قائد جمعیتہ حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا ڈیرہ اسماعیل خان میں منعقدہ ترقیاتی منصوبوں کی تقریب سے خطاب تحریری صورت میں
26 دسمبر 2022
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم اما بعد
میں سب سے پہلے جناب میاں محمد شہباز شریف صاحب وزیرعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ڈیرہ اسماعیل خان تشریف لانے پر دل کی گہراٸیوں سے خوش آمدید کہتا ہوں، اُن کے ساتھ وفاقی وزرا اور اُن کی پوری ٹیم جو یہاں تشریف لاٸی ہے میں سب کو خیر مقدم کہتا ہوں، اِس اجتماع میں وفاقی وزرا حضرات، اعلی سرکاری افسران، مختلف شعبوں سے وابستہ ماہرین اور اِس علاقے کے تمام معزیزین، بزرگ، دوست اور بھاٸی جو آج یہاں اِس پنڈال میں جمع ہیں سب کو خوش آمدید کہتا ہوں ۔
ڈیرہ اسماعیل خان کی سرزمین آج آپ کی تشریف اوری پر فخر کررہی ہے، آپ نے جس محبت جس خلوص کا اظہار اِس پسماندہ سرزمین اور پسماندہ لوگوں کے ساتھ کیا ہے ہم آپ کی اِس ہمدردی پر آپ کے تہہ دل سے شکر گزار ہیں ۔
مہمان مکرم یہ وہ خطہ ہے کہ جغرافيائی لحاظ سے اُس کا محل وقوع بہت ہی اہم ہے یہ بلوچستان کی گزرگاہ بھی ہے، یہ صوبہ سندھ کی گزرگاہ بھی ہے، یہ پنجاب کا پڑوس بھی ہے اور اِس وقت چین سے لیکر گوادر تک بین الاقوامی شاہراہ کا گزرگاہ بھی ہے لیکن ہمارا خواب یہ ہے کہ اپنے جغرافيائی اور محل وقوع کی اہمیت کے حوالے سے اُس کو ترقی کا وہی حق دیا جاٸے جو اِس کا بنتا ہے، کسی زمانے میں یہ ساری چیزیں ایک تخیل ہوا کرتی تھی، میں جب نوے کی دہائی میں یہاں کے کسی اجتماع سے بات کرتا تھا تو لوگوں کو ایک سراب سا لگتا تھا کہ کیوں کر یہ اور کس طرح یہ حقیقت بنے گا لیکن آج الحَمْدُ ِلله وہ پسماندہ علاقہ پوری دنیا کے لیے ایک تجارتی سنٹر کی حیثیت اختیار کررہا ہے اور اب یہ تجارتی اور اقتصادی لحاظ سے جناب وزیراعظم صرف گزرگاہ ہی نہیں ہوگا، ان شاء اللّٰہ اب اِس کی حیثیت اک منزل گاہ کی ہوگی ۔
جناب میاں محمد نواز شریف صاحب بحیثیت وزیراعظم پاکستان کے یہاں تشریف لاٸے اور ہماری درخواست پر اُنہوں نے بڑے بڑے منصوبوں کا اعلان کیا، کچھ پر کام شروع ہوا، کچھ پر کام شروع نہیں ہوسکا لیکن بعد میں جب حکومت بنی اُس حکومت نے رواں منصوبوں کو بھی معطل کردیا تھا، ترقی کا کام جیسے پورے ملک میں رکا یہاں بھی رک گیا تھا اور ملکی معشیت تباہی کی طرف چلی گٸی، ایک فلسفہ دیا کہ پاکستان میگا پراجیکٹس کا متحمل نہیں ہے، ہم تو صرف میڈیم لیول یا ماٸیکرو لیول کے تجارت کے متحمل ہے اور یہی ہماری ترجيح ہے، کہاں ہم سی پیک کی شاہراہ کا سوچ رہے تھے، کہاں ہم لیفٹ کینال کا سوچ رہے تھے، کہاں ہم گومل زام اور ٹانک زام کا سوچ رہے تھے، کہاں ہم چھوٹے سمال ڈیمز کی بات سوچ رہے تھے اور پورے ملک میں جگہ جگہ پر بڑے بڑے منصوبے شروع ہوٸے، ملک سے باہر رہنے والے پاکستانیوں کو اعتماد ملا، اُنہوں نے سرمایہ کاری کے لیے پیسہ واپس پاکستان بھیجنا شروع کردیا، اپنے ہی ملک میں سرمایہ کاری میں دلچسپی لینا شروع کی، بین الاقوامی برادری نے ہم پر اعتماد کیا، چین نے اربوں ڈالر کے بڑے بڑے منصوبے یہاں شروع کیے، بجلی کی پیداوار میں اضافہ کیا لیکن تمام کے تمام منصوبے جام ہوگٸے اور میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں اِس سے آپ اندازہ لگاٸے کہ گوادر کا سمندر غالباً ایشیا کا دوسرا گہرا ترین سمندر ہے اتنا گہرا سمندر کے کراچی سے بھی گہرا، ایران کے چابہار سے بھی گہرا، بندراباد سے بھی گہرا، دوبٸی سے بھی گہرا، جدہ سے بھی گہرا، اتنا زبردست ہمارا بحری بندرگاہ، جب یہ بیچ میں دوسری حکومت اٸی احسن اقبال صاحب اُس کے بہتر گواہ ہوں گے کہ اُس کی گہرائی صرف گیارہ فٹ رہ گٸی، آپ اندازہ لگاٸے کہ کہاں وہ کیفیت، کہاں ترقی کا وہ تصور، کہاں اِس بندرگاہ کی وہ اہمیت اور کہاں یہ کہ اٹھ اور گیارہ فٹ پر ہمارے پانی کی گہرائی رہ گٸی تھی، اب اُس کو دوبارہ گہرا کرنے کے لیے کام شروع ہے، کہاں سے کہاں ہمیں پہنچا دیا گیا اور اُس کے باوجود بھی دعویٰ ہے کہ ہم سے بہتر کوٸی نہیں ۔
میرے محترم دوستو! ایک بات میں واضح کردینا چاہتا ہوں ہمارا جو فاٹا کا علاقہ ہے جس کا انضمام آپ حضرات نے کیا تھا وہ انضمام بھی اب ہمیں اور قبائل کو گلے پڑگیا ہے اُس وقت ہم نے اُن سے ایک وعدہ کیا تھا اور ایک کمیٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر ہم نے سالانہ سو ارب روپے اور دس سال تک ہر سال سو سو ارب روپے دینے کا فیصلہ کیا تھا، لیکن آج پانچ چھ سال گزر گٸے لیکن میرا خیال نہیں کہ ابھی تک ہم سو ارب بھی پورے کرچکے ہو، لوگوں کے مکان گرگٸے، تباہ و برباد ہوگٸے لیکن آج تک ہم اُن کے مکانوں کی بحالی نہ کرسکے، جب سے اپنے گھروں سے ہجرت کرکے اپنے ہی ملک میں وہ مہاجر بنے، ابھی تک وہ اپنے گھروں کو واپس نہ جاسکے، اُن کے گھر اِس قابل ہی نہیں کہ جہاں وہ رہائش اختیار کرسکے، وہاں کا انفرا سٹرکچر تباہ ہوچکا ہے، خیال یہ تھا کہ وہاں سڑکیں بنیں گی، سکول کالجز یونیورسٹیز بنیں گی، ہاسپٹلز بنیں گے، اور سیٹل ایریا کے لوگوں کی معیار زندگی کے برابر اُن کو لایا جاٸے گا لیکن اِس وقت ایک ایسے خط پہ وہ کھڑے ہیں کہ جہاں اب وہ نہ سیٹل کے رہے اور نہ ہی وہ ٹراٸبل کے رہے ۔
اِس صورتحال میں وہاں کی عوام کی کسمپرسی، اُن کی بدحالی اور آج جو حالات سیکیورٹی کے حوالے سے وہاں دوبارہ بن گٸے ہیں میرے خیال میں ماضی کی نسبت صورتحال اور گھمبیر ہوگٸی ہے اور شاٸد ہمارے ترقی کے کام وہاں پر اب پتہ نہیں اِن حالات میں ممکن بھی ہوسکیں گے یا نہیں یہ بہت بڑا سوال ہے ۔
جناب وزیراعظم ایک بات میں آپ کے نوٹس میں لانا چاہتا ہوں مجھے حیرت ہوٸی دو دن پہلے میرے پاس جنڈولہ کے علاقے کا ایک وفد ایا اور اُنہوں نے کہا کہ ہم ٹانک زام کے متاثرین ہیں اتنی آبادی آپ لوگ زیر آب لارہے ہیں ہم سے بات ہی نہیں ہورہی، ہمارا کیا بنے گا، ہم کدھر جاٸیں گے، بڑی لمبی گفتگو کے بعد پتہ چلا کہ اُن کو ٹانک زام پر اعتراض نہیں لیکن اگر پرانے نقشے کی بنیاد پر ہو، اُس کا پورا نقشہ تبدیل کرکے آج کی جو نیا نقشہ متعارف کرایا گیا ہے اُس حوالے سے ایک بہت بڑی آبادی متاثر ہورہی ہے، چیٸرمین واپڈا سے بھی ہم گزارش کرتے ہیں کہ اِس کو ری ویزٹ کرے اور وہی نقشہ اُس طرف لے جاٸے کہ جہاں ڈیم بھی بن سکے کیوں کہ ہمارے ہاں ڈیمز ملٹی پرفز ہے، وہاں فلڈ کنٹرول بھی ہوگا، ایریگیشں بھی ہوگا اور پاور جنریشن بھی ہوگا، اِن تین مقاصد پر مشتمل یہ ڈیمز بنیں گے اور ہمارے جو اپنے علاقے کے وسائل ہیں چاہے وہ چشمہ راٸٹ بنک کینال ہے، چاہے وہ فرسٹ لیفٹ کینال ہے، چاہے وہ سیکنڈ لیفٹ کینال ہے، چاہے وہ سمال ڈیمز ہیں، نواب حیدر زام ہے، چوہدوان زام ہے، درابنڑ زام ہے، ٹانک زام ہے، گومل زام ہے اگر یہ تمام جو ہمارے اپنے خطے کے وسائل ہیں وہ ہمیں مہیا کردیے جاٸیں تو جناب وزیراعظم آپ کو علاقہ دامان کا بارہ لاکھ ایکڑ کی اراضی ہم بارانی سے آپ کو نہری بناکر آپ کو دیں گے، جہاں آج ہم غلہ باہر سے منگواتے ہیں اِس زمین کے آباد ہونے کے بعد آپ کو غلہ ایکسپورٹ کرنا پڑے گا ایمپورٹ کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی ۔
باقی رہی ملکی سیاست، یقیناً آج جو ہمارے دوست ہیں چاہے غیر مسلم دنیا ہو اور چین اُن سب میں بہت قریب ہو، چاہے مسلم دنیا ہو اور سعودی عرب اُس میں ہمارے سب سے قریب ہو آج اُن کا اعتماد بحال کرنے میں ہمیں دقت محسوس ہورہی ہے، پاکستان کو اِس وقت بیرونی امداد کی ضرورت ہے اور بیرونی امداد اِس وقت پاکستان کی بقا کا مسٸلہ ہے، لیکن ہم نے بین الاقوامی برادری کے اعتماد کو اِس حد تک تباہ و برباد کردیا کہ آج باہر کی دنیا تو کیا آپ کے ہاں سرمایہ کاری کرے گی اپنے ملک کا سرمایہ دار اپنے ملک کا کاروباری طبقہ وہ اپنے ملک میں سرمایہ کاری کرنے کی بجائے ملک سے باہر جانے کو ترجيح دے رہا ہے، اپنا پیسہ باہر منتقل کررہا ہے، ہم نے اِس اعتماد کو کیسے بحال کرنا ہے یہ بہت بڑا چیلنج ہے اور اِس کے باوجود ملک میں بے قراری پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن جناب وزیراعظم آپ مطمٸن رہے جو انریسٹ پیدا کرنا چاہتے تھے، بے قراری پیدا کرکے معشیت کی تباہی کا ایجنڈہ نامکمل دیکھ کر اسے مکمل کرنا چاہتے تھے وہ مایوس ہوچکے ہیں، وہ ناکام ہوچکے ہیں اور ان شاء اللہ ناکامی ہی اُن کا مستقبل ہے، پاکستان ہمارا ہے، اِس کا مستقبل ان شاء اللہ ہم سے وابستہ ہے اور اِس ملک کو ترقی کی طرف ہم اگے لے جاٸیں گے، ایسے عناصر کے سیاست کا خاتمہ کرنا جس کے پیچھے بین الاقوامی وہ لابیز ہو جو پاکستان کے ازلی دشمن ہیں، جناب وزیراعظم ایک تاریخی حقیقت آپ کے سامنے واضح کردینا چاہتا ہوں اسرا ٸیل ایک مملکت کے طور پر پاکستان بننے کے ایک سال بعد وجود میں ایا ہے اور اسرا ٸیل کے پہلے وزیراعظم نے جو اپنی خارجہ پالیسی کا پہلا سٹیٹمنٹ دیا تھا اُس میں انہوں نے بڑی صراحت کے ساتھ کہا تھا کہ اسرا ٸیل کا ہدف یہ ہوگا کہ ایک کرہ ارض کے خطے پر ایک نوزاٸیدہ ملک کا خاتمہ کرنا ہوگا، نوزاٸیدہ مسلمان ملک کا اشارہ واضح طور پر پاکستان کی طرف تھا اور کیوں اُس نے پاکستان کو اپنا دشمن کہا، اِس لیے کہ جب سن 1940 کی قرارداد پاس ہورہی تھی تو جناب وزیراعظم اُس قرارداد میں واضح طور پر فلسطینیوں کی بے دخلی پر احتجاج کیا گیا، فلسطینیوں کی حمایت کی گٸی اور وہاں پر یہود یوں کی اور صہیو نیوں کی نو آبادی کو چیلنج کیا گیا اُس کی مذمت کی گٸی تھی، پاکستان نے بھی جب اپنا تصور دیا تو اُن کے بارے میں بھی اپنا نظریہ پیش کیا اور جب وہاں ایک ملک معرض وجود میں ایا تو انہوں نے بھی ہمارے بارے میں بھی واضح نظریہ پیش کیا، اگر شیطان میرے دادا ادم کا دشمن ہے اور آج بھی وہ میرا دوست نہیں ہوسکا اور قیامت تک شیطان اِس لیے میرا دوست نہیں ہوا کہ وہ میرے دادا کا دشمن رہا ہے تو اسرا ٸیل بھی کبھی پاکستان کا خیرخواہ نہیں ہوسکتا اور نہ ہی پاکستان کی سرزمین سے اُن کے لیے خیرخواہی کی بات ہونی چاہیے، ہمیں خوداعتمادی کے ساتھ اپنی پالیسی بنانی ہوگی، ہمیں سود کا خاتمہ کرنا ہوگا، جس طرح کے اقدامات ہوٸے ہیں میں صرف شکریہ ہی نہیں مبارکباد بھی پیش کرتا ہوں کہ آج پہلی مرتبہ سود کے خلاف فیصلہ ہوا اور سٹیٹ بینک اف پاکستان اور نیشنل بینک اف پاکستان دونوں نے اپنی اپیلیں عدالت سے واپس لینے کا فیصلہ کیا تاکہ کورٹ کے فیصلے پر عملدرامد ہوسکے، اب ہمارے لیے وہ بینک جو پراٸیویٹ ہیں اور انہوں نے اپیلیں کی ہوٸی ہیں اُن کو بھی واپس لانے پر اُن کو آمادہ کیا جاٸے گا ۔
تو میرے محترم دوستو! خطے میں ایک باوقار ملک بننے کی صلاحيت ہم نے اپنے اندر پیدا کرنی ہے، اُس کے لیے گو کہ ہمارے پاس وقت کم ہے، مقابلہ سخت ہے، لیکن ہم نے جب چیلنج قبول کیا ہے تو پھر اللّٰہ کی مدد حاصل کریں گے اور ان شاء اللہ اپنے اہداف میں ہم کامیاب ہوں گے ۔
تو یہ چند گزارشات جو آپ کے سامنے اِس پاس نامے میں پیش کی گٸی اور ارادہ تو ہمارا یہ تھا کہ اِس پورے سٹیڈیم میں جلسہ عام ہوگا، جس طرح میاں نواز شریف صاحب کے وقت میں یہ پورا سٹیڈیم بھرا ہوا تھا، لیکن کچھ معروضی حالات کی پیش نظر ہمیں اُس کو محدود کرنا پڑا، آپ تشریف لاٸے، آپ نے بڑے بڑے میگا پراجیکٹس کے افتتاح کیے، اور ہمارے مطالبات بھی آپ نے اِس پاس نامے سنے اور مذید بھی ہم آپ سے یہ امید رکھیں گے کہ ہمدردانہ غور آپ ہمارے مطالبات پر کریں گے اور آپ نے ہمیں یہ بھی کہا تھا کہ میں بنوں مستقل طور پر جاوں گا تو اگر آج اِس اجتماع میں بنوں سے کوٸی ساتھی نہیں اٸے یا بہت کم اٸے ہیں تو اُس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آپ نے بنوں کے لیے ایک مستقل سفر کرنے کا عندیہ دیا تھا جس کے لیے ہم آپ کے شکرگزار ہیں لیکن ساتھ ساتھ یہاں پر ایک بات میں اپنے دوستوں کے ساتھ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہاں سے تجارتی شاہراہ گزر رہی ہے ، سی پیک کے معنی تجارتی شاہراہ، اور ظاہر ہے کہ اِس شاہراہ کے قریب قریب میں ہماری پیداواری صلاحيت میں بھی اضافہ ہونا چاہیے اور اِس کے لیے ضروری ہے کہ یہاں انڈسٹریل ایریاز ہونی چاہیے، انڈسٹریل پارک ہونے چاہیے اور کچھ زمین بنوں میں خریدی گٸی ہے کچھ ہمارے ڈیرہ اسماعیل خان میں خریدی گٸی ہے اور ہم یہ بھی چاہیں گے کہ یہ ایگریکلچر ایریا ہے یہاں ایگریکلچر انڈسٹری گے حوالے سے بھی ہمیں اقدامات کرنے چاہیے اور ایک طرف ہم سڑک کے ذریعے تجارت کو فروغ دینا چاہیں گے لیکن یہ خطہ اگر آپ کا سیول ایوی ایشن اِس کی اجازت دیتا ہے وہ خود ہی اندازہ لگالیں اِس پورے خطے میں کہاں پر مناسب وہ سمجھتے ہیں ہمیں ایک انٹرنيشنل کارگو ایٸرپورٹ دے تاکہ ہم فضائی تجارت کو بھی فروغ دے سکے، وسطی ایشیا، مشرقی وسطی اور افریقہ تک، اور ان شاء اللہ العزیز ایک بڑا تجارتی جنکشن علاقہ آپ کو مہیا کرتا ہے، پاکستان کی ترقی کے لیے خود کو پیش کرتا ہے تو اِس پسماندہ سرزمین کی وسیع و عریض خطے کو جو اُن کی خدمات آپ کے حوالے کی جارہی ہے امید ہے آپ تہہ دل سے اُن کی خدمات کو قبول کریں گے اور اُس کی ترقی کے لیے آپ معاون ثابت ہوں گے ۔
اللّٰہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو
وَأٰخِرُدَعْوَانَا دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر ٹیم جے یو اٸی سوات
#teamjuiswat
۔
ایک تبصرہ شائع کریں