ڈیرہ اسماعیل خان: امیر جمعیت علماء اسلام پاکستان حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی صحافیوں سے گفتگو
یکم نومبر 2022
بسمہ اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
پاکستان ہمارا ملک ہے اور ہم اِس وطن عزیز کی بقا اور استحکام کی جنگ لڑرہے ہیں، اِس وقت پاکستان کو معاشی اور سیاسی استحکام کی ضرورت ہے اور اُس کے لیے ہم کسی قسم کی سمجھوتے کے لیے تیار نہیں ہے، جو لوگ ملک میں سیاسی طور پر عدم استحکام پیدا کررہے ہیں، معاشی عدم استحکام پیدا کررہے ہیں، پوری قوم پہ یہ بات واضح ہے کہ 2017 سے بین الاقوامی قوتوں کی مداخلت کے ساتھ سیاسی عدم استحکام پیدا کیا گیا، 2018 کو تاریخ کی بدترین دھاندلی کے نتیجے میں ایک نااہل اور جعلی حکمران ملک پر مسلط کیا گیا جس نے ملک کی معشیت کو تباہ و برباد کردیا، اٸی ایم ایف کے ساتھ ایسے معاہدات کیے کہ جن معاہدات کے نتیجے میں پاکستان کو ایک بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے نام گروی رکھ دیا گیا، سٹیٹ بینک اف پاکستان کو اُس کی آزادی کے نام پر اٸی ایم بیف کے حوالے کردیا گیا، آج سٹیٹ بینک اور اُس کا صدر نہ ملک کے وزیراعظم کو جوابدہ ہے، نہ کابینہ کو جوابدہ ہے اور نہ ہی پارليمنٹ کو جوابدہ ہے، اِس دلدل کی طرف ملک کی معشیت کو دھکیلا گیا اور جب پاکستان معشیت کے ایک نٸے دور کا اغاز کررہا تھا اور اُس کا خشتِ اول رکھ رہا تھا اور چین کا صدر پاکستان ارہا تھا اُس موقعے پر دھرنے دیے گٸے اور کوشش کی گٸی کہ چین جیسا پاکستان کا دوست وہ سرمایہ کاری نہ کرسکے، لیکن اِس کوشش کو سیاسی حکمت عملی، قومی یکجہتی کے ساتھ ناکام بنایا گیا، ملک کو بچایا گیا، لیکن جب الیکشن ہوٸے اور ایک سلیکٹڈ بلکہ ایک ایمپورٹڈ حکومت پاکستان میں قاٸم ہوٸی تو اُس نے تمام میگا پراجيکٹس فریز کردیے ، بین الاقوامی سرمایہ کاری کو منجمد کردیا گیا اور جب تک اِن کی حکومت رہی ساڑھے تین پونے چار سال تک تمام بڑے منصوبے روک دیے گٸے، منجمد کردیے گٸے، ترقیاتی کام رک گٸے، پاکستان پیچھے کی طرف جانے لگا۔
آج پھر وہ ایسے وقت پہ جب کہ چند روز پہلے پاکستان اور چاٸنہ کے درمیان وزارتی سطح پر ایک اجلاس ہوا جس میں اگلے سال کے لیے سرمایہ کاری اور اُس سے متعلق منصوبوں کا تعین کیا جانا تھا عین اُسی روز اسلام اباد کی طرف مارچ کا اعلان کردیا گیا، اب ظاہر ہے کہ سرمایہ کاری کے لیے باہمی اعتماد اولین چیز ہوتی ہے، کوشش کی گٸی کہ چین کہ اعتماد کو متاثر کیا جاسکے، آج جب وزیراعظم چاٸنہ کے سفر پہ چلا گیا ہے اور وہاں چینی حکومت سے پاکستان کے اندر سرمایہ کاری پر بات چیت کررہا ہے اِس موقعے پر وہ اسلام اباد میں داخل ہونے کی بات کررہے ہیں، مسلح طور پر داخل ہونے کی بات کررہے ہیں، اُن کے وزرا ایسی گفتگو کررہے ہیں جیسے کہ پی ٹی اٸی کوٸی دہشت گرد تنظيم ہو جو سیاست اور دلیل پر یقین نہیں رکھتی، اسلحے کہ استعمال پہ یقین رکھتی ہے اور اسلام اباد میں داخل ہورہی ہے، وہ حکومت کو بلیک میل کرنا چاہتی ہے اور میں آج کی اِس پریس کانفرنس سے اپنی حکومت کو پیغام دینا چاہتا ہوں، اپنے ملک کے وزیراعظم کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ ہم نے کوٸی فیس سیونگ نہیں دینی، کسی قسم کی کوٸی مفاہمت نہیں کرنی، پاکستان کی عزت، ناموس، احترام پر کوٸی سمجھوتہ نہیں کیا جاٸے گا، اور کوٸی اجازت نہیں ہوگی کہ میری حکومت کسی طرح کسی سطح پر یا اِن سے مذاکرات کریں، ریلیف دے یا فیس سیونگ دے، اِن کا جو لانگ مارچ ہے وہ ٹُس ہوچکا ہے، اب اُس کی کوٸی حیثیت نہیں ہے، وہ دو ہزار سے زیادہ لوگ اکھٹے نہیں کرپارہے ہیں، آنہیں سکتے اسلام اباد انے کے لیے تاریخ پہ تاریخیں دے رہے ہیں اور پتہ نہیں کب اسلام اباد تک پہںچنے کی بات کریں گے، میرا خیال یہ ہے کہ یہ راستے سے واپس ہو جاٸیں گے یہ اسلام اباد تک انے کے متحمل نہیں ہے ہاں اسلحہ پہنچا رہے ہیں تاکہ وہاں پر کچھ لاشیں گرے اور پھر اُن پر وہ سیاست کرے، یہ ہے سیاست یہ ہے جمہوریت ؟
اور اِس حوالے سے ہم بلکل واضح ہے کہ اِس دھرنے کو اِس لانگ مارچ کو، کچھ چیزیں ہیں جنہیں ہمیں دیکھنا پڑے گا، بنیادی چیز یہ ہے کہ سیاسی استحکام جمہوری نظام میں یہ ناگزیر عمل ہے، سیاسی استحکام ہوگا تو معاشی استحکام اٸے گا اور اُس کے بعد اٸین اور قانون کی بالادستی، ہم اٸین اور قانون کے حوالے سے بھی اپنے تحفظات واضح کردینا چاہتے ہیں، الیکشن کمیشن ہو وہاں بھی تو جج لوگ بیٹھے ہیں، اٸین و قانون کے ماہرین بیٹھے ہیں وہ اٸین و قانون کی روشنی میں ایک فیصلہ کرتے ہیں وہی کیس جب عدالت میں جاتا ہے تو وہاں دوسرا فیصلہ اجاتا ہے، ایک زمانے میں وہی عدالت اُسی قانون کے تحت ایک طرح کا فیصلہ دیتا ہے، پھر ایک زمانہ گزر جاتا ہے پھر دوسرا فیصلہ، عدالت کی جانب سے جو کنفیوژن پیدا کی جارہی ہے اِس سے عوام کا اعتماد عدليہ پر ختم ہو جاٸے گا اور پھر عدليہ اُس اعتماد کو بحال کرنے میں انتہائی مشکل محسوس کرے گی۔
اِس بارے میں اٸین و قانون کی بالادستی اور حقائق تک پہنچنے اگر اِس پر بھی ہم رعایتیں کریں اور ہم جانتے ہیں کہ اِس وقت اداروں کے اندر کچھ لوگ کیوں لاٸل بن گٸے ہیں، لاڈلا پن کی سیاست ختم ہونی چاہیے چاہے فوج میں ہو چاہے عدليہ میں ہو چاہے الیکشن کمیشن میں ہو، اٸین اور قانون کی بالادستی ہونی چاہیے، ہر بات پر اٸین و قانون کی بات ہوتی ہے لیکن تضادات جب سامنے اتے ہیں تو قوم کنفیوز ہو جاتی ہے کہ اخر ہو کیا رہا ہے۔
ایک عدالت کہتی ہے کہ وزیراعظم کون ہوتا ہے کہ حرم نبوی کی توہین کرنے والوں کو معاف کرتا ہے اور دوسری عدالت اسی پاکستان کی اٸین و قانون کے مطابق کہتی ہے کہ یہ تو سعودی عرب کا معاملہ ہے ہمارا اُن سے کیا لینا دینا وہ جانے اُن کا کام جانے، اب آپ بتاٸے ایک عدلیہ کے ہوتے ہوٸے اِن تضادات پر قوم کیسے اعتماد کرے گی، لہذا یہاں پر ہمیں اٸین و قانون کی پیروی کرنی چاہیے اور پھر یہ کہ جی اِن کو حق ہے کہ وہ اسلام اباد میں اٸے احتجاج اُن کا حق ہے بلکل حق ہے، اِس حق سے کوٸی کسی کو نہیں روک سکتا، ہم نے بھی کیے ہیں، ہم نے بھی چودہ ملین مارچ کیے ہیں، ہم بھی پندرہ لاکھ لوگوں کو اسلام اباد میں لاٸیں ہیں لیکن جس نظم و ضبط کے ساتھ، جس خوش اخلاقی کے ساتھ، اور آپ سمجھے کہ ہمارے ماڈرن دنیا کے اندر ہماری صحافتی برادری، اُن کی خواتين صحافی وہ اتے تھے جس طرح اُن کو عزت ملتی تھی، جس طرح اُن کو احترام ملتا تھا، جس طرح اُن کے سروں پر چادر اور ڈوپٹے رکھے جاتے تھے اور جس طرح انہوں نے اِن مذہبی لوگوں کی تعریفیں کیں کہ ہم نے تو کچھ اور سمجھا تھا یہاں تو کچھ اور ہے، آج اِن کے جلوس میں صدف کا جو حادثہ ہوا ہے میں اِس پر مطالبہ کرتا ہوں کہ عدالتی کمیشن بٹھایا جاٸے، یہ حادثاتی طور پر کسی کی دھکم پیل سے گری ہے یا کسی ہراسمنٹ کی بنیاد پر گری ہے اور پھر ایک صوباٸی وزیر فوری طور پر اُن کے خاوند کو لیکر تھانے پہنچ جاتا ہے اور وہاں اُن سے انگھوٹے اور دستخط لیتا ہے تو پھر معاملہ اور بھی مشکوک ہو جاتا ہے اِس پر عدالتی تحقیقاتی کمیشن ہونی چاہیے اور یہی بات میں ارشد شریف کے بارے میں بھی کہنا چاہتا ہوں، وہ پاکستان کا بیٹا ہے، ایک گھر کا صدمہ ہے، ہم اُس کے خاندان کے صدمے میں شریک ہیں، لیکن یہ بتایا جاٸے کہ وہ کس بنیادوں پر کس کی پشت پناہی سے باہر گیا، تھریٹ لیٹر کس نے جاری کیا، اُس کی صرف ایک کاپی ہے جو وزیراعلی کے پاس ہے، کوٸی بھی ادارہ جب تھریٹ لیٹر جاری کرتا ہے تمام ایجنسیوں اور اُس کے شاخوں تک پہنچتا ہے، مجھے اِس کاپی کے علاوہ پاکستان کے کسی بھی کونے میں دوسری کاپی دکھاٸی جاٸے، کس سازش کے تحت اُس کو باہر لے جایا گیا، اِس کیس میں کے پی کے وزیراعلی کو شامل تفشیش کیا جاٸے، اُن کے وزیروں کو شامل تفشیش کیا جاٸے اور اُس پر بھی عدالتی کمیشن قاٸم کی جاٸے۔
اِس طریقے سے اندھے موت یہ اگر پاکستان کا وطیرہ ہے اور جرم کو چپھانے کے لیے ہزار جھوٹ بولے جاتے ہیں تو ہر قیمت پر یہ چیزیں ناقابل قبول ہیں۔
تو اِس حوالے سے ہم بڑی وضاحت کے ساتھ کہنا چاہتے ہیں کہ یہ لانگ مارچ بہر حال ناکام ہوچکا ہے، انہوں نے بے حیاٸی اور لچھر پن کی انتہا کردی ہے، اور اِس کو پتہ نہیں کبھی آزادی کے نام سے، کوٸی آزادی مارچ نہیں یہ اوارگی مارچ ہے، متعفن قسم کا ماحول وہاں پیدا کیا جاتا ہے یہ کسی بھی طرح پاکستانی معاشرے کے لیے قابل قبول نہیں ہے ۔
میں سمجھتا ہوں کہ پہلی مرتبہ ریاستی ادارے کیوں میدان میں اٸے، کیوں پھٹ پڑے، اِس کا معنی یہ ہے کہ ریاست کو خطرہ ہوگیا ہے، اِن کے اقدامات سے ریاست کو خطرہ ہوا ہے، اِن کی وجہ سے سیاسی عدم استحکام ایا ہے، معاشی عدم استحکام ایا ہے، اٸین و قانون پر اعتماد ختم ہورہا ہے، اداروں پر اعتماد ختم ہورہا ہے، تب جاکر ڈی جی اٸی ایس اٸی اور ڈی جی اٸی ایس پی ار میدان میں اٸے ہیں، اور میں سمجھتا ہوں کہ ہر چند ہمارے ادارے سے شکایات رہی ہیں افراد سے نہیں، لیکن اگر وہ اعتراف کرتے ہیں کہ ہم سے غلطیاں ہوٸی ہیں، ہم ُس کی تلافی کرنا چاہتے ہیں اور خون دے کر تلافی کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اُن کا راستہ نہیں روکنا چاہیے، ہم کوٸی ایسے جملے استعمال نہ کرے کوٸی ایسی گفتگو نہ کرے کہ تلافی کی طرف جانے والا سفر متاثر ہو، لیکن جب ریاست میدان میں اگٸی ہے تو اِس کا معنی یہ ہے کہ اردگرد کے اقدامات سے ریاست کو نقصان ہورہا ہے، ہم اداروں کے خلاف نہیں ہے، ہم اِس ملک میں رہتے ہیں، اداروں کے فیصلے اچھے ہو تو قوم پر اُس کے اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں، اور غلط فیصلوں سے قوم پر منفی اثرات مرتب ہوں گے، لہذا یہاں پر پچیس کروڑ عوام رہتی ہے، پچیس کروڑ عوام کو دو ہزار لوگوں کے لیے تباہ نہیں کیا جاسکتا ۔
اِس کے علاوہ میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ عمران خان نے ایک بات یہ بھی کہی ہے فوج کو مخاطب کرکے کہ تم تو چوکیدار ہو، ہم آپ کو تنخواہ کس چیز کی دے رہے ہیں، تو ہم بھی آپ سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ تم اِس بات کی وضاحت کیوں نہیں کرتے کہ رات کی تاریکی میں اُس کے پاوں کیوں پکڑ رہے تھے، پاکستانی سیاست میں اگر اِس قسم کا سامنے اتا ہے کہ دن کو بڑبڑا رہا ہوتا ہے اور رات کی تاریکی میں ترلے کررہا ہوتا ہے تو ایسی سیاست پر افسوس ہونا چاہیے، سیاست اِن لوگوں کی کردار کی وجہ سے چوراہے پر ماتم کررہی ہے، اور یہ چاہتا ہے کہ میری مرضی کا ارمی چیف اٸے، کیوں تمہاری مرضی کا اٸے گا بھٸی، اور اگر میری مرضی کا نہیں اتا تو مارشل لا لگ جاٸے، برتن میں حصہ نہ دینے پر برتن توڑ دینی والی بات کررہا ہے، اِس طرح کی انتہا پسندانہ سیاست کو فروغ دیا جارہا ہے، نوجوان نسل کو بداخلاقی کی طرف دھکیلا جارہا ہے، اُس کو اپنی تہذیب و تمدن سے باغی بنایا جارہا ہے، اور ہم اِس قوم کو گمراہ نہیں ہونے دیں گے، ہم نے اِس فتنے اور گمراہی کا مقابلہ کیا ہے، مقابلہ کررہے ہیں اور اِس عزم کے ساتھ کہ جب تک اِس فتنے کا خاتمہ نہیں ہوگا ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے، اِن کے خلاف اواز بن کر میدان میں کھڑے رہیں گے (نعرہ تکبیر کی صداٸیں) ۔
*سوال و جواب کا سیشن*
صحافی کا سوال: مولانا صاحب آپ کی گفتگو سے ایسے معلوم ہورہا ہے کہ کہی سے کوٸی بات ہوٸی ہے کوٸی کہہ رہا ہے کہ اسے فیس سیونگ دے اسے راستہ دے یا کسی حد تک سمجھوتے پر آپ کو مجبور کیا جارہا ہے، کہیں حکومتی سطح پہ ایسی کوٸی بات ہے ؟
قاٸد جمعیت کا جواب: جی بلکل آپ نے صحیح سمجھا ہے، ہمیں بو ارہی ہے ہم سیاسی لوگ ہے، ہم چیزوں کو ذرا سونگھتے ہیں، ہمیں پتہ چل جاتا ہے کہ یہ سارے چیزیں کس لیے ہورہی ہے، یہ پاکستان میں اپنے جرائم کے خلاف رعایت چاہتا ہے، اور کسی طریقے سے جب اِس کا لانگ مارچ ناکام ہوگیا تو اُس سے پیچھے جانے کے لیے فیس سیونگ چاہتا ہے ۔
صحافی کا سوال: اچھا مولانا صاحب دو ہزار یا اِس کم و بیش پی ٹی اٸی کے کارکنان لانگ مارچ میں جارہے ہیں، تو خوف کس بات کا ہے اُن کو ارام سے جانے دے اگر وہ دھرنا کرنا چاہے تو اُن کو بیٹھنے دے ۔
قاٸد جمعیت کا جواب: دو ہزار نہیں دو سو ادمی بھی اگر مسلح ہوکر اندر جاٸیں گے اور یہ ثابت ہوچکا ہے اور لاہور میں اُن کے اسلحے پکڑے گٸے ہیں، اُن کے وزیروں کے ہاں پکڑے گٸے ہیں، یہاں آپ کے ہاں سے میسج گٸے ہیں، اور مجھے تو کچھ ذریعوں سے جو غیر مصدقہ ہوتے ہیں دو چار دن پہلے اِس کا پتہ تھا، لیکن یہ جو چیزیں سامنے اٸی ہے میرے معلومات کے دو دن بعد سامنے اٸی ہے ۔
صحافی کا سوال: ڈی جی اٸی ایس اٸی اور ڈی جی اٸی ایس پی ار نے جو ان کے خلاف مشترکہ پریس کانفرنس کی ہے تو کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ اندر ہی اندر کوٸی مفاہمت چل رہی ہے، اِس حوالے سے آپ کیا کہنا چاہے گے ؟
قاٸد جمعیت کا جواب: دیکھیے ہمیں تو جو اُنہوں نے کہا ہے، جو نظر ارہا ہے اُسی پہ تبصرہ کرنا ہے، آپ مجھے بتاٸے کہ الطاف حسین کے تمام تقاریر اُن کی گفتگو وہ ہماری میڈیا پر بلاک ہے، لیکن کبھی اُس کے خلاف ریاستی ادارے میدان میں نہیں اٸے، آج اِس کے خلاف کیوں ضرورت پڑگٸی، اور یہ بھی ثابت ہوگیا کہ اِس کی جو پچھلے تین ساڑھے تین سال کی حکومت تھی وہ کیسے اٸی تھی، وہ بھی واضح ہوگٸی اب تلافی کی باتیں بھی خود وہی ادارے کررہے ہیں، تو ہم نے کوٸی غلط موقف نہیں اختیار کیے تھے، ہم نے جذباتی موقف اختیار نہیں کیے تھے ۔
صحافی کا سوال: آپ کو حکومت مل گٸی اور عمران خان سے حکومت چھن گٸی، عوام کو کیا ملا ؟ عوام کو مہنگائی کا سامنا ہے بہت بری حالات ہیں، کب تک آپ اِس پوزیشن میں ہوں گے کہ عوام کو کچھ ریلیف دے سکیں ؟
قاٸد جمعیت کا جواب: دیکھیے اِس میں کوٸی شک نہیں ہے کہ جب بھی کوٸی پالیسیاں بنتی ہے تو کچھ مہینے تو سمجھ نہیں ارہا تھا کہ کیا کیا جاٸے اور اب اُس کی سمت متعین ہوگٸی ہے، اِس وقت آپ دیکھے ایف اے ٹی ایف کی طرف سے جہاں ہم بلیک لسٹ کے کنارے کھڑے تھے، دیوالیہ قرار دیے جانے کے کنارے کھڑے تھے اور لگ رہا تھا کہ شاٸد ہم پر پوری دنیا کی طرف سے پابندی لگ جاٸے لیکن اِن چھ مہینوں میں گرے سے آپ کو واٸٹ پر لے گٸے ہیں اِس کا معنی یہ ہے کہ معاشی پالیسیاں مثبت سمت میں چل پڑی ہے، اور کس حکمت عملی کے تحت انہوں نے اٸی ایم ایف کے معاہدات کو بھی برقرار رکھا کیوں کہ ظاہر ہے وہ ہمارے بس کی بات نہیں تھی کہ ہم یکدم کہتے کہ ہم نہیں مانتے، اُس وقت بہت سے مشکلات پیدا ہوسکتی تھی، ایف اے ٹی ایف نے بھی ہمیں کلیٸر کردیا ہے کہ پاکستان کی معشیت بہتر سمت میں جارہی ہے اِس سے بھی آپ اندازہ لگاسکتے ہیں، اِس وقت میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ جو ایک ہفتے کے اندر اندر اگلے سال کے لیے نٸے منصوبوں پر کام کرنے کے لیے اُس میں صرف ایک چیز کہنا چاہتا ہوں کہ ڈیرہ اسماعیل خان یارک سے لیکر ژوب تک سی پیک کے سیکنڈ فیز کی منظوری ہوگٸی ہے ۔
صحافی کا سوال
قاٸد جمعیت کا جواب: پاکستان اور افغا نستا ن کے مظبوط تعلقات کے ہم خواہاں ہیں، افغا ن طالبا ن اُن کی بیس سالہ قربانیاں، اُس کے نتیجے میں وہاں امار ت اسلامیہ کا قیام، بڑی قوتوں کو شکست ہوٸی ہے اور انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ یہاں پر جبری حکومت نہیں کی جاسکتی، وہاں حکومت قاٸم ہونے کے بعد میری اور میری جماعت کی راٸے یہ ہے کہ ہمیں اپنی پاکستانی مفادات کی بنیاد پر ہمیں افغا نستا ن کے اما رت اسلامیہ کو تسلیم کرلینا چاہیے تاکہ باہمی تعلقات کی بنیاد پر ہم پاکستان کے مفادات کا تحفظ کرسکیں، لیکن اگر کوٸی رکاوٹ اُس میں ہے تب بھی جو کچھ چیزیں باہمی عدم اعتماد کا سبب بن رہے ہیں یا افغا نستا ن کی اما رت اسلامیہ کی طرف سے پاکستان کے لیے یا ہماری طرف سے اُن کے لیے، اُس کا سردست فوری حل میرے ذہن میں یہ ہے کہ معلومات کے تبادلے کا نظام ہونا چاہیے، اگر ہم ایک دوسرے کے ساتھ انفارميشن شیٸر کرے اور اِس بات کو ہم روکے کہ کوٸی حادثہ پاکستان میں ہوتا ہے تو وہ ہمیں اگاہ کرے اور اگر وہاں ہوتا ہے تو ہم اُن کو اگاہ کرے، اِس طریقے سے ہم باہمی عدم اعتماد کے راستے کو روک سکتے ہیں ۔
جہاں رہی پاکستان کی صورتحال یقیناً اِس وقت خیبر پختونخواہ میں جو نٸی صورتحال بنتی جارہی ہے اِس سے لوگوں میں عدم تحفظ کا احساس پھر بڑھ رہا ہے، عوام پھر ذہنی پریشانی میں مبتلا ہوچکے ہیں، ہم واضح طور پر کہنا چاہتے ہیں کہ ہم پاکستانی ہے اور ہر پاکستانی کو پاکستان کے اٸین اور قانون کی رو سے پُرامن اور باعزت زندگی گزارنے کا حق دینا چاہتے ہیں، لہذا اِس حوالے سے حکومت کے لیے بڑا چیلنج ہے کہ ہم اِس ساری صورتحال کو قابو کرے اور وہ گروہ جو جنگجو کہلاتی ہیں، جو مسلح ہیں اُس کو کس طرح ایک پرامن اور باعزت شہری بناسکے تاکہ وہ خود بھی پاکستان میں سکون کے ساتھ زندگی گزارے اور وہ ایک پُرامن معاشرے کا حصہ بھی بنے تو اِس پہلو پر بھی ہمیں غور کرنا چاہیے اور سمت پہ ہمیں سوچنا چاہیے ۔
صحافی کا سوال: مولانا صاحب جس طرح آپ نے کی پی کے اور افغا نستا ن کے حوالے سے بات کی اسی تناظر میں اگر بات کی جاٸے تو وفاق کا نمائندہ وہ گورنر ہوتا ہے تو ایسی کیا وجہ ہے کہ آپ کی حکومت ابھی تک کے پی کے میں گورنر کا اعلان نہیں کروارہی ہے، سیم صورتحال سندھ اور پنجاب میں بھی ہے، تو کیا آپ کی اس حوالے سے اپس میں اختلافات ہے یا کیا وجہ ہے ؟
قاٸد جمعیت کا جواب: بس دو چار دن کی بات ہے ان شاء اللہ خیر ہو جاٸے گا ۔
صحافی کا سوال: سیلاب کی متعلق سب کو پتہ ہے یہ نہریں جو تباہ پڑی ہیں سب لوگ آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں اور وہ واضح طور پر کہہ رہے ہیں کہ اگر مولانا صاحب ایک ٹیلی فون کردے تو ہماری نہریں دو دن میں تیار ہوسکتی ہے ۔
قاٸد جمعیت کا جواب: جی بلکل آپ نے اچھا سوال کیا میں مسلسل وزیراعظم کے دفتر کے ساتھ رابطے میں ہوں، رات بھی اور اج بھی رابطے میں رہا، اُس کے لیے فنڈز بھی مختص ہوچکے ہیں اور جنگی بنیادوں پر نہر کو ٹھیک کرنے کے لیے تاکہ رواں سال کے فصل کو ہم پانی مہیا کرسکیں، کیوں کہ ہماری نہر کی ابتدائی حصہ پہلے سے ہی کچا ہے، اُس کے بعد اگے والا حصہ پہلے سے ٹوٹا ہوا تھا، رہی سہی کسر سیلاب نے پوری کردی اب یہ ہے کہ پانی چھوڑا جاٸے گا تو نہر ٹوٹنے کا خطرہ ہے ۔
صحافی کا سوال: تھوڑی سی گزارش ہے لوگ یہ چاہتے ہیں کہ اگر عارضی طور پر کچے بندھ باندھ کر یہ نہر چلا دی جاٸے تو اگے دسمبر میں گنے اور گندم کی کاشت ہوسکے گی ۔
قاٸد جمعیت کا جواب: اُسی پر فوکس کررہے ہیں کہ اِس سال ابھی مثلاً جنوری میں تو نہر بند ہو جاتے ہیں تو مستقل کام اگر کرے تو اسی میں کرے ۔
صحافی کا سوال: مولانا صاحب تحریک انصاف کا جو یہ لانگ مارچ چل رہا ہے اِس کے ردعمل میں کیا جے یو اٸی بھی کوٸی تحریک شروع کرسکتی ہے اور دوسری بات خونی مارچ لانگ کے حوالے سے جو بہت سی باتیں منظرعام پر اچکی ہے تو کیا اِن کو اسلام اباد انے سے بھی روکا جاسکتا ہے ؟
قاٸد جمعیت کا جواب: دیکھیے ہم ایک راٸے رکھتے ہیں کہ اگر ہم اعلان کردے کہ ہم اسلام اباد جارہے ہیں تو پھر اُن کو جواز بھی ملے گا اور پھر وہ جو چاہتے ہیں کہ ملک میں ہنگامہ ہو، بدامنی ہو، جنگ ہو، اِس طرح اُن کو ایک موقع ہاتھ اٸے گا اور ہم اُن کو ایسے مواقع نہیں دینا چاہتے، اِس کو حکومت اپنی حکمت عملی کے ساتھ اور ریاستی قوت کے ساتھ اِن سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں ۔
صحافی کا سوال: مولانا صاحب اگر پچھلے چھ اٹھ مہینے کے صورتحال کو دیکھا جاٸے آپ نے عدم اعتماد اُن کے خلاف کردیا، مگر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک اکیلا ادمی تمام سیاسی جماعتوں بشمول اسٹبلشمنٹ کو اپنے اگے لگایا ہوا ہے وہ اگے دوڑ رہا ہے اور آپ پیچھے ہیں، ستر سال کے قریب ہورہا ہے مگر وہ بے ارام ہے اور آپ کے لیے پرابلم آج بھی ہے، تو آپ اُس کی اِس انرجی کو کیا نام دیں گے ؟
قاٸد جمعیت کا جواب: اِس بات کا مجھ سے زیادہ تجربہ کس کو ہے، یہ کوٸی مسٸلہ نہیں ہے، جو بین الاقوامی سپورٹ اُس کو آج بھی حاصل ہے وہ ہمیں حاصل نہیں تھی، جو ملک کے اندر سپورٹ اسے تھی وہ ہمیں نہیں تھی، ہم تنہا لڑرہے تھے سیاسی پارٹیاں ہماری حمایت کررہی تھی نہ یہ کہ وہ ہمارے ساتھ اِس پورے تحریک میں شامل تھی، تحریک ہم تنہا چلا رہے تھے، اور اب اگر وہ عدلیہ کے اندر سے، فوج کے اندر سے، کچھ ریٹائرڈ قسم کے لوگ، مختلف ادارے، اب آپ بتائے جس شخصکے خلاف پرچہ کٹتا ہے اور بیرونی دباؤ کے تحت اُس سے دفعات کاٹے جاتے ہیں یہ سپورٹ کیا ہمیں حاصل تھی، اور ہم تو عدالتوں سے رجوع بھی نہیں کرتے تھے، سیاسی جنگ سیاسی میدان میں، سیاسی جنگ عدالت میں کیوں، سیاسی جنگ عوام کی عدالت میں، تو ہم نے عوام کی عدالت میں جنگ لڑی ہے اور ہم اُس میں کامیاب ہوٸے ہیں، قوم کو نجات ملی ہے اور قوم کو سمجھ لینا چاہیے یہ پوری قوم کی مشکل ہے اور پوری یکجہتی کے ساتھ ہمیں اِس مشکل سے نکلنا ہے، روپے کی قیمت بڑھ رہی ہے، بہتری کی طرف ہم ایک سفر کررہے ہیں ۔
صحافی کا سوال: لانگ مارچ میں خیبر پختونخواہ اور پنجاب حکومت کے ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں، وہ لانگ مارچ کو سپورٹ کررہی ہے اِس حوالے سے وفاقی حکومت کیا لاٸحہ عمل رکھتی ہے ؟
قاٸد جمعیت کا جواب: ظاہر ہے وفاق اپنے طور پر صوبوں کے ساتھ رابطے میں ہے، اُن کی بیورکریسی کے ساتھ رابطے میں ہے، بہتر حکمت عملی کی طرف ہم جارہے ہیں اور ان شاء اللہ ایسی کوٸی مشکل نہیں ہے، ہاں صوبائی حکومتيں سیاسی طور پر اُن کو سپورٹ کررہی ہے اُن کو تحفظ بھی دے رہی ہیں، اسلحہ بھی فراہم کررہی ہیں، اسلحہ وہاں پہنچانے کے لیے سہولت بھی مہیا کررہی ہیں یہ سارے ڈرامے ملک کے اندر ہورہے ہیں، لیکن ان شاء اللہ العزیز اِس کا مقابلہ کیا جاٸے گا، اِن کو پاکستان کی تباہی کی اجازت نہیں دی جاٸے گی ۔
صحافی کا سوال
قاٸد جمعیت کا جواب: دیکھیے مجھے ایک زمانہ یاد ہے ہمیں ایک موقع ملا تھا تو ہم نے ٹانک میں تمام گاوں کو بجلی فراہم کی تھی کوٸی ایک گاوں نہیں تھا جہاں بجلی نہ پہنچی ہو، ڈیرہ اسماعیل خان میں ہم نے ساٹھ فیصد تک بجلی مکمل کرلی تھی، بیس تیس فیصد رہ گیا تھا اور کچھ تھوڑا سا رہ گیا تھا جہاں ہم بجلی نہیں پہنچا پارہے تھے اور اُس کے بعد جو نظام بگڑا ہے تو ابھی تک بگڑا ہوا ہے ۔
تو اِس لحاظ سے الحَمْدُ ِلله آپ جانتے ہیں کہ ہم علاقوں کی ترقی کا سوچتے ہیں، پینے کا صاف پانی ہمارا بنیادی مسٸلہ ہے، آپ کو شاٸد یاد بھی نہ ہوگا جب مفتی صاحب کی حکومت تھی تو انہوں نے کہا تھا کہ میرے صوبے کا مسٸلہ نمبر ایک پینے کا صاف پانی ہے اور اُس کے لیے ہر جگہ کام کیا، یہ جو آپ کو ٹانک سے ڈیرہ اسماعیل خان تک نشانات نظر ارہے ہیں پانی کے لاٸنیں یہ اسی کے علامات ہیں، تو یقیناً اِن علاقوں میں وساٸل کی ضرورت ہے، آج ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے سامنے جو وژن ہے ایک تو ٹانک کو ڈیرہ اسماعیل خان کے ساتھ براہ راست ملانے کا، یعنی آپ جب یارک پہ اتے ہیں یارک سے سیدھا ٹانک جانے کا روڈ بھی وہ ہم سمجھتے ہیں کہ اِس پورے علاقے سے گزر جاٸے، پینے کا پانی بنیادی اور اہم مسٸلہ ہے اُس کے لیے ہم نے پہلے بھی محنتیں کی ہیں لیکن بعد میں وہاں جو بلدیے کے لوگ ہیں جو پانی کو اور وہاں کے ٹیوب ویلوں کو مین ٹین کرتے ہیں وہاں کے ٹینکیوں کو مین ٹین کرتے ہیں انہوں نے بیڑہ غرق کردیا، تو کچھ تو عوام کی اور وہاں جو سرکار کی تنخواہیں لیتے ہیں اُن کی بھی ذمہ داری بنتی ہے، اب ہم نے اتنا بڑا ہسپتال بنایا، سی بی ار سی بنادی، یونیورسٹی بنادی، سی پیک بنادیا، گومل زام بنادیا، ٹانک زام کا ہم مطالبہ کررہے ہیں ان شاء اللہ وہ ہمارے پراجيکٹ میں ہے، چھوٹے ڈیمز ہمارے پراجيکٹ میں ہیں، اسی طریقے سے فرسٹ لیفٹ کنال سیکنڈ لیفٹ کنال یہ بھی ہمارے پراجيکٹ میں ہے، اور ہم نے اِس سرمایہ کاری میں جو چاٸنہ کے ساتھ اِس وقت ہماری بات ہورہی ہے اِس میں ہم نے یہ تجویز رکھی ہے کہ اگر ہمارے اپنے ری سورسز جو اِس ڈویژن کے ہیں اور اپنے وسائل ہیں وہ ہمیں مہیا کردیے جاٸیں تو ہم بارہ لاکھ ایکڑ اراضی کو نہری بنادیں گے ۔
تو یہ ہمارا وژن ہے یہاں پر ہمارا ارادہ یہ ہے کہ ہم جو درابند روڈ پر سرکاری زمین ہے اور ہزاروں کنال کی زمین ہے وہ ہم صنعتی علاقے کے لیے ایکواٸر کرنا چاہتے ہیں لیکن چوں کہ زرعی علاقہ ہے اِسلیے جو زرعی صنعت ہے اُس کی بھی ہمیں ضرورت ہے کہ اگر یہاں ہم گنا کاشت کرے تو ہمارے پاس چینی کی کارخانے ہونی چاہیے، اگر کپاس کاشت کرے تو ٹیکسٹاٸل ملز ہونے چاہیں، ہماری تجویز یہ ہے کہ بنوں میں بھی ایک انڈسٹریل حب ہونا چاہیے، ڈیرہ اسماعیل خان بھی ایک انڈسٹریل حب ہونا چاہیے اور اِس بیچ گوادر لیول کا ایک کارگو اٸیرپورٹ ہونا چاہیے کہ جس سے ہم اِس علاقے کی تجارت کو وسطی ایشیا میں بھی پھیلا سکے اور مشرقی وسطی تک بھی پھیلا سکے، تو اتنے بڑے وژن کے ساتھ ہم اِس وقت چاٸنہ کے ساتھ مصروف گفتگو ہیں اور حکومت کی میز پر ہماری تجویز وہاں تک پہنچ گٸی ہے اور اِس پر ان شاء اللہ العزیز غور ہوگا ۔
میں وہ ادمی ہوں کہ جس زمانے میں میں آپ سے کہتا تھا کہ ڈیرہ اسماعیل خان کو میں پاکستان کا تجارتی جنکشن بناوں گا تو آپ ایک چھوٹی سی بات سمجھتے تھے کہ یہ چھوٹا سا ادمی اتنی بڑی بڑی باتیں کیسے کررہا ہے لیکن الحَمْدُ ِلله آج ہم اُس میں کامیاب ہورہے ہیں اور مذید بھی کامیابی حاصل کریں گے ۔
صحافی کا سوال: آخری سوال ہے حضرت، صدر پاکستان کے حوالے سے ایسی خبریں مل رہی ہے کہ توشہ خانہ کی طرح صدر پاکستان کو بھی کچھ تحائف ملے ہیں تو اُس حوالے سے کوٸی انکوائری شروع ہوٸی ہے ؟
قاٸد جمعیت کا جواب: میرے علم میں ابھی تک نہیں ہے لیکن اگر اٸے گی تو پھر بات کریں گے ان شاء اللّٰہ
آپ حضرات کا بہت بہت شکریہ
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر ٹیم جے یو اٸی سوات
#teamjuiswat
ایک تبصرہ شائع کریں