ڈیرہ اسماعیل خان: سربراہ جمعیتہ علماء اسلام پاکستان مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی موجودہ ملکی صورتحال پر گفتگو
04 نومبر 2022
بسمہ اللّٰہ الرحمن الرحیم
دیکھیے سب سے پہلے جب یہ خبر اٸی ابھی صرف خبر یہی تھی اور اندر کی جزیات اور تفاصیل کچھ بھی نہیں اٸی تھی، ہم لوگوں نے بھی بیان دٸیں اِس کی مذمت کی اور ہمدردی کا اظہار کیا، پھر ہم نے یہ بھی کہا کہ اِس کی فراً اعلی سطح تحقيقات بھی ہونی چاہیے، اُس کے لیے جی اٸی ٹی بننی چاہیے کیوں یہ واقع ہوا ہے ؟ لانگ مارچ ہم نے بھی کٸے ہیں لیکن اللّٰہ کے فضل و کرم سے اِس قسم کا کوٸی واقعہ رونما نہیں ہوا، اب جو بنیادی چیز سامنے ارہی ہے اُس کے کٸی زاویے ہیں، پہلی بات بنیادی یہ ہے کہ ملزم جو پکڑا گیا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ کسی وفاقی ادارے نے نہیں پکڑا بلکہ موقع پر انہی کے کارکنوں اور پنجاب ہی کے پولیس نے انہیں گرفتار کیا، اور پھر اُن کو تھانے لے گٸے یا جہاں پر تفتيش اُن سے ہوٸی، تو تفصیلی طور پر اُس کا جو اعترافی بیان سامنے ایا ہے وہ کوٸی وفاقی ادارے نے اُن سے نہیں لیا، اُن کو انوسٹیگیٹ نہیں کیا، نہ اٸی ایس اٸی نے، نہ ایف اٸی اے نہ ایم اے نے، پنجاب ہی میں پنجاب کے پولیس نے اُن سے یہ بیان لیا ہے، اُس تمام بیان کی روشنی میں کیا نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے، اور انہوں نے جو بیان دیا ہے اُس سے اِس پہلو کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ عمران خان صاحب پتہ نہیں کس کے مشورے سے جب کہ وہ نہ مذہب کو جانتا ہے نہ اُس کے پاس مذہبی تعلیم ہے اور ہر بات پر مذہب کا ٹچ، اور اِس ٹچ میں جب کہ آپ شریعت کے حوالے سے لاعلم ہے تو معاشرے میں ایک مذہبی جنونیت کی طرف آپ نوجوانوں کو لے گٸے اور آج آپ خود اسی جنونیت کے ہاتھوں جل بھن رہے ہیں اور آپ ہی کو اُس کا نقصان ہورہا ہے ۔
تو سیاست ناقبت اندیش نہیں ہوا کرتا وہ جو کچھ بھی کرتا ہے اُس کے انجام پہ نظر رکھتا ہے، اُس کے نتائج پہ نظر رکھتا ہے کہ اِس قسم کے صورتحال کے برے نتائج بھی ہوسکتے ہیں، تو یہ ساری چیزیں جو ہیں اُس کا انہوں نے خیال نہیں رکھا، اور پھر یہ ساری چیزیں تو اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ جہاں تک کسی کی فوتگی کا مسٸلہ ہے اُس کا کوٸی پوسٹ مارٹم نہیں کیا گیا، گولی کہا لگی ہے، گولی کی حقیقت کیا ہے، پستول کی گولی ہے کہ کلاشنکوف کی گولی ہے، ایک گولی لگی ہے یا برسٹ لگا ہے، یہ سارے وہ سوالات ہے جو اِس ماحول میں وقت کے ساتھ ساتھ اٹھی ہیں، اور پھر اِس کے ساتھ یہ کہ عمران خان صاحب جو ہے اُن کو جب طبی معاٸنہ کے لیے لے جایا گیا، بنیادی بات یہ ہے کہ اُن کو پنڈلی پہ گولی کیسے لگی، اب ہم بھی کنٹینروں پر چڑھتے اترتے رہے ہیں ہمارے تو ٹانگوں پر کٸی کٸی جگہوں پر زخمیں تو اتی رہی ہیں لیکن ہمیں پتہ ہوتا تھا کہ یہ دھکم پیل میں کیل بھی لگ سکتا ہے، کوٸی لوہے کی چبھن بھی ہوسکتی ہے بہت سی چیزیں ہوسکتی ہے، تو وہ چلے گٸے اور فوراً اپنے ہسپتال چلے گٸے جب کہ ایسے موقعے پر حادثوں کے بعد یہ کسی حملے کی صورت میں سرکاری ہسپتال میں جانا ہوتا ہے، وہاں پر ایک بورڈ بیٹھتا ہے اور وہاں پر فوراً جی اٸی ٹی بنتی ہے، یہ اپنے ہسپتال میں جو گٸے تاکہ وہ کوٸی اُس کے خلاف جو اُن کا دعوی ہے کوٸی رپورٹ نہ اجاٸے تاکہ یہ پتہ نہ چل سکے کہ اُن کو گولی لگی بھی ہے یا نہیں، لگی ہے تو کس چیز کو گولی لگی ہے، پوری گولی یا کوٸی ٹکڑا لگا ہے، کیسا ہے، کتنے فاصلے سے لگی ہے، یہ ساری چیزیں جو ہیں جہاں پر کسی ادارے کو اِس کی تفشیش کرلینی چاہیے تھی، ساری چیزیں وہ دھو رہے ہیں ۔
صحافی کا سوال: اچھا واقعے کہ فوراً بعد پی ٹی اٸی اور عمران نے وفاقی حکومت اور اِس کے اداروں پر الزام لگادیا، اِس کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں بلا تحقیق یہ الزام لگے ہیں ؟
قاٸد جمعیت کا جواب: ہمارے ہاں پشتو میں کہتے ہیں کہ میں مار کہاں رہا ہوں اور اواز کہاں سے نکل رہی ہے، تو سمجھ نہیں ارہی کہ سیکیورٹی پنجاب حکومت کی، سرزمین پنجاب حکومت کی، گرفتار کیا ہے تو اِن کے ورکروں اور پنجاب پولیس نے، تھانہ پنجاب کا ہے، انوسٹیگیشن پنجاب پولیس نے کی ہے یا پنجاب کا کوٸی ادارہ ہوگا، اِس میں کسی قسم کی کہیں پر بھی وفاق نظر نہیں ارہا ہے اور اپنی ناکامی کو چپھانے کے لیے اب اِس پر سیاست کررہے ہیں کہ وزیراعظم صاحب، رانا صاحب اور اٸی ایس اٸی کے ڈی جی سی اور اُن کا نام لے کر، تو میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ اِس پر بھی جی اٸی ٹی بننی چاہیے، اِس کی بھی تفشیش ہونی چاہیے اور اگر یہ دعوی جھوٹا نکلتا ہے تو اُس کے خلاف قانونی کارواٸی ہونی چاہیے، کیوں کہ جب انہوں نے اپنے اِس واقعے کو احترام کی نظر سے نہیں دیکھا، لوگوں کی ہمدردیوں کو احترام کی نظر سے نہیں دیکھا اور ایک واقعے کو واقعے کی حد تک نہیں رکھا، اُس پر ایک سیاسی شیش محل تیار کررہا ہے پھر تو ہمیں فوراً اٸین اور قانون کی طرف جانا چاہیے اور اُس حوالے سے کسی قسم کی معذرت خواہانہ انداز ہمیں نہیں اختیار کرنا چاہیے، اور اِس کو بنیاد بناکر پورے ملک میں دس دس پندرہ پندرہ لڑکے اکر کسی چوک پہ گاڑیاں کھڑی کرکے روڈ بلاک کرلیتے ہیں اور تماشہ دکھا رہے ہے، کوٸی پبلک نہیں ہے کہیں پر بھی نہیں ہے، مجھے اپنا شہر اور علاقہ معلوم ہے، مجھے ملک کے دوسرے علاقوں سے رپورٹیں ارہی ہیں، چوکوں پر جو لوگ جمع ہوتے ہیں اُن کی پوزیشن ہمیں معلوم ہے، تو یہ صرف ملک کے حالات کو گندا کرنے کے لیے، اور کیوں گندا کررہا ہے ؟
جب ہم تحریک چلارہے تھے اور پندرہ لاکھ لوگ ہم اسلام اباد میں لے گٸے تھے، اِس سے پہلے ہم نے دس دس لاکھ لوگوں کے بڑے بڑے اجتماعات کیں وہاں تو ہم نے انتخاب نہیں مانیں گے ہم انتخاب نہیں مانے گے، جب اسمبلی کے اندر اُس پر عدم اعتماد ہوا اب اُس کو الیکشن بھی چاہیے، جھوٹ کا سہارا لینا، غلط کاغذ لہرانا، ساٸفر کی غلط تشریح کرنا، اُس کے بعد کہا میرے اوپر حملہ ہورہا ہے ۔
صحافی کا سوال: جس قسم کی الزام تراشی اب عمران خان کررہا ہے گورنمنٹ کے خلاف جو نریٹو بنارہا ہے اگر کسی تیسری قوت نے اِس سے فاٸدہ اٹھالیا تو پھر ؟
قاٸد جمعیت کا جواب: یہی تو ہم سوچ رہے ہیں کہ ایسی چیزوں میں احتیاط کرنا چاہیے یعنی مجھ پر تین خودکش ہوٸے، گھر پے میرے بیٹے پر ایک حملہ ہوا، دو راکٹ میرے گھر پہ اٸے ہیں، میں نے کسی مسٸلے کو اِس طرح استعمال کیا ہے ؟ میں نے تو ہمیشہ کارکن کو کہا ہے کہ نہیں، وجہ یہ ہے کہ اگر ہم کسی رخ پر ایک سیاسی فاٸدہ اٹھانے کے لیے بات کہہ دے اور کل کوٸی تیسری قوت اُس سے فاٸدہ اٹھالے تو ہم نے تو خود متوجہ کیا ہوگا کہ بھٸی یہ یہ ہوسکتا ہے ۔
تو ہم سیاسی کارکن ہیں ہم ہر چیز کے درد، تکلیف اور اُس کے وزن کو سمجھتے ہیں ، اُن کے انجام کو سمجھتے ہے، دوراندیشی کا مظاہرہ کرتے ہیں، اور ہم نے پورے ملک بھر کے کارکن کو اِس طرف جانے کی ترغیب نہیں دی ورنہ میرے کارکن کے لیے میرے اوپر حملہ تو پھر اخری بات ہے لیکن کسی کو بندوق تو کیا پتھر اٹھانے کی اجازت نہیں دی ہم نے کہا کہ نہیں قانون کے مطابق کارواٸی ہونی چاہیے، اب ادارے اپنا فرض بجا لاتے ہیں یا اُس سے صف نظر کرتے ہیں یہ اُن کا معاملہ ہے، ہم نے ایسے معاملات کو اپنے سیاست کے لیے استعمال نہیں کیا ہے ۔
صحافی کا سوال: اچھا یہ جس قسم کی جنونیت اور جذباتیت اپنے کارکنوں کے دل و دماغ میں بھررہے ہیں اور اِس کو پھر مذہبی اور جذباتی رنگ بھی دے رہے ہیں تو اِس دین اور ہماری سماجی اقدار کو کوٸی نقصان تو نہیں پہنچ رہا ؟
قاٸد جمعیت کا جواب: دیکھیے ہر پارٹی کا اپنا ورکر ہوتا ہے اور اُس کو اپنے لیڈر پر ایک اعتماد ہوتا ہے اب کون لیڈر کو سمجھاٸے کون اُن کے ورکر کو سمجھاٸے، لیڈر کو یہ سمجهانا مشکل ہے کہ تم عالم نہیں ہو، مریض کو عالم کے پاس نہیں ڈاکٹر کے پاس لے جایا جاتا ہے، ہر فن کا اپنا ایک ماہر ہوتا ہے اور اُس سے متعلقہ کوٸی بھی معاملہ ہو تو اپنے ماہر پن کے پاس لے جایا جاتا ہے، ساٸنس کی کوٸی بات ہو تو وہ ساٸنٹسٹ کے پاس لے جایا جاٸے گی ، یہاں پر ایک شخص جو دین سے بلکل ناواقف ہے، قران کی تلاوت شاٸد اُس کو نہ اتی ہو، پورا نماز پڑھنا بھی شاٸد اُن کو نہ اتا ہو، لیکن اپنے کارکن میں ایک بات پیدا کردی ہے کہ ہر بات کو مذہبی ٹچ دو، کبھی پیغمبروں کے ساتھ خود کو برابر کررہا ہے کہ جس طرح اللّٰہ اُن کی تیاری کررہا تھا اُس طرح میری تیاری کررہا ہے، کبھی کہتا ہے کہ میری بات اسی طرح لوگوں کو پہنچاو جس طرح صحابہ کرام پیغمبر خدا کا پیغام پہنچاتے تھے، کبھی کہتا ہے مجھے جہنم کی گرمی نہیں لگے گی، اِس قسم کی بے تھکی باتیں جس کا شریعت کے بہت سخت اور انتہائی سنجیدہ پہلوو سے اُس کا تعلق ہے وہاں پر بھی ایسی ایسی باتیں مار دیتا ہے، اب یہی چیزیں معاشرے میں سخت موقف اپنانا ہے، ختم نبوت کی بات ہم بھی کرتے ہیں کیا سن 1974 کے بعد سے لے کر آج تک ملک میں کوٸی ناخوشگوار واقعہ ہوا ہے ہر چند کے قا د یا نی یہ سوچتے ہیں کہ ہم دنیا کو یہ باور کراٸے کہ ہمارے ساتھ زیادتی ہورہی ہے لیکن کوٸی ایک مثال پیش نہیں کرسکے گا، جو چیز ہم کرتے ہیں قانون ساز اداروں کے ذریعے اپنا موقف پیش کرتے ہیں اُس پہ اپنی بات ہم منواتے ہیں یہ نہیں کہ ڈنڈے کے زور سے ہنگامے برپا کرکے اور اپنا موقف لوگوں سے منواٸے ۔
تو تحریکیں بھی چلتی ہے تحریکیں بھی پھر اٸین کے داٸرے کے اندر ہونی چاہیے اب آپ ذرا مجھے بتاٸے کہ اگر آپ کے پاس لوگ نہیں ارہے اور دو ہزار سے پانچ ہزار کے درمیان روزانہ آپ کے پاس جمگھٹا ہو جاتا ہے اور آپ اِس قابل نہیں ہے کہ اسلام اباد کی طرف اُس کو روانہ کرسکے اور وہاں بھی حالات آپ جانتے ہیں کہ میں داخل نہیں ہو سکوں گا تو پھر ایسی صورت میں بات کو سمجھنا چاہیے وہاں جانا چاہیے جہاں عقل بھی تسلیم کرے کہ آپ صحیح کررہے ہیں ۔
تو مذہب کے حوالے سے ایک انتہائی ناواقف ادمی اور ورکر بھی اسی طرح ہے کہ وہ ڈانس کرتے ہوٸے سوچتے ہیں کہ ہم مذہب کی خدمت کررہے ہیں، اذان ارہی ہے سنی جارہی ہے نمازیں پڑھی جارہی ہیں اور اُن کے ڈانس اور ڈھول ڈھمکے چل رہے ہوتے ہیں، بڑے بڑے ڈسک بج رہے ہوتے ہیں، تو ایسی صورتحال میں معاشرے کے اندر کچھ لوگ ہوتے ہیں ایسی چیزوں کو برداشت نہیں کرسکتے، تو اِیسے معاملے کو خود ایک لیڈر کو سمجھنا چاہیے یہ نہیں کہ اِس بارے میں آپ لوگوں کو ملامت کرے جیسے امریکہ اور یورپ کرتے ہیں پھر کوٸی ایک انتہا پسندانہ واقعہ ہو جاٸے تو بس مذہب کے خلاف شروع ہو جاتے ہیں، بھٸی مذہب کے خلاف نہیں اِس کے کچھ اسباب ہوں گے، شاٸد تم ہی اِس کے لیے سب کچھ ہو، تو وہ کوشش کررہا ہے کہ میں خون بہاو، اپنے نوجوانوں کو خون کی طرف لے جاو، کیوں کہ خون میں زیادہ پبلک کی شموليت کی ضرورت نہیں ہوتی تھوڑے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ صرف فاٸر کرسکے یا مرسکے، اِس قسم کی جنونیوں کو پیدا کرنا اور فیلڈ میں لے انا اور اُن کو غلط استعمال کرنا، آپ کو اگر مغرب کی سپورٹ حاصل ہے تو مغرب بھی اِس بات کا نوٹس لے کہ وہ ایک ایسے ادمی کو کیوں سپورٹ کررہا ہے کہ جو معاشرے کے اندر مذہبی جنونیت پیدا کررہا ہے اور مذہب سے ناواقف ہے، ایک طرف سیکولر بننے کی کوشش کررہا ہے دوسری طرف مذہبی بننے کی کوشش کررہا ہے اِس کشمکش میں ایک بھی کوور نہیں کر پارہا ہے ۔
تو یہ ساری وہ چیزیں ہیں کہ جس نے وزیراعظم کو بھی نشانہ بنادیا اور سیاسی پواٸنٹ سکورنگ جسے کہتے ہیں وہی کررہا ہے، تو واقعے کو واقعہ کی نظر میں دیکھنا چاہیے، انصاف کے راستے نہ روکے جاٸے، تحریک انصاف ہے اور آج اِس ایک واقعے کے لیے انصاف کے راستے روکے جارہے ہیں اور ہر چیز کے ارد گرد ایک اندھیرے کا ہالا بنایا جارہا ہے تاکہ کچھ نظر نہ اٸے، تو حقائق کو چپھانا، جھوٹ کے پلندے باندھ کر الزامات تراش کر پبلک کو سڑکوں پہ لاکر، پھر خون خرابے کی بات کرکے، روز ایک خبر بنانا چاہے لاشوں کی اوپر ہو لیکن ایک خبر بنے یہ ناعاقبت اندیشی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے، اِس وقت اِس حوالے سے ان کے پلے کچھ بھی نہیں پڑ رہا اور اِن کے اپنے ماحول میں جو اعتدال پسند لوگ ہیں وہ مایوس ہوتے جارہے ہیں، تو یہ ساری وہ چیزیں ہیں جو ہمیں بھی اِس وقت مجبور کررہی ہے بجاٸے اِس کے کہ ہم اُن کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے، ہم بھی کچھ حقائق لوگوں کے سامنے لاٸے اور اپنا نقطہ نظر لوگوں کے سامنے لاٸیں ۔ شکریہ
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر ٹیم جے یو اٸی سوات
#teamjuiswat
ایک تبصرہ شائع کریں