پشاور نشتر ہال: قائدِ جمعیتہ حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا جمعیتہ طلباء اسلام کے زیر اہتمام کنونشن سے خطاب تحریری صورت میں 18 جنوری 2023

پشاور نشتر ہال: قائدِ جمعیتہ حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا جمعیتہ طلباء اسلام کے زیر اہتمام کنونشن سے خطاب تحریری صورت میں

 18 جنوری 2023

خطبہ مسنونہ کے بعد
قاٸد طلباء، جمعیت طلباء اسلام کے قاٸدین، سٹیج پر موجود علماء کرام اور آکابرین، میرے نوجوان دوستو، بھاٸیو ! جمعیت طلباء اسلام کے اِس کامیاب کنونشن کے انعقاد پر میں صوبہ خیبر پختونخواہ کے جمعیت طلباء اسلام کو اور اُن کے ذمہ داران کو دل کی گہراٸیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں، تقریری مقابلوں میں ہمارے جو برخوردار کامیاب ہوٸیں ہیں، نمایاں پوزیشنیں لی ہیں میں اُن کو بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں، اللّٰہ تعالیٰ اُن کی صلاحيتوں میں اور اضافہ فرماٸیں اور اُن کی زندگی برکتوں والی زندگی بنائيں ۔
آپ نوجوان ہیں اور اِس اعتبار سے آپ قوم کا مستقبل ہیں، آپ نے اِس بات پے ضرور غور کرنا ہے کہ آپ کے سامنے کیا کیا چیلنجز ہیں اور آپ نے کس طرح اُس کا مقابلہ کرنا ہے، ایک طالب علم کے لیے سب سے اہم چیز حصول علم ہے، جس بھی شعبے سے آپ کا تعلق ہے، جس بھی فن سے آپ وابستہ ہیں پورے انہماک کے ساتھ اُس میں مہارت حاصل کرنا اور علمی اعتبار سے اُس محاذ پر طاقتور بننا یہ ایک طالب علم کے لیے سب سے پہلا ہدف ہے لیکن ایک طالب علم کے لیے یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ وہ کچھ وقت عمومی مطالعے کے لیے بھی نکالے جس میں وہ اپنے گرد و پیش کو سمجھے، اپنی سوسائٹی کو سمجھے، ملکی نظام میں، سیاست میں اتار چڑھاٶ کو سمجھے، بین الاقوامی تعلقات کو سمجھے اور ہمارے کالجز اور یونیورسٹیوں میں تو تعلقات عامہ، خارجی تعلقات یہ بذات خود طلباء کا موضوع ہوتا ہے جس میں وہ اپنے اساتذہ سے مہارت حاصل کرتے ہیں، استعداد حاصل کرتے ہیں، ہمارے ہاں بدقسمتی سے نوجوانوں کو تعلیمی اداروں میں جو رجحان دیا جاتا ہے اُس میں ہنگامہ اراٸی، شور و غوغا، کبھی باہمی لڑاٸیاں، کبھی تعلیمی ادارے سے لڑاٸیاں، اور اُس طالب علم کو بہت تکڑا طالب علم کہا جاتا ہے جو اچھے سے اچھا ہنگامہ برپا کرسکے، حضرت والد صاحب رحمہ اللّٰہ جب طلباء سے خطاب فرماتے تھے تو بطور نصیحت طلباء سے کہتے تھے کہ تعلیمی زندگی میں ایک طالب علم کے لیے علمی سیاست کا قاٸل ہوں عملی سیاست کا نہیں، اگر آپ ایک جامعہ میں پڑھ رہے ہیں جب تک آپ وہاں سے سند حاصل نہیں کرتے، کسی یونیورسٹی یا کالج میں پڑھتے ہیں اور آپ وہاں ڈگری حاصل نہیں کرتے، گریجویٹ نہیں بنتے، آپ کو کسی بھی ادارے میں کسی اسکول میں کسی مدرسے میں پڑھانے کی اجازت نہیں ہوتی، بطور مدرس آپ کو اُس وقت قبول کیا جاتا ہے جب آپ کے پاس باقاعدہ سند ہو اور جامعہ کہے کہ اب آپ اِس فن میں ماہر ہوگٸے ہے ۔
جب ہم دورہ حدیث پڑھ رہے تھے تو سال کے اختتام پر حضرت شیخ مولانا عبدالحق صاحب رحمہ اللّٰہ نے ہمیں نصیحت کی اور فرمایا کہ آج آپ یہ سمجھ رہے ہوں گے کہ ہم عالم بن گٸے ہیں لیکن آپ عالم نہیں بنے، آج آپ کے اندر عالم بننے کا استعداد پیدا ہوگیا ہے اِس کے بعد اگر آپ چاہے کہ آپ عالم بن جاٸے تو اب آپ بن سکتے ہے، تو زمانہ طالب علمی درحقیقت کسی بھی علم میں استعداد پیدا کرنے کا زمانہ ہوتا ہے اور اگر آپ نصاب سے ہٹ کر اپنے مشغولیت رکھیں گے تو پھر ظاہر ہے کہ اُس فن کے حوالے سے استعداد میں کمی رہ جاتی ہے، پھر ہمارے ہاں ایک عجیب تاثر عام کیا گیا ہے اور علم کو تقسیم کردیا گیا دینی علوم اور عصری علوم، یہ تقسیم کہاں سے پیدا ہوگٸی، میں بڑے وضاحت کے ساتھ آپ کو بتادوں کہ علم کے اِس تقسیم کے ذمہ دار برصغیر کے علماء کبھی نہیں ہے، 1857 کے بعد جب علی گڑھ میں سکول قاٸم کیا گیا تو اُس کا نصاب انگریز نے بنایا اور انگریز نے جو نصاب بنایا اور وہاں راٸج کیا اُس نصاب کے اوپر برصغیر کے علماء کا کوٸی اعتراض نہیں تھا، یہ بات آپ کی ذہن میں رہے، کہیں سے بھی کوٸی اِس بات کی نشاندہی نہیں کرسکتا کہ ہمارے آکابر علماء نے علی گڑھ مدرسہ کے تعلیمی نصاب پے اعتراض کیا ہو، ہاں یہ ضرور کہا کہ کچھ ضروری مضامين آپ نے اپنے نصاب میں شامل نہیں کیں قرآن کے مضمون کو نکال دیا گیا، قرآن کریم، تفسیر، اصول تفسیر، اسی طریقے سے حدیث کے علوم کو نکال دیا گیا، حدیث ہو اُس کی تشریح ہو، اصول حدیث ہو پورے مضمون کو خارج کردیا گیا، فقہ کو خارج کردیا گیا، علمی فقہ ہو، اصول فقہ ہو سب نکال دیا گیا، اور اُس وقت پورے برصغیر کی سرکاری زبان فارسی تھی، فارسی کو نکال دیا گیا، چنانچہ اِن علوم کو تحفظ دینے کے لیے دیوبند میں مدرسہ قاٸم ہوا، اُن کا خیال یہ تھا کہ ایسا نصاب تعلیم برصغیر کو دیا جاٸے کہ اُن کے انے والے نسلیں زبان سے تو اپنے آپ کو مسلمان کہے، کلمہ گو کہے لیکن اُن کے پاس دین اسلام کے حوالے سے کچھ بھی معلومات نہ ہو، عملی زندگی اسلام سے فارغ ہو، اِس کے ردعمل میں مدرسہ قاٸم ہوا، لیکن آپ کے علم میں یہ بات ہونی چاہیے کہ حضرت شیخ الہند رحمہ اللّٰہ جب 1919 میں مالٹا سے رہا ہوکر اٸے اُن کو ہندو ستان میں ایک سال بھی زندگی نہیں ملی، اُس مختصر سے وقت میں حضرت شیخ الہند نے چار پانچ آکابر ہند کے ساتھ علی گڑھ کا سفر کیا اور وہاں جاکر تجویز دی کہ تعلیم میں یہ تقسیم انگریز کی پیدا کردہ ہے، اٸیں ہم ایک متفقہ دستور پورے ہندو ستان کے لیے بنائے لیکن حضرت کی اِس خواہش اور تجویز کو اہمیت نہیں دی گٸی اور پھر آپ نے ازخود اپنی طرف سے وہی پر جامعہ ملیہ کی بنیاد رکھی وہی جامعہ ملیہ پھر دہلی منتقل ہوا اور آج بھی دہلی میں بہت بڑا تعلیمی ادارہ ہے لیکن سرکار کی سطح پر پورے برصغیر یا ہند وستان کے لیے وہ نصاب قبول نہیں کیا گیا ۔
حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللّٰہ انہوں نے اپنے طور پر ایک مشترک نصاب بنایا اور پورے برصغیر میں مختلف علاقوں میں جاکر اہل علم لوگوں کو پیش کیا کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ اِس طرح کا نصاب برصغیر کے لیے ہو لیکن جن لابیوں نے تعلیم کو تقسیم کیا تھا وہ طاقتور تھی، اِس بات کو پذیرائی نہیں مل سکی یہاں تک کہ برصغیر تقسيم ہوگیا اور پاکستان معرض وجود میں ایا اور جب پاکستان معرض وجود میں ایا تو بہت سے مسلمان جنہوں نے ہندو ستان کو چھوڑا اور پاکستان ہجرت کی لیکن حضرت محمد شفیع رحمہ اللّٰہ جو مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب اور مولانا رفیع عثمانی صاحب دامت برکاتہما یہ اُن کے والد تھے انہوں نے تجویز پیش کی کہ اب تو یہاں نہ انگریز ہے نہ ہندو ہے اب تو اٸے ہم ایک مشترکہ نصاب بنائے اور 1947 سے لے کر 1951 تک چار سال انتظار کیا اور مایوسی کے بعد انہوں نے دارلعلوم کراچی کی بنیاد رکھی، اندازہ لگاٸے ہمارے اِس ملک کی اُس زمانے کی سیاسی قیادت، اُس زمانے کی بیوروکریسی، اُس زمانے کی اسٹبلشمنٹ کتنی بڑی مجرم ہے اِس حوالے سے کہ جس نے اِس قوم کو تعلیمی لحاظ سے منقسم رکھا ۔
اب میں یہاں آپ سے ایک اور بات کہنا چاہتا ہوں ایک تاثر عام کرنا سوسائٹی میں اِس میں اسٹبلشمنٹ کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے، اُن کے پاس بڑے وسائل ہوتے ہیں، انگریز اسٹبلشمنٹ نے یہ تاثر عام کیا کہ مدرسہ میں جانے والا تباہ ہوگیا، اب یہ کسی کام کا نہیں اور سوسائٹی میں اسے کمّی کا مقام دے دیا کہ مدرسہ میں جانے والے کا معاشرے میں کوٸی عزت و احترام نہیں، اور اندازہ لگاٸے حضرت شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی جو تقسیم کی بھی حق میں تھے اور کراچی میں سب سے پہلے پاکستان کا پرچم اُس نے بلند کیا تھا، اتنے بڑے عالم کے تفسیر عثمانی کے بغیر اور فتح الملحم کے بغیر ہمارا کوٸی کتب خانہ مکمل نہیں ہوسکتا لیکن انگریز کی ریکارڈ میں اُس کو اَن پڑھ لکھا گیا اِس لیے کہ وہ انگریز کے کسی پراٸمری اسکول میں نہیں پڑھے تھے، اِس نظر سے یہ اِن علماء کو دیکھتے تھے اور قصے بہانے شروع کردیے کہ مولوی کی دوڑ مسجد تک، یہ تو اللّٰہ تعالیٰ ہمارے آکابر کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام دیں کہ انہوں نے علماء کے قدر و منزلت کا تحفظ کیا اور پھر پراٸیوٹ سیکٹر میں دینی مدرسہ صرف برصغیر میں نہیں پوری دنیا میں اتنا مقبول ہوا کہ کسی گاٶں میں یہ تو ہوسکتا ہے کہ وہاں پراٸمری اسکول نہ ہو لیکن کسی گاٶں میں دینی مکتب نہ ہو یہ نہیں ہوسکتا ۔
اب آج ایک نٸی اسٹبلشمنٹ ہے امریکی اسٹبلشمنٹ، ویسٹرن اسٹبلشمنٹ، اُس نے ایک ناٸن الیون کے بعد ایک نیا تاثر دے دیا کہ یہ جو مدرسے والا مولوی ہے ناں یہ بڑا بدمعاش ہے، یہ بڑا خطرناک ہے، یہ دہش ت گرد ہے، اِن سے خوف اتا ہے، اپنی پگڑی سے اپنی داڑھی سے اور اپنی اسلامی لباس سے سوسائٹی کو خوف دلا رہے ہیں، یہ ایک نیا تاثر ہے اور ایک دفعہ تاثر پھیلایا اُس کے بعد دینی مدارس پر دباؤ ایا، رجسٹریشن بند کراٸی، آپ جو نصاب پڑھا رہے ہیں اِس میں تو شدت پڑھا رہے ہیں یہی شدت بنیاد بنتی ہے اور پھر آپ کا نوجوان اگے جاکر بندوق کی طرف چلا جاتا ہے اور دہش ت گرد بن جاتا ہے، بندوق کی طرف کون گیا ہے، افغا نستان کے لوگ امریکہ پر جاکر حملہ کرنے گیے ہیں یا وہ ایا ہے حملہ کرنے، نیٹو کے ممالک پہ کسی نے حملہ کیا ہے یا وہ حملہ کرنے کے لیے اٸے ہیں، چلو افغا نستان تو مذہبی ہوگیا یہ صدام حسین اور قذافی تو مذہبی حوالے سے شہرت نہیں رکھتے تھے لیکن اُن کے فلسفے سے اختلاف تھا، اُن کے نظریے سے اختلاف تھا اُن کا کیا انجام کردیا اور بعد میں کہا ہماری معلومات غلط تھی، بیس سال افغا نستان پر بمباری کی اور پھر انہی کے ساتھ جن کے بارے میں ناٸن الیون کے بعد جب حملہ کیا تو امریکہ کا مٶقف یہ تھا کہ یہ جنیوا انسانی حقوق کنونشن کے تحت جو قیدی کے حقوق ہیں وہ اِن کو حاصل نہیں ہوں گے یعنی بنیادی انسانی حق سے بھی محروم کردیا، حیوانات کا بھی حق ہوتا ہے کہا اِن کا حق نہیں ہے اور بالاخر دوحہ میں مذاکرات شروع کیے اور پھر وہ چلے گیے، اب اِس کو جمہوریت کہتے ہیں یا یہ جبر ہے، امریکہ اور مغربی دنیا طاقت کی بنیاد پر، بارود کی بنیاد پر، اسلحے کی بنیاد پر ، جبر کی بنیاد پر اپنا نظریہ اپنی تہذیب اپنا مذہب ہم پر مسلط کرنے کی کوشش کرے، دہش ت گردی تو اِس کو کہتے ہیں، خیرد کا نام جنوں رکھ دیا اور جنوں کا نام خیرد، جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے ۔
تو آج اِس نیے اسٹبلشمنٹ کے نیے تصورات ہیں اور پھر جہاں وہ مذہبی لوگوں کے بارے میں اور مدارس کے بارے میں یہ تاثر دیتے ہیں کہ وہاں تو دقیانوسی علوم ہیں اور اُن کو تو اِس علم سے نوکری بھی نہیں ملتی، بیروزگاری ہے، بڑے غم خوار بن جاتے ہیں، اور اپنے جو اُن کے کالجز یونیورسٹیوں کے اُن کے گریجویٹس ہیں لاکھوں لاکھوں کی تعداد میں قطار در قطار اپنی ڈگریاں بغل میں لیے کھڑے روزگار مانگ رہے ہیں اُن کو تو روزگار نہیں دے سکتے، اُن کے پاس ہماری بڑی فکر ہے، یہ ایک تاثر جو یہ دے رہے ہیں حقیقت میں کچھ نہیں ہوتا ۔
آج دنیا میں ایک بڑا کہ جی شفافیت ہونی چاہیے بینکوں پر نظر ہے، لوگوں کے جیبوں پر نظر ہے کیوں کہ کمیونزم کے مقابلے میں مغربی سرمایہ داریت جنگ جیت چکی ہے، اب آپ مجھے بتاٸے کہ جب دینی مدرسہ کا اکاؤنٹ بند ہوگا تو شفافیت کا راستہ تو آپ نے خود روک دیا، بینک میں اکاؤنٹ ہوتا پتہ چلتا پیسہ کہاں سے ارہا ہے، کون دے رہا ہے، کدھر سے جمع ہورہا ہے، کتنا نکل رہا ہے، کتنا اُس کا خرچہ ہورہا ہے، اُس کا گوشوارہ اٸے گا، آپ کو حساب کتاب ہم دیں گے، سب کچھ ہوتا ہے اور اسی مدرسے کا اکاؤنٹ بند کرتے ہو، تو یہ الٹی گنگا والی بات نہیں ہے نعرہ کچھ اور عمل کچھ ہے ۔
تو اِس لحاظ سے پھر بھی ہمارا انکار نہیں ہے، ہمیں آپ کہتے ہیں پراٸمری پڑھاو ہم کہتے ہیں بلکل ٹھیک ہے بچے کی ضرورت ہے ہم مدرسے میں پڑھاٸیں گے، ہمیں آپ کہتے ہیں مڈل پڑھاٸیں بلکل ٹھیک ہے، آپ کہتے ہیں میٹرک پڑھاٸیں بلکل ٹھیک ہے، ہمیں آپ کہتے ہیں ایف اے پڑھاٸیں بلکل ٹھیک ہے، کسی بھی مرحلے پر دینی مدارس کے تنظیمات نے انکار نہیں کیا، جو تجویز عصری علوم کے نام پہ اُن کے طرف سے اٸی ہمارے طرف سے کوٸی انکار نہیں ہے، اگر ناقابل قبول ہے تو میرا نصاب اُن کے لیے ناقابل قبول ہے اُن کا کہی بھی نصاب ہمارے لیے ناقابل قبول نہیں ہے، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں اپنے بچے کے لیے یہ چاہوں کہ اُس کو انگریزی اٸے، اسے ساٸنس اٸے ، میں اپنے بیٹے کے لیے تو یہ چاہوں کہ انہیں ایگریلچر میں بھی، انجیٸنرنگ میں بھی، مختلف شعبوں میں اسے مہارت حاصل ہو، اور قوم کے بچوں کے لیے میں کہوں کہ یہ علوم ضروری نہیں ہے یہ تو پھر میرے خیال میں قرآن سے ناواقفیت کی دلیل ہے، اسی لیے میں کہہ رہا ہوں کہ علومیں تقسيم کیوں کررہے ہو، علم علم ہے ۔
حضرت نوح علیہ السلام اللّٰہ کے پیغمبر تھے اور اللّٰہ نے آپ کو حکم دیا کہ ہمارے سامنے کشتی بناٶ، اِس کا معنی یہ ہے کہ پیغمبر کو لکڑی کا کام اتا تھا ناں، اُس میں اُس کو مہارت حاصل تھی، اور ایسی کشتی بنائی کہ پھر پوری دنیا نے اگر تقلید کی ہے تو اسی کی کی ہے، حضرت داود علیہ السلام لوہے کا کام جانتے تھے اور اُن کے لیے لوہا نرم کیا گیا، یہ ایک معجزہ تھا کیوں کہ وہ پیغمبر تھے، زِرہ بناتے تھے، تو اللّٰہ کے پیغمبر ہیں لوہے کا کام جانتے ہیں، حضرت یوسف علیہ السلام ریاضی جانتے تھے، ملک کے خزانے حساب کتاب میرے حوالے کردو، میں یہ حساب کتاب اچھی طرح جانتا ہوں، تو اُن کو حساب کتاب اتا تھا آج ہم اِس کو عصری علوم کہتے ہیں جب کہ یہ پیغمبر کا علم ہے ۔
تم کیا تاثر دنیا کو دے رہے ہو، نوجوان کو کیا پڑھا رہے ہو، انسانيت کے درمیان کیا تفریق ڈال رہے ہو، مشہور مقولہ ہے
” ڈیواٸڈ اینڈ رول “ تقسیم کرو اور حکومت کرو، انگریز کے زمانے سے اُس کے اسٹبلشمنٹ کا مشہور مقولہ ہے کہ نہیں ہے، لیکن قوم کو ملّا نے تقسیم کیا ہے تاثر یہ ہے، ایک تاثر ہے پھیلا رہے ہیں کبھی وہ تاثر تھا کبھی یہ تاثر ہے ۔
ہم پارليمنٹ میں ایک کمیٹی میں بیٹھے تھے تو ہمارے کچھ سیکولر ماٸنڈڈ اور نیشنلسٹ حضرات نے ایک نکتہ اٹھایا کہ آٸین سے مذہب کو نکال دو، جب تک ریاست اور مذہب کا تعلق نہیں ٹوٹے گا ملک سے فساد ختم نہیں ہوگا، یہ ش ی ع ہ، یہ سنی ، یہ دیوبندی ، یہ بریلوی ، یہ وہابی ، یہ فلاں ، یہ سب اِس لیے ہے کہ ہم نے مذہب کو ریاست کا حصہ بنالیا ہے، بڑے طمطراق سے انہوں نے بات کی، تو میں نے اُن سے کہا دیکھیے بات سنے قوم کے درميان نفرتیں، تعصبات، فساد پیدا کرنا، آپ نے تو ایک علّت کی بات کی ہے فرقہ واریت کی، آپ نے ایک سبب بتایا ہے، میرے نزدیک قوم کے اندر تعصبات، نفرتیں، اور دشمنیاں، فسادات اُس کا ایک سبب نہیں ہے، اُس کا سبب لسانیت بھی ہے، علاقاٸیت بھی ہے، قومیت اور برادری بھی ہے، اب ہر ایک کی اپنی قیادت بھی ہے، چنانچہ پہلے ہم مذہبی لوگوں کی بات کرتے ہیں، ملک اور قوم کے لیے جس قانون اور نظام کی ضرورت ہوتی ہے سب سے پہلے پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں جو قرارداد مقاصد پاس ہوٸی تمام مکاتب فکر کی اتفاق راٸے اُس پر تھی اور آج بھی ہے، اُس کے اوپر کوٸی فرقہ وارانہ جنگ نہیں ہے ، سن 1951 میں باٸیس اسلامی نکات آج بھی وہ دستاویز اسی طرح موجود و محفوظ ہیں جس طرح اُس وقت اُس پر اتفاق تھا آج بھی تمام مکاتب فکر کا اُس پر اتفاق ہے، مطلب یہ کہ تمام مکاتب فکر کی جو سیاسی قیادت تھی اول سے لے کر آج تک اُس نے ہیشہ ہم آہنگی کے لیے کام کیا ہے، فرقہ وارانہ فسادات کے لیے کردار ادا نہیں کیا، تعصبات کے لیے کردار ادا نہیں کیا، انہوں نے قوم کو ایک کرنے کی کوشش کی، سن 1973 کا آٸین بنا اُس کے تمام اسلامی دفعات پر تمام مکاتب فکر کا اتفاق ہے، کوٸی جھگڑا کسی نے نہیں کیا، عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے پارليمنٹ کی جو متفقہ ترميم لاٸی گٸی تمام علماٸے کرام نے متفقہ پیش کی، آٸین کے اندر ہمیں چیلنج کیا گیا کہ حضرات علماٸے کرام بڑا تم مذہب مذہب کی بات کرتے ہو تم تو مسلمان کی تعریف اُس پر بھی اکھٹے نہیں ہو، اسی دن چیلنج قبول کیا گیا اور اگلے دن متفقہ طور پر مسلمان کی تعریف پیش کی گٸی، اسلامی نظریاتی کونسل قاٸم کی گٸی تاکہ قرآن و سنت کے منافی قوانين اُس کو تبدیل کرنے کے لیے سفارشات مرتب کیے جاسکیں، آج تک تمام سفارشات کونسل کے اندر بھی تمام مکاتب فکر سب پر متفق ہیں اور کونسل سے باہر بھی سب اُس پر متفق ہیں، اگر ایک دو فیصد کسی قانون سازی پے اختلاف ہو بھی تو اِس طرح کہ چلو اِس طرح فقہ حنفی کے مطابق نہ سہی کسی دوسرے فقہ کے مطابق ہوگا قرآن و سنت کے مطابق تو ہے، تو کسی نے جھگڑا نہیں کیا اور اُس کو قبول کرلیا ۔
میں نے اُن حضرات سے کہا اب آپ مجھے بتائيں کہ یہ ہے دینی قوتوں کے قیادت کا کردار اول دن سے لے کر آج ایم ایم اے تک، اور میں نے کہا یہ جو لسانیت کی جنگیں ہیں، یہ جوقومیت کی جنگیں ہیں، یہ جو علاقاٸیت کی لڑاٸیاں ہیں اِس کی قیادت تو آپ آکابرین فرما رہے ہیں جو میرے سامنے بیٹھے ہیں تو پھر سیاست آپ کی نہیں ہونی چاہیے، ہونی چاہیے تو ہماری ہونی چاہیے، اب بلکل ایک سکوت، خاموشی ماحول پہ چھاگٸی، تو ایک بزرگ نے کہا تمہارے پاس جواب نہیں ہے ایک جملہ تو کہہ دو کہ فضل الرحمن کی بات سے ہمیں اختلاف ہے تاکہ ریکارڈ پر تو کچھ اجاٸے نا اور اسی پر چیٸرمین نے کہا اجلاس ملتوی کیا جاتا ہے ۔
یہ ساری ہماری تاریخ ہے حضرت، ہاں ایک بات ہے اِس بات سے ہم بھی انکار نہیں کرسکتے کہ سوسائٹی کے اندر فرقہ وارانہ عناصر موجود ہیں، یہ اپنی جگہ پر حقیقت ہے لیکن اُن فرقہ وارانہ عناصر کو جس وقت فساد کے لیے تیار کیا جاتا ہے اُس کے پیچھے مختلف مکاتب فکر کی قیادت نہیں ہوا کرتیں اُس کے پیچھے ریاست کا ادارہ ہوا کرتا ہے، حکومت ہوا کرتی ہے اور اُن کی وقتی ضرورتیں ہوا کرتی ہے، جب تک وہ نہ لڑاٸیں یہ نہیں لڑتے ۔
تو اِس اعتبار سے ذرا سب کو سوچنا چاہیے اور پھر اِس کے اندر جمعیت علماء کا کردار، ماشاءاللہ اِس وقت جمعیت علماء اسلام کو پورے پاکستان کی سب سے بڑی سٹریٹ پاور کہا جاتا ہے اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ اگر ہمارے پاس قوت ہے تو اُس کو پاکستان کی فلاح اور مفاد کے لیے استعمال کرے، یہی وجہ ہے کہ عوام کی راٸے کو عوام کے راٸے پہ جانے دے، اُس کے سامنے رکاوٹيں پیدا نہ کی جاٸے، لیکن اگر ایسا ہوگا جس طرح دو ہزار اٹھارہ میں ہوا تو پھر ایسا ہی انجام ہوگا جس طرح رات کو ہوا تھا، تماشہ اور ہے حکومت جب بنتی ہے تب بھی ناچتے ہیں اور جب گرتی ہیں تب بھی ناچتے ہیں، جب بنتی ہے تب بھی کپتان کا وژن ہے جب گرتی ہے تب بھی کپتان کا وژن ہے ۔
یہ ایک بہت بڑا نظریاتی مقابلہ ہے یہ بات ذہن میں رکھیں، بیرونی ایجنڈے سے ہماری جنگ ہے کب ادراک ہوگا اِس کی سمجھ میں نہیں اتی، کب عام آدمی اور پڑھا لکھا اِس کو سمجھے گا، ہمارے ملک کے پڑھے لکھے لوگ اِس وقت جاہل بنے ہوٸے ہیں، خالی خولی باتوں ایک ہواٸی ماحول سے امیدیں وابستہ کرلیتے ہیں، نیے نیے نظریے صرف باہر کے دباؤ سے یہ ہے ہمارا ذہن، جن کی خمیر میں غلامی ہیں آج وہ ہمیں آزادی کا درس دے رہے ہیں، ہم تو اپنی آنکھوں دیکھے حال بتاتے ہیں نا، ہم نے تو کانوں سے سنے ہیں آنکھوں سے دیکھے ہیں، امنے سامنے بیٹھ کر باتیں کی ہے، یہو دی ایجنٹ ہے ہاں جی بلکل ہے آج کل دنیا کی معشیت یہو د کے ہاتھوں میں ہے اُس کے بغیر تو گزارہ نہیں ہوسکتا، اعتراف بھی کرتے ہیں، پیسہ بھی اٸے گا بہت بڑا پیسہ اٸے گا اور مجھے کہتے ہیں مولانا صاحب مسجد میں بھی جاٸے گا، مولوی کے پاس بھی جاٸے گا تو اب تنہا رہ جاٸے گا، تو آج ہم تنہا ہے ؟ پھر آپ کو یاد ہے پچھلی حکومت میں انہوں نے علماء کے لیے اعزازیہ مقرر کیا تھا لیکن میں خراج تحسین پیش کرتا ہوں اِس صوبے کے اُن غریب علماء کو ، آٸمہ کو کہ جنہوں نے متفقہ طور پر اُس کو مسترد کردیا اور جب ہم نے نہیں لیے تو انہوں نے کہا ہمارے پاس تو فنڈ ہی نہیں ہم نہیں دے سکتے ، انگور کھٹے ہیں ۔
ہم نے بین الاقوامی ایجنڈے کا مقابلہ کیا ہے، ہم نے پاکستان کی آزادی اور حریت کی جنگ لڑی ہے اور ہم کسی سے مرعوب بھی نہیں ہوٸے نہ کسی دباؤ میں اٸے ہیں، ہمارے ملک میں بھی دباؤ چلتے ہیں نا، تو آپ مطمئن رہیں، بلکل مطمئن رہیں، میرا نوجوان ہر جگہ مطمئن رہے کہ پاکستان کے اندر اپھرنے والا وہ دباؤ جو سیاستدانوں پر اکر گرتا ہے اللّٰہ نے ہمیں اُس کا مقابلہ کرنے کی ہمت دی (نعرہ تکبیر اللّٰہ اکبر)، لیکن جو سب سے بڑی آپ کے لیے بالخصوص نوجوانوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ نوجوان نسل کو برباد کردیا گیا ، نٸی نسل کو اوارہ کردیا گیا، مادر پدر آزاد معاشرہ بنانے کی کوشش کی گٸی، اور اب نوجوان نہ اپنے بزرگوں کو پہچانتا ہے ، نہ ماں باپ کو جانتا ہے، نہ استاد کو جانتا ہے، نہ کوٸی بات اُن کو معقول لگتی ہے ، آپ اپنی زندگی گزر چکے ہو اب ہمیں نصیحت نہ کرو ہم نے اپنی زندگی خود ہی بنانی ہے، اِس قسم کی سوچ ہمارے معاشرے میں پیدا ہوٸی ہے ۔
تو میں آپ نوجوانوں کو بتانا چاہتا ہوں، یہ بات آپ کے علم میں ہونی چاہیے یہ بات مجھے کہی گٸی ہے بالمشافہ کہی گٸی ہے کہ پشتون بیلٹ میں مذہب کی جڑیں گہری ہیں اور اِن گہری جڑوں کو اکھاڑنے کے لیے ہمارے پاس عمران خان سے مناسب ادمی اور نہیں تھا اسی لیے ہم نے یہ صوبہ اُن کے حوالے کیا ہے ، اب اِس ذہنیت کا مقابلہ کرنا ہے یا نہیں کرنا، اپنے نوجوان تک رسائی کرے، اُن کو کنونس کرے، اُن کے ساتھ گفتگو کرے، اُن کی اصلاح کرے، یہ اب آپ کی ذمہ داری بنتی ہے، آپ نوجوان ہیں اپنےنوجوانوں کو اپنے بھاٸیوں کو اپنے نٸی نسل کو آپ نے واپس اپنے اسلامی، معاشرتی اقدار، آباواجداد وہ جو ہمارے پشتون برادری اور اِس سوساٸٹی کے اقدار ہیں اُن کی طرف واپس لانا ہے ۔
اللّٰہ تعالیٰ ہمیں اِس کی توفیق دے اور ہمیں کامیابیوں سے سرفراز فرمائے، میں ایک بار پھر آپ کا شکر گزار ہوں ۔

وَأٰخِرُدَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔

ضبط تحریر: #سہیل_سہراب
ممبر ٹیم جے یو اٸی سوات
#teamjuiswat


0/Post a Comment/Comments