پشاور: سینیٹر دلاور خان کی خاندان سمیت جمعیتہ علماء اسلام میں شمولیتی تقریب میں مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا میڈیا سے گفتگو 5 دسمبر 2022

پشاور: سینیٹر دلاور خان کی خاندان سمیت جمعیتہ علماء اسلام میں شمولیتی تقریب میں قائدِ جمعیتہ حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا میڈیا سے گفتگو
 5 دسمبر 2022

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
ہمارے لیے انتہائی خوشی کے لمحات ہیں جب پشتونخواہ خطے کے اور ضلع مردان کے انتہائی نامور شخصیات جناب اعظم خان صاحب اور جناب عدنان خان صاحب آج جمعیت علماء اسلام میں باقاعدہ شموليت کا اعلان کررہے ہیں اور ہمیں اِس بات کی بھی خوشی ہے کہ اِس مجلس میں ہمارے نہایت قابل احترام سینیٹر جناب دلاور خان صاحب بھی تشریف فرما ہے، جمعیت علما اسلام کی طرف اِن بااثر شخصیات کا رجوع، رغبت یہ ہمارے لیے حوصلہ افزاٸی کا باعث ہے اور یقیناً ہمارے قافلے کو اور ہمارے مستقبل کے سفر کو اِس سے بڑی تقویت ملے گی، میں دل کی گہراٸیوں سے انہیں خوش امدید کہتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کی اِس سفر کو قبول فرماٸے ۔
اِس موقعے پر آج یہاں پشاور میں میڈیا کے دوستوں کے ساتھ ملاقات اور اِس شموليت کو اپنے صحافی بھاٸیوں کی محفل میں اعلان کرتے وقت میں اپنے صحافی بھاٸیوں کا بھی شکر گزار ہوں کہ وہ تشریف لاٸے اور انہوں نے اِس بڑے اعلان کو قوم تک پہنچانے کی ذمہ داری پوری کی ۔
اِس میں کوٸی شک نہیں ہے کہ ملک اِس وقت بڑے بحرانوں کا مقابلہ کررہا ہے، ہماری معشیت کو گزشتہ چار سالوں میں جس طرح زمین بوس کیا گیا ہے اسے دوبارہ اٹھانا اپنے پاوں پہ کھڑا کرنا یقیناً ایک بہت بڑا چیلنج ہے، ایسے وقت میں امریکہ کی طرف سے ایسے بیانات جو ہماری نظر میں پاکستان کی خود مختاری کی نفی ہے اور پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت ہے ۔
مذہب ایک حقیقت ہے اور کرہ ارض پر کوٸی بھی انسان، یا قومیت یا ایسا علاقہ ہوگا جہاں اُس کا تعلق کسی مذہب سے نہ ہو لیکن صرف اسلام نشانے پر کیوں ؟ اسلام کے حوالےسے بیس سال افغا نستا ن پر جنگ مسلط کی گٸی، انہیں انسانیت کا دشمن کہا گیا، انہیں دہش ت گرد کہا گیا، انہیں وہ حقوق بھی نہیں دیے گیے جو عام انسان کا حق ہوتا ہے، قیدیوں کے حوالے سے جنیوا انسانی کنونشن کو نظرانداز کیا گیا اور بیس سال کے بعد بھی شکست خوردہ ہوکر گیا، آج پاکستان میں اُن کو قا د یا نی یاد اگٸے، اُن کے حقوق یاد ارہے ہیں، انہیں کشمیر کے اندر کشمیریوں پر بھا ر ت کی طرف سے ڈھاٸے جانے والے مظالم کیوں نظر نہیں ارہے، انہیں ہند و ستا ن میں مسلمان اقلیت کی حالت زار کیوں نظر نہیں ارہی، ہماری اپنی پارليمنٹ ہے، ہماری اپنی پارليمنٹ سپریم ہے، اسے قانون سازی کا حق حاصل ہے اور دنیا کے کسی بھی طاقت کو بھی پاکستان میں پارليمنٹ، پارليمنٹ کے اختیارات، پاکستان کی داخلی خودمختاری پر دباؤ ڈالنے کا کوٸی حق حاصل نہیں، اٸی ایم ایف امریکہ کی لونڈی ہے جو پاکستان پر دباؤ ڈال رہے ہیں، جہاں ہم دیوالیہ پن کے بلکل کنارے کھڑے تھے اور وہاں سے واپس اکر پاکستان نے منوا لیا ہے کہ وہ واٸٹ لسٹ پہ اگیا ہے، آج وہ نٸے قسطیں ادا کرنے کے لیے ہم پر مذید نٸے شرائط عاٸد کررہے ہیں، اِس کا کوٸی جواز نہیں ہے اور اِس طریقے سے ہم اُن کی اِس روش کی مذمت بھی کرتے ہیں اور یہ بھی بتادینا چاہتے ہیں کہ امریکہ اب سپر پاور نہیں رہا، امریکہ افغا نستا ن میں شکست کھا چکا ہے، بیس سالہ جنگ میں شکست کے بعد اب اُس کا سپر پاور کا ٹاٸٹل ختم ہوچکا ہے، اور جہاں پورے کرہ ارض میں وہ انسانی حقوق کا خون کررہا ہے، انسانیت کا خون کررہا ہے، جن کے ہاتھوں سے انسانی خون ٹپک رہا ہے اسے انسانی حقوق کے بات کرنے کا کوٸی حق نہیں پہنچتا ۔
ہم دنیا کے ساتھ تعلقات برابری کی بنیاد پر چاہتے ہیں، ہم ہمیشہ کہتے رہے ہیں کہ ہم پوری دنیا کے ساتھ دوستی چاہتے ہیں، ہمیں اگر انکار ہے تو اقا اور غلام کے نسبت سے انکار ہے، ہم نے اِس وقت اگے بڑھنا ہے اور پاکستان کے مفادات کو اگے رکھ خارجہ پالیسی بنانی ہے، ہم نے ملکی مفادات کو اپنے پچیس کروڑ عوام کے مفادات کو سامنے رکھ کر اپنی پالیسی بنانی ہے، ہر ملک کے ساتھ تجارت اور تجارتی معاہدات کرنے ہے، ملک کی بیٹھی ہوٸی معشیت کو دوبارہ اٹھانا ہے اور وہ فیصلے ہم نے خود کرنے ہے، اُن فیصلوں کے لیے ہم باہر کی اشارات اور اُن کے احکامات وہ تسلیم نہیں کرسکتے اور کسی بھی طور پر ہم اپنے معاشی خود مختاری پر سودا کرنے کو تیار نہیں ۔
اِس وقت ہمارا صوبہ پشتونخواہ دیوالیہ ہوچکا ہے، جب ایم ایم اے کی حکومت تھی تو حکومت چھوڑتے وقت صوبے پر اٹہتر ارب کا قرضہ تھا، اے این پی نے حکومت چھوڑی تو ایک سو سترہ ارب، اب پی ٹی اٸی کی حکومت ہے تو اِس وقت تقریباً ایک ہزار ارب ڈالر تک ہمارا قرض پہنچ چکا ہے، حکومتوں کو جب لمبا وقت ملتا ہے تو انہیں اصلاحات کرنے کا بھی وقت ملتا ہے، انہیں معاشی استحکام کا وقت بھی ملتا ہے لیکن انہوں نے ترقی ماکوز کی ہے اور آج سرکاری ملازمین کو تنخواہ دینے کے لیے پیسے نہیں ہے اور اب اپنی دس سالہ ناکامی کو چپھانے کے لیے افواہیں پھیلارہے ہیں کہ ہم اسمبلی تحلیل کردیں گے، ہم جانتے ہیں آپ کیوں تحلیل کررہے ہیں، دوسروں پر تنقید کرنا اسان ہے اپنی کارکردگی بتاو، عمران خان صاحب سیاستدانوں کو گالیاں مت دو، ڈرامہ بازیاں مت کرو ساڑھے تین سالہ کارکردگی بتاو، خیبر پشتونخواہ حکومت کی دس سالہ کارکردگی بتاو، تمہاری کارکردگی کیا ہے، اسی سیلاب میں اپنی کارکردگی بتاو جو ابھی تازہ گزری ہے، پراٸیویٹ رفاہی تنظيموں نے کام کیا ہے، لوگوں تک پہنچے ہیں ۔
تو یہ ساری صورتحال اِن حالات میں ہم مقابلہ کررہے ہیں اور ان شاء اللّٰہ پوری خود اعتمادی کے ساتھ مقابلہ کریں گے، اور میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ ان شاء اللّٰہ العزیز جمعیت علماء اسلام اب اِس صوبے کا مستقبل ہے، کارکنوں کو بھی ہدایت دیتا ہوں کہ وہ عوام کو مطمٸن کریں، عوام سے رابطہ میں اٸے، پبلک میں جاٸے اور ان شاء اللّٰہ العزیز ہم اِس بحران سے اللّٰہ کے فضل و کرم سے اور رحم سے ملک کو نکالیں گے ۔
تو یہ اِس موقع محل کے حوالے سے میری چند گزارشات تھی اور میں ایک بار پھر ہمارے جن اعلی شخصیات نے جمعیت علماء اسلام میں شموليت کا اعلان کیا ہے اُن کو ایک بار پھر خوش آمدید کہتا ہوں اور اِس فیصلے پر اُن کو مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔

🍀سوال و جواب کا سلسلہ🍀
صحافی کا سوال: مولانا صاحب یہ بتاٸے کہ مونس الہی صاحب کا ایک بیان ایا تھا اور اب اُس کے والد پرویز الہی کا بیان ایا ہے اُس کو کس تناظر میں دیکھتے ہیں ؟ دوسرے صحافی کا سوال مولانا صاحب اسی کے ساتھ یہ کہ عمران خان کہتے ہیں کہ باجوہ صاحب نے ڈبل گیم کھیلی ہے ہمارے ساتھ بھی ملتے رہے اور اپوزیشن کے ساتھ بھی ملتے رہے جس کے بعد پرویز الہی صاحب کا بیان ایا ۔
قاٸد جمعیت کا جواب: مجھے آپ اُن کی ساڑھے تین سالہ حکومت میں یہ بتادے کہ کون سا وہ فیصلہ ہے کہ جو اُس نے کیا اور بعد میں یہ نہیں کہا کہ مجھ سے غلطی ہوٸی ہے، کس کس غلطی کو آپ شمار کریں گے، تو یہ غلطیوں کا پلندہ ہے، بار بار اعتراف اور پھر کہتا ہے یہ میرا بڑا پن ہے کہ میں غلطی کا اعتراف کررہا ہوں، تیرے پاس عقل کدھر ہے کہ تو صحیح فیصلے کرے وہ ٹیم کدھر ہے جو صحیح فیلے کرے، ہر بات پر کہ مجھے اٸی ایس اٸی نے کہا تب میں نے فلاں کو چور کہا، مجھے اٸی ایس اٸی نے بتایا تو میں نے تب چور کہا، تو مجھے باجوہ نے کہا یوں کرو تو میں وہ کرتا تھا، تو میرا تو سارا اختیار ہی اُن کے ہاتھ میں تھا، میں تو سب فیصلے اُن کے کہنے پہ کرتا تھا، پھر آپ کس مرض کی دوا تھے، اِس لیے میں اول دن سے کہہ رہا ہوں اور قوم میری بات نوٹ کرے کہ یہ پاکستان کے سیاست کا ایک غیر ضروری عنصر تھا ہے اور اگر اٸندہ ہوگا تب بھی ملک کا یہی حشر کرے گا ۔
صحافی کا سوال: مولانا صاحب آپ نے ایک لفظ استعمال کیا افواہ کا، کہ یہ افواہ پھیلاٸی جارہی ہیں کہ یہ اسمبلیاں تحلیل کردیں گے، آپ کے اطلاعات کے مطابق اشارے اٸے ہیں پنجاب اور پشتونخواہ اسمبلی کے حوالے سے، باقی کی اسمبلیاں تحلیل کی جارہی ہے اور پی ٹی اٸی کے اراکین استعفے دے رہے ہیں ۔
قاٸد جمعیت کا جواب: میرے خیال میں
نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار اِن سے
یہ بازو میرے ازماٸے ہوٸے ہیں
مجھے اِن کے وہ استعفے بھی یاد ہے جو انہوں نے پارلیمنٹ سے دیے تھے، یہ ہمارے جانے پہچانے لوگ ہیں اِن کی کوٸی سیاست نہیں ہے بس عیاشیوں کے لیے اٸے تھے عیاشیاں کرکے چلے جاٸیں گے، اِن کی حکومت جاتے وقت یوں لگے گا جیسے ایک پکنک مناکے چلے گٸے اِس سے زیادہ کوٸی حیثیت اُن کی نہیں ہے ۔
صحافی کا سوال: مولانا صاحب یہ پرویز الہی ایک بات کررہا ہے اُن کا بیٹا دوسری بات کررہا ہے کہ باجوہ کا فون ایا ہم پی ٹی اٸی میں گٸے باپ کہہ رہا ہے کوٸی فون نہیں ایا ۔
قاٸد جمعیت کا جواب: میں معافی چاہتا ہوں میں اِن کے ساری باتوں کا حساب نہیں لگا سکتا کہ کون کیا کہہ رہا ہے کل کیا کہا تھا آج کیا کہہ رہا ہے، میں ایک عمران خان کا حساب نہیں لگاسکتا کہ صبح کو کیا کہتا ہے، دوپہر کو کیا کہتا ہے پھر شام کو کیا کہتا ہے ، اِن کی روزمرہ اور ہر لمحے کی گفتگو ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے تو میں کم از کم اتنی طاقت نہیں رکھتا، ہم تو سیدھے سادھے ایک زبان کہ لوگ ہیں پہلے دن سے جو کہہ رہے تھے آج بھی اسی پہ کھڑے ہیں اور ان شاء اللّٰہ دنیا سے منوایا بھی ہے اور منواٸیں گے بھی ۔
صحافی کا سوال: مولانا صاحب یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم اسی ماہ اسمبلیاں تحلیل کرنے جارہے ہیں تو حکومت یا پی ڈی ایم اِس کو روکنے کے لیے کوٸی اقدامات کررہی ہے ؟
قاٸد جمعیت کا جواب: انہوں نے تاریخ کون سی مقرر کی ہے، بات سنو جس ادمی سے ہم بات نہیں کرنا چاہتے ہمیشہ حکومت سمجھتی ہے کہ بڑی تحریک اٹھ رہی ہے، بڑا ایک دباؤ مجھ پہ ارہا ہے تو حکومت کی ضرورت ہوتی ہے کہ اُن سے کہیں اٸے بات کرے مذاکرات کرے، یہاں پر اپوزیشن ہم سے کہہ رہی ہے کہ ہم سے مذاکرات کرو ورنہ، ورنہ کیا پھر سولہ دسمبر کے بعد سوچیں گے، تو سولہ دسمبر آپ کے اپنے جنرل نیازی کا تاریک دن ہے اپنی تاریخ دہرانے کی طرف جارہے ہو، ہم سولہ دسمبر کی تاریخ جانتے ہیں کہ تاریخ کا ایک سیاہ ترین دور جو نیازی کی طرف منسوب ہے اور آج ایک نیا نیازی ہمیں پھر سولہ دسمبر یاد دلا رہا ہے ۔

صحافی کا سوال: مولانا صاحب عمران خان اسمبلیاں توڑتے ہیں یا نہیں، کس کی حکومت اتی ہے کس کی نہیں آج ایک غریب کا مسٸلہ یہ نہیں بلکہ مہنگاٸی ہے، پہلے عنران خان مہنگاٸی کے خلاف بول رہا تھا پھر اُس کے حکومت میں مہنگائی بڑھنے لگی، پھر اِس حکومت نے بھی مہنگائی کے خلاف نعرے لگاٸے لیکن اب اِس میں بھی مہنگائی رکنے کا نام نہیں لے رہی تو غریب بندہ کیا کرے ؟
قاٸد جمعیت کا جواب: میں آپ کے اِس بات سے اتفاق کرتا ہوں دیکھیے جہاں ہمارے ریزروو میں چوبیس ارب ڈالر پڑے تھے اور یہ ہم اُن کے حوالے کرگیے تھے اور انہوں نے جاتے وقت ڈھاٸی ارب ڈالر چھوڑے، ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر تباہ و برباد کردیے، اُس وقت ملک کی معشیت کی جو صورتحال تھی کہ باہر سے پیسہ ارہا تھا، ترسیلات زر میں اضافہ ہورہا تھا، باہر کا کاروباری طبقہ واپس پاکستان پیسہ لارہا تھا، واپس پاکستان میں انویسٹمنٹ میں دلچسپی رکھ رہا تھا، وہ دوبارہ ملک سے باہر چلا گیا، اب ظاہر ہے کہ یہ ایک بحران ہے اور اِس بحران کو ختم کرنے کے لیے آج ایک قومی حکومت قاٸم ہے، اور قومی حکومت کے قیام کے بغیر شاٸد ہم اِس بحران سے نہ نکل سکے، اِس لیے ہم نے ہر قدم پھونک پھونک کے رکھنا ہے، اور اِن مشکلات سے نکلنے کے لیے ہم نے حکمت عملیاں بنانی ہے ۔

صحافی کا سوال: مولانا صاحب ایک تو ہم نوجوان طبقہ، میں خود بھی عمران خان کا سپورٹر تھا ہم بھی اِس بار انتہائی مایوس ہوٸے، مجھے یہ بتاٸے کہ اِس وقت مہنگائی کی جو صورتحال بن گٸی ہے، لوگوں کا سیاست سے کیا کام، قیمتیں روز بروز بڑھ رہی ہے، پی ڈی ایم کیا اقدامات کررہی ہے چلو ہم یہ بھی مان لیتے ہیں کہ پچھلی حکومت کی ناکام پالیسیوں کی وجہ سے یہ خمیازہ بھگتنا پڑرہا ہے، آپ لوگ کیا اقدامات کررہے ہیں ؟
قاٸد جمعیت کا جواب: یقین جانیے ہمیں اِس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ ہم اِس قدر دلدل میں جاچکے ہیں کہ جب ہم ملک کو مشکل سے نکالیں گے تو اتنی بڑی مشکلات سامنے اٸے گی، اِس قسم کے سخت سوالات کا ہمیں سامنا کرنا پڑے گا، اور یہ اکیلے نہیں ہے یہ جو بین الاقوامی ادارے ہے پاکستان کو معاشی طور پر کمزور کرنے کے پالیسیوں پر گامزن ہے اور یہ انہی کی نمائندگی کرتا رہا ہے، پہلی مرتبہ بین الاقوامی اداروں کو چیلنج کیا جارہا ہے اور اُن کو کہا جارہا ہے کہ ہم آپ کے دباؤ میں نہیں اٸیں گے، ہم روس سے بھی بات کریں گے، چاٸینہ سے بھی بات کریں گے، ہم سعودی عرب سے بھی بات کریں گے، اور اِن دوستوں کا جو چاٸینہ کی صورت میں ہے یا سعودی عرب کی صورت میں ہے اِن ساڑھے تین سالوں میں ہم نے جو اُن کا اعتماد مجروح کیا ہے اُس کو دوبارہ بحال کرنے میں دقت محسوس ہورہی ہے،
 ان شاء اللّٰہ ہم کامیاب ہو جاٸیں گے ۔
صحافی کا سوال:
قاٸد جمعیت کا جواب: اسٹبلشمنٹ اپنے پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی طرف واپس جارہی ہے تو ہم خیر مقدم کریں گے، عمران خان میں وہ سکت نہیں کہ جس کے ساتھ مذاکرات کیے جاٸے، ہم کبھی بھی اُن کے ساتھ مذاکرات کی طرف نہیں جاٸیں گے اور یہ نہیں کہ وہ ہمیں کوٸی الٹی میٹم د رہا ہے، الٹی میٹم دے جو کچھ بھی کرے، اُن کا لانگ مارچ فر لانگ مارچ بن گیا، اُن کا ٹارگٹ اسلام اباد تھا تو پنڈی بن گیا، پنڈی میں گیٹ نمبر چار تھا تو اکے فیض اباد میں جمع ہوگٸے، تو اُس کے بعد ایک لمبے عرصے کے لیے بیٹھنا تھا تو ایک گھنٹہ بیٹھ کر چلے گٸے ، تو یہ اُن کے تنزلی کا دور ہے اور ان شاء اللّٰہ یہ خاتمے کی طرف جاٸیں گے ۔
بہت بہت شکریہ
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر ٹیم جے یو اٸی سوات
#teamjuiswat

0/Post a Comment/Comments