قائدِ جمعیتہ حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا کراچی میں میڈیا سے گفتگو
2 دسمبر 2022
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم اما بعد
اٸین پاکستان ایک مقدس دستاویز ہے جسے میثاق ملّی کی حیثیت حاصل ہے اور اٸین خود کہتا ہے کہ اِس اٸین کا بنیادی ڈھانچہ چار باتوں پر مشتمل ہے اسلام، جمہوریت، وفاقی نظام اور پارليمانی طرز جمہوریت، سن 1973 تک ملک میں صدارتی نظام راٸج تھا، ایوب خان کی حکومت میں صدارتی نظام کے خلاف پورے ملک میں تحریک اٹھی تھی اور جب سیاسی جماعتوں نے ایوب خان کی حکومت کے ساتھ مذاکرات کیں تو صرف دو متفقہ نکات پیش کیے گٸے تھے ایک یہ کہ بالغ راٸے دہی کی بنیاد پر ووٹ کا حق دیا جاٸے اور دوسرا یہ کہ پارليمانی طرز حکومت راٸج کیا جاٸے، سن 1973 کے اٸین میں جب جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی حکومت تھی پورے اتفاق راٸے کے ساتھ اٸین پاس کیا گیا، اور آج بھی سن 1973 کے اٸین کا متفقہ اٸین کا ٹاٸٹل محفوظ ہے لیکن آج پھر صدارتی طرز حکومت کی باتیں کی جارہی ہے، ناکام تجربے کو دوبارہ ازمانے کی باتیں ہورہی ہیں، جہاں نہ عقل ہے نہ سیاست ہے نہ سیاسی بلوغت ہے وہ ہمیں صدارتی طرز حکومت کے فضائل سکھا رہا ہے، ہم نے چاروں صوبوں میں ال پارٹیز کانفرنس کیے ہیں اور اِس بات کا ہر جگہ پر اعادہ کیا گیا ہے کہ پارليمانی طرز حکومت پر کوٸی سمجھوتہ نہیں کیا جاٸے گا، کیا عمران خان کا ریاست کو ختم کرنے کا ایجنڈہ نامکمل ہے، ملک کے اندر افراتفری پیدا کرنے کا، اٸین کو ختم کرنے کا، کہ اِس قسم کے تجاویز وہ دوبارہ پیش کررہا ہے، اُن کی اپنی سیاست بھی ناکام، اُن کے پاس سیاسی وژن ہی نہیں ہے، لفاظیوں سے قوم کو کب تک دھوکہ دیا جاتا رہے گا، ملک کی اچھی بھلی معشیت کو زمین بوس کردیا، آج سب مل کر بھی ملکی معشیت کو سنبھالا دینے میں دقت محسوس کررہے ہیں ۔
لہذا اِس قسم کے تجربات نہ صدارتی طرز حکومت کے حوالے سے تجربہ دہرایا جاٸے گا اور نہ ہی عمران خان کی دوبارہ حکمران بننے کا تجربہ دہرایا جاٸے گا ورنہ پھر اِس ملک کے خاتمے کا فیصلہ کرو، ہم نے ان شاء اللّٰہ اِس ملک کو بچانا ہے، سازشی نظریہ کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے، مجسم منکر امر بالمعروف کی بات کرتا ہے، ان شاء اللّٰہ قوم متحد ہے، ہم اب بھی میدان میں ہے، ہم نے شکار پور میں، صوبہ خیبر پشونخواہ کے دیر میں، مانسہرہ میں، کوہستان میں ابھی حال ہی میں عام جلسے کیے، اِس نے ملین مارچوں کی یاد تازہ کردی، عوام کے سمندر امڈ اٸے تھے، حالانکہ عام طور پر حکومتوں میں عوام کے تھوڑے بہت شکوے ضرور ہوتے ہیں لیکن ہمیں پہلے سے زیادہ پذیرائی نظر اٸی اور ان شاء اللّٰہ اِس کو ہم اگے بڑھاٸیں گے، ہم اٸین پاکستان سے کھلواڑ کی اجازت کسی کو نہیں دے سکتے، ہم پاکستان کی وحدت اور سلامتی کی جنگ لڑیں گے، کسی کو پاکستان کی وحدت پارا پارا کرنے کی سازش کی اجازت نہیں دی جاٸے گی ۔
ہر ایک کو چور چور کہنا یہ بیانیہ فیل ہوچکا ہے، ایسی حالات میں ملک کو ان شاء اللّٰہ بحرانوں سے نکالنے کے لیے ایک قومی وحدت ہے ایک قومی حکومت قاٸم ہے، اور یہ شاٸد اسی کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ ملک کو ایک جماعت اکیلے اِن بحرانوں سے شاٸد نہ نکال سکے، تمام جماعتيں سواٸے اِس ایک جماعت کے جو اِس تخریب کے ذمہ دار ہیں، تخریب کے ذمہ دار قوت کو تعمیر کی عمل میں شریک نہیں کیا جاسکتا ۔
تو یہ بیانیہ ہے جس پہ میں نے آپ کے سامنے گفتگو رکھی ہے، ان شاء اللّٰہ العزیز اِس پر ہم اگے بڑھیں گے، ملک میں جو نظام سامنے ایا ہے میں سمجھتا ہوں پہلی مرتبہ پاکستان کی تاریخ میں ہماری دفاعی قوت کو تقسیم کرنے کی کوشش کی گٸی، یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک سیاہ کرتوت ہے جو عمران خان کے ساڑھے تین سالہ حکومت میں ہمیں نظر ایا ہے، الحَمْدُ ِلله ملک کا دفاعی نظام بھی ایک وحدت کی طرف اگے بڑھ رہا ہے اور ہمیں اِس پر خوشی ہے، اختلاف راٸے کا حق ہر ایک کو حاصل ہے ہم عدلیہ کے فیصلوں سے بھی اختلاف کا حق رکھتے ہیں، ہم فوج کے ساتھ بھی اختلاف کا حق رکھتے ہیں لیکن اداروں کی استحکام وہ بھی ہمارا مقصد ہے اور جب ادارے اگے استحکام کی طرف بڑھیں گے تو ہم اُس کو سپورٹ کریں گے، جب اٸین کے دی ہوٸے داٸرہ کار تک خود کو محدود کرے گے ہم اُس کی حوصلہ افزاٸی کریں گے، اُس کو اگے لے جانے کی ہم کوشش کریں گے، ان شاء اللّٰہ اسی سے ملک مستحکم ہوگا، ملک مضبوط ہوگا، ادارے مضبوط ہوں گے، پارليمنٹ مضبوط ہوگی اور عوام کی جو قوت ہے اُس میں خود اعتمادی اٸے گی۔ ان شاء اللّٰہ العزیز
🍀سوال و جواب کا سلسلہ🍀
صحافی کا سوال: مولانا صاحب عمران خان نے جو اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان کیا ہے اِس کو روکنے کے لیے پی ڈی ایم نے کیا حکمت عملی اپناٸی ہے ؟
قاٸد جمعیت کا جواب: میرے خیال میں یہ بڑھکیں ہن نے بہت سنی ہے ہم اِس پہ تبصرہ نہیں کیا کرتے ۔
صحافی کا سوال: اچھا مولانا صاحب یہ بتاٸے اِس وقت جو معبشی صورتحال ہے وہ انتہائی تباہ کن ہے کیا اِس بات کا کوٸی امکان ہے کہ ملک میں معاشی ایمرجنسی نافذ کی جاٸے، اٸین کے ارٹیکل 6۔232 کا نفاذ ہو، ایسا کوٸی امکان موجود ہے ؟
قاٸد جمعیت کا جواب: نہیں ابھی ہم اِس کی ضرورت محسوس نہیں کررہے کیوں کہ جب ہمارا ملک بلیک لسٹ ہونے کے بلکل کنارے پہنچ چکا تھا اور قریب تھا کہ عالمی ادارے پاکستان کو بلیک لسٹ قرار دے، دیوالیہ قرار دے وہاں سے ہم نے اِن کو ریورس کیا ہے اور خدا کا فضل و کرم ہے کہ آج ہم واپس واٸٹ لسٹ پے اچکے ہیں، تو بین الاقوامی دنیا نے پاکستان کی معشیت کو بہتری کی طرف بڑھنے کے اشارات دیے ہیں ۔
صحافی کا سوال: مولانا صاحب یہ بتاٸیے کہ انتخابات 2023 ہی میں ہوں گے یا ؟
قاٸد جمعیت کا جواب: ان شاء اللّٰہ العزیز وقت پر ہی ہونگے، بلکہ یہ بھی سوچا جاسکتا ہے کہ اگر ضرورت پڑے تو انتخابات ذرا ایک سال آپ کے لیے مذید ملتوی کرسکتے ہیں ۔
صحافی کا سوال: مولانا صاحب یہ بتاٸے کہ عمران خان اعلان کرچکے ہیں کہ پنجاب اور کے پی کے اسمبلیاں کسی بھی وقت تحلیل کردی جاٸے گی، اِس طرح گلگت بلتستان اور اے جے کے وہاں جو اسمبلی ہے اگر یہ تحلیل ہو جاتی ہے تو پھر آپ کیا سمجھتے ہیں ایک نیا بحران جنم نہیں لے گا ؟
قاٸد جمعیت کا جواب: اِس اگر کا تعلق اُن سے ہے اور مجھے نہیں لگتا کہ جتنی بڑھکیں انہوں نے آج تک ماری ہے کبھی ایک اُن کی پوری ہوٸی ہے، انہوں نے قومی اسمبلی سے استعفے نہیں لیے تھے پھر واپس نہیں اگٸے تھے 2014 میں، آپ کو یاد نہیں ہے، ابھی استعفے دیے ہیں اُس کے کوٸی اثرات ہیں، نظام چل رہا ہے، اور پھر عجیب بات ہے استعفے بھی دیے ہیں اور مراعات اور تنخواہیں بھی لے رہے ہیں، لاجز اور بنگلے بھی نہیں چھوڑ رہے، تو اب یہ کیا ہے کیا یہ ہے انصاف، یہ ہے امانت، یہ ہے دیانت جس کا مظاہرہ وہ کررہے ہیں ۔
صحافی کا سوال: حضرت جب عمران خان کی حکومت تھی تو پی ڈی ایم مہنگائی کا کہتی تھی کہ مہنگائی بہت زیادہ ہے اور استعفوں کا مطالبہ کرتی تھی، آج عمران خان بھی تو وہی بات کررہا ہے تو پھر کیوں اُس کی بات نہیں سنی جاتی ؟
قاٸد جمعیت کا جواب: نہیں وہ ہماری نقالی کررہا ہے تو نقالوں سے ہوشیار رہے، ہم نے آزادی مارچ کیا یہ بھی وہی کررہا ہے، اب اوارگی کو آزادی کا نام دینا، منکر کو معروف کا نام دینا یہ کہا کا عقل ہے ۔
صحافی کا سوال: مولانا صاحب آپ نے 05 اگست 2019 کے بعد بڑے واضح الفاظ میں کہا کہ کشمیر کا سودا ہوگیا اور وہ سودا کرنے والے تو چلے گٸے آج آپ کی حکومت ہے آپ کی حکومت کشمیر کے لیے کیا کررہی ہے ؟
قاٸد جمعیت کا جواب: دیکھیے جو سودا جس کے ہاتھ سے ہو جاتا ہے سودا تو سودا ہے، اب اُس کو واپس لینے میں آپ کو بہت بڑی محنت کرنی پڑے گی کہ کس وقت آپ اُس کو دوبارہ اپنے پوزیشن پر واپس لاسکتے ہے، اور یقیناً اُن کے دور میں کشمیر کی تحریک آزادی کو بہت بڑا دھچکا لگا ہے، اِس وقت ہماری ترجیح ملک کی معشیت کو بہتر بنانے کی ہے بہت سی ایشوز ہیں جو تقاضہ کرتے ہیں کہ اُس کا حل سامنے اٸے، بہتی سامنے اٸے لیکن اِس وقت چونکہ طویل المدت حکومت نہیں ہے بلکہ جو باقی ماندہ مدت ہے اُس کی حکومت ہے اور اُس میں ہم اپنی ترجيح واضح کرچکے ہیں کہ معاشی خوشحالی اور معاشی بہتری کی طرف ہمیں اگے بڑھنا چاہیے ۔ بہت شکریہ جی
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر ٹیم جے یو اٸی سوات
#teamjuiswat
Good job
جواب دیںحذف کریںایک تبصرہ شائع کریں