9 دسمبر 2022
خطبہ مسنونہ کے بعد
دانشور حضرات، میرے بھائیو، میری بہنو! میں دل کی گہرائیوں سے آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے آج اِس تقریب میں اور اپنے بار ایسوسی ایشن میں دعوت دی، اپنے لیے اعزاز سمجھتا ہوں، اپنے لیے سعادت سمجھتا ہوں، آپ سے کچھ دل کی باتیں کہنا چاہتا ہوں، آپ کے سینئر جانتے ہونگے کہ کچھ 15 سال سے زیادہ عرصہ ہوا، ایک لمبے تعطل کے بعد پہلی مرتبہ کوئٹہ بلوچستان میں خطاب کرنے آیا ہوں، جہاں میرے معزز ساتھیو نے اپنی گفتگو میں جہاں خوش آمدید کہا وہاں انہوں نے کچھ نکات کی طرف بھی اشارہ کیا، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کوئی ملک آئین اور قانون کے بغیر نہیں چل سکتا، میرے نزدیک پاکستان کا آئین ایک میثاق ملی کی حیثیت رکھتا ہے، اور اگر ملک کے ہر کونے میں رہنے والا ہر پاکستانی خود کو ایک قوم تصور کرتا ہے تو ایک قوم کے تصور کے ساتھ اُس کی ضمانت، اُس کا محور وہ آئین ہوا کرتا ہے، ہمارا یہ آئین آپ سے زیادہ کون تفصیل سے جانتا ہوگا، آپ کا پورا ماحول آئین و قانون کے مطالعے سے ہی چلتا ہے اور آپ ہی آئین و قانون کی روشنی میں پاکستان کی عدلیہ کی رہنمائی کرتے ہیں، آئین ہی کی روشنی میں آئین کا بنیادی ڈھانچہ چار عناصر پر مشتمل ہیں، بنیادی ڈھانچے کا اگر ایک بھی ستون گرتا ہے تو آئین گر جاتا ہے اور ایک نئے آئین ساز اسمبلی کی ضرورت پڑجاتی ہے، اِس ائین کے بنیادی ڈھانچے کا پہلا عنصر پہلا ستون وہ اسلام ہے، اِس کا دوسرا ستون جمہوریت ہے، اِس کا تیسرا ستون پارلیمانی طرز حکومت ہے اور اِس کا چوتھا ستون وفاقی نظام ہے جو اِس وقت تک چار وحدتوں پر مشتمل ہے، آئین خود اِن چار بنیادی عناصر کو آئین کا اثاثوی ڈھانچہ قرار دیتا ہے، ہمارے ہاں اگر کمی ہے تو عمل درآمد کی، جیسے ایک مسلمان کلمہ تو پڑھ لیتا ہے وہ مسلمان تو ضرور کہلاتا ہے لیکن اگر ایک اسلام پر وہ عمل نہ کرے، کلمے کے تقاضوں کو عملی زندگی میں پورا نہ کرے تو آپ مجھ سے زیادہ اِس کی تعبیر کو سمجھتے ہیں، ہمارا یہ ماننا ہے کہ ملک کی نظام میں عدم توازن تب آتا ہے جب ہم آئین کے تحت دیے ہوئے دائرہ کار سے باہر نکلتے ہیں، تجاوز کرتے ہے، ایک ادارہ طاقتور اور تمام اداروں کو کمزور کیا جاتا ہے، عدلیہ اپنی حدود میں نہیں رہتی، انتظامیہ اپنی حدود سے تجاوز کرتی ہے، مقننہ تو ظاہر ہے ویسے بھی یتیموں کی طرح ایک ادارہ بن گیا ہے، تو پھر ظاہر ہے کہ فکری اضطراب آئے گا اور وہ فکری اضطراب کسی فرد کا نہیں وہ پوری قوم کے اندر سرایت کر جاتا ہے، سوسائٹی ایک مضطرب سوسائٹی بن جاتی ہے اور کنفیوز سوسائٹی وہ پھر کسی حتمی فیصلے کی قوت سے محروم ہوجاتی ہے، تو بنیادی مسئلہ تو یہی ہے کہ ہم آئین کے تحت دیے ہوئے اُن اصولوں کو اور اُس دائرہ کار کو احترام دے اور اُس کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرے، پھر ہمارے ہاں جب ہم داخلی طور پر کمزور ہوتے ہیں تو دنیا بھی ہماری کمزوری کا ناجائز فائدہ اٹھاتی ہے، بظاہر تو ہم ایک آزاد قوم ہے ہر چودہ اگست کو ہم آزادی کا دن بھی مناتے ہیں اور پچھتر سال سے منارہے ہیں، لیکن سن 1945 کے جنگ عظیم دوم کے خاتمے کے بعد باقاعدہ طور پر تو نو آبادیاتی نظام کا خاتمہ ہوا، لیکن عالمی اداروں اور عالمی معاہدات کے تحت ہم جیسے ملکوں کو کنٹرول کیا جاتا رہا، تین حوالوں سے، سیاسی حوالے سے بھی، اقتصادی حوالے سے بھی اور دفاعی حوالے سے بھی، اقوام متحدہ اُس کی جنرل اسمبلی، اُس کا سلامتی کونسل، جینیوا کی انسانی حقوق کمیشن، یہ تمام وہ ادارے ہیں جو ترقی پذیر دنیا کو کنٹرول کرتے ہیں، وہ ملک جو رقبے کے لحاظ سے بھی بڑا ہو، آبادی کے لحاظ سے بھی بڑا ہو، اُس کو عالمی فہرست میں طاقت ور ملک سے تعبیر کیا جاتا ہے ایسے ملک کو کمزور کرنا، اور ایسے ملک پر اپنے اختیارات کے پنجے گاڑنا یہ اُن کی حکمت عملی ہوا کرتی ہے، سو پاکستان اُس زمرے میں آتا ہے، ہماری اپنی پارلیمنٹ، ہماری پارلیمنٹ سپریم ہے، وہ آئین بھی بناتی ہے، ترمیم بھی کرتی ہے، قانون بھی بناتی ہے، اُس میں ترمیم بھی کرتی ہے لیکن اگر عالمی ادارے میں ایک قانون آجائے جو میرے ملک کے آئین کے ساتھ متصادم ہو تو میرے اپنے ملک میں اور اپنی سرزمین پر میرا اپنا آئین، میرا اپنا قانون غیر مؤثر ہوجاتا ہے اور عالمی ادارے کا فیصلہ میرے ملک میں مؤثر کہلاتا ہے، یہ جو قانون سازیاں ہمارے ملک میں ہورہی ہے جس نے ہمارے خاندانی زندگی، ہمارے خاندانی اور معاشرتی زندگی کے شریعت کے حدود کو پامال کردیا ہے، جبکہ میرا آئین کہتا ہے کہ حاکمیت اعلیٰ اللّٰہ رب العالمین کی ہے، اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہے، قرآن و سنت کے منافی قانون نہیں بنایا جائے گا، اور ہر قانون قرآن و سنت کی تابع ہوگا، آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں کہ اُس کی کس قدر وائلیشن ہورہی ہے، ہم ملک کے اندر کے لابیز کے ساتھ بھی نظریاتی تصادم میں ہوتے ہیں اور بین الاقوامی دباؤ میں بھی رہ کر ہم قانون سازی کرتے ہیں، میں تو پارلیمنٹ کا حصہ رہا ہوں ایک طویل عرصے تک، میری پوری زندگی اِن مشاہدات سے بھری ہوئی ہے، میرے تمام کولیگ اِس صورتحال کو جانتے ہیں، آج اقوام متحدہ نے اپنی سیڈا پروگرام کے تحت جو قرارداد پاس کی ہے اِس وقت تک صرف سعودی عرب کی حکومت ہے جس نے اِس قرارداد کو مسترد کیا ہے اور اِس پر دستخط کرنے سے انکار کیا ہے اِس دلیل کی بنیاد پر کہ اُس کا ایک ایک شق میرے قرآن کریم سے متصادم ہے، مجھے یا اِس قرارداد کو تسلیم کرنا ہوگا اور یا اپنے قرآن کریم کا انکار کرنا ہوگا اِس کے بیچ میں کوئی تیسرا راستہ نہیں ہے، اب جہاں ترقی پذیر ممالک، غریب اور پسماندہ ممالک کی داخلی اختیار پر اِس طرح کے پنجے گاڑے جائیں گے اور ہم اُن کے خواہش کے خلاف فیصلے کرے تو پھر اُس کے بعد وہ اقتصادی پنجہ آگے آتا ہے کہ پھر مجھے اقتصادی طور پر غلام بنایا جاتا ہے ورلڈ بینک کے ذریعے، ایشین بینک کے ذریعے، آئی ایم ایف کے ذریعے، فیٹف کے ذریعے، کتنے ادارے ہیں کہ اگر آپ مغربی ترجیح کو چیلنج کرے، یا کسی عالمی قوت کے خواہش کو مسترد کرے تو آپ پر اقتصادی قدغنیں لگتی ہیں، صرف یہ نہیں کہ عالمی ادارے آپ کو امداد کی وہ قسط جو آپ کا حق ہوتا ہے وہ دینے سے انکار کرتے ہیں، انہوں نے اپنی حیثیت کو مفتاح کی حیثیت قرار دی، چابی کی حیثیت قرار دی، کلید کی حیثیت قرار دی ہے کہ اگر وہ اجازت نہ دے تو دنیا کا کوئی دوسرا ملک بھی آپ مدد نہیں کرسکتا۔ تو نو آبادیاتی نظام تو ختم، لیکن سیاسی اور اقتصادی حوالے سے ہمیں کنٹرول کیا جاتا ہے، ہمیں اپنی پالیسیوں کے تابع بنایا جاتا ہے، ہمیں اپنی خواہشات کا پیروکار بنایا جاتا ہے، اور جس کی پیشنگوئی جناب رسول اللّٰہ ﷺ نے خود فرمائی تھی فرمایا "کہ ایک زمانہ آئے گا کہ تم پچھلی اُمتوں کے ایسے پیروکار بنو گے جیسے کہ اگر وہ گوہ کی طرح غار میں گھسے تو تم وہاں بھی اُن کے پیچھے چلو گے، قدم بقدم، بالشت بالشت اُن کی پیروی کروگے، صحابہ کرام نے عرض کیا یارسول اللّٰہ آپ کی مراد یہو د و نصاریٰ ہے؟ آپ نے فرمایا اور کون ہوسکتے ہیں، آج ہم قدم قدم اُن کی پیروی پر مجبور رہے ہیں۔
تو سیاسی آزادی بھی ہماری سلف، اقتصادی آزادی بھی ہماری سلف، اُس کو بھی باہر سے کنٹرول کیا جارہا ہے، انسانی حق، یہ اُن کی مرضی ہے کہ انسانی حق کی تعریف کیا کرے، یہ اُن کی مرضی ہے کہ اُن کے نزدیک اُس کی ڈیفینیشن کیا ہوگی، انسانی حق کا کون انکار کرتا ہے، پورا قرآن کریم انسانی حق کے لیے دیا ہوا نظام ہے، جناب رسول اللّٰہﷺ کی تمام تر تعلیمات وہ انسانی حق کے لیے ہے، ہم اپنے ماحول میں لفظ امن استعمال کرتے ہیں، امن تین حروف کا چھوٹا سا لفظ ہے لیکن یہ تمام تر انسانی حقوق کا احاطہ کرتا ہے، جان کا حق، مال کا حق، عزت و آبرو کا حق، اور انسان کے تمام تر حقوق انہی تین چیزوں سے وابستہ ہیں، تمام قوانین انسان کے حق کی تحفظ اور اگر حق تلفی ہوتی ہے تو حق کی تلافی کیسی ہوگی، تمام قوانین اسی بنیاد پر بنتے ہیں، اسی کے گرد گھومتے رہتے ہیں، انسانی حق کے سب سے بڑے علمبردار ہم لیکن آج کی موجودہ سنیاریوں میں انسانی حق کے سب سے بڑے قاتل ہم، تو انسانی حق پر تو اتفاق، لیکن اُس کی تعریف اور تشریح پر اختلاف، لیکن یہ جو آپ ہم پر ایمپوز کرتے ہیں یہ کونسا جمہوری طریقہ ہے؟ جس جمہوریت کی راگ آپ الاپتے ہیں پوری دنیا میں، اور جس جمہوریت کے معیارات آپ مقرر کرتے ہیں، آپ کے اپنے معیارات کے تحت آپ ہم پر اپنی رائے کیسے ایمپوز کرسکتے ہیں؟ کس طرح مسلط کرسکتے ہیں اپنی رائے؟ دفاعی لحاظ سے دیکھے فوج ہماری، لیکن عالمی قوتوں کا دباؤ رہتا ہے کہ اِس ملک کی فوج وہ ہمارے لیے استعمال ہو، ایٹم بم میرا لیکن اُس کے استعمال کا اختیار اُن کے ہاتھ میں، کبھی این پی ٹی پہ دستخط کرو، کبھی سی ٹی بی پر دستخط کرو، بین الاقوامی معاہدات کے پابند بن جاؤ، اگر وہ ناگاساکی کے اوپر ایٹم بم مارتے ہیں تو وہ اُن کا حق، لیکن اگر پاکستان ایٹم بم بناتا ہے تو وہ جرم ہے، اگر اسرا ئیل کے پاس سینکڑوں ایٹم بم ہو اُس پر کوئی اعتراض نہیں، اگر انڈ یا کے پاس ایٹم بم ہو اُس پر کوئی اعتراض نہیں، لیکن پاکستان خطے کا ایک بڑا ترقی پذیر ملک اُس کے اوپر مسلسل دباؤ کہ آپ بین الاقوامی معاہدات کے پابند ہوجاٸیں، تاکہ اپنے ہی اثاثوں سے آپ کا اختیار چھین لیا جائے اور اُس پر ہمارا اختیار ہوجائے، یہ ہے عالمی سطح پر غریب، پسماندہ، ترقی پذیر ممالک کو اپنے زیرنگین اور اُس کو غلام رکھنے کے فلسفے ہیں۔
یہ ساری وہ چیزیں ہے کہ جسے ہم نےقومی سطح پر سوچنا ہے، لیکن قومی سطح پر ہم سے سوچ کی صلاحیت چھین لی گئی ہے، آپ کہتے ہیں کہ آپ بتائے کہ فوج مزید بھی غیر جانبدار رہی گی؟ آپ خود ہی اندازہ لگائے کہ غیر جانبدار نہ رہنے کا فیصلہ ہم نے فروری میں ہی کرلیا تھا، تو اُس سے پہلے جب آپ جانبدار تھے اور اُس سے پہلے جب آپ نے مارشل لاء لگایا اور اُس سے پہلے جب آپ نے مارشل لاء لگایا اور اُس سے پہلے جب آپ نے مارشل لاء لگایا آپ نے کس کو پوچھا تھا؟ یہ آپ کا اختیار ہے جب آپ چاہے آپ مارشل لاء لگائے، جب آپ چاہے آپ اپنی مرضی کی حکومت بنائے، جب آپ چاہے آپ دھاندلی کرائیں، جب آپ چاہے آپ نیوٹرل بن جائے، ہماری یہ رائے ہے کہ جس طرح میں پاکستان کا شناختی کارڈ ہولڈر ہوں اور اُس تعارف سے میں ایک پاکستانی ہوں، ایک بہت بڑا بیوروکریٹ ہو، چاہے بڑا جرنیل ہو وہ بھی اُسی شناختی کارڈ پر پاکستانی شہری ہے، شہری ہونے میں ہم برابر برابر ہیں، عارضی طور پہ یہ ایسے باتیں کرنا دلوں کو اطمینان دلانی والی بات تو ہے لیکن مستقبل روش کی ضرورت ہے، ملک کمزور ہوا ہے، ستر سال پہلے ہم طاقتور تھے ستر سال کے بعد اب ہم کمزور ہیں، کشمیر پر جو ہم نے رویہ دکھایا، کسی زمانے میں واجپائی جی بس میں پاکستان آکر اترتا ہے، پاکستان کی معیشت مضبوط تھی، وہ پاکستان سے تجارت کرنا چاہتا تھا، اُس کے لیے ایک بہتر ماحول پیدا کرنا چاہتا تھا، وہ مینار پاکستان لاہور میں کھڑا ہوا اور پاکستان کو ایک حقیقت تسلیم کیا، وہ کشمیر پہ بات کرنا چاہتا تھا، سرکاری سطح پر اور ریاستی سطح پر تو باتیں ہوتی ہی ہیں، مجھے ذاتی طور پر دہلی میں انہوں نے کہا تھا کہ میرے پاس ایک سال ہے اپنے حکومت سے کہہ دو کہ میرے ایک سال کا فائدہ اٹھالیں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے میں تیار ہوں، اُس وقت اُن کا رویہ یہ کیوں تھا اور آج اُن کا یہ رویہ کیوں ہے کہ وہ میرا ٹیلیفون اٹھانے کے لیے بھی تیار نہیں ہے، کشمیر پر قبضہ کرلیا، ہندو ستان کے اٸین کے ارٹیکل 370 کے تحت اُس کا سپیشل سٹیٹس ختم کردیا گیا اور ہم جنگ لڑنے کی صلاحيت شاٸد نہیں رکھتے، ہمارے پاس کیا کمزوریاں ہیں، ملک کو ہم اتنا نیچا کیوں لے گٸے کہ ہم معاشی لحاظ سے اتنے کمزور کہ ہم اپنی سرزمین کی دفاع کے لیے پریشان ہیں، ہم اُس کے اخراجات کے متحمل نہیں ہیں، اب اِس کا الزام ہم فوج کو دے فوج تو ہمارا ادارہ ہے، فوج بھی تو اُس ملک کا ادارہ ہے جس ملک کا میں شہری ہوں، اگر مجھے ملک میں سیاسی استحکام چاہیے، اگر مجھے اِس ملک کے اندر معاشی استحکام چاہیے تو مجھے اِس ملک کے اندر دفاعی استحکام بھی چاہیے یہ بھی میری ضرورت ہے، میں کبھی بھی فوج کو اِس معاملے میں اپنا فریق تصور نہیں کرتا اور نہ ہی ایسے حالات پیدا ہونے چاہیے جہاں کوٸی سیاستدان فوج کو اپنے مدمقابل تصور کرے، ادارہ ہے اِس کی اپنی ذمہ داری ہے، اُن کا اپنا داٸرہ کار ہے اور اُس حوالے سے اگر وہ صرف اپنے پیشہ ورانہ ذمہ داریوں تک محدود رہتے ہیں ہم اُن کو سلیوٹ کریں گے لیکن یہ سب کچھ مستقل پالیسی کے تحت ہو، ہمارے رویے میں تبدیلی انی چاہیے ، ہمارے اداروں کی رویوں میں تبدیلی انی چاہیے اور ایسی تبدیلی کے جس کو اٸین کا عکاس کہا جاسکے ۔
تو اِس اعتبار سے بہرحال یہ تین چیزیں وہ ہیں جو بین الاقوامی دنیا میں آج ہمیں اُس کے ذریعے کنٹرول کیا جارہا ہے، اگر ہم چین کو اپنا دوست سمجھتے ہیں، گہرا دوست سمجھتے ہیں اور ستر سال تک ہم نے چین کی دوستی کو ہمالیہ سے بلند کہا، بحرالکاہل سے گہرا کہا، شہد سے میٹھا کہا، لوہے سے مضبوط کہا، ستر سال بعد جب وہ دوستی ایک معاشی دوستی میں تبدیل ہوٸی اور اُس نے پاکستان کے اندر سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا اور اُس کے تمام مراحل مجھے معلوم ہے کہ جب 1995 میں خارجہ امور کمیٹی کے چیٸرمین کی حیثیت سے میری کمیٹی کو دعوت دی گٸی اور ہم پوری کمیٹی وہاں گیے اور انہوں نے ہمیں سویت یونین کی کمیونسٹ سسٹم کے شکست کے بعد ایک نٸے وژن کے ساتھ ایک نیا اقتصادی نظام ہمارے سامنے پیش کیا اور دنیا کو تجارت کے ذریعے انگیج کرنے کا فلسفہ ہمیں بتایا تو ہم نے اُن کو تجویز دی تھی کہ پاکستان آپ کا معتمد دوست ہے اور شاہراہ ریشم کو ہم دوبارہ تجارت کے لیے فعال کرسکتے ہیں، اِس بات کو انہوں نے تسلیم کرلیا تھا، لیکن ہم نے دو ہزار چودہ میں اُس کے سربراہ کا پاکستان دورے کا راستہ روکا، دنیا کہتی ہے کہ جب امریکہ یا مغربی دنیا ہم سے ناراض ہو جاٸے تو ہم یہ کہتے ہیں پاکستان تنہا ہوگیا لیکن میرے نزدیک پاکستان اُس وقت تنہا ہوتا ہے جب وہ ریجن میں تنہا ہوتا ہے، افغا نستان کے جہا د سے ہم 1979 سے وابستہ ہیں لیکن اُس کے باوجود ہم اسے قابل اعتماد دوست نہ بناسکے، انڈ یا جو چاٸنہ کو کاونٹر کررہا ہے وہ ہمارا مستقل دشمن، ایران کے ساتھ ہمارے تعلقات میں پڑوسی ہونے کے باوجود گرم جوشی نہیں ہے، اِس ساری صورتحال میں ہمیں اپنے خارجہ پالیسی پر نظر ڈالنی ہوگی، اور خارجہ پالیسی جانب چیز نہیں ہے وہ ہمیشہ اپنے مفاد کے گرد گھومتی ہے، ہم پہلے اپنے مفادات کا تعین کرے کہ ہمارے مفادات کیا ہیں اور پھر اُس کے بعد ہم اگلے اقدامات کی طرف جاٸیں گے ۔
ہمارے اپنے ملک کے اندر سن 1973 کے اٸین کے تحت صوبوں کو محدود پیمانے پر اختیارات دیے گٸے اور اٹھارویں ترمیم میں بہت زیادہ اختیارات صوبوں کو دیے گٸے لیکن اِس وقت بھی اُس پر عمل درامد میں کمی ہے اُس کی ایمپلمنٹیشن اُس طرح نہیں ہورہی، جمعیت علماء اسلام اپنے منشور کے حوالے سے ، نظریاتی حوالے سے واضح ہے کہ ہر صوبہ اپنے وسائل کا خود مالک ہو، ہر صوبے کے عوام اور اُس کے بچے اپنے وسائل کے خود مالک ہو، اور اُس پر کوٸی دوسرا طاقت کوٸی دوسرا صوبہ اُس پر قبضہ نہ کرسکے ۔
بلوچستان اِس وقت معدنی وسائل سے مالامال ہیں اِس میں کوٸی شک نہیں ہے ، صوبہ خیبر پشونخواہ اُس کے پہاڑ معدنی ذخائر سے مالامال ہیں لیکن اپنے ہی وسائل پر ہماری قدرت نہیں ہے، اپنے ہی سرزمین پر ہم اپنے ہی وسائل سے محروم ہیں، تو پھر ظاہر ہے ایک طرف آپ ریاستی طور پر معاشی لحاظ سے کمزور ہیں اور دوسری طرف آپ کے صوبوں کے اندر عوام کے صفوں میں محرومیت کے نعرے اٹھے گی یہ چیزیں ریاست کے خاتمے کا سبب بنتی ہیں، اگر ہم نے اِس ریاست کو بچانا ہے اِس کو طاقتور رکھنا ہے ، اِس کو ابدل اباد زندہ رکھنا ہے تو پھر ہمیں حقوق تسلیم کرنے ہوں گے، صوبوں کا حق تسلیم کرنا ہوگا، بلوچستان کا حق تسليم کرنا ہوگا، چھوٹے صوبوں کا حق تسليم کرنا ہوگا اور اُس پر کسی قسم کی کسی بھی ادارے کی بالادستی قابل قبول نہیں ہوگی، اور اِس میں آج سب سے بڑی رکاوٹ ہمارا داخلی امن و امان کا مسٸلہ ہے، داخلی امن و امان میں سب سے بڑا محرک معاشی بدحالی ہوا کرتی ہے ، ہم معاشی خوشحالی کی طرف جاٸے لوگوں کی محرومیت دور کرے، انہیں روزگار دیں اور ریاست کو اپنے پاوں پر کھڑا کریں لیکن میرے انتہائی فاضل دانشور ساتھیو میں جس ماحول سے آپ کے پاس ایا ہوں وہاں کے ہمارے مشاہدات یہ ہیں کہ پاکستان کی معشیت زمین بوس بھی ہوچکی ہے ، دلدل میں چلی گٸی ہے اور دلدل میں پھنسا ہوا ادمی جب نکلنے کی کوشش کرتا ہے تو اور دھنستا چلا جاتا ہے کچھ ایسی ہی صورتحال سے ہم سب دوچار ہیں، ایک قومی جذبے کے ساتھ ہمیں اِن حالات سے نکلنا ہے ، ہمیں پاکستان کو اپنے پاوں پر کھڑا کرنا ہے، ہمیں پاکستان کو طاقتور بنانا ہے اور اُس حوالے سے ایک جامع پالیسیاں ، گہری اعتماد اور وفاداری کے ساتھ ہمیں تشکیل دینی ہوگی۔
اللّٰہ پاک پاکستان کی حفاظت فرماٸے، اُس کو طاقتور بناٸیں اور پاکستان کے عوام کو خوشحالی نصیب فرماٸے ، اِسے اسلام اور امن کا گہوارہ بناٸے ۔
وٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب #ریاض_خانجی
ممبرز ٹیم جے یو اٸی سوات
#teamjuiswat
ایک تبصرہ شائع کریں