قائد جمعیتہ حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا پشاور میں وکلاء کنونشن سے خطاب تحریری صورت میں
16 جنوری 2023
خطبہ مسنونہ کے بعد
سٹیج پر موجود انتہائی قابل احترام قاٸدین، دانشورانِ قوم، میرے بھاٸیوں اور بہنوں ! میرے لیے انتہائی خوشی کی بات ہے کہ خیبر پختونخواہ میں جمعیت لاٸر فورم کے تحت پہلے اجتماع سے خطاب کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہوں، یقیناً بار کی سطح پہ، وکلاء برادری کی سطح پر یہ بہت بڑی پیش رفت ہے کہ ہم پورے صوبے کے مختلف بار روموں کے ذمہ دار دوست اور ساتھی آج یہاں ایک پرچم تلے جمع ہیں، ایک نظم کے تحت یہاں جمع ہیں، اللّٰہ تعالیٰ اسے قبول فرماٸے اور اسے مذید ترقیوں سے نوازیں ۔
اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کو مدنیوں طبع پیدا کیا ہے، اسے تخلیقی طور پر مل جل کر رہنے کا مزاج عطا کردیا ہے، دوسرے حیوانات کی طرح اِن کی انفردی زندگی تبھی محفوظ ہیں اگر اُن کے پاس اجتماعی زندگی ہو، انسان بستیوں اور شہروں میں آباد رہتا ہے، ایک دوسرے سے وابستہ ہوکر آباد رہتا ہے، خاندان ہیں، رشتے ہیں، پڑوس ہیں اور پھر ایک پرامن اور باہمی احترام پر مبنی تمدنی زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے اُن کے ایک دوسرے پر حقوق ہیں، آپ پوری دنیا میں جاٸے، تمام مذاہب، تمام معاشرے، تمام ممالک، تمام پارلیمنٹس جہاں بھی آپ جاٸیں گے وہاں پر انسان کے حقوق کے تحفظ کے لیے قانون موجود ہوگا، اور اِس قانون کا تعین انسان کا انسانی ماحول کرتا ہے، لیکن مسلمان امت اِس نعمت سے مالامال ہے، جس طرح اللّٰہ تعالیٰ نے خلقتاً انسان کو مدنیوں طبع پیدا کیا تو اللّٰہ تعالیٰ نے اُس کے تخلیقی مزاج کے مطابق اُس کے پاس اپنی طرف سے نظام بھی بھیج دیا اور ظاہر ہے کہ مل جل کر رہنا، اطمینان اور سکون کے ساتھ رہنا، خوشحال رہنا اُس کے لیے پرامن زندگی کی ضرورت ہے اور پرامن زندگی نام ہے انسانی حقوق کے تحفظ کا، اور انسانی حق تین چیزوں کے گرد گھومتا ہے انسان کی جان، انسان کا مال، انسان کی عزت و آبرو، اور یہی تین چیزیں پوری دنیا کے ہر معاشرے میں قانون کا محور ہوتے ہیں حق کا تحفظ اور حق کی تلافی، پہلے یہ حق کا تحفظ کرتا ہے اگر انسان بے راہ روی اختیار کرے، حدود سے تجاوز کرے، دوسرے انسان کا حق مارے تو پھر اِس میں حق کی تلافی کا نظام موجود ہوتا ہے ۔
آپ حضرات کا اِس شعبے سے تعلق ہے چنانچہ اللّٰہ رب العزت نے حضرت ادم علیہ السلام سے لے کر اور پھر حضرت نوح علیہ السلام سے لے کر جناب رسول اللّٰہ ﷺ تک تمام انبیاء کرام بھیجے، کتابیں بھیجی، صحیفے بھیجے اور جناب رسول اللّٰہ ﷺ پر آپ نے اعلان کردیا ” الیوم اکملت لکم دینکم “ آج میں نے تمہارا نظام حیات مکمل کردیا ہے، اب جب نظام مکمل ہوگیا ہے تو نظام کی جو تکمیل ہے وہ بہ اعتبار تعلیمات و احکامات کے ہے قیامت تک زندگی گزارنے کے لیے اللّٰہ نے آپ کو جو تعلیم مہیا کرنی تھی اور زندگی گزارنے کے لیے جو احکامات اور قوانين مہیا کرنے تھے وہ آپ کو مہیا کردی ہے، سب سے زیادہ بہتر طور پر سمجھنے والے لوگ آپ ہیں کہ جہاں قانون ہوگا وہاں قانون کی حکمرانی لازم ہوگی، یہ نہیں ہوسکتا کہ قانون ہو اور اُس کی حکمرانی نہیں ہے ورنہ قانون ضائع ہو جاٸے گا، اِس لیے یہ تمام مفسرین اور ہمارے آکابر علماء کرام فرماتے ہیں کہ ” واتممت علیکم نعمتی “ اور تم پر اپنی نعمت تمام کردی، نعمت کا تمام ہونا یہ اُس کے اقتدار کی تعبیر ہے، تو دین بھی مکمل ہے اور اُس کا تقاضا ہے کہ وہ حاکم بھی ہو، اگر حاکم نہیں ہے تو پھر تو قرآن کریم صرف گھروں میں تلاوت کے لیے رہ جاٸے گا، پھر تو یہ احتراماً بوسہ لینے کے لیے رہ جاٸے گا، کیا دنیا میں کہیں یہ تصور ہے کہ قانون ہو اور اُس کی حاکمیت نہ ہو، اور قانون کا محور اللّٰہ کی وحی ہے، جناب رسول اللّٰہ ﷺ کی تمام تعلیمات اِس پر مبنی ہے، لیکن جب آپ کے پاس حاکمیت اگٸی تو حاکمیت دو جہتوں پر متوجہ ہوتی ہے ایک اپنی ریاست کے اندر رہنے والے عوام، شہری، اُن کے انسانی حقوق کا تحفظ، اجتماعی اور مملکتی زندگی میں دو چیزوں کی اہمیت ہے ایک امن اور ایک معشیت، حضرت ابراہیم علیہ السلام جن کا مشن تھا کہ بندے اور رب کے درمیان رشتہ پیدا کرے، اپنے رب کی پہچان کراٸے، توحید کا عَلم بلند کیا، بتوں کے خلاف لڑے یہاں تک کے آگ میں پھینک دیے گیے، جب اِن امتحانات سے گزرے اور اِس میں پورا اترے تو اُس کے اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا آج میں نے تمہیں پورے انسانیت کا امام بنادیا ہے جس کو امامت کبریٰ کہتے ہیں، اب جس وقت آپ کو امامت کبریٰ عطا کی گٸی اب ایک نیا منصب اگیا، اب آپ صرف ایک پیغام رساں نہیں تھے آپ کو حاکم بھی بنادیا ہے، تو اُس کے بعد ابراہیم علیہ السلام نے اپنے قوم کے لیے دو چیزیں مانگی ایک امن مانگا اور ایک خوشحال معشیت مانگی، پھل فروٹ مانگے، لیکن آپ نے مٶمن کے لیے مانگے، تو اللّٰہ پاک نے فرمایا نہیں اگر دنیوی زندگی میں کسی نے میرا انکار بھی کردیا تب بھی میں اُس کو دنیوی زندگی میں دوں گا، تو دنیوی معشیت میں اور دنیوی امن میں اور دنیوی انسانی حقوق میں مسلم اور غیر مسلم ریاست میں برابر ہوتے ہیں، باقی پھر اللّٰہ کے سامنے حاضری ہوگی وہاں پھر فیصلے اللّٰہ کرے گا ۔
اب اِس اعتبار سے جب ایک جہت میں آپ نے اپنے عوام کے حقوق کو سمجھ لیا، امن اور معشیت ٹھیک کرلی دوسری طرف آپ نے اُس ریاست کی حفاظت کے لیے حصار بھی باندھنا ہے تاکہ بیرونی حملوں سے محفوظ رہے تو اُس کے لیے دفاعی قوت کی ضرورت ہوتی ہے، سو آپ کی سیاسی قوت، آپ کی معاشی قوت، آپ کی دفاعی قوت، دشمن کے مقابلے میں جتنی تمہارے پاس استعداد و صلاحيت ہے اپنے قوت کو بڑھاو اور تیار کرو، اب یہ ایک دفاعی قوت آپ تیار کریں گے، لیکن دفاعی قوت میں اللّٰہ پاک نے بڑے احتیاط کے ساتھ الفاظ استعمال کیے ہیں تاکہ تمہارے دشمن پر تمہاری دھاک بیٹھی رہے، یہ نہیں فرمایا کہ پھر آپ نے اسلحہ بناکر لڑنا بھی ہے، لڑنے کا اپنا ماحول ہوتا ہے لیکن بغیر لڑائی کے بھی آپ اپنے دشمن پر دبدبہ ڈالنے کے لیے خود کو طاقتور بناٸیں، آپ کرسکتے ہیں تو ایٹم بم بناٸے، آپ کرسکتے ہیں تو آپ ٹینک، توپ ہر قسم کے میزاٸل بناٸے اور یہ قوت ریاست کے پاس ہوتی ہے میرے اور آپ کے پاس تو چاقو رکھنے کی بھی اجازت نہیں ہے، چھوٹا سا پستول رکھنے کی بھی اجازت نہیں ہے، میری اور آپ کی قوت تو یہ ہے کہ ہم علمی لحاظ سے طاقتور ہو جاٸے، تصنیفی لحاظ سے طاقتور ہو جاٸے، سیاسی لحاظ سے طاقتور ہو جاٸے، دعوتی اعتبار سے طاقتور ہو جاٸے، زندگی کے مختلف شعبوں میں مہارت حاصل کریں، فنون کی مہارت حاصل کرے، یہ آپ کے اور ہمارے پبلک کے بس میں ہیں اِس سے زیادہ تو ہمارے ہاتھ میں نہیں وہ تو ریاست کے ہاتھ میں ہے ۔
تو یہ وہ چیز ہے کہ جو ہمیں اپنے حدود بتلاتا ہے کہ ہم نے نظام کو کیسے چلانا ہے، اِس اعتبار سے اب ہم ذرا آپس میں دیکھ لے کہ ہماری قومی تربیت کیسی ہوٸی ہے، ہماری تربیت اِس طرح ہوٸی ہے کہ مذہب کا مملکتی نظام سے کوٸی تعلق نہیں ہے اگر مذہب کا مملکتی نظام سے تعلق نہیں، قرآن و حدیث اور دین کا مملکت کے نظام سے تعلق نہیں تو پھر پہلے اُس کے قانون کا انکار کرنا پڑے گا اور اگر وہ قانون ہے جیسا کہ اللّٰہ رب العزت فرماتے ہیں کہ کسی مٶمن مرد اور کسی مٶمن عورت کو کہ جب رسول اللّٰہ ﷺ ایک فیصلہ سنادے، ایک جھگڑے میں فیصلہ سنادے پھر اُس میں آپ کو تبدیلی کا اختیار نہیں ہوگا یہ ہے قانون کا پاور کہ قانون کے سامنے پھر حکمران بھی بے بس ہو جاتا ہے، کیا ہمارے ہاں ہمارے ماحول میں قانون کی حیثیت موم کے ناک سے زیادہ ہے جدھر چاہے اُس کا چہرہ موڑ دے، جیسا آپ کھلواڑ کرنا چاہے کردے، ہم اصولوں کا انکار کررہے ہیں، ہمارے معاشرے میں تجربات کی بنیاد پر ہم لوگ باتیں کررہے ہیں بڑے سے بڑا سیاستدان ، پولیٹیشن میرا خیال نہیں ہے کہ اگر میں اُن سے پوچھو کہ بھاٸی جان سیاست کون سی زبان کا لفظ ہے اور وہ مجھے صحیح جواب دے سکے لیکن اِس کے باوجود وہ سیاستدان ہے، کیا سیاست صرف اقتدار تک پہنچنے کے لیے چالاکیوں اور ہوشیاریوں کا نام ہے ، سیاست تو نام ہے اجتماع اور معاشرتی زندگی میں تدبیر و انتظام کا، جناب رسول اللّٰہﷺ نے فرمایا کہ ” بنی اسرا ٸیل کی سیاست یعنی اُن کی اجتماعی زندگی کی تدبیر و انتظام ایک پیغمبر کے ہاتھ میں ہوتی تھی، ایک پیغمبر جاتا تھا دوسرا اُس نظام کو سنبھالتا تھا اور اب میں اخری پیغمبر ہوں میرے بعد کوٸی پیغمبر نہیں ہے ہاں میرے بعد خلفاء آٸیں گے بڑی تعداد میں آٸیں گے، نبی اب نہیں اٸے گا “ ، خلفاء کا کام بھی سیاسی نظام ہے، مملکت کی تدبیر و انتظام کا نام ہے، آج ہم نے سیاست کو معاشرے سے ہی کاٹ دیا، لاتعلق کردیا، پھر بڑی دلیل یہ ہے کہ ہاں ہم تو اسلام کو مانتے ہیں، قرآن کو مانتے ہیں لیکن مذہب تقسیم ہے کس کے دین کو ہم مانے شیعہ کو مانے، سنّی کو مانے، بریلوی کو مانے، دیوبندی کو مانے، سلفی کو مانے کس کو مانے، یہ باتیں پیش کردی جاتی ہے حالاں کہ سب جانتے ہیں اور مجھ سے بہتر آپ جانتے ہیں کہ جب آٸین پاکستان میں کہا گیا کہ اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہوگا، اُس کے بعد کہا گیا کہ قرآن و سنت کے مطابق تمام قوانین بنیں گے اُس کے بعد کہا گیا کہ قرآن و سنت کے منافی کوٸی قانون نہیں بنے گا، یعنی ہمارا آٸین اسلام کی تعبیر قرآن و سنت سے کرتا ہے، اب قرآن و سنت کی تعبیرات اگر مختلف ہیں تو پھر اُس کا علاج بھی ہوگا، چنانچہ اسلامی نظریاتی کونسل قاٸم کی گٸی جس میں ماہرین آٸین اور ماہرین قانون اور تمام مکاتب فکر کے علماء بیٹھتے ہیں اور 1973 سے بیٹھتے ہیں اور سن 73 سے لے کر اب تک پاکستان میں جتنی بھی قوانين ہیں کوٸی پانچ چھ ہزار سب کا جاٸزہ لے کر جہاں اُن کو قرآن و سنت کے منافی کوٸی قانون نظر ایا انہوں نے قرآن و سنت کے مطابق سفارشات مرتب کیں اور خوشی کی بات یہ ہے کہ آج تک کوٸی سفارش کونسل کے اندر تمام مکاتب فکر کے اندر متنازعہ نہیں ہے اور نہ کونسل کے باہر مختلف مکاتب فکر میں متنازعہ ہے، نہ کونسل کے اندر کوٸی قانون متنازعہ ہے نہ کونسل کے باہر متنازعہ ہے، اگر کوٸی تھوڑا بہت مسلکی اختلاف اتا ہے تو وہ اِس قابل ہے کہ اُس کو برداشت کیا جاٸے اور قبول کیا جاٸے، کم از کم قرآن و سنت کے منافی تو نہیں ہے، اِس وسعت نظری کے ساتھ لیکن اِس کے بعد ایک اور کمال آپ دیکھیے کہ سن 1973 سے لے کر آج اِس وقت تک 2023 کے اِس وقت تک اسلامی نظریاتی کونسل کے ایک سفارش پر ابھی تک قانون سازی نہیں ہوٸی، یہ ہے ہمارا عمل درامد، تو جو جمہوری نظام، پاکستان کا آٸین اُس کا جو مقدمہ ہم لڑ رہے ہیں ہم کس کمزور پچ پے اُس کا مقدمہ لڑ رہے ہیں آپ خود اندازہ لگاٸیں، لیکن جب تک بنیاد موجود ہے ہم جدوجہد کریں گے ۔
ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے ہمارے ملک میں اٸے روز کوٸی نہ کوٸی بحث شروع ہو جاتی ہے، ہمیں ایک چیز کو سمجھنا ہوگا اور اٹھارویں ترمیم کے لیے جب آٸینی اصلاحات کمیٹی بنی تھی تو اُس میں ہم نے یہ بات اصولاً منواٸی کہ آٸین کے دفعات پر بحث کرنے سے پہلے آٸین کے بنیادی ڈھانچے کا تعین کیا جاٸے، اُس کا بیسک اسٹرکچر کیا ہے، چنانچہ چار باتوں پہ اتفاق ہوا، چار چیزیں آٸین کا بنیادی ڈھانچہ ہیں اگر بنیادی ڈھانچے کا ایک ستون گرتا ہے تو آٸین گرتا ہے نمبر ایک اسلام یعنی یہ ملک مذہبی بھی ہے اور اسلامی بھی ہے، یہ سیکولر ملک نہیں ہے اور آٸین کی رو سے ہوگا بھی نہیں کیوں کہ بنیادی ستونوں میں سے ہے، نمبر دو جمہوریت یعنی کہ ملک کے نظام میں شورٰٸیت ہوگی انتخاب عوام کریں گے، نظام مملکت اور قانون سازی وہ مجلس شوریٰ کرے گی، اِس وقت بھی آپ کے پارلیمنٹ کے لیے آٸینی لفظ وہ مجلس شوریٰ ہے اور پارليمنٹ تشریح ہے جو بریکٹ میں لکھی جاتی ہے، تیسری چیز وفاقی نظام جس کے تحت چار وحدتیں ہیں یعنی ون یونٹ کی نفی کرتی ہے اور چوتھی چیز پارلیمانی طرز حکومت، یہاں کوٸی صدارتی طرز حکومت نہیں ہوگی، تو اسلام ہوگا سیکولر سسٹم نہیں ہوگا، جمہوریت ہوگی آمریت نہیں ہوگی، وفاقی نظام ہوگا ون یونٹ نہیں ہوگا اور پارليمانی طرز حکومت ہوگا صدراتی طرز حکومت نہیں ہوگا، صدارتی طرز حکومت یحییٰ خان کے وقت تک تھا لیکن تمام ملک نے مطالبہ کیا اور ایوب خان کے ساتھ گول میز کانفرنس میں مذاکرات ہوٸے اور اِس بات پہ اتفاق ہوا کہ پارلیمانی طرز حکومت اور بالغ راٸے دہی کی بنیاد پر عوام کو ووٹ کا حق ہے ۔
جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کا منشور تھا صدارتی طرز حکومت، دو تہائی اکثریت بھی اُن کی تھی انہوں نے ایک خلط ملط قسم کا نظام کا وفاق میں صدارتی طرز حکومت اور صوبوں میں پارليمانی طرز حکومت، چنانچہ مفتی صاحب یہاں وزیراعلی تھے اور وہ چیف ایگزیکٹیو تھے اور اِس طرح باقی صوبوں میں بھی، لیکن جب سن 73 کا آٸین بنا تو ذوالفقار علی بھٹو صاحب دو تہائی اکثریت کے باوجود انہوں نے اِس آٸین کو پاس کیا اور ملک کو پارليمانی طرز حکومت دیا اور خود پراٸم منسٹر بن گٸے ۔
یہ ہماری تاریخ ہے ہم اپنے ہاتھوں سے ایک نظام کو ناکام بناتے ہیں اور پھر اُس کو بہانہ بناکر متبادل پر بحث شروع کردیتے ہیں، روز ہم تجربے کرتے رہیں گے، ہر بیس پچیس سال کے بعد ایک نٸی نسل اٸے گی تو تاریخ سے ناواقف ہوگی اُس کے سامنے ایک نیا موضوع چھیڑ دیا اور ہمیں معروضی ہنگاموں میں ایسا الجھا دیا جاتا ہے کہ کوٸی شخص ہماری تاریخ پر مطالعہ ہی نہیں کرتا، اُن کو فرصت ہی نہیں ہوتی ۔
سو اِس لحاظ سے بھی ہمیں ملک کی آٸین اور بنیادی ڈھانچے کو سمجھنا ہوگا کہ ہماری مدنظر کیا ہے، اب ظاہر ہے جب افغانستا ن میں جنگ ہو اور جنگ کے بعد وہ روس کو بھی شکست دیں گے اور امریکہ کو بھی شکست دیں گے تو یہاں تو میسج اٸے گا نا کہ جمہوریت کے راستے سے تبدیلی نہیں اتی، یہ تو بندوق کی طاقت ہے جس سے انقلاب اتے ہیں، وہاں پر قباٸلیت کا غلبہ ہے اور یہاں پر تمدن کا غلبہ ہے، وہاں قباٸلیت کے مقابلے میں تمدن کمزور ہے یہاں تمدن غالب ہے، دونوں کے معاشرتی ترجیحات میں کافی فرق ہے لیکن کون سمجھاٸے کسی کو، جذباتی ماحول پیدا کردیتے ہیں، اور آج ملک بھر میں کراچی سے لے کر، مکران سے لے کر چترال اور گلگت تک ملک بھر میں پھیلے ہوٸے علماء کرام، مدارس، مذہبی جماعتیں، مختلف مکاتب فکر سب اِس بات پہ متفق ہیں کہ ہم آٸین کے ساتھ ہیں، ہم اِس ملک کے آٸین، جمہوریت اور قانون کی بالادستی کے ساتھ ہیں، اِس کے باوجود دنیا میں مذہب کا تعارف اُن چند لوگوں کے حوالے سے کرایا جاتا ہے دہش ت گردی، انتہا پسندی، شدت پسندی فلاں فلاں یہ کیا چیزیں ہیں، اگر ایک دفعہ اسلام اللّٰہ کا دین ہے تو پھر اُس میں کمال کیا ہوگا کمال وہ اعتدال ہوگا، اعتدال کمال ہے، اعتدال کے علاوہ پھر یا افراط ہے یا تفریط ہے، افراط ہو یا تفریط یہ نقص ہے اور اعتدال کمال ہے، اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں ہم نے تمہیں ایک اعتدال کا امت بنایا ہے میانہ رو امت، میانہ رو بنے گی تعلیم سے ورنہ انسان بحیثیت حیوان کے تو اُن کے جذبات اور ہیں، لیکن وہ جو اعتدال میں ہے، جو نظم ہے، ایک دوسرے کے حقوق کا لحاظ ہے، قانون کی پیروی ہے، اپنے جذبات کو کنٹرول کرتا ہے، قانون کا احترام کرتا ہے یہ ساری چیزیں تو قرآن کریم نے نظام کے طور پر دی اور اُس کے نتیجے میں جو معاشرہ پیدا ہوا ہم نے تمہیں ایک میانہ رو امت بنادیا ۔
اب یہ چیزیں جو ہمیں شریعت کی روشنی میں حاصل ہوٸی اور اِس کی روشنی میں ہم نے آٸین بنایا اور ملک کا سیاسی نظام دیا آج ہم اُس کو بگاڑنے کی طرف چل پڑے ہیں، آزادی کی باتیں وہ کرتا ہے جس کی سرشت میں غلامی ہو وہ بھی آزادی کی بات کرتا ہے، اسلام سے لاتعلق ہونے کے لیے دو چیزیں ہیں آپ کے اندر سے آپ کے مذہب کو نکال دیا جاٸے اور آپ کے اوپر سے تہذیب کی چادر نوچ دی جاٸے، تہذیبی لحاظ سے آپ کو برہنہ کردیا جاٸے جب دونوں چیزیں خای ہو جاٸیں اب نٸی نوجوان نسل کی تربیت اِس طرح کرو کہ اُس کو پتہ ہی نہیں چلے کہ میرا مذہب کیا ہے، اُس کے اندر کا عقیدہ ہی نہیں ہے اور اوپر سے اُس کی تہذیب و تمدن، آپ بڑے ذمہ دار لوگ ہیں اور میں بھی آپ لوگوں کے سامنے پوری ذمہ دار حیثیت کے ساتھ یہ بات کہتا ہوں کہ جب 2013 میں یہاں حکومت بنی تو ایک وفد میرے پاس ایا اور اُس وفد نے تین میٹینگز میرے ساتھ کیں تاکہ صوبے میں جو حکومت بنی ہے میں اُن کے ساتھ نرم رویہ لے لوں، تین میٹنگوں میں کتنی لمبی باتیں ہوٸیں ہوں گی اور جب میں نے انکار کردیا تو اُس وفد نے خود مجھے کہا کہ مولانا صاحب ہم نے پندرہ سال این جی اوز کے ذریعے اِس صوبے میں کام کیا ہے آپ کہتے ہیں یہ یہود ی ایجنٹ ہے ہم تاٸید کرتے ہیں لیکن یاد رکھو دنیا کی معشیت یہو د کے ہاتھ میں ہیں جب تک آپ اُس کا ایجنٹ نہیں بنے گے آپ کا کام نہیں چلے گا اور پھر اگر وہ ہمیں پیسہ دے گا تو پشتون بیلٹ میں مذہب کی گہری جڑیں، مذہب کا ماحول اِس کو باہر کی دنیا پیسہ نہیں دے گی اور چوں کہ پشتون بیلٹ میں مذہب کی جڑیں بہت گہری ہیں لہذا اِن گہری جڑوں کو اکھاڑنے کے لیے ہمارے پاس عمران خان سے مناسب اور آدمی نہیں تھا، یہ اُن کے الفاظ ہیں اور میں نے سنے ہے، جس ایجنڈے کے تحت لوگ اتے ہیں تو ہمیں سوچنا چاہیے ۔
تو میرے محترم دوستو ! ہمیں حق ہے کہ ہم آزادی کی بات کرے، پاکستان کو ایک آزاد مملکت کی حیثیت سے تسلیم کرے لیکن ہمیں ایک چیز کو بھولنا نہیں چاہیے سن 1945 میں جنگ عظیم دوٸم کے خاتمے کے بعد نو آبادیاتی نظام کا سلسلہ ختم ہوگیا لیکن اب غریب، پسماندہ، ترقی پذیر دنیا کو کس طرح غلام رکھنا ہے اُس کے لیے بین الاقوامی سطح پر ایک نظام بنایا گیا سیاسی اعتبار سے غلام بنانا، اقتصادی لحاظ سے غلام بنانا، دفاعی لحاظ سے غلام بنانا، چنانچہ بین الاقوامی ادارے اور بین الاقوامی معاہدات کے تحت پسماندہ اور ترقی پذیر دنیا کو اپنے شکنجے میں کسا گیا، آپ ہزار آٸین بناٸیں، آپ اپنے پارليمنٹ کو سپریم کہے لیکن اگر بین الاقوامی اداروں نے، سلامتی کونسل نے، اقوام متحدہ نے، انسانی حقوق کے کمیشن نے بین الاقوامی سطح پر ایک فیصلہ دے دیا ایک قانون صادر کردیا آپ کے اپنے وطن کے اندر آپ کا اپنا آٸین، آپ کا اپنا قانون اُس معاملے میں غیر مٶثر ہوگا اور بین الاقوامی قانون مٶثر ہو جاٸے گا، بتاٸیں آپ کی آزادی کہا کھڑی ہے، انسانی حقوق کو ایک بین الاقوامی مسٸلہ بنادیا کہ جہاں چاہیں امریکہ اپنی فوجیں اتار سکتا ہے، جہاں چاہیں نیٹو اپنی فوجیں اتار سکتا ہے، یہ تشریح اُس نے کرنی ہے حالاں کہ آج تک آپ وکلاء حضرات مجھے بتاٸیں آج تک کسی کتاب میں ٹیررازم، انتہا پسندی اِس کی تعریفیں کہاں ہیں، ہم اپنی طرف سے بنارہے ہیں، تو یہ ہمارے لیے جو فیصلہ کرے معاشی لحاظ سے اٸی ایم ایف، ایف اے ٹی ایف، ورلڈ بینک، ایشین بینک، لندن گروپ، پیرس گروپ، قرضے والی دنیا آپ کو مجبور کررہی ہے کہ آپ اُن سے قرضہ لیں گے اور مقروض ملک کی حیثیت سے زندگی گزاریں گے، آپ بتاٸیں جب اقتصادی لحاظ سے آپ مقروض ملک ہوں گے آپ کی آزادی کہاں رہے گی، دفاعی لحاظ سے اسلحہ میرا، فوج میری، ایٹم میرا، بین الاقوامی قوانین کے تحت ہمیں کنٹرول کیا جاتا ہے، استعمال کا اختیار اُن کے ہاتھ میں ہے ، سی ٹی بی ٹی پہ دستخط کرو، این پی ٹی پہ دستخط کرو وغیرہ وغیرہ خود امریکہ نہیں کرتا ہمیں کہتے ہیں دستخط کرو، بین الاقوامی معاہدات کے تابع ہو جاٶ ۔
اِس اعتبار سے ہماری آزادیوں کو چھینا جارہا ہے اور اُس کے لیے نٸے نٸے ایجنٹ اور یہ سب کچھ اپنے مفادات کے لیے ہورہا ہے، میں ایک دفعہ واشنگٹن سے ایٹلانٹا جارہا تھا شاٸد جلال صاحب بھی میرے ساتھ تھے، تو میرے ساتھ ایک گورا بیٹھا ہوا تھا میں اُس کو نہیں جانتا تھا، پانچ چھ گھنٹے کا چوں کہ سفر تھا تو راستے میں تعارف اِس طرح ہوا کہ میں نے نماز پڑھ لی تو مجھے کہنے لگا کہ آپ نے کس طرح معلوم کیا کہ کعبہ اِس طرف ہے تو میں نے اُس کو نقشہ بتایا تو کہنے لگا ہاں بلکل ٹھیک ہے ، تو کہنے لگا میں کیوں جانتا ہوں کہ تم نماز پڑھتے ہو تو کعبے کی طرف رخ کرتے ہو، میں نے کہا جی مجھے نہیں معلوم کہ آپ کیسے جانتے ہیں، تو انہوں نے کہا کہ میں امریکہ کا ریٹائرڈ لیفٹننٹ جرنل ہوں اور میں نے خلیج وار کمانڈ کیے ہیں تو اِس لیے میں وہاں کے مسلمانوں کو جانتا ہوں، تو باتوں باتوں میں میں نے اُن سے کہا کہ آپ نے کویت پر عراقی قبضے کو تو فوراً چھڑوا لیا اور کشمیر پر انڈ یا کے قبضے کو بلکل نہیں چھڑا رہے حالاں کہ اُس میں اقوام متحدہ کی قراردادیں تو موجود ہیں، تو اُس نے کہا کہ کویت کے پاس تیل ہے اور ہم اپنے مفادات کے ساتھ ہوتے ہیں کشمیر میں کیا ہے کہ ہم اُن کے لیے لڑے اور ُن کو چھڑواٸیں، اب اِس طرح اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے مسلمانوں پر ہر جگہ آگ برس رہی ہے ، شام سے لے کر، فلسطین سے لے کر کشمیر تک، برما تک اُس کے باوجود دہش ت گرد مسلمان ہیں اور وہ امن کے لیے اتے ہیں، بیس سال افغا نستا ن پر بمباری کی اور پھر بھی امریکہ امن کے لیے ایا تھا، تو جو امن کے لیے اٸے تھے تو کس چیز کے لیے گیے ۔
تو یہ ساری سیاست جو بین الاقوامی سطح پر ہوتی ہے اور دنیا کس طرح ہمیں چلاتی ہے، اِس کے لیے بھی جب آپ نے اپنے مفادات کی خاطر چین کی طرف رخ کیا اور چین نے اپنے ون بیلٹ ورلڈ روڈ پالیسی کے تحت پاکستان کو اپنا تجارتی شاہراہ بنایا اور سی پیک معاہدہ اور ایک پیکج تھا اُس میں پاور جنریشن، اُس میں سڑکیں، ریل کا راستہ کیا کیا کچھ تھا اسے گوادر تک ملانا، اِس سارے چیز کو امریکہ نے اپنے خارجہ پالیسی کا بنیاد بنالیا کہ سی پیک کی حمایت امریکہ کی دشمنی اور سی پیک کو تباہ کرنا امریکہ کی دوستی، اگرچہ الفاظ میں نہیں کہا ہوگا لیکن رویے سے، اور یہ کام ہمارے ملک میں پچھلے حکمرانوں نے اُن کو کرکے دکھایا، یہ خدمت کرکے دکھاٸی، اور جب ہم نے چینیوں سے معلوم کیا کہ اِس مسٸلے کو کیا ہوگیا ہے تو انہوں نے بتایا کہ آپ کا حکمران کہتا ہے کہ پاکستان میگا پراجيکٹس کا متحمل نہیں ہے ہم لوگ میڈیم لیول اور ماٸیکرو لیول کے کاروبار کرنا چاہتے ہیں یعنی مرغیوں کا، کٹوں کا، گدھوں کا یہ لیول کا کاروبار اگر آپ کرسکتے ہیں تو ہم کرنے کو تیار ہیں، اِن لوگوں نے ملک کی معشیت کو زمین بوس کردیا، پھر بھی ہم امیدیں وابستہ کیے ہوٸے ہیں کس چیز کی ، میں ذمہ دار حیثیت سے کہنا چاہتا ہوں کہ آج جو یہ تڑپ رہے ہیں اِس تڑپ کے پیچھے اصل وجہ یہ ہے کہ وہ اپنا ایجنڈہ مکمل نہ کرسکے ہم نے بیچ راستے سے ملک کو اُن سے چھڑا دیا، اِن کے ایجنڈے کو ناکام بنایا، اور پھر ایک کاغذ لہرایا کہ میرے خلاف سازش ہوٸی، کوٸی سازش نہیں ہوٸی، ہم اعلان کرتے ہیں کہ ہم نے تمہیں گرایا ہے، کوٸی ڈھکی چھپی بات نہیں تم منتخب تھے ہی نہیں، تم دھاندلی کے ذریعے اٸے تھے، چور دروازے سے اٸے تھے، دوسروں کو چور چور کہنے سے اپنی چوری نہیں چھپتی، تو توشہ خانہ پھر بات کرے گا، اور میں آپ کے پشاور میں بیٹھا ہوں آپ ذرا اپنے پشاور میوزیم کے نوادرات کا پتہ کرلیں چوری تو نہیں ہوٸے، بخدا بلاوجہ نہیں کہہ رہا، ہمارے توپ بھی گم ہوگیے ۔
یہ ملک کی حالت ہے، اخلاقی طور پر ہم گر گیے، کہاں گر گیے ایک مسلمان پھر ایک پشتون میں نہیں سوچ سکتا کہ وہ اخلاقی طور پر اتنا گر سکتا ہے، اتنا ہمارے معاشرے کو تبدیل کیا گیا اور اِس پر انہوں نے باقاعدہ کام کیا ہے، تو اِس پشتون قوم کے اندر سے اُس کا مذہب اُس کا دین نکالو اور کلمہ گو تو پھر بھی بندہ ہوتا ہے لیکن وہ اسپرٹ، دلچسپی ختم ہو جاتی ہے، وہ احساس مردہ ہو جاتا ہے ۔
تو اِن حالات میں آپ خود دیکھے کہ کہاں اب دنیا کے ادارے اور معاہدات ہمارے سیاست کو کنٹرول کرتے ہیں، ہماری معشیت کو کنٹرول کرتے ہیں، اور میں نے 2017 میں یہاں پشاور میں مفتی محمود مرکز میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوٸے کہا تھا کہ مجھے لگ ایسے رہا ہے کہ شروعات ہوچکی ہے پانامہ کیس کے ذریعے سیاسی عدم استحکام لایا جارہا ہے اور اُس کے بعد معاشی عدم استحکام اٸے گا اور اُس کے بعد دفاعی عدم استحکام اٸے گا اور ریاست ختم ہو جاٸے گی، چنانچہ آپ نے دیکھا سیاسی عدم استحکام ایا، عمران خان کے ذریعے معاشی عدم استحکام ایا اور جاتے جاتے اِس نے دفاعی قوت کو تقسیم کرنے کی کوشش کی تاکہ ملک کو بچانے کا کوٸی ایک بھی راستہ موجود نہ رہے، تمام عناصر دفن ہو جاٸے ۔
اِن چیزوں کے خلاف ہم جنگ لڑرہے ہیں، ہم لوگ معمولی جنگ نہیں لڑرہے، اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ بابا ہم بھی انسان ہیں ہمارے اندر آپ ہزار کمزوریاں ڈھونڈیں آپ کو جاٸیں گی لیکن ہماری کمزوریوں کے پیچھے پڑنے کی بجائے اپنی کارکردگی بھی تو بتاٶ، تین ساڑھے تین سال میں آپ کی اپنی کارکردگی کیا ہے، ہمیں ریاست مدینہ بتاتے ہو اور تمہاری اخلاقی گراوٹ کی کہانی تو کوٸی شریف آدمی کسی مجلس میں بیان نہیں کرسکتا
”کعبے کس منہ سے جاوگے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی“ یہ اُن کی حالت ہے، کوٸی نہ ہماری معاشرت، نہ حیا، نہ اقدار، ہماری عزتیں اپنے نوجوان نسل کو بچاٸیں، یہ ہر ایک نوجوان میں داخل ہو چکا ہے، یہ اثرات ہر ایک میں ہے ۔
میرے بزرگ ہے، میرے دوست ہے، عالم ہے، میرے ساتھ بیٹھے ہوٸے تھے، تو اُس کا چھوٹا بچہ کوٸی نو دس سال کا ہوگا وہ سامنے کھڑا تھا تو مجھے کہتا ہے بچوں کے اخلاق کو ذرا دیکھ لے، یہ لوگ کیا سیکھ رہے ہیں، میں نے کہا کیا مسٸلہ ہے، کہتے ہیں اِس بیٹھے کو میں نے کہا کہ پڑھو ورنہ تمہاری شادی کرادوں گا، تو یہ بچہ مجھے جواب میں کہتا ہے تم بھلا میری شادی کراٶ میں عمران خان کی طرح طلاقیں دیتا رہوں گا، کہا خدا قسم اِس بچے نے مجھے یہ جواب دیا، یہ ہمارا معاشرہ بنارہے ہیں، یہ ہمارے معاشرے کی تشکیل کررہے ہیں، تو نہ شخصی طور پر کوٸی کردار، نہ عوامی اور مملکتی سطح پر کوٸی کردار، پھر ایسے لوگ پاکستان میں حکومت میں اتے ہی پورے چینلز جو ہے اُس پر ایک ہی بحث اسرا ٸیل کو تسلیم کرنا چاہیے، اسرا ٸیل کو تسلیم کرنا چاہیے، بڑے فاٸدے ہیں پاکستان کے مفاد میں یہ ہے وہ ہے، اوٸے کم بختوں اسرا ٸیل کی مفاد کی بات بعد میں کرو پہلے فلسطینیوں کی حق کی بات تو کرو، ارض فلسطین، فلسطینی بھاٸی مسلمان، اُن کو کیوں بھول گیے ہو پہلے تو وہ مسٸلہ ہے، القدس کی بات تو کرو، مسجد اقصٰی کی بات کرو، ہمارے مساجد ثلاثہ میں سے ہے، نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ کسی بھی مسجد میں عبادت کرنے کے لیے سفر کی اجازت نہیں ہے سواٸے تین مساجد کے ایک مسجد حرم، ایک میری مسجد اور ایک مسجد اقصٰی، تو اِس کا ثواب زیادہ ہے آپ اِس کے لیے سفر کرسکتے ہیں، باقی تمام دنیا کے مساجد کا ثواب ایک جیسا ہے، وہ مسجد اُن کے قبضے میں ہے، ہماری اسمبلی میں بھی انہی کے پارٹی کی ایک خاتون کھڑی ہوگٸی کہ یہ تو اللّٰہ نے تقسیم کیا ہمیں کعبہ دے دیا اور یہو دوں کو بیت المقدس دے دیا، اگر اللّٰہ نے یہ تقسیم کی ہے تو پر حضرت عمرؓ کو کیا ضرورت تھی کہ اُس کو فتح کیا، صلاح الدین ایوبی کو کیا ہوگیا تھا، پہلے اپنی تاریخ تو پڑھو، قرآن کریم کے حوالے دیے جارہے ہیں، اللّٰہ تعالیٰ نے اُن کو یہ جگہ ایک معاہدے کے تحت عطا کی اور جب خلاف ورزی کی تو بیت المقدس اُن کے ہاتھ سے نکل گیا، اور وہ لوگ برباد ہوگیے ۔
اِس اعتبار سے قرآن کی غلط تشریحات کرنا، پھر ہماری تاریخ اور پھر خلافت راشدہ کی تاریخ جو قرآن کی تعبیر ہے اِس کے علاوہ کچھ نہیں ہے، ہم اُس کو جھٹلارہے ہیں، لیکن جمعیت علماء نے جب اِس صورتحال کو دیکھا تو پہلے تو اپنی جماعت کے گند کو باہر کیا، اُس کے بعد ہم نے کراچی میں ملین مارچ کیا، ہم نے سکرین پر مسجد اقصٰی کے خطیب کا خطاب کروایا، ہم نے حماس کے صدر کا خطاب کروایا، ہم نے لبنان کے خطیب کا خطاب کروایا اور اُس کے بعد کسی کو جرات نہ ہوسکی کہ چینل پر اکے اسرا ٸیل کی بات کرسکے، ہم بین الاقوامی قوتوں کا مقابلہ کررہے ہیں وہ قوتیں جو ہمیں غلام بنانے کی کوشش کررہی ہے، اور مجھے بتایا جاٸے اخر 1940 کی قرارداد کو پوری تفصیل کے ساتھ پڑھے، مجھے نہیں پتہ کہ آج کوٸی ردوبدل ہوگیا ہو لیکن 1940 کی قرارداد میں جب ابھی نہ پاکستان بنا تھا اور نہ اسرا ٸیل کا وجود تھا اُس وقت اِس قرارداد میں جناب قاٸداعظم محمد علی جناح نے لکھوایا تھا کہ فلسطین کی سرزمین پر یہو دی بستیوں کا قیام یہ غلط ہے اور ہم فلسطینی بھاٸیوں کے شانہ بشانہ ہوں گے، ہمارا نظریاتی رخ اُس وقت متعین ہوگیا تھا اور جب پاکستان بنا اور 1948 میں اسرا ٸیل بنا تو اُن کے پہلے وزیراعظم نے اپنے پہلے خارجہ پالیسی پہ بیان دیا وہ یہ تھا کہ دنیا کہ نقشے پر ایک نوزاٸیدہ ملک کا خاتمہ یہ اسرا ٸیل کی پہلی ترجیح ہوگی، جن کے دماغ میں اول دن سے اِس ملک کا خاتمہ ہے وہاں سے اُس کی تاٸید میں آوازیں اٹھ رہی ہیں، تو نہ اپنے مسلمان بھاٸی کے ساتھ ہم کھڑے ہیں، نہ ہمیں اپنے نظریاتی اساس کا احترام ہے، ہم کہاں بھٹک رہے ہیں، تو یقین جانیے جمعیت علماء
اِس وقت پاکستان کی نظریاتی جنگ لڑرہی ہے، نظریاتی اساس کی جنگ لڑرہی ہے، ہم نے جب سب سے پہلے اسٹیٹ بینک قاٸم کیا اور اُس کا افتتاحی اجلاس تھا اُس افتتاحی اجلاس میں قاٸداعظم نے یہ کہا تھا کہ مغرب کا نظام معشیت پوری دنیا میں انسانيت کے لیے مشکلات کا باعث ہے، تمام فتنے وہاں سے اٹھ رہے ہیں اور ہمیں اگر نظام معشیت بنانا ہے تو ہمیں اپنے اسلام کی تعلیمات کے مطابق بنانا ہے، لیکن آج اُن کو بھی ہم بھول گیے، بانی پاکستان کے تصورات کو بھی ہم احترام نہیں دے رہے ہیں، ہم کہاں کھڑے ہیں، ہمارا بانی کون ہے، ہمارا قاٸد کون ہے، کون ہے دنیا میں جو ہماری پالیسیوں کو کنٹرول کررہے ہیں، تو اپنا اختیار دوسروں کے ہاتھ میں دو اور کہو کہ ہم آزاد ہے ۔
تو یہ بنیادی چیزیں ہیں کہ اگر آپ جیسے دانشور لوگ اِن چیزوں کو اِن پہلوٶں پے دیکھیں، معروضی مسائل تو اتے رہتے ہیں، روزانہ چلتے رہتے ہیں، ٹی وی پر لوگ دیکھ رہے ہیں، ردعمل بھی ارہے ہیں، سوشل میڈیا بھی چل رہا ہے، لیکن یہ کچھ بنیادی چیزیں جو نظریاتی حوالے سے میرے ذہن میں تھیں میں نے دانشوروں کی ماحول میں رکھ دی ہے اور امید رکھتا ہوں کہ آپ کے جو تجربات ہیں، آپ کا جو استعداد ہیں اُس سے ہم قوم کو فاٸدہ پہنچا سکیں گے، اور ان شاء اللہ العزیز یہ ہمارا ملک ہے، اِس ملک میں ہم نے چلنا ہے اور سنجيدگی سے اپنی راٸے دینی ہے ، ہم نے حوصلے بڑھانے ہیں ، الیکشن میں بھی جانا ہے اور یہ ملک ہم سب کا ہے اِس میں خواتین بھی ہیں وہ ہماری بہنیں ہیں اور اُن کا بھی ووٹ ہے، اُن کا بھی مطالعہ ہے، اُن کی بھی اسٹڈی ہے، اُن سے بھی ہم نے استفادہ حاصل کرنا ہے اور پورے احترام کے ساتھ اُن کے خیالات اُن کے افکار کو ہم نے عزت دینی ہے، یہاں پر جو ہمارے پاس غیر مسلم پاکستانی بھاٸی بیٹھے ہیں ہم اُن کو بھی برابر کے حقوق کے حق دار سمجھتے ہیں، اُن کے تحفظ کی ہم جنگ لڑیں گے، جناب رسول اللّٰہﷺ نے فرمایا کہ میرے ریاست میں اگر کسی یہو دی کے اوپر کسی عیساٸی کے اوپر اُس کی جان پر حملہ ہوتا ہے تو وہ میرے اوپر حملہ ہوگا، اُس کے مال پہ حملہ ہے تو ہمارے مال پہ حملہ ہے، اُن کی عزت پر حملہ ہمارے عزت پر حملہ ہے، برابر کی حیثیت سب کو دی ۔
تو ان شاء اللہ ہم ملک کے وفادار ہیں، ہم قدم ہیں اور ان شاء اللہ اکھٹے ہی اگے بڑھیں گے اور اِس قوت کو اور اگے بڑھاٸیں گے، میں کچھ 2007 کے بعد پہلی مرتبہ کچھ عرصہ پہلے کوٸٹہ بار سے میں نے خطاب کیا اور آج جی ایل ایف سے میں خطاب کررہا ہوں، وکیلوں کے ساتھ بیٹھا ہوں ورنہ اِس دوران میں بڑا تعطل رہا ہے اِس پر کبھی پھر بات کریں گے کہ کیوں تعطل رہا، اللّٰہ تعالیٰ اِس قوت میں اور اضافہ فرماٸیں اور ہمارے ملک کو اللّٰہ ترقیوں سے سرفراز فرماٸیں اور اِس کی حفاظت فرمائے ۔
وَأٰخِرُدَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔
ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر ٹیم جے یو آئی سوات
#teamjuiswat
ایک تبصرہ شائع کریں