سندھ: پیغام جمعیت کانفرنس شکار پور سے قاٸد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب کا خطاب
20 نومبر 2022
خطبہ مسنونہ کے بعد
جناب صدر محترم، اکابر علماٸے کرام، زعماٸے قوم، میرے بزرگوں، دوستو اور بھاٸیو! ایک طویل عرصے کے بعد آج شکارپور میں اِس عظیم اجتماع کی وساطت سے آپ سے ملاقات کرنے کا موقع نصیب ہورہا ہے، آپ حضرات نے جس محبت اور خلوص کے ساتھ اِس فقید المثال اجتماع میں شرکت کی ہے اور جس محبت کے ساتھ آپ نے ہمارا استقبال کیا ہے میں دل کی گہراٸیوں سے آپ کا شکر گزار ہوں اور آپ کو مبارک باد پیش کرتا ہو ۔
میرے محترم دوستو! ہمارے مخدوم استاذ القراء شیخ محمد علی المدنیؒ کی یاد میں آج یہ عظیم الشان جلسہ منعقد ہورہا ہے یقیناً اُن کا ہم سب پر حق ہے کہ ہم اُن کی زندگی بھر قرآن کریم کی خدمات پر انہیں خراج عقیدت پیش کریں اور اہلیان سندھ نے اور اہلیان شکار پور نے حق ادا کردیا ہے، ان شاء اللّٰہ اُن کی حیات طیبہ اللّٰہ کو قبول ہے اور ان شاء اللّٰہ قرآن کریم کے ساتھ امت کا تعلق جاری و ساری رہے گا، اللّٰہ تعالیٰ ہمیں اُن کے اِس مشن کو اگے بڑھانے کی توفیق عطا فرماٸے ۔
میرے محترم دوستو! آپ نے اِس اجتماع کا عنوان پیغام جمعیت رکھا ہے جناب رسول اللّٰہﷺ نے جو دین پوری انسانيت کو عطاء کیا جمعیت علماء اسلام اُسی دین کے داعی ہے، اللّٰہ رب العزت نے ہمیں ایک کامل اور مکمل دین عطاء کیا اور اعلان کردیا ”الیوم اکملت لکم دینکم“ آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا ہے تعلیمات کے اعتبار سے، احکامات کے اعتبار سے دین مکمل ہوگیا ہے اور پھر فرمایا ”واتممت علیکم نعمتی“ اور میں نے اپنی نعمت تم پر تمام کردی، ہمار اکابر اِس نعمت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ کامل اور مکمل دین جب اُس کو اقتدار ملتا ہے تو اِس کے اقتدار کا نام نعمت ہے، اِس سے اندازہ لگاٸیں کہ جمعیت علماء اسلام اِس کامل اور مکمل دین کے اقتدار اور اُس کے حاکمیت کی جنگ لڑ رہی ہے، کاٸنات میں اِس سے بڑھ کر اور کوٸی نعمت انسانیت کے لیے نہیں ہوسکتی ہے جسے اللّٰہ نے اپنے الفاظ میں نعمت اور تمام نعمت قرار دیا ۔
مجھے خوشی ہے کہ آج اہل پاکستان نے جمعیت علماء اسلام کے اِس پیغام کو سمجھا ہے سندھ کی دھرتی اور سندھ کے عوام نے آج اِس پیغام کو سمجھا ہے، آج آپ نے اِس پیغام پر لبیک کہا ہے اور اِس عظیم الشان اجتماع کی صورت میں آپ نے اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے، اِس پیغام کے ساتھ اپنی وابستگی کا اظہار کیا ہے ان شاء اللّٰہ اِس میں اضافہ ہوگا، مذید اضافہ ہوگا، اور یہاں تو ہر قسم کی نظریات کی بات ہوتی ہے ہر سیاسی جماعت ایک جمہوری ماحول میں اپنا پیغام انسانيت کو دیتی ہے اُن کا حق ہے لیکن جمعیت علماٸے اسلام نے دین کو مملکتی نظام قرار دلوایا اور جب اسلام دستور پاکستان کی رو سے مملکت کا نظام قرار پایا ہے تو پھر اِس کا معنی یہ ہے کہ یہ انسانی حقوق کا محافظ ہے، یہ امن کا داعی ہے اور امن کا معنی یہ کہ انسان کی جان محفوظ ہو، انسان کا مال محفوظ ہو، انسان کی عزت و ابرو محفوظ ہو اور اِس اعتبار سے اُس کے تمام حقوق کا تحفظ کیا جاٸے، آج بدقسمتی سے ہمارے ہاں انسانی حقوق محفوظ نہیں ہے نہ جان محفوظ نہ مال نہ عزت و ابرو محفوظ اِس لیے کہ ہم نے اللّٰہ کے دین کی رہنمائی نہیں لی، آج پوری دنیا عالمی قوتیں، مغرب اور مغرب کی تہذیب آپ کے دین پر حملہ آور ہوگٸے ہیں، ہمارے ہاں بڑے بڑے سکالرز سامنے اتے ہیں بظاہر تاثر دیتے ہیں کہ بڑے پڑھے لکھے لوگ ہیں، وقت کے تقاضوں کو سمجھتے ہیں لیکن یہ وہ لوگ ہوتے ہیں کہ جو اسلام کی وہی تعبير کرتے ہیں، اسلام کی وہی تشریح کرتے ہیں کہ جو مغرب کے لیے قابل قبول ہو، اسلام کو کمزور کردیا ہے ۔
میرے محترم دوستو! پاکستان ہمارا وطن ہے اور اِس وطن عزیز کے ساتھ وفاداری کا تقاضا یہ ہے کہ ہم قرآن و سنت کی روشنی میں اِس ملک کے نظام کو سدھارے، اللّٰہ تعالیٰ کی اِس عظیم نعمت کا فاٸدہ حاصل کرے، آج ہم اُس سے بھاگ رہے ہیں، آج ہمارے حکمران بھی، بہت سی پارٹیاں ہیں حکومتيں کرتی ہیں لیکن اللّٰہ کے دین کی بات کرنا اور اُس کو نافذ کرنا اِس بات سے گبھراتے ہیں، اِس سے بڑھ کر اسلام اور کیا مظلوم ہو، اسلام کی مظلومیت کا اندازہ اِس بات سے لگاٸے کہ اسلام کے نمائندے وہ بن رہے ہیں کہ جن کو اسلام کے الف ب کا بھی پتہ نہیں ہے، اسلام ایک سچ ہے لیکن وہ سچ ایسی زبانوں پہ اگیا ہے کہ جن زبانوں پر جھوٹ کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا، ایک جھوٹی زبان کو اسلام کا نام لینے کا کوٸی حق حاصل نہیں ہے، ہمیں آج اِس ماحول سے جنگ ہے، ہمیں اِس نظریے سے جنگ ہے، ہمیں اِس روش سے جنگ ہے اور بہت منزل ہم نے عبور کرلی ہے ان شاء اللّٰہ العزیز اب منزل کے قریب پہنچنے کے دن ہیں ذرا اور ہمت کیجیے اور اگے بڑھیے ان شاء اللّٰہ۔
کبھی ریاست مدینہ کا لفظ، اب اِن کی ذرا شکلیں دیکھ لو ریاست مدینہ کے ساتھ اِس کی شکل بھی ملتی ہے، اِن کا کردار کیا ہے اور گندا کردار بے حیاٸی، مغربی تہذیب، اسلام کا مذاق اُس کا نام امر بالمعروف اور نہی عن المنکر رکھ دیتے ہیں، یہ نہیں چلے گا، اِن نعروں پہ گزارا نہیں ہوگا، اسرا ٸیل سے رہنمائی ملے گی تو یاد رکھو پاکستان میں قبول نہیں ہوگی ۔
میرے محترم دوستو! آج نکلا ہوا ہے تو کہہ رہا ہے میں حقیقی آزادی کے لیے نکلا ہو اور جہا د کے جذبے سے نکلو، رقص و سرود، فحاشیو عریانی اور جہا د اِس کا آپس میں کوٸی تعلق ہے، حقیقی آزادی نہیں، تم حقیقی آوارگی کے لیے نکلے ہو اور جمعیت علماء اسلام آپ کا راستہ روکے گی (نعرہ تکبیر اللّٰہ اکبر کے نعرے)
میرے محترم دوستو! آپ نے ہمیں کیا آزادی کا درس دینا ہے آزادی کا درس وہ دے گا جس کی تاریخ شاہ ولی اللّٰہؒ سے ملتی ہو، آزادی کی بات وہ کرے گا جس کی تاریخ مجدد الف ثانی سے ملتی ہو، جہا د کی بات وہ کرے گا جس کی تاریخ شاہ عبدالعزیز کے ساتھ ملتی ہو، تمہیں تو اِن ناموں کا بھی پتہ نہیں ہے، تمہاری تاریخ کہاں سے ملتی ہے پتہ ہے اِن کی تاریخ لاس اینجلس سے ملتی ہے، تم کس کے نمائندے ہو، کہاں سے اٸے ہو، تمہارا تو یہ بھی پتہ نہیں کہاں سے اٸے ہو، تمہارا نظریاتی قبلہ کہاں ہے، تمہارا نظریاتی قبلہ وہاں ہے جہاں کہا جاتا ہے کہ بیت المقدس پر یہو د یوں کا حق ہے، تمہارے لوگوں نے پارليمنٹ میں کہا ہے، ساری باتیں چھوڑ دو کیا تم آزادی کی باتیں کروگے کیا تم جہا د کی بات کروگے، نہ تمہاری شکلیں آزادی کی، نہ تمہارے شکلیں جہا د کی، نہ تمہاری شکلیں ریاست مدینہ کی، نہ تمہارے اخلاق، نہ تمہارے اطوار، کوٸی چیز بھی تو کوٸی مناسبت نہیں رکھتی، اتنا بتادوں کے ساڑھے تین سال تم نے حکومت کی ہے تمہاری کارکردگی کیا ہے، بھٸی کارکردگی بتاو، کیا کارکردگی ہے تمہاری، ملکی معشیت کا بیڑہ غرق کردیا، آج آپ جس دلدل میں پھنسے ہوٸے ہیں ، آج آپ جس مہنگائی کو رو رہے ہیں، جس سے نکلنے کے لیے ہم سب جتن کررہے ہیں، اِس دلدل میں تمہاری برکت سے ہم گٸے ہیں، اِس میں تمہاری حماقتوں سے ہم گٸے ہیں، اور میں اِس کو حماقت بھی نہیں کہتا، جو تباہی تم لاٸے ہو اِس کا معنی یہ ہے کہ یہی تمہارا ایجنڈہ تھا، آج جو تم پھدک رہے ہو نا روز روز لانگ مارچ، اِس کو ہم فر لانگ مارچ کہتے ہیں، فر لانگ مارچ کرتے ہو پھر گھر بیٹھ جاتے ہو، اِس طرح سیاست نہیں ہوا کرتی، مہینہ ہوگیا اور اسلام اباد پہنچ رہے ہیں اسلام اباد پہنچ رہے ہیں، ایک ہفتے میں لاہور سے گجرانوالہ پہنچے اور جب ایک فاٸر ہوا تو ایک گھنٹے میں لاہور پہنچ گٸے، اور اب تک پتہ نہیں چلا کہ گولی چلی کتنی چلی، کتنی لگی ابھی تک پتہ نہیں ہے، پہیلی بن گٸی ہے ۔
تو اتنا جلدی بھاگنے والا وہ قوم کی رہنمائی نہیں کرسکتا، حملے تو ہم پر ہوٸے ہیں، خودکش حملے ہوٸے ہیں، ہمارے گھروں پر راکٹ لگے ہیں، ساتھی شہید ہوٸیں ہیں لیکن میدان میں کھڑے ہیں (نعرہ تکبیر اللّٰہ اکبر کے نعرے)
تمہاری کارکردگی کیا ہے تم نے پارليمنٹ میں قانون سازی کی، اٸی ایم ایف کے شرائط پر قانون سازی کی اور ملک کی معشیت کو اٸی ایم ایف کے حوالے کردیا، تمہاری کارکردگی یہ کہ پاکستان بلیک لسٹ کے کنارے پہنچ گیا، دیوالیہ پن کے دیوار پر ریاست کو کھڑا کردیا، شکر ہے کہ آپ سے جان چوٹی اور الحَمْدُ ِلله آج ہم واپس گرے لسٹ سے واٸٹ پر اگٸے ۔
آپ نے دیکھا سود کا مسٸلہ ایا ہمارا سٹینڈ تو بہت زمانے سے واضح تھا آج ایسے وقت میں فیصلہ ایا جب کہ ہم بھی حکومت میں تھے ظاہر ہے آپ بھی سوال کرتے کہ بھٸی اِس پر عمل ہونا چاہیے، اُس کے خلاف اپیل کیوں چلی گٸی، تو آپ نے دیکھا کہ جمعیت علماء اسلام کی برکت سے وہ اپیلیں واپس ہوگٸیں ہیں اور ان شاء اللّٰہ سود سے پاک معشیت کے فیصلے پر اب ان شاء اللّٰہ عمل درامد ہوگا، اور اِس حوالے سے ان شاء اللّٰہ العزیز اِس مہینے کے اخر میں ایک بڑا سیمینار علما، تاجر اور کاروباری طبقے کا کراچی میں منعقد ہوگا تاکہ تجاویز مرتب کی جاسکے اور اگلے اقدامات کے حوالے سے حکومت کو رہنمائی دی جاسکے ۔
تو میرے محترم دوستو! نعرے لگانا اسان کام ہے ایک کروڑ نوکریاں دوں گا کہاں سے دوگے بھٸی، اور ایک نوکری تو دینا دور کی بات تم نے تیس سے چالیس لاکھ نوجوانوں کو بیروزگار کیا ہے وہ نوکریوں پر تھے اور نکالے گٸے ہیں، آج ہم دوبارہ نوجوانوں کو روزگار اور ملازمتیں دینے کے لیے کام کررہے ہیں، ہمارے پاس وقت بھی بہت تھوڑا ہے، کبھی کہتا ہے ہم ساڑھے تین سو ڈیمز بناٸیں گے، ساڑھے تین سو کیا ساڑھے تین ڈیمز بتادو کدھر ہے، نعروں پہ گزارہ نہیں ہوگا، الیکشن کمیشن نے کہہ دیا کہ فارن فنڈنگ کیس میں یہ چور ثابت ہوگیا ہے، ہم نے تو بہت پہلے کہا تھا کہ اسرا ٸیل بھی اِس کی مدد کررہے ہیں یہو د بھی مدد کررہے ہیں اور انڈین بھی مدد کررہے ہیں، اب تو ادارے نے ثابت کردیا نا، اب تو بات ہماری نہ رہی اب تو ادارے کی بات ہے، ابھی اُس فیصلے کی سیاہی خشک نہیں ہوٸی تھی کہ توشہ خانہ سے گھڑی چوری ہوگٸی پتہ چلا وزیراعظم نے چوری کی ہے اور بازار میں بیچ دی ، مذاق بنادیا پاکستان کو، پوری دنیا میں جہاں پاکستانی سڑک پہ گھومتا ہے لوگ اُس کو طعنے دیتے ہیں تمہارا عمران خان گھڑی چور نکلا ہے، مسخرہ ہے مسخرہ، اور پوری قوم کے لیے عار بن گیا ہے اور وہی لوگ اُن کے ساتھ ہیں جو اپنے کردار کی وجہ سے معاشرے کے لیے عار بنے ہوٸے ہیں، اب یہ کہتا ہے مجھے دوبارہ حکومت دو اِس لیے کے ایجنڈہ نامکمل ہے، بے حیاٸی کا ایجنڈہ نامکمل ہے، معاشی تباہی کا ایجنڈہ نامکمل ہے، کشمیر کو بیچنے کا ایجنڈہ نامکمل ہے ، ریاست کے خاتمے کا ایجنڈہ نامکمل ہے، مغربی تہذیب کو پاکستان میں مسلط کرنے کا ایجنڈہ نامکمل ہے، صرف اِس گندے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے ہاتھ پاوں مار رہا ہے اِس کے علاوہ اِن کے پاس کچھ نہیں ہے، لیکن یاد رکھو ان شاء اللّٰہ العزیز تم تو ہو جو ہو لیکن مقابلے میں جمعیت علماء اسلام بھی میدان میں کھڑی ہے ۔
اب اِس کردار کے لوگ ہمارے ملک میں سیاست کررہے ہیں، اِس کردار کے لوگ دوسروں کو چور چور کہہ رہے ہیں، ہم نے اپنے تحریک کو ان شاء اللّٰہ اگے بڑھانا ہے ۔
ایک کاغذ لہرایا تھا آپ کو یاد ہے، یہ سازش ہوٸی ہے امریکہ نے سازش کی ہے، ہمیں کہا یہ امریکہ اِن کو لے ایا ہے اگر پوری دنیا میں اگر امریکی استعمار، مغربی استعمار اور اُس کی جارحیت کے خلاف کسی نے مٶثر اواز بلند کی ہے صرف پاکستان میں نہیں تمام برصغیر میں وہ جمعیت علماء اسلام کی اواز تھی (نعرہ تکبیر اللّٰہ اکبر کے نعرے) ۔
تو میرے محترم دوستو! یہ ہماری نقالیاں نہ کیا کرو، ہم نے آزادای مارچ کیا یہ بھی آزادی مارچ کررہا ہے ، ہم جہا د کی بات کرتے ہیں یہ بھی جہا د کی بات کرتے ہیں، کہتے ہیں مذہبی ٹچ دو، ہر بات میں مذہبی ٹچ دو، بات مذہبی ٹچ سے نہیں بنتی، ٹچ سے کیا بنتا ہے، کوٸی عمل بھی تو ہو نا، وضو بنانے کا طریقہ نہیں اتا اور ہمیں اسلام سکھاتا ہے، ایک دفعہ کہا وہ کاغذ مجھ سے گم ہوگیا ہے، بھٸی اتنا بڑا ڈاکومنٹ ہے اتنی بڑی دستاویز ہے گم کیسے ہوگٸی ، اب کہتا ہے وہ بھو ل جاو کچھ نہیں ہوا تھا، امریکہ سے کوٸی دشمنی نہیں میں تو اُس کے ساتھ دوستی چاہتا ہو، تو پتہ چلا کہ تمہارے آزادی کے الفاظ دو چار دن کے تھے واپس غلامی کی طرف لوٹ گٸے، صبح ایک بیان، ظہر کو دوسرا، عصر کو تیسرا، مغرب کو چوتھا، عشاء کو پانچواں بیان جب اگلا دن اتا ہے تو کچھ اور بول رہا ہوتا ہے، ایک بات پر تو ٹہرو نا، ابھی امریکی سازش کی بات نہ کرو، کوٸی سازش نہیں ہوٸی تھی، تو پھر آپ نے اتنی بڑی تحریک کس بات پہ اٹھاٸی، کیوں قوم کو دھوکہ دیا، ابھی یہ پتہ نہیں کہ وہ اسلام اباد میں کب تک اٸے گا ۔
لیکن میرے دوستو میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں آپ کو یاد ہوگا 2014 میں انہوں نے اسلام اباد ڈی چوک پہ ایک دھرنا دیا تھا، یاد ہے نا، اُس وقت چین کا صدر پاکستان ارہا تھا، ایک بڑے میگا پیکج کے ساتھ ارہا تھا تاکہ پاکستان کے ساتھ اربوں کھربوں کے معاہدات کرکے سرمایہ کاری کرے، اِس نے راستہ روکا، کس کے کہنے پہ راستہ روکا، امریکہ نہیں چاہتا تھا کہ چین اٸے اور پاکستان میں سرمایہ کاری کرے، آج جب سعودی کے ولی عہد پاکستان ارہے تھے اب اِس کو تاریخ کا علم نہیں تھا تو ایک مہینہ پہلے لانگ مارچ شروع کیا کہ اسلام اباد کی طرف جانا ہے اور جونہی محمد بن سلمان کا کہ 21 نومبر کو پاکستان پہنچ رہا ہے تو اِس نے کہا میں اکیس نومبر کو اسلام اباد پہنچوگا، آپ بتاٸے کہ ہمارا دوسرا بڑا دوست سعودی عرب جب پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے ایک میگا پیکج ساتھ لارہا تھا تو اُس نے پھر اسلام اباد اور پاکستان کے سڑکوں کو بند کرنے کا ڈھونگ رچایا، یہ ہے پاکستانی معشیت کا وہ قتل عام جو انہوں نے کیا ہے، لیکن ہم یہ سب باتیں سمجھتے ہیں ان شاء اللّٰہ ۔
آج ہمیں دوبارہ چین کا اعتماد حاصل کرنے کی کوششیں کرنی پڑرہی ہے، محنت کرنی پڑرہی ہے، کیسے ہم ایک دوست ملک کا اعتماد بحال کرے، اور آج ہمیں سعودی عرب جیسے برادر ملک کا اعتماد بحال کرنے میں مشکلات پیش ارہی ہے، تو اِس ملک میں کوٸی لابی ہے نا جو اِس پر کام کررہے ہیں، کس کس لباس میں اکر پاکستان دشمنی کروگے، اصل ایجنڈہ پاکستانی ریاست کا خاتمہ تھا وہ ہم نے نہیں ہونے دیا، اب کہتے ہیں ساری سیاسی جماعتيں اکھٹی ہوگٸیں ہیں، آپ بتائے جب گاٶں میں اگ لگ جاٸے تو پھر اگ کو بجھانا ہوتا ہے یا نہیں اور سب کو ملک کر بجھانا ہوتا ہے، اور گاٶں میں اگر بھیڑیا اجاٸے اور خطرہ ہو کہ یہ تو نقصان کرے گا تو پھر سارا گاٶں اکھٹا ہوتا ہے یا نہیں ہوتا، یعنی سب پارٹیاں اِس بات پہ متفق ہیں کہ اگر آج ہم نے ملک کو اِس قسم کی سازشی ٹولے سے بچانا ہے تو ملکر بچاتے ہیں (نعرہ تکبیر اللّٰہ اکبر کے نعرے) ۔
میرے محترم دوستو! یہ چیزیں ہیں جس کو سمجھنا چاہیے اور اِس کو ہم فتنہ کہتے ہیں، آپ خود اندازہ لگاٸیں کہ جہاں پر دنیا کا قا د یا نی اِس کو سپورٹ کررہا ہو اور قا د یا نی جس پارٹی یا جس لیڈر سے یہ امید رکھتا ہوکہ وہ پاکستان میں دوبارہ ہمیں مسلمان ڈکلیٸر کراٸے گا اور ہمارے غیر مسلم حیثیت کو ختم کرکے ہمیں مسلمان کہلواٸے گا یہ لوگ آج اُس سے یہ امید رکھے ہوٸے ہیں، کیوں ؟ آج کیا وجہ ہے کہ اسرا ٸیل اِن سے امید رکھے ہوٸے ہیں کہ یہ اٸے گا تو پاکستان اسرا ٸیل کو تسلیم کرلے گا، کس کا ایجنٹ ہے یہ پھر، اور فتنہ اِس کے علاوہ اور کیا کہ ایسے ایسے لوگ اُن کی پارٹی میں ہیں کہ جو کہتے ہیں کہ اگر اِس نے خداٸی کا دعویٰ کیا تو میں اِس کو خدا مان لوں گا، کوٸی کہتا ہے کہ اگر اِس نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا تو میں اِس کو نبی مان لوں گا، کوٸی کہتا ہے اگر یہ دوزخ میں جاٸے گا تو میں اِس کے ساتھ دوزخ میں جاوں گا، جو لوگ اِس قسم کی گفتگو کرتے ہیں، اِس طرح کے پیروکار پیدا کرتے ہیں اسے فتنہ کہتے ہے، بہت سی باتیں ہیں بخدا شرم اتی ہے ایسی باتیں زبان پر لانے پر جی، نعوذباللّٰہ ایسے ایسے لوگ کہ جو کہتے ہیں کہ اگر ہماری ماں کے ساتھ زنا کرے گا تب بھی اِس کو ووٹ دیں گے، ایسی ایسی نوجوان لڑکیاں کہ جو کہتی ہیں میرا جی چاہتا ہے کہ وہ کسی وقت میرے بیڈ روم میں اجاٸے، یہ معاشرہ پیدا کیا جارہا ہے ، یہ اخلاق پیدا کیے جارہے ہیں، نوجوان نسل کو اِس طرح گمراہ کیا جارہا ہے اور پھر کہتے ہیں کہ ہم خاموش رہیں، خاموش رہنا ہمارے لیے بہت بڑا جرم ہوگا ۔
تو یاد رکھو میرے دوستو! جس طرح آج آپ لوگ اِس بڑے اجتماع میں شریک ہیں اسی طرح ایک قومی اجتاعیت کے ساتھ ہم نے ملک کو بھی بچانا ہے، ملک کے عقیدے کو بھی بچانا ہے ، ملک کے تہذیب کو بھی بچانا ہے، اپنے انے والے نسلوں کو بھی بچانا ہے اور اُس کے لیے انے والے حالات کے لیے ہم نے اپنے صفوں کو ٹھیک کرنا ہے (نعرہ تکبیر اللّٰہ اکبر کے نعرے) ۔
تو میرے محترم دوستو! یہ وہ صورتحال ہے کہ جس صورتحال میں ہم چل رہے ہیں، اِس فتنے کا مقابلہ کررہے ہیں، کشمیر بیچ دیا اور کہتے ہیں ٹھیک ہوگیا، چوہتر سال کشمیریوں نے قربانیاں دی، ہماری ماٸیں بہنیں اُن کی عزت و ناموس کے ساتھ اُن کے عصمتوں کے ساتھ کیا کھیل کھیلے گٸے اور آج اسی ہند و ستا ن کے لوگوں سے چندے وصول کرکے پاکستان پر حکومت کرنا چاہتا ہے، ان شاء اللّٰہ اِس طرح کی سیاست نہیں چلے گی، ہم پوری نیک نیتی کے ساتھ اگے بڑھ رہے ہیں، فتنے کا مقابلہ کریں گے، جھوٹ کا مقابلہ کریں گے، منافقت کا مقابلہ کریں گے اور اِن کی بدنما چہروں سے نقاب اٹھاٸیں گے اور اصل چہرہ قوم اور انسانيت کو دکھاٸینگے ۔
تو آپ لوگ ان شاء اللّٰہ منظم ہوں گے یا نہیں، اور سندھ میں انقلاب لاوگے یا نہیں، ان شاء اللّٰہ العزیز اِس جدوجہد میں ہم نے اگے بڑھنا ہے اپنے اکابر و اسلاف کی تاریخ کو زندہ کرنا ہے، انے والے مستقبل کو روشن کرنا ہے ، نٸی نسلوں کو ہم نے اُن کے مستقبل کی اچھی امید وابستہ کرنی ہے اور قرآن و سنت کی روشنی میں نٸے مستقبل کی راہ دکھانی ہے ۔
اللّٰہ ہمارا حامی و مددگار ہو اور اُس کی نصرت اللّٰہ پاک قدم قدم پر ہمیں نصیب فرماٸے ۔
واخر دعوان ان الحمد للّٰہ رب العالمین
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر ٹیم جے یو اٸی سوات
#teamjuiswat
ایک تبصرہ شائع کریں