستے عدالتوں کے راستے اداروں کے ذریعے شریعت کا ملنا وہ دور کب اٸے گا ؟
کس وقت اٸے گا ؟ ایسا نہ ہو کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جمہوریت اپنا مقدمہ ہار جائے، پارليمنٹ اپنا مقدمہ ہار جاٸے اِس سے پہلے کچھ کرنا پڑے گا، ہمیں کچھ اقدامات لینے پڑیں گے۔
اور ہم روتے ہیں کہ کوئی اسلامی قانون سازی ہو وہ تو ہوتی نہیں تو ٹرانسجینڈر والی قانون سازی شروع ہو جاتی ہے، تو یہ وہ چیزیں ہیں جو پوری پارليمنٹ کو سوچنا پڑے گا، میاں رضا ربانی صاحب نے مناسب باتیں کی ہیں ، ہمارے اِس جلسے سے انہوں نے مطالبے کیے ہیں، قابل غور باتیں ہیں، صوبوں کے حقوق کا تحفظ ہے، آپ جمعیت علماء اسلام کا منشور پڑھے کوئی قوم پرستی پارٹی بھی اتنی واضح منشور صوبوں کے حقوق کے بارے میں نہیں رکھتی جتنا جمعیت علماء اسلام رکھتی ہے، آپ اسے پڑھے، متحدہ برصغیر کے زمانے میں بھی جمعیت علماء کرام نے جو نظریہ پیش کیا تھا وہ بھی یہی تھا کہ تیرا صوبوں میں چھ مسلمانوں کے ہیں اور سات ہند ووں کے ہیں، اکثریتی صوبوں میں ہمیں مکمل آزادی دی جائے ، کرنسی مرکز کے پاس ہو، امور خارجہ اور ڈیفنس مرکز کے پاس ہو، ہم آج بھی یہی کہتے ہیں یا پاکستان میں وفاق مت بناو، اور وفاق کے تحت وحدتیں نہ بناو، اور جب وحدتیں بنالی ہے اور ہمارے ائین کی بنیادی ستون ہیں اور صوبے موجود ہیں تو پھر صوبوں کو اپنے وسائل کا حاکم تسلیم کرنا چاہیے ۔
تو یہ ائین اِس ائین کے اندر صوبائی خودمختاری یہ تمام چیزیں اگر ابتدا میں پاکستان بننے کے بعد پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں علامہ شبیر احمد عثمانی شیخ الاسلام تشریف فرما تھے اور انہوں نے اتنی بڑی دستاویز کو پاکستان کا ائین اور قانون بنایا، اور اُس کے بعد سن 73 کے ائین میں ہمارے ہی اکابر علماءکرام چاہے حضرت مفتی صاحب رحمہ اللّٰہ ہو، چاہے شاہ احمد نورانی صاحب رحمہ اللّٰہ ہو، چاہے پروفیسر احمد غفور صاحب ہو، چاہے اُن کے تمام رفقاءجو اِس موقف پر متفق تھے، اور جب چیلنج کیا گیا کہ علماء کرام آپ کے پاس تو مسلمان کی تعریف ہی نہیں ہے ، انہوں نے چیلنج قبول کیا اور رات کو مسلمان کی تعریف کا تعین کرکے صبح ایوان میں پیش کردیا اور اُس کو ائین کا حصہ بنادیا گیا۔
ختم نبوت کا مسٸلہ ہو یا توہین رسالت کا مسٸلہ ہو بالاتفاق طے ہوا ہے کوئی فرقہ پرستی اِس میں نہیں ہے، تو یہ چیز بھی ہمیں سمجھنی چاہیے کیوں کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اسلام تو ہمیں چاہیے لیکن کس فرقے کا اسلام دیوبندی کا، بریلوی کا، اہل حدیث کا، شیعہ کا، سنی کا یہ کہہ کر عام ادمی سمجھتا ہے کہ واقعی یہ تو بہت بڑا جھگڑا ہے، اِس پر کوٸی جھگڑا نہیں ہے اسلامی نظریاتی کونسل میں یہ سارے فرقے موجود ہیں، علماء شریعت موجود ہیں، ائینی ماہرین موجود ہیں، ریٹائرڈ ججز موجود ہیں اُن کی موجودگی میں سفارش طے ہوتی ہے اور اُس کے مطابق کوئی اختلاف رائے نہیں ہے، ہمارے سب معاملات ٹھیک ٹاک جارہے ہیں۔
تو اِس حوالے سے ہمیں ائین سازی اور قانون سازی کی طرف اگے بڑھنا ہوگا، اُس کے لیے جہد مسلسل کی ضرورت ہے ، تنقيد اختلاف رائے چلتا رہے گا، یہ مذاکرے کا میدان ہے یہ چلتا رہے گا، تحمل اور برداشت کے ساتھ گفتگو ہوگی، ہنستے مسکراتے گفتگو ہوگی، آپس میں بھائیوں کی طرح بیٹھ کر بات چیت ہوگی، کوئی جھگڑا وغیرہ نہیں ہے لیکن ہماری دلیل کو تو سنا جائے۔
تو اِس حوالے سے ہمارے اکابر نے یقیناً ہمیں راستہ دکھایا ہے، نظریہ بھی دیا ہے رویہ بھی دیا ہے، عقیدہ سیاست بھی ہمیں بتایا اور منہج سیاست بھی ہمیں بتایا، انہوں نے ہمیں سب کچھ پڑھایا ہے، تو ہم خدا کے فضل و کرم سے بانچھ نہیں ہے ، ہم مایوس بھی نہیں ہے، ہم نے عوام تک یہ بات پہنچائی ہے ، ایک عوامی رائے ہم نے پیدا کی ہے، ائین کے مطابق کام کیا ہے ۔
اِس اعتبار سے ہم نے اِس جدوجہد کو آگے بڑھانا ہوگا اور اِس چیز کو ہم نے سمجھنا ہوگا کہ ہمارے بنیادی مقاصد زندگی کیا ہے اور اُس حوالے سے ہمیں کیا کردار ادا کرنا چاہیے، آپ لوگ دور دور سے تشریف لائے ہیں میں آپ کی تشریف اوری کا خیر مقدم کرتا ہوں، آپ کی شمولیت کا شکریہ ادا کرتا ہوں، دعا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ آپ کی اِس شمولیت کو قبول فرمائے اور اسے خیر و برکت کا باعث بنائے۔
واٰخِرُ دَعْوَانَا أَن لحمد للہ رب العالمین۔
ضبط تحریر : #سہیل_سہراب اور #ابن_صدیق
تصحیح و نظرثانی: Yahya Ahmad
ممبر ٹیم جے یو اٸی سوات
#teamjuiswat
ایک تبصرہ شائع کریں